نظر ثانی
ہم تقدس مآب دلائی لاما کے اشلوک پر بحث کو جاری رکھتے ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ ہم کیسے دو سچائیوں کو سمجھ کر چار بلند و بالا سچائیوں تک جا پہنچتے ہیں، اور پھر تین قیمتی جواہر پر اعتماد کیسے پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ دو سچائیاں ہمیں اشیاء کے وجود کے متعلق جانکاری دیتی ہیں:
- اضافی یا حقیقی سچائی؛ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے اس کے پس پشت اسباب اور حالات پائے جاتے ہیں۔ اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ دنیا کا کاروبار کیسے چلتا ہے، تو ہمیں یہ معاملہ نظر آئے گا۔ لیکن بد قسمتی سے، ہم چیزوں کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔
- عمیق ترین سطح پر حقیقت یہ ہے کہ اشیاء کا وجود اس نا ممکن روپ میں نہیں پایا جاتا جسے ہم اپنی الجھن کے باعث تصور میں لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم سوچتے ہیں کہ اشیاء خود بخود ہی آزادانہ طور پر جیسا ہم انہیں دیکھتے ہیں بغیر وجوہات، حالات، ان کے حصے یا کسی اور چیز کے وجود میں آ جاتی ہیں؛ لیکن یہ غلط ہے۔
پس یہ بنیاد ہے۔
چار بلند و بالا سچائیاں ہماری اس الجھن کی بات کرتی ہیں جس کا ہم حقیقت کی صحیح پہچان کے سلسلہ میں شکار ہوتے ہیں۔ جب ہم حقیقت کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہوں تو اس سے آزار جنم لیتا ہے: اس کا سبب دوسری بلند و بالا سچائی ہے اور آزار بذات خود پہلے والی۔ دوسری جانب، اگر ہمیں حقیقت کی درست شناخت ہو اور ہم ہر دم اس پر مرتکز رہیں، تو ہم تیسری بلند و بالا سچائی کے زیر اثر ہوں گے، جو کہ دکھ کی حقیقی روک تھام ہے۔ اس مسلک کی فہم، جو کہ چوتھی بلند و بالا سچائی ہے، حقیقی روک تھام کا باعث بنتی ہے۔
جب ہم حقیقت سے متعلق شک و شبہ میں ہوتے ہیں، تو ہم لا علمی اور الجھن سے مغلوب ہو کر کچھ کرتے ہیں اور اپنے اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم کو ہوا دیتے ہیں۔ اگر ہم اس بے خبری سے نجات پا لیں، تو معاملہ اُلٹ ہوجاتا ہے – اور ہم اس سمساری پنر جنم سے نجات پا سکتے ہیں۔
تین قیمتی جواہر
اب ہم اشلوک کی تیسری سطر کا مطالعہ کریں گے:
صحیح شناخت کی بدولت، تین پناہوں کے حقیقت ہونے کے متعلق ہمارا تیقن اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا کہ تین پناہوں سے مراد بدھا، دھرم اور سنگھا ہے۔ یہ سنسکرت کے الفاظ ہیں۔ شکیا مونی مہاتما بدھ اور دیگر تمام بدھا وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے روشن ضمیری پائی ہے اور ہمیں اسے پانے کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم کا نام دھرم ہے۔ سنگھا بر گزیدہ ہستیاں ہیں۔ یہ ادراک کا ایک پہلو ہے، لیکن اس کا گہرا مطلب بھی ہے۔
گہری سطح پر اس کا مطلب یہ ہے کہ دھرم حقیقی کامیابیوں کا نام ہے – خاص طور پر تیسری اور چوتھی بلند و بالا سچائی کو پا لینے کا۔ جیسا کہ آپ کو یاد ہو گا، کہ تیسری سچائی کا تعلق دکھ اور اس کے اسباب کی حقیقی روک تھام سے ہے، اور یہ درجہ بدرجہ وقوع پذیر ہوتا ہے۔ جب ہم اسے پوری طرح پا لیں، تو ہمیں اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم (سمسار) سے نجات مل جاتی ہے۔ پھر ہم ان اسباب کو سمجھنے پر کام شروع کر دیتے ہیں جو ہمیں علت و معلول کے متعلق تمام تفصیلات کو جاننے سے روکتے ہیں، تا کہ ہم یہ جان سکیں کہ سب کو کیسے نروان کی راہ پر ڈالا جائے، اس طرح ہم خود روشن ضمیر بدھا بن جاتے ہیں۔ چوتھی سچائی وہ ادراک ہے جو اس حقیقی روک تھام سے پیدا ہوتا ہے اور اس روک تھام کا سبب بنتا ہے۔
یہ دونوں مل کر پناہ بنتے ہیں 'پناہ' ایسی چیز ہے جو ہمیں تحفظ دیتی ہے، یہاں اس سے مراد آزار سے تحفظ اور دوسروں کی مدد نہ کر سکنے کی اہلیت سے تحفظ ہے۔ اگر ہم حقیقی روک تھام اور من کے سچے چلار کو پا لیں، تو پھر ہم دکھ درد اور دیگر کی مدد کرنے کی عدم صلاحیت کے بارے میں لا علمی سے واسطہ پڑنے سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی اور نے اسے پا لیا ہے اور ہم محض اپنے آپ کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں، تو ہم کسی طرح جادو کے زور سے محفوظ ہو جائں گے۔
یہ جو "ابراہیمی ادیان" یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام ہیں – انہیں تاریخ پر مبنی مذاہب کہا جاتا ہے۔ ان سب میں کوئی تاریخی شخصیت پائی جاتی ہے جس پر ایک تاریخی اہمیت کے حامل مشہور واقعہ کے طور پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی۔ پھر انہوں نے اس حقیقت کو آشکار کر دیا اور بات مکمل ہو گئی۔ ہم وہ کچھ نہیں کر سکتے جو حضرت عیسیٰ یا موسیٰ یا محمد نے کیا، ہمیں بس ان پر ایمان لانا ہے۔ جس کی بدولت ہم اپنے دکھ درد سے بچ جائں گے۔ ایمان سے یہاں مراد یا تو اس شخصیت کی ذات پر ایمان ہے یا جو ان کی تعلیم تھی یا انہوں نے وا کیا، جیسے خدا کا حضرت موسیٰ کو دس احکامات دینے کا تاریخی واقعہ، یا حضرت عیسیٰ پر نئی کتاب کا نزول، یا حضرت محمد پر قرآن کا نزول۔ ایسے تاریخی واقعات ان مذاہب کا بنیادی عنصر ہیں۔
ہندوستانی مذاہب، جیسے ہندو مت، بدھ مت، جین مت، کو "دھرمی مذاہب" کہا جا سکتا ہے، جو کہ بالکل مختلف ہیں۔ مہاتما بدھ، یا کرشن یا مہاویر (جین مت کا بانی) کا ظہور مرکزی حیثیت نہیں رکھتا۔ بلکہ ہم بذات خود، اور ہر کوئی، وہی حالت پا سکتے ہیں جو ان ہستیوں نے پائی۔ بدھ مت کے زمرے میں، ہم سب نروان اور روشن ضمیری پا سکتے ہیں، اور دوسرے دھرم بھی نروان کا اپنا اپنا روپ پیش کرتے ہیں۔ ہمارے مغربی، ابراہیمی مذاہب اور ہندی مذاہب کے درمیان یہ سب سے بڑا فرق ہے۔
جب ہم تین پناہوں کو دیکھتے ہیں تو یہ امر اہم ہے کہ ہم انہیں اپنے ابراہیمی مذاہب کے آئینے میں جس کے ہم عادی ہو چکے ہیں نہ دیکھیں۔ یہ ایسی بات نہیں ہے کہ مہاتما بدھ وہ واحد ہستی تھی جس نے روشن ضمیری پائی، اور یہ کہ اگر ہم اس پر ایمان لے آئں تو ہم محفوظ ہو جائں گے۔ عام طور پر میں "پناہ" کا لفظ استعمال کرنے سے گریز کرتا ہوں کیونکہ یہ مجہول قسم کا تاثر دیتا ہے، جیسا کہ ہم یہ کہیں"مہاتما بدھ، مجھے بچا لو!" اور ہم محفوظ ہو جائں۔ بدھ مت میں ایسا نہیں ہوتا۔ میں "محفوظ راہ" کی اصطلاح کو ترجیح دیتا ہوں، جس کے مطابق مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا ہمارے لئیے ایک محفوظ راہ کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جس پر چل کر ہم وہ بھی حاصل کر سکتے ہیں جسے مہاتما بدھ نے ہمارے لئیے پایا۔ اگرچہ مہاتما بدھ نے ہمیں اپنے آپ کو محفوظ کرنے کا طریقہ بتایا مگر اس پر عمل کرنا ہمارا کام ہے۔ ہم اپنی خاطر اپنی جد و جہد سے اسے پا سکتے ہیں، جو کہ ہمیں آزار سے تحفظ پانے میں مدد دے گی۔
دھرم جوہر
جب ہم دھرم کے عمیق ترین جوہر کی بات کرتے ہیں، یا آپ اسے جو بھی کہنا چاہیں، یہ ایسی چیز ہے جو نایاب اور قیمتی ہے، جو کہ ان دو حروف کا لفظی مطلب ہے جن کا تبت والوں نے یہاں ترجمہ 'جوہر' کیا ہے۔ ہم سچی روک تھام والی حالت کی بات کر رہے ہیں، اور من کے ان چلار کا حصول جو اس کا باعث بنتے ہیں اور ان سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں ہم نے خود پانا ہے، لہٰذا ہمیں ان کے حصول کا یقین ہونا لازم ہے۔ ہمارا دو سچائیوں اور چار سچائیوں کا مطالعہ ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ نروان اور روشن ضمیری نام کی کوئی چیزیں موجود ہیں، اور یہ کہ ہم خود انہیں پا سکتے ہیں۔
بدھا جوہر
بدھا وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے مکمل طور پر نروان اور پھر روشن ضمیری پا لی ہے۔ اس میں صرف مہاتما بدھ شکیامونی ہی نہیں بلکہ اور کئی بدھا بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئیے خود یہ حالتیں پانے کی تعلیم دی ہے اور راہ دکھائی ہے۔ وہ ہمیں دو طرح سے تعلیم دیتے ہیں: ان کی تعلیم سے اور ان کی مثال سے، جو کہ ان کی بصیرت اور ادراک پر مبنی ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے، کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم دیگر لوگوں کو نہ صرف زبانی تعلیم سے بلکہ اس کی مثال قائم کر کے جس کی ہم تعلیم دے رہے ہیں سیکھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔ دھرم کوئی تجریدی تعلیم نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی شے ہے جس کا لوگ اور ہم احاطہ کر سکتے ہیں۔
سنگھا جوہر
بعض لوگ سوال کر سکتے ہیں کہ ہمیں اس تیسرے جوہر، آریہ سنگھا، کی کیا ضرورت ہے؟ بے شک دھرم اور مہاتما بدھ ہی کافی ہیں؟ اگرچہ سنگھا بھکشو اور بھکشونیوں پر مشتمل ہے، لیکن سنگھا جوہر یہ نہیں ہے۔ جس طرح مورتیاں اور تصویریں بدھا کا روپ ہیں اور کتابیں دھرم کا نمونہ ہیں، تو وہ محض نمونے ہیں۔ جس طرح کوئی چیز جو بدھا، دھرم اور سنگھا کا نمونہ ہے، یہ مورتیاں، کتابیں اور بھکشو اور بھکشونیاں ہمیں تکریم دکھانے کی خاطر کوئی مرکزی نکتہ مہیا کرتے ہیں، کیونکہ تجریدی اشیاء کو حرمت دکھانا آسان کام نہیں ہے۔ بے شک اس کے مطالب گہرے ہیں۔
سنگھا جوہر نہائت اہم ہے۔ سنگھا سے مراد وہ آریہ ہیں جنہوں نے چار بلند و بالا سچائیوں کا غیر تصوراتی روپ جو کہ دو سچائیوں پر مبنی ہے دیکھا ہے۔ چونکہ ان کا مشاہدہ غیر تصوراتی ہے، تو انہوں نے سچی روک تھام پر کچھ قدرت پا لی ہے، اور من کی سچی راہ کو بھی کسی حد تک پا لیا ہے، مگر پوری طرح نہیں پایا۔ آہستہ آہستہ زیادہ ترقی یافتہ آریہ دونوں کی مزید باریابی کے اہل ہوتے ہیں، تا وقتیکہ وہ نروان حاصل کر لیں اور پھر آخرکار روشن ضمیر ہو جائں۔ بلند و بالا سچائیوں کو آریہ سچائیاں کہتے ہیں – یہ آریہ ہیں – وہ جنہیں حقیقت کی غیر تصوراتی شناخت ہے – اسے سچ مانتے ہیں۔ اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے:
- کہ یہ محض بدھا ہی نہیں جو اس سب کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور سچی روک تھام اور من کے سچے چلار کو پا لیتے ہیں۔ بلکہ یہ ایک بتدریج سلسلہ ہے۔
- نروان اور روشن ضمیری کے حصول سے قبل ہی ہم سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اور سچے آزار کے بعض پہلووں سے نجات پا لیتے ہیں، کیونکہ ہم ان کے اصل اسباب کے مختلف درجات سے جان چھڑا رہے ہیں۔
نروان اور روشن ضمیری بتدریج ظہور پذیر عناصر ہیں، جو کہ ہمارے بدھا بننے یا نروان پانے سے بہت پہلے شروع ہو جاتے ہیں۔ بدھا کی نسبت آریہ کی بات کو سمجھنا قدرے اسان ہوتا ہے کیونکہ وہ ابھی بھی کچھ مسائل سے دوچار ہیں، اور ان میں سے بعض مکمل طور پر اضطراری، رو بہ اعادہ پنر جنم سے آزاد نہیں ہوئے، لیکن انہیں جزوی آزادی ملی ہے۔ اس طرح، ان کو سمجھنا قدرے آسان ہے۔
آریہ سنگھا حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ترغیب دلاتے ہیں کہ اگر ہم، قدم بہ قدم، اس محفوظ راہ پر چلیں جس پر وہ چلے ہیں تو ہم بھی نروان اور روشن ضمیری کے حتمی ہدف کو پا سکتے ہیں۔ ہم اگر آخری حد تک نہ بھی پہنچ پائں، پھر بھی ہم، وقتی طور پر، اپنے آپ کو کسی حد تک آزار سے بچا سکیں گے، کیونکہ ہم اس بے خبری سے کسی حد تک آزاد ہو چکے ہوں گے جو آزار کا سبب ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کس حد تک حقیقت پر پوری طرح اپنی توجہ مرتکز رکھ سکتے ہیں۔ آپ ابھی بھی آریہ ہیں اگر آپ ہمہ وقت مرتکز نہیں ہیں، لیکن اگر آپ بدھا ہوں گے تو آپ ہمہ وقت توجہ قائم رکھنے کے قابل ہوں گے۔
نروان اور روشن ضمیری ایک ہی چیز نہیں ہیں۔ نروان کا مطلب اضطراری، رو بہ اعادہ پنر جنم سے نجات ہے، جس کو حاصل کر کے ہم ارہت، یعنی آزاد ہستیاں، بن جاتے ہیں۔ روشن ضمیری تب آتی ہے جب ہم نہ صرف جذباتی ابہام سے نجات پا لیتے ہیں – پریشان کن جذبات اور اپنے وجود کے قیام سے متعلق عدم آگہی – بلکہ ہم ادراک کے ابہام سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں – یعنی عدم آگہی کی مسلسل عادات۔
دوسرے لفظوں میں، ہماری نا ممکنہ تصورات پر یقین رکھنے کی عادات – اس کے سبب ہمارے من کی کاروائی تصورات قائم کرتی رہتی ہے، اور ہم ان کے سچ ہونے پر یقین قائم اور جاری رکھتے ہیں۔ اس سے ہمارے پریشان کن جذبات جنم لیتے ہیں۔ ہمیں اس وقت مکش نصیب ہوتا ہے جب ہم ان گمراہ کن تصورات پر حقیقت کا گمان کرنا چھوڑ دیں۔ ہم جان لیتے ہیں کہ یہ سب کوڑا کرکٹ ہے، اور اگرچہ اشیاء ایسی نظر آتی ہیں لیکن یہ ان کا حقیقی روپ نہیں ہے۔ ہمارا مشاہدہ ابھی بھی محدود ہو گا اور ہم چیزوں کو ڈبوں میں بند شکل میں دیکھیں گے، سب سے بے نیاز، لیکن ہم اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ یہ ان کا اصلی روپ نہیں ہے۔
جوہری طبیعات کی سادہ ترین سطح پر، ہم ایٹم اور شکتی کے علاقے وغیرہ دیکھتے ہیں، مگر کسی شے کے ارد گرد کوئی ٹھوس لائن کھنچی ہوئی نظر نہیں آتی جو یہ کہے، "لائن کے اس طرف، وہ ایک شے ہے۔ اور دوسری طرف، ادھر کچھ نہیں۔" اشیاء کا وجود ٹھوس نہیں ہے جیسا کہ وہ لگتا ہے۔ اگر ہم شناخت کے ابہام سے نجات پا لیں جو ان گمراہ کن تصورات کا سبب بنتے ہیں، تو پھر من ان کو تشکیل دینا چھوڑ دیتا ہے اور ہم روشن ضمیر ہو جاتے ہیں، اور ہمیں تمام اشیاء کا بیک وقت باہمی جوڑ اور تعلق نظر آنے لگتا ہے۔ اس سے ہمیں دوسرے لوگوں کو ان کی خاطر نروان اور روشن ضمیری کی راہ دکھانے کا نہائت ماہرانہ طریقہ مل جاتا ہے۔
جب ہم آریہ کا ذکر کرتے ہیں تو ہم محض بودھی ستوا آریہ کی بات نہیں کرتے، وہ جو کہ روشن ضمیری کا ہدف رکھتے ہیں۔ ہم ان آریہ کی بات بھی کرتے ہیں جو نروان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم محفوظ راہ کے سلسلہ میں تین جواہر کا ذکر کرتے ہیں تو ہم یا تو ان کی بات کرتے ہیں جو نروان پانا چاہتے ہیں، یا دونوں ہی یعنی نروان اور روشن ضمیری، نہ کہ محض وہ بودھی ستوا جو روشن ضمیری چاہتے ہیں۔
تین جواہر پر یقین کامل استوار کرنا
اگر ہم دو سچ اور چار سچ کو سمجھیں یعنی کہ ہم کیسے سمسار میں گرفتار ہیں، اور کیسے اس سے نکل سکتے ہیں، تو پھر ہمیں عمیق ترین دھرم جوہر کے وجود کا یقین ہو جاتا ہے، کہ یہ واقعی ایک حقیقت ہے۔ ہم اس الجھن کو صاف صاف سمجھنے لگتے ہیں کہ نا ممکن روپ کی تشکیل ایسا روپ جو گمراہ کن ہو، یہ ہمارے من کی فطری کاروائی نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اگر ہم عدم آگہی کی عین تنقیض پر ارتکاز کریں تو ہم اس سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
دوسرے لفظوں میں، جب آپ اشیاء کے وجود کے متعلق دو سچائیوں کی آگہی پر توجہ مرکوز کریں، تب آپ کو گمراہ کن روپ سے پالا نہیں پڑتا، اور بے شک آپ ان پر یقین نہیں رکھتے۔ اگر آپ اس آگہی پر مکمل ارتکاز قائم رکھیں، یعنی سچا راستہ، تب آپ کو سچ مچ کی روک تھام نصیب ہو گی، اور اسے منطق کی حمائت حاصل ہے۔ آپ اس امر کی توثیق کر سکتے ہیں کہ یہ حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے، اور یہ ایسا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ آپ کو آئیندہ عدم مسرت اور معمولی خوشی کے آزار سے پالا نہیں پڑے گا، اور نہ ہی اضطراری، رو بہ اعادہ وجود سے۔
آپ اس پر یہ سوال اٹھا سکتے ہیں، "اگر آپ ہر وقت عدم آگہی پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھیں، تو آپ ادراک اور آگہی سے محروم رہیں گے،" تو کون سی صورت زیادہ طاقتور ہے – ایسی عدم آگہی پر مرتکز رہنا جو حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتی، یا ایسی آگہی پر ارتکاز جو حقیقت کے مطابق ہے؟
اگر ہم اس کا تجزیہ کریں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ عدم آگہی کے پس پشت کوئی ٹھوس شے نہیں، جبکہ درست فہم کو منطق کی پشت پناہی حاصل ہے۔ معاملات وجوہات اور حالات کی پیداوار ہوتے ہیں، وہ اپنی ہی قوت سے معرض وجود میں نہیں آ جاتے۔ مزید یہ کہ اگر ہم درست فہم پر اپنی توجہ ہمہ وقت قائم رکھیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے: ہم دوبارہ کبھی دکھ اور سمساری پنر جنم کا شکار نہیں ہوتے۔
اس سے ہم پھر چار بلند و بالا سچائیوں کی جانب لوٹتے ہیں۔ ہمارا ہدف کیا ہے؟ کیا ہم ہمیشہ کے لئیے دکھ جھیلنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے، تو ہم عدم آگہی پر توجہ قائم رکھ سکتے ہیں، اور ہم دکھ اٹھائں گے؛ یہ سادہ سی بات ہے۔ اگر آپ ایسا کرنا چاہیں تو شوق سے کیجئیے! لیکن اگر آپ اس سب سے نجات چاہتے ہیں، جو کہ بدھ متی روحانی مسلک کا مدعا ہے، تو پھر صاف ظاہر ہے کہ آپ کو حقیقت پسندی کے ساتھ آگہی پر توجہ مرکوز رکھنی ہے۔
پناہ کے موضوع کو سمجھنے کا یہ طریقہ درست فہم کا مرہون منت ہے، تب ہمارا یقین کہ تین پناہ گاہیں حقیقی ہیں مضبوط ہوجاتا ہے۔ ہم ایسا مفروضہ قائم کرنا یا یہ امید کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ اگر ہم یہ مسلک اختیار کریں، تو ہم دکھ سے نجات پا لیں گے، کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ "ہمارے گرو نے کہا کہ یہ ایسے ہے!" اس کی بجائے اس کی بنیاد درست فہم پر ہو گی جو کہ استدلال اور منطق پر قائم ہے۔
درست فہم حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں – یا تو استدلال اور منطق کی بنیاد پر یا پھر سیدھا سادہ مشاہدہ، جیسے دیکھنا، سننا، یا ہمارا خود اسے عدم تصوراتی انداز سے محسوس کرنا۔ اس دوسرے والے طریقے میں مشکل یہ ہے کہ آپ کو خود اسے محسوس کرنے کے لئیے آپ کا نہائت ترقی یافتہ ہونا ضروری ہے، لہٰذا آپ کو اپنے لئیے ٹھوس شناخت پیدا کرنے کے لئیے استدلالی منطق سے شروعات کرنی چاہئیے۔
روحانی مسلک پر پیش قدمی
اب ہم چوتھی سطر پر کام کریں گے:
مجھے اس راہ پر گامزن من جو نروان کی جانب لے جاتا ہے کی جڑ کو نقش کرنے کی ترغیب عطا فرما
جب ہم نروان کی راہ پر گامزن من کی بات کرتے ہیں، تو اسے مختلف طریقوں سے بیان کیا جا سکتا ہے جن میں سے ایک ترغیب کے تین عناصر ہیں، جسے عام طور پر تبتی اصطلاح میں "لم -رم" (تین درجات) کہتے ہیں۔ یہ تین درجے ترقی کی راہ پر تین منزلیں ہیں:
- پہلا درجہ بد ترین پنر جنم سے نجات پانا ہے، اور بہتر پنر جنم کی باریابی ہے۔ ہم بہتر پنر جنم کے خواہاں ہیں جس میں کم سے کم آزار ہو، کیونکہ اس طرح ہمارے لئیے روحانی سفر جاری رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارا پنر جنم کسی لال بیگ کی شکل میں ہو، تو روحانی استواری کے معاملہ میں ہم بے بس ہوتے ہیں۔ بد ترین پنر جنم سے بچنے کے لئیے، ہمیں ضمنی حقیقت کے متعلق اپنی غلط فہمی کو دور کرنا ضروری ہے، جو علت و معلول پر مشتمل ہے۔ بد ترین پنر جنم کی بڑی وجہ تباہ کن رویہ ہے، اور ہمارے اس رویہ کا سبب یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کے نتائج سے بے خبر ہیں، یا ہم ان سے خوشی پانے کی توقع کرتے ہیں۔
- درمیانہ درجہ پر ہم تینوں قسم کے آزار – عدم مسرت، عمومی مسرت، اور ان دونوں کی بنیاد، جو ہمارا اضطراری پنر جنم ہے، سے نروان پانے کا عہد باندھتے ہیں۔ ایسا کرنے کی خاطر ہمیں خالی پن کو سمجھ کر عمیق ترین حقیقت کے بارے میں اپنی الجھن سے چھٹکارا پانا ہے۔ در حقیقت ہمیں چار بلند و بالا سچائیوں کی ہمہ وقت فہم کو استوار کرنا ہے۔ اس سب پر بیک وقت ارتکاز قائم رکھنا نہائت مشکل کام ہے، اس لئیے ہمیں آگے بڑھنا ہے۔
- ترقی یافتہ درجہ سے مراد مہاتما بدھ جیسی روشن ضمیری حاصل کرنا ہے تا کہ ہم ہر ممکن طریقہ سے ہر کسی کی مدد کر سکیں۔ عمیق ترین حقیقت کے اوپر توجہ قائم رکھتے ہوئے ہم ذیلی حقیقت کو بھی پوری طرح سمجھتے ہیں۔ صرف کوئی بدھا ہی ہمہ وقت بیک وقت دونوں سچائیوں پر مرتکز رہ سکتا ہے۔
اگر ہم اس سطر پر غور کریں، "دو سچائیوں سے، چار سچائیاں؛ چار سچائیوں سے، تین پناہ گاہیں،" یہ مذکورہ بالا تین درجات کی بنیاد ہیں، اور وہ مراقبے جو اس ہدف کو پاتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ جڑ ہے، اور جڑ بیج نہیں ہوتی۔ جڑ کسی پودے کو استحکام اور مضبوطی دیتی ہے۔ اگر ہم منطق کی بنیاد پر اس بات کا یقین رکھتے ہوں کہ ہدف قابل حصول ہیں، وہ وجود کے حامل ہیں، اور یہ امر حقیقی ہے کہ ہم بذات خود انہیں پا سکتے ہیں، تو صاف ظاہر ہے کہ اس سے ہمیں استقامت ملے گی جو ہمارے ہدف کی جانب روحانی سفر پر ہماری مدد گار ہو گی۔
دیگر نظریات کے مطابق تین درجات کی جڑ روحانی گرو کے ساتھ صحتمند تعلق ہے، اور آپ کو یہ بات لم -رم کے تمام صحیفوں میں ملے گی۔ یہ صحتمند تعلق سارے روحانی سفر کی بنیاد ہے اس لحاظ سے کہ ہمیں استاد سے ترغیب ملتی ہے، اور یہ اس ترغیب کی بدولت ہے کہ ہم طاقت اور شکتی سے سرشار اپنے مدعا کی جانب بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
یہاں بھی ہمیں روحانی سفر کو مستحکم انداز سے جاری رکھنے کے ضمن میں دو راستے نظر آتے ہیں:
- ایک طریقہ تو ہمیں گرووں سے ملنے والی طاقت اور ترغیب کو کام میں لانا ہے۔ اس کی بنیاد پر ہم عاقلانہ طور پر یوں کہتے ہیں: " میرا استاد علم کا صحیح منبع ہے۔ لہٰذا یہ جو میرا استاد کہتا ہے کہ روشن ضمیری پانا ممکن ہے تو یہ سچ ہے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ میرا گرو یہ بات گھڑ لے۔" پس یہاں ایک خاص قسم کا منطق کار فرما ہے۔ لیکن بیشتر لوگوں کو اس کا جذباتی سطح پر تجربہ ہوتا ہے، جس میں گرو ہمارے جذبات کو اس حد تک ابھارتا ہے کہ اس سے ملنے والی بے پناہ شکتی کے ساتھ ہم مسلک پر چل نکلتے ہیں۔ یہ بودھی چت استوار کرنے کے دو طریقوں سے ملتا جلتا ہے۔ اس سے ہم ضمنی بودھی چت استوار کرنے کی شروعات کرتے ہیں جس میں ہم دوسرے لوگوں کی مدد کرنے پر مائل ہوتے ہیں اور جہاں سے ہم روشن ضمیری پانے پر مائل اور قائل ہوتے ہیں کہ اس کا حصول ممکن ہے۔ پھر بعد میں ہم منطق کی بنیاد پر یہ تیقن پا لیتے ہیں کہ یہ قابل حصول ہے۔
- دوسری جانب، جب ہم اپنے پاٹھ پر غور کرتے ہیں جس سے ہم نے پہلے پہل عمیق ترین بودھی چت استوار کیا، تو ہمارا اشلوک میں بیان شدہ خالی پن پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔ پہلے تو ہمیں اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اس کا حصول ممکن ہے، اور پھر ہم روشن ضمیری پانے کے جذباتی پہلو پر کام کرتے ہیں، اپنے دل کشادہ کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
روحانی مسلک کو پانے کے دونوں ہی طریقے درست ہیں، اس سب کا انحصار ہماری اپنی صلاحیت پر ہے۔ صحیفوں میں بتایا گیا ہے کہ جن لوگوں کی صلاحیتیں اور عقل تیز ہوتی ہے وہ منطقی نظریہ کو اپنی شخصیت کے حوالے سے زیادہ موزوں پاتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو زیادہ عاقل نہیں ہوتے وہ جذباتی سطح پر کام کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اس دوسرے گروہ کے لئیے، گرو سے ملنے والی ترغیب اور محبت اور درد مندی کے جذبات پر بھروسہ زیادہ کار آمد ہوتا ہے۔
کئی لحاظ سے، میرے خیال میں دونوں طریقوں کے درمیان توازن قائم رکھنا اچھی بات ہے۔ ہم اس میں ایک تیسرا طریقہ جو کہ عقیدت پر مبنی ہے شامل کر سکتے ہیں۔ بعض لوگ روشن ضمیری پانے کی خاطر ترغیب حاصل کرنے کے لئیے وہ رسوم جن پر دھرم اچاری ہزارہا سال سے کار بند ہیں کو اپناتے ہیں۔ ہمیں بدھ مسلک کو پانے کے دوسرے طریقوں کو کمتر نہیں جاننا چاہئیے محض اس لئیے کہ ہم اپنے مخصوص طریقہ کو زیادہ آسان پاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے آپ کو اور اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح استوار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں تینوں طریقوں کے مابین توازن قائم رکھنا ہو گا۔
تقدس مآب دلائی لاما نے اس خاص اشلوک کو جس خاص دعا میں بیان کیا ہے یہ اس کا بنیادی روپ ہے۔ جیسا کہ میرا استاد کہا کرتا تھا کہ جس طرح آپ ایک گائے کا دودھ نکالتے ہیں ایسے ہی آپ ان چھوٹے چھوٹے اشلوکوں سے بہت سارے معانی نکال سکتے ہیں۔
سوال جواب
چار بلند و بالا سچائیوں کا عملی اطلاق
اگر میرا کوئی دوست ہر وقت فکرمند رہتا ہے، تو میں اسے کہہ سکتا ہوں کہ دھیرج سے کام لے اور معاملات کے بارے میں اتنا سنجیدہ نہ ہو۔ ہم اپنے آپ کو اور دوسرے لوگوں کو اس بات کی یاد دہانی کروا سکتے ہیں۔ لیکن ایسی صورت میں کیا کیا جائے جب میں دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے میں خود غرضی کا مظاہرہ کروں، تو کیا ایسا کوئی منتر یا یاد دہانی ہے جسے میں اپنی خود غرض سوچ اور حقیقت کے درمیان تفریق کرنے میں کام میں لا سکوں؟
عظیم تبتی گرو سانگخاپا کے مطابق ماسوا اس کے کہ جب ہم خالی پن پر عدم تصوراتی انداز سے مرتکز ہوں، ہمارے من کی کاروائی وجود کی نا ممکن حالتوں کو تصور میں لاتی ہے۔ ایسا ہر دم ہوتا ہے۔ ہر وہ لمحہ تردید کا لمحہ ہے جب ہم گہرے مراقبہ میں نہیں ہوتے۔
ان گمراہ کن تصورات جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں کا تجزیہ کرنے میں کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں معاون ہو سکتی ہیں۔ تصور کے "غبارہ کو پھاڑنے" میں ایک مدد گار صورت یہ ہو سکتی ہے کہ، لیکن اسے غیر ثنوی انداز سے کرنا ہو گا، جیسا کہ، یہاں کوئی "میں" ہمراہ ایک پِن کے اور وہاں ایک بہت بڑا غبارہ موجود نہیں ہے، اور "میں" جا کر غبارہ پھاڑ دیتی ہے۔ بات محض اتنی ہے کہ غبارہ – اشیاء کے وجود کا مبالغہ آمیز روپ – پھٹ گیا ہے۔ دھوکہ دہ صورت یہ ہو سکتی ہے "تم نہائت قبیح انسان ہو" یا "یہ صورت حال جس کا میں شکار ہوں نہائت خوفناک ہے" اور ہم اسے تمام اسباب، حالات اور دوسرے سب لوگ جنہیں اس قسم کی صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے کے تناظر میں نہیں دیکھتے۔ تب ہم خیال کرتے ہیں، "میں بیچارہ!" ہم اس کی تباہی کا تصور کرتے ہیں۔
ایک اور مثال ایک کھلی کتاب سے تعلق رکھتی ہے، جس کا ایک صفحہ یہ کہتا ہے " میں بیچارہ اس مشکل میں پھنسا ہوا ہوں،" اور دوسرا وہ خوفناک صورت حال جس سے ہم نمٹ نہیں سکتے۔ یہ ایک پریوں کی خوفناک کہانی کی مانند ہے۔ ہمارے من میں کتاب کے بند ہونے کا تصور موجود ہے، اور یہیں پر کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ ہم اسے ثنویت کی کتاب کا بند ہونا سمجھتے ہیں، مخصوص اصطلاح کے مزید استعمال میں!
اگر آپ کو کسی منتر کی تلاش ہے تو آپ اسے "کچرا" یا "کوڑا کرکٹ' کہ سکتے ہیں اس بات کی یاد دہانی کے ساتھ کہ ہمیں جو نظر آتا ہے وہ بنیادی طور پر کچرا ہی تو ہے۔ اصل بات اس بات کو یاد رکھنا ہے۔ اس کی سب سے زیادہ ضرورت تب پڑتی ہے جب ہم کسی پریشان کن جذبہ سے مغلوب ہوں۔ جو مثال تبتی لوگ استعمال کرتے ہیں وہ یہ کہ جب آپ پر کسی برے کام کا جھوٹا الزام لگایا جائے تو اس وقت آپ کیسا محسوس کرتے ہیں، اور اس چیز کا زبردست احساس کہ "میں نے ایسا کام نہیں کیا! تم مجھے جھوٹا اور چور بنا رہے ہو!" ایک ٹھوس میں کا زبردست احساس ابھرتا ہے۔
بدھ مت اور دیگر مذاہب کے درمیان فرق
آپ نے بتایا کہ بعض اور مذاہب بھی موجود ہیں، اور سب کا یہ کہنا ہے کہ مسائل موجود ہیں اور ان مسائل سے نجات بھی ممکن ہے۔ بے شک، ہر مذہب یہ دعویٰ کرے گا کہ ان کا طریقہ بہترین ہے، تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس معاملہ میں بدھ مت میں کیا خاص بات ہے؟
آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ ہندو مت، بدھ مت اور جین مت سبھی اضطراری، رو بہ اعادہ پنر جنم سے نجات پانے کی بات کرتے ہیں، اور نروان کی حالت کو بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ نروان پانے کے لئیے حقیقت کا ادراک لازم ہے، جو بھی ان کا حقیقت کا تصور ہے۔ اس لحاظ سے بدھ مت ہندی مذاہب کے سانچے میں پوری طرح منطبق ہے۔ جو چیز بدھ مت کو امتیاز بخشتی ہے وہ چار بلند و بالا سچ ہیں۔ بدھ مت کہتا ہے:
- دوسرے دھرم دکھ کی بات کر سکتے ہیں مگر مہاتما بدھ نے سچے دکھ کی بات کی؛
- دیگر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے خبری کی ایک خاص قسم دکھ کا سبب ہے، لیکن مہاتما بدھ نے عمیق ترین عدم آگہی بطور سبب کے کی بات کی۔
- دیگر دھرم جس چیز کو سچی روک تھام مانتے ہیں، وہ دیرپا نہیں ہے، یا مکمل طور پر آزاد نہیں ہے۔
- دیگر دھرم جس فہم کی بات کرتے ہیں وہ آپ کو ایک حد تک تو لے جاتی ہے، لیکن یہ من کی ایسی سچی راہ نہیں ہے جو آپ کو نروان تک پہنچا دے۔
یہ ایک قدرتی امر ہے کہ دوسرے دھرم بھی بدھ مت کے متعلق یہی بات کہیں گے، لہٰذا اصل معاملہ حقیقت کی پہچان کی جانچ پڑتال ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے اشلوک میں جانا، روحانی مسلک کی اصل بنیاد – اور یہ ہندو مت اور جین مت میں بھی مشترک ہے، صرف بدھ مت میں ہی نہیں – یہ حقیقت کے متعلق نظریہ ہے۔ اسے منطق، تجربہ اور فہم کی کسوٹی پر پرکھنا ہے۔
اس زندگی کے دوران ایک رحمدل، درد مند انسان بننے کی خاطر روحانی مسلک اختیار کرنے اور نروان حاصل کرنے کے درمیان بہت فرق ہے۔ اگر ہم روشن ضمیری کی بات کریں تو آپ منطق اور مبحث کی بنیاد پر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کونسی بات زیادہ درست ہے۔ تاہم، بیشتر لوگ جو کسی روحانی مسلک پر گامزن ہوتے ہیں وہ نروان کے متلاشی نہیں ہوتے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کے خواہاں ہیں لیکن انہیں کچھ اندازہ نہیں ہوتا اس کا کیا مطلب ہے اور وہ محض اس زندگی کے دورانیہ کو بہتر بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ٹھیک ہے، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔
جب تقدس مآب دلائی لاما سے پوچھا گیا کہ آپ کے نزدیک سب سے اچھا دھرم کونسا ہے، انہوں نے کہا کہ بہترین دھرم وہ ہے جو آپ کو زیادہ مہربان اور درد مند انسان بننے میں مدد دے۔ ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے اس لئیے ہم حتمی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ درد مندی، مہر، صبر، عفو، وغیرہ پیدا کرنے کے لئیے کوئی ایک مسلک دوسروں سے بہتر ہے۔ انہیں ہر مذہب کے آئینہ میں برابر استوار کیا جا سکتا ہے۔ یہی مذہبی ارتباط کی بنیاد ہے۔
روحانی مسلک پر کیسے آگے بڑھا جائے
میں مسلک پر ترقی کرنے کے متعلق پوچھنا چاہتا ہوں۔ سوویت یونین میں ہم نے معاشی ترقی کی خاطر پنج سالہ منصوبے بنائے۔ آپ شائد ایسے لوگوں کو کچھ مشورہ دے سکیں جو بدھ مسلک پر کام شروع کر رہے ہیں کہ وہ ایک سال، تین سال یا پانچ سال میں کیا کریں تا کہ وہ بھٹک نہ جائیں۔
سب سے مقبول اور قابل اعتبار طریقہ، کم از کم ان مسالک میں جن کی میں نے تربیت حاصل کی، لم -رم، بتدریج منازل، کے ذریعہ کام کرنا ہے۔ یہ درجہ بہ درجہ اس چیز کی تعلیم دیتا ہے کہ روحانی مسلک پر ترقی کرنے کی خاطر ہم نے کس بات کو سمجھنا، ذہن نشین کرنا اور استوار کرنا ہے۔
لم -رم کی راہ پر کام کرنے کا روائتی طریقہ یہ ہے کہ آپ ایک بات کو لے کر اس پر کام کرتے ہیں بغیر یہ جانے کہ اگلا قدم کیا ہو گا۔ جب آپ ایک بات کو سمجھ لیں تو پھر آپ اگلی بات کی جانب بڑھتے ہیں۔ آجکل کتابوں میں مکمل پاٹھ کو بیان کیا جاتا ہے تا کہ آپ ساری بات ایک ہی بار میں پڑھ لیں، لیکن آپ کو ہر مرحلہ پر معقول وقت خرچ کرنا ہو گا۔ آپ نے خواہ پورا درس پڑھ بھی رکھا ہو، پھر بھی آپ کو پیچھے جا کر دیکھنا ہو گا کہ کیسے ایک نکتہ باقی تمام نکات سے منسلک ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ ترقی کبھی بھی یک بُ؏عدی نہیں ہوتی، بلکہ ہمیشہ نشب و فراز کا شکار ہوتی ہے۔ تو اگر ایک روز کام اچھا ہو اور دوسرے روز اچھا نہ ہو – تو یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ آپ کو اپنا کام جاری رکھنا چاہئیے۔ یہ میرے استاد کے نوجوان تناسخ روپ کا پسندیدہ فقرہ تھا: "یہ کوئی خاص بات نہیں ہے۔" آپ کے تجربہ کے متعلق کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ کبھی یہ اچھا ہوتا ہے، کبھی اچھا نہیں ہوتا۔ تو پھر کیا ہوا؟
لہٰذا پانچ سالہ منصوبہ بنانا غیر حقیقت پسندی ہے کیونکہ ہر شخص کی ترقی کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔ البتہ تقدس مآب دلائی لاما کا کہنا ہے کہ اپنی ترقی کی جانچ کرنے کے لئیے آپ کو روز بہ روز، یا ماہ بہ ماہ بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہئیے، بلکہ پانچ برس کے دورانیہ میں جانچنا چاہئیے۔ ہم اپنے معاملات سے نمٹنے کی صلاحیت جو پہلے تھی اس کا موجودہ صلاحیت سے موازنہ کر سکتے ہیں۔ کیا اب ہم زیادہ شانت ہیں؟ تب ہمیں اپنی کامیابی کا اندازہ ہو گا۔
بعض اور طریقے بھی ہیں، جیسے نگاندرو کرنا، ابتدائی مشقیں، جس میں آپ ایک لاکھ سجدے کرتے ہیں، پناہ کے فارمولے، وغیرہ وغیرہ۔ لوگ اکثر ایسے شروع کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ دو طریقے دھرم کی تعلیمات کو سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ آپ نگاندرو کا پاٹھ عموماً کسی گرو کی ترغیب پر شروع کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو زیادہ جانکاری نہ ہو، لیکن آپ گرو کی بدولت اس حد تک راغب ہوتے ہیں اور آپ کو اس بات کا حد درجہ یقین ہوتا ہے کہ جو اس نے کہا وہ مفید ہی ہو گا، تو آپ نگاندرو کے ایک لاکھ سجدے کرتے چلے جاتے ہیں۔
جس انداز میں مجھے تربیت ملی یہ وہی طریقہ ہے جسے میں اشلوک کے حوالے سے بیان کر رہا تھا، وہ طریقہ جسے دلائی لاما عمومی طور پر سکھاتے ہیں۔ پہلے آپ ایمان لاتے ہیں اور پاٹھ کو سمجھتے ہیں – کہ یہ ممکن ہے، اور ہمارا ہدف کیا ہے، وغیرہ – اور پھر آپ نگاندرو پاٹھ کرتے ہیں۔
بے شک، ان دونوں کے درمیان والا ایک پاٹھ بھی کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ شروع میں نگاندرو پر کام کا آگاز کریں، آپ اس تیقن پربھی کام شروع کر دیتے ہیں کہ ہمارا ہدف قابل حصول ہے۔ یا جب آپ یہ مطالعہ اور پاٹھ کر رہے ہوں تو آپ نگاندرو پر بھی کام کا آغاز کر سکتے ہیں۔ پس ان کو آپس میں ملانے کے مختلف طریقے ہیں۔ اگر آپ اس پر غور کرنا شروع کریں کہ جس طرح مختلف تبتی گرو دھرم کی تعلیم دیتے ہیں، تو یہ اس ڈھانچے میں پورا اترتا ہے جس کو میں بیان کر رہا تھا۔ یہ وہی بات ہے جسے ناگرجونا نے بیان کیا اور جس کا تعلق بودھی چت استوار کرنے کے دو مختلف طریقوں سے ہے – پہلا ضمنی پھر عمیق ترین، یا پہلےعمیق ترین پھر ضمنی۔ اس بات کا آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کے لئیے کونسا بہتر ہے۔
خلاصہ
یہ امر کہ بدھ مت کی حقیقت پر تعلیمات کے سلسلہ میں چار بلند و بالا سچ کس طرح دو سچائیوں سے منسلک ہیں، اور پھر تین جواہر سے بھی، یہ ایک نہائت اونچے درجہ کا تجزیہ ہے۔ یہ نہ صرف تمام سچائیوں اور جواہر پر روشنی ڈالتا ہے بلکہ بدھ مت فلسفہ اور پاٹھ کے ڈھانچہ کا شفاف روپ بھی پیش کرتا ہے۔ ہم نے ان معاملات کی مزید تحقیق و تفتیش کے لئیے تقدس مآب دلائی لاما کے ایک چھوٹے سے مگر گہرے اشلوک کو بنیاد بنایا ہے۔ اس کا سیر حاصل ما حصل نہ صرف ہماری سوجھ بوجھ بڑھانے کی منطقی اساس بیان کرتا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح بدھ مت کے بنیادی نظریات ایک دوسرے کی حمائت کرتے ہیں۔ اس طرح ایک پیچیدہ مگر مربوط روحانی مسلک کا ظہور ہوتا ہے۔