من کو شانت
حراستی حاصل کرنے کے لئے من کو شانت کرنا کی ضرورت ہے تا کہ ہم من کی ایک مزید قدرتی حالت پا سکیں۔ یہاں یہ سمجھنے کی نہائت اہم بات ہے : جب ہم من کو شانتی پہنچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی کورا من چاہتے ہیں، جیسے کوئی بند ریڈیو۔ یہ قطعی ہمارا مقصد نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو اس سے بہتر ہے کہ جا کر سو جاؤ۔ یہاں مقصد من کی تمام پریشان کن کیفیتوں کو شانت کرنا ہے۔ بعض احساسات مثلاً جذباتی ہیجان، فکر مندی یا خوف نہائت پریشان کن ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ایسے تمام جذبات کو کچل دینا چاہئے۔
جب ہم اپنے من کو شانت کرتے ہیں تو ہمارا مقصد من کی ایک ایسی کیفیت پیدا کرنا ہے جو کہ شفاف اور ہوشیار ہو، من کی ایک ایسی حالت جس میں ہم یا تو محبت اور برداشت پیدا کرنے کے قابل ہوں، یا ہم اس قابل ہوں کہ وہ انسانی، قدرتی خیر خواہی کا اظہار کر سکیں جو ہم سب میں موجود ہے۔ اس کے لئے نہائت گہرا سکون درکار ہے – محض جسم کے پٹھوں کو ہی ڈھیلا چھوڑنا کافی نہیں، اگرچہ یقیناً ضروری تو ہے، بلکہ ذہنی اور جذباتی تناؤ کو بھی دور کرنا ہے جو ہمیں کچھ محسوس کرنے سے روکتا ہے – خصوصاً جو ہمیں قدرتی گرمائی اور من کی صفائی سے روکتا ہے۔ یہ کوئی ایسی مشق نہیں جس میں ذہن کو بند کر کے کسی روباٹ کی مانند ہو جانا جو خیالات سے عاری ہو۔
بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مراقبے سے مراد سوچ کو بند کر دینا ہے۔ یہ ایک غلط فہمی ہے۔ ہر قسم کی سوچ بند کرنے کی بجاۓ مراقبہ کے ذریعہ ایسے تمام ذیلی اور غیر ضروری خیالات، مثلاً مستقبل کے بارے میں بھٹکانے والے خیالات جیسے ( میں آج شام کو کیا کھاؤں گا؟ ) ، اور منفی خیالات یا ذہنی ہنر کاری جیسے ( تم کل مجھ سے بری طرح پیش آۓ۔ تم ایک بہت برے انسان ہو۔ ) ۔ ایسے تمام خیالات من کی گمراہی اور پریشان کن سوچ کے زمرے میں شمار ہوتے ہیں۔
ایک شانت من کا ہونا تاہم محض ایک آلہ کار ہے؛ یہ ہمارا منتہا نہیں۔ پر اگر ہمرا من ایک ایسا من ہو جو زیادہ شانت، پر سکون، شفاف اور کشادہ ہے تو پھر ہم اسے تعمیری انداز میں استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم یقیناً اسے اپنی روز مرہ زندگی میں اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں؛ مگر ہم اسے مراقبے کی حالت میں بھی اپنی زندگی کی صورت حال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے استعمال میں لا سکتے ہیں۔ ایک ایسے من سے جو پریشان کن جذبات اور ذیلی خیالات سے پاک ہو ہم اہم موضوعات مثلاً : میں نے اپنی زندگی میں کیا کیا ہے؟ یا : اس اہم رشتہ میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا یہ صحت مند ہے یا غیر صحت مند؟ کے متعلق بہت زیادہ صفائی سے سوچ سکتے ہیں۔ ہم تجزیہ نگاری سے کام لے سکتے ہیں۔ اس سے مراد ہے دروں بینی – یعنی مزید خود شناسی کہ ہمارے اندر کیا ہو رہا ہے، ہماری زندگیوں میں کیا ہو رہا ہے۔ ایسے مسائل کو سمجھنے کے لئے اور مثبت انداز میں دروں بینی کے لئے ہمیں صاف من کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک شانت من درکار ہے اور مراقبہ ہی وہ آلہ کار ہے جو ہمیں یہاں تک لا سکتا ہے۔
من کی تصوراتی اور غیر تصوراتی حالتیں
مراقبے کے متعلق بہت سے مسودات ہمیں تصوراتی خیالات سے نکلنے اور غیر تصوراتی حالت اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ہدائت سب مراقبوں پر لاگو نہیں ہوتی۔ اس کا اطلاق مراقبے کی ایک خصوصاً ترقی یافتہ صورت پر ہوتا ہے جس میں حقیقت پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ تاہم تصور کی ایک قسم ایسی ہے جس سے ہر قسم کے مراقبہ کو دور رہنا چاہئے۔ مگر تصور کی مختلف اقسام کو سمجھنے کے لئے جن کا ذکر مراقبے کے اسباق میں کیا گیا ہے ہمیں لفظ ' تصوراتی ' کے معانی جاننےکی ضرورت ہے۔
تصوراتی خیال سے مراد اشیا کی من کے ڈِبوں میں درجہ بندی ہے
بعض لوگوں کے نزدیک تصوراتی ہونے سے مراد روز مرہ کے عام خیالات ہیں جن کا ہمارے من میں گزر ہوتا ہے – جسے عموماً " سروں میں آوازیں " کہتے ہیں – اور غیر تصوراتی ہونے کا مطلب محض اس آواز کو چپ کرانا ہے۔ مگر اپنے سر کے اندر کی آواز کو چپ کرانا تو محض شروعات ہے۔ ہم نے ایک شفاف اور شانت من تشکیل دینے کی خاطر اپنے منوں کو ذیلی پریشان کن خیالات سے نجات دلانے کے ضمن میں اس پر پہلے ہی بحث کی ہے۔ کچھ اور لوگ یوں سوچتے ہیں کہ کسی بات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں اسے غیر تصوراتی انداز میں سمجھنا چاہئے، اور یہ کہ تصوراتی خیال اور درست فہم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مگر معاملہ یوں نہیں ہے۔
تصور کے متعلق الجھنوں کو سلجھانے کی خاطر پہلے ہمیں اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنانے اور انہیں سمجھنے کے درمیان امتیاز کو جاننا درکار ہے۔ ہم کسی بات کو سمجھے یا نہ سمجھے بغیر اپنے خیالات میں الفاظ کی شکل دے سکتے ہیں۔ مثلاً ہم کسی غیر ملکی زبان میں کسی دعا کو، خواہ اس کے معانی ہماری سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں، پڑھ سکتے ہیں۔ اسی طرح ہم کسی بات کو الفاظ میں بغیر اس کی وضاحت کرنے کے سمجھ سکتے ہیں، مثلاً یہ کہ محبت میں کیسا محسوس ہوتا ہے۔
مراقبے میں تصوراتی بالمقابل غیر تصوراتی کے ادراک کا مسئلہ کسی بات کو سمجھنے یا نہ سمجھنے سے تعلق نہیں رکھتا۔ مراقبے میں اور روزمرہ زندگی میں ہم ہمیشہ سوجھ بوجھ کو برقرار رکھتے ہیں خواہ وہ تصوراتی ہو یا غیر تصوراتی، اور خواہ ہم اسے اپنے من میں الفاظ کے روپ میں ڈھالیں یا نہ ڈھالیں۔ بعض اوقات الفاظ میں بیان کرنا فائدہ مند ہوتا ہے؛ مگر بعض اوقات قطعی سودمند نہیں ہوتا بلکہ اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر اپنے جوتوں کے تسمے کسنا : ہم جانتے ہیں کہ جوتوں کے تسمے کیسے باندھے جاتے ہیں۔ جب آپ اپنے جوتوں کے تسمے باندھ رہے ہوتے ہیں تو کیا آپ کو سچ مچ یہ بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ آپ انہیں باندھتے وقت اس تسمے کو کیا کریں گے اور اُس تسمے کو کیا کریں گے؟ نہیں۔ بلکہ میرا خیال ہے کہ درحقیقت ہم میں سے بیشتر کو یہ بیان کرنے میں بہت دقت پیش آۓ گی کہ وہ تسمے کیسے باندھتے ہیں۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں۔ بغیر سمجھنے کے ہم زندگی میں کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟ آپ ایک دروازہ بھی نہیں کھول سکتے۔
بہت سے پہلوؤں سے لفاظی در اصل فائدہ مند ہے؛ ہم دوسروں سے بات چیت کرنے کے لئے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ تاہم ہماری سوچ میں الفاظ کا استعمال لازم نہیں؛ لفاظی بذات خود غیرجانبدار ہے۔ ہمارے ہاں چند کارآمد مراقبے ہیں جن میں الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنے من میں منتروں کو جپنا ایک قسم کی لفاظی ہے جو من میں ایک خاص قسم کا ترنم یا ارتعاش پیدا کرتی ہے۔ منتر کا باقاعدہ ترنم بہت مدد گار ہوتا ہے؛ یہ ہمیں من کی کسی خاص کیفیت پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم محبت اور دردمندی کے جذبات کو پروان چڑھا رہے ہوں تو اس وقت ' اوم منی پیمے ہنگ ' کا منتر جپنے سے اس محبت والی کیفیت سے دھیان جوڑے رکھنا ذرا آسان ہو جاتا ہے، اگرچہ ہم اپنے من میں کچھ کہے بغیر بھی محبت والی کیفیت پر توجہ مرکوز کئے رہ سکتے ہیں۔ پس لفاظی بذات خود کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دوسری طرف ہمیں یقیناً اپنے منوں کو شانت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جب ان کے اندر بیکار شور مچ رہا ہو۔
غیر تصوراتی ہونا
لہٰذا اگر تصور کے مسئلہ کا تعلق لفاظی اور سمجھ بوجھ سے نہیں تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ تصوراتی من کیا چیز ہے اور جب مراقبی ہدائت ہمیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی تلقین کرتی ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس ہدائت کا اطلاق مراقبے کے تمام درجات اور تمام منازل اور روزمرہ زندگی پر ہوتا ہے؟ ان نکات کی وضاحت ضروری ہے۔
تصوراتی من سے مراد طبقات کے لحاظ سے سوچنا ہے جس کا سادہ زبان میں مطلب ہے کہ چیزوں کے بارے میں انہیں " ڈبوں " میں بند کرنا مثلاً " اچھا " یا " برا " ، " کالا " یا " سفید " ، " کتا " یا " بلی " ۔
جب ہم خریداری کرتے ہیں تو ہمیں سیب اور سنگترے، یا کچے اور پکے پھل کے درمیان تمیز ہونی چاہئے۔ ایسے روزمرہ کے معاملات میں طبقات کے لحاظ سے سوچنا کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن بعض طبقات ایسے ہیں جو مشکل ہیں۔ ان میں سے ایک کو ہم " پہلے سے قائم شدہ راۓ " کہتے ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے :" میں تم سے ہمیشہ بدسلوکی کی توقع کرتا ہوں۔ تم ایک بہت برے انسان ہو کیونکہ ماضی میں تم نے فلاں فلاں حرکت کی، اور اب میں پیشین گوئی کرتا ہوں کہ خواہ کچھ بھی ہو تم ہمیشہ ایک برے انسان ہی رہو گے۔ " ہم نے پہلے سے ہی فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ یہ ایک بہت برا انسان ہے اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ایسے ہی پیش آۓ گا – یہ ایک پہلے سے قائم شدہ راۓ ہے۔ ہم اپنے تصور میں اس شخص کو " برے لوگوں " کی فہرست یا ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔ اور یقیناً جب ہم اس طرح سوچتے ہیں اور اس شخص کی نسبت ایسا خیال رکھتے ہیں : " وہ ایک گھٹیا انسان ہے؛ وہ مجھ سے ہمیشہ بری طرح پیش آتا ہے، " تو اس طرح اس شخص کے اور ہمارے درمیان ایک اونچی دیوار حائل ہو جاتی ہے۔ ہماری پہلے سے قائم شدہ راۓ ہمارے درمیان تعلق پر اثر انداز ہوتی ہے۔ پس پہلے سے راۓ قائم کرنا من کی ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ہم چیزوں ( اور انسانوں ) کو طبقات میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
غیر تصوریت کے بیشمار درجے ہیں، مگر ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب کوئی صورت حال سامنے آۓ تو اس کے بارے میں کشادہ دلی سے کام لینا۔ اب اس کا مطلب تمام تصوراتی فہم کو رد کر دینا نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کتے نے کئی لوگوں کو کاٹا ہے، تو اس کتے کو " کاٹنے والے کتے " کی فہرست میں شامل کر کے ہم اس کے گرد محتاط رہیں گے۔ ہم اس جانور کے گرد مناسب احتیاط برتیں گے۔ مگر ہم ایسی پہلے سے قائم شدہ سوچ سے کام نہیں لیں گے :" یہ کتا مجھے ضرور کاٹے گا لہٰذا میں اس کے قریب جانے کی کوشش بھی نہیں کروں گا۔ " ایک نئی صورت حال جو جنم لے رہی ہے اسے قبول کرنے اور اس کے بارے میں کوئی طے شدہ راۓ قائم کرنے، جو ہمیں اس کا پوری طرح مزہ چکھنے سے روک سکتی ہے، کے درمیان ایک لطیف توازن ہے۔
پس غیر تصوریت کا وہ درجہ جس کی سب طرح کے مراقبوں میں ضرورت پڑتی ہے ایک ایسا من ہے جو پہلے سے طے شدہ راۓ سے بیگانہ ہے۔ مراقبے کے بارے میں عام ہدایات میں سے ایک عمومی ہدائت یہ ہے کہ بغیر کسی توقعات اور پریشانیوں کے مراقبہ کیا جاۓ۔ مراقبے کے سلسلہ میں پہلے سے طے شدہ راۓ ایسی توقع ہو سکتی ہے جیسے ہمارا مراقبہ بہت شاندار ہو گا، یا یہ فکر کہ ہماری ٹانگیں درد کریں گی، یا یہ خیال :" میں کامیاب نہیں ہوں گا۔ " ایسی توقعات اور افکار، خواہ ہم ان کو الفاظ کا لبادہ پہنائیں یا نہ پہنائیں، پہلے سے طے شدہ تصورات ہیں۔ ایسے خیالات ہمارے آنے والے مراقبہ کو من کے ایک " لاجواب تجربہ " یا " تکلیف دہ تجربہ " کے ڈبے یا طبقے میں بند کر دیتے ہیں۔ مراقبے کی ایک غیر تصوراتی صورت یہ ہو گی کہ جو ہو اسے بس قبول کر لیا جاۓ اور اس کے بارے میں بغیر کوئی فیصلہ صادر کئے اس سے مراقبے کی ہدایات کے مطابق نمٹا جاۓ۔
خلاصہ
مختلف قسم کے خیالات میں تمیز نہ کرنے کی صورت میں، ہم اس غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ یہ سب کے سب مراقبہ اور روز مرہ زندگی کے لئیے نقصان دہ ہیں۔ بیشتر مراقبوں میں ہمیں اپنے سر میں موجود آواز اور پہلے سے قائم تصورات کو بند کرنا ہوتا ہے۔ مگر سواۓ نہائت ترقی یافتہ پجاریوں کے ، کسی شے کو مراقبہ کے اندر اور باہر دونوں طرح سمجھنے کا مطلب ہے اسے من کے کسی خانے میں سمونا، خواہ ہم اسے الفاظ میں بیان کریں یا نہ کریں۔