عدم تشدد اور روحانی اقدار

آج مجھے عدم تشدد اور روحانی اقدار پر جدید دنیا کے حوالے سے بات کرنے کو کہا گیا ہے۔ یہ موضوع اس لحاظ سے بھی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ، جہاں تک مجھے علم ہے، آپ طلباء طب اور درس و تدریس کے پیشے اختیار کرنے والے ہیں، تو آپ کے دوسروں کی مدد کرنے کے مشن کے لئیے یہ امر نہایت اہم ہے کہ آپ اپنی طرف سے پرامن انداز سے امداد فراہم کریں۔ کسی کی مدد بے شک تشدد کی ضد ہے۔ اور آپ کے اندر بعض روحانی اقدار کا وجود آپ کے کام کو اہم بنا دے گا، یعنی اس کا مقصد محض پیسہ کمانا ہی نہیں، بلکہ اس سے آپ کے اندر اس عمدہ موقع کی قدر و قیمت کا احساس پیدا ہو گا کہ آپ کس طرح اپنے کام کے ذریعہ لوگوں کی با مقصد مدد کر سکتے ہیں۔ 

بدھ مت دیگر مذاہب کی مانند عدم تشدد کے متعلق بہت کچھ کہتا ہے، اور بے شک مختلف مکاتبِ فکر عدم تشدد کو مختلف تعبیر دیتے ہیں۔ عموماً ہم تشدد سے مراد کوئی دست درازی کا فعل لیتے ہیں، اور عدم تشدد سے مراد اس قسم کے فعل سے گریزاں ہونا تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن بدھ مت کا تصور اس کے متعلق من کے حوالے سے ہے، ہمارے من کی وہ حالت جو ایسے موقع پر ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواہ ہم کسی قسم کے پر تشدد رویہ کا اظہار کریں یا نہ کریں، ایسا رویہ ہمارے من کی پر تشدد حالت سے جنم لیتا ہے، ہے نا؟ لہٰذا محض تشدد سے گریز جب کہ ہمارے من میں کسی کے متعلق نہایت معاندانہ احساسات ہوں – اس سے یقیناً کام نہیں بنے گا۔ پس اس من کی حالت کو پہچاننا اور اس پر قابو پانے کے طریقے سیکھنا ضروری ہے۔  

تشدد اور عدم تشدد کی تین اقسام

 بدھ مت کی تعلیمات میں ہم تشدد، من کی پرتشدد حالت، کو تین مختلف قسموں میں بانٹتے ہیں۔ اور غالباً تشدد کے مقابل ایک اور لفظ "ظلم" ہے۔ جب ہم تشدد کی بات کرتے ہیں تو ہم محض پر زور اور سخت رویہ اپنانے کی بات نہیں کرتے کیونکہ بعض اوقات کسی کو ان کی ذات کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے سے روکنے کی خاطر ان پُر زور طریقوں کو کام میں لانا پڑتا ہے۔ اگر آپ کا بچہ سڑک کی جانب دوڑ رہا ہے اور آسانی سے کسی گاڑی کے نیچے آ سکتا ہے، تو آپ اسے ایسے نہیں کہتے، "او جان من، سڑک پر مت جاؤ۔" ہو سکتا ہے کہ آپ کو بچے کو کافی سختی سے پکڑ کر روکنا پڑے۔ تو تشدد سے ہماری مراد یہ نہیں ہے۔ تشدد سے مراد کسی کو نقصان پہنچانا ہے، اور اس کے کئی طریقے ہیں۔ تو بدھ مت میں ان تین طریقوں کا ذکر ہے، اگرچہ مجھے یقین ہے کہ ہم کچھ اور بھی خیال میں لا سکتے ہیں۔  

دوسروں سے عدم تشدد کا سلوک

تشدد کی پہلی قسم دوسروں کے متعلق پرتشدد انداز میں سوچنا ہے۔ یہ درد مندی کی شدید حد تک کمی ہے جس سے ہم دوسروں کو نقصان پہنچانے کا سوچتے ہیں۔ درد مندی سے مراد دوسروں کے لئیے دکھ اور مسائل سے اور ان کے اسباب سے مکتی کی خواہش ہے۔ اور یہاں ہم دوسروں کی دکھ سے نجات کی بجاۓ ان کے لئیے مسائل کی تمنا کرتے ہیں، خواہ ہم ان کے لئیے یہ مشکلات پیدا کریں، یا کوئی اور ایسا کرے یا یہ محض قدرت کی طرف سے ہو۔ من کی اس قسم کی حالت پر قابو پانے کے لئیے ہمیں یہ سوچنا چاہئیے کہ ہم سب برابر ہیں، اس لحاظ سے کہ ہر کوئی مسرت کا متلاشی ہے، کوئی بھی مصیبت کا طلبگار نہیں۔
پس جب کوئی ہمیں نقصان پہنچانے کا مرتکب ہو، فرض کیجئیے کہ آپ کلاس پڑھا رہے ہیں اور کوئی طالب علم مصیبت کھڑی کرتا ہے یا دوسروں کے لئیے پریشانی کا سبب بنتا ہے، تو ایسی صورت میں اس کو سزا دینے کی بجاۓ - جس میں ہمیشہ غصہ، بے صبری اور ایسے ہی مختلف پریشان کن خیالات اور من کی حالتیں شامل ہوتی ہیں – یہ سوچنا کہیں زیادہ سود مند ہے کہ یہ بچہ ایک طرح سے بیمار ہے۔ یہ بچہ مسرت کا خواہاں ہے مگر اس حقیقت سے عاجز ہے کہ یہ خوشی کیسے پائی جاۓ اور وہ اس طرح کی خلل اندازی کا مرتکب ہے، ایک ایسی من کی منتشر حالت میں سوچ رہا ہے کہ ایسا کرنے سے اسے خوشی ملے گی۔ تو بچے کے بارے میں ایسا تصور قائم کرنے سے ہم اسے برا نہیں گردانتے اور اسے سزا دینے کی بات نہیں کرتے؛ اس کی نسبت ہم درد مندی پیدا کرتے ہیں اور اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ وہ اپنی الجھن اور مسائل جو اسے کلاس میں مخل یا شریر ہونے پر اکسا رہے ہیں ان پر قابو پا لے۔

اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی عملی اقدام نہیں اٹھاتے، یعنی ہم مجہول ہیں۔ عدم تشدد کا مطلب سستی اور بے عملی نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ناراض نہ ہونا ہے، اس شرارتی بچے کے لئیے برا نہ چاہنا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ ہمیں اس بچے کے خلل انداز رویہ کو روکنے کے لئیے کچھ نہ کچھ کرنا ہے، اس مقصد کے لئیے اس سکول میں جو بھی طریقے قابل قبول ہیں انہیں کام میں لانا ہے۔ لیکن اس عمل کے پیچھے کار فرما محرک، اور من کی حالت اس صورت سے بالکل مختلف ہے جس میں بچے کو برا جان کر اسے سزا دی جاۓ۔ 

یہ جو لفظ "تحریک" ہے اسے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک تو ہمارا مدعا یا مراد، اور دوسرا وہ جذبہ جو ہمیں اسے پانے میں معاون ہوتا ہے۔ یہاں ہمارا مقصد بچے کی مدد کرنا ہے۔ اس لئیے ہم استاد کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اگر آپ طب کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تو بھی یہی معاملہ ہے: ہمارا مقصد مریض کی مدد ہے۔ اس ہدف کو پانے کے لئیے ہمارے من کی حالت کیا ہے؟ اگر تو ہمارا مدعا محض پیسہ بنانا اور مریض کو تشکر سے شدید زیربار کرنا ہے، تو یہ نہایت خود غرض رویہ ہے، ہے نا؟ اپنی ذات میں مست۔ اور چونکہ ہماری توجہ زیادہ تر ہماری اپنی ذات پر ہے، تو ہم دوسرے شخص کی بھلائی پر پوری توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر کی کسی مریض کے لئیے جراحی کی تشخیص جبکہ مریض کو در حقیقت اس کی ضرورت نہیں۔ مگر ڈاکٹر محض اس لئیے اس کی تشخیص کر رہا ہے کیونکہ اس سے اسے مزید پیسہ ملے گا۔ لیکن اس کی بجاۓ ہمیں جس چیز سے تحریک پکڑنی چاہئیے، تا کہ ہم اس شخص کی مدد کر سکیں، وہ ہے درد مندی – دوسرے انسان کے بارے میں سوچنا، ان کی بھلائی کو پیش نظر رکھنا، ان کے لئیے کیا بہترین ہو گا؟

طب کے پیشہ میں ہمیں بعض اوقات کسی کی مدد کرنے کی خاطر کوئی ایسا علاج کرنا پڑتا ہے جو کہ کافی تکلیف دہ ہو سکتا ہے: ٹیکے، جراحت وغیرہ۔ (جراحی سے صحت یابی بھی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔) مگر ایسا فعل تشدد نہیں گردانا جاۓ گا، کیونکہ اس کا مقصد اس شخص کو تکلیف پہنچانا نہیں ہے؛ یہاں مدعا اس شخص کو اس کی تکلیف، مصیبت، بیماری سے آرام دلانا ہے۔

تو جب آپ کسی شرارتی طفل مکتب کو سزا دیتے ہیں تو یہاں بھی وہی بات ہے: یہاں بھی مقصد بچے کو دکھ دینا نہیں ہے۔ ہم اس طالب علم کی مدد کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ بھی ہماری طرح ایک انسان ہے – جو خوش رہنا چاہتا ہے – نا خوش ہونا نہیں چاہتا – اور شائد میں انہیں سکھا سکتا ہوں اور بتا سکتا ہوں کہ کس طرح خوشگوار زندگی گزاری جاۓ۔ اور یہ بچہ مستقبل میں جونسا بھی پیشہ اختیار کرے، اگر اس میں نظم و ضبط ہو گا اور اس میں دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت ہوگی تو اس سے اسے کیا فائدہ ہو گا۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جن سے ہر کوئی مستقبل میں مستفید ہو سکتا ہے۔ 

نظم و ضبط سے مراد ضبط نفس ہے۔ جب بچہ شرارت پر آمادہ ہو تو اسے سمجھائں کہ بچے کو اپنے آپ کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔ پس ہمارے سزا دینے کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود اپنے اندر نظم و ضبط پیدا کریں۔ پس اگر سزا دیتے وقت ہمارے من کی حالت ویسی ہے تو اس سے بچے کو بہت کچھ سکھایا جا سکتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جب کوئی ماں یا باپ اپنے بچے کو سزا دیتے ہیں تو وہ بچے کے لئیے اپنے دل میں نفرت پیدا نہیں کرتے۔ ہے نا؟ 

لہٰذا میرے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ اگر ہم ایسے پیشے مثلاً طب یا درس و تدریس، جن کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا ہے، اختیار کرنے جا رہے ہیں، تو ہمیں داخلی طور پر ایک پیار بھرا اور درد مند رویہ رکھنا ہو گا – کہ آپ طلباء کی مدد کرنا چاہتے ہیں تا کہ وہ خوشگوار، مصائب سے مبرّا زندگی بسر کریں۔ مگر باہر سے آپ اپنا رویہ بالکل پیشہ ورانہ رکھیں جس کا مطلب ہے کہ سنجیدگی اور بعض اوقات سختی کا رویہ اپنائں۔ اس طرح ہم اپنے پیشہ میں عدم تشدد سے، عدم تشدد کے پہلے معانی کے لحاظ سے، کام کر سکتے ہیں۔

لہٰذا دوسروں کے لئیے درد مندی کا فقدان جس سے ہم انہیں نقصان پہنچانا چاہیں، کی بجاۓ ہم درد مندی کا اظہار کرتے ہیں، یعنی ان کے لئیے آزار اور مصیبت سے نجات کی تمنا کرتے ہیں۔ ویسے یہ جاننا بہت مشکل کام ہے کہ کسی کی مدد کیسے کی جاۓ۔ اور ہر بچہ اور ہر مریض ایک منفرد فرد ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک شخص کے لئیے جو کارگر ہو وہ دوسرے کے لئیے شائد کارگر نہ ہو۔ لہٰذا بطور ڈاکٹر ہر مریض کی اور بطور استاد ہر شاگرد کی انفرادی حیثیت کا لحاظ رکھنا نہایت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کام اتنا آسان نہ ہو جب ہمیں روزانہ اتنے سارے مریضوں کو دیکھنا ہے یا ہماری جماعت طلبا سے بھری پڑی ہے۔ تو چاہے اتنے بے شمار لوگوں کو ذاتی طور پر فرداً فرداً جاننا نہ بھی ممکن ہو لیکن جو چیز اہم ہے وہ من کی حالت ہے، یعنی ان کو جاننے کی خواہش۔ اور ان میں دلچسپی لینے کا مطلب ہے ان کی عزت کرنا۔ ان سے اسی شوق اور عزت سے پیش آئیں جیسے آپ اپنے دوستوں یا رشتہ داروں سے پیش آتے ہیں – اپنی اولاد یا والدین سے، اپنے بھائی بہن سے، یا جو کوئی بھی، ان کی اور اپنی عمر کا لحاظ کرتے ہوۓ۔ 

میرے خیال میں ایک راہنما خیال جو کہ نہایت ہی مفید ہے وہ یہ ہے کہ یہ شخص بھی ایک انسان ہے اور میری طرح جذبات رکھتا ہے۔ وہ بھی میری طرح مسرت کا خواہاں ہے، وہ بھی میری طرح مقبولیت کا تمنائی ہے۔ اور اگر میں اس کے لئیے بری سوچ رکھوں اور اس سے بد سلوکی سے پیش آؤں، اور اس سے سرد مہری کا مظاہرہ کروں، تو اس کے جذبات بری طرح مجروح ہوں گے بالکل ویسے ہی جیسے اگر کوئی مجھ سے بد سلوکی کا مرتکب ہو۔ پس من کی یہ حالت جس میں ہم دوسروں کی عزت کرتے ہیں بطور ایک فرد کے نہایت اہم ہے۔

عدم تشدد اور ہماری ذات

دوسری قسم کے عدم تشدد کا کسی حد تک تعلق اس قسم سے ہے جس کی وضاحت ہم نے ابھی کی ہے، کیونکہ اب ہم اس عدم تشدد کی بات کر رہے ہیں جس کا رخ ہماری جانب ہے (پہلی قسم میں اس کا رخ دوسروں کی جانب ہوتا ہے)۔ یہاں ہم اپنی ہی ذات کو نقصان نہ پہنچانے کی بات کر رہے ہیں۔ جب ہم خود تلف ہوتے ہیں تو یہ اپنی ذات سے پیار نہ کرنے کی صورت حال ہوتی ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی ذات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ہمارا یہ فعل سہواً بھی ہو سکتا ہے اور عمداً بھی۔ مثلاً اس قسم کے خیالات دل میں لانا جیسے: "میں برا انسان ہوں،" "میں اچھا انسان نہیں ہوں،" "میں کسی کام کا نہیں ہوں۔"

خاص طور پر اگر ہم ڈاکٹر ہیں اور ہمارا کوئی مریض گزر جاتا ہے، جس کا ہونا نا گزیر ہے، تو اگر ہم یہ سوچیں،" میں کتنا برا ڈاکٹر ہوں،" اور پھر احساس جرم سے مغلوب ہو کر ہم اپنے آپ کو کسی قسم کی سزا دیں، جو کہ عموماً کوئی جذباتی یا نفسیاتی سزا ہو گی، کیونکہ ہم کسی کی مدد کرنے میں ناکام رہے – اور اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ ایسے معاملات ہیں جن کے لئیے ہمیں تیار رہنا چاہئیے اگر ہم ڈاکٹر یا معلم بننا چاہتے ہیں۔ ہم مہاتما بدھ نہیں ہیں؛ ہم ہر کسی کی مدد نہیں کر سکتے – حتیٰ کہ مہاتما بدھ بھی سب کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ تو یقیناً کبھی کبھار ہم ناکام ہوں گے۔ یا تو ہم کسی مریض کو شفا نہیں دے سکیں گے یا کسی بچے کو تعلیم دینے سے عاجز ہوں گے۔ لیکن یہ حقیقت کی فطرت ہے۔ کسی کو مدد پانے کی خاطر ان کا زود اثر ہونا لازم ہے۔ بعض مرض لا علاج ہیں، اور اگر ان کا علاج ممکن ہو بھی، تو بعض اوقات ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے؛ آخر کو ہم انسان ہیں۔ بعض طالب علم شدید جذباتی، سماجی مسائل کا شکار ہوتے ہیں – گھریلو مسائل – ایسے معاملات میں ہم ان کی مدد کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ 

لہٰذا ہمیں ان باتوں پر نظر رکھنی چاہئیے جو ہمارے لئیے خود تلفی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ بہ الفاظ دگر، اپنی ذات پر تشدد ریزی۔ خود تلفی کی بعض مثالیں یہ ہو سکتی ہیں جیسے کہ ہم اپنے آپ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالیں، یہ سوچ کر، "مجھے ایک کامل انسان ہونا چاہئیے،" جبکہ ایسا ہونا، در حقیقت، نا ممکن ہے۔ بے شک ہم اپنے کام کو جس حد تک ممکن ہو نہایت عمدگی سے نبھاتے ہیں، مگر کوئی شخص بھی کامل نہیں ہوتا۔ اور اگر ہم کسی کام میں ناکام رہیں، تو بے شک ہم اس پر اظہار تاسف کرتے ہیں – ہم آئیندہ بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں – لیکن ہمیں اس کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہونے سے بچنے کی پر زور کوشش کرنی ہے، کیونکہ دل برداشتہ ہونے سے ہمارے کام اور ہماری کار کردگی پر برا اثر پڑے گا۔ 

یہاں آپ یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ "میں نراش یا دل شکن ہونے سے کیسے بچ سکتا ہوں۔" – فرض کیجئیے کہ آپ کا کوئی شاگرد جس کی کارکردگی احسن تھی وہ کسی وجہ سے اچانک سکول چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ بے شک یہ افسوسناک امر ہے، مگر ہمارا کام مایوس ہونا نہیں ہے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ : ہم اپنے آپ کو دل شکستگی سے کیسے بچائیں؟ اس کا جواب اُس میں ہے جہاں ہم دوسروں سے معاملہ کرنے کی بات کر رہے تھے۔ دوسروں کی مدد کرنے اور انہیں نقصان نہ پہنچانے کے معاملہ میں سب سے اہم بات ان کی عزت کرنا ہے، تو اسی طرح ہمیں اپنی عزت بھی کرنی چاہئیے۔ اس بات کا اعادہ ہمیشہ اہم ہے: "میرے اندر صلاحیت موجود ہے وگرنہ میں معلم یا ڈاکٹر نہیں بن سکتا تھا۔" ہم اپنی تحریک کو یوں تقویت دیتے ہیں: " جو کام میں کر رہا ہوں میں اسے نیک نیتی سے کر رہا ہوں۔" اور " ایک انسان ہونے کے ناطے میں صنفِ کامل نہیں ہوں؛ پھر بھی میں اپنے تئیں پوری کوشش کرنے کے باعث خود ستائی کا حقدار ہوں۔" اور یہ چیز ہمیں دل برداشتہ ہونے سے بچاتی ہے۔ 

اب اگر ہم ایمانداری سے اپنا جائزہ لیں اور ہمیں معلوم ہو کہ میں اپنی بھرپور کوشش نہیں کر رہا تھا تو پھر کیا ہوتا ہے؟ میں اس سے بہتر بھی کر سکتا تھا۔ تو ایسی صورت میں یقیناً ہم پچھتاوے کا اظہار کرتے ہیں، تو اس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے: "مستقبل میں، میں مزید جہد کروں گا۔" اور آئیندہ اس بات کا امکان روکنے کے لئیے ہمیں اس کے اسباب کا جائزہ لینا چاہئیے۔ اس کا سبب شائد میری حد سے زیادہ تھکن ہو سکتی ہے۔ اور اس کے لئیے بھی ہمیں اپنے آپ سے سختی سے پیش نہیں آنا چاہئیے، نہ ہی خود تلف رویہ اختیار کرنا چاہئیے۔ ہمیں اپنے لئیے آرام کی ضرورت کا تعین کرنا ہو گا -  میری حد کیا ہے؟ - اور پھر اس کا لحاظ کرنا ضروری ہے۔ اس کے متعلق شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہر شخص کی کچھ حدود ہوتی ہیں۔ بے شک کسی ہنگامی حالت میں ہم معمول سے زیادہ بھی کچھ کر سکتے ہیں، مگر ہر صورت حال ہنگامی نہیں ہوتی۔ مگر بعض اوقات ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے، "مجھے آرام کی ضرورت ہے،" اور پھر آرام کریں، اگر ایسا ممکن ہو – بعض اوقات یہ ممکن نہیں ہوتا – مگر اگر یہ ممکن ہو، کہ بغیر احساس جرم کے آرام کیا جاۓ تو ضرور کریں۔ 

ایسا کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا خاص طور پر اگر ہم اپنے پیشہ اور اپنے کنبہ کی دیکھ بھال کے درمیان توازن بر قرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بچوں کی بہت بھاری ضروریات ہوتی ہیں، ہمارے اپنے بچے۔ تو ہمیں یہاں اپنی ترجیحات کا تعیں کرنا ضروری ہے تا کہ ہم حد سے زیادہ کام نہ کریں،حد سے زیادہ تھکن کا شکار نہ ہوں، تا کہ ایسا نہ ہو کہ ہم کوئی کام بھی خوش اسلوبی سے نہ کر پائں۔ اور اس سلسلہ کو اس کی حد تک نہ پہنچنے دیں جہاں پہنچ کر ہماری ہمت جواب دے جاۓ۔ کیونکہ ہماری اپنی ضروریات کو نظر انداز کرنا اپنی ذات سے تشدد کے مترادف ہے۔ لہٰذا اپنے آپ سے عدم تشدد نہایت اہم ہے۔

دوسروں کی مصیبت پر خوش نہ ہونا

عدم تشدد کی تیسری قسم وہ ہے جس میں ہم دوسروں کی بد حالی پر خوش ہونے سے اجتناب برتتے ہیں۔ بہ الفاظ دگر، ایسا کرنا ظلم کے برابر ہے – اگر ہم تشدد کو من کی ظالمانہ حالت کے طور پر دیکھیں – تو دوسروں کے مصائب پر شادمانی من کی ایک ظالمانہ حالت ہے؛ دوسرے لفظوں میں جب کسی شخص کو ناکامی کا سامنا ہو۔ ہم ایسے بھی سوچ سکتے ہیں، "یہ ایسا کام ہے جو میں نہیں کرتا۔" مگر اگر ہم سیاست کی مثال سامنے رکھیں، تو اگر دو امید وار ہیں اور ان میں سے وہ جسے آپ پسند نہیں کرتے ہار جاتا ہے تو ہم اس پر بہت خوش ہوتے ہیں۔ ہم اس کی بد قسمتی پر جشن مناتے ہیں، ہے نا؟ اور ایسی صورت حال میں ہم جیتنے والے امیدوار کی کامیابی پر خوش ہوتے ہیں۔ لیکن ہارنے والے امیدوار کی ناکامی پر مسرت کے اظہار کا کوئی جواز نہیں، کیونکہ ان کا بھی ایک خاندان ہے، کئی لوگ ان کے محتاج ہیں، اور وہ سب بھی ناخوش ہیں – وہ بھی آخر کو انسان ہیں۔ تو میں اس لئیے خوش ہوں کہ انہیں وہ عہدہ نہیں ملا جسے وہ چاہتے تھے، لیکن میں ان کے لئیے زندگی میں مسرت کا خواہاں ہوں۔ میں ان کا برا نہیں چاہتا (ان کے لئیے بری باتیں)۔ 

پس ہم نے دیکھا کہ یہ تین قسم کے عدم تشدد تین قسم کے پر تشدد جذبات اور خیالات کا خاتمہ کرتے ہیں:

  • درد مندی کا فقدان – دوسروں کے لئیے مصیبت اور آزار چاہنا
  • اپنی ذات سے پیار کا عدم وجود – اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی خواہش، جان بوجھ کر یا انجانے میں۔
  • دوسروں کی بد حالی پر شادمانی – دوسروں کی ناکامی یا بد حالی پر خوش ہونا۔

اور جیسا کہ میں نے کہا، کہ ہمارے اعمال ان میں شدت پیدا کرتے ہیں بغیر انہیں پر تشدد بنانے کے۔ بدھ مت کے سوتروں میں اس کی ایک عمدہ مثال پائی جاتی ہے۔ ایک دریا کے کنارے دو مراقبہ کرنے والے بیٹھے ہوۓ تھے۔ وہاں کوئی شخص آیا – اس دریا میں اس وقت شدید طغیانی تھی – وہ شخص اس دریا میں کود کر دریا کے پار تیر کر جانا چاہتا تھا۔ یہ دریا ایسا تھا کہ کوئی انسان اسے تیر کر پار نہیں کر سکتا تھا؛ اگر کوئی اس کی کوشش کرتا تو وہ یقیناً ڈوب جاتا۔ ان میں سے ایک مراقبہ کرنے والا شخص نہایت پر سکون اور مطمٔن تھا اور وہ اس شخص کو دریا میں کودنے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو دینے کے معاملہ میں کچھ بھی کرنےوالا نہیں تھا۔ لیکن دوسرا مراقبہ کرنے والا شخص اٹھا اور اس نے اس شخص کو دریا میں کودنے سے روکنے کے لئیے اس سے دلیل اور حجت کی جو ناکام رہی۔ چنانچہ اس نے اسے مکا مار کر بیہوش کر دیا تا کہ وہ دریا میں کودنے سے باز رہے۔ مہاتما بدھ نے یہ سب ماجرا دیکھا (مہاتما بدھ وہاں موجود تھا اور اس نے یہ سب کچھ دیکھا) اور اس نے کہا کہ جو مراقبہ کن یہاں چپ کر کے مسکراہٹ چہرے پر لئیے بیٹھا رہا وہ تشدد کے فعل کا مرتکب ہوا۔ اس شخص کو مکہ مار کر اسے موت سے بچانے کا عمل عدم تشدد کا اظہار تھا۔ کیوں؟ کیونکہ وہ محرک، وہ من کی حالت – اس شخص کو دکھ اٹھانے اور ڈوبنے سے بچانے کا فعل اس کی مدد کرنا تھا۔

روحانی اقدار

ان تمام باتوں کا تعلق ہمارے آج کے موضوع کے دوسرے حصہ سے ہے، جو جدید دنیا میں روحانی اقدار کا کردار ہے۔ یہ لفظ "روحانی" اس کو بیان کرنا مشکل کام ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مطلب مختلف ہے، یا یہ کہ انگریزی اور روسی زبانوں میں اس کے معانی فرق فرق ہیں۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ بدھ مت کے پس منظر میں اس کے مقابل کیا لفظ ہے یا یہ کہ اس سے کیا مراد لی جاتی ہے۔ بدھ مت میں ہم دھرم کی بات کرتے ہیں اور "دھرم" سے مراد روک تھام کی تدبیر ہے؛ یہ کوئی ایسا کام ہے جو ہم دکھ اور مسائل سے بچنے کے لئیے کرتے ہیں۔ اور یہ کوئی فوری مسائل کے حل کے لئیے ہی نہیں ہے -  جیسے کہ آپ گاڑی چلا رہے ہیں یا بائیسکل پر سوار ہیں اور آپ کسی سے ٹکرانے سے بچنے کی خاطر ایک طرف کو تیزی سے رخ موڑتے ہیں۔ یہ دھرم نہیں کہلاۓ گا۔ 

ہم روز مرہ کے کاموں کی بات بھی نہیں کر رہے ہیں۔ ہم اسے روحانیت نہیں کہیں گے۔ بلکہ اس کا تعلق مستقبل میں پیش آنے والے کسی واقعہ کی روک تھام ہے۔ اور بیشتر مذاہب میں، جس میں بدھ مت بھی شامل ہے، یہ آئیندہ زندگی کے متعلق سوچ ہے، اور بعض دوسرے ادیان میں یہ حیات بعد از موت سے تعلق رکھتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیاوی زندگی کی مادی کامیابی کو اپنا مطمع نظر نہ بنا لیں، کیونکہ بوقتِ مرگ یہ سب یہیں رہ جاۓ گا، اور ویسے بھی یہ زندگی آنے والی زندگی کی نسبت بہت چھوٹی ہے۔ 

یہ بات بہت عمدہ ہے اگر ہم پنر جنم یا مستقبل کی زندگی میں ایمان رکھتے ہیں، لیکن ہم میں سے کئی ایک اس پر یقین نہیں رکھتے۔ تو کیا ہم پھر بھی روحانی انسان ہو سکتے ہیں؟ میرے خیال میں یہ عین ممکن ہے اگر ہم اس زندگی میں اپنے لئیے اور اپنے خاندان کے لئیے محض مادی کامیابی کے بارے میں ہی نہ سوچیں، بلکہ اگر ہم وقت کی ایک لمبی مدت جیسے آنے والی نسلوں کو ذہن میں رکھیں، دوسرے لفظوں میں، اس دنیا کو ایک بہتر مقام بنانے کے لئیے کچھ کریں خواہ وہ کام کوئی چھوٹا سا کام ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں پھر ہم مہاتما بدھ کی ایک مثال پیش کرتے ہیں – کہ چاول کا ایک تھیلا ایک ایک چاول ڈالنے سے بھرتا ہے۔ تو بعض لوگ اس میں مٹھی بھر کر چاول ڈالیں گے اور بعض دوسرے لوگ صرف ایک ہی دانہ ڈال پائیں گے، لیکن وہ دونوں انسان اس میں کچھ نہ کچھ ڈال رہے ہیں۔ اور یہی پتے کی بات ہے۔ اور اگر ہم یہ محسوس کریں کہ ہم کچھ خاص نہیں کر سکتے، تو کم از کم ہم نے کوشش تو کی۔ 

لہٰذا آپ کی معلم یا ڈاکٹر بننے کی تعلیم و تربیت، یہ اس دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے سلسلہ میں آپ کی طرف سے اپنا حصہ ڈالنے کا عمدہ موقع ہے۔ بطور استاد کے آپ لوگوں کو تربیت دیں گے کہ وہ مستقبل میں اپنی طرف سے کچھ بھلا کام کریں۔ بطور ڈاکٹر کے آپ مریضوں کو شفا دیں گے تا کہ وہ بھی مستقبل میں کچھ بھلائی کر سکیں۔ تو اس سب کام کا مقصد انہیں خوشی دینا ہے نہ کہ عدم مسرت۔ پس ان کے لئیے کوئی برے یا پر تشدد خیالات نہیں، بلکہ ان کی عزت کرنا مقصود ہے۔ ہم اپنی عزت اس طرح کرتے ہیں "میں مستقبل میں کوئی بھلا کام کر سکتا ہوں،" اور ہم اپنے مریضوں اور اپنے طلباء کی عزت کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ "وہ بھی کچھ بھلائی کا کام کر سکتے ہیں۔" بھلا کام کیا چیز ہے؟ دنیا کو بہتر جگہ بنانے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب کوئی ایسا کام کرنا ہے جس سے ان کی خوشی میں اضافہ ہو۔ خوشی سے مراد محض مادی خوشی نہیں ہے، اگرچہ یہ بھی ضروری ہے، مگر یہ کہ من کا سکون پیدا کرنا، نہ صرف تیکنیکی مہارت کا استعمال کرنا بلکہ زندگی میں جو مسٔلے مسائل پیش آئیں ان سے نمٹنے کے لئیے جذباتی مہارت پیدا کرنا ہے۔

میرے نزدیک یہ اخلاقی اقدار ہیں؛ دوسرے لفظوں میں، ہماری زندگی میں کیا چیز اہم ہے اور ہم اپنی زندگی کیسے بِتا رہے ہیں۔ قصہ مختصر، میرے خیال میں یہ امر نہایت اہم ہے، خصوصاً آپ جیسے نوجوانوں کے لئیے، کہ آپ کو اپنی تحریک پر سنجیدگی سے غور کرنا ہے۔ میں جو مطالعہ کر رہا ہوں، یہ میں کیوں کر رہا ہوں؟ میں زندگی میں کیا کارنامہ کرنا چاہتا ہوں؟ میں اپنے خاندان کے لئیے کیا حاصل کرنا چاہتا ہوں؟ میں مستقبل کے لئیے – یعنی آنے والی نسلوں کے لئیے کیا چھوڑ جانا چاہتا ہوں؟ اور مجھے یہ سب کچھ کیوں کرنا ہے؟ اس کے لئیے ہمیں اپنے اندر بہت سی کھوج کرنی پڑے گی، مگر ایسا کرنا نہایت ضروری ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ان سوالوں کے جواب مکمل طور پر تسلی بخش نہ ہوں۔ میرے خیال میں ہمارا فیصلہ کہ "کیا میں اپنے محرک کی اصلاح کروں یا نہ کروں؟" کی کسوٹی یہ امر ہونا چاہئیے کہ میں جو کر رہا ہوں کیا اس سے میری اور دوسروں کی مسرت میں اضافہ ہو گا یا نہیں، یا یہ کہ اس سے محض نئے مسائل پیدا ہوں گے؟ اس معاملہ کو پرکھنے کے سلسلہ میں مستقبل بعید میں ظہور پذیر اثرات مستقبل قریب کے اثرات سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔ اگر ہمارے اوپر ہمارا لائحہ عمل واضح ہو، اور ہم یہ دیکھیں کہ جس سمت ہم جا رہے ہیں وہ احسن ہے، تو اس سے ہمیں آسودگی اور طمانیت کا احساس ہو گا۔ 

ایک بات، میرے خیال میں، جو انسانوں کے لئیے مایوسی پیدا کرتی ہے وہ یہ کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کا کوئی مقصد، کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہم کوئی پیشہ اپناۓ ہوۓ ہیں مگر ہمارا دل اس میں نہیں لگتا۔ ہم محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کے مسائل، میرے دیس، میرے علاقے، میرے خاندان اور میرے اپنے مسائل – یہ سب حد سے زیادہ پریشان کن ہیں۔ تو اس سب کا کیا مطلب ہے، کیا ایسی من کی حالت کے ساتھ زندگی بسر کی جاۓ؟ یہ بہت افسوسناک بات ہے؛ ایسی زندگی خوشگوار زندگی نہیں ہے۔ مایوسی کے اس احساس پر قابو پانے کے لئیے ہمیں اپنی عزت، اپنے اوپر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کا اعادہ کرنا ہے کہ " بیرونی حالات خواہ کچھ ہی ہوں، میرے اندر اپنے آپ کو ایک بہتر انسان بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اور یہ نہ صرف مجھے ایک خوش تر انسان بنانے کے لئیے نہایت اہم ہے – اس امر کا اعتراف – بلکہ میرے ارد گرد ہر شخص پر میری اس من کی حالت کا اثر ہو گا۔ پس لوگوں کی مدد کرنا، خواہ طبی نقطہ نظر سے یا درس و تدریس کے حوالے سے ۔۔۔ یہ ایک اہم کام ہے۔ ہم یہ تو نہیں جانتے کہ مستقبل کیسا ہو گا لیکن اگر لوگ صحت مند ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں تو اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ حالات بہتر ہو جائں گے۔ اس کا تصور کرنا شائد مشکل ہو۔ اگر مستقبل میں مسائل کی افزائش ہو، تو ہم لوگوں کو ان سے نمٹنے کے لئیے بخوبی تیار کر سکتے ہیں۔
تو عدم تشدد اور روحانی اقدار کے متعلق یہ میرے خیالات ہیں۔

سوالات

ہماری جدید دنیا میں، بے شک ہم بدھ مت کی اقدار میں درد مندی پاتے ہیں۔ مگر حقیقی زندگی میں صورت حال بہت مشکل ہے اور بعض اوقات بچے ماں باپ کے بغیر پروان چڑھتے ہیں اور وہ بہت بے مہار ہوتے ہیں۔ اور ہمارے لئیے، اگر ہم معلم ہیں، انہیں درد مندی کا سبق دینا بہت مشکل کام ہے – یعنی انہیں ناتوانوں کے تحفظ اور انہیں نقصان پہنچانے سے باز رہنے کی تلقین بہت مشکل کام ہے۔ تو ہم بطور اساتذہ کے – ہم ان طالب علموں کو یہ سبق کیسے دے سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے طلبا کو جو مائل بہ تشدد ہیں، جن کی پرورش نہایت خراب معاشی اور سماجی حالات میں ہو رہی ہے؟

 میرے خیال میں ایسے بچوں کی مدد کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں کچھ دینے اور دینے میں سخاوت دکھانے کا موقع دیا جاۓ۔ دوسرے لفظوں میں اگر کسی شخص کو (مثلاً کسی بچے کو) دوسرے بچوں کو کچھ دینے کا موقع دیا جاۓ - جیسے کوئی کاغذ یا کوئی مکمل شدہ کام کا کاغذ آگے بڑھانے کا، یا وہ کوئی ایسا کام کریں جس میں فیاضی کا پہلو ہو – یعنی جس سے دوسروں کی مدد کرنا مقصود ہو۔ تو اس سے اس بچے کے اندر اپنی ذات کی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جب کوئی بچہ کسی ناساز حالات کا شکار ہو اور راندہ ہوا محسوس کرے تو وہ ایسی ماندگی کا رد عمل نہایت وحشیانہ طریقے سے کرتا ہے۔ "اگر مجھے دنیا اچھا نہیں جانتی کیونکہ میرے حالات اچھے نہیں ہیں، تو میں لوگوں کو دکھاؤں گا کہ میں کتنا برا ہوں،" پس دوسرے لفظوں میں وہ سماج دشمنی پیدا کرتا ہے، سماج کا حصہ بننے سے منکر ہے، جرائم پیشہ بنتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ طور طریقہ عام ہے۔ لیکن اگر انہیں ایک اچھا انسان بننے اور بن کر دکھانے کا موقع دیا جاۓ، کہ ان کے پاس بھی دینے کو کچھ ہے، تو خواہ وہ اسے خوش اسلوبی سے نہ بھی دیں – میرا مطلب ہے کہ عمدہ طور سے – پھر بھی، انہیں  یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے پاس دینے کو کوئی اچھی چیز ہے، نہ کہ محض بری چیزیں ہی۔ 

بدھ مت کے نظریہ سے کچھ دینے کا مطلب کسی قسم کی مثبت شکتی یا انعام لائق گن استوار کرنا ہے۔ مگر ہمیں اسے بدھ مت کے نقطہ نظر سے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ میرے خیال میں جو میں نے کہا اسے نفسیاتی لحاظ سے سمجھنا فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ لیکن انہیں کوئی مثبت یا تعمیری کام کرنے کو دینے میں یہ نہایت اہم ہے کہ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ یہ بطور سزا کے پیش کیا جا رہا ہے۔

اپنی زندگی میں کئی بار ہمیں کسی کو سزا دینا پڑتی ہے۔ مگر سزا دینے کا بھی کوئی طریقہ ہے، جب ہم کسی کو دوبارہ سزا دے رہے ہوں۔ اور اس طریق کار میں سب سے مفید کیا ہے – سزا یا کسی قسم کی سماجی خدمت؟ - اس شخص کے لئیے جسے سزا دی جا رہی ہے؟ یا اس شخص کے لئیے کسی قسم کا اخلاقی درس؟ مثلاً وہ لوگ جو مجرم ہیں اور قید میں ہیں – وہ لوگ جو بچے نہیں ہیں اور ہم انہیں سزا دینا چاہتے ہیں۔

اس سوال کا جواب دینا اس لئیے مشکل ہے کیونکہ ہر انسان ایک منفرد فرد ہے۔ مجھے جیل خانوں میں درس دینے کا کوئی ذاتی تجربہ نہیں ہے، لیکن میرے کئی بودھی ساتھیوں نے یہ کام کیا ہے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ جیل خانوں میں بند لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ وقت خرچ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کی زندگی کا جائزہ لینا بہت وقت طلب کام ہے – وہ اپنی زندگی میں کیا کرتے رہے ہیں اور وہ زندگی سے کس چیز کی توقع رکھتے ہیں۔ تو ایسے بے شمار قیدی ہیں جو اپنے غصہ اور اپنی تشدد پسند انگیخت کو قابو میں لانا چاہتے ہیں، اس لئیے وہ بدھ مت کے بنیادی طریقے یعنی مراقبہ اور سانس پر توجہ مرکوز کر کے شانت ہونے کے بہت خواہش مند ہیں۔ تو اس قسم کے لوگ ایسی مدد کے شدت سے طلبگار ہیں۔ لیکن ہر کوئی اس قسم کی مدد نہیں چاہتا، اور اگر وہ خواہش مند نہ ہوں تو ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ایسی صورت میں جب وہ اپنے آپ کو بہتر بنانا نہیں چاہتے، انہیں جسمانی سزا دینے سے ان کے اندر معاندت اور غصہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ 

نفسیات میں بعض مشقوں کا استعمال ہوتا ہے جو شائد یہاں کارگر نہ ہوں، مگر آپ کو اس کا تصور پیش کرنے کی خاطر بتاتا ہوں: جب کوئی بچہ، عام طور پر کوئی نوجوان، جو قطعی طور پر قابو سے باہر ہو، وہ انہیں کسی سفر پر ایک گروہ کی صورت میں کسی لیڈر کے ہمراہ لے جاتے ہیں، ان کے ساتھ ایک خچر بھی ہوتا ہے۔ خچر ایک نہایت ہٹیل جانور ہے اور اس سے وہ کام کروانا جو آپ چاہتے ہیں نہایت جوکھم ہے۔ وہ اس خچر کے ذمہ دار ہیں، انہیں اس سے نمٹنا ہے، اور انہیں اپنے غصہ اور بے صبری پر قابو پانا ہے، اور اس خچر سے معاملہ کرنا اور اس سے کام لینا ہے۔ تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ انہیں کوئی تعمیری کام کرنے کی ذمہ داری سونپنا – یعنی خچر سے کام لینا ہے۔ 

تو بعض اوقات بچوں کو کسی جانور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دینا ۔۔۔۔  جانور ان پر نکتہ چینی نہیں کرتا؛ لوگ نکتہ چینی کرتے ہیں۔ ایک کتا ۔۔۔  آپ خواہ اسے کتنی ہی سزا دیں، کتا پھر بھی آپ سے پیار کرتا ہے۔ تو اگر انہیں کسی اور سے معاملہ کرنے کا موقع دیا جاۓ، یہاں جیسے ایک کتے سے، اس سے کسی انسان کو سِدھایا جا سکتا ہے، انہیں شانت ہونے میں معاون ہو سکتا ہے، کچھ ذمہ داری قبول کرنے میں مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض لوگ نہایت دہشت پسند ہوتے ہیں اور انہیں ۔۔۔ اگر آپ ایک کتا دیں تو وہ کتے کو تکلیف پہنچائں گے، لہٰذا آپ کو بہت محتاط ہونا چاہئیے۔

 میری ایک ماہر نفسیات دوست ہے جو زیادہ تر پر تشدد نوجوانوں، سڑک پر رہنے والے بے گھر لوگ اور اس سے منسلک مسائل سے معاملہ کرتی ہے۔ ایک طریقہ جو وہ استعمال میں لاتی ہے، جس کے متعلق اس نے مجھے بتایا، وہ وہی بات ہے جو ہم کہہ رہے تھے، جو کہ ان بچوں  - جو کہ بہت پر تشدد ہیں – میں دلچسپی لینا اور انہیں بطور ایک انسان کے عزت دینا ہے۔ انہیں اہمیت دینا ہے۔ ان کی بات سننے کے لئیے وقت نکالنا اور ان کے مسائل کو سمجھنا ہے۔ جب آپ ان سے بات کر رہے ہوں تو ایک بات جس سے ہر صورت گریز کرنا ہے ، یعنی یہ مت کہیں،"تمہارا وقت ختم ہو گیا۔ اب تم جاؤ۔" وہ اس پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ یہ کسی کو رد کرنے والی بات ہے۔ 

پس اس سے ہم یہ سبق سیکھتے ہیں: اگر ہم کسی اڑیل طالب علم سے معاملہ کر رہے ہوں، تو اس طالب علم کو پورا وقت دیں۔ اس کی بات سنیں۔ آپ اس کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ (آپ چاہے اس کے مسٔلہ کا کوئی حل نہ بھی دے سکیں، مگر پھر بھی یہ بات بہت فائدہ مند ہے کہ آپ نے اس کی بات ہمدردی سے سنی۔) البتہ اس پر وقت کی پابندی کی شرط نہ لگائں، اور اس بچے کی بطور انسان کے عزت کریں۔ 

لیکن انہیں سزا دینے کے لئیے کیا کیا جاۓ۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آپ کے معاشرہ میں کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں ہے۔ لیکن سزا بطور غصہ کے اظہار کے فائدہ مند نہیں ہو گی۔

ہم لوگوں کے ساتھ روز مرہ معاملات میں ناروا حالت پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟

اگر ہم کسی بھی صورت حال جو نا خوشگوار ہو، جس پر ہم کشیدہ خاطر ہوں کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ اس کے پس پشت بے شمار اسباب اور حالات ہوتے ہیں – سماجی مسائل، معاشی مسائل، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آ رہا ہے ان کے گھریلو مسائل، ان کا پچھواڑا، وغیرہ۔ جب ہم اس سے کبیدہ خاطر ہوتے ہیں تو ہم در حقیقت اپنے من میں اس واقعہ یا جو بھی چیز ہمیں ناراض کر رہی ہے، اسے ہم ایک بڑا خوفناک عجیب الخلقت ٹھوس جانور بنا رہے ہیں۔ ہم اس سے منسلک اسباب اور حالات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اسے حقیقت سے متجاوز منفی نظر سے دیکھتے ہیں، اور چونکہ ہم اسے ایسا دیکھنا نہیں چاہتے تو اس کو رد کرنے کا جذباتی رد عمل غصہ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ 

اب ہم اگر اس پر غور کریں تو رد کرنے کا عمل ۔۔۔ اس کے پیچھے جو نظام کار ہے یعنی کہ "میری تمنا یہ ہے کہ یہ مصیبت، یہ مشکل دور ہو جاۓ، رفع ہو جاۓ۔" یہ ہے درد مندی۔ پس غصہ اور ناراضگی کا مد مقابل ہمیشہ پیار ہوتا ہے۔ پیار سے مراد دوسرے انسان کے لئیے مسرت اور مسرت کے اسباب کی خواہش ہے۔ ان کے خوفناک  رویہ کا سبب یہ حالات اور ان کی ناخوش حالت ہے۔ میں ان کی خوشی کا تمنائی ہوں تا کہ وہ اس ناروا اور خوفناک رویہ سے گریز کریں۔ انہیں خوشی دینے کی خاطر مجھے ان حالات کا پتہ لگانا ہے جو انہیں ناخوش کرتے ہیں اور انہیں بد سلوکی پر آمادہ کرتے ہیں، اور پھر مجھے یہ دیکھنا ہے کہ میں کیا تبدیلی لا سکتا ہوں۔ 

یہ چند ایک طریقے ہیں جنہیں ہم استعمال میں لاتے ہیں۔ یہ محض اس قسم کا تجزیہ ہے: اس بات کا سبب کیا کچھ ہے۔ ان اسباب کے باعث ان کا جو رویہ ہے میں چاہتا ہوں کہ وہ اسے ترک کر دیں۔ تو جو چیز ان کے رویہ پر اثر ڈال رہی ہے میں اسے کیسے تبدیل کر سکتا ہوں؟

بطور اساتذہ کے ہمارا واسطہ گونا گوں پس منظر سے تعلق رکھنے والے بچوں سے پڑے گا – ثقافتی، سماجی، مذہبی اتحاس - تو کیا ان بچوں کو نظم و ضبط سکھانے اور انہیں تعلیم دینے کے لئیے، ان مختلف قسم کے بچوں کے لئیے کیا صبر ہی کافی ہے؟

 میرے خیال میں بچوں کے معاملہ میں اہم ترین عناصر میں سے ایک بچوں میں دلچسپی ہے۔ جس کا مطلب ہے ان بچوں کے مذہبی اور سماجی پس منظر کی جانکاری لینا۔ جن لوگوں کو آپ تعلیم دینا چاہ رہے ہیں آپ ان کو جتنا زیادہ سمجھیں گے آپ اتنا ہی ان کی ضرورت کا تعین کر سکیں گے۔ تعلیم کا مقصد انہیں امتحان پاس کرانا نہیں بلکہ بہتر انسان بنانا ہے۔ پس ان کو جانیں۔ ان سے کہیں کہ وہ اپنے بارے میں، اپنے خاندان یا پچھواڑے یا ایسی ہی چیزوں کے بارے میں چھوٹے چھوٹے مضامین لکھیں۔ انہیں اپنے بارے میں کچھ کہنے کا موقع دیں۔ اس طرح آپ انہیں ذرا بہتر جان جائیں گے۔

میری اکثر ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے جو کسی معاملے میں اپنی راۓ دینے یا اپنے بارے میں کچھ کہنے سے ہچکچاتے ہیں، اس خوف سے کہ کہیں وہ رد نہ کر دئیے جائیں۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو ان کی تنگ نظری اور خوف پر قابو پانے میں کیسے ان کی مدد کی جاۓ؟

میرے خیال میں یہ مسٔلہ نوجوانوں کے لئیے حد درجہ اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ وہ اپنے دوستوں کے اظہار پسندیدگی کی حد سے زیادہ فکر کرتے ہیں۔ انہیں اس ججھک پر قابو پانے میں کیسے ان کی مدد کی جاۓ؟ بودھی آشرم کی تعلیم میں ایک طریقہ جو استعمال میں لایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی درس کے بعد تمام طلبا کو دو دو کے گروہوں میں بانٹ دیا جاتا ہے اور وہ آپس میں بحث مباحثہ کرتے ہیں – پھر وہ باقاعدہ بحث کرتے ہیں، سچ مچ میں منطقی بحث – جو انہیں ابھی بتایا گیا اس پر بحث کرتے ہیں یہ دیکھنے کے لئیے کہ کیا انہیں بات سمجھ میں آئی۔ پس وہ تمام جماعت کے سامنے بات نہیں کرتے، جس صورت میں بعض طالب علم ہو سکتا ہے کہ ان کا مذاق اڑائیں۔ لیکن جب آپ دو دو کی جوڑی میں ہوں تو آپ کو کچھ نہ کچھ کہنا پڑتا ہے۔ اور استاد گھوم پھر کر ہر گروپ کی بات ایک دو منٹ کے لئیے سن کر اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ اصل موضوع پر ہی بات کر رہے ہیں نہ کہ کوئی اور بات۔ یہ درس و تدریس کا نہایت عمدہ طریقہ ہے کیونکہ اس سے طالب علم بیکار بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ انہیں کچھ نہ کچھ کہنا ہے؛ انہیں دوسرے شخص کو جس کے ساتھ وہ بحث کر رہے ہیں یہ دکھانا پڑتا ہے کہ انہوں نے سبق پر توجہ دی اور اسے غور سے سنا۔ اس میں ججھک سے کام نہیں چلے گا۔ لیکن آپ کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہر بار ان کا ساتھی وہی ایک طالب علم نہ ہو؛ ان کو بدلتے رہنا ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے جسے آشرم کی شکشا میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہ فائدہ مند ثابت ہو۔

Top