نظر ثانی
ہم تین پاٹھ کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ یہ کس طرح ہماری روز مرہ زندگی میں آٹھ منزلہ راہ کی مشق کے توسط سے معاون ہو سکتے ہیں۔ یہ تین مشقیں مندرجہ ذیل ہیں:
- اخلاقی ضبط نفس
- ارتکازامتیازی آگہی
ہم درست کلام، عمل، رویہ اور روزگار کا اطلاق اس لئیے کرتے ہیں کہ اخلاقی ضبط نفس پیدا کر سکیں۔ تو اب ہ ارتکاز کی مشق کا جائزہ لے سکتے ہیں، جس میں درست جہد، درست من کی آگہی اور درست توجہ درکار ہے۔
درست جہد سے مراد ضرر رساں خیالات کے تانے بانے سے چھٹکارا اور مراقبے کے لئیے موزوں من کی حالتوں کو استوار کرنا ہے۔
من کی آگہی سے مراد ایسی گوند ہے جس کا کام کسی شے کو پکڑے رکھنا اور ہاتھ سے نہ جانے دینا ہے، تا کہ یہ ہمیں کسی بات کو بھولنے سے روک سکے:
- اپنے شریر کی فطرت، محسوسات، من اور من کے عناصر کو نہ بھولنا، تا کہ وہ ہمیں بھٹکنے سے روکیں
- اپنے اخلاقی اصول و ضوابط اور اگر ہم نے کوئی عہد و پیمان باندھے ہوں، تو ان کو نہ بھولنا
- اپنے نکتۂ ارتکاز کو نہ چھوڑنا یا بھُلانا۔
لہٰذا اگر ہم مراقبہ کر رہے ہیں، تو ہمیں من کی آگہی چاہئیےتا کہ ہم اپنے نکتۂ ارتکاز کو نہ کھو دیں۔ اگر ہم کسی سے گفتگو کر رہے ہیں تو ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے تا کہ ہم اپنے ہمکلام پر اور ان کی گفتار پر توجہ دے سکیں۔
ارتکاز بذات خود نکتۂ ارتکاز پر من کو قائم کرنا ہے۔ لہٰذا جب ہم کسی کی بات سن رہے ہوتے ہیں، تو ہماری توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، کیسے دیکھ رہے ہیں، اور کیا کر رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ من کی آگہی توجہ مرکوز رکھنے میں معاون ہوتی ہے، یہ ایسی من کی گوند ہے جو ہمیں اپنی جگہ پر قائم رکھتی ہے، تا کہ ہم کند ذہنی کا شکار نہ ہوں اور نہ ہی بھٹک جائیں
جہد
یہ آٹھ منزلہ راہ کا پہلا عنصر ہے جسے ہم ارتکاز کے لئیے کام میں لاتے ہیں۔ ہم بھٹکانے والے خیالات اور من کی ایسی حالتیں جو ارتکاز میں مخل ہوں سے جان چھڑانے کی جہد کرتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ مثبت صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عمومی طور پر، اگر ہمیں زندگی میں کچھ پانا ہو تو اس کے لئیے محنت درکار ہوتی ہے۔ ہست نیست سے نہیں آتا، نہ ہی کسی نے اس بات کی ضمانت دی ہے کہ کام آسان ہے۔ لیکن اگر ہم نے اخلاقی ضبط نفس استوار کرتے وقت اپنے فعل، گفتار اور دوسروں سے
معاملہ کرنے میں اپنی کچھ طاقت بڑھائی ہے تو اس سے ہمیں اپنی من کی اور جذبات کی حالتوں پر محنت کرنے کی شکتی ملتی ہے۔
غلط جد و جہد
غلط جہد سے مراد اپنی توانائی کو نقصان دہ اور تباہ کن خیالات میں صرف کرنا ہے، ایسے خیالات جو ہمیں بھٹکاتے ہیں اور اگر ناممکن نہیں تو کم از کم ارتکاز کو مشکل بناتے ہیں۔ ضرر رساں سوچ کے تین پہلو ہو سکتے ہیں:
- حرص پروری
- کینہ پروری
- معاندت معہ شکستہ خیالی۔
حرص پروری
حرص پروری سے مراد دوسروں کی کامیابی یا ان کی خوشی اور مال و دولت پر حسد کرنا ہے۔ آپ سوچتے ہیں، "میں یہ سب کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟"یہ احساس لگاوٹ سے آتا ہے۔ ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کسی اور کے پاس وہ اشیاء ہوں جو ہمارے پاس نہیں ہیں، خواہ وہ کامیابی ہو، کوئی خوبصورت شریک حیات ہو، یا نئی گاڑی – در اصل یہ کوئی بھی شے ہو سکتی ہے۔ ہم ہر وقت اس کے متعلق سوچتے ہیں، یہ من کی نہائت پریشان کن حالت ہے۔ یہ ہمیں بھرپور انداز میں توجہ مرکوز کرنے سے روکتی ہے۔ ہے نا؟
حصولِ کمال اسی زمرے میں آتا ہے – ہم ہر وقت اپنی کار کردگی بڑھانے کے طریقے سوچتے ہیں۔ یہ ایک قسم کی خود حسدیت ہے!
کینہ پروری
کینہ پروری سے مراد کسی کو نقصان پہنچانے کی بابت سوچنا ہے، مثلاً ،" اگر اس شخص نے کوئی ایسی بات کی یا کہی جو مجھے ناپسند ہے، تو میں اس سے بدلہ لوں گا۔" ہم یہ سوچتے ہیں کہ جب ہم اس شخص سے اگلی بار ملیں گے تو ہم کیا کہیں گے یا کیا کریں گے، اور ہم اس امر پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ جب اس شخص نے ہمیں کچھ کہا تھا تو ہم نے اسی وقت اس کا جواب کیوں نہیں دیا۔ ہم اس کے بارے میں اس قدر سوچتے ہیں کہ ہم اسے اپنے سر سے نکال ہی نہیں سکتے۔
معاندت معہ شکستہ خیالی
معاندانہ منتشر خیالات تب آتے ہیں جب کوئی شخص جو اپنے آپ کو بہتر بنانے یا دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہو، اور ہم سوچیں، " یہ پاگل ہے – جو یہ کر رہا ہے بیکار ہے۔ کسی کی مدد کرنے کی کوشش مضحکہ خیز امر ہے۔"
بعض لوگوں کو کھیل پسند نہیں ہوتے اور وہ سوچتے ہیں کہ جو لوگ کھیل پسند کرتے ہیں اور ٹیلیویژن پر فٹ بال دیکھتے ہیں یا کسی ٹیم کا کھیل دیکھنے جاتے ہیں وہ پاگل ہیں۔ حالانکہ کھیلوں میں دلچسپی لینے میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ یوں سوچنا کہ یہ احمقانہ بات ہے یا یہ وقت کا ضیاع ہے یہ من کی نہائت معاندانہ حالت ہے۔
یا، اگر کوئی شخص کسی گداگر کی روپے پیسے سے مدد کرتا ہے، اور آپ سوچتے ہیں،" اوہ، تمہارا یہ فعل نری حماقت ہے۔" اگر ہم مستقل یہ سوچتے رہیں کہ لوگ کتنے احمق ہیں اور ان کی حرکات کتنی غیر عقلی ہیں، تو ہم کبھی بھی اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پائں گے۔ یہ وہ خیالات ہیں جن سے ہمیں جان چھڑانی ہے۔
درست جد وجہد
درست جد و جہد سے مراد اپنی توانائی کو ضرر رساں، تباہ کن خیالات سے موڑ کر سود مند صفات کو استوار کرنے میں خرچ کرنا ہے۔ اس کو ہم پالی زبان میں "چار درست کوششیں" کہتے ہیں۔ سنسکرت اور تبتی ادب میں اسے " درست نجات حاصل کرنے کے چار عناصر" کہتے ہیں – بالفاظ دگر، اپنی کمزوریوں سے نجات کے – نام نہاد "چارخالص تیاگ":
- اولاً ہم ان منفی صفات جنہوں نے ابھی ہمارے اندر جنم نہیں لیا ہے کو استوار ہونے سے روکنے کی جہد کرتے ہیں۔ مثلاً، اگر ہماری شخصیت عادت کے غلام والی ہے تو ہمیں آن لائن فلمیں دکھانے والی پیشکش کی رکنیت قبول کرنے سے پرہیز کرنا ہو گا، جس میں آپ سارا دن لگاتار ایک کے بعد دوسری فلم دیکھتے چلے جائں گے۔ یہ بہت نقصان دہ ہوگا اور اس سے ارتکاز قائم نہیں ہو پاۓ گا۔
- اس کے بعد ہمیں ان منفی صفات جو ہمارے اندر موجود ہیں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ پس اگر ہم کسی چیز کے عادی ہیں تو ہمیں اس کی حد بندی کرنا ہو گی۔ مثلاً، ہم سب بعض ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو اپنے آئی پاڈ کے اس قدر عادی ہوتے ہیں کہ وہ کہیں بھی بغیر موسیقی سنے جا نہیں سکتے۔ ایسے لگتا ہے کہ وہ خاموشی سے ڈرتے ہیں، کسی چیز کے بارے میں سوچنے سے ڈرتے ہیں، تو اس لئیے ان کے لئیے مستقل طور پر موسیقی کا ہونا لازم ہے۔ بےشک گاڑی چلاتے وقت اونچی آواز میں موسیقی آپ کو ہوشیار رکھنے میں معاون ہو سکتی ہے، یا ورزش کے دوران تیز رفتاری میں مدد دے سکتی ہے، اور ہلکی موسیقی کام کے دوران سکوں بخش ہوسکتی ہے، مگر کسی سے بات چیت کے دوران موسیقی توجہ مرکوز کرنے میں یقیناً مخل ہوتی ہے۔ اس سے عدم توجہی کا پیدا ہونا ناگزیر ہے۔
- بعد از آں، ہمیں نئی مثبت صفات کو استوار کرنا ہے۔
۴۔ پھر ہم اپنی ان مثبت عادات کو جو پہلے سے موجود ہیں قائم رکھنے اور فروغ دینے کی جہد کرتے ہیں۔
ان چیزوں پر غور و فکر اور ان کے مفید استعمال کا حصول دلچسپ امر ہے۔ میری اپنی ایک مثال یوں ہے کہ میری اپنی ویب سائٹ کے معاملہ میں ایک بہت بری عادت تھی۔ میرے ہاں اس پر کام کرنے والوں کی تعداد ۱۱۰ کے قریب ہے، جو مجھے ہر وقت اپنے تراجم اور نظر ثانی شدہ ملفوضات کے ہمراہ ای میلیں بھجواتے ہیں – ہر روز مجھے بے شمار ایسے پیغامات آتے ہیں۔ میری بری عادت یہ تھی کہ میں ان سب کو ایک ہی بستے میں ڈاؤن لوڈ کرلیتا، بجاۓ اس کے کہ انہیں الگ الگ بستوں میں بند رکھوں جہاں سے میں اور میرا نائب دونوں آسانی سے انہیں تلاش کر سکیں۔ یہ سچ مچ ایک بری عادت تھی، کیونکہ میرا غیر مستعد انداز ان فائلوں کو ڈھونڈنے میں وقت کے ضیاع کی بدولت ان پر کام کرنے میں رکاوٹ بنا۔ تو یہاں کونسی مثبت خوبی ہو سکتی تھی؟ ایک ایسا نظام قائم کرنا جس کے تحت جونہی کچھ وصول ہوتا وہ درست بستہ میں چلا جاتا۔ اس سے یہ عادت استوار ہوتی ہے کہ ہر چیز کو شروع سے ہی مناسب ٹھکانے لگایا جاۓ، نہ کہ سستی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ چیزوں کو تتر بتر ہونے دیا جاۓ۔
اس مثال میں ہم ایک منفی صفت دیکھتے ہیں، ایک غیر مفید عادت، اور ساتھ ہی ایک مثبت صفت بھی۔ تو ہم منفی صفت سے بچنے اور ایک موزوں فائل کا نظام بنانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ اسے روکا جا سکے۔ تو یہ ہے وہ بات جس کا ہم نہائت سادہ سطح پر ذکر کر رہے ہیں۔
ارتکاز میں حائل پانچ رکاوٹوں پر قابو پانا
درست جد و جہد میں ارتکاز میں حائل پانچ رکاوٹوں پر قابو پانا بھی شامل ہے، جو کہ درج ذیل ہیں:
پانچ من پسند حسی چیزوں کو پانے کا ارادہ
پانچ من پسند حسی لذتوں میں خوبصورت نظارے، صوتی اثرات، خوشبو، لذیذ خوردنی اشیاء اور جسمانی محسوسات شامل ہیں۔ یہ رکاوٹ جس پر ہم قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں اس کا تعلق ایسی صورت حال سے ہے جہاں ہم کسی چیز مثلاً اپنے کام پر توجہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر ہماری توجہ ایسے خیالات جیسے، " میں کوئی فلم دیکھنا چاہتا ہوں" یا " میں فرج کی جانب جانا چاہتا ہوں" سے انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ تو یہاں ہم حسی مسرتوں اور خواہشات مثلاً کچھ کھانے کی تمنا، یا موسیقی سننے کی خواہش، وغیرہ کی بات کر رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کی جہد کرنا ہے کہ جب ایسی تمنائں بیدار ہوں تو ہم ان کا تعاقب نہ کریں تا کہ ہم مرتکز رہیں۔
بد خواہی کے خیالات
اس سے مراد کسی کو نقصان پہنچانے کے متعلق سوچنا ہے۔ اگر ہم ہمیشہ بد خواہی کے انداز میں سوچیں، "اس شخص نے مجھے نقصان پہنچایا، میں اسے پسند نہیں کرتا، میں اس سے کیسے بدلہ لے سکتا ہوں؟" – یہ ارتکاز میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمیں نہ صرف دوسروں کے متعلق بلکہ اپنے لئیے بھی نقصان پہنچانے والے خیالات سے پرہیز کی کوشش کرنی چاہئیے۔
کند ذہنی اور نیند سے مغلوب ذہن
یہ وہ صورت حال ہے جب ہمارا من دھندلا ہوتا ہے، ہم کہیں کھوۓ ہوتے ہیں اور واضح طور پر سوچنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ غنودگی کا مطلب صاف ظاہر ہے یعنی نیند کا غلبہ۔ ہمیں اس پر قابو پانے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کا علاج خواہ آپ کافی سے کریں یا تازہ ہوا سے، ہمیں اس کا شکار ہونے سے بچنے کی کوشش کرنی ہے۔ لیکن اگر توجہ مرکوز کرنا سچ مچ بہت مشکل ہو جاۓ تو ہمیں حدود مقرر کرنی چاہئیں۔ اگر آپ گھر پر کام کر رہے ہیں، "میں ذرا اونگھ لوں یا بیس منٹ کا وقفہ لے لوں۔" اگر آپ دفتر میں ہیں، " میں دس منٹ کے لئیے کافی کا وقفہ لے لیتا ہوں۔" اپنی حدود کا تعیّن کریں اور پھر واپس کام پر لگ جائیں۔
من کی آوارگی اور پچھتاوے
من کی آوارگی تب ہوتی ہے جب ہمارا من فیس بک، یو ٹیوب یا کسی اور شے کی جانب پرواز کر جاۓ۔ پچھتاوے سے مراد من کی احساس جرم کی جانب پرواز ہے،" مجھے اس بات کا شدید افسوس ہے کہ میں نے ایسا کیا۔" ایسی چیزیں بہت بھٹکاتی ہیں اور ہمیں توجہ مرکوز کرنے سے روکتی ہیں۔
تذبذب اور شکوک و شبہات
آخری چیز جس پر ہمیں قابو پانا ہے وہ ہے تذبذب اور شکوک و شبہات۔ " تو میں کیا کروں؟" " میں دوپہر کے کھانے میں کیا کھاؤں؟ شائد مجھے یہ لینا چاہئیے یا وہ؟" قوت فیصلہ کی کمزوری سے بہت سا وقت ضائع ہوتا ہے۔ اگر ہم ہمیشہ شکوک و شبہات اور تذبذب کا شکار ہیں تو ہم توجہ مرتکز نہیں کر پاتے اور یوں کچھ بھی نہیں کر پاتے، لہٰذا ہمیں اس کا حل تلاش کرنے کی جہد کرنی چاہئیے۔
قصہ مختصر، درست جہد سے مراد مندرجہ ذیل کام کرنے کی کوشش ہے:
- پریشان کن اور ضرر رساں خیالات سے پرہیز
- اپنی بری عادتوں اور کمزوریوں سے نجات حاصل کرنا
- اپنی عمدہ صفات کو اجاگر کرنا اور نئی صفات پیدا کرنا
- ارتکاز کی رکاوٹوں کو دور کرنا۔
من کی آگہی
آٹھ منزلہ راہ کا اگلا پہلو جس کا تعلق ارتکاز سے ہے وہ ہے درست من کی آگہی:
- من کی آگہی در اصل من کی گوند ہے۔ جب آپ ارتکاز کی حالت میں ہوتے ہیں، آپ کا من کسی ایک چیز کو پکڑے ہوۓ ہوتاہے۔ یہ پکڑ، یعنی من کی آگہی، آپ کی گرفت کو قائم رکھتی ہے۔
- اس کے ہمراہ ذہنی چوکسی ہوتی ہے جو من کی آوارگی یا غنودگی یا کند ذہنی پر نظر رکھتی ہے۔
- پھر ہم اپنی توجہ کے ذریعہ نکتۂ ارتکاز پر دھیان دیتے ہیں۔
یہاں ہم اس امر پر توجہ دیتے ہیں کہ ہم اپنے بدن، جذبات، من اور من کے مختلف عناصر کو کیسے دھیان میں رکھتے ہیں۔ ہم اپنے جسم اور جذبات سے برتاؤ کے غلط طریقوں کو پکڑے رکھنے سے بچنا چاہتے ہیں، کیونکہ جب ہم ایسا نہیں کرتے تو ہماری توجہ منتشر ہوجاتی ہے اور ہم ارتکاز کے قابل نہیں رہتے۔ تو یہاں ہم باری باری من کی آگہی کی صحیح اور غلط صورتوں کا جائزہ لیں گے۔
اپنے جسم کے بارے میں
جب ہم جسم کا ذکر کرتے ہیں تو ہم واقعی اپنے جسم اور اس سے وابستہ مختلف احساسات اور پہلوؤں کی بات کرتے ہیں۔ جسم کے بارے میں یہ تصور کہ ہمارا جسم فطرتاً لذت پسند، یا صاف اور خوبصورت ہے غلط ہے۔ ہم اس بات پر بےحد وقت ضائع کرتے ہیں اور بھٹکے ہوۓ اور متفکر رہتے ہیں کہ ہم دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں – ہمارے بال اور میک اپ، ہمارا لباس وغیرہ۔ بےشک صاف ستھرا اور معقول حلیے میں ہونا اچھی بات ہے، لیکن جب ہم یوں سوچتے ہیں کہ جسم کی نمائش مسرت کا منبع ہے اور یہ کہ اسے ہمیشہ بےعیب ہونا چاہئیے، تا کہ ہم دوسروں کے لئیے پرکشش ہوں، تو اس سے ہمارے پاس کسی کام کی بات پر دھیان دینے کا کوئی وقت نہیں رہتا۔
آئیے ہم جسم کا حقیقی جائزہ لیں۔ اگر آپ کافی دیر سے بیٹھے ہوں، تو آپ بےآرام ہو جاتے ہیں اور حرکت میں آنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ لیٹے ہوں تو ایک حالت بے آرامی کی ہو جاتی ہے اور پھر دوسری بھی۔ ہم بیمار پڑ جاتے ہیں؛ جسم بڑھاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔ جسم کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ورزش اور اچھی خوراک سے صحتمند رہنا لازم ہے۔ لیکن اس معاملہ میں حد سے زیادہ فکر – یہ تصور کہ ہمارا جسم ہمیشہ کے لئیے مسرت کا منبع ہے – یہ ایک مسٔلہ ہے۔
اس غلط قسم کی من کی آگہی سے ہمیں نجات پانا ہے۔ ہمیں ایسے خیالات مثلاً ہمارے بال سب سے اہم ترین شے ہیں، یا ہمارا رنگوں کا امتزاج ہمیشہ ہی بہترین ہونا چاہئیے، اور یہ کہ اس سے ہمیں مسرت ملے گی، سے جان چھڑانی چاہئیے۔ ہم اس پر اپنی گرفت ڈھیلی کر دیتے ہیں، اور صحیح قسم کی من کی آگہی استوار کرتے ہیں، جو کہ یوں ہے" میرے بال اور میرا لباس در حقیقت مسرت کا منبع نہیں ہیں۔ ان کے متعلق زیادہ سوچنا وقت کا ضیاع ہے اور یوں میں کسی اور اہم بات کے بارے میں سوچنے سے محروم رہتا ہوں۔"
اپنے جذبات کے بارے میں
یہاں ہم مسرت اور عدم مسرت کی بات کر رہے ہیں، جن کا تعلق آزار کے اسباب سے ہے۔ جب ہم ناخوش ہوتے ہیں، ہمیں ایک طرح کی "پیاس" ہوتی ہے – ہم آزار کے اسباب کے خاتمہ کے پیاسے ہوتے ہیں۔ اسی طرح جب آپ کو تھوڑی سی خوشی ملتی ہے تو آپ اور کے پیاسے ہوتے ہیں۔ یہ مسائل کی وجہ ہے۔
جب ہم عدم مسرت کو دنیا کی سب سے مذموم شے گردانتے ہیں، تو اس سے ارتکاز کے معاملہ میں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ وہ کیسے؟ " میں قدرے بےچین ہوں،" یا " میں اچھے مُوڈ میں نہیں ہوں،" یا " میں ناخوش ہوں،" تو، پھر کیا ہوا؟ آپ کو اپنا کام جاری رکھنا چاہئیے۔ اگر آپ سچ مچ اپنے خراب مُوڈ کو دنیا کی سب سے بُری چیز سمجھتے ہیں اور اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے، تو یہ آپ کی توجہ آپ کے کام پر مرکوز کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ ہو گی۔
جب ہم خوش ہوں تو بھی ہمیں بھٹکنا نہیں چاہئیے، یہ سوچ کر کہ ہماری خوشی میں اضافہ ہو اوریہ ہمیشہ قائم رہے۔ ایسا مراقبے کے دوران ہو سکتا ہے جب آپ بہت خوب محسوس کرنے لگیں، اور آپ یہ سوچ کر انتشار کا شکار ہو سکتے ہیں کہ یہ کیسا شاندار احساس ہے۔ یا اگر آپ کسی من پسند شخص کے ساتھ ہیں ، یا کوئی مرغوب شے کھا رہے ہیں، تو غلط قسم کی من کی آگہی ایسی سوچ ہو گی "یہ بہت عمدہ ہے،" اور اس کی وجہ سے بھٹک جانا۔ اس سے مناسب حد تک لطف اندوز ہوں مگر بات کا بتنگڑ نہ بنائیں۔
اپنے من کے بارے میں
ہمارے لئیے ارتکاز مشکل ہو گا اگر ہم اپنے من کو فطرتاً غصیلا، احمق، یا جاہل سمجھیں یہ سوچ کر کہ ہمارے من میں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ ہم اکثر اپنے بارے میں کسر نفسی سے کام لیتے ہیں:" میں یہ نہیں ہوں۔ میں وہ نہیں ہوں۔ میں کچھ نہیں ہوں۔" یا "میں سمجھ نہیں پا رہا،" پیشتر اس کے کہ ہم سمجھنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسے خیالات کے حامل ہوں تو یہ نہائت مایوس کن صورت حال ہے۔ جبکہ درست من کی آگہی کے ساتھ، جس میں ہم یوں سوچتے ہیں،" ہو سکتا ہے کہ وقتی طور پر میں سمجھ نہیں پا رہا، یا وقتی طور پر میں غلط فہمی میں مبتلا ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ میرے من کی فطرت ہے،" اس سے ہمیں ارتکاز قائم کرنے میں اعتماد ملتا ہے۔
ہمارے من کے عناصر کے بارے میں
چوتھے پہلو کا تعلق من کے عناصر جیسے ذہانت، رحمدلی، صبر وغیرہ سے ہے۔ من کی غلط آگہی یہ سوچ ہے کہ یہ عناصر اٹل ہیں اور یہ کہ " میں تو ایسا ہی ہوں اور لوگوں کو مجھے ایسے ہی قبول کرنا ہو گا۔ میں انہیں بدلنے یا پروان چڑھانے کے لئیے کچھ نہیں کر سکتا۔" درست من کی آگہی کا مطلب یہ جاننا ہے کہ یہ تمام عناصر کسی ایک سطح پر منجمد نہیں ہیں، بلکہ انہیں ارتکاز کو بڑھانے کی خاطر پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔
اپنے آپ کو قابو میں رکھنا
یہ عجب بات ہے کہ جب ہم اپنے خراب مُوڈ میں ہونے یا احساس جرم میں مبتلا ہونے کی حالت کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم اس موڈ کو پکڑے رکھتے ہیں اور اس سے چمٹے رہتے ہیں۔ یا جرم کے معاملہ میں، ہم اپنی غلطی کے احساس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہم انسان ہیں اور ہم سب غلطی کرتے ہیں۔ غلط من کی آگہی یہ ہے کہ جب ہم اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے، اور اپنے آپ کو اس بات کی سزا دیتے ہیں کہ ہم کتنے برے ہیں۔ صحیح من کی آگہی یہ جانکاری ہے کہ موڈ بدلتے رہتے ہیں، کیونکہ وہ اسباب اور حالات سے جنم لیتے ہیں جو بذات خود ہر دم تغیّر پذیر ہیں؛ کچھ بھی ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔
بدھ مت کی تعلیمات میں ایک نہائت مفید اُپدیش جو ہمیں ملتا ہے وہ "اپنے اوپر قابو پانا" ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے صبح اٹھنا، جب آپ بستر میں لیٹے ہیں اور اٹھنا نہیں چاہتے کیونکہ بستر نہائت آرام دہ ہے اور آپ پر بھی غنودگی طاری ہے۔ پر آپ ہمت کر کے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ہیں نا؟ ہم ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں، وگرنہ تو آدھے لوگ کبھی صبح اٹھیں ہی نہیں! تو ہمارا موڈ خراب ہونا یا ذرا افسردہ ہونا ایسا ہی ہے۔ ہم اپنے آپ پر قابو پاتے ہیں – "ہمت کرو، اور بس کر گزرو!" – اس سے ہار ماننے کی بجاۓ جو کرنا ہے اس پر لگ جاؤ۔
من کی آگہی کے دوسرے پہلو
عمومی طور پر، من کی آگہی نہائت اہم ہے۔ یہ ہمیں چیزوں کو بھولنے سے بچاتی ہے۔ اگر ہم نے کوئی کام کرنے ہیں تو یہ ہمیں ان پر توجہ دینے میں مدد کرتی ہے۔ من کی آگہی کا یاد دہانی سے تعلق ہے، تا کہ آپ کو یاد رہے کہ آج رات آپ کا من پسند ٹیلیویژن پروگرام آنے والا ہے۔ مگر یہ کسی غیر ضروری چیز پر توجہ دینے والی بات ہے، جو آپ کی توجہ اہم معاملات سے پھیر دیتی ہے۔
اگر ہم کسی قسم کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، تو اس پر توجہ قائم رکھنے کی درست من کی آگہی موجود ہے۔ اگر ہم ورزش کرتے ہیں تو ہمیں روزانہ باقاعدگی سے ورزش کرنی چاہئیے۔ اگر ہم کھانے پینے میں احتیاط برت رہے ہیں تو ہمیں من کی آگہی کے پیش نظر کیک کے اس ٹکڑے سے پرہیز کرنا ہو گا جس کی ہمیں پیشکش کی گئی ہے۔
من کی آگہی سے مراد اپنے زیرِ دست کام پر توجہ قائم رکھنا ہے، اور ذیلی، ضمنی چیزوں کی بدولت بھٹک جانے سے گریز کرنا ہے۔
من کی آگہی کو خاندان والوں کی موجودگی میں قائم رکھنا
بہت سے لوگوں کے لئیے اپنے گھر والوں کی موجودگی میں، بہ نسبت اس کے کہ جب وہ دوستوں اور اجنی لوگوں کی محفل میں ہوں، اپنے اخلاقی ضبط نفس کو قائم رکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اگر ہم اس کا شکار ہیں تو عمومی نصیحت یہ ہو گی کہ شروع سے ہی مضبوط ارادہ باندھا جاۓ۔ اگر آپ اپنے رشتہ داروں سے ملنے والے ہیں، تو آپ یہ نیت باندھ سکتے ہیں،" میں اپنے غصے پر قابو رکھوں گا۔ میں یہ بات یاد رکھوں گا کہ وہ مجھ پر بہت مہربان رہے ہیں۔ وہ میرے عزیز ہیں، اور میرے برتاؤ کا ان پر بہت اثر ہو گا۔" شروع میں ہی ایسا کرنا نہائت ضروری ہے۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ وہ بھی انسان ہیں۔ ہمیں انہیں محض ان کے ہمارے ساتھ رشتہ کے آئینے میں ہی نہیں دیکھنا چاہئیے جیسے ماں، باپ، بہن، بھائی یا جو کوئی بھی آپ کا ان سے رشتہ ہے۔ اگر ہم انہیں محض ان کے کردار کے آئینے میں اتاریں، تو پھر ان کے ہر فعل پر ہمارا ردِ عمل ان سے قائم رشتہ خواہ وہ ماں کا ہو یا باپ کا، اس رشتے کی نسبت ہمارے تمام تصورات، سارا ماضی، ہماری توقعات اور مایوسیاں جو ہمیں ان سے ملیں، کے مطابق ہو گا۔ ان سے معاملہ کرنے میں ہمیں اسے ایک انسان کے دوسرے انسان سے تعلق کے طور پر دیکھنا چاہئیے۔ اگر وہ اسے نہ سمجھیں اور ہم سے بچوں جیسا سلوک کریں، تو ہمیں ایسا بچوں والا رویہ اختیار کرنے کے جال میں نہیں پھنسنا چاہئیے۔ ہم یہ بات یاد رکھتے ہیں کہ وہ ایک انسان ہیں اور ہم یہ کھیل نہیں کھیلتے؛ کیونکہ ٹینگو ناچ کے لئیے دو لوگ درکار ہوتے ہیں۔
میری بڑی بہن حال ہی میں مجھ سے ملنے کے لئیے آئی اور وہ ایک ہفتہ ٹھہری۔ وہ رات کو کافی جلدی سو جاتی اور، جیسے کہ وہ میری ماں ہو، کہتی "فوراً سو جاؤ۔" تو اگر میرا رد عمل ایک بچے جیسا ہوتا اور میں کہتا،" نہیں، ابھی بہت سویر ہے، میں ابھی سونا نہیں چاہتا، میں جاگتے رہنا چاہتا ہوں، تم مجھے کیوں سونے پر مجبور کر رہی ہو؟" تو اس سے وہی کھیل شروع ہو جاتا۔ اور ہم دونوں غصے میں آ جاتے۔ تو مجھے اپنے آپ کو اس بات کی یاد دہانی کرانا پڑی کہ وہ مجھے یہ نصیحت اس لئیے کر رہی تھی کیونکہ وہ میرا خیال کرتی ہے، اس لئیے نہیں کہ وہ مجھے ناراض کرنا چاہتی ہے۔ اس کا خیال ہے کہ میرے لئیے جلدی سو جانا اچھی بات ہے۔ پس محض اپنی راۓ کا اظہار کرنے کے ہمیں حالات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنا چاہئیے۔
پس جب ہم اپنے خاندان کے لوگوں سے ملیں، تو ہمیں نیت کو ذہن میں رکھنا چاہئیے، جس کا مطلب ہے:
- ہمارا ہدف: میرا مقصد اپنے گھر والوں سے ایک خوشگوار ملاقات ہے، جن سے میں انس رکھتا ہوں، اور جو مجھ سے انس رکھتے ہیں۔
- اور اس کے ہمراہ یہ جذبہ: بطور انسان کے اپنے خاندان کا خیال رکھنا۔
اس کو دیکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کو ایک خوفناک معاملہ سمجھنے کے بجاۓ، ہم اسے ایک چیلنج اور بھلائی کا احسن موقع گردانیں:" کیا میں غصہ کا اظہار کئیے بغیر اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھا سکتا ہوں؟"
اور جب آپ کے خاندان والے آپ کو پریشان کرنا شروع کریں، جیسا کہ والدین اکثر کرتے ہیں، تم شادی کیوں نہیں کر لیتے؟ تم کوئی بہتر ملازمت کیوں نہیں ڈھونڈھ لیتے؟ تمہارے ابھی تک کوئی بچے کیوں نہیں ہیں؟" (سب سے پہلی بات جو میری بہن نے مجھے دیکھتے ہی کہی وہ یہ تھی " تمہارے بال کٹوانےوالے ہیں!") تب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ وہ ایسی باتیں اس لئیے کہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارا خیال کرتے ہیں، اور ہم محض یہ کہہ سکتے ہیں،" تمہارے فکر مند ہونے کا شکریہ!"
ہمیں ان کے ماضی کو بھی مد نظر رکھنا چاہئیے، جیسا کہ ان کے کئی دوست پوچھیں گے،" تو آجکل آپ کا بیٹا کیا کر رہا ہے؟ آپ کی بیٹی کیا کر رہی ہے؟" اور وہ اپنے دوستوں سے محفل میں بات چیت کریں گے۔ وہ آپ سے آپ کے ابھی تک کنوارے رہنے کے بارے میں کسی بری نیت سے نہیں پوچھ رہے، بلکہ اس لئیے کہ وہ آپ کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس میں پہلا قدم اس امر کو ماننا ہے، اور ان کی فکر مندی کی قدر کرنا ہے۔ اور اگر آپ چاہیں تو آپ آرام سے انہیں اس امر کی وضاحت پیش کر سکتے ہیں کہ آپ نے ابھی تک کیوں شادی نہیں کی!
من کی آگہی سے، بعض اوقات ہم ایسی چیزوں سے چمٹے رہتے ہیں جو بالکل فائدہ مند نہیں ہیں۔ یہ پرانے واقعات بھی ہو سکتے ہیں، جیسے " تم نے آج سے دس سال پہلے یہ کام کیوں کیا؟" یا " تم نے فلاں بات تیس برس قبل کہی۔" ہم اس کو پکڑے رکھتے ہیں اور کسی کو موقع نہیں دیتے، اس سے ہم ان کی موجودہ حالت پر توجہ مرکوز کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ ہم اس پہلے سے قائم شدہ تصور پر قائم رہتے ہیں کہ "میرے والدین آ رہے ہیں، یہ بڑا ہولناک ہو گا،" تو یہاں ہم نے پہلے سے طے کر رکھا ہے کہ یہ تجربہ خوفناک ہو گا۔ اس بنا پر کھانے سے پیشتر ہی ہم شدید تناؤ کا شکار ہیں! پس ہم صحیح من کی آگہی سے اسے مکمل طور پر بدل دیتے ہیں، یہ خیال کرتے ہوۓ کہ یہ جاننے کا کہ وہ کیسے ہیں، اور بغیر کسی پہلے سے طے شدہ راۓ کے، موقع محل کی مناسبت سے بات کا جواب دینے کا یہ ایک عمدہ موقع ہے۔
من کی آگہی قائم رکھنے کا اُپدیش
مشکل حالات میں ہم کیسے اپنے من کی آگہی کو قائم رکھیں؟ ہمیں درج ذیل صفات استوار کرنے کی ضرورت ہے:
- نیت – بُھلا نہ دینے کا پکا ارادہ
- واقفیت – کسی طریق کا بار بار اعادہ تا کہ یہ ہمیں خود بخود ہی یاد رہے
- ہوشمندی – خبرداری کا وہ نظام جو ہمارے من کی آگہی کھونے پر اس کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس سب کا تعلق شفقت اور ہمدردی کے رویہ سے ہے، جہاں آپ اپنے رویہ کے اثرات، اپنے اوپر اور دوسروں کے اوپر، کی فکر کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنے رویہ کے متعلق لا تعلق ہوں، تو اس سے ضبط نفس کی عدم موجودگی کی بدولت من کی آگہی قائم نہیں رہ سکے گی۔ ہم کیوں اس کی پرواہ کریں؟ کیونکہ آپ ایک انسان ہیں۔ آپ کے ماں باپ انسان ہیں۔ اور ہم سب مسرت کے خواہاں ہیں۔ کوئی بھی ناخوش نہیں ہونا چاہتا۔ ہمارے رویہ اور گفتار کا دوسروں پر اثر ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں اپنے فعل پر نظر رکھنی چاہئیے۔
ہمیں اپنا اور اپنے محرکات کا جائزہ لینا چاہئیے۔ اگر ہم محض اس لئیے اچھائی کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ ہمیں پسند کریں تو یہ قدرے بچگانہ بات ہے۔ یہ ذرا احمقانہ بات ہے۔ ہوشیار رہنے اور من کی آگہی قائم رکھنے کی بہترین تحریک یہ ہے کہ ہم ہمدردی کے جذبہ کے تحت دوسروں کی فکر کرتے ہیں۔
ارتکاز
آٹھ منزلہ راہ کا تیسرا پہلو جس کا ہم ارتکاز پر اطلاق کرتے ہیں وہ ہے درست ارتکاز (یعنی ارتکاز بذات خود)۔ ارتکاز سے مراد من کو کسی چیز پر بٹھانا ہے۔ جب ہم اپنی توجہ قائم کرنے کی شے کا تعیّن کر لیں، تو من کی آگہی اسے اس شے پر قائم رکھتی ہے تا کہ ہم اسے کھو نہ دیں۔ لیکن ارتکاز کا مقصد اولاً اس شے کو قابو میں لانا ہے جس پر ہم ارتکاز کے خواہاں ہیں.
ہم توجہ کے توسط سے ارتکاز قائم کرتے ہیں۔ ماضی کے مقابلہ میں آجکل ہماری توجہ زیادہ بٹتی جا رہی ہے، اس لئیے ہم کبھی بھی کسی چیز پر پوری طرح مرتکز نہیں ہوتے۔ جب آپ ٹی وی پر خبریں دیکھتے ہیں تو سکرین کے درمیان میں کوئی شخص آج کی خبریں دے رہا ہوتا ہے، پھر اس کے نیچے ایک پٹی چل رہی ہوتی ہے جس پر کچھ دوسری خبریں آ رہی ہوتی ہیں، اور پھر کونوں میں کچھ اور مواد ہو سکتا ہے۔ ہم ان میں سے کسی ایک پر بھی پوری توجہ نہیں دے سکتے۔ اگر ہم اپنے آپ کو کثیرالکار کا اہل سمجھیں تو یہ ناممکن ہے – ماسواۓ اس کے کہ آپ مہاتما بدھ ہوں – کہ آپ ہر کام پر بیک وقت ۱۰۰٪ توجہ دے سکیں۔
بعض اوقات جب ہم کسی کے ساتھ ہوتے ہیں اور وہ ہم سے ہمکلام ہوں، ہمارے من کی توجہ ہمارے سیل فون پر ہوتی ہے۔ یہ توجہ کا غلط استعمال ہے کیونکہ وہ ہم سے مخاطب ہیں اور ہم ان کی بات پر توجہ نہیں دے رہے۔ اگر ہماری توجہ کسی چیز پر ہو بھی، تو اسے دیر تک قائم رکھنا مشکل کام ہے۔ آج کے دور میں ہم تیز تر تغیّر اور یکے بعد دیگرے چیزوں کو دیکھنے کے اس درجہ عادی ہو چکے ہیں کہ ہم بہت جلد اُکتا جاتے ہیں۔ اس قسم کا ارتکاز – چند لمحے اس پر، چند لمحے اُس پر – یہ ایک رکاوٹ ہے۔ یہ غلط قسم کی توجہ ہے۔ درست ارتکاز سے مراد کسی چیز پر توجہ دینا ہے اُتنے عرصہ کے لئیے جتنی ضرورت ہے، بغیر اکتاہت کے اور پھر آگے بڑھنا کیونکہ اب ہمیں اس میں دلچسپی نہیں رہی۔
ایک سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہم تفریح طبع چاہتے ہیں۔ یہ من کی غلط آگہی ہے، یہ سوچ کہ عارضی مسرت ہمیں مزید پیاسا بنانے کے سیر کر دے گی۔ معاشرتی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس کچھ کرنے اور دیکھنے کے جتنے زیادہ مواقع ہوں – اور انٹرنیٹ پر یہ سب مہیّا ہے، لا انتہا مواقع – ہم اتنے ہی زیادہ اکتاہٹ اور تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ جب آپ کچھ دیکھ رہے ہوں تو آپ کو یہ خیال آتا ہے کہ شائد اس سے بھی زیادہ پر لطف کوئی اور چیز ہوگی اور آپ کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ آپ اس سے محروم رہ جائں گے۔ اس طرح آپ بھٹکتے پھرتے ہیں اور کسی چیز پر بھی توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔ مانا کہ یہ مشکل کام ہے، مگر یہ احسن ہے کہ آپ اپنی زندگی کو سادہ بنائں، تا کہ بیک وقت بہت سارے جھنجھٹ نہ ہوں۔ جوں جوں آپ کا ارتکاز بڑھے گا، توں توں آپ کی کام سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھے گی۔
اگر آپ کی توجہ مضبوط ہے تو آپ بغیر بھٹکے پہلے اس پر توجہ دے سکتے ہیں پھر اُس پر، ایک ڈاکٹر کی مانند جسے ایک وقت میں ایک مریض پر پوری توجہ دینا ہوتی ہے بغیر پچھلے یا اگلے مریض کے بارے میں سوچنے کے۔ اگرچہ کوئی بھی ڈاکٹر ایک دن میں کئی مریضوں کو دیکھ سکتا ہے، مگر وہ ایک وقت میں صرف ایک چیز پر ہی توجہ دیتے ہیں۔ یہ ارتکاز کے لئیے بہترین طریقہ ہے۔
تاہم، یہ خاصا مشکل کام ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے، میں دن میں مختلف ویب سائٹوں پر مختلف زبانوں کے متعلق بے شمار مختلف قسم کے کام کرتا ہوں۔ کسی ایک چیز پر مرتکز رہنا بہت مشکل ہے۔ بیک وقت کئی ایک چیزیں چلی آ رہی ہوتی ہیں۔ جو کوئی کسی لمبے چوڑے کاروبار کو سنبھالتا ہے وہ ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ مگر توجہ کو درجہ بہ درجہ استوار کیا جا سکتا ہے۔
خلاصہ
ارتکاز میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے کئی ایک طریقے ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ کام کے وقت سیل فون کو بند کر دیں، یا اپنی ای میل دیکھنے کے، دن میں صرف ایک دو بار، اوقات مقرر کر لیں تا کہ ہم اپنے ضروری کام پر پوری توجہ دے سکیں۔ یہ کسی ڈاکٹر یا پروفیسر کے دفتری اوقات کی مانند ہے؛ جہاں آپ ہر وقت نہیں جا سکتے، ان کے ملاقات کے اوقات متعیّن ہیں۔ ہمیں بھی اپنے ساتھ ایسے ہی کرنا چاہئیے، اس سے ارتکاز پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
معاشرتی ترقی کا مطالعہ دلچسپ امر ہے۔ پچھلے وقتوں میں، سب سے بڑی رکاوٹ ہماری اپنی من کی حالتیں ہوتی تھیں – من کی آوارگی، تصورات کی دنیا میں گمشدگی وغیرہ۔ اب اس میں بہت اضافہ ہو گیا ہے، اور اس میں بیشتر خارجی عناصر ہیں جیسے سیل فون، فیس بک اور ای میل۔ اس سب کے اثر تلے آنے سے بچنے کے لئِے محنت درکار ہے، اور اس کی خاطر ان ذرائع ابلاغ کے ضرر رساں پہلوؤں کی پہچان ضروری ہے۔ سب سے عیاں پہلو جس کا اکثر لوگوں کو تجربہ ہوا ہو گا وہ یہ ہے کہ توجہ کا دورانیہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ ٹوِٹر کی علامتوں کی تعداد محدود ہے اور فیس بک کا مواد مستقل تازہ بہ تازہ کیا جا رہا ہے۔ اس کی رفتار اس قدر تیز ہے کہ اس سے ایک بری عادت جنم لے رہی ہے جو کہ ارتکاز کے لئیے نہائت مضر ہے کیونکہ آپ اپنی توجہ کسی چیز پر بھی قائم نہیں رکھ سکتے۔ اس سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔