دو سچائیاں

ابتدائیہ

چار بلند و بالا سچ

مہاتما بدھ آج سے ۲،۵۰۰ برس قبل ہندوستان میں گزرا۔ چونکہ اس کے پیروکار الگ الگ مزاج اور صلاحیت کے مالک تھے، تو اس نے ہر ایک کو انفرادی طور پر اس طرح درس دیا جیسے کہ وہ سمجھ سکیں۔ لیکن سب سے پہلی بات جو اس نے سب کو بتائی وہ اس کی اس عمیق فہم کے متعلق تھی کہ اسے کیسے روشن ضمیری نصیب ہوئی: اس کو اس نے "چار بلند و بالا سچائیوں" کا نام دیا۔ یہ زندگی کے وہ چار سچے حقائق ہیں جنہیں عام لوگ حقائق تصور نہیں کرتے، لیکن وہ برگزیدہ ہستیاں (آریہ) جنہوں نے حقیقت کا عدم تصوراتی روپ دیکھا ہے وہ ان کی حقیقت کو پہچان سکتے ہیں۔ مختصراً، یہ چار حقائق ان سوالوں کا جواب ہیں: 

  • وہ کون سے حقیقی مسائل اور آزار ہیں جن سے سب کا واسطہ پڑتا ہے؟
  • ان کی وجوہات کیا ہیں؟
  • کیا ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا واقعی ممکن ہے، ان کی ایسی روک تھام کہ یہ پھر کبھی سر نہ اٹھائں؟
  • وہ کون سی فہم ہے جس سے ان کی روک تھام اور ان کی وجوہات کی روک تھام ممکن ہو گی؟

ان سوالوں کے جواب سے پتہ چلے گا کہ مہاتما بدھ کی تعلیمات کا بنیادی ڈھانچہ کیا تھا جس کی اس نے باقی ساری عمر گہری تعلیم دی، اور یہ وہ کچھ ہے جس کا سبق اس نے پہلے پہل دیا۔

جب ہم ان چار بلند و بالا سچائیوں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ سب سے الگ تھلگ اپنا وجود نہیں رکھتیں۔ ان کے مکمل ادراک سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا کوئی منبع ہے اور ان کا کوئی ہدف بھی ہے۔ سادہ لفظوں میں، ان چار سچائیوں کی – ان چار زندگی کے بنیادی حقائق کی – بنیاد حقیقت ہے۔

اگر ہم بدھ مت کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہیں، تو جیسا کہ میرے ایک دوست نے کہا جو کہ بدھ گرو بھی ہے، وہ لفظ "حقیقت پسندی" ہو گا۔

اگر ہم حقیقت کی شناخت اور اس کا ادراک کر سکیں اور اسے نا ممکنہ اور غیر حقیقت پسند تصورات کے بغیر قبول کر سکیں، تو ہم زندگی میں درپیش مسائل سے حقیقت پسندی سے نمٹ سکیں گے۔

لہٰذا حقیقت پر تعلیم ان چار سچائیوں کی بنیاد ہے۔ حقیقت زندگی میں چیزوں کے مختلف درجات پر وجود اور ان کی کارگزاری کا احاطہ کرتی ہے۔ مہاتما بدھ نے ان سب باتوں کا سبق دیا۔

تین قیمتی جواہر 

ان چار بلند و بالا سچائیوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہم نے مسائل اور آلام پر قابو پانے کے لئیے اپنی زندگی کو کس ڈگر پر ڈالنا ہے۔ بدھ مت کی زبان میں اس سمت کو "تین قیمتی جواہر" یا "پناہ کے تین جواہر" کہتے ہیں – بدھا، دھرم، سنگھا۔ ہر ایک کے معانی کے کئی درجات ہیں، لیکن عمیق ترین سطح پر، یہ ظاہر کرتے ہیں:

  • دھرم – ہمارا وہ ہدف جس پر ہم کام کر رہے ہیں، یعنی مسائل اور ان کے اسباب سے نجات، اور اس امر کا مکمل ادراک جس سے ہم ان سے ہمیشہ کے لئیے چھٹکارا پا لیں
  • بدھا – وہ جنہوں نے اس ہدف کو پوری طرح سے پا لیا ہے اور وہ ہمیں ایسا کرنے کا سبق دیتے ہیں
  • سنگھا – وہ جو اس راہ پر گامزن ہیں اور جنہوں نے اس کو جزوی طور پر پا لیا ہے، مگر پوری طرح نہیں۔

۱۷ نالندا گوروں کے آگے دعا

قدیم ہندوستان کے عظیم بدھ متی آشرم کے ۱۷ عظیم بودھی گرووں سے تحرک پانے کی خاطر تقدس مآب دلائی لاما نے ایک سندر التجا مرتب کی۔ اس آشرم کا نام نالندا تھا اور یہ تقریباً ایک ہزار سال تک قائم رہی۔ اسے ایک آشرم کی طرح چلایا جاتا تھا، اور یہ اپنے زمانہ کی مشہور ترین جامعہ تھی اور اس نے ہندوستانی بدھ متی مسلک کے عظیم ترین گرو پیدا کئیے۔ دلائی لاما نے یہ تحریر ایک دعا کی شکل میں مرتب کی جس میں تمام ۱۷ گرووں کو مخاطب کیا گیا ہے: "مجھے اپنے نقش قدم پر چلنے کی تحریک عطا فرما۔" ان فرداً فرداً التجاؤں کے بعد تقدس مآب نے کئی اور عمومی اشلوک لکھے جن میں سب کو مخاطب کیا گیا ہے۔  

میں یہاں ان اشلوکوں میں سے ایک پر تبصرہ پیش کرنا چاہوں گا۔ ابھی میں نے جو حقیقت (دو سچائیاں) کے متعلق کہا یہ اس کا خلاصہ ہے، چار بلند و بالا سچائیاں، اور پناہ کے تین جواہر۔ پناہ سے مراد یہ ہے کہ اگر ہم ان تینوں کی بتائی ہوئی راہ پر چلیں، تو ہم مسائل اور مصائب سے بچ سکتے ہیں۔ 

یہ اشلوک کہتا ہے:

دو سچائیوں کا مطلب جان لینے سے، جو کہ بنیاد ہے، وہ راہ جس پر تمام چیزیں کار بند ہیں،

"کاربند" سے مراد یہ ہے کہ جیسے اشیاء وجود کی حامل ہیں، کیسے کام کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حقیقت شناسی۔ 

ہمیں اس بات کا تیقن حاصل ہو جاتا ہے کہ کیسے، چار سچائیوں کی بدولت، ہم آتے رہتے ہیں مگر اس اضطراری پنر جنم کو واپس موڑ سکتے ہیں۔ 

اگر ہم حقیقت کو سمجھ جائں، تو ہم جان جائں گے، ان چار سچائیوں کے توسط سے کہ، ہم کیسے مسائل کو تواتر بخشتے ہیں، اور یہ کہ ہم کیسے ان سے نجات پا سکتے ہیں۔ 

صحیح شناخت کی بدولت، تین پناہوں کے حقیقت ہونے کے متعلق ہمارا تیقن اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ 

یاد رکھو کہ تین پناہیں اس ہدف کے پیش نظر تشکیل پاتی ہیں کہ ہم اپنے مسائل کا مکمل قلع قمع کر سکتے ہیں یوں کہ وہ دوبارہ کبھی سر نہ اٹھائں اور اس بات کی فہم کہ یہ کیسے ہو گا۔

اگر آپ بدھ مت کا پاٹھ کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کا ایک ہدف ہے۔ آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ اس ہدف کا حصول ممکن ہے یا نہیں؟ کیا یہ محض افسانہ ہے؟ کیا یہ کوئی دلچسپ کہانی ہے یا کہ حقیقت؟ بہت سارے لوگ محض ایمان کی بنیاد پر ہدف کو پانے کی کوشش کرتے ہیں: "میرے استاد نے کہا کہ یہ ایسے ہے۔ تو پھر، میں اسے سچ ماننا چاہتا ہوں، پس میں مانتا ہوں۔"

بہت سارے لوگوں کے لئیے یہ کار گر ہے، لیکن یہ پاٹھ کا ٹھوس تر طریقہ نہیں ہے۔ ایک لمبا عرصہ پاٹھ کرنے کے بعد، اکثر ہوتا یہ ہے کہ آپ اپنے آپ سے سوال کرنا شروع کر دیتے ہیں، کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ابھی بھی غصہ، لگاوٹ، خود غرضی وغیرہ – فساد کی اصل جڑ – سے مغلوب نظر آتے ہیں، اور ان سے نجات واقعی نہائت مشکل ہے۔ لہٰذا کامیابی نہائت دھیرے دھیرے آتی ہے۔ لیکن آپ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ ترقی کبھی بھی یک بُعدی نہیں ہوتی: اس میں ہمیشہ نشیب و فراز پایا جاتا ہے۔ بعض دن اچھے ہوتے ہیں اور بعض دن برے۔ اگر آپ بدھ مت کا پاٹھ محض ایمان کی بنیاد پر کر رہے ہیں تو آپ دل برداشتہ ہو سکتے ہیں کیونکہ یوں لگتا ہے کہ آپ کو کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ تب آپ سوال کرتے ہیں، "کیا ہدف کو پانا واقعی ممکن ہے؟"

اسی لئیے یہ اشلوک کہتا ہے، "صحیح شناخت کی بدولت۔" دوسرے لفظوں میں، جب آپ کو بات واقعی سمجھ آ جائے – دلیل اور منطق کی رو سے – کہ ہدف واقعتاً موجود ہے اور اس کا حصول بے شک ممکن ہے، تب ہدف کے متعلق آپ کا یقین، اس کو پا لینے کا امکان اور یہ کہ ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اسے پایا مضبوط ہو جاتا ہے۔ آپ کو اس بات پر بھروسہ ہے کہ یہ باتیں حقیقت ہیں، نہ کہ محض کسی مقدس کتاب میں لکھی ہوئی باتیں ہیں۔ آپ کو دو سچائیوں کے حقیقت ہونے پر یقین ہے، اور چار سچ اور تین پناہ گاہیں حقیقت کی بنیاد پر اس کا منطقی نتیجہ ہیں۔ 

مجھے اس راہ پر گامزن من جو نروان کی جانب لے جاتا ہے کی جڑ کو نقش کرنے کی ترغیب عطا فرما۔ 

آپ ایک بیج بوتے ہیں مگر یہاں آپ ایک جڑ کو بوتے ہیں۔ الفاظ کا یہ انتخاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ دو سچائیاں، چار سچ اور تین پناہ گاہوں کا ڈھانچہ تمام بودھی روحانی راہ کی جڑ ہیں، کیونکہ یہ ہر چیز کا منبع ہیں۔ جب یہ جڑ مضبوطی سے آپ کے من میں گاڑ دی جاتی ہے تو آپ کی تمام عبادت یقین پر قائم ہوتی ہے۔ آپ اپنے کام کو سمجھتے ہیں، آپ جانتے ہیں کہ ہدف کا حصول ممکن ہے، اور آپ اس ہدف کو بھی سمجھتے ہیں۔ 

میرے خیال میں یہ بدھ مت کو سمجھنے کا نہائت اہم طریقہ ہے، کیونکہ اگر ہم نے روحانی راہ پر چلنا ہے، تو اس امر کا تیقن نہائت لازم ہے کہ یہ حقیقت پر مبنی ہے۔ یہ کوئی تصوراتی افسانہ نہیں ہے جس پر ہم جذبات کے باعث فریفتہ ہو گئے ہیں، جو کہ قطعی طور پر نا ممکن ہے۔ اگر ہمیں اس بات کا یقین ہو کہ ہم جو کچھ اپنی روحانی زندگی کے لئیے کر رہے ہیں وہ حقیقی ہے، تو پھر ہم اسے صحت مند جذبہ کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ ہمیں دونوں کے درمیان توازن چاہئیے: درست فہم اور بھر پور جذبہ، مثلاً درد مندی، جوش و خروش، صبر وغیرہ۔ 

دو سچائیاں

اضافی، روائیتی سچائی

دو سچائیوں کے معانی جان لینے سے، جو کہ بنیاد ہے، وہ راہ جس پر تمام چیزیں کار بند ہیں،

اس اشلوک کی پہلی سطر دو سچائیوں کی بات کرتی ہے: "اضافی سچائی" یا "روائیتی سچائی" اور "عمیق ترین  سچائی" – دوسرے لفظوں میں، ہر شے کی اصلیت کے بارے میں دو حقائق۔ ایک تو سرسری، سطحی ہے مگر دوسرا بہت گہری سطح پر ہے۔ دونوں الگ الگ نکتہ نظر سے درست ہیں۔ ان کے کئی روپ ہیں مگر یہاں ہم اس روپ پر بات کریں گے جسے تقدس مآب دلائی لاما اس وقت استعمال کرتے ہیں جب وہ ایک بڑے عام جلسہ سے خطاب کر رہے ہوں۔ 

علت و معلول

ہر شے جس سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اس کی سطحی حیثیت کیا ہے؟ وہ یہ کہ ہر وہ شے جس سے ہمارا تعلق ہے اس کے وجود کے پس پشت کچھ اسباب ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہر شے کی نمو، اس کا وجود علت و معلول کے قانون کا پابند ہے۔ طبیعات بھی علّیت کے اصول کو مانتی ہے، مگر محض مادی مظاہر فطرت کے حوالے سے، مثلاً گیند کو ٹھوکر مارنا اور اس سے گیند کا حرکت میں آنا۔ یہ تعلق سیدھا سادہ میکانکی عمل ہے، علت و معلول۔

علّیت کو بے شک ایک نہائت پیچیدہ سطح پر بھی بیان کیا جا سکتا ہے اگر آپ کسی واقعہ کے پیش آنے والے تمام عناصر کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ معاشی مسائل، کرہ ارض کی افزوں پذیر حرارت، علاقائی جنگیں وغیرہ کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی وجہ کوئی ایک چیز نہیں ہوتی۔ اور ایسا بھی نہیں کہ ان کی کوئی وجہ نہ ہو، یا یہ کہ ان کی وجوہات بے محل ہوں۔ بلکہ ، ایسی تمام چیزیں کئی مختلف عناصر کی مرہون منت ہوتی ہیں۔ اس میں نہ صرف موجودہ حالات کا عمل دخل ہوتا ہے بلکہ جو ماضی میں ہوا اس کا اثر بھی ہوتا ہے۔ جیسے یہاں اس ملک یوکرین میں، آپ موجودہ صورت حال کو روس کے ماضی سے یا دوسری جنگ عظیم کے واقعات سے الگ نہیں کر سکتے۔ دور حاضر کی معاشی اور ماحولیاتی صورت حال کے پس پشت پوری تاریخ کے واقعات بطور اسباب کے موجود ہیں۔ پس آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار ایک شخص ہے یا اس کی کوئی ایک وجہ ہے۔ واقعات اپنے وقوع پذیر ہونے کے لئیے اسباب اور حالات کے ایک بہت بڑے تانے بانے کے تابع ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے، ہے نا؟

یا اگر آپ نفسیات کے نکتہ نظر سے دیکھیں: اگر آپ کے خاندان میں کوئی مسٔلہ ہے، تو آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ اس کی ایک ہی وجہ ہے یا اس کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ خاندان کے ہر فرد نے اس مسٔلے کے رو نما ہونے میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح آپ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہر کسی کے رویہ کا ان کے کام پر پیش آور حالات، سکول کے اور دوستوں کے معاملات سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہر شے کا کوئی نہ کوئی اثر ہوتا ہے۔ علاوہ از ایں، خاندانی حالات،  معاشرہ اور اس کے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام سے الگ تھلگ اپنا وجود نہیں رکھتے۔ یہ سب کے سب، کسی نہ کسی طرح، مسٔلے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ 

پس یہاں حقیقت پسندی کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر شے دوسری اشیاء سے منسلک ہے اور باقی چیزوں پر اثر کرتی ہے۔ ہر وقوع پذیر امر کے پس پشت اسباب اور حالات کا ایک بہت بڑا اور پیچیدہ نظام ہے۔ اور یہی حقیقت ہے۔

 اگر مادی اشیاء، عالمگیر مسائل، گھریلو مسائل سب اس کے تابع ہیں تو ہم سب کا ذاتی، انفرادی سطح پر کیا معاملہ ہے؟ مسرت اور عدم مسرت کے متعلق کیا خیال ہے؟ یا اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے؟ کیا ان کی کوئی وجہ نہیں ہوتی؟ بعض اوقات میں خوش ہوتا ہوں، بعض اوقات خوش نہیں ہوتا، اور یہ جاننا نا ممکن ہے کہ اگلے لمحہ میں کیسا محسوس کروں گا۔ تو کیا اس کا کوئی سبب نہیں ہے؟ یا یہ میرے اس لمحہ عمل کا نتیجہ ہے؟ خیر، اس سے بات نہیں بنتی، ہے نا؟ دو مختلف اوقات میں میں ایک ہی چیز کھا رہا ہوں، ایک روز تو میں اسے بڑے مزے سے کھاتا ہوں اور کسی اور دن میں اسے نہائت بیزاری سے کھاتا ہوں، پس اس میں کھانے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں اپنے کسی نہائت عزیز اور پیارے انسان کی صحبت میں کبھی تو پر مسرت ہو سکتا ہوں اور کبھی عدم مسرت کا شکار ہو سکتا ہوں۔ میرے پاس دولت ہے اور حالات سازگار ہیں مگر میں پھر بھی نا خوش ہو سکتا ہوں۔ 

تو یہ مسرت اور عدم مسرت کہاں سے آتی ہیں؟ کیا انہیں کوئی اعلیٰ و ارفع ہستی ایک بٹن دبا کر بھیجتی ہے تا کہ کبھی تو میں خوشی محسوس کروں اور کبھی نا خوش ہو جاؤں؟ معاف کیجئیے میں موجب دلآزاری نہیں ہونا چاہتا۔ میں احمقانہ سی بات کر رہا ہوں۔ لیکن آپ کا ہر تجربہ – جیسے مادی اشیاء کی حرکت یا آپ کے ہاتھ کا جل جانا اور دکھنا جب آپ غلطی سے گرم چولھے کو چھو بیٹھیں – یہ سب علت و معلول کے قانون کے تابع ہیں، تو کیا مسرت اور عدم مسرت کو بھی علّیت کے قابل فہم قوانین کا تابع نہیں ہونا چاہئیے؟ تو یہ ہے اصل سوال اور حقیقت کے متعلق اصل نکتہ جو اس اشلوک میں اضافی حقیقت کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ ہمارے رویہ اور تجربہ کے حوالے سے پیدا ہونے والی مسرت اور عدم مسرت کو علت و معلول کے اصول کے آئینے میں دیکھنے کا نتیجہ ہے۔  

کرم

اس سے ہم بدھ مت کے کرم کے متعلق بنیادی نظریہ تک جا پہنچتے ہیں۔ کرم کیا چیز ہے؟ یہ کوئی آسان موضوع نہیں ہے۔ اس کے کئی روپ ہیں اور بہت ساری غلط فہمیاں بھی ہیں، مگر بنیادی طور پر:

کرم اس اضطراری کیفیت کا نام ہے جو ہمارے عمل، گفتار اور فکر کو اکساتی ہے اور اسے متشکل کرتی ہے۔

ہمارا رویہ خواہ وہ ضرر رساں ہو، تعمیری ہو، یا غیر جانبدار ہو، کسی حد تک اضطراری ہوتا ہے، اس پر ذرا غور کریں۔

  • میں کسی پر ناراض ہوں اور اس پر چیخنا چاہتا ہوں اور پھر، جبراً، میں ایسا کرتا ہوں۔
  • میں حد سے بڑھ کر محتاط ہوں اور یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ بچہ ٹھیک تو ہے نا اور پھر، جبراً، میں بار بار چیک کرتا ہوں، ضرورت سے کہیں زیادہ بار۔
  • میں بھوکا ہوں اور ریفریجیریٹر سے کچھ کھانے کو لینا چاہتا ہوں اور پھر، جبراً، میں کھانے کو کچھ لینے جاتا ہوں۔

یہ احتیاج کہاں سے آتی ہے؟ اور یہ کہاں لیجاتی ہے؟ کرم میں اس قسم کے سوالوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اس کا بدھ مت کے مطابق جواب یہ ہے کہ جب آپ کسی احتیاج کے زیر اثر کسی فعل، گفتار یا فکر کو سرزد کرتے ہیں، تو یہ آپ کے من کے تسلسل پر ایسے امکانات اور رحجانات کو جنم دیتا ہے جو اس کے بعد پیش آنے والے ہر واقعہ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب کبھی بعض حالات کی وجہ سے یہ پھر سر اٹھائے، تو آپ اسی قسم کے رویہ کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس احساس کی بدولت، ایسی احتیاج پیدا ہوتی ہے جو اضطراری طور پر آپ کو اسی رویہ کو دوہرانے پر اکساتی ہے۔ یہ احتیاج ہی اصل کرم ہے۔

آپ اس مظہر کو بے شک فعلیات کے لحاظ سے بھی بیان کر سکتے ہیں۔ کسی خاص طور سے عمل کرنے سے ایک نیوراتی راہ بنتی ہے اور تقویت پکڑتی ہے، تو بعد از آں آپ مزید آسانی سے اس رویہ کو اپناتے ہیں۔ بدھ مت یقیناً اس طبیعاتی پہلو سے منکر نہیں ہے؛ لیکن یہ اس مظہر کو تجرباتی پہلو سے بیان کرتا ہے، مگر پھر بھی اسے علت و معلول کے اصول کی مزید توثیق خیال کرتا ہے۔ 

تو مسرت اور عدم مسرت کے متعلق کیا خیال ہے؟ بدھ مت اسے بھی کرم کے اسباب اور نتائج کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔ اگر آپ ناخوش ہیں تو یہ آپ کے اس دیر پا اضطراری نقصان دہ رویہ کا نتیجہ ہے جو آپ کے پریشان کن جذبات سے مغلوب طور اطوار سے پیدا ہوا۔ اگر آپ عمومی مسرت سے ہمکنار ہیں – ایسی مسرت جو دیرپا نہیں ہوتی اور طمانیت پیدا نہیں کرتی، مگر پھر بھی آپ اچھا محسوس کرتے ہیں – تو یہ آپ کے لمبے عرصہ تک تعمیری رویہ کے زیر اثر رہنے کا نتیجہ ہے جو کہ مثبت جذبات جیسے صبر اور نرم دلی سے پیدا ہوا۔ لیکن پھر بھی یہ اضطراری ہی ہے کیونکہ اس میں ہمارے وجود کے متعلق غلط فہمی پائی جاتی ہے، جیسا کہ ایک عادی خیر کار، یا عادی کمال پسند۔

ہم اس علّیاتی تانے بانے کو کیسے سمجھتے ہیں؟ سب سے اول، ہمیں تعمیری اور تخریبی رویہ کے درمیان فرق کو سمجھنا ہے۔ یہ امتیاز اس بنیاد پر نہیں کیا جاتا کہ آپ کے رویہ کا کسی اور پر کیا اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ غصے میں ہیں اور کسی کو چاقو مار دیتے ہیں، تو یہ تخریب کاری ہے۔ دوسری جانب، اگر آپ ایک جراح ہیں اور کسی شخص پر کوئی جان بچانے والا کام کرنے کی خاطر اسے چاقو سے کاٹ کر کھولتے ہیں، تو یہ تعمیری ہو گا۔ بلا شبہ کسی کو چاقو مارنے کا فعل اس بات کا تعیّن نہیں کرتا کہ یہ فعل اچھا ہے یا برا ہے۔ یہ سب تحرک پر مبنی ہے: من کی وہ حالت جس کے تحت یہ کام کیا گیا اور اس سے کیا پانے کی توقع تھی۔ 

اگر اس فعل کا محرک کوئی پریشان کن جذبہ جیسے غصہ، لگاوٹ، لالچ، لاعلمی، حسد، تکبر، خود غرضی، اور ایسی چیزیں تھی، تو یہ نقصان دہ ہے، خواہ آپ کوئی بھلائی کا کام ہی کر رہے ہوں۔ مثلاً اگر آپ کسی کی مالش کرتے ہیں اس خواہش کے تحت کہ آپ اسے اپنے جنسی جذبات کا نشانہ بنائں، تو آپ کا فعل تخریبی ہے۔ دوسری جانب، اگر آپ کا فعل ان پریشان کن جذبات سے پاک ہے، تو یہ تعمیری مانا جائے گا، خواہ یہ فعل کچھ ایسا اچھا نہ ہو۔ مثال کے طور پر، بطور ماں یا باپ کے آپ اپنے بد اطوار بچے کو اس کے کمرے میں بھیج دیتے ہیں، غصہ کی بنا پر نہیں بلکہ پیار کی وجہ سے کہ انہیں اپنا رویہ درست کرنا سکھا سکیں۔ بیشتر صورتوں میں، تعمیری فعل پھر بھی اضطراری ہی ہو گا کیونکہ اس کے پس پشت لا شعوری طور پر یہ محرک ہوگا کہ اپنی شناخت، جو کہ یہاں، ایک اچھی ماں یا اچھا باپ ہونا ہے، کو قائم رکھا جائے۔ 

تو پھر ہم عدم مسرت اور نقصان دہ رویہ جو کہ پریشان کن جذبات کی پیداوار ہے کے درمیان رشتے کو علت و معلول کے حوالے سے کیسے سمجھیں، اور مسرت اور تعمیری رویہ کے باہمی رشتہ کو جو کہ پریشان کن جذبات سے پاک ہے، علت و معلول کے حوالے سے کیسے سمجھیں؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے اور نہائت اہم بھی، کیونکہ مہاتما بدھ نے کرم، پریشان کن جذبات اور الجھن کو جو کہ ہمارے وجود کی ہئیت اور ہمارے احساس کے اسباب کی بنیاد ہے کے طور پر پہچانا۔ یہ عدم مسرت اور غیر تسلی بخش عارضی مسرت کے اسباب ہیں۔ ہمیں ان دو طرح کے محسوسات سے پیدا ہونے والے آزار سے نجات پانے کے لئیے ان سے دور کہیں دیکھنا ہو گا۔ 

آئیے ہم اس پر غور کریں۔ جب آپ کسی شخص یا کسے شے کے متعلق غصہ کے زیر اثر عملاً کچھ کریں، یا کچھ کہیں یا سوچیں، تو کیا آپ پر سکون محسوس کرتے ہیں؟ کیا آپ کی شکتی شانت ہوتی ہے؟ نہیں یہ بالکل پرسکون نہیں ہوتی؛ یہ شورش کا شکار ہوتی ہے۔ کیا ایسے موقع پر آپ خوش ہوتے ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص یہ کہے گا کہ غصہ کی حالت میں یا کسی اور پریشان کن جذبہ کے زیر اثر وہ خوشی محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ اپنی شکتی کا جائزہ لیں، جب آپ طمع زدہ ہوتے ہیں، تو آپ مطمٔن نہیں ہوتے؛ آپ کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ آپ کو شائد کافی نہ ملے۔ جب آپ کسی سے بری طرح وابستہ ہوں اور ان سے سخت اداس ہو جائں، تب بھی آپ شانت نہیں ہوتے؛ آپ کی شکتی بہت پریشان ہوتی ہے۔ اور اگر آپ غصہ، لالچ، خود غرضی اور ایسی ہی چیزوں سے مبرّا ہوں، اور آپ نرم دلی سے کام لے رہے ہوں، تو آپ کا من کسی حد تک شانت ہوتا ہے، آپ کی شکتی پر سکون ہوتی ہے، خواہ یہ مسرت کا ایک لطیف نہ کہ ڈرامائی پہلو ہی کیوں نہ ہو۔ اگر آپ کوئی اضطراری "بھلائی پسند" ہی کیوں نہ ہوں جو کہ ہر کام باکمال طریقہ سے کرنا چاہتا ہو، تو آپ کی شکتی شانت ہو گی اور آپ بھلائی کا کوئی کام کر کے خوشی محسوس کریں گے بہ نسبت اس کے کہ جب آپ غصہ تلے کچھ کرتے ہیں۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بھلائی کا کوئی کام کرتے وقت آپ پر یہ خوف طاری ہو کہ آپ کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں یا کام کو اچھی طرح نہ کر پائں، تو ایسے خیالات اور فکر سے آپ کو سکون نہیں ملے گا۔ 

یہاں جو بات قابل ذکر ہے وہ یہ کہ عدم مسرت یا ذیلی مسرت کا یہ احساس دیرپا نہیں ہوتا خواہ آپ کا کام ختم بھی ہو چکا ہو۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب آپ کچھ کر رہے ہوں تو آپ کے محسوسات پر آپ کے گزشتہ اعمال اثر کر سکتے ہیں۔ جب مہاتما بدھ نے کرم اور مسرت یا عدم مسرت جو بھی ہم محسوس کرتے ہیں کے درمیان رشہ کو بیان کیا، تو وہ ہمارے احساس جو فعل کے فوراً بعد پیدا ہوا کی بات نہیں کر رہا تھا۔ وہ اس کے دیرپا اثرات کو بیان کر رہا تھا۔ بہرحال ہم اس کی بات کو سمجھنا شروع کر سکتے ہیں جب ہم اضطراری جذباتی رویہ اور ہمارے جسم میں گھومنے پھرنے والی شکتی کے مابین تعلق کے بارے میں سوچیں۔ 

پس ہر وہ چیز جس سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے کے بارے میں اضافی حقیقت یہ ہے کہ ہر شے کی نمو دست نگر انداز میں اسباب و حالات سے ہوتی ہے، جس میں ہمارے من کی حالت اور نہ صرف یہ کہ ہم کیا کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کیا ہم خوش ہیں یا ناخوش ہیں۔ یہ حقیقت کا ایک پہلو ہے – اشلوک میں اسے بنیاد کہا گیا ہے، وہ راہ جس کی تمام اشیاء پابند ہیں اور اس کے مطابق کام کرتی ہیں۔ 

عمیق ترین حقیقت

ہر شے کے بارے میں دوسری حقیقت ایک گہری بات ہے۔ ہماری افسانوی سوچ کے باعث ہو سکتا ہے کہ ہمیں یہ احساس ہو کہ اشیاء ناممکن طور وجود کی حامل ہیں اور حرکت میں ہیں، مگر وہ ناممکن اطوار جس میں وہ بظاہر نظر آتی ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ 

 اس شے کی جو پائی جا سکتی ہے مکمل غیر موجودگی جو ہمارے تصورات سے مطابقت رکھتی ہے "خالی پن" کہلاتی ہے۔ 

اگرچہ وجود کے ناممکن حمل کے بہت سارے لطیف درجات موجود ہیں جن کے بارے میں،  ہمارے من اپنی عادی الجھن کی بدولت تصورات قائم کرتے ہیں، ہم اس عمیق حقیقت سے نہائت عمومی سطح پر معاملہ شروع کر سکتے ہیں: اشیاء کا وجود ناممکنات کا حامل نہیں ہوتا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ کوئی ایسی شے وجود نہیں رکھتی جو ہمارے الجھن کے مارے من کے احمقانہ تصورات سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ 

اس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے: کوئی بچہ یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے بستر کے نیچے کوئی جن بھوت ہے۔ در اصل بستر کے نیچے ایک بلی ہے، لیکن بچہ اسے جن بھوت خیال کرتا ہے۔ تو چونکہ بچہ اسے جن بھوت تصور کرتا ہے تو، اس بات کے احمقانہ ہونے کے باوجود، بچہ بہت خوف زدہ ہے۔ تو اس احمقانہ تصور کے باعث بچے پر بہت اثر پڑتا ہے، لیکن اس سے بلی جن بھوت نہیں بن جاتی، کیونکہ جن بھوت نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ پس خالی پن، بچے کے تصور میں پائے جانے والے جن بھوت جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں، کا نام ہے۔ نہ کبھی کوئی جن بھوت تھا اور نہ ہی کبھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ اس تصور کو ختم بھی کر دیں، تو بھی بستر کے نیچے بلی موجود ہے؛ ایسی بات نہیں کہ وہاں کچھ نہیں ہے۔

ہم عادتاً یوں خیال کرتے ہیں کہ چیزوں کا وجود ویسا ہی ہے جیسا کہ ہم تصور کرتے ہیں۔ ہم صرف اتنا ہی جانتے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے یا اس وقت جو ہمارا احساس ہے۔ مثال کے طور پر، میں اس وقت عدم مسرت کا احساس لئیے ہوئے ہوں، اور ایسے لگتا ہے کہ یہ احساس خود بخود بلا وجہ پیدا ہوا ہے۔ میں بس ناخوش ہوں۔ مجھے اس کی وجہ نہیں معلوم۔ میں بیزار ہوں؛ میں بے کیف محسوس کر رہا ہوں؛ میں نا خوش ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ اس کا اس چیز سے کوئی تعلق ہے جو میں کر رہا ہوں یا میں جن لوگوں کے ہمراہ ہوں۔ اچانک مجھے بیزاری کا احساس ہونے لگا ہے۔ میں نا خوش ہوں۔ اس کا ڈرامائی ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ عدم دلچسپی کا خفیف احساس ہو سکتا ہے۔ تو یہ کیسے ہوا؟ یہ بلا وجہ کہیں سے پیدا ہوا۔ لیکن یہ ناممکن ہے۔ یہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ عمیق ترین حقیقت ہے۔

روائیتی، اضافی حقیقت یہ ہے کہ ہر شے، بشمول میری خوشی اور ناخوشی کے، علت و معلول کے سلسلہ سے جنم لیتی ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے، لیکن مجھے یہ ایسا نہیں لگتا۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ میں جو محسوس کرتا ہوں وہ بغیر کسی وجہ کے کسی نا معلوم جگہ سے جنم لیتا ہے۔ عمیق ترین حقیقت یہ ہے کہ جیسا مجھے نظر آتا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں – یہ کسی نا ممکن چیز کا تصور ہے۔ اگر آپ اس پر غور کریں تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ 

میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں۔ فرض کیجئیے کہ میرا ایک قریبی دوست ہے جو کبھی کبھار میرے اوپر چلّاتا ہے۔ ہمارا تعلق بہترین ہے مگر اچانک میرا دوست کسی بات پر ناراض ہو جاتا ہے اور مجھ پر برس پڑتا ہے۔ مجھے یہ کیسے لگتا ہے؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ "تم اب مجھ سے پیار نہیں کرتے۔" میں بہت پریشان ہوتا ہوں کیونکہ مجھے جو نظر آتا ہے وہ یہ کہ میرا دوست مجھ پر چیخ رہا ہے اور میں اس کا یہی روپ دیکھتا ہوں اور کچھ نہیں۔ لیکن یہ تصور حقیقت شناس نہیں ہے۔ وہ چیخ پکار بلا سبب نہیں ہے، یہ کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے جو ہمارے دیرینہ تعلقات میں اچانک کہیں سے بلا وجہ رو نما ہوا۔ شائد آپ کو بھی کبھی اس سے پالا پڑا ہو۔ 

ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے دوست کے ساتھ رشتہ کی پوری تاریخ کو نظر انداز کر دیتے ہیں – وہ تمام ملاقاتیں جو اس شخص کے ساتھ ہوئیں، اس کے ساتھ باقی تمام معاملات۔ مگر بات اتنی ہی نہیں ہے؛ ہم تصویر کا مکمل روپ دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ ہمارے دوست کی زندگی میں ہم ہی ایک واحد انسان نہیں ہیں اور ہماری آپس کی دوستی ہی اس کی زندگی کا واحد معاملہ نہیں ہے۔ میرے ساتھ تعلق کے علاوہ بھی اس کی بھرپور زندگی ہے اور اس کا اس کے فعل اور احساس پر اثر ہوتا ہے۔  ہو سکتا ہے کہ کام پر اس کا دن اچھا نہ گزرا ہو یا اسے اپنے والدین کے ساتھ کوئی مسٔلہ ہوا ہو جس سے وہ بد مزاجی کا شکار ہوا اور وہ مجھ پر چلّایا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جو تصور میں نے قائم کیا وہ نا ممکنہ روپ ہے: اس کا مجھ پر چلّانا بذات خود ہی، ان سب سے بے نیاز یعنی بغیر ہمارے دوستانہ تعلقات کو ملحوظ خاطر رکھے اور جو کچھ بھی اس کی زندگی میں چل رہا ہے، یہ حقیقت نہیں ہے۔ کوئی ایسی حقیقت جو ان واقعات کے وجود بنا کسی سبب کے آزادانہ طور پر قائم ہونے سے وابستہ ہو، اس کا ہونا نا ممکن ہے، ایسی کوئی شے نہیں ہے۔ ایسے وجود کی مکمل غیر موجودگی "خالی پن" کہلاتی ہے، سنسکرت میں "شنیاتا،" یہ وہی لفظ ہے جو صفر کے لئیے استعمال ہوتا ہے۔ 

تو دو سچائیوں کے حوالے سے، جب اشیاء آزادانہ طور پر، ایک دوسرے کے وجود سے بے نیاز، وجود رکھنے سے قاصر ہوں، تب علت و معلول کا قانون کار فرما ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علت و معلول کا قانون ایک دوسرے کے تعلق اور محتاجی پر قائم ہے۔ کوئی شے بطور سبب کے اپنا وجود نہیں رکھ سکتی جب تک کہ اس کا کوئی ممکنہ نتیجہ نہ ہو۔ اگر کسی شے کا کوئی اثر نہیں ہے تو وہ کیسے کسی چیز کا سبب ہو سکتی ہے؟ لہٰذا، اشیاء کی اضافی حقیقت، خاص طور پر ان کے علّیاتی تعلق صرف اشیاء کے متعلق ان کی عمیق ترین سچائی کے حوالے سے ہی کام کر سکتے ہیں: کوئی شے بھی دوسری اشیاء سے جدا گانہ طور پر اپنا وجود نہیں رکھتی۔ یہ نا ممکن روپ ہو گا۔ 

یہ حقیقت کہ دونوں سچائیاں اس انداز سے ایک دوسرے کی معاون ہیں، جیسا کہ اشلوک میں بیان کیا گیا ہے، جو کہ بنیاد ہے، جس کی ہر شے اطاعت کرتی ہے۔ "بنیاد" یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ یہ اس کی بنیاد ہے جس کا اگلی سطر میں ذکر ہے۔ یہ حقیقت کی شناخت تھی، یعنی دو سچائیوں کا عرفان، جس سے مہاتما بدھ کو چار سچائیوں کی سمجھ آئی۔

سوالات 

اصل حقیقت سے واسطہ

کیا سچی حقیقت سے بلا واسطہ معاملہ ممکن ہے، جس میں آپ کے کوئی غلط تصورات شامل نہ ہوں؟ یا کیا یہ کوئی صنفِ نا ممکنہ ہے؟

نہیں، نہیں، یہ ممکن ہے۔ اگرچہ ہمارے من کی کاروائی ہر شے کو ناممکن وجود کے روپ میں پیش کرتی ہے، لیکن پھر بھی، چونکہ وہ حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے، اس لئیے اُس سے جان چھڑانا ممکن ہے جو تحریف کا باعث ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت نام کی کوئی جنس سچ مچ پائی جاتی ہے اور حقیقت کی تحریف من کی فطری کاروائی میں شامل نہیں ہے۔ یہ من کی کاروائی کے لئیے ممکن ہے کہ وہ بغیر کسی تصورات یا تحریف کے عمل کار ہو۔ 

اس بنیاد پر، ہم اس بات کی فہم رکھتے ہیں کہ ہمارے من کی کاروائی حقیقت کو توڑ موڑ دیتی ہے، جس سے ہمارے مسائل، آلام اور عدم مسرت جنم لیتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے من کو ایسے تحریفی تصورات سے باز رکھیں، تو ہم اپنے لئیے مسائل پیدا نہیں کریں گے اور نہ ہی ہمیں ان سے واسطہ پڑے گا۔ جب ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ ہمارے من اس ہدف کو پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، تب ہم اپنی زندگی میں مصائب سے بچنے اور ان کی روک تھام کے لئیے اسے بطور محفوظ راہ کے اپنا لیتے ہیں۔ یہ محفوظ راہ ہماری نام نہاد "پناہ" ہے۔ لیکن ہمیں صرف اس وقت ہی ایسا ہدف قائم کرنا چاہئیے جب ہمیں یقین ہو کہ اس کا حصول ممکن ہے۔ ہمارے تیقن کی بنیاد یہ احساس ہے کہ سب کچھ جو میں نے کہا وہ حقیقت پر مبنی ہے اور ہم اس کی شناخت کے اہل ہیں۔ 

لیکن اپنے من کی تربیت جو اسے اس قابل بنا دے کہ یہ حقیقت کی شناخت سے من کی رکاوٹوں کو عبور کر سکے کے لئیے ایک لمبا عرصہ درکار ہے۔ یہاں ہمیں مراقبہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس پس منظر میں مراقبہ سے مراد حقیقت کا ادراک ہے اس طرح کہ حقیقت کی شناخت  کو بطور ایک سود مند عادت کے استوار کیا جائے۔ اگر آپ یہ عادت پیدا کر لیں تو پھر جب آپ کسی سے ملیں گے، تو آپ اس چیز کے عادی ہو چکے ہوں گے کہ ان کے ظاہری روپ پر نہ جائں۔ بلکہ آپ کو اس بات کا پورا احساس ہو گا کہ وہ کبھی شیر خوار طفل تھے، ان کا کوئی بچپن بھی تھا اور اپنی بالغ زندگی کے دوران کئی مختلف چیزوں سے متاثر ہوئے۔ اور شائد وہ مزید عمر پائں اور مزید حالات سے متاثر ہوں۔ اس طرح آپ اس شخص کی مکمل حقیقت سے شناسائی حاصل کرتے ہیں، اور محسوس کرتے ہیں کہ تمام حالات و واقعات آپس میں منسلک ہیں۔ حقیقت کا یہ روپ آپ کو اس قابل بناتا ہے کہ آپ اس شخص سے سود مند اور حقیقت پسند انداز میں گفتگو کریں، بجائے اس کے کہ آپ انہیں آپ کی آنکھوں کے سامنے کسی ساکت تصویر کے روپ میں دیکھیں۔ 

لیکن اس کے لئیے آپ کو اپنی تربیت کرنا ہو گی۔ بے شک آپ ان کے حالات زندگی اور ان کے اثرات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں، لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا۔  محض اس بات کا شعور کہ اس شخص کا کوئی ماضی بھی ہے جس میں کئی تجربات شامل ہیں اور اس کا کوئی مستقبل بھی ہو گا، اس سے اس شخص کی حقیقت بڑی حد تک کھل جاتی ہے۔ پس جب آپ کوئی چھوٹا بچہ دیکھتے ہیں تو آپ محض ایک بچہ ہی بطور بچہ نہیں دیکھتے، بلکہ یہ ایک مستقبل کا بالغ انسان بھی ہے، اور ہمارے تمام دور حاضر کے کام اس بچہ کے سن بلوغ کو پہنچنے پر اثر انداز ہوں گے۔  آپ مکمل تصویر کو دیکھتے ہیں۔ آپ حقیقت سے روشناس ہیں۔

Top