بدھ مت کا نظریۂ حیات

روز مرہ زندگی میں اہم ترین معاملات یہ ہیں کہ جس حد تک ممکن ہو ضرر رساں گفتار، افکار اور اطوار سے پرہیز کیا جائے اور ممکنہ حد تک تمام مثبت اور تعمیری اطوار کی آبیاری کی جائے۔ اس کے لئیے من کو سدھانا پڑتا ہے، اسے حقیقت سے متعلق الجھن اور طرز عمل کے علت و معلول کے متعلق الجھن سے نجات دلانا پڑتی ہے۔ جب ہم اس انداز سے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں تو ہمارا نظریۂ حیات بدھ متی ہو جاتا ہے۔

ہمارا موضوع، 'بدھ مت کا نظریۂ حیات'، اس کا بنیادی مقصد ہماری روز مرہ زندگی میں بودھی تعلیمات کا اطلاق ہے۔ ان سے ہمارا کیا رشتہ ہے؟ یہ نہاِت اہم امر ہے۔ ہم خواہ تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہوں اور باقاعدگی سے مراقبہ بھی کرتے ہوں، لیکن یہ بات عیاں نہیں کہ ان کے حوالے سے کس طرح اپنی روز مرہ زندگی بسر کی جائے۔ ان کا عملی کردار کیا ہے؟ یہ کس طرح ہماری زندگی پر اور ہماری ذات پر اثر انداز ہوتی ہیں؟ کیا بودھی پاٹھ کوئی وقت گزاری کا مشغلہ ہے جسے ہم تفریح کی خاطر یا زندگی کے مسائل سے فرار کی خاطر اپناتے ہیں؟ کیا ہم محض کسی حسیں تصور میں کھو جاتے ہیں، یا کہ ہمارا پاٹھ واقعی کوئی مفید عمل ہے اور سچ مچ ہماری زندگی کو بہتر بناتا ہے؟ بدھ مت کی تعلیمات کا بہر حال یہی مقصد تھا، یعنی آلام و مصائب پر قابو پانے میں ہماری مدد کرنا۔

ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

ایک مفید راہنما قاعدہ

تعلیمات کا روز مرہ زندگی میں اطلاق کرنے پر ہمیں ایک دعا جس کا نام 'روز مرہ تواتر سے کئیے جانے والے تین پاٹھ' ہے میں نہائت مفید ہدائت نامہ ملتا ہے، جسے کہ عموماً بیشتر اسباق سے قبل لحن سے پڑھا جاتا ہے۔ اس میں یہ جملہ ہمیں ملتا ہے:

کوئی منفی عہد مت باندھو؛ اور جو تعمیری ہے اسے پرشکوہ انداز سے صادر کرو؛ اپنے من کو مکمل طور پر قابو میں رکھو۔ یہ مہاتما بدھ کی تعلیمات ہیں۔

یہ بودھی تعلیمات کے اہم ترین نکات ہیں۔ پہلی سطر میں، کوئی منفی عہد مت باندھو، منفی سے مراد ایسی شے ہے جو بذات خود ضرر رساں ہو، کوئی ایسی چیز جو دوسروں کے لئیے مسائل پیدا کرے، عدم مسرت کا باعث بنے، اور بالآخر ہمارے لئیے بھی۔ لہٰذا، بودھی پاٹھ میں ہم سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اوروں کو اور خود کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری سطر میں، جو تعمیری ہے اسے پرشکوہ انداز سے صادر کرو، تعمیری سے مراد ایسی شے ہے جس سے ہمارے اور دوسروں کے معاملات میں سہولت پیدا ہو اور جو مسرت افروز ہو۔

اس کے حصول کی خاطر، تیسری سطر میں آیا ہے، اپنے من کو مکمل طور پر قابو میں رکھو۔ یہ ہمارے تخریبی اور تعمیری دونوں قسم کے اعمال سے متعلق ہے۔ تخریبی اعمال سے گریز اور تعمیری اعمال پر کاربند ہونے کی خاطر ہمیں اپنے آپ کو سدھارنا ہے – ہمارے طور اطوار اور ہمارے جذبات، یہ جو ہمارے من سے جنم لیتے ہیں۔ ہمارے طور اطوار اور ہمارے جذبات اس بات کا تعیّن کرتے ہیں کہ ہم دوسروں سے کیسے معاملہ کرتے ہیں، اور زندگی میں ہمارے اعمال، گفتار اور افکار کس نوعیت کے ہیں۔ پس یہ ہے آخری سطر کا مطلب، یہ مہاتما بدھ کی تعلیمات ہیں۔

حقیقت کا ادراک

اگر ہم مزید غور کریں، جیسا کہ میرے ایک بودھی استاد نے جو میرا دوست ہے بتلایا، کہ بدھ مت میں بنیادی بات حقیقت پسندی ہے: حقیقت کو پہچاننا اور اس سے حقیقت پسندانہ انداز سے پیش آنا۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارا رویہ اور سوچ حقیقت پر مبنی ہونی چاہئیے۔  

حقیقت کیا چیز ہے؟ حقیقت کا مطلب ہے علت و معلول یا وہ جسے "دست نگر نمو" کہا جاتا ہے۔ حالات و واقعات علت و معلول کے قانون کے طابع ہوتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے تخریبی یا تعمیری فعل بعض وجوہات کی بنا پر وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اطوار کا جائزہ لیں تو ہم دیکھیں گے کہ اس سے یا تو مسائل پیدا ہو رہے ہیں یا یہ ہمارے لئیے اور دوسروں کے لئیے مزید تر مسرت اور نفع پیدا کر رہے ہیں۔ مگر ہمیں اپنے رویہ کا غیر جانبداری سے جائزہ لینا چاہئیے۔ زندگی کے معاملات نمٹانے میں غیر جانبداری نہائت اہم عنصر ہے۔ 

بودھی اخلاقیات کی بنیاد نہ تو کوئی الہامی قانون ہے اور نہ ہی کسی مقنّنہ یا کسی حاکم کے جاری کردہ فرمان۔ اگر ہماری اخلاقیات کی بنیاد ایسی چیزوں پر ہو تو اس میں جانبداری کا عنصر شامل ہو گا۔ اگر ہم اصولوں اور قوانین کی پابندی کریں گے تو ہم اچھے انسان کہلائں گے اور انعام کے مستحق ہوں گے؛ اور اگر ہم ان پر کاربند نہ ہوں – ہم قانون کی خلاف ورزی کریں – تو ہم برے کہلائں گے اور سزا کے مستحق ہوں گے۔ یہ بودھی اخلاقیات نہیں ہیں اور نہ ہی زندگی سے معاملہ کرنے کا بودھی طریقہ۔ اگر ہم اپنے آپ کو دوسروں کے متعلق جانبداری سے پیش آتا پائں تو ہمیں فوراً اس کا احساس ہو جانا چاہئیے۔ یہ ہمارے رویہ میں بنیادی تبدیلی لانے کا ایک عنصر ہے: اپنے بارے میں جانبداری کے اطوار اختیار کرنے سے پرہیز – مثلاً، یہ سوچنا کہ میں ایک برا انسان ہوں، مجھ میں خاطر خواہ بھلائی موجود نہیں، یا یہ کہ جو میں نے کیا وہ بہت بری بات تھی۔

اس کے بجائے ہمیں زندگی کے معاملات کو علت و معلول کے آئینہ میں دیکھنا ہو گا۔ اگر ہم نے مسائل پیدا کئیے تو یہ اسباب اور حالات کے مرہون منت ہیں۔ یہ ہمارے برا ہونے کا ثبوت نہیں ہے۔ اگر ہم ذرا غور کریں تو ہم دیکھیں گے کہ ہم اس معاملہ میں الجھن میں مبتلا ہیں؛ ہماری فہم ناقص تھی۔ اس کا بنیادی سبب ہمارے تصورات ہیں۔ ہم معاملات میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں اور ہر قسم کے خام تصورات اپنے آپ سے، حالات اور دیگر لوگوں سے منسوب کر لیتے ہیں۔ پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ تصورات حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں، جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے تخریبی رویہ کا جائزہ لیں یہ جاننے کے لئیے کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں، تو ہم دیکھیں گے کہ بیشتر اوقات یہ ہمارے احمقانہ تصورات جو ہم نے کسی معاملہ میں قائم کئیے ہیں کا نتیجہ ہے۔ 

دو سچائیاں

حالیہ دنوں میں تقدس مآب دلائی لاما لوگوں کی زندگیوں میں مسائل کو کم کرنے کے ممکنہ عالمگیر طریقوں کے متعلق بہت بات چیت کر رہے ہیں۔ ان کا دائرہ اثر محض بدھ مت کے پیروکاروں تک ہی محدود نہیں، بلکہ وہ سب سے مخاطب ہیں جیسا کہ ان کا نظریہ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں دو سچائیوں کی سدھ بدھ قائم کرنے سے شروعات کرنا ہوں گی۔ یہ ایک سادہ سی بات ہے۔ ہمیں ان دو حقائق پر نظر ڈالنی ہے مگر کسی تصنّع اور پیچیدگی کے بغیر، نہائت سادہ طریقہ سے تا کہ ہر کوئی بات کو سمجھ سکے۔ ایک طرف تو وہ تصورات ہیں جو ہم نے مبالغہ آرائی یا محض اپنے بے لگام خیالات پر قائم کئیے ہوں؛ اور دوسری جانب حقیقت ہے۔ یہ ہیں دو سچائیاں۔

ایک الجھے ہوئے ذہن والے انسان کو یہ تصورات سچ دکھائی دیتے ہیں، جیسا کہ، "میں ایک شکست خوردہ انسان ہوں، میں برا انسان ہوں اور کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا۔" یا "یہ دنیا کی سب سے بڑی تباہی ہے،" جب ہمارا کھانا جل جائے یا ہم نے طعام گھر میں جو آرڈر کیا وہ ختم ہو چکا ہے یا ہم ٹریفک میں پھنس گئے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہم کبھی گھر نہیں پہنچ پائں گے۔ ہم مبالغہ سے کام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ وہ بد ترین حالات و واقعات ہیں جن سے کسی کو پالا پڑ سکتا ہے اور یہ کہ ٹریفک میں پھنس جانا ہمیشہ کے لئیے ہے۔ ہم ان تصورات کو حقیقت کا جامہ پہناتے ہیں۔ یہ روائتی سچائی ہے: جسے کہ ایک الجھن میں گرفتار من حقیقت مانے گا۔ 

اور پھر دوسری جانب حقیقت ہے، مسلمہ حقیقت۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹریفک کا سبب حالات و واقعات ہیں؛ یہ بھیڑ بھاڑ کا سمے ہے اور ہر کوئی گھر جانے کی جلدی میں ہے۔ تو ہم کیا توقع کر سکتے ہیں؟ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ موسم سرما میں سردی کی شکائت کرنا۔ ہم کیا توقع کرتے ہیں؟ یہ سردیوں کا موسم ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہوتا ہے۔

ہمیں ان دو سچائیوں کے بیچ تفاوت کو سمجھنا ہے اور جب ہم یہ جان لیں کہ ہم مبالغہ سے کام لے کر فضول تصورات قائم کر رہے ہیں، تو اس بیکار کی سی بات کا خاتمہ کر دیں۔ مختصراً، یہ جاننے کے لئیے کہ ہماری زندگی میں کیا ہو رہا ہے، ہمیں ان دو حقائق کے درمیان تفریق کو سمجھنا چاہئیے اور اس شعور کو اپنی زندگی میں شامل کر لینا چاہئیے۔ یہ لازم ہے۔ 

یہ نکتہ اسی دعا کی اگلی سطر میں بیان کیا گیا ہے:

ستاروں کی مانند ایک دھندلا سا اشارہ، یا ایک گھومتی مشعل، ایک سراب، شبنم کے قطرے، ایک بلبلہ، ایک خواب، بجلی کی ایک کوند یا بادل، ظہور پزیر عناصر کو یوں تصور کرو۔

ہمیں اپنی زندگی میں جب کہ ہم مبالغہ آرائی کر رہے ہوں اور بات کا بتنگڑ بنا رہے ہوں اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہئِے۔ ہمیں جاننا چاہئیے یہ جو اس قدر سچ لگ رہا ہے یہ محض ایک واہمہ ہے، خواب ہے، یا بلبلہ وغیرہ۔ یہ ایسی کوئی ٹھوس شے نہیں جیسا کہ یہ نظر آتی ہے۔ لہٰذا ہم اس کے حقیقت سے مشابہت کو نہیں مانیں گے۔ اس پر عدم تیقّن ہمارے افسانوی غبارے کو پھاڑنے کے مترادف ہے۔

تصور سازی

تصور سازی کی دو قسمیں ہیں؛ بعض سود مند اور بعض ضرر رساں۔ سود مند تصورات کونسے ہیں؟ ہم ایک مثبت یا غیر جانبدار ارادہ باندھ سکتے ہیں، مثال کے طور پر، ہم کوئی سیر و سیاحت کا منصوبہ بنا سکتے ہیں۔ ہم نے یہاں سے وہاں جانا ہے اور ہم پہلے سے ارادہ کرتے ہیں۔ یہ ایک تخمینہ سازی ہے: ہمیں اس سفر کے لئیے کیا کچھ کرنا ہے، کون سا رخت سفر باندھنا ہے، محفوظ بندی کرنا وغیرہ۔ اس نوع کی تخمینہ سازی ملازمت کے سلسلہ میں یا جب ہم دکان سے سودا سلف لینے جاتے ہیں تب کام آتی ہے۔ ایسی تخمینہ سازی جب ہم کچھ کرنا چاہ رہے ہوں اس وقت کام آتی ہے،ایک منصوبہ کہ ہم اپنا کام کیسے پایۂ تکمیل کو پہنچائں گے۔ ایسی منصوبہ بندی ہم اکژ اپنے کام پر کرتے ہیں جب ہم سالانہ منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ 

لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ ہمارا منصوبہ ایک خواب کی مانند ہے۔ عملی سطح پر اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں نرم خو اور مطابقت پذیر ہونا چاہئیے۔ یہ وہ ظہور پذیر عناصر ہیں جن کا دعا میں ذکر کیا گیا ہے۔ وہ حالات اور اسباب سے متاثر ہوتے ہیں؛ بعض اوقات انہیں "اضطراری مظاہر" بھی کہا جاتا ہے۔ معاملات حالات اور اسباب کے طابع ہوتے ہیں اور ان سے جنم لیتے ہیں، تو جب ہم کوئی منصوبہ بناتے ہیں تو صورت حال حالات اور اسباب سے متاثر ہو گی، اور ان میں بدلاؤ آ سکتا ہے۔ اس تبدیلی کی ایک مثال یہ ہو سکتی ہے کہ اس پرواز میں کوئی نشست خالی نہیں ہے۔ حالانکہ ہم نے اس پرواز پر سفر کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر اب ہمیں اپنا ارادہ بدلنا ہو گا۔ شکوہ شکائت کرنے اور ناراض ہونے کی بجائے ہم حقیقت سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ ہمیں اس چیز کی مشق کرنی چاہئیے۔ جب ہم اپنے اولین منصوبہ پر اڑ جاتے ہیں اور ایسی لوچ  اور سمجھوتہ کی اہلیت سے محروم ہوتے ہیں اور یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ ہمارا پہلا منصوبہ محض فریب نظر ہے، یا ایک بلبلے کی مانند یا دعا میں بیان کی گئی مختلف مثالوں کی طرح ہے، تو ہم اس پر ڈھٹائی سے اڑے رہتے ہیں۔ 

اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ اس سے من کی ایک نہائت ناخوش صورت پیدا ہوتی ہے۔ ہم سخت ناراض اور شکست خوردہ ہو سکتے ہیں۔ اس سے ہم لاچار تو ہو جاتے ہیں مگر صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ ٹریفک کو برا بھلا کہنا جب کہ ہم اس میں پھنسے ہوں کچھ بار آور نہیں ہوتا۔ جو چیز مدد گار ثابت ہوتی ہے وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ ہم نے جس کی توقع کی تھی حالات ویسے نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نے ایک خاص وقت پر کہیں پہنچنا تھا؛ ہم سے گاڑی چھوٹ گئی یا گاڑی دیر سے آئی، اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ تو اس طرح ہم تعلیمات کا سود مند اطلاق اپنی زندگی پر کرتے ہیں۔

ہمیں جاننا چاہئیے کہ معاملات کو سمجھنے کا ایک صحیح طریقہ ہے اور ایک غلط ۔ سوچ کا غلط انداز یہ ہے کہ اگر کوئی شے بدلتے ہوئے حالات سے مستقل متاثر ہو رہی ہے اور ہم اسے ٹھوس اور ناقابل تغیّر تصور کریں  - جیسے کسی منصوبہ کو اٹل جاننا۔ ایسی سوچ بہت عام ہے۔ جب ہمیں اپنے منصوبہ کو بدلنے کی ضرورت پیش آئے تو ہمیں اس کے لئیے تیار رہنا چاہئیے کیونکہ معاملات ہمیشہ ہماری مرضی کے تابع نہیں ہوتے۔ ہم ٹریفک میں پھنس سکتے ہیں، یا لوگ ملاقات کو منسوخ کر سکتے ہیں اور ایسی ہی اور باتیں۔ 'بودھی ستوا اطوار کو اپنانا' میں شانتی دیو اس کے متعلق بہترین نصیحت دیتا ہے:

کوئی مسٔلہ جس کا حل ممکن ہے اس کے بارے میں پریشان ہونے سے کیا حاصل؟ اور اگر اس کا کوئی حل نہیں تو پھر بھی اس پر پریشان ہونے سے کیا حاصل؟ 

یہ بڑی سادہ سی بات ہے، ایسی شے جسے ہمیں زندگی کے معاملات سے نمٹنے کے لئیے اپنا لینا چاہئیے۔ اگر زندگی میں کوئی مشکل در پیش ہو اور ہم اسے بدلنے کی اہلیت رکھتے ہوں ، تو بس بدل ڈالو۔ اگر ہم اسے بدل نہیں سکتے اور اس کے متعلق کچھ کر بھی نہیں سکتے، تو پھر پریشان ہونے کا کیا فائدہ۔ مثلاً، دوران سفر ہمارا سامان گم ہو جائے اور ہم چند روز تک اسے واپس بھی نہ لے سکیں۔ ہم حقیقت کو تسلیم کر لیتے ہیں۔ 

چند روز قبل میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میں تقدس مآب دلائی لاما کے ہالینڈ میں ایک درس پر جا رہا تھا۔ میں ایمسٹرڈیم جانے کے لئیے ہوائی اڈہ کو گیا، اور وہاں چیک ان کی قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ کمپیوٹر کا نظام خراب ہو گیا تھا اور قطار بہت لمبی تھی۔ ہر کوئی فکر مند تھا کہ وہ بروقت چیک ان نہیں کر پائں گے اور ان کی پرواز چھوٹ جائے گی۔ ایک مرحلہ پر پہنچ کر میرے آگے والے لوگوں نے اپنے ٹکٹ اور پاسپورٹ نکالنے شروع کر دئیے، اور جب میں نے ایسا کرنا چاہا تو مجھے احساس ہوا کہ میں اپنا پاسپورٹ لانا بھول گیا تھا۔ میں پاسپورٹ کے بغیر چیک ان نہیں کر سکتا تھا اور میرے پاس جرمنی کا شناختی کارڈ بھی نہیں ہے۔ 

ایسا واقعہ میرے ساتھ زندگی میں پہلی بار پیش آیا تھا۔ اب میں کیا کرتا؟ میں ہوائی اڈہ پر تھا اور ایسی کوئی صورت نہ تھی کہ میں واپس اپنے گھر جا کر پاسپورٹ لے کر بر وقت آ جاتا کہ وہ پرواز پکڑ سکتا۔ کیا اس پر مجھے پریشان ہونا چاہئیے تھا؟ اس سے کچھ فائدہ نہ ہو گا۔ کیا میں غصہ میں آ جاؤں؟ اس سے بھی کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میں معلوماتی ڈیسک پر گیا اور پوچھا کہ اگر کوئی پرواز بعد میں جانے والی ہے، مگر اس ہوائی اڈہ سے ایسی کوئی پرواز نہیں تھی؛ البتہ، اس رات دوسرے ہوائی اڈہ سے جو کہ شہر کے دوسرے کونے پر واقعہ ہے ایک پرواز جا رہی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں شام کی تقریب جس میں شمولیت کا میں نے قصد کیا تھا اس میں شامل نہیں ہو سکوں گا۔ کیا کیا جائے؟ میں گھر گیا، دوسری پرواز پر نشست محفوظ کی، اور اس شام روانہ ہو گیا اور بات ختم۔

اس قسم کے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم نے کس حد تک تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا ہے۔ کیا ہم کسی معاملہ میں پریشان اور ہراساں ہو جاتے ہیں؟ اگر ہم ناراض ہو جائں، تو اس سے ہماری اپنی ہی ذات کو نقصان پہنچتا ہے اور ہماری حالت قابل رحم ہو جاتی ہے۔ ہمیں صورت حال کی حقیقت کو فوراً قبول کر کے اس مسٔلے کا حل نکالنے کی جانب توجہ مبذول کرنی چاہئیے۔ اس طرح ہم مہاتما بدھ کی عدم استقلال پر تعلیم کو عملی سطح پر کام میں لا سکتے ہیں، بجائے اس کے کہ ایسے تصورات پر توجہ مرکوز کئیے بیٹھے رہیں، مثلاً، کہ میں نے کوئی خاص پرواز لینے کا کیسے ارادہ کیا، ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈہ سے راٹرڈیم جانے والی ریل گاڑی پکڑی اور شام کی تقریب میں جا شامل ہوا۔ یہ محض ایک خواب ہے اور ایسا ہو گا نہیں۔ پس اب ہم ایک متبادل منصوبہ پر عمل کرتے ہیں۔ 

اس کا تعلق مراقبہ میں دی جانے والی ایک بنیادی ہدائت سے ہے: ہمیں بغیر کوئی توقعات قائم کئیے مراقبہ کرنا ہے۔ اگر ہماری کوئی توقعات نہیں ہوں گی تو ہمیں کوئی مایوسی بھی نہیں ہو گی۔ یہ بدھ مت کے اطلاق کا بنیادی اصول ہے۔ 

میری بہن کے دو بیٹے اور چار پوتے پوتیاں ہیں۔ میں ہمیشہ اسے یاد دلاتا رہتا ہوں کہ اسے اس بات کی توقع نہیں کرنی چاہئیے کہ اس کے بیٹے یا پوتے پوتیاں اسے کال کریں گے۔ اگر ہم ایسی توقع رکھیں تو ہمیں مایوسی ہو گی کیونکہ وہ تو کال نہیں کرنے والے۔ اگر ہمیں کسی سے بات کرنی ہے تو ہمیں خود انہیں کال کرنا چاہئیے۔ یہ سادہ سی بات ہے: ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئیے۔ اگر ہم اسے بدل سکتے ہیں تو بدل دیں۔ اگر نہیں بدل سکتے تو بس نہیں بدل سکتے۔ ہمیں ہمارا گم شدہ سامان تب ہی ملے گا جب ملنا ہے۔ ہم اس کو قبول کر لیتے ہیں۔ 

ایک بار پھر، تصورات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو نفع بخش ہے – ہمیں کوئی منصوبہ تو بہر حال بنانا ہے۔ اگر ہمیں کہیں جانا ہے تو نشست تو محفوظ کرانا ہی ہو گی۔ لیکن بقیہ ماندہ نہ صرف کار آمد نہیں ہیں بلکہ تباہ کن ہیں۔ 

غور و خوض اور عملی اطلاق

پیشتر اس کے کہ ہم اپنے ضرر رساں تصورات کا جائزہ لیں، بہتر ہو گا کہ ہم اپنے حال پر غور کریں۔ ہمارے اندر کس قدر لوچ ہے؟ جب معاملات ہمارے حسب منشا نہ ہوں تو ہم کس قدر پریشان ہوتے ہیں؟ ہم کسی منصوبہ پر عمل کرنے کے بارے میں پابندیٔ وقت کی نسبت کس قدر ضد کا رویہ اختیار کرتے ہیں؛ مثلاً، یہ کام اس مقررہ وقت پر مکمل ہو جانا چاہئیے؛ یا اگر ہم کسی طعام گھر میں جائں، تو وہاں ہمارا من پسند طعام موجود ہونا لازم ہے، اور یہ کہ اسے فوراً ہی ہمیں پیش کر دیا جائے گا۔ ہم کسی منصوبہ اور متوقع حالت کی کس قدر پابندی کرتے ہیں؟ ذرا اس بات کو دھیان میں لا ئں کہ جب ہمیں مایوسی کا سامنا ہوتا ہے تو ہم کس قدر ناخوش ہوتے ہیں۔ ہم اپنی توقعات کی وجہ سے مایوس ہوتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا منصوبہ معاملات اور حالات کے باہمی تعامل کی حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے۔ 

مگر حقیقت تو یہ ہے کہ ہر شے حالات و اسباب کی تابع ہے۔ جو کھانا ہمیں پسند ہے وہ طعام گھر میں اس وقت ختم ہو چکا ہے۔ یہ حالات و اسباب ہیں۔ گاڑی دیر سے آئی؛ ہم ٹریفک میں پھنس گئے اور پرواز چھوٹ گئی۔ یہ حالات و اسباب ہیں۔ چند لمحوں کے لئیے غور کریں کہ ہم کس قدر لچک رکھتے ہیں۔ کیا یہ کوئی ایسی شے ہے جس پر آپ کو کام کرنا ہے؟ عدم استقلال کے بارے میں جانکاری ہی کافی نہیں ہے یا یہ کہ سانس پر توجہ مرکوز کرنا اور سانس کے عارضی پن کا احساس ہونا۔ یہ بڑھیا بات ہے، مگر ہم اپنی زندگی میں اس کا اطلاق کیسے کریں؟ یہ عدم استقلال کی فہم کا اہم ترین پہلو ہے۔ 

ایک روز مرہ کی مثال کو سامنے رکھیں جیسے کہ کوئی طشتری گر کر ٹوٹ جاتی ہے۔ اس پر آپ کا جذباتی رد عمل کیا ہو گا؟ آپ کھانا بنا رہی ہیں اور وہ جل جاتا ہے۔ اس سے آپ جذباتی طور پر کیسے نمٹیں گی؟ اس موقع پر ہماری صلاحیت کا بھید کھلتا ہے۔ ہم کمپیوٹر یا فون سے کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ کام نہیں کرتا۔ کیا آپ فوری طور پر اور کچھ کر سکتے ہیں؟ یا کیا آپ غصہ میں آ جاتے ہیں؟ کیا آپ گالی دیتے ہیں؟ 

یہ تعلیمات کے عملی پہلو ہیں۔ اگر ایسے حالات میں ہم ناراض ہو جاتے ہیں اور پلان بی کو عمل میں نہیں لاتے – کمپیوٹر، فون وغیرہ پر کچھ کرنے کا ہمیشہ کوئی نہ کوئی متبادل طریقہ موجود ہوتا ہے – تو اگر ہم پریشان ہو جائں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ابھی کچھ اور سیکھنا ہے۔ 

ضرر رساں تصورات

جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، دو طرح کے تصورات ہیں جن میں سے ایک منصوبہ بندی اور گوشوارہ تشکیل دینے میں کام آتا ہے اور دوسرا ضرر رساں ہے۔ اس قسم کی باتوں کو تصور میں لانا "میں ناکامی کا پتلا ہوں؛ مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا؛ یہ شخص بہت برا ہے، وغیرہ" یہ نقصان دہ تصورات ہیں۔ یا یوں سوچنا کہ اگر کھانا جل گیا یا گاڑی چھوٹ گئی تو اس سے مکمل تباہی ہو گئی۔ ایسے ضرر رساں تصورات مبالغہ آرائی کا نتیجہ ہیں۔ 

غصہ کی بدولت، ہم کسی شے کی کمزوریوں کو اجاگر کرتے ہیں اور بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو سب وے یا میٹرو کے استعمال میں اس کا تجربہ ہوا ہو گا؛ جیسے ہی ہم سیڑھیاں اتر رہے تھے تو گاڑی پلیٹ فارم سے نکل گئی۔ ہم اس سے کیسے نمٹیں؟ کیا ہم گالی بکیں؟ پانچ دس منٹ انتظار کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ مگر ہم بات کو بڑھا دیتے ہیں اور ہمارا رد عمل غصہ اور ناراضگی کا ہوتا ہے۔ یہ ہمیں ناخوش کرتا ہے اور اس سے کچھ حاصل نہیں، ہے نا؟ 

لالچ اور لگاوٹ سے، ہم کسی چیز کے متعلق یہ رائے قائم کرتے ہیں کہ یہ دنیا کی بہترین شے ہے یا کہ ہمارا ساتھی نہائت عمدہ انسان ہے۔ یہ مبالغہ آرائی ہے، ہم محبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور اس شخص کی محض اچھائیاں دیکھتے ہیں۔ ہم اس شخص سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ہماری مبالغہ آمیز توقعات پر پورا اترے، مگر کوئی انسان ایسا نہیں کر سکتا۔ تب ہم مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ 

اس قسم کے اطوار مسائل پیدا کرتے ہیں۔ بیشتر اوقات یوں ہوتا ہے کہ ہم معاملات کو تنگ نظری سے دیکھتے ہیں۔ ایسا ہو سکتا ہے،مثلاً، جب ہمیں زندگی میں کسی ناکامی کا سامنا ہو، یا کوئی ہمیں رد کر دے، یا کوئی ہمیں نقصان پہنچائے۔ کوئی شخص جس سے ہمارا قریبی تعلق ہے کوئی نا خوشگوار حرکت کرے، مثلاً ہمارے جنم دن پر ہمیں کال نہ کرے یا ہم سے ناراض ہو کر ہمارے اوپر چیخے چلائے یا اور کچھ - ہم اس ایک واقعہ کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ ہم اس تعلق کی پوری تصویر کو نہیں دیکھتے۔ ہم انہیں محض اس ایک واقعہ کے آئینہ میں دیکھتے ہیں اور ناراض ہوتے ہیں۔

اگر ہم کسی مشکل میں گرفتار ہوں یا بیمار ہوں، تو ہم خیال کرتے ہیں، "میں بیچارہ؛ صرف میں ہی اس مصیبت کا شکار ہوں۔" یہ بھی ایک تنگ نظری کا نمونہ ہے۔ یہ بڑے تناظر کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر، "کوئی مجھ سے پیار نہیں کرتا۔" اگر ہم اپنی ساری زندگی پر نظر دوڑائں، تو کیا ہم سے کبھی کسی نے پیار نہیں کیا؟ کیا ہمارا کتا ہمیں پیار نہیں کرتا؟ کبھی کوئی شخص ہم سے نرمی سے پیش نہیں آیا یا کبھی کسی نے ہماری پرواہ نہیں کی؟ ایک دوسری مثال کے طور پر، " میں ایک ناکام انسان ہوں۔" کیا یہ سچ ہے؟ کیا ہمیں کبھی کسی کام میں کامیابی نہیں ہوئی؟ ہم نے چلنا سیکھا، ہم نے بیت الخلاء کا استعمال سیکھا، تو یقیناً ہمیں کچھ تو کامیابی ہوئی ہے۔ 

تو بات یہ ہے کہ ہمارے تصورات حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے؛ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ایسا ہو اس لئیے ہم ان میں یقین رکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا شریک حیات دنیا کا سب سے زیادہ عمدہ، لاجواب انسان ہو۔ اس کی ایک عمدہ مثال قطب جنوبی کے پینگوئن ہیں کہ وہ پوری زندگی ایک ہی شریک حیات رکھتے ہیں۔ ہمیں وہ سب دیکھنے میں ایک جیسے لگتے ہیں،مگرپینگوئن کے لئیے ان سب میں سے وہ ایک خاص حیثیت کا حامل ہے۔ بے شک پینگوئن کے نکتۂ نظر سے تمام انسان یکساں نظر آتے ہیں؛ مگر ہمارے لئیے، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ اگر کوئی اور بھی ہم سے پیار کرتا ہے۔ نہیں، یہ بس وہی ایک شخص ہونا چاہئیے – سب سے زیادہ خصوصیت کا حامل – جو مجھ سے پیار کرے۔ اس قسم کی مبالغہ آرائی خاص سود مند نہیں ہے۔ 

حقیقت سے انکار

ضرر رساں تصور قائم کرنے کا ایک اور پہلو حقیقت سے انکار ہے، حقیقت کو دوسروں کے حوالے سے نہ دیکھنا اور اس سے منکر ہونا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب ہم انسانوں کو اشیاء تصور کرتے ہیں اس بات کا لحاظ کئیے بغیر کہ وہ انسان ہیں اور ان کے بھی جذبات ہیں۔ بدھ مت کا ایک مشہور قول ہے: "ہر کوئی مسرت کا خواہاں ہے اور کوئی بھی ناخوش ہونا نہیں چاہتا۔" ہم دوسروں کے متعلق اس بات کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں؟ بیشتر اوقات ہم اس امر کو نظر انداز کرتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم کیسے دوسروں سے پیش آئں یا ان سے کیسے مخاطب ہوں۔ یہ یوں ہے کہ یہاں علت و معلول کا اطلاق نہیں ہوتا اور کسی اور کے احساسات و جذبات نہیں ہیں۔ 

مثلاً، ہمارے دفتر میں کوئی شخص سخت ناروا اور بد اخلاق ہے۔ لیکن پھر بھی، وہ خوشی کا خواہش مند ہے اور ناخوش ہونا نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ لوگ اسے پسند کریں اور ناپسند نہ کریں۔ ان کا رویہ نا پسندیدہ ہے کیونکہ انہیں اس بات کا احساس نہیں کہ انہیں کس چیز سے مسرت ملے گی۔ اس کا تعلق غیرجانبداری سے ہے۔ جیسا کہ شانتی دیو نے کہا، ہم خوشی کو ایسے تباہ کرتے ہیں جیسے یہ کوئی ہماری دشمن ہو۔ دوسرے لفظوں میں ہم عدم مسرت کے اسباب پیدا کرتے ہیں، اگر کوئی انسان نہائت خود غرضی کا رویہ اختیار کرے، تو اس سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ کوئی بھی ان کے رویہ کو پسند نہیں کرتا، لیکن وہ شخص یہ سوچ رہا ہے کہ اس سے اسے خوشی مل رہی ہے۔

یہ نہائت اہم ہے: دوسروں سے معاملہ کرتے وقت، اس بات کو سمجھو، "آپ مسرت چاہتے ہیں،جیسے کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں، آپ نہیں چاہتے کہ آپ کو ناپسند یا نظر انداز کیا جائے، جیسا کہ میں نہیں چاہتا۔" جب ہم بس میں سوار ہوں یا ٹریفک میں ہوں تو اس چیز کی مشق بہت مفید ہے۔ ہر کوئی اپنی منزل مقصود پر پہنچنے کا تمنائی ہے، اور کوئی بھی ٹریفک میں پھنسے رہنا نہیں چاہتا، جیسا کہ ہم نہیں چاہتے۔ دوسرے لوگوں پر ناراض ہونے سے کیا حاصل۔ ہر ایک کے جذبات ہیں جیسا کہ ہمارے۔ 

ایک نہائت کار آمد سوچ یہ ہےکہ: "ہر کوئی مہاتما بدھ کو پسند نہیں کرتا تھا، تو ہم اپنے بارے میں کیا توقع رکھیں؟" یا،"انہوں نے حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھا دیا تھا، تو ہم اپنے بارے میں کیا توقع رکھیں؟" کیا سب لوگ ہمیں پسند کریں گے؟ یہ اس وقت نہائت مفید ہے جب کوئی ہم سے نا پسندیدگی کا اظہار کرے یا ہماری بات کا مثبت انداز سے جواب نہ دے جس کی کہ ہم توقع کرتے ہیں۔ دوران حیات عملی سطح پر ہماری غیر حقیقت پسند توقعات اور تصورات کا قلع قمع کرنے میں اس قسم کی باتیں نہائت مفید ہو سکتی ہیں۔ ہم یوں سوچ سکتے ہیں، "میں ہمیشہ صحیح بات کہتا ہوں اس لئیے لوگوں کو میری بات سننی چاہئیے۔" مگر بھلا ایسے کیوں؟

یاد رکھو، کہ یہاں ہم حقیقت اور غیر حقیقت کے درمیان امتیاز کر رہے ہیں۔ ہماری خواہش بہتر بننے یا توجہ بڑھانے کی ہو سکتی ہے۔ بہتر کارکردگی کی تمنا،جب کہ ہم ایسا کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں، ایک حقیقت پر قائم توقع ہے۔ لیکن جب ہم ایسے سوچتے ہیں، "تمہیں اپنی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت مجھے دینی چاہئیے۔ تمہیں ہر وقت میرے لئیے حاضر رہنا چاہئیے،" تا کہ جب ہمارا شریک حیات کام سے واپس گھر لوٹے تو یوں محسوس ہو جیسے ان کی زندگی میں کچھ ہوا ہی نہیں اور جیسے وہ آسمان سے ٹپک پڑے ہیں، پس وہ ہماری توجہ کے لئیے مکمل طور پر مستعد ہوں – یہ ایک غیر حقیقت پسند توقع ہے، ہے کہ نہیں؟ 

آئیے ایک لمحہ کے لئیے اپنی غیر حقیقت پسند توقعات کا جائزہ لیں۔ ان غیر حقیقت پسند توقعات میں سے کتنی ہم رکھتے ہیں اور ہم کس حد تک ان کی شناخت کر سکتے ہیں؟ کیا ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ ضرر رساں ہیں اور جب ہم ان کو اپناتے ہیں تو اس سے ہمیں نقصان پہنچتا ہے؟ کیا ہم جانتے ہیں کہ یہ جذباتی دکھ کا باعث ہوتی ہیں؟ دلائی لاما انہیں اندرونی آزار کا نام دیتے ہیں۔ 

مغرب میں بہت سارے لوگ وہاں کے رائے زن فلسفہ سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر اس پریشان خیال میں مبتلا ہیں کہ ہم خاطر خواہ بھلے انسان نہیں ہیں۔ یہ نہائت جانبدار تصور ہے۔ ہمیں یہ جاننا چاہئیے کہ کوئی بھی ہمارے بارے میں رائے زن نہیں ہے اور یقیناً ہمیں اپنے بارے میں کوئی تعصب پیدا نہیں کرنا چاہئیے۔ ہم کسی غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کمزور ہیں یا برے ہیں۔ یہ ایک نہائت تباہ کن تصور ہے۔ 

ان دو حقائق کے بیچ امتیاز نہائت ضروری ہے۔ جو بات ہمیں سچ لگتی ہے – کہ میں خاطر خواہ طور پر ایک اچھا انسان نہیں ہوں، - دراصل جھوٹ ہے۔ یہ ایک بے بنیاد بات ہے، پس ہمیں اس پر یقین نہیں کرنا چاہئیے اور زندگی کو علت و معلول کے آئینہ میں بسر کرنا چاہئیے۔ اگر ہم کچھ پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے اسباب پیدا کرنا ہوں گے۔ اگر یہ ممکن ہے تو کر گزریں۔ اور اگر یہ ممکن نہیں تو حقیقت کو تسلیم کر لیں۔ مثلاً، اگر ہم کوئی بہتر ملازمت کے تمنائی ہیں تو ہمیں اس کی تلاش کرنا ہو گی کیونکہ یہ توقع کرنا بے سود ہے کہ یہ آسمان سے ٹپک پڑے گا یا کوئی ہمیں خود اس کی پیشکش کرے گا۔ اس میں علت و معلول کا اصول کار فرما ہے۔ ہمیں اچھے مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہئیے، اور اس قسم کی سوچ کا شکار نہیں ہونا چاہئیے کہ حالات بہت خراب ہیں، ہم کبھی ترقی نہیں کر پائں گے، اور اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ ایسی سوچ نہائت منفی سوچ ہے۔ دعا کہتی ہے: کوئی منفی عہد مت باندھو۔ اس کا تعلق محض فعل اور گفتار سے ہی نہیں بلکہ اس میں افکار بھی شامل ہیں۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اپنے آپ کو اور غیروں کو کیسے جانتے ہیں۔ 

چار بلند و بالا سچ

تصور اور حقیقت کے درمیاں تمیز کر نے کی یہ صورت گری چار بلند و بالا سچائیوں کا ہماری زندگیوں میں اطلاق کرنے پر بھی کام آتی ہے۔ جیسا کہ تقدس مآب پر زور انداز سے فرماتے ہیں، کہ ہمیں دو سچائیوں سے چار تک جانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ ہمارے مسائل، یعنی کہ پہلی بلند وبالا سچائی، اسباب کی مرہونِ منت ہے، یعنی دوسری بلند و بالا سچائی کی۔ اول تو ہم یہ خام تصورات رکھتے ہیں، مزید یہ کہ، اس حقیقت سے لاعلمی اور روپوشی کہ ان تصورات کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر ہم اس کی روک تھام کرنا چاہتے ہیں – یعنی تیسری بلند و بالا سچائی – اس سے نجات پانے کے لئیے، ہمیں حقیقت کا ادراک کرنا ہے – جو کہ چوتھی بلند و بالا سچائی ہے – اور افسانے کا بھانڈہ پھوڑنا ہے۔ 

یہ کام کرنے کے لئیے ہمارا بدھ مت کے پیرو کار ہونا ضروری نہیں ہے۔ جیسا کہ دلائی لاما فرماتے ہیں کہ یہ عالمگیر تصور ہے، اور ہمیں اسے چار بلند و بالا سچائیوں کا نام نہیں دینا چاہئیے۔ ہمیں اسے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔ اس طرح یہ خود بخود تین جواہر کی جانب لے جاتی ہے بغیر یہ بتائے کہ وہ تین جواہر کیا چیز ہیں۔ ہمارے اندر یہ فہم پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر ہم اپنے مسائل کے اسباب کا خاتمہ کر دیں، تو مسائل خود ہی جاتے رہیں گے۔ وہ حالت جس میں تمام مسائل اور ان کے اسباب کا خاتمہ ہو جائے اور اس بات کی فہم بھی استوار ہو کہ یہ کیسے پیدا ہوتے ہیں یہ دھرم جوہر کہلاتی ہے۔   یہ تیسری اور چوتھی بلند و بالا سچائیاں ہیں۔ بدھا وہ ہیں جنہوں نےاس پر مکمل عبور پا لیا ہے اور سنگھا وہ ہیں جنہوں نے اس کا کچھ حصہ مکمل کر لیا ہے۔ 

اس طرح ہمارے پاس دوحقیقتیں ہیں، چار سچائیاں ہیں اور تین جواہر ہیں  اور ہمیں بدھ مت اختیار کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔ بودھی بننے میں فرق آئیندہ زندگیوں کو بہتر بنانے کی خواہش اور سعی ہے۔ بہرحال اس کام کے لئیے گزشتہ اور آئیندہ زندگیوں پر ایمان ضروری ہے۔ جیسا کہ تقدس مآب نے فرمایا، ہماری روائیتی سوتر سوچ  جسے اتیشا کے دور میں تبت میں متعارف کیا گیا وہ لم- رم ہے ، یعنی تحریک کے تین جواہر۔ ان کا مقصد آئیندہ زندگیوں کو سنوارنا ہے، اضطراری رو بہ اعادہ مستقبل کی زندگیوں سے نجات حاصل کرنا، اور روشن ضمیر بننا تا کہ آئیندہ زندگیوں سے نجات پانے کے سلسلہ میں سب کی مدد کی جا سکے۔ اس تمام ڈھانچے کا دار و مدار مستقبل کی زندگیوں اور پنر جنم پر ہے۔ وہ چار افکار جو من کو دھرم کی جانب موڑتے ہیں ان کا بھی یہی معاملہ ہے – پنر جنم۔ یہ راہ اس امر پر ایمان رکھنے کی مرہونِ منت ہے کہ پنر جنم جیسی کوئی شے وجود رکھتی ہے۔ 

مغرب کے باسیوں اور عام عوام کے لئیے مناسب ہے کہ وہ دوحقیقتیں، چار سچائیاں اور تین جواہر سے شروعات کریں۔ اس کے بعد علت و معلول پر بحث کو متعارف کرایا جا سکتا ہے؛ لیکن علت و معلول کا تصور بےمعنی ہو گا اگر ہم ایک مطلق آفرینش پر یقین رکھتے ہوں۔ یہ عدم آفرینش من کی جانب اشارہ کرتا ہے؛ اور اگر ہم عدم آفرینش من کو سمجھ لیں تو ہم پنر جنم کو سمجھ سکتے ہیں۔ اس مقام پر، ہم خلوص دل سے آئیندہ زندگیوں کو بہتر بنانا چاہیں گے اور سمسار یعنی اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم سے نجات پانا چاہیں گے۔ جب ہمارا لم- رم کی بتدریج راہ سے معاملہ محض پنر جنم کی بنیاد پر ہو، تو یہ پائدار نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس بنیاد پر لم- رم کا پاٹھ بیکار ہے؛ لیکن بات یہ ہے کہ یہ مزید پائدار ہو گا اگر ہم اس مقام پر پہنچ جائں جہاں سے روائتی طور پر تبتی لوگ شروعات کرتے ہیں، یعنی کہ پنر جنم پر ایمان سے۔ 

یہ دو سچائیوں والا معاملہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس طرح بدھ تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کر سکتے ہیں۔ اس کی ابتدا حقیقت اور ہمارے خام تصورات کے درمیان تفریق کی فہم سے ہوتی ہے، اس امر کا احساس کہ ہم کس وقت خام تصورات کی دنیا میں کھوئے ہوتے ہیں اور ہمارا ان تصورات کے متعلق مغالطہ زدہ یقین۔ اس کا حصول تبھی ممکن ہے جب ہم غیر جانبداری سے کام لیں۔ مثلاً، "میرا خیال تھا کہ تم اس کام میں میری مدد کرو گے مگر تم نے ایسا نہیں کیا،" یا "میرا خیال تھا کہ تم یہ کام ٹھیک طرح کر پاؤ گے مگر تم نے ایسا نہیں کیا۔" ہمارے کام پر، ہم نے کوئی کام کسی کے ذمہ لگایا اس توقع کے ساتھ کہ وہ اسے بخوبی کر لیں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ تو اب ہم کیا کریں؟ ہم خود اسے کر لیں۔ کیا ہم اس شخص پر ناراض ہوں؟ اس سے کیا فائدہ۔ یا تو آئیندہ انہیں اس قسم کا کوئی کام نہ دیں یا پھر انہیں یہ کام صحیح طریقہ سے کرنا سکھائں۔ حقیقت شناسی سے کام لیں۔ ہماری ناراضگی کا سبب ہماری یہ توقع ہے کہ وہ شخص اس کام کو بغیر کسی راہنمائی کے درست طور سے کر پائے گا۔ اگر ہم یہ امید رکھیں کہ وہ ایسا کر لیں گے تو یہ اور بات ہے۔ توقع بنا کوئی مایوسی نہیں ہوتی۔ 

پریشان کن جذبات 

جب ہم کوئی منفی عہد مت باندھو پر عمل پیرا ہوتے ہیں، تو جب ہم پریشان کن خیالات کے زیر اثر کچھ کریں، کہیں یا سوچیں تو ہمیں اس کا احساس ہونا چاہئیے۔ پریشان کن جذبہ کی تعریف من کی ایک ایسی حالت ہے، جو کہ جب استوار ہو، تو اس سے من کا سکھ چین اور ضبط نفس جاتا رہتا ہے۔ غصہ کی حالت میں ہم من کا سکون کھو بیٹھتے ہیں اور ہم ایسی باتیں کرتے یا کہتے ہیں جن پر ہمیں بعد میں ندامت ہوتی ہے۔ جب ہم لالچ یا کسی سے لگاوٹ کا اظہار کرتے ہیں تو یہ من کی پر سکون حالت نہیں ہے، اور ہم ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جو بعد میں نہائت مضحکہ خیز تصور کی جاتی ہیں۔ بیشتر اوقات اس قسم کا کسی سے چمٹے رہنے والا رویہ دوسرے شخص کو دور بھگا دیتا ہے۔ 

ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ ہم پریشان کن جذبات کے زیر اثر مصروف کار ہیں۔ جب ہم اپنی شکتی سے قدرے واقف ہو جائیں، تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جب ہم عداوت یا لگاوٹ پر مائل ہوں تو ہم کچھ سراسیمہ سے ہوتے ہیں۔ ایسے تباہ کن اور پریشان کن جذبات ہماری لاعلمی اور عدم آگہی سے آتے ہیں۔ ہم علت و معلول کے قانون سے بے بہرہ ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم احمق ہیں؛ ہم یہ نہیں جانتے کہ اثرات اسباب سے جنم لیتے ہیں اور یہ کہ ہمارے تصورات کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ 

'من کی سات نکاتی تربیت مجمل انداز سے یہ بتاتی ہے:'

سارا الزام ایک چیز پر دھرو، اور وہ ہے خوشنودیٔ نفس۔

 اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ہر دم یہ تمنا کرتے ہیں کہ معاملات ہمارے حسب منشا قرار پائیں۔ یہ "پہلے میں" والا رویہ ہے: "جس طرح میں چاہتا ہوں کہ معاملات انجام کو پہنچیں وہی ایک حتمی طریقہ ہے۔" اپنے مسائل کے لئیے ایسے اطوار کو مورد الزام ٹھہرانا بہت مفید ہے۔ اس کی چند ایک مثالیں یوں ہیں: "میری اس طعام گھر سے بہت توقع وابسطہ تھی،" یا "مجھے اس شام کے نہائت عمدہ ہونے کی توقع تھی، یا "میں یہ چاہتا تھا کہ تم مجھ سے اس طرح پیش آؤ۔" اس سب کا منبع "میں، میں، میں" ہے۔ ہم محض اپنے بارے میں سوچ رہے ہیں نہ کہ آپ کے بارے میں۔ ہمیں اس بات کا قطعی طور پر احساس نہیں کہ دوسرا شخص اس روز کن مشکلات کا شکار ہوا  ہو گا یا اس کا ذہن کن خیالات میں گھرا ہو گا۔ یہ محض میرے متعلق ہے اور یہ کہ مجھے کیا چاہئیے۔ یہ ہیں وہ مسائل جن پر ہمیں توجہ دینی ہے اور اپنی روز مرہ زندگی میں تبدیلی لانا ہے۔ بدھ مت کا زندگی کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ ہمارے تمام مسائل کی بنیاد ہماری خوشنودیٔ نفس ہے۔ اس سے مراد خود غرضی اور نفس پرستی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی ضروریات کو بالکل نظر انداز کر دیں، بلکہ یہ کہ اپنی ہی ضروریات کو حتمی تصور نہ کریں اور دوسروں کی ضروریات کو رد نہ کریں۔ یہ بڑی بنیادی سی بات ہے۔

جو تعمیری ہے اسے پرشکوہ انداز سے صادر کرو کا مطلب ہے کہ فہم و فراست سے قدم اٹھانا بغیر غصہ، لالچ یا حاجت کے۔ ہمیں کسی ایسے انسان کا روپ نہیں دھارنا چاہئیے جو ہر دم موافقت کی نظر یا توجہ کا بھوکا ہو۔ جب ہم ایسے جذبات کے زیر اثر کام کرتے ہیں تو ہم مشکلات پیدا کرتے ہیں، ہے نا؟ ہم دوسرے لوگوں سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کرتے ہیں اور پھر مایوسی کا شکار ہوتے ہیں۔ تعمیری فعل سے مراد ان کے بغیر کام کرنا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ غائرانہ سطح پر ہم نے ان پریشان کن جذبات اور اطوار سے نجات پا لی ہے؛ لیکن یہ کہ ہم ان کے زبردست اثر تلے آنے سے بچ نکلنے کے اہل ہیں۔

زندگی ہماری تربیت گاہ ہے

ہم بھولپن سے کام لے کر دوسرے لوگوں کی خصوصیات کو پہچاننے سے منکر نہیں ہیں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرنی ہے کہ ہماری طرح دوسرے لوگ بھی جذبات رکھتے ہیں۔ جس طرح ہم استرداد اور نظر انداز ہونا پسند نہیں کرتے، دوسرے لوگ بھی ایسا سلوک پسند نہیں کرتے۔ یہ وہ احساسات ہیں جن کا ہم نے اپنی زندگی میں اطلاق کرنا ہےایسا کرنے کے لئیے ہمیں اپنے من کو مکمل طور پر قابو میں لانا ہے، جیسا کہ دعا کی تیسری سطر میں بیان کیا گیا ہے۔ 

 اپنی زندگی کو ایک تربیت گاہ تصور کرنا بہت کار آمد ہے۔ یہی پاٹھ کا اصل مقصد ہے۔ یہ یقیناً محض کسی خوشگوار فضا میں جہاں موم بتی، اگربتی اور خامشی چھائی ہو گدی پر بیٹھنے کا نام نہیں ہے اور قطعی طور پر کوئی رونی صورت بھی نہیں چاہئیے۔

ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

ایک بار میں ایک بودھی مرکز میں گیا جہاں میرا ایک شاگرد درس دے رہا تھا، اور کوئی سامع اپنا دو برس کا طفل ساتھ لے کر آیا تھا۔ درس کے دوران بچہ کمرے میں ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہا تھا۔ ہم کسی دو برس کے بچہ سے کیا توقع کرتے ہیں کہ وہ ڈیڑھ گھنٹہ خاموشی سے پر سکون حالت میں ایک جگہ بیٹھا رہے گا؟ استاد نے بچے کو جماعت میں لانے کی اجازت دے رکھی تھی؛ ہمارے مراقبہ کے دوران اس بچے کی بھاگ دوڑ اور شور و غوغا ایک زبردست چیلنج تھا۔ یہ صحیح عبادت ہے۔ کیا ہم بغیر ناراضگی یا خلفشار کے اپنا پاٹھ جاری رکھ سکتے ہیں۔؟ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچے کی ماں یا باپ اسے چوٹ لگنے سے نہ بچائں۔ لیکن کیا ہم باہر سے آنے والے ٹریفک کے شور کی موجودگی میں پاٹھ کر سکتے ہیں، یا کہ تب جب ہم ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہوں؟ 

یہ زندگی کا اصل روپ ہے، اور یہ پاٹھ کا اصل گھر ہے، ہماری لا علمی، بے سدھ حالت اور پریشان کن جذبات کے خلاف اصل میدان جنگ۔ 'ایک بودھی ستوا کا جواہر کا ہار' میں اتیشا اسے نہائت واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے:

جب میں بہت سارے لوگوں کے درمیان ہوں تو مجھے اپنی زبان پر قابو رکھنا ہے۔ جب میں اکیلا ہوں، تو مجھے اپنے من کو قابو میں رکھنا ہے۔

یہ بے حد مفید ہے۔ جب ہم لوگوں کے بیچ ہوں تو ہمیں اپنی گفتار پر نظر رکھنی ہے۔ یہ محض الفاظ کے چناؤ پر ہی منحصر نہیں بلکہ لب و لحجہ، جذباتیت، اور اطوار بھی جو ان کے پسِ پشت ہیں۔ اگر ہم یہ محسوس کریں کہ ہم عدو یا تکبر کے لہجہ میں بات کر رہے ہیں تو دھیما پن اختیار کریں۔ یہی معاملہ ہمارے من کا ہے جب ہم اکیلے ہوں۔ اپنے خیالات کا احاطہ کریں، یہ "میں بیچارہ، کوئی میرا قدر دان نہیں" والی مرض۔

اس سے ہم 'سات نکاتی من کی تربیت' کے متعلق سوچتے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ تین چیزیں بہت مشکل ہیں: اپنے مد مقابل کو دھیان میں رکھنا – دھیان میں رکھنے سے مراد انہیں یاد رکھنا ہے – ان پر اطلاق اور ان کی دیکھ بھال کو دھیان میں رکھنا۔ یہ تین چیزیں نہائت اہم اور مشکل ہیں جنہیں کہ خاطر میں لانا ہے۔ ہم من کی آگہی کے پاٹھ کے بارے میں سنتے ہیں، لیکن اس کا مطلب وہ نہیں جو ہمیں مغربی تناظر میں ملتا ہے، یعنی کہ ہم محض حال میں رہ رہے ہیں۔ "من کی آگہی" اس لفظ کا مطلب یاد دہانی ہے۔ ہمیں اس بات کو یاد رکھنا ہے کہ جو ہم سوچ رہے ہیں یہ محض کچرا ہے اور پھر اس احساس کو قائم رکھنا ہے۔ روز مرہ زندگی میں یہ اصل پاٹھ ہے۔

غیر تصوراتی اور تصوراتی حالتیں

غیر تصوراتی ہونے اور تصورات نہ قائم کرنے کے متعلق یہ بودھی پند و نصیحت ہم سنتے ہیں۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ بے شک، ہم کوئی نہائت تکنیکی تعریف اور اس کا تجزیہ بیان کر سکتے ہیں؛ لیکن اگر ہم عملی سطح پر اس کا جائزہ لیں، تو ہمارا مدعا یہ ہے کہ ان چیزوں کے اطلاق کے لئیے ہمیں سوچنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے۔ کوئی پرواز یا گاڑی چھوٹ جانے کی صورت میں ہمیں عدم استقلال کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئیے، اور یہ کہ ہر چیز اسباب اور حالات کی طابع ہے، مزید یہ کہ اگر ہم غصہ کریں تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ہمیں ان چیزوں کے متعلق بطور اول قدم کے سوچنا چاہئیے؛ لیکن ہمارا مدعا یہ ہے کہ یہ امر خود کار ہو۔ ہمیں اس کے متعلق سوچنا نہ پڑے؛ یہ بس موجود ہے۔ ہم خود بخود ہی حد سے تجاوز نہیں کرتے اور نرم خوئی اختیار کرتے ہیں۔ 

یہ ہے ہمارا مدعا۔ یہ کوئی تصوّف کی حالت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مکمل، گہری غیر تصوراتی حالت نہ ہو، مگر ایک غیر تکنیکی صورت میں، یہی وہ چیز ہے جسے ہم پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم ان سب تعلیمات کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کی مشق کرتے ہیں تا کہ ہم اپنے لئیے اور دوسروں کے لئیے مزید مصائب پیدا کرنے سے بچ سکیں۔ یہی اس کا مقصد ہے۔

سوالات

کسی منصوبہ پر عمل میں کب نرم خوئی اختیار کی جائے

میں اپنے آپ کو نرم خو اور حقیقت کا سامنا کرنے والا خیال کرتا ہوں، مگر یہ ہمیشہ سچ نہیں ہوتا۔ حقیقت کو پہچاننے میں ایک مسٔلہ جو مجھے در پیش ہوتا ہے کہ کب منصوبہ کو ترک کر دیا جائے یا کب اسے ترک نہ کیا جائے، اور یہ جاننا کہ کیا تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور کیا نہیں۔ مثال کے طور پر، میری گاڑی چھوٹ گئی میں دوڑا اور ٹیکسی پکڑی اور اگلے سٹیشن پر گاڑی جا پکڑی۔ ہم کیسے اس بات کا فیصلہ کریں کہ ہمارا منصوبہ پر کار بند رہنا کب مفید ہے؟ 

کسی منصوبہ کو ترک کرنے یا اس کو تکمیل تک پہنچانے میں کئی عناصر کا عمل دخل ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا متبادل راستے موجود ہیں اور کیا اسے بدلا جا سکتا ہے، جیسا کہ آپ کی ٹیکسی لے کر اگلے سٹیشن پر گاڑی پکڑنے کی مثال۔ اگر ٹیکسی دستیاب نہ ہوتی، تو ہمیں منصوبہ ترک کرنا ہو گا۔ یہ ایک عملی سطح کی مثال ہے۔ لیکن ایک اور سطح پر، فرض کیجئیے کہ آپ نے کسی سکول میں داخلہ کی درخواست دی اور وہ رد ہو گئی۔ تو کیا ہم پیچھے ہٹ جائں، یا کہ اگلے سال پھر درخواست داخل کریں؟ ہمیں اس کا جائزہ لینا چاہئیے۔ اگر ہمیں کہیں اور داخلہ نہ ملے تو اگلے سال پھر درخواست دینے میں کوئی حرج نہیں۔ اس میں حقیقت پسند معاملہ فہمی کی ضرورت ہے۔ کیا ہم اپنی اہلیت اور تعلیمی استعداد کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہے ہیں؟ ہمیں دوسرے لوگوں کی رائے بھی لینی چاہئیے۔ 

ہر ایک متبادل راہ کا الگ الگ تجزیہ کرنا ضروری ہے؛ ہر معاملہ کے لئیے کوئی ایک ہی حل موجود نہیں ہے۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ہمارے مقصد کے حصول کا دار و مدار کس چیز پر ہے، کیونکہ معاملات اسباب اور حالات سے جنم لیتے ہیں۔ کیا وہ اسباب اور حالات پیدا کئیے جا سکتے ہیں؟ اگر وہ اب پورے نہیں ہو سکتے تو کیا مستقبل میں ان کا حصول ممکن ہے؟ کیا متبادل حل موجود ہیں؟ ہمیں ان فیصلوں اور تبدیلیوں کو نہائت عاقلانہ انداز سے بر سر عمل لانا چاہئیے۔ 

نہائت جذباتی مزاج کا حامل ہونا

میں کس طرح اپنے آپ کو مصیبت میں مبتلا رکھتا ہوں یہ میرے لئیے ایک انوکھی بات ہے۔ میں خود کو یاد دہانی کراتا ہوں کہ میرے تصورات عاقلانہ نہیں ہیں، لیکن میرے احساسات مختلف ہوتے ہیں، اور میں شکست خوردہ رہتا ہوں۔ منکسر المزاجی سے بچنے کے لئیے میں کیا پاٹھ کروں، کیونکہ اب یاد دہانی مشکل ہے؟

بیشتر اوقات ہم جانتے ہیں کہ کیا کار آمد ہے اور کیا بہتر ہے، مگر ہمارے جذبات اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ اس کے متعلق کچھ کر نہیں سکتے۔ یہ معاملہ بہت عام ہے۔ ہمیں طاقتور فیصلہ کن رویہ اپنانا چاہئیے، یعنی کہ خواہ میں کتنا ہی ناراض اور جذباتی کیوں نہ ہو جاؤں، مگر اس چیز کو میں زیادہ اہمیت نہیں دوں گا۔ 

اس کا غلط مطلب نہ لینا ضروری ہے۔ ہم کسی بات پر سخت ناراض یا اس سے متاثر ہو سکتے ہیں؛ لیکن یہ عارضی ہے۔ موڈ اور جذبات بدلتے رہتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ انہیں پکڑے رکھیں اور ان سے اپنی شناخت بنائں۔ مثال کے طور پر، ہمیں یوں نہیں سوچنا چاہئیے، " میں سخت ناراض ہوں کیونکہ میں پھر ناکام ہو گیا اور اپنی توقعات پر پورا نہ اترا۔ میں کسی قابل نہیں۔" ایسا سوچنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس موڈ سے اپنی پہچان بنا رہے ہیں اور اس سے چمٹے رہتے ہیں۔ ہم کسی چیز کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں، مگر یہ اتنی اہم نہیں ہے۔ یہ عارضی موڈ ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس بات پر قائل کرنا ہے کہ یہ وہ نہیں جس کی ہمیں تلاش ہے۔ ہمیں اس امر کا یقین ہونا چاہئیے کہ یہ موڈ عارضی ہے اور پھر اسے گزر جانے دیں۔ اپنے دل کی گہرائیوں میں ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ غیر حقیقت پسند توقع تھی۔ ہم دکھ محسوس کرتے ہیں، لیکن یہ دکھ جاتا رہے گا۔ ہم اس دکھ کو خاتم الدنیا نہیں سمجھتے۔ 

روائتی طور پر موڈ کو آسمان پر ایک بادل سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کہ اڑ جانے والا ہے۔ اس سے نمٹنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہئیے کہ جذبات میں نشیب و فراز معمول کی بات ہے۔ ہم میں سے بعض دوسروں کی نسبت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں، مگر اس کے متعلق پہلے سے کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ حقیقت کو تسلیم کرنے کا ایک مرحلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم کہاں ہیں؛ ہم نہائت جذباتی ہو سکتے ہیں اور آسانی سے ناراض بھی، مگر ہمیں اس سے چمٹے نہیں رہنا چاہئیے۔ حقیقت کو پہچاننے پر زیادہ سے زیادہ زور دیں۔

 مثال کے طور پر، "میں اس چلہ پر گیا اور میرا خیال تھا کہ وہاں مجھے بہترین ارتکاز کا موقع ملے گا، مگر تمام وقت میرا من آوارگی کا شکار رہا۔" تو بات یہ ہے کہ میری توقع غیر حقیقت پسند تھی۔ بے شک، من تو آوارہ پھرے گا اور یقیناً یہ کوئی بڑھیا بات نہ ہو گی۔ اپنی توقع کم کر دیں اور اس پر خلوص دل سے قائم رہیں۔ مثال کے طور پر، "میں اعلیٰ ترین مقام پر پہنچ سکتا ہوں، لیکن اس کا حصول علت و معلول پر انحصار کئیے بغیر ممکن نہیں ہو گا۔ مجھے محنت کرنا ہو گی۔"

اور اگر ہم جذباتیت سے کام لیں، طبیعت کے اس میلان کو مثبت جذبات پیدا کرنے کے لئیے کام میں لایا جا سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم پیار اور درد مندی سے سرشار ہوں گے۔ اس لحاظ سے، جذباتی ہونا ایک مثبت امر ہے۔ بہر صورت، بعض لوگ نہائت عاقل ہوتے ہیں اور ان کے لئیے کسی جذبہ کو محسوس کرنا مشکل ہے۔ ان کے لئیے پیار اور درد مندی کا احساس نہائت مشکل ہے۔ اگر آپ بہت جذباتی انسان ہیں تو آپ کے لئیے وہاں پہلے سے کچھ موجود ہے، اور اس کو محض ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ علت و معلول کا اطلاق کریں تو یہ دھیرے دھیرے ہو جائے گا۔

اپنے دائرہ طمانیت سے باہر عمل کاری

ہم یہ سب تربیت لیتے ہیں اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ سماج میں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو بوقت ضرورت ذمہ داری اٹھا سکیں۔ ہم کب اپنے آپ کو اس قابل تصور کر سکتے ہیں کہ اپنے دائرہ طمانیت سے باہر نکل کر ایسے معاملات سے نمٹیں جو ہمیں جذباتی طور پر چیلنج کرتے ہیں؟

اس کا تعلق کسی چیز کے تعمیری یا تخریبی ہونے سے ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ہم اپنے دائرہ طمانیت سے نکل کر کسی شراب خانہ میں جا کر نشہ میں مسرور لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں تو یہ کوئی تعمیری فعل نہ ہو گا۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی بودھی ستوا جہنم میں جا کر وہاں موجود ہستیوں کی مدد کرے، تو یہ ہم جیسے عام انسان کے لئیے بہت شدید فعل ہو گا۔ لیکن اپنے دائرہ طمانیت سے نکل کر کوئی تعمیری کام کرنا، جیسے سڑک پر کسی بے گھر انسان کو چند الفاظ کہنا، یہ اور بات ہے۔ 

پہلی بات جس کو ہمیں سمجھنا ہے کہ ہم جو مدعا رکھتے ہیں اسے پانے میں ہمارا اپنے دائرہ طمانیت سے نکل کر کچھ کرنا کس حد تک سود مند ہو گا۔ بعض نوجوان کسی کلب میں جا کر تمام رات صبح ہونے تک ٹیکنو موسیقی پر ناچ سکتے ہیں۔ کیا ایسا فعل ہمارے لئیے، اپنے دائرہ طمانیت کو پار کر کے، سود مند ہوگا؟ دائرہ طمانیت سے باہر نکلنا تو ضرور ہے لیکن اس کا کوئی مثبت پہلو نہیں ہے، ما سوا اس کے کہ ہم اپنے جانبدارانہ رویہ پر قابو پانا چاہ رہے ہیں۔ مگر اس پر قابو پانے کا اور بھی طریقہ ہے بجائے اس کے کہ ہم ساری رات ناچیں اور بلند آواز موسیقی کے شور سے بہرے ہو جائں۔ بہر حال بعض اور ایسے کام بھی ہیں جو ہمارے دائرہ طمانیت سے باہر ہیں، جیسے مہاجرین کی مدد کرنا۔ اپنے دائرہ طمانیت سے باہر نکل کر ان کے ساتھ کام کرنا تعمیری بھی ہے اور مثبت بھی اور ہمارے بھلائی استوار کرنے میں معاون بھی ہے۔ 

برلن میں میں نے ایک چھوٹی سی تبادلہ خیال کی جماعت قائم کر رکھی ہے۔ ہم سب باہمی طور پر دوست ہیں اور کلاس کے بعد ہم کھانا کھانے جاتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دھرم کس طرح ان کی روز مرہ زندگی میں کام آتا ہے۔ میرے شاگردوں میں سے ایک نے بتایا کہ وہ اپنے دائرہ طمانیت سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی وضات یوں کی کہ وہ خوش شکل لوگوں پر زیادہ توجہ دینے پر مائل ہے اور ان سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک لحاظ سے، وہ انہیں دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ تو اس نے اس کے کام پر کسی سے دوستی بڑھانا چاہی جو کہ نہائت فربہ تھا، جس کے چہرے پر کوئی عجیب سی شے تھی اور وہ بالکل جاذب نظر نہ تھا۔ وہ در حقیقت یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ ایک ایسا انسان ہے جو خوش رہنا چاہتا ہے، پسند کیا جانا چاہتا ہے، اور نا پسندیدگی یا عدم توجہی کا شکار ہونا نہیں چاہتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ شخص ایک بہترین دوست ثابت ہو، ایک ہیرا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس شخص کو نظر انداز نہیں کرے گا۔ یہ ہمارے دائرہ طمانیت سے باہر نکل کر کوئی مثبت کام کرنے کی عمدہ مثال ہے۔ اس قسم کے کام کرنا آسان ہے۔ اگر ہم اپنے معمول کی حدود پار کرنا چاہتے ہیں تو یہ کام قدم بہ قدم کریں جو کہ ممکن ہو اور ہماری استطاعت سے باہر نہ ہو۔ 

ایک اور دوست حد سے گزر گیا۔ وہ ہر دم اپنے دائرہ طمانیت سے تجاوز کرنا پسند کرتا ہے، مثال کے طور پر وہ پارک میں جا کر نشہ باز لوگوں کے ساتھ جہاں وہ منشیات بیچ رہے ہوتے ہیں وقت گزاری کو پسند کرتا ہے۔ وہ یہ کام اس لئیے کرتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ میل جول نا روا سمجھا جاتا ہے۔ مجھے اس میں کوئی بھلائی نظر نہیں آتی۔ یہ محض مردانگی کی نمائش لگتی ہے۔ 

یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ کس طرح اپنے دائرہ طمانیت سے باہر نکلا جائے اور یہ کہ ہمارے دائرہ طمانیت کا اصل مطلب کیا ہے۔ یہ بات کس حد تک محض ایک تصور ہے کہ ہمارا دائرہ طمانیت وہ جگہ ہے جہاں ہم محفوظ محسوس کرتے ہیں؟ دائرہ طمانیت ہے کیا چیز؟ اس کا تجزیہ ہمیں خود کرنا ہے۔ کیا ہم کسی بھی شخص کے ساتھ کسی بھی حالت میں طمانیت محسوس کرسکتے ہیں؟

اس کی کلید ایک شے پر الزام دینا ہے: من کی خوشنودی۔ جب ہم غیر لوگوں کے ساتھ اور حالات کے ساتھ بے چینی محسوس کریں ، تو اس کا سبب یہ ہے کہ ہم "میں، میں،میں" کے بارے میں سوچ رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم سوچتے ہیں، "مجھے یہ پسند نہیں، میں اس سے نہیں نمٹ سکتا،" ہم دوسرے لوگوں کے متعلق نہیں سوچتے۔ اس کا تعلق دوسرے لوگوں میں دلچسپی لینے اور یہ سمجھںے سے ہے کہ ہم سب انسان ہیں۔ 

خلاصہ

چند ایک بنیادی اصول موجود ہیں۔ اگر ہم خود غرضی اور خود ستائی سے پرہیز کریں تو ہم پر مسرت ہوں گے۔ جب ہم کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہوں تو محض اپنے بارے میں ہی بات کرنے کے، اگر ہم دوسرے شخص میں پر خلوص دلچسپی لیں اور ان کی زندگی کے متعلق سوال پوچھیں، تو ہم بہت خوش ہوں گے، اور بے شک دوسرا انسان بھی خوش ہو گا۔ یہ زندگی کے ساتھ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے اطوار کی بنیادی اور عملی تبدیلیاں ہیں۔ انہیں یاد رکھنے کی من کی آگہی ہمارا مدعا ہے۔ جب ہم خود غرضی سے کام لیں یا محض اپنے ہی بارے میں سوچیں تو اس وقت ہمیں اس نصیحت پر عمل کرنے کو یاد رکھںا ہے۔ مثلاً، دوسرا شخص مصروف ہے اور جانا چاہتا ہے مگر ہم بولتے چلے جا رہے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں کہ میری بات نہائت اہم ہے۔ کیا دوسرا شخص واقعی اس کے متعلق جاننا چاہتا ہے؟ نہیں، مگر ہم سوچتے ہیں کہ وہ اسے سننا چاہتے ہیں۔ دھرم کو زندگی میں استعمال میں لانا ضروری ہے۔

Top