بودھی ستوا کے بنیادی عہد

پس منظر

عہد من کے سلسلہ پر ایک ایسا لطیف، مستور عنصر ہے جس سے رویہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ خصوصاً یہ کسی "ناقابل تحسین فعل" سے گریز ہے، یا تو کوئی ایسا فعل جو فطرتاً تخریبی ہے یا کوئی ایسا فعل جسے مہاتما بدھ نے منع فرمایا ان لوگوں کے لئے جو کسی خاص مقام پر پہنچنے کی مشق کر رہے ہیں۔ پہلے والے کی ایک مثال کسی کی جان لینا ہو سکتی ہے؛ دوسرے کی مثال دوپہر کے بعد کھانا کھانا ہے جس سے راہبوں کو گریز لازم ہے تا کہ ان کے من رات اور اگلی صبح کے مراقبہ کے لئے صاف تر ہوں۔

بودھی چت استوار کرنے کے دو درجات میں، مشتاق اور مشغول، صرف دوسرے مرحلہ میں ہم بودھی ستوا عہد اٹھاتے ہیں۔

بودھی چت عہد باندھنے کا مطلب ہے دوطرح کے منفی اعمال سے پرہیز کا عہد جنہیں مہاتما بدھ نے ان لوگوں کے لئے منع فرمایا جو روشن ضمیری حاصل کرنے اور دوسروں کا زیادہ سے زیادہ بھلا کرنے کی بطور بودھی ستوا عبادت میں مصروف ہیں:

(۱) اٹھارہ ایسے فعل جن کے ارتکاب کا مطلب ہے جڑ سے اکھڑ جانا،

(۲) چھیالیس منقوص رویے۔

جڑ سے اکھڑ جانے سے مراد ہے بودھی ستوا کے تمام عہد و پیمان کا ضیاع۔ یہ اس لحاظ سے "نیچے گرنا" ہے کہ اس سے روحانی ترقی میں انحطاط آ جاتا ہے اور مثبت صفات کی پیداوار رک جاتی ہے۔ لفظ 'جڑ' ظاہر کرتا ہے کہ ایک جڑ ہے جو بھسم ہو جاتی ہے۔ بیان کی سہولت کی خاطر ان دو مجموعوں کو عموماً 'بنیادی اور ضمنی بودھی ستوا عہد' کہا جاتا ہے۔ اگر ہم خالص اور بھر پور انداز میں، جس درجہ ممکن ہو، دوسروں کے کام آنا چاہتے ہیں تو یہ (غلط) رویہ سے بچنے کے لئے بہترین راہنمائی پیش کرتا ہے۔

دسویں صدی کے آخری دور کے ہندوستانی مفکر آتیشا کو بودھی ستوا عہد کا یہ والا روپ اپنے سماٹرا والے استاد دھرم کیرتی (دھرم پال) جو سورن دیپ کا رہنے والا تھا، سے ملا، جسے بعد میں اس نے تبت بھجوا دیا۔ یہ روپ آکاش گربھ کے سوتر (سنسکرت: آکاش گربھ سوتر) سے ماخوذ ہے جس کا حوالہ 'تربیتوں کا مجلّہ' (سنسکرت: شکشا سموچیا) میں دیا گیا ہے، جسے شانتی دیو نے آٹھویں صدی میں ہندوستان میں مرتب کیا۔ تمام تبتی انداز فکر اس پر چلتے ہیں، جبکہ چین کے بدھ متی بودھی ستوا عہد کی مختلف شکلوں کی پیروی کرتے ہیں۔

بودھی ستوا عہد و پیمان کو قائم رکھنے کا عندیہ صرف اسی جنم پر ہی محدود نہیں بلکہ تمام آنے والے جنموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے حتیٰ کہ روشن ضمیری حاصل ہو جاۓ۔ لہٰذا یہ عہد و پیمان ہماری آئیندہ زندگیوں میں بھی ہمارے من کے تسلسل میں جاری و ساری رہتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ عہد کسی گذشتہ جنم میں باندھے، تو اب اگر ہم سہواً کوئی جرم کر بیٹھیں تو ہم ان سے محروم نہیں ہوں گے، ماسوا اس صورت کے کہ اگر ہم نے انہیں اس جنم میں تازہ بہ تازہ قائم کیا۔ اس جنم میں ان عہد کا پہلی بار قیام ہماری روشن ضمیری حاصل کرنے کی کوششوں کو تقویت بخشتا ہے جو کہ تب سے ترقی پذیر ہے جب ہم نے پہلی بار ان کا عندیہ کیا۔ اسی وجہ سے مہایان مفکرین اس امر پر زور دیتے ہیں کہ مرتے دم بودھی ستوا عہد صحیح سلامت اور مضبوط ہونے چاہئیں۔ ہمارے من کے سلسلوں میں ان کی مستقل حاضری ہماری آئیندہ زندگیوں میں مثبت توانائی (انعام کی مستحق خوبی) پیدا کرتی رہتی ہے، اس سے پہلے بھی کہ ہم ان کا اعادہ کر کے ان میں نئے سرے سے جان ڈالیں۔

گیلُوگ کے بانی کی راہنمائی میں، تسونگکھاپا کا پندھرویں صدی کا بودھی ستوا عہد پر تبصرہ، 'بودھی ستوا کے اخلاقی نظم و ضبط کی شرح: روشن ضمیری کی اصل راہ'، آئیے ہم ان اٹھارہ منفی اعمال کا جائزہ لیتے ہیں جو ایک جڑ سے گرنے کے مترادف ہے۔ ہر ایک کی کئی ایک شقیں ہیں جن کا جاننا ضروری ہے۔

Top