ہندوستانی برصغیر میں غوری مہمات

شمالی ہندوستان کے آرپار ابتدائی فوجی پیش قدمی

۱۱۴۸ء میں علاؤ الدین نے افغانستان کے پہاڑوں میں رہنے والے خانہ بدوش قزلباش ترکوں کے قبیلے سے شمالی ایران کے علاقے غور کو فتح کرلیا، غوری سلطنت (۱۱۴۸۔۱۲۱۵ء) کا نام اسی ”غور” سے ماخوذ ہے۔ اس نے قاراخیتائیوں سے باختر کو حاصل کرنے کے لیے آگے کی راہ لی اور ۱۱۶۱ء میں غزنویوں سے غزنہ اور کابل اپنے قبضے میں کرلیے۔ ثانی الذکر کو اپنا دار السلطنت پنجابی شہر لاہور میں منتقل کرنے پر مجبور ہونا پڑا، جہاں ابھی تک ایک ہندو اکثریت موجود تھی۔ ۱۱۷۳ء غوری شاہی سلسلے کے بانی نے اپنے بھائی معز الدین محمد (محمد غوری، دور۱۱۷۳۔۱۲۰۶ء) کو غزنہ کا گورنر مقرر کیا اور ہندوستانی برصغیر پر حملے کرنے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کی۔

تیسواں نقشہ: غوریفتوحات کےوقت ہندوستانی برصغیر،بارویں صدی کےاختتام پر
تیسواں نقشہ: غوریفتوحات کےوقت ہندوستانی برصغیر،بارویں صدی کےاختتام پر

اپنے پیش رو محمود غزنوی کی طرح، محمد غوری نے پہلے ۱۱۷۸ء میں شمالی سندھ میں واقع ملتان کی اسمٰعیلی مملکت پر فتح حاصل کی جس نے غزنوی اقتدار سے دوبارہ آزادی حاصل کرلی تھی۔ اسمٰعیلیوں کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا کہ وہ نذاریوں کو پناہ دے رہے ہیں، یا ایسی ہی اقسام کی الف سعادت (مسیح کی ہزار سالہ حکومت قائم کرنے کی تیاری)، اور (دوسری) دہشت گردانہ تحریکوں میں (خفیہ طور پر) لگے ہوئے ہیں۔ پھر ایک مقامی ہندو حکمراں سے اتحاد قائم کرکےغوری قائد نے ۱۱۸۶ء میں لاہور کی فتح کے ساتھ غزنوی خاندان کو اکھاڑ پھینکا۔ بعد ازاں، پورے پنجاب پر قابو حاصل کرتے ہوئے، وہ اپنے دباؤ میں اضافہ کرتا رہا اور ۱۱۹۳ء میں دہلی کو بھی فتح کرلیا۔ اس کے بعد غوری دستے شمالی ہندوستان کے گنگائی میدانوں کو مسخر کرتے گئے۔ محمد (غوری) ۱۱۹۴ء میں فاصلوں کو عبور کرتا ہوا خود بنارس جا پہنچا اور اسے فتح کرلیا۔ اس نے اپنے کپتانوں میں سے ایک کپتان بختیار خلجی کو اختیار الدین محمد کے ساتھ روانہ کیا تاکہ مشرق کی سمت میں مزید حملہ کیا جائے۔

واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی برصغیر میں غوری مہم بے دینوں کو مسلمان کرنے کے لیے لڑی جانے والی کوئی مذہبی جنگ نہیں تھی بلکہ بنیادی طور پر اس پیش قدمی کا مقصد علاقہ فتح کرنا تھا، وہ چاہے مسلمانوں کا ہو یا غیرمسلموں کا۔ ہر چند کہ ملتان کی اسمٰعیلی مملکت کے خلاف فوجی کارروائی کو ایک جہاد کا نام دیا جاسکتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ غوریوں نے اپنی فوجوں کو یکجا کرنے کے لیے مذہبی جنگ کے تصور کا استعمال کیا ہو، مگر اس مسلمان قائد کے جوش و خروش کو غالباً بے دینوں کو مسلمان بنانے کے جذبے نے نہیں بلکہ مال غنیمت اور اقتدار کے امکان نے تحریک دی ہوگی۔

بہار اور بنگال کی فتح

بہار اور بنگال کی پال سلطنت، جس کے زیراقتدار شمالی ہندوستان کی زیادہ تر خانقاہی یونیورسٹیاں تعمیر کی گئیں، رفتہ رفتہ اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پہلے تو متھلا میں کرناٹا خاندان (۱۰۹۷۔۱۳۲۴ء) ٹوٹ کر الگ ہوا جو دریائے گنگا کے شمال میں بہار کے علاقے اور جنوبی نیپال کے ترائی علاقے کا احاطہ کرتا تھا۔ بارہویں صدی عیسوی کے اوآخر میں سیناؤں نے اپنے آپ کو بنگال اور مگدھ میں نیز گنگا کے جنوب کی طرف، بہار کے ایک حصے میں قائم کرلیا۔ ہر چند کہ متھلا کے حکمراں شیوائی ہندو تھے، انہوں نے بدھ مت کی پال (خاندان کی) سرپرستی جاری رکھی اور غوریوں کے خلاف نہایت سخت مزاحمت کی۔ مثال کے طور پر ۱۲۰۶ء انہوں نے تبت پر قبضے کی کوشش کو ناکام بنایا۔ سینائیں طاقت میں کمزور اور زیادہ انوکھے طریقے سے ہندومت کے تئیں عقیدت کا جذبہ رکھتی تھیں۔

غوریوں نے مشرق کی طرف اپنی پیش قدمی میں متھلا سے صرف نظر کیا، اور اپنے حملے مگدھ اور بنگال پر مرکوز کردیے۔ سینا کے راجہ نے اودنت پوری اور وکرم شلا کی خانقاہوں میں، دفاعی فوجی دستے مامور کردیے جو غوریوں کی پیش قدمی کے سیدھے رخ پر، براہ راست طریقے سے ایک فصیل بند حصار یا جائے پناہ مسلط کر رہے تھے۔ ان پر فوجی قلعوں کا گمان کرتے ہوئے، غوریوں نے ۱۱۹۹ء اور ۱۲۰۰ء کے درمیان انہیں پوری طرح زمیں بوس کر دیا۔ دراصل، اودانت پوری کا محل وقوع فوجی لحاظ سے بہت اہم تھا، اس لیے، غوری فوجی گورنروں نے موجودہ دور کے بہار شریف کے قریب اس علاقے کے انتظامی صدر دفاتر، اسی (اودانت پوری) کے سابقہ مقام پر قائم کر دیئے۔

شمالی ہندوستان پر قبضہ

۱۲۰۶ء میں محمد غوری کو ہلاک کردیا گیا اور اس طرح شمالی ہندوستان کے طول وعرض سے غوریوں کی پیش قدمیوں کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ کوئی واضح جانشین نہ ہونے کی وجہ سے، مفتوحہ صوبوں پر گرفت قائم کرنے کے لیے، اس کے کپتانوں میں اب باہمی نبرد آزمائی شروع ہوگئی۔ ان میں سے ایک نے بالآخر دوسروں پر سبقت پائی، لاہور میں بطور سلطان اس نے حکومت کی باگ ڈورسنبھالی، مگر کچھ ہی عرصے بعد ۱۲۱۰ء میں وہ چل بسا۔ بعد ازاں، اس کے آزاد کردہ غلام، التتمش (دور:۱۲۱۰۔۱۲۳۷ء) نے حکومت کی کمان اپنے ہاتھ میں لی اور دارالسلطنت دہلی منتقل کردیا، جس کے ساتھ غلام خاندان کی سلطنت (۱۲۱۰۔۱۳۲۵ء) کے طور پرمعروف سلسلے کی شروعات ہوئی۔

شمالی ہندوستان کی تسخیرمیں غوریوں کو جو کامیابی ملی اس کا سبب صرف ان کی برتر طاقت اور حکمت عملی نہیں تھی بلکہ لاتعداد مقامی ہندو راجپوت حکمرانوں کی باہمی چپقلش اور مسلسل رقابت بھی اس کے لیے ذمہ دار تھی۔ ہرچند کہ ثانی الذکرغوریوں کے غلبے کو روکنے کے لیے ایک متحدہ محاذ قائم کرنے میں ناکام رہے تھے، مگر وہ اتنے مضبوط ضرور تھے کہ جس وقت بدیسی فوجی دستے پیش قدمی اختیار کریں وہ جنگلوں اور پہاڑیوں سے نکل کر سامنے آجائیں۔ غوریوں اور ان کے جانشینوں کو بعد میں صرف معمولی انتظامی مناصب کے قیام کا موقع مل سکا، اور وہ بھی محض بڑے شہروں میں جہاں ان کا خاص کام محصولات کی حصولیابی تھا۔ بہرحال، ان کے اقتدار نے معاشی خوش حالی کا ایک دور دیکھا اور (اپنے طور پر) مستحکم رہے۔

غوریوں کے باعث بدھ مت کے نقصانات کا تخمینہ

ہر چند کہ غوریوں نے اودنت پوری اور وکرم شلا کی خانقاہوں کو لوٹ کر پوری طرح مسمار کردیا تھا، انہوں نے مملکت میں ہر بودھی ادارے کو برباد نہیں کیا۔ مثال کے طور پر نلندا کی خانقاہی یونیورسٹی، جو شمالی ہندوستان میں اپنی قسم کی سب سے بڑی یونیورسٹی تھی، گو کہ مگدھ میں واقع تھی، غوریوں کی پیش قدمی کے راستے میں نہیں آئی۔ جب تبتی مترجم چاگ لوتساوا دھرم سوامن (چاگ۔ لو۔ تسا۔ با، ۱۱۹۷۔۱۲۷۶ء) ۱۲۳۵ء میں ہندوستان کے دورے پر آیا تو اس نے اسے برباد، لٹا ہوا اور بڑی حد تک ویران پایا، مگر ابھی بھی یہ قائم اور ستر طالب علموں کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ غوریوں کے لیے اسے مکمل طور پر تباہ کرنا ایک علیحدہ مہم کا متقاضی ہوتا، اور یہ بظاہران کا خاص مقصد نہیں تھا۔

اس تبتی نے یہ بھی دیکھا کہ وجراسن (آج کے بدھ گیا) میں واقع سری لنکا کی مہا بودھی یونیورسٹی، جو نلندا سے بہت دور نہیں، وہاں ابھی تک سری لنکا کے رہنے والے تین سو بھکشو موجود ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں بدھ کوعرفان ملا اور بودھی دنیا میں اس کی حیثیت مقدس ترین زیارت گاہ کی ہے۔ اس کےعلاوہ، یہ بات واضح نہیں ہے کہ بنگال میں سب سے بڑی خانقاہی یونیورسٹی سوم پور جس کا محل وقوع موجودہ زمانے کا شمالی بنگلہ دیش ہے، اس وقت کیا چھوڑ دی گئی تھی؟ بہر حال، تبتی مترجم نے شمال مغربی بنگال میں جگدّالہ کو اس وقت تک بھکشوؤں سے بھرا ہوا اور ابھی بھی پھلتا پھولتا پایا۔

لہٰذا، غوریوں کا بودھی خانقاہوں کو برباد کرنا، صرف انہی پر مرکوز تھا جو براہ راست ان کی پیش قدمی کے راستے میں پڑتی تھیں اور جنہیں دفاعی قلعوں کے انداز میں محفوظ اور مضبوط کیا گیا تھا۔ مزید برآں، غوریوں نے جن علاقوں کو فتح کرلیا تھا وہاں اپنے فوجی کماں داروں کو گورنروں کی حیثیت مامور کیا اور انہیں زبردست خود مختاری دیتے ہوئے، حق المحنت یا معاوضے کے طور پر بنوعباس کے نظام ”اقطاع” کا استعمال کیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ان فوجی گورنروں کوغوری سلطان انہی کے جمع کردہ محاصل، ان کی اعلی خدمات (حمایت) کےعوض کے طور پر، مرکزی ریاست کی طرف سے منظور کردیتا تھا۔ چنانچہ یہ بات ان فوجی سرداروں کے ذاتی مفاد کے خلاف ہوتی اگر یہ اپنی عاقبت اندیشی کے تحت وہ سب کچھ تباہ کر دیتے جو ان کے سامنے آتا تھا۔ یہ لوگ بنوامیہ، بنوعباس اور غزنویوں کے آزمودہ اسالیب فتح کی تقلید کرتے تھے، یعنی کہ اپنی مہمات اور حملوں کے اولین مرحلے میں بڑی اور اہم عمارتوں کو لوٹنے اور انہیں شدید نقصان پہنچانے کے بعد، جب یہ اقتدار میں آجاتے تھے تو غیر مسلم رعیت کو حفاظت یافتہ (محفوظ) حیثیت دینا منظور کرلیتے تھے اور ان سے ایک عام محصول (جزیہ) کی وصولی شروع کردیتے تھے۔

پڑوسی ریاستوں میں بدھ مت کے فروغ کی گونج

حفاظت یافتہ رعایا کی حیثیت قبول کرنے کے امکان کے باوجود، بہت سے بھکشو بہار اور مغربی بنگال کے (کچھ) حصوں کی طرف فرار ہوگئے اور موجودہ دور کے اڑیسہ، جنوبی بنگلہ دیش، برما کے مغربی ساحل پر اراکان، جنوبی برما اور شمالی تھائی لینڈ میں واقع خانقاہی یونیورسٹیوں اور مراکز میں پناہ ڈھونڈنے لگے۔ بہر حال، ان کی اکثریت، بدھ مت کے ان گنت عام پیروکاروں کے ساتھ نیپال کی کھٹمنڈو وادی کی طرف چلی گئی اور اپنے ساتھ بربادی کا شکار ہونے والے وسیع خانقاہی کتب خانوں سے اٹھا کر بہت سے قلمی نسخے بھی لے گئی۔

اس وقت کھٹمنڈو میں بدھ مت کی حالت خاصی مستحکم تھی۔ ٹھاکری (خاندان) سلسلۂ شاہی کے راجاؤں (۷۵۰۔۱۲۰۰ء) کو بودھی خانقاہوں کی حمایت حاصل تھی اور وہاں متعدد خانقاہی یونیورسٹیاں تھیں۔ دسویں صدی عیسوی کے اختتام کے وقت سے، لاتعداد تبتی مترجمین، اپنے ہندوستان کے سفر میں ان مراکز کا دورہ کرتے آئے تھے، اور وہاں کے نیپالی اساتذہ نے وسطی اور مغربی تبت میں بدھ مت کے احیا میں موثر کردار ادا کیا تھا۔ ملا دور کے ابتدائی ہندو حکمرانوں (۱۲۰۰۔۱۷۶۸ء) نے اپنے ٹھاکری پیش رووں کی پالیسیاں برقرار رکھیں۔

مزید برآں، بدھ مت موجودہ دور کے نیپال کے دوسرے علاقوں میں پھیل رہا تھا، وسط بارہویں صدی عیسوی میں مغربی تبت کے ایک غیرتبتی قبائلی حکمراں ناگا دیو نے اس علاقے کا اقتدار گنوا دیا اور مغربی نیپال کو فتح کرلیا۔ وہاں اس نے کھاسا مملکت قائم کی، جو مغربی ملا کے طور پر بھی جانی جاتی ہے اور جو بدھ مت کی تبتی شکل کی ماننے والی تھی۔

برصغیر ہندوستان میں بدھ مت کے زوال کا تجزیہ

گو کہ ہندومت اور جین مت شمالی ہندوستان پر غوری حملے کو برداشت کرگئے، مگر بدھ مت کی حالت پوری طرح بحال نہ ہوسکی۔ وہ بتدریج گم ہونے لگا۔ یہ مانتے ہوئے بھی کہ یہ نقصان ایک پیچیدہ مظہر تھا، اب ہم ایسے چند عوامل کا جائزہ لیں گے جو اس صورت حال کی وضاحت کرسکتے ہیں۔

ہندوؤں اور جینیوں کے پاس یونیورسٹیاں یا بڑی خانقاہیں نہیں تھیں۔ ان کے راہب تنہا رہتے تھے یا دور دراز علاقوں میں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں، نجی طور پر مطالعے اور مراقبے میں مصروف اور کسی طرح کی اجتماعی تقریبات اور مذہبی رسوم کے بغیر چونکہ ان کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا اس لیے تمام حملہ آور انہیں تباہ کرنے میں اپنا وقت یا محنت ضائع کرنا بے سود جانتے تھے۔ وہ صرف عام لوگوں کے بڑے شہروں میں بنائے جانے والے ہندو اور جین مندروں کو نقصان پہنچاتے تھے۔ دوسری طرف بودھوں کے پاس وسیع و عریض، رعب ڈالنے والی خانقاہی یونیورسٹیاں تھیں، اونچی اونچی دیواروں سے گھری ہوئی اور مقامی راجاؤں کے ذریعے قلعہ بند کی ہوئی۔ انہیں ڈھانا، بدیہی طور پر فوجی معنویت کا حامل تھا۔

یہ واقعہ کہ صرف بودھی اداروں نے شدید بربادی جھیلی اور بیشتر صرف انہی اداروں نے جو فوجوں کی پیش قدمی کے خاص راستوں میں پڑتے تھے، اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ اگرچہ غوریوں نے اپنی مہم کو مذہبی جنگ کا نام دیا، اس کا خاص مقصد بے دینوں کو حلقۂ اسلام میں داخل کرنا نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ (غوری افواج) ہندوؤں، جینیوں اور بودھوں کے مذہبی فرقوں پر ان کے حجم اور محل وقوع کو خیال میں لائے بغیر یکساں توجہ کرتے۔

یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں وسیع خانقاہوں کے اطراف مرکوزعام انسانوں کے لیے بدھ مت عقیدت اور زہد کا مذہب ہے۔ ہر چند کہ اس (مذہب) میں بھی (سنسان جنگلوں میں جاکر) گہری ریاضت اور مراقبے کی ایک روایت موجود تھی، مگر وہ لوگ جو گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہتے تھے، تجرد اختیار کرنے والے راہبوں اور راہباؤں کی زندگی اپنا لیتے تھے۔ گھر بار والے انہیں کھانا، پینا اور خانقاہوں کو مادّی امداد دے دیتے تھے۔ وہ مہینے میں دوبار ایک دن کے لیے خانقاہوں میں آتے تھے تا کہ اخلاقی نظم وضبط کےعہد کی تجدید کریں اور صحائف پر مبنی وعظ سن سکیں۔ وہ اپنے آپ کو، بہر حال، ہندو اکثریت سے الگ گروہ تصور نہیں کرتے تھے۔ اپنی زندگیوں میں نقل مکانی کی رسوم پر مبنی تقریبات، جیسے کہ پیدائش، شادی بیاہ اور موت کے لیے وہ ہندو رسوم کا ہی سہارا لیتے تھے۔

جب ہندومت نے بدھ کو اپنے سب سے بلند مرتبہ دیوتا وشنو کے مظہر کے طور پر دیکھا، تو بودھی ان کے اس اقدام پر معترض نہیں ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ پورے شمالی ہندوستان، کشمیر اور نیپال میں بدھ مت میں پہلے ہی سے ہندو زہد و ریاضت کے بہت سے عناصر شامل ہوچکے ہیں۔ وہ بدھ کے تئیں اپنی عقیدت وارادت کے ارتکاز کے بعد بھی اچھے ہندو بنے رہ سکتے تھے۔ ہندو مت اور جین مت کا رخ، دوسری طرف، عام انسانوں کی گھریلو زندگی اور مشقوں کی سمت زیادہ تھا اور انہیں خانقاہی اداروں کی ضرورت نہیں تھی۔ جب ہندو الٰہیات دان نے جینار شابھ، ایک بڑی اہم جین شخصیت کو وشنو کا ایک اوتار قرار دیا تو جینیوں نے احتجاج کیا۔

مزید برآں، ہندواور جین قوم کے لوگ مسلمان فاتحین کے لیے کار آمد تھے۔ ہندوؤں میں ایک جنگجو (سورما) ذات پائی جاتی ہے جسے (فوج میں) جبراً بھرتی کیا جاسکتا تھا۔ جب کہ جین مقامی سطح پر ایک ممتاز تجارت پیشہ قوم کے لوگ تھے اور (اس اعتبار سے) سرکاری آمدنی کا وسیلہ۔ دوسری طرف بدوھوں کا مجموعی لحاظ سے کوئی امتیازی پیشہ یا کاروبار متعین نہیں تھا۔ بین العلاقائی تجارت میں اب انہوں نے اپنا کوئی نمایاں کردار باقی نہیں رکھا تھا جب کہ صدیوں پہلے، اس وقت جب شاہراہ ریشم کے ساتھ ساتھ بودھی خانقاہیں جا بجا بکھری پڑی تھیں، اس میدان میں وہ ممتاز تھے۔ اسی لیے، غیرمسلموں کو اسلام کے دائرے میں لانے کی جو بھی کوشش ہوتی تھیں، ان کا رخ سب سے پہلے انہی (بودھوں) کی طرف موڑ دیا جاتا تھا۔

علاوہ ازیں، ہندوستانی سماج میں بہت سے بودھوں کو نچلی ذاتوں سے منسوب سمجھا جاتا تھا اور ہندو حکومتوں کے تحت وہ ایک معتصبانہ رویے کا شکار رہتے آئے تھے۔ ان میں بہت سے لوگ جو اسلام قبول کرلیتے تھے، بلاشبہ اس مذہب میں سب کے لیے مساوات اور بھائی چارے کے پیغام سے متاثر ہوتے ہوں گے۔ اس کے برعکس، ہندوؤں میں جو لوگ اسلام قبول کرلیتے تھے وہ دوسرے ہندوؤں کے نزدیک "ذات باہر" سمجھے جاتے تھے۔ (چونکہ) بودھی لوگ پہلے ہی سے "ذات باہر" مان لیے گے تھے، اس لیے مذہب بدلنے کے بعد، ہندو اکثریت رکھنے والے معاشرے کے اندر، اپنی سماجی حیثیت میں انہیں کسی طرح کے فرق کی اذیت سے نہیں گزرنا پڑتا تھا۔

ہر چند کہ شمالی ہندوستان کا بیشتر حصہ ہندو رہا، کہیں کہیں جینیوں کی موجودگی کے ساتھ، مگر پنجاب اور مشرقی بنگال میں بتدریج زیادہ تر نومسلم آباد تھے۔ اوّل الذکر میں بودھوں کا رابطہ اسلام سے طویل ترین رہا اور اولین تیرہویں صدی عیسوی میں، ایران اور مشرق وسطٰی سے اسلامی معلمین کے سیلاب کے ساتھ، جو یہاں پناہ کے متلاشی تھے، اور منگولوں کے حملوں کی شروعات کے وقت، اس رابطے میں (بودھوں اور اسلام کے) خاص طور پر اضافہ ہوتا گیا۔ دوسری طرف، مشرقی بنگال ہمیشہ سے کثیر تعداد میں مفلوک الحال کسانوں کی سرزمین رہا ہے، جو اسلامی مساوات کی اپیل پر توجہ کے لیے ہمہ وقت آمادہ ہوسکتے تھے۔

Top