چار بلند و بالا سچ: ایک جائزہ

23:19
زندگی میں ہر کسی کو مسائل اور عدم مسرت سے واسطہ پڑتا ہے؛ اور ہمیشہ سے ہی، دکھ سے نبرد آزمائی کے مختلف طریقے تجویز کئیے گئے ہیں۔ دور حاضر میں، انٹرنیٹ کے توسط سے بےشمار نظریات تک فوری رسائی ممکن ہے اور یہاں ہمیں وہ منفرد طرز عمل ملتا ہے جسے مہاتما بدھ نے ۲،۵۰۰ برس قبل اپنایا، اس ضمن میں کہ ہمارے دکھ کے اسباب کیا ہیں اور ہم اپنی زندگی میں کیسے سکون اور مسرت پا سکتے ہیں۔

ابتدائیہ

بدھ مت کے مطالعہ کے شروع میں ہی چار بلند و بالا سچائیوں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ یہ اس لئیے بھی مناسب ہے کیونکہ جب مہاتما بدھ نے درس دینا شروع کیا تو اس نے یہیں سے ابتدا کی۔ مہاتما بدھ کے دور میں، بہت سارے فلسفہ اور دھرم کے نظام پہلے سے ہی موجود تھے، اور آج، ہمارے یہاں اور بھی وسیع تر روحانی علوم موجود ہیں۔ لہٰذا، جب ہم بدھ مت کا مطالعہ کریں تو یہ بات اہم ہے کہ ہم اس امر کی نشاندہی کریں جو بدھ مت کے انداز فکر میں منفرد ہے۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ بدھ مت کی کئی ایک تعلیمات دوسرے مذاہب کی تعلیمات سے مشترک ہیں: جیسے مہربان اور محبتی انسان ہونا، کسی کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا، وغیرہ۔ ہمیں قریب قریب ہر مذہب اور فلسفہ میں یہ اقدار نظر آتی ہیں، اس لئیے ان کے متعلق سیکھنے کی خاطر بدھ مت کی جانب رجوع کرنا ضروری نہیں ہے، اگرچہ رحم دلی، محبت اور درد مندی استوار کرنے کے لئیے بدھ مت کے ہاں بے شمار طریقے موجود ہیں۔ ہم خواہ اور کچھ بدھ مت سے سیکھیں یا نہ سیکھیں، مگر ہم ان طریقوں سے بہر حال مستفید ہو سکتے ہیں۔
تاہم، اگر ہم یہ پوچھیں کہ،"بدھ مت میں کیا خاص بات ہے؟" تو پھر ہمیں چار بلند و بالا سچائیوں کی جانب رجوع کرنا ہو گا۔ گو کہ ان کے مطالعہ کے دوران بھی ہمیں دوسرے افکار سے مشترک بہت کچھ ملے گا۔

ہمارے ہاں یہ اصطلاح "بلند و بالا سچائی" پائی جاتی ہے مگر یہ قدرے عجیب ترجمہ ہے۔ اس لفظ "بلند و بالا" سے قرونِ وسطیٰ کے شرفاء کا تصور ذہن میں آ سکتا ہے، مگر در حقیقت اس کا تعلق برگزیدہ ہستیوں سے ہے۔ پس چار بلند و بالا سچ حقیقت کا وہ تسلیم شدہ روپ ہیں جس کا بالمشافہ مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ چاروں سچ حقیقی ہیں، پر اکثر لوگ انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں، بلکہ بیشتر تو ان کے وجود سے بھی بےخبر ہیں۔

پہلی بلند و بالا سچائی

سب سے اول حقیقت کا نام "دکھ" ہے۔ مہاتما بدھ نے بتایا کہ ہماری زندگی دکھ سے عبارت ہے، اور وہ جسے ہم عارضی خوشی سمجھتے ہیں اس میں بھی بےشمار مسائل ہیں۔ لفظ "آزار" سنسکرت کے لفظ 'دکھ' کا ترجمہ ہے۔ ہمارے ہاں 'سکھ'، مسرت، اور 'دکھ'، عدم مسرت ہے۔ لسانی اصطلاح کاری میں 'کھا' ایک وقفہ ہے اور'دُہ' ایک ترمیمی سابقہ ہے جو عدم تسکین یا عدم مسرت کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمیں توصیفی الفاظ مثلاً "بد" وغیرہ کے استعمال سے گریز کرنا چاہئیے مگر یہ اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ لفظ 'دکھ' یہ عندیہ دیتا ہے کہ اس خلا میں کچھ خرابی ہے، جو ہمارے من کے خلا کی جانب اشارہ ہے، اور جس کا تعلق ہماری زندگی کے خلا سے ہے۔ یہ ایک نا خوشگوار صورت حال ہے۔ 

تو اس میں نا خوشگواری کیا ہے؟ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بھرپور آزار سے واسطہ پڑتا ہے، جیسے عدم مسرت، اور غمی۔ اس کو ہم سب پہچانتے ہیں، اور ہر کوئی، حتیٰ کہ جانور بھی، اس سے گریزاں ہیں۔ بدھ مت کے اس بیان میں کوئی خصوصی بات نہیں کہ درد اور عدم مسرت غیر تسلی بخش حالت ہے اور ہمیں اس سے نکل جانا چاہئیے۔ دکھ کی دوسری قسم تبدیلی کا دکھ ہے، اور اس کا تعلق ہماری روز مرہ کی عمومی خوشی سے ہے۔ اس قسم کی خوشی کے ساتھ کیا مسٔلہ ہے؟ اس کا مسٔلہ اس کا عارضی پن ہے؛ یہ ہر دم تغیّر پذیر ہے۔ جسے ہم عمومی مسرت کہتے ہیں اگر یہ حقیقی خوشی ہوتی، تو پھر یہ ہمیں جس قدر اور ملتی ہم اتنا ہی زیادہ خوش ہوتے۔ تو اگر ہمیں چاکلیٹ کھانے سے خوشی ہوتی ہے، تو ہم جس قدر زیادہ کھائیں گے، یا گھنٹوں کے حساب سے کھائیں گے، ہمیں اتنی ہی زیادہ خوشی ہو گی۔  مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا! یا یہ تصور کیجئیے کہ کوئی عزیز گھنٹوں آپ کا ہاتھ سہلاتا رہے۔ خوشی کا احساس جلد ہی تکلیف میں بدل جاۓ گا، یا عجیب سا محسوس ہو گا۔ اس کی سیدھی سادی وجہ یہ ہے کہ عارضی خوشی تغیّر پذیر ہوتی ہے۔ اور بے شک، اس سے ہمارا من کبھی بھی سیر نہیں ہوتا؛ ہم کبھی مطمٔن نہیں ہوتے۔ ہم ہمیشہ اور چاکلیٹ کی تمنّا کرتے ہیں، فوری طور پر نہ سہی، مگر کچھ دیر گزرنے کے بعد۔

اگر آپ اس پر ذرا غور کریں تو یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ،"میں اپنی مرغوب غذا کس مقدار میں کھاؤں کہ میں اس سے لطف اندوز ہو سکوں؟" اگرچہ قلیل مقدار ہی کافی ہونی چاہئیے مگر ہم اور کی تمنا کرتے ہیں۔ ہماری اس عمومی دنیاوی خوشی پر قابو پانا محض بدھ مت کا ہی ہدف نہیں ہے۔ کئی ایک ادیان ایسے ہیں جو ہمیں دنیاوی مسرتوں سے بالا تر ہو کر کسی قسم کی ابدی مسرت والی جنّت پانے کا اپدیش دیتے ہیں۔ 

تیسری قسم کا دکھ بدھ مت سے تخصیص ہے، یہ "ہمہ گیر دکھ" کہلاتا ہے۔ اسے ہم ہمارا "ہمہ گیر مسٔلہ" بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ آزار ہر شے میں سرائت کئیے ہوۓ ہے، اور یہ ہماری اضطراری طور پر جنم لینے، جو کہ زندگی کے نشیب و فراز کی اصل وجہ ہے، سے متعلق ہے۔ بالفاظ دگر، ہمارے پہلی دو قسم کے دکھ کا سبب ہمارے مخصوص قسم کے شریر اور من کے ساتھ  بار بار جنم لینا ہے۔ یہ امر پنر جنم کی طرف اشارہ کرتا ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔

بے شک، کئی اور بھارتی نظریات پنر جنم کی تائید کرتے ہیں، لہٰذا، یہ مہاتما بدھ کی جانب سے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ البتہ، مہاتما بدھ نے جس گہرائی میں جا کر پنر جنم کے نظام کو سمجھا اور سمجھایا ویسے اس زمانہ کے کسی بھی فلسفہ یا مذہب نے نہیں کیا تھا۔ مہاتما بدھ نے بھرپور وضاحت سے پنر جنم کے نظام کو بیان کیا کہ یہ کیسے کام کرتا ہے، اور ہمارے شریر اور ہمارے من کس طرح سے دکھ، عدم مسرت، اور عمومی خوشی کے نشیب و فراز کو محسوس کرتے ہیں۔

دوسرا بلند و بالا سچ

دوسری سچائی ہماری عدم مسرت کی اصلی حقیقت کا احاطہ کرنا ہے۔ یہاں اس وقت ہمیں پنر جنم جیسے نظریات کو زیر بحث لانے کی ضرورت نہیں۔ اس کی بجاۓ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ مہاتما بدھ نے سیدھے سادے، منطقی انداز میں کیا کہا۔ ہم دکھ اور عمومی مسرت کی بات کرتے ہیں، جن کے پس پشت وجوہات ہوتی ہیں، مگر مہاتما بدھ کی توجہ "حقیقی علل" پر تھی۔ ہم یوں سوچ سکتے ہیں کہ ہمارا دکھ سکھ ہمارے اعمال کی سزا اور جزا ہیں، مگر مہاتما بدھ کے نزدیک اصل وجہ ہمارا تعمیری یا تخریبی رویّہ ہے۔

تخریبی رویّہ سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ محض نقصان پہنچانے سے منسلک ہے؟ جب ہم نقصان پہنچانے کی بات کرتے ہیں تو اس کا رخ دوسروں کی جانب یا ہماری اپنی طرف ہو سکتا ہے۔ یہ جاننا کہ ہمارے رویّہ کا دوسروں پر کیا اثر ہو گا، اچھا یا برا، مشکل کام ہے۔ مثال کے طور پر ہم کسی کو ایک بہت بڑی رقم دیتے ہیں، اور اس کے نتیجہ میں، کوئی اور شخص جو یہ دولت چرانا چاہتا ہے اسے قتل کر دیتا ہے۔ ہمارا مقصد اس کی مدد کرنا تھا، مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ایسا ہی ہو گا۔ جو بات یقینی ہے وہ ایسا رویّہ ہے جو ہمارے خود کے لئیے نقصان دہ ہے – یہ خود تلف رویّہ ہے۔

تو اس کا مطلب ہے کہ پریشان کن جذبات کے اثر تلے فکر، فعل اور گفتار۔ پریشان کن جذبات، محض پریشانی! ان کی بدولت ہمارا من کا چین کھو جاتا ہے اور ہم ضبط نفس بھی کھو بیٹھتے ہیں۔ اس سے مراد غصہ، لالچ، لگاوٹ، حسد، سرکشی، اور بھولپن، وغیرہ ہیں۔ جب ہماری فکر ان میں سے کسی ایک جذبے سے متاثر ہوتی ہے تو ہم اس کے اثر تلے فعل اور گفتار کے مرتکب ہوتے ہیں، تو اس سے ہمارے لئیے عدم مسرت پیدا ہوتی ہے۔ ایسا خواہ فوری طور پر نہ بھی ہو، مگر مستقبل بعید میں یہ عدم مسرت کا باعث ہوتی ہے، کیونکہ اس سے طبیعت کا ایک ایسا میلان پیدا ہوتا ہے جو ہمیں ایسا بناتا ہے۔ 

دوسری جانب ہمارے پاس تعمیری رویّہ ہے، جو کہ نہ صرف ان پریشان کن جذبات سے مبرّا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ اس کے محرک پیار، درد مندی اور صبر جیسے مثبت جذبات ہوں۔.

تعمیری رویّہ باعث مسرت ہوتا ہے۔ ہمارا من شانت ہوتا ہے اور ہم سکون کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے نفس پر زیادہ اختیار ہوتا ہے، تو ہم نہ تو احمقانہ حرکتیں کرتے ہیں اور نہ ہی بیوقوفوں کی سی باتیں کرتے ہیں جو کہ مسائل کا باعث ہوتی ہیں۔ اور ہاں، یہ اثرات فوری طور پر نہ بھی رونما ہوں مگر مستقبل بعید میں یہ رویّہ مسرت دیتا ہے۔ اس کے پس پشت، تاہم، ہمارے وجود، دوسروں کے وجود اور عمومی طور پر حقیقت کے وجود کے متعلق بھولپن پایا جاتا ہے۔

ہماری عمومی مسرت اور عدم مسرت کوئی ایسا انعام یا سزا نہیں ہیں جو ہمیں کوئی خارجی منصف جیسی ہستی عطا کرتی ہے۔ یہ تقریباً طبیعات کے قوانین کی مانند کام کرتے ہیں۔ رویّہ سے منسلک علت و معلول کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ اس کی بنیاد ہماری الجھن ہے، خصوصاً اپنے بارے میں۔ ہم یوں سوچتے ہیں،"میں سب سے اہم شخص ہوں، میری بات مانی جانی چاہئیے۔ مجھے خوردہ فروشی کی دکان کی قطار میں سب سے آگے ہونا چاہئیے۔ میں سب سے اول ہوں۔" ہمیں اول بننے کا لالچ ہے اس لئیے ہم ان پر غصہ کرتے ہیں جو ہم سے آگے ہیں۔ ہم سے آگے قطار میں جو شخص ہے وہ نہائت سست رو ہے اور دیر لگا رہا ہے، اس بنا پر ہم بے صبر ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں طرح طرح کے برے خیالات دل میں لاتے ہیں۔ اگر ہم تعمیری سوچ رکھتے بھی ہوں تب بھی اس کی تہ میں "میں" سے متعلق بہت سی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر، ہو سکتا ہے کہ ہم کسی کی مدد محض اس لئیے کریں کہ وہ ہمیں اچھا جانیں یا اس کے بدلہ میں ہمارے لئیے کچھ کریں۔ یا اس سے ہمیں اپنی اہمیت کا احساس ہوتا ہے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم ہم تشکر کے تمنائی ہیں!

اگرچہ اس طرح لوگوں کی مدد کرنے سے ہمیں خوشی محسوس ہوتی ہے، مگر یہ کوئی خاص اچھا احساس نہیں ہے۔ ایسی خوشی دیرپا نہیں ہوتی۔ یہ بے اطمینانی میں بدل جاتی ہے۔ یہ سلسلہ تمام عمر چلتا رہتا ہے، اور بدھ مت کے نقطۂ نظر سے ہماری آنے والی زندگیوں میں بھی جاری و ساری رہتا ہے۔

جب ہم قریب سے دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم ہر چیز کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ مثلاً، جب ہم کسی سے بے پناہ محبت کرتے ہیں تو ہم ان کی خوبیوں کی بے حد مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ یا جب ہم کسی کو بالکل پسند نہیں کرتے تو ہم ان کی خامیوں کو بیان کرنے میں حد سے  زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور ہمیں ان کے اندر کوئی بھی اچھائی نظر نہیں آتی۔ ہم جتنا زیادہ پرکھیں، ہمیں اپنے ہر معاملہ میں اتنی زیادہ الجھن نظر آۓ گی۔ 

غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا سبب ہماری اپنی خامیاں ہیں۔ ہمارے موجودہ شریر اور من میں کمزوریاں ہیں۔ اگر ہم آنکھیں موند لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا وجود جاتا رہا اور بس میں ہی میں ہوں۔ یہ ہمارے سر میں ایک آواز کی مانند ہے جو "میں" کہلاتی ہے، یہ میرے اندر کی ایک میں ہے۔ یہ عجیب معاملہ ہے۔ بہر حال، یہ ہماری پہچان ہے کیونکہ یہ وہ شے ہے جو ہر دم شکائت کرتی ہے،"مجھے آگے بڑھنا ہے؛ مجھے یہ کام کرنا ہے۔" یہ ہر دم متفکر رہتی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اندر کی یہ آواز منفرد اور مخصوص ہے اور اس کا وجود ہر شے سے بے نیاز ہے، کیونکہ جب ہم آنکھیں بند کرتے ہیں تو اس "میں" کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ 

سوچ کا یہ انداز نہائت تشکیک زدہ ہے کیونکہ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ ہمارا وجود باقی تمام لوگوں سے جدا گانہ نہیں ہے؛ اور در حقیقت کوئی شخص بھی خاص نہیں ہے۔ ہم سب انسان ہیں۔ ذرا منجمد قطب جنوبی میں ایک لاکھ پنگوونوں کو آپس میں لپٹے تصور میں لائیں؛ ان میں سے کسی میں بھی کون سی خاص بات ہے جو اسے دوسروں سے متمیّز کرتی ہے؟ در اصل، وہ سب ایک جیسے ہیں۔ تو ہم بھی یوں ہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ پنگوونوں کے نزدیک سب انسان ایک جیسے ہیں۔ بہر حال، اس سوچ کی بنا پر کہ،"میں منفرد ہوں اور باقی سب لوگوں سے بے نیاز،" ہماری بات مانی جانی چاہئیے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہم ناراض ہو جاتے ہیں۔

در اصل، ہمارے من اور شریر کے اعضاء اس قسم کی الجھن میں گرفتار ہونے کے لئیے ساز گار ہیں۔ یہ بات عجب سی ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہم دنیا کو ہمارے سر کے سامنے جو دو سوراخ ہیں ان کے توسط سے ہی دیکھتے ہیں۔ جو میرے پیچھے ہے وہ مجھے نظر نہیں آتا۔ مجھے محض موجود کے وجود کا احساس ہوتا ہے؛ جو گزر گیا یا جو آنے والا ہے وہ میری بصیرت سے ماوراء ہے۔ یہ نہائت محدود ہے۔ اور پھر عمر رسیدگی کے باعث ہماری سماعت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ کوئی شخص کچھ کہتا ہے اور ہم ٹھیک سے سن نہیں پاتے، یہ سوچ کر کہ انہوں نے کچھ اور کہا ہم ناراض ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ اس پر غور کریں تو یہ خاصی قابلِ ترس حالت ہے۔

یہ ہمارا ایک ہمہ گیرمسٔلہ ہے کہ ہم اس قسم کے من اور شریر کے ساتھ جو ہماری اس الجھن کو جلا بخشتے ہیں، بار بار جنم لیتے ہیں۔ اس الجھن کی بنیاد پر ہم تخریبی رویّہ اختیار کرتے ہیں، یا عمومی تعمیری رویّہ اختیار کرتے ہیں،اور یہ وہ امر ہے جو ہماری عدم مسرت یا عارضی مسرت کا باعث ہے۔

اگر ہم مزید گہرائی میں جائں تو اس کی پیچیدگی بڑھتی جاتی ہے اور اس مرحلہ پر اس میں جانے کی ضرورت نہیں، مگر یہ وہ الجھن ہی ہے جو ہمارے رو بہ تکرار اضطراری پنر جنم کا سبب ہے۔ یہ ہمارے حقیقی مسائل کی اصل وجہ ہے۔ اس غلط فہمی یا لا علمی کو عموماً "جہالت" کہتے ہیں۔ مجھے یہ اصطلاح پسند نہیں کیونکہ اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ ہم احمق ہیں؛ مگر مسٔلہ یہ نہیں ہے، اور یہ وہ معانی نہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ لا علمی سے مراد محض اتنی ہے کہ ہم اپنے وجود اور مظاہر قدرت کے وجود کی ہئیت سے ناواقف ہیں۔ ہماری لا علمی کا درپن یہ ہے، جیسے یہ تصور کہ ہم سب سے اہم ہستی ہیں – دنیا کا محور -  جب کہ یہ حقیقت کے عین برعکس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم سب یہاں یکجا ہیں۔ ہم بیوقوف نہیں ہیں، مگر ہمارا من اور ہمارا شریر ہماری سوچ کے راہنما ہیں۔

یہ وہ بات ہے جس کے سبب ہم انہیں "بلند و بالا سچائیاں" کہتے ہیں۔ جو حقیقت شناس ہیں ان کا تصور اوروں کے مشاہدے سے مختلف ہوتا ہے۔ ہم اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ ہماری غلط فہمی اور ہمارے تصورات حقیقت پر منطبق ہیں۔ ہم انہیں سچ مانتے ہیں۔ ہم در اصل اس کے متعلق سوچتے ہی نہیں، کیونکہ ہماری فطرت میں یہ شامل ہے کہ "میں سب سے اہم انسان ہوں، میری بات مانی جانی چاہئیے، سب کو مجھ سے پیار کرنا چاہئیے۔" یا، بعض لوگ اس کے بالکل الٹ سوچتے ہیں،"سب کو مجھ سے نفرت کرنی چاہئیے، میں اچھا انسان نہیں ہوں۔" یہ بھی وہی بات ہے، محض سِکے کا دوسرا پرت۔ یہ ہے اصل وجہ۔

تیسری بلند و بالا سچائی

تیسری سچائی وہ ہے جسے ہم "حقیقی روک تھام" کہتے ہیں۔ اس کا ترجمہ عام طور پر "سچ مچ کا خاتمہ" کیا جاتا ہے اور یہ اس حقیقت کی جانب اشارہ ہے کہ اس الجھن کی روک تھام اور اس سے چھٹکارا ممکن ہے، یوں کہ یہ پھر کبھی واقع نہ ہو۔ اگر ہم اس الجھن سے جان چھڑا لیں جو اس کی اصل وجہ ہے، تو اس طرح ہم حقیقی مسائل کو بھی ختم کر دیتے ہیں، وہ سب نشیب و فراز اور یہ جو اس کی بنیاد ہے یعنی رو بہ تکرار اضطراری پنر جنم۔ اگر ہم ایسا کریں تو ہمیں "مکش" مل جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ سنسکرت کے ان الفاظ، "سمسار" یعنی اضطراری رو بہ تکرار پنر جنم اور "نروان" یعنی نجات سے واقف ہوں گے۔

مہاتما بدھ کے دور میں بھارت میں اور بھی نظریات ایسے تھے جو مکش اور سمسار کی بات کرتے تھے۔ یہ بات بھارت میں زبان زدِ عام تھی۔ البتہ، مہاتما بدھ نے محسوس کیا کہ ان دیگر نظریات کی نظر اس معاملہ میں اتنی گہری نہ تھی کہ وہ اصل سبب کی نشاندہی کر سکتے۔ مثال کے طور پر، آپ کسی عالم بالا میں جنم پا کر، جہاں آپ کا من صدیوں سے سپاٹ رہا ہو، اس رو بہ تکرار اضطراری پنر جنم سے نجات پا سکتے ہیں، مگر یہ واقعہ عارضی ہو گا۔ ان دوسرے نظام افکار میں حقیقی مکش پانا محال تھا۔

مہاتما بدھ نے حقیقی روک تھام کا درس دیا، اور پر اعتمادی کے ساتھ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس الجھن سے اس طرح نجات پانا ممکن ہے کہ یہ پھر کبھی پیدا نہ ہو۔ وگرنہ آپ اس سے نجات کی کوشش کیوں کریں گے؟ اگر آپ ہمیشہ کے لئیے اس غلط فہمی سے نجات پانا نہیں چاہتے تو پھر آپ اس کو ایسے ہی چھوڑ دیں، صورت حال کو قبول کر لیں اور جو بن پڑے وہ کریں۔ کئی ایک علاج ایسے ہی ہوتے ہیں: یا تو حالات سے سمجھوتہ کر لو، یا پھر گولی لے لو!

چوتھی بلند و بالا سچائی

چوتھی سچائی کو عموماً "سچا راستہ" کہا جاتا ہے، اور یہ ہمیں تیسرے سچ کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے۔ یہ من کی ایک ایسی حالت کا بیان ہے کہ جسے ہم اگر استوار کریں تو یہ مکش کی جانب راہ ہموار کر دیتی ہے۔ اسے ہم "من کی راہ" بھی کہ سکتے ہیں، مگر اس اصطلاح کا دوسری زبانوں میں ترجمہ مشکل ہے۔

ہمارے من یاوہ گوئی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور اس لغو گوئی کے بھی درجات ہیں۔ اس کی ایک شدید صورت انشقاق نفسی اور دماغی خلل ہے جس میں ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سب لوگ ہمارے دشمن ہیں۔ اس کی کم شدت والی صورتیں بھی ہو سکتی ہیں، جیسے "ایسا عمدہ چاکلیٹ کیک میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا؛ اگر میں اسے کھا لوں تو اس سے مجھے بے حد مسرت ہو گی۔" اس امر کا مجھے بکارسٹ جانے والی ایک پرواز پر ہوا، جس میں مجھے وی آنا میں رکنا تھا۔ مجھے خیال آیا،"وی آنا کی سیب کی پیسٹری دنیا کی سب سے بہترین پیسٹری ہو گی۔" تو میں نے ایک پیسٹری خریدی مگر یہ بہت عمدہ نہیں تھی۔ میرا اس کے بارے میں تصور بیکار تھا۔ سیب کی پیسٹری کا وجود میرے من کی اختراع نہیں تھی؛ مگر جیسا اس پیسٹری کو ہونا چاہئیے، یعنی دنیا کی بہترین چیز جو مجھے مسرت بخشے گی، وہ میرے من کی اختراع تھی۔

اسی طرح، میرا ایک وجود ہے، اور آپ کا ایک وجود ہے۔ بدھ مت ہمارے وجود سے منکر نہیں۔ یہ محض اتنا کہتا ہے کہ جس طور ہم اپنے وجود کی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا یہ تصور کہ چیزیں اپنا اپنا ایک جدا گانہ، دوسروں سے بے نیاز، وجود رکھتی ہیں سراسر خام خیالی ہے۔ واقعات حالات و وجوہات کے مرہون منت ہوتے ہیں جو کہ ہر لحظہ رو بہ تغیّر ہیں۔ تاہم یہ ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں، ہمیں صرف وہ چیز نظر آتی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو۔ مثال کے طور پر، ہمیں کسی سے ملنا ہے اور وہ نہیں آتے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ شخص بہت برا ہے، جو ہمیشہ ہمیں حقیر جانتا ہے اور ہمیں اب پسند نہیں کرتا۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان کی زندگی ٹریفک، دفتر میں مزید کام کا بوجھ ، وغیرہ سے بے نیاز ہے۔ مگر چونکہ ہر شے حالات و وجوہات کے تابع ہے، اس لئیے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ شخص اپنے تئیں، ہر شے سے بے نیاز، ایک برا انسان ہے۔ مگر پھر بھی ہمارا من ایسے تصور کو قائم کئیے رکھتا ہے اور غصے کا اظہار کرتا ہے جو کہ ایک تخریبی احساس ہے۔ تو اس طرح جب ہم ان سے اگلی بار ملتے ہیں تو ان کا ایک مختلف تصور قائم کئیے ہوۓ، بغیر انہیں اپنی صفائی کا موقع دئیے، ان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سب کچھ کے دوران ہم بذات خود سب سے زیادہ نا خوش اور قابلِ رحم حال میں ہیں۔ ہیں نا؟

تو، ہمارا وجود تو ہے، مگر جیسا اپنے وجود کا تصور ہم رکھتے ہیں – نہائت اہم اور سب سے جدا گانہ – یہ محض خام خیالی ہے۔ یہ لغویات ہیں۔ اس کا کسی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ بدھ مت میں ہم اسے "خالی پن" کہتے ہیں جس کا ترجمہ عموماً "کھوکھلا پن" کیا جاتا ہے۔ سنسکرت میں یہ لفظ "صفر" کی مانند ہے جس کا مطلب ہے "نیست،" کسی حقیقی شے کا عدم وجود۔ مثلاً جب ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ ہمارا نیا ساتھی سفید گھوڑے پہ سوار پریوں کی کہانی کا کوئی شہزادہ یا شہزادی ہے -  تو یہ نا ممکن ہے۔ ایسی کسی ہستی کا کوئی وجود نہیں، مگر ہم سب کو پھر بھی اس کی تلاش ہے۔ اور جب وہ شخص ہماری توقعات پر پورا نہیں اترتا تو ہمیں مایوسی ہوتی ہے اور ہم کسی اور کی تلاش میں چل کھڑے ہوتے ہیں، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک امر نا ممکنہ ہے۔ 

پس من کے حقیقی راستے سے مراد اس بات کی فہم ہے کہ یہ سب بکواس ہے، اور یہ کہ ہمارے تصورات کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر ہم اصل وجہ کو دیکھیں، تو یہ وہ صعوبت ہے جو اس چیز سے پیدا ہوتی ہے کہ ہمارے تصورات حقیقت سے مشابہ ہیں۔ سچا راستہ اس امر کا ادراک ہے کہ اس کی کسی حقیقت سے کوئی مطابقت نہیں۔ ہمارے حقیقی اور افسانوی تصورات باہمی طور پر متناقض ہیں۔ میں اسے دوہراتا ہوں – الجھن اس بات کی ہے کہ یہ سوچنا کہ یہ تصور حقیقت سے متماثل ہے، اور درست فہم یہ جاننا ہے کہ ایسی کوئی شے وجود نہیں رکھتی۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ یا تو کوئی شے مطابقت رکھتی ہے یا ایسی کوئی شے نہیں۔ اس کا جواب ہاں یا نہ میں ہے؛ ہم دونوں کو بیک وقت صحیح نہیں مان سکتے۔

اب ہم اس چیز کا تجزیہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے لئیے کیا موزوں ہے: "ہاں" یا "نہ"؟ اگر ہم منطق سے کام لیں تو جواب صریحاً "نہ" ہو گا کیونکہ "ہاں" منطق پر پورا نہیں اترتا۔ جب میں آنکھیں بند کر لیتا ہوں تو کیا سب کا وجود ختم ہوجاتا ہے؟ یقیناً نہیں۔ کیا یہ درست ہو گا کہ ہمیشہ میری ہی بات مانی جاۓ کیونکہ میں دنیا کا اہم ترین انسان ہوں؟ نہیں، یہ احمقانہ بات ہے۔ ہم جس قدر اس کو پرکھیں اتنا ہی ہم اس "میں" جو ہمارے سر کے اندر ہے پر سوال اٹھائں گے۔ اگر آپ اپنے دماغ کا جائزہ لیں، تو ہمارے دماغ کے اندر یہ "میں" کہاں ہے جو ہمارے فیصلے کر رہی ہے؟ سچ مچ میں کیا ہو رہا ہے؟ تجزیہ کرنے پر ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کوئی شے موجود نہیں جسے ہم "میں" کہ سکیں۔ بے شک میں متحرک ہوں، میں کام کرتا ہوں، میں بولتا ہوں۔ ہم اس سے منکر نہیں ہیں۔ ہم جس چیز کی نفی کر رہے ہیں وہ یہ ٹھوس " میں" ہے جو اپنی بات منوانے پر بضد ہے، کیونکہ منطق کے لحاظ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ دلیل اور تحقیق سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسی کسی شے کا کوئی وجود نہیں، تو ہماری یہ غلط فہمی کہ اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ ہے بے معنی ہے۔ 

اس ناممکن طریقہ سے وجود کے تصور کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ہم اپنے آپ کو بد حال بنا لیتے ہیں! اور ایسی سوچ کا کیا اثر ہوتا ہے کہ ایسا کوئی وجود نہیں ہوتا؟ ہم اپنے آپ کو ان سب مسائل سے آزاد کر لیتے ہیں۔ جب میں سوچتا ہوں،  "ایسی کوئی چیز نہیں، یہ سب بیکار ہے،" تو اسی لمحہ یہ سوچنا نا ممکن ہے کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے۔ درست فہم غلط فہمی پر قابو پا سکتی ہے اور اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ اگر ہم ہمیشہ درست فہم پر توجہ مرتکز رکھیں تو پھر کبھی بھی غلط فہمی پیدا نہیں ہو گی۔

یہاں بھی مہاتما بدھ کا یہ اپدیش کہ حقیقت کا درست ادراک غلط فہمی دور کر سکتا ہے اور دکھ اور پنر جنم سے مکش دلا سکتا ہے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ بھارت کے دوسرے فلسفے بھی اس پر زور دیتے تھے۔ جو بات یہاں منفرد تھی وہ اس بات کی خصوصی فہم تھی جو حقیقت کے متعلق ذرہ برابر شک کو بھی دور کر سکتی تھی۔ مراقبہ کے ذریعہ کامل ارتکاز سے ہمارے من میں ایسی درست فہم استوار کرنے کی غرض سے، تا کہ الجھن کا پکا خاتمہ کیا جا سکے، مہاتما بدھ نے دوسرے بھارتی دھرموں کے ساتھ مشترک طریقوں سے استفادہ کیا۔ ان کے توسط سے ہم اصل وجہ کی پکی روک تھام کر سکتے ہیں تا کہ دکھ کا ہمیشہ کے لئیے خاتمہ ہو جاۓ۔ 

جو چیز ہمارے من کو اس بات کی شکتی دیتی ہے کہ ہم حقیقت کا صحیح ادراک کر سکیں اور تخریبی جذبات سے بچیں وہ ہے ہماری تحریک۔ یہاں ہمیں پیار، درد مندی وغیرہ سے معاملہ ہے۔ جب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم سب آپس میں منسلک ہیں اور سب ہی مسرت کے خواہاں ہیں، تو ہم اس الجھن سے نکلنے اور سب کی بھر پور مدد کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
یہ چار بلند و بالا سچائیوں کی بنیادی سوجھ بوجھ ہے۔ انہیں مزید گہرائی میں سمجھنے کے لئیے ہمیں بدھ مت کے نقطۂ نظر سے من اور کرم کے بارے میں مزید جانکاری لینا ہو گی۔

ویڈیو: چودھویں دلائی لاما ـ «بودھی نقطۂ نظر سے من کا سکون»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

خلاصہ

اگرچہ بدھ مت اور دیگر بڑے ادیان اور فلسفی نظریات کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے، مگر چار بلند و بالا سچائیاں جو کہ مہاتما بدھ کی پہلی تعلیم ہے یہ ہمارے وجود، ہمارا دکھ درد اور مسائل پر قابو پانے کے متعلق منفرد اپدیش ہے۔ 

مہاتما بدھ کو عموماً ایک ڈاکٹر کہا جاتا ہے۔ جیسے کوئی ڈاکٹر ہمارے مرض کی تشخیص کرتا ہے، یوں ہی مہاتما بدھ نے ان بے شمار دکھوں کی نشاندہی کی جو مختلف ہستیاں ہر جا جھیلتی ہیں۔ جیسے کوئی ڈاکٹر مرض کی وجوہات تلاش کرتا ہے ایسے ہی مہاتما بدھ نے ہماری اپنے وجود کے متعلق غلط فہمی کو ہمارے دکھ کا اصل سبب قرار دیا۔ پھر وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا ہم قابلِ علاج ہیں یا نہیں، اور پھر اگر وہ دے سکیں تو ہمیں دوا دیتے ہیں۔ اسی طرح مہاتما بدھ نے پکی روک تھام کا طریقہ بتایا۔ بالآخر، اگر ہم اپنے دکھ کا خاتمہ چاہتے ہیں تو دوا لینا یا مجوّزہ راہ اختیار کرنا ہم سب کی اپنی اپنی ذمہ داری ہے۔

Top