دوسچ سے چار سچ تک

روحانی مسلک کا سفر

کسی روحانی ہدف کو پانے کے دو طریقے ہیں:

  • ایمان کی بنیاد پر – ہمارا ایمان ہے کہ اس ہدف کا حصول ممکن ہے۔ اس ایمان کی بنیاد پر آپ اس پر کام کرتے ہیں، اور اپنی تربیت میں آپ جوں جوں ترقی کرتے ہیں، تو آخر کار آپ کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ اس ہدف کا حصول ممکن ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کا مدعا ہمیشہ کے لئیے آزار کو ختم کرنا ہے اور آپ کو اس کے حصول کا تیقن ہے، تو جب آپ اس پر کام کر رہے ہوں، اس دوران آپ کے دکھ درد میں کمی آ جائے، تو آپ کے اس ہدف کی باریابی کا یقین ہو جاتا ہے۔ اور ترقی کی علامت کے طور پر آپ مراقبہ اور مطالعہ میں اضافہ کر دیتے ہیں، اور اس کے توسط سے، منطقی طور پر بھی آپ کو اس کی باریابی کا یقین ہو جاتا ہے۔ 
  • تیقن کی بنیاد پر – پہلے آپ عقلیت اور منطق کی بنیاد پر اس بات کے قائل ہوتے ہیں کہ اس ہدف کا حصول ممکن ہے، اور پھر آپ اس پر کام شروع کرتے ہیں۔

اگر ہم اسے بدھ مت کے کلاسیکی فارمولے کے روپ میں بیان کرنا چاہیں، تو یہ وہ دو طریقے ہیں جن کا بودھی چت استوار کرنے کے سلسلہ میں ذکر آتا ہے۔ 

پہلے ہم ذیلی بودھی چت استوار کرتے ہیں جس کا مقصد مستقبل میں اپنے لئیے روشن ضمیری پانا ہے، جو ابھی واقع نہیں ہوئی، لیکن ہو سکتی ہے۔ ہم اسے اس لئیے پانا چاہتے ہیں تا کہ سب کا بھلا کر سکیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ سب کی بھلائی کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اس حالت کو پہنچیں جس میں ہم علت و معلول کے قانون کا مکمل ادراک رکھتے ہوں اور دوسرے لوگوں کی مدد کے طریقوں سے واقف ہوں۔ مزید بر آں، یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس کا حصول ممکن ہے۔

جوں جوں ہم آگے بڑھتے ہیں، ہم وہ جو کہلاتا ہے عمیق ترین بودھی چت استوار کرتے ہیں، جو کہ خالی پن کو سمجھنے کا معاملہ ہے -  یہ حقیقت کہ اشیاء نا ممکن روپ میں وجود کی حامل نہیں ہوتیں۔ ہم حقیقت سے آشنا ہیں، اور جانتے ہیں کہ افسانوی تصورات قائم کرنا من کی فطرت میں شامل نہیں ہے، بلکہ حقیقت سے شناسائی اس کی فطرت ہے۔ اس بات کی فہم سے ہمیں ہدف کے حصول کا یقین ہو جاتا ہے۔ تب ہمارا ایمان یقین میں بدل جاتا ہے۔

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ روشن ضمیری کے حصول کو امرِ ممکنہ مانتے ہوئے پہلے حقیقت کا ادراک استوار کیا جائے – پس عمیق ترین بودھی چت اول ہے۔ اس بنیاد پر، ہمیں روشن ضمیری کے حصول کا پورا یقین ہوتا ہے، اور اس تیقن کی بنیاد پر، ہم اس کے حصول پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ یہ دوسرا والا طریقہ ناگرجونا، جو کہ ایک عظیم ہندوستانی گرو تھا، کی کتاب 'بودھی چت پر ایک تبصرہ' (سنسکرت۔ بودھی چت -وورانا) میں پایا جاتا ہے۔

یہ طریقہ اس اشلوک کہ"ہم کیسے دو سچائیوں سے چار بلند و بالا سچ اخذ کرتے ہیں، اور چار بلند و بالا سچائیوں سے کیسے تین جواہر اخذ کرتے ہیں" میں بتایا گیاہے جس کا ہم نے مطالعہ کیا۔ اس درس کا مقصد اس بات کو سمجھنے میں معاونت ہے کہ نروان اور روشن ضمیری کا حصول ممکن ہے کیونکہ ان کی بنیاد حقیقت پر ہے۔ 

۔ نروان سے مراد اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم سے ہمیشہ کے لئیے نجات ہے: سمسار سے مکمل آزادی، تا کہ ہم ہمیشہ کے لئیے آزار سے آزاد ہو جائں۔ جنہوں نے نروان پا لیا ہے انہیں "ارہت" یعنی آزاد ہستیاں کہتے ہیں۔

۔ روشن ضمیری سے مراد اس تمام ابہام سے ہمیشہ کے لئیے آزادی ہے جو آپ کو تمام مجبور ذی حس ہستیوں کی مدد کرنے کے موثر طریقوں کے اطلاق اور نروان اور روشن ضمیری پانے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ جنہوں نے روشن ضمیری پائی ہے انہیں "بدھا" کہتے ہیں۔

ایک بار جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ نہ صرف یہ ممکن ہے بلکہ ہم بھی – محض مہاتما بدھ شکیامونی ہی نہیں – نروان اور روشن ضمیری پا سکتے ہیں، تو اس سے ہمارے روحانی پاٹھ میں ہمیں بہت تقویت اور استحکام ملتا ہے۔ پھر بھی اسے سمجھنا آسان نہیں ہے، مگر آج تک کسی نے اس کے آسان ہونے کا دعویٰ بھی نہیں کیا!

دو سچ

ہماری پہلی مجلس میں، ہم نے پہلی سطر کا مطالعہ کیا:

دو سچائیوں کا مطلب جان لینے سے، جو کہ بنیاد ہے، وہ راہ جس پر تمام چیزیں کار بند ہیں،

وہ بنیاد جس پر تمام مبحث کا دار و مدار ہے ان دو سچائیوں کا درس ہے، جس کا تعلق اشیاء کے وجود اور ان کی عملکاری سے ہے – دوسرے لفظوں میں، وہ راہ جس پر تمام چیزیں کار بند ہیں۔ یہ دونوں سچ، ہر چیز کے متعلق، دونوں ہی درست ہیں اور اس لئیے سچ ہیں: 

  • ذیلی حقیقت: اشیاء کا وجود میں آنا اسباب اور حالات کا دست نگر ہے۔ بلا شبہ اور ایسی چیزیں بھی ہیں جن کی اشیاء محتاج ہیں، جیسے ان کے حصے اور ان کے بارے میں تصورات۔ یہاں اصل معاملہ تجرباتی پہلو سے علت و معلول کا ہے، خاص طور پر ہمارا مسرت اور عدم مسرت کا تجربہ جو کرم کی اضطراری صورت کے حوالے سے بیان کیا گیا ہو۔ 
  • عمیق ترین حقیقت: یہ ممکن ہے کہ اشیاء کی نمو ہمیں دست نگری کے آئینہ میں دکھائی نہ دے، لیکن بہر حال وہ نا ممکن انداز میں فریب نظر وجود کا حمل حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایسی حقیقت جو ہمارے تصورات سے ملتی ہو وہ وجود نہیں رکھتی۔ اشیاء کے اس نا ممکن وجود کی عدم وجودیت جو کہ مکمل طور پر ہر شے سے بے نیاز ہو، جو اسباب اور حالات کا تابع نہ ہو، "خالی پن" کہلاتا ہے۔ 

چار بلند و بالا سچ

دو سچائیوں کی توثیق کی بنا پر، مہاتما بدھ نے چار بلند و بالا سچائیوں کو سمجھا اور ان کی تشکیل کی۔ اسے دوسری سطر میں بیان کیا گیا ہے:

ہمیں اس بات کا تیقن حاصل ہو جاتا ہے کہ کیسے، چار سچائیوں کی بدولت، ہم آتے رہتے ہیں مگر اس اضطراری پنر جنم کو واپس موڑ سکتے ہیں۔

برگزیدہ ہستیاں چار بلند و بالا سچائیوں کو بر حق مانتی ہیں۔ یہ ایک دلچسپ معاملہ ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بدھیت تک پہنچنے سے قبل ایک خاص مقام تک پہنچ چکے ہوں، در حقیقت اس سے بہت پہلے۔ یہ تب ہوتا ہے جب ہمیں خالی پن، دوسرے لفظوں میں عمیق ترین حقیقت، کی غیر تصوراتی پہچان ہو جاتی ہے۔ یہ ادراک مکمل طور پر درست اور فیصلہ کن ہے۔ چونکہ یہ غیر تصوراتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اشیاء کو طبقات کے حوالے سے نہیں پہچان رہے ہیں۔ 

جب آپ طبقاتی حوالے سے بات کرتے ہیں، جیسے "کتا،" تو آپ کے ہاں کوئی ایسی چیز ہے جو کتے کی نمائیندہ ہے۔ اس نمائیندگی میں ایک فرد سے دوسرے کے درمیان معمولی تفریق ہو سکتی ہے، لیکن جب ہم گلی میں یا کہیں بھی کوئی کتا دیکھیں، تو ہم اسے اسی طبقاتی شناخت سے پہچانیں گے۔ کتے کا تصور جو ہمارے من میں ہے اس کی بدولت – اس کا بصری ہونا لازم نہیں ہے – ہم کتے کا تصور قائم کرتے ہیں۔ جب ہم کسی چیز کو غیر تصوراتی طور سے دیکھیں، تو یہ طبقات کے آئینہ یا ایسی اور کسی شے سے مبرّا ہوتا ہے۔ اسی لئیے اسے "برہنہ شناخت" کہا جاتا ہے۔ آپ اشیاء کو بغیر کسی طبقہ میں ڈالنے کے دیکھتے ہیں۔ 

 برگزیدہ ہستیاں، جنہیں سنسکرت میں 'آریہ' کہتے ہیں، حقیقت کو "حقیقت" کے ڈبے میں بند کئیے بغیر محسوس کرتے ہیں جیسے کہ، "اب میں حقیقت کو محسوس کر رہا ہوں۔" جو وہ دیکھ رہے ہیں – حقیقت – اسے وہ مکمل طور پر، بالکل صحیح اور حتمی روپ میں بغیر کسی ڈبہ یا طبقہ میں ڈالنے کے دیکھتے ہیں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے۔ اگر ہم ان ڈبوں کا نام نہ بھی پکاریں جن میں ہم چیزوں کو ڈالتے ہیں، لیکن بہر حال ہر شے کو جاننے کا ہمارا عمومی طریقہ یہی ہے۔ ہم انہیں ڈبوں میں ڈالتے ہیں، جیسے کہ ان کا وجود ہمیشہ سے جدا گانہ طور پر ہر شے سے الگ تھلگ یوں ہی قائم ہے۔ 

تصوراتی شناخت کی یہاں مزید تشریح ضروری نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ حقیقت کا یہ روپ دیکھنے کے لئیے مہاتما بدھ ہونا لازم نہیں ہے۔ جب ہم حقیقت کا غیر تصوراتی روپ دیکھیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ چار بلند و بالا سچ حقیقی ہیں، اور ہمیں ان پر مکمل یقین ہو گا۔ 

یہ چار سچائیاں کیا ہیں؟ سب سے اول دکھ ہے۔ دوسری دکھ کے اسباب ہیں۔ تیسری دکھ کی اور اس کے اسباب کی روک تھام ہے۔ چوتھی سچائی وہ مسلک یا وہ فہم ہے جس سے دکھ کی روک تھام ہو گی۔ یہ سچائیاں کہلاتی ہیں جیسا کہ "حقیقی دکھ،" "حقیقی وجہ،" وغیرہ۔ 

یہ تمام بیان پنر جنم کے حوالے سے ہے – من کے وہ چلار جن کی نہ کوئی ابتدا ہے اور نہ ہی کوئی انتہا۔ پنر جنم اس کی بنیاد ہے۔ ہم نے اشیاء سے لحظہ بہ لحظہ انفرادی سطح پر واسطہ پڑنے کی بات کی تھی، جو اگر علت و معلول کے دائرہ کار میں واقعہ ہو، ایسی حتمی ابتدا کا حامل نہیں ہو سکتا جس کا کوئی نکتہ آغاز نہ ہو۔ اسی طرح ایسا کوئی آخری لمحہ بھی نہیں ہو سکتا جب یہ ناپید ہو جائے۔ یہ نا ممکن ہے۔ علت و معلول کے بنیادی اصول سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ من کے چلار کی کوئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے، لہٰذا پنر جنم یقیناً سچ ہے۔

سچ مچ کا آزار

سچے آزار کے تین پہلو ہیں:

  • سب سے پہلا ہمارا معمول کا آزار ہے، جسے ہم دکھ کا دکھ کہتے ہیں۔ ہم سب کو عدم مسرت کا تجربہ ہے۔ عدم مسرت سے مراد درد ہی نہیں ہے۔ مسرت اور عدم مسرت اور خوشی اور درد دو مختلف اجناس ہیں۔ خوشی اور درد جسمانی کیفیتیں ہیں، جب کہ مسرت اور عدم مسرت من کی کیفیتیں ہیں۔ کوئی شخص درد محسوس کرتے ہوئے بھی مسرت سے ہمکنار ہو سکتا ہے، جیسے ایک لمبی جسمانی ورزش کے بعد، کوئی شخص خوش محسوس کر سکتا ہے، لیکن اس کے متعلق نا خوش بھی ہو سکتا ہے، جیسے کسی کو مباشرت پر مجبور کیا جائے۔ پس یہاں دو مختلف پہلو ہیں۔ یہاں ہم عدم مسرت کی بات کر رہے ہیں، جس سے ہم سب واقف ہیں، اور اس کا ذکر بد ترین پنر جنم کے روپ میں کیا جاتا ہے جو ہر قسم کے آزار سے بھرپور ہے۔ 
  • دکھ کی دوسری قسم تبدیلی کا دکھ کہلاتی ہے، اور اس کا تعلق ہماری معمول کی خوشی سے ہے جو کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتی اور نہ ہی تسلی بخش۔ ہم ہمیشہ مزید کے تمنائی ہوتے ہیں، لیکن اگر ہمیں بہت زیادہ مل جائے تو بھی ناراض ہوتے ہیں اور اس سے عدم مسرت پیدا ہوتی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ آپ اپنی من پسند خوراک حد سے زیادہ کھا کر بیمار ہو جائں۔ پھر آپ اور نہیں کھانا چاہتے، اور آپ نا خوش ہو جاتے ہیں۔ پس مسٔلہ یہ ہے کہ ہماری عمومی خوشی تسلی بخش اور مستحکم نہیں ہوتی۔ ہماری روز مرہ زندگی میں نشیب و فراز آتا رہتا ہے، اور کبھی ہم خوش ہوتے ہیں اور کبھی نا خوش۔ لیکن اس میں کوئی تحفظ نہیں ہے۔ ہمارے ارد گرد کچھ بھی ہو رہا ہو، پر ہم کبھی بھی یہ نہیں کہ سکتے کہ اگلے لمحہ ہمارا احساس کیسا ہو گا۔ اچانک سے ہی ہم نا خوش، بیزار یا پریشان ہو سکتے ہیں۔ یہ لگا تار اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔
  • دکھ کی تیسری قسم ہر دم جاری و ساری آزار کہلاتی ہے، اور یہ ہمارے عدم مسرت اور عمومی مسرت کے نشیب و فراز کی بنیاد ہے۔ بنیاد ہمارا اضطراری رو بہ اعادہ وجود یا پنر جنم ہے جسے سنسکرت میں سمسار کہتے ہیں۔ ہم بار بار اس قسم کے من اور جسم کے ساتھ جنم لیتے رہتے ہیں جس کی بنیاد زندگی کی مسرت اور عدم مسرت کے اتار چڑھاؤ سے واسطہ ہے۔ یہ حقیقی آزار ہے اور ہمارا اصل مسٔلہ یہی ہے۔ اگر ہم حقیقت کو پہچان لیں تو یہی ہمارا اصل مسٔلہ ہے۔ 

آزار کے اصل اسباب 

اگر آپ حقیقت کو سمجھیں، تو آپ کو اس سچائی کا ادراک ہو گا کہ جس کسی شے سے بھی ہمیں پالا پڑتا ہے اس میں نشیب و فراز ہے، کسی بنیاد کے ہمراہ جو جاری و ساری رہتی ہے۔ جب ہم اسے دیکھیں تو ہم جانتے ہیں کہ اس کی کوئی وجہ ہے۔ ذیلی حقیقت کی اصل بات یہ ہی ہے کہ تمام اشیاء اسباب کی محتاج ہیں، تو ہمارے متواتر اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم کی اصل وجہ کیا ہے، جیسا کہ اشلوک میں بیان کیا گیا ہے۔؟ دوسرے لفظوں میں، یہ کیسے وقوع پذیر ہوتا ہے؟ اس چکر کو چالو رکھنے والی کون سی چیز ہے؟  

ہمارے گزشتہ اجلاس میں، ہم نے دیکھا کہ اگر ہمیں عدم مسرت سے واسطہ پڑے، تو یہ تخریب کار رویہ کا نتیجہ ہوتا ہے، اور اگر ہم عمومی خوشی محسوس کریں، تو یہ تعمیری رویہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔اس میں ہم 'کرم' کو بھی شامل کر سکتے ہیں جس کا ترجمہ میں 'اضطرار' کرتا ہوں۔ پس ہمارے پاس اضطراری تخریبی رویہ ہے، اور اضطراری تعمیری رویہ ہے۔ یہ کسی بدھا کے تعمیری رویہ کے مانند نہیں ہے – لیکن ایسا رویہ جو جبری ہے، جس میں ہم مجبوراً اپنی انا سے مغلوب ہو کر بھلائی کا کوئی کام کرتے ہیں۔ یا کسی مجبوری کے تحت با کمال بنتے اور ہر کام صحیح طور کرتے ہیں۔ یہ بہت نیوراتی حالت ہے۔ 

اگر ہم اضطراری طور پر مشغول کار ہیں، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پریشان کن جذبات اور اطوار کے زیر اثر ہیں، جس پر ہم نے اضطراری تخریبی رویہ کے ضمن میں بات کی ہے۔ غصہ کی حالت میں ہم کسی کو مار ڈالتے ہیں؛ لالچ کے زیر اثر ہم چوری کے مرتکب ہوتے ہیں؛ نا سمجھی کے باعث، ہم سوچتے ہیں کہ ہمارے اعمال نتائج سے عاری ہیں، جیسے "میں پکڑا نہیں جاؤں گا۔ اگر میں چوری کروں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا، یہ مزے کی بات ہو گی۔"

اس اضطراری تخریبی رویہ کے پس پشت عدم آگہی ہوتی ہے، اس اصطلاح کا ترجمہ عموماً "جہالت" کیا جاتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم احمق ہیں، محض الجھن کا شکار ہیں۔ ہم کس چیز سے بے خبر ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم علت و معلول سے بے خبر ہیں، جسے اگر ہم واقعی جانتے اور اس پر یقین رکھتے ، تو ہم تخریبی رویہ اختیار نہ کرتے۔ ہم فطری طور پر جانتے کہ اس سے ہمیں نقصان پہنچے گا، جو کوئی سزا نہیں ہے، لیکن محض ہمارے پیدا کئیے ہوئے اسباب کا نتیجہ ہے۔ 

در حقیقت عدم آگہی کی دو قسمیں ہیں۔ یا تو ہم نہیں جانتے کہ تخریبی فعل سے آخر کار عدم مسرت پیدا ہو گی، یا ہم اُلٹ انداز میں سوچتے ہیں، جیسے کہ، "اگر میں تخریب کاری کروں تو اس سے مجھے خوشی ملے گی۔ یا جو چیز مجھے چاہئیے اگر میں اسے چوری کر سکوں تو میں خوش ہوں گا۔ اگر میں اپنے دشمن کو مار ڈالوں تو اس سے مجھے خوشی حاصل ہو گی۔" خواہ تخریبی فعل کے فوراً بعد ہی ہم خوش ہو جائں – "واہ ، میں نے مچھر مار ڈالا، اب میں آرام کر سکتا ہوں!" – بہر حال جہاں تک دیرپا اثرات کا معاملہ ہے، خاص طور پر ہر حال میں ناخوش رہنا خواہ کچھ ہی چل رہا ہو، یہ اس قسم کے نقصان دہ رویہ کا نتیجہ ہے۔ پس تخریبی رویہ علت و معلول سے لا علمی کے سبب پیدا ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں ذیلی حقیقت سے نا شناسی کی وجہ سے آتا ہے۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ سب سمجھنا آسان ہے، کیونکہ ایسا نہیں ہے، لیکن یہ ایسی چیز ہےجس پر ہم کام کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اس بات کو اختصار کے ساتھ بیان کریں، تو میرے بیشتر اوقات نا خوشی کے احساس کا سبب یہ ہے کہ میں نے علت و معلول کو نہیں سمجھا۔ جب میرا من غصہ، حرص، حسد وغیرہ سے مغلوب ہوتا ہے، تو یہ مجھے اضطراری طور پر تخریبی رویہ کی جانب مائل کرتا ہے۔ یہ در اصل خود تلف ہے، کیونکہ نتیجہ کے طور پر میں اکثر عدم مسرت کا شکار رہتا ہوں۔ ہمیں اس رشتہ کو سمجھنا ہے۔

ہماری مسرت جو ہم محسوس کرتے ہیں یہ بھی عدم آگہی سے آتی ہے، لیکن اس معاملہ میں، یہ عدم آگہی اشیاء کے متعلق عمیق ترین حقیقت سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ تخریبی اور تعمیری دونوں اطوار کے پس پشت عدم آگہی ہی ہے۔ تخریبی رویہ کے سلسلہ میں ہم عمیق ترین حقیقت اور ذیلی حقیقت دونوں سے نا بلد ہیں۔ لیکن تعمیری رویہ کے معاملہ میں ہم صرف عمیق ترین حقیقت سے نا شناس ہیں۔ ہمارے سر میں ایک قسم کی آواز ہے، جو کہتی ہے، "میں کیا کروں؟ مجھے من مانی کرنی ہے! میں فکر مند ہوں۔ " لگتا ہے جیسے ہمارے اندر سچ مچ کوئی "میں" موجود ہے جو بول رہی ہے۔ لیکن یہ حقیقت سے مطابقت نہیں ہے۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ محض ہمارے خیالات کا زبانی روپ ہے نہ کہ کوئی چھوٹی سی "میں" جو شکوہ شکائت اور فکرمندی میں مصروف ہے۔ جب ہم اپنے وجود کی حقیقت سے نا بلد ہوتے ہیں تو ہم عمیق ترین سچائی سے بے خبر ہوتے ہیں، اور ہم اپنی شناخت ایک افسانوی "میں" سے بناتے ہیں جو ہمارے اندر موجود ہے۔ چونکہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، تو ہم اس کے متعلق عدم تحفظ محسوس کرتے ہیں اور اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بے شک، ہمیں کبھی کامیابی نہیں ہو گی۔

اس چھوٹی سی تصوراتی "میں" کو محفوظ بنانے کے لئیے ایک طریقہ جو ہم استعمال کرتے ہیں وہ ہمارے پریشان کن جذبات ہیں۔ ہم سوچتے ہیں، "اگر مجھے کچھ مل جائے، تو میں محفوظ محسوس کروں گا،" پس اس طرح ہم حرص، لگاوٹ اور نفسانی خواہش کو پالتے ہیں۔ پھر ہم سوچتے ہیں، "اگر میں اسے دور کر سکوں تو میں محفوظ محسوس کروں گا،" تو ہم غصہ اور کراہت کا شکار ہوتے ہیں۔ یا ہم اپنے انجانے پن میں سوچ سکتے ہیں، "اگر میں فرض کر لوں جو چیز مجھے ڈرا رہی ہے اس کا کوئی وجود نہیں، تو میں محفوظ ہو جاؤں گا۔" اس بنیاد پر ہم تخریبی رویہ بھی اختیار کرتے ہیں، جیسے ہم اپنی افزوں پذیر پریشانی کو نظر انداز کر دیں۔ غصہ کی بنا پر ہم لوگوں پر چیختے ہیں، انہیں تکلیف پہنچاتے ہیں، اور بعض اوقات کسی کو مار بھی دیتے ہیں۔ لالچ کی بنا پر، ہم چوری کرتے ہیں یا غیر موزوں جنسی بے راہروی کے مرتکب ہوتے ہیں جس سے دوسوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ بھولپن کے باعث، ہم کام کے دیوانے بن جاتے ہیں، غیر صحتمند غذا کھاتے ہیں اور کبھی ورزش نہیں کرتے۔ تو یہ سب کچھ عمیق ترین حقیقت سے لا علمی کے سبب ہوتا ہے – ہمارا وجود کیسے ہے – اور علت و معلول کیا ہے ۔

جہاں تک تعمیری رویہ کا تعلق ہے، خواہ پریشان کن جذبات کی کوئی بنیاد نہ بھی ہو، پھر بھی اس کے پس پشت یہ لا علمی پائی جاتی ہے۔ ہم اچھے، بے عیب انسان یا بہترین ماں باپ بن کر اپنے وجود کو ثابت یا پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں – "اس سے میرے اندر کی یہ چھوٹی سی "میں" محفوظ محسوس کرے گی" – جس میں کبھی کامیابی نہیں ہوتی۔ ہم کبھی بھی محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ ہمیں اگرچہ دوسروں کی مدد کرنے سے کچھ خوشی حاصل ہو گی، لیکن بہر حال یہ معمولی خوشی ہے اس لئیے یہ دیرپا نہیں ہوگی۔ ہم اس سے کبھی مطمٔن نہیں ہوں گے، کیونکہ ہم بلا شبہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم خاطر خواہ اچھے انسان نہیں ہیں، ہم با کمال نہیں ہیں۔ ہم ابھی بھی یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں کچھ ثابت کرنا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد ہماری اپنے وجود کے متعلق عمیق سطح پر عدم آگہی ہے۔ 

تیسری قسم کا آزار، عدم مسرت اور عمومی مسرت کا یہ نشیب و فراز، اس کے لئیے ہمارے پاس ایک نہائت پیچیدہ نظام ہے جسے ہم "بارہ رشتوں کی دست نگر نمو،" کہتے ہیں، جسے میں یہاں تفصیل سے بیان نہیں کروں گا، لیکن یہ کرم کی کار گزاری سے تعلق رکھتا ہے۔ 

سادہ لفظوں میں، کرم اضطرار کے حوالے سے ہے، جس کی بنیاد پر ہم کسی خاص تخریبی یا تعمیری رویہ کو اپناتے ہیں۔ اضطرار کا اصل مطلب کیا ہے؟ اضطرار سے مراد یہ ہے کہ آپ کو کسی شے پر اختیار نہیں ہے، جیسے کسی کا عادتاً اپنی انگلیوں سے ہلکی ضرب لگانا۔ یہ کسی قسم کے مصروفیت کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ تبتی زبان کے لفظ کا مطلب ہے "میں یہ کام کرنا چاہتا ہوں، میں اس کام کو کرنے کا خواہش مند ہوں، میں اسے کرنا پسند کرتا ہوں،" جیسے چیخنے کی احتیاج محسوس کرنا، یا بغل گیر ہونا، یا کچھ کھانا۔ جب احتیاج کا عنصر شامل ہو جاتا ہے تو ہم یہ کام کر گزرتے ہیں۔ اس سے محض اس فعل کو دوہرانے کا میلان بڑھتا ہے اور اگر یہ فعل تخریبی ہے تو اس سے طبیعت عدم مسرت کی جانب مائل ہوتی ہے، اور اگر تعمیری ہے تو طبیعت مسرت کی جانب مائل ہوتی ہے۔ طبیعت کا یہ میلان بعض مخصوص حالات میں حرکت میں آ جاتا ہے۔ یہ پختہ ہو جاتا ہے اور پھر ہم خوش یا نا خوش ہوتے ہیں، یا پھر سے چلّانا چاہتے ہیں، یا ہم پھر بغل گیر ہونا چاہتے ہیں۔ 

اس نظام کو دوام ہے، اور یہ چلتا ہی جاتا ہے، کیونکہ ہمیں اس قسم کے رویہ کو جاری رکھنے کی مستقل احتیاج ہو رہی ہے۔ تو ایسا رویہ بغیر کسی آخری حد کے رو بہ اعادہ ہی رہتا ہے، کیونکہ ہم مستقل طور پر اسے مزید تقویت بخشتے رہتے ہیں۔ تو ہم ہمیشہ مسرت اور عدم مسرت کے نشیب و فراز سے بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ 

یہاں سب سے اہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ رحجان کیسے پیدا ہوتے ہیں جو اس قسم کے نتائج کا سبب بنتے ہیں، کہ ہم اس روش کو دوہرانے پر مائل ہوتے ہیں؟ اسے نہائت عمدہ طریقے سے بارہ کڑیوں میں بیان کیا گیا ہے، حالانکہ یہ بڑا پیچیدہ موضوع ہے۔ ہمارا اس اتار چڑھاؤ سے مستقل واسطہ پڑتا ہے اور اس کا ڈرامائی ہونا لازم نہیں ہے۔ حتیٰ کہ جب ہم سو رہے ہوں، ہو سکتا ہے کہ ہم ایک ایسی حالت میں ہوں جس میں نہ تو پوری طرح خوابیدہ ہیں، اور ہم خوش بھی نہیں ہیں۔ تو جب ہم عدم مسرت اور عمومی مسرت سے گزر رہے ہوں تو ہمارے من کی حالت کیسی ہوتی ہے؟ سنسکرت میں اس کے لئیے 'ترشنا' کا لفظ رائج ہے، جس کا مطلب ہے "پیاس۔" اس کا ترجمہ عموماً "شدید خواہش" کیا جاتا ہے لیکن اصل لفظ کا مطلب محض پیاس ہے۔

بنیادی طور پر، جب ہم عدم مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں، تو ہم اس سے جان چھڑانے کے لئیے پیاس سے تڑپ رہے ہوتے ہیں، جیسے آپ پیاس کی حالت میں پیاس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اسی طرح جب ہم خوش ہوں تو ہم اس سے علیحدگی نہیں چاہتے، بلکہ اور کی پیاس رکھتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جب آپ بہت پیاسے ہوں اور آپ پانی کا ایک گھونٹ لیں – تو یہ کافی نہیں ہوتا، ہے نا؟ آپ اس سے علیحدگی نہیں چاہتے بلکہ مزید سے مزید تر کی خواہش کرتے ہیں۔ پھر وہ خواہش ایک ٹھوس روپ میں ابھرتی ہے، جب ہم سوچتے ہیں، "مجھے اس عدم مسرت سے نجات پانی ہے" "مجھے اس مسرت سے جدا نہیں ہونا ہے،" اور اس سے کرمائی رحجانات حرکت میں آ جاتے ہیں۔ یہ ہمہ وقت آزار کا اصل سبب ہے۔ پس مسرت اور عدم مسرت وغیرہ کے میلان اضطراری رویہ جس میں پریشان کن جذبات بھی شامل ہیں، جو بذات خود ہماری عمیق سطح پر حقیقت سے نا شناسی سے آتے ہیں – ہمارے محسوسات کیسے وجود کے حامل ہوتے ہیں (وہ ہر دم بدلتے رہتے ہیں) اور ہمارا وجود در حقیقت کیسے ہے ( کسی ایسی بالذات غیر محفوظ شے کی مانند نہیں جو ہمارے سر میں موجود ہے اور جسے بذریعہ اصرار محفوظ بنایا جا سکتا ہے)۔  

یہ عدم آگہی اس کی بنیادی وجہ ہے، اور اس کا تعلق ہمارے تعمیری اور تخریبی دونوں طرح کے اطوار سے ہے۔ یہ وہ اصل مجرم ہے جو مسرت اور عدم مسرت کے میلان پیدا کرتا ہے، اور ہماری روش کا اعادہ کرتا ہے، تا کہ یہ سچ مچ وجود کا حامل ہو۔ اگر ہم اس پیاس کا جائزہ لیں تو یہ فطری طور پر ہمارے وجود کے قیام کے بارے میں بے خبری سے منسلک ہے۔ ہم یوں سوچتے ہیں، "میں ہی یہ میں ہوں، واحد اہم شخصیت، اس لئیے مجھے اس خوشی سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ میں ناخوش نہیں ہوں،" بجائے اس کے، "تو خیر، میں خوش ہوں یا ناخوش ۔۔۔۔ پھر کیا ہوا؟" ہمارے بے اختیار، رو بہ اعادہ، متسلسل پنر جنم کی اصل وجہ ان دو سچائیوں سے عدم آگہی ہے۔

دکھ کے اسباب کی سچی روک تھام

تیسری سچائی سچی روک تھام ہے، جس میں دکھ کے اسباب کا خاتمہ کیاجاتا ہے، پس دکھ بھی مٹ جاتا ہے۔ حقیقت کے متعلق اس بے خبری کا ہمیشہ کے لئیے خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ جب آپ کو یہ نظر آنے لگے کہ کیا حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ یہ کسی اصل شے سے ملتی جلتی نہیں، لہٰذا اس کی توثیق نہیں ہو سکتی۔

مثال کے طور پر، کسی تھیٹر ڈرامہ میں اگر کوئی نظارہ دکھایا گیا ہے جسے چند لکڑیاں سہارا دئیے ہوئے ہیں۔ تبتی زبان کی اصطلاح میں ہمارے نا ممکنہ تصورات کو سہارا دینے والی ان لکڑیوں کی مانند کوئی شے نہیں ہے۔ جب نظارے کو سہارا دینے والی کوئی چیز نہ ہو تو کیا ہوتا ہے؟ یہ گر پڑتا ہے۔

جب ہم اس حقیقت پر غور کریں کہ ہمارے افسانوی تصورات کو سہارا دینے والی کوئی شے نہیں ہے، پھر مشق کے ذریعہ، آپ اس احساس پر ہمیشہ مرتکز رہ سکتے ہیں۔ ایسی کوئی صورت نہیں جس میں نظارہ خود ہی کھڑا رہے۔ میرے سر میں چھوٹی سی میں کا یہ ڈرامہ جسے یہ فکر ہے، "میں کیا کروں؟" اور "مجھے با کمال ہونا ہے" اور "مجھے من مانی کرنی ہے" ختم ہو جائے گا۔ جب ہم جان لیں کہ ہمارے تصورات بے بنیاد ہیں تو ہمارا من ایسا کوئی تصور قائم ہی نہیں کرتا جو ناممکن ہو۔ تب ہم ایسے رحجانات کو حرکت میں نہیں لائں گے، کیونکہ ایسا کرنے کے لئیے کچھ ہو گا ہی نہیں۔ اس "میں ، میں، میں۔ مجھے خوشی چاہئیے، میں نا خوش نہیں رہ سکتا!" کا خاتمہ ہو جائے گا۔ 

اگر اس میلان کو حرکت دینے والی کوئی شے نہیں ہو گی، پھر آپ اس میلان کی موجودگی کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کوئی شے کسی نتیجہ کا رحجان ہو سکتی ہے جب کہ کوئی نتیجہ موجود ہو۔ دوسرے لفظوں میں، میلان کا تصور نتیجہ کے وجود پر منحصر ہے۔ اگر کوئی نتیجہ وجود سے قاصر ہے، تو اس کو پیدا کرنے والا رحجان بھی نا پید ہو گا۔

پس اس طرح ہم اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم کا رخ پیچھے کی طرف موڑ سکتے ہیں۔ اگرچہ ہمارے من ازل سے ہی رحجانات سے مغلوب ہیں، اور اگر کوئی انہیں حرکت میں نہ لائے، تو ان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ جب ہم حقیقت شناسی سے کام لیتے ہیں، تو ہم بے قابو روش اختیار نہیں کرتے جو کہ مزید رحجانات کا سبب ہوتی ہے۔ پس ہمارے اضطراری، رو بہ اعادہ پنر جنم اور ہماری نشیب و فراز کا شکار احساس کی وجوہات ہمیشہ کے لئیے تلف ہو جاتی ہیں۔ یہ سچی روک تھام ہے اور ہمیں نروان مل جاتا ہے۔ 

مکمل روک تھام کے لئیے سچی راہ پر گامزن من

چوتھی بلند و بالا سچائی کا ترجمہ عموماً "سچی راہ" کیا جاتا ہے، اور اس سے مراد من کی وہ حالتیں یا ادراک ہے، جو ایک راہ کی مانند، آپ کو منزل تک لیجاتی ہیں۔ یہ دو سچائیوں کے بارے میں درست اور حتمی فہم ہے۔ ہم اس کی جتنی زیادہ عادت ڈالیں، تا کہ ہم ہر دم اس سے وابسطہ ہوں، تو یہ ایک ایسی راہ بن جائے گی جو کہ اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم کی پکی روک تھام کر سکے گی۔

ماحصل

اس طرح ہم دو سچائیوں سے چار سچائیاں اخذ کرتے ہیں۔ 

ہم سمسار میں کیسے داخل ہوتے ہیں؟ یہ جو اشلوک جس کا ہم مطالعہ کرتے رہے ہیں، اسے چار میں سے پہلی دو بلند و بالا سچائیوں کے ہمراہ زیر بحث لایا گیا ہے، یعنی کہ، حقیقی آزار اور حقیقی وجوہات۔ بنیادی طور پر، ہمارے سمسار میں داخل ہونے کا سبب ہماری دو سچائیوں کے بارے میں الجھن ہے۔ یا تو ہم حقیقت سے آشنا نہیں ہیں، یا ہم اسے حقیقت سے بہت مختلف تصور کرتے ہیں۔ ہم کیسے اس سے باہر نکلیں؟ تیسرا اور چوتھا بلند و بالا سچ، یا پکی روک تھام اور سچی راہ پر گامزن من۔ لہٰذا حقیقت کے متعلق دو سچائیوں سے لا علمی، ہم چار میں سے پہلے دو بلند و بالا سچ پاتے ہیں، اور اس سے پہچان کے ذریعہ، ہم دوسرے دو سچ پاتے ہیں۔

یہ بڑا دقیق موضوع ہے، لیکن اس طریقہ سے ہم بدھ متی تعلیمات کو کام میں لا کر کچھ تیقن پانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو ہدف بدھ مت بیان کرتا ہے ان کا حصول ممکن ہے، اور جسے پانے کے لئیے ہم مراقبہ کر رہے ہیں۔ ایک بار جب ہم اس کی درست فہم استوار کر لیں، تو اسے ہم ان سب باقی اشیاء کے ساتھ شامل کر سکتے ہیں جن کو یہ فرض کرتا ہے۔ پھر ہم مراقبہ کے ذریعہ اس سے مانوس ہوتے ہیں: ہم حقیقت کی شناخت کی عادت ڈال لیتے ہیں۔ 

سننے، سوچنے اور مراقبہ کرنے کی اس بنیاد پر، ہم اس بات کا تیقن حاصل کرتے ہیں کہ جس ہدف کا مراقبہ کے توسط سے ہم تعاقب کر رہے ہیں وہ ممکن ہے، اور یہ کہ وہ سچ ہے، کہ اس کا حصول ممکن ہے اور ہم خود اسے پا سکتے ہیں بشرطیکہ ہم محنت کریں۔ اس طرح، ہمارا پاٹھ بہت مستحکم ہو جاتا ہے، کیونکہ اس کی بنیاد کوئی کمزور عنصر نہیں ہے کہ شائد ہمارا ہدف ممکن ہو۔ اس کی بجائے ہمیں پورا یقین ہوتا ہے۔

Top