پس منظر
عہد من کے سلسلہ پر ایک ایسا لطیف، مستور عنصر ہے جس سے رویہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ خصوصاً یہ کسی "ناقابل تحسین فعل" سے گریز ہے، یا تو کوئی ایسا فعل جو فطرتاً تخریبی ہے یا کوئی ایسا فعل جسے مہاتما بدھ نے منع فرمایا ان لوگوں کے لئے جو کسی خاص مقام پر پہنچنے کی مشق کر رہے ہیں۔ پہلے والے کی ایک مثال کسی کی جان لینا ہو سکتی ہے؛ دوسرے کی مثال دوپہر کے بعد کھانا کھانا ہے جس سے راہبوں کو گریز لازم ہے تا کہ ان کے من رات اور اگلی صبح کے مراقبہ کے لئے صاف تر ہوں۔
بودھی چت استوار کرنے کے دو درجات میں، مشتاق اور مشغول، صرف دوسرے مرحلہ میں ہم بودھی ستوا عہد اٹھاتے ہیں۔
بودھی چت عہد باندھنے کا مطلب ہے دوطرح کے منفی اعمال سے پرہیز کا عہد جنہیں مہاتما بدھ نے ان لوگوں کے لئے منع فرمایا جو روشن ضمیری حاصل کرنے اور دوسروں کا زیادہ سے زیادہ بھلا کرنے کی بطور بودھی ستوا عبادت میں مصروف ہیں:
(۱) اٹھارہ ایسے فعل جن کے ارتکاب کا مطلب ہے جڑ سے اکھڑ جانا،
(۲) چھیالیس منقوص رویے۔
جڑ سے اکھڑ جانے سے مراد ہے بودھی ستوا کے تمام عہد و پیمان کا ضیاع۔ یہ اس لحاظ سے "نیچے گرنا" ہے کہ اس سے روحانی ترقی میں انحطاط آ جاتا ہے اور مثبت صفات کی پیداوار رک جاتی ہے۔ لفظ 'جڑ' ظاہر کرتا ہے کہ ایک جڑ ہے جو بھسم ہو جاتی ہے۔ بیان کی سہولت کی خاطر ان دو مجموعوں کو عموماً 'بنیادی اور ضمنی بودھی ستوا عہد' کہا جاتا ہے۔ اگر ہم خالص اور بھر پور انداز میں، جس درجہ ممکن ہو، دوسروں کے کام آنا چاہتے ہیں تو یہ (غلط) رویہ سے بچنے کے لئے بہترین راہنمائی پیش کرتا ہے۔
دسویں صدی کے آخری دور کے ہندوستانی مفکر آتیشا کو بودھی ستوا عہد کا یہ والا روپ اپنے سماٹرا والے استاد دھرم کیرتی (دھرم پال) جو سورن دیپ کا رہنے والا تھا، سے ملا، جسے بعد میں اس نے تبت بھجوا دیا۔ یہ روپ آکاش گربھ کے سوتر (سنسکرت: آکاش گربھ سوتر) سے ماخوذ ہے جس کا حوالہ 'تربیتوں کا مجلّہ' (سنسکرت: شکشا سموچیا) میں دیا گیا ہے، جسے شانتی دیو نے آٹھویں صدی میں ہندوستان میں مرتب کیا۔ تمام تبتی انداز فکر اس پر چلتے ہیں، جبکہ چین کے بدھ متی بودھی ستوا عہد کی مختلف شکلوں کی پیروی کرتے ہیں۔
بودھی ستوا عہد و پیمان کو قائم رکھنے کا عندیہ صرف اسی جنم پر ہی محدود نہیں بلکہ تمام آنے والے جنموں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے حتیٰ کہ روشن ضمیری حاصل ہو جاۓ۔ لہٰذا یہ عہد و پیمان ہماری آئیندہ زندگیوں میں بھی ہمارے من کے تسلسل میں جاری و ساری رہتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ عہد کسی گذشتہ جنم میں باندھے، تو اب اگر ہم سہواً کوئی جرم کر بیٹھیں تو ہم ان سے محروم نہیں ہوں گے، ماسوا اس صورت کے کہ اگر ہم نے انہیں اس جنم میں تازہ بہ تازہ قائم کیا۔ اس جنم میں ان عہد کا پہلی بار قیام ہماری روشن ضمیری حاصل کرنے کی کوششوں کو تقویت بخشتا ہے جو کہ تب سے ترقی پذیر ہے جب ہم نے پہلی بار ان کا عندیہ کیا۔ اسی وجہ سے مہایان مفکرین اس امر پر زور دیتے ہیں کہ مرتے دم بودھی ستوا عہد صحیح سلامت اور مضبوط ہونے چاہئیں۔ ہمارے من کے سلسلوں میں ان کی مستقل حاضری ہماری آئیندہ زندگیوں میں مثبت توانائی (انعام کی مستحق خوبی) پیدا کرتی رہتی ہے، اس سے پہلے بھی کہ ہم ان کا اعادہ کر کے ان میں نئے سرے سے جان ڈالیں۔
گیلُوگ کے بانی کی راہنمائی میں، تسونگکھاپا کا پندھرویں صدی کا بودھی ستوا عہد پر تبصرہ، 'بودھی ستوا کے اخلاقی نظم و ضبط کی شرح: روشن ضمیری کی اصل راہ'، آئیے ہم ان اٹھارہ منفی اعمال کا جائزہ لیتے ہیں جو ایک جڑ سے گرنے کے مترادف ہے۔ ہر ایک کی کئی ایک شقیں ہیں جن کا جاننا ضروری ہے۔
بودھی ستوا کی اٹھارہ بنیادی گراوٹیں
(۱) اپنی تعریف اور دوسروں کی تحقیر کرنا
اس گراوٹ سے مراد کسی کم رتبہ والے شخص سے ایسے (تحقیر آمیز) لب و لہجہ میں بات کرنا شامل ہے۔ اس کا مقصد مخاطب شخص سے نفع، تعریف، محبت، عزت وغیرہ کی خواہش، یا پھر اس سے حسد ہو سکتی ہے۔ اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ ہماری بات سچ ہے یا جھوٹ۔ ایسے پیشہ ور لوگ جو خود کو بدھ متی مشہور کرتے ہیں انہیں اس گراوٹ کے ارتکاب کے متعلق محتاط رہنا چاہئے۔
(۲) دھرم کی تعلیمات یا دولت کو دوسروں میں نہ بانٹنا
اس کے پیچھے جو ترغیب ہے وہ خصوصاً لت اور کنجوسی کی ہے۔ اس منفی فعل میں نہ صرف ہمارا نوٹس یا ٹیپ ریکارڈر کو چمٹے رہنا شامل ہے بلکہ اپنے وقت کے بارے میں بخل اور کسی کی مدد سے انکار بھی شامل ہیں۔
(۳) دوسروں کی معافی پر توجہ نہ دینا یا کسی کو ضرب لگانا
ان دونوں کی ترغیب غصہ ہے۔ پہلی کا تعلق کسی حقیقی واقعہ سے ہے جب کسی پر چلّایا جاۓ یا اسے مارا جاۓ، اور وہ شخص معافی کا خواستگار ہو، یا کوئی اور ہمیں منع کرے اور ہم نہ مانیں۔ دوسری بس کسی کو مارنا ہے۔ بعض اوقات بے قابو بچوں یا جانوروں کو اس وقت جب وہ سڑک کی جانب دوڑیں اور بات نہ سنیں، ایک آدھ تھپڑ لگانا پڑتا ہے، مگر غصہ میں مارنا کبھی بھی مناسب یا فائدہ مند نہیں ہوتا۔
(۴) مہایان تعلیمات کو رد کر کے جعلی تعلیمات کو پیش کرنا
اس سے مراد بودھی ستوا کے کسی موضوع پر صحیح تعلیمات مثلاً ان کے اخلاقی رویہ کے متعلق، کو رد کر کے اس کی جگہ کوئی بظاہر معقول مگر گمراہ کن درس، اسی موضوع پر، گھڑ کے اور اسے اصلی و مستند قرار دے کر، دوسروں کو سکھانا تا کہ ان کی پیروی حاصل ہو۔ اس تنزل کی ایک مثال یہ ہے جب بعض اساتذہ اس ڈر سے کہ کہیں ان کے نئے آنے والے شاگرد بھاگ نہ جائیں، آزاد خیال اخلاقی رویہ سے چشم پوشی کرتے ہیں، اور اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں کہ کوئی بھی فعل جو اوروں کو نقصان نہ دے قابل قبول ہے۔ اس قسم کی خلاف ورزی کرنے کے لئے استاد ہونا ضروری نہیں۔ ہم اس کا ارتکاب دوسرے لوگوں سے عام بات چیت میں بھی کر سکتے ہیں۔
(۵) تین جواہر کو پیش کی گئی نذر ہتھیانا
اس گراوٹ سے مراد مہاتما بدھوں، دھرم یا سنگھا کو پیش کئیے گئے نذرانے کو بذات خود یا کسی کے ذریعہ چرانا یا خورد برد کرنا اور پھر اسے اپنی ملکیت سمجھنا ہے۔ اس حوالے سے سنگھا سے مراد چار یا اس سے زیادہ راہبوں کا ٹولہ ہے۔ مثلاً ایسی رقم کا غبن جو کوئی بدھ متی عمارت بنانے، دھرم کی کتب کی اشاعت کرنے یا راہبوں اور راہباؤں کے کھانے پینے کے لئیے عطیہ کے طور پر دی گئی ہو۔
(۶) مقدس دھرم سے روگردانی
اس گراوٹ کا تعلق اس بات کو مسترد کرنے، یا اپنی راۓ کے اظہار سے دوسروں کو مسترد کرنے پر اکسانے سے ہے کہ شراوک، پراتیک بدھ، یا بودھی ستوا طریقے مہاتما بدھ کے الفاظ ہیں۔ شراوک وہ لوگ ہیں جو مہاتما بدھ کی تعلیمات کو، جب کہ وہ ابھی تک دستیاب ہیں، سنتے ہیں۔ پراتیک بدھ خود نمو پیروکار ہیں جو اس اندھیرے دور سے تعلق رکھتے ہیں جس میں دھرم براہ راست میسر نہیں۔ روحانی ترقی کی خاطر وہ وجدانی فہم سے مدد لیتے ہیں جو انہوں نے گذشتہ زندگیوں کے دوران مطالعہ اور عبادت کی وساطت سے حاصل کی ہے۔ دونوں کی مجموعی تعلیمات سے ہینیان یعنی "عاجز طریق" بنتا ہے جس کے ذریعہ سمسار سے ذاتی مکش حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مہایان طریق مکمل روشن ضمیری پانے کے طریقوں پر زور دیتا ہے۔ اس امر کا انکار کہ ہر طریق کے تمام یا محض چند ایک صحیفے مہاتما بدھ سے ماخوذ ہیں ایک گراوٹ ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
ان عہد کو قائم رکھنے کا مطلب تاریخی پس منظر کو ترک کرنا نہیں۔ مہاتما بدھ کی تعلیمات، لکھے جانے سے پہلے، صدیوں تک زبانی منتقل ہوتی رہیں، لہٰذا تبدل و تحریف یقیناً ہوئی ہو گی۔ وہ عظیم مفکر جنہوں نے تبتی بدھ متی صحائف کا مجموعہ مرتب کیا، انہوں نے یقیناً ایسی تحریروں کو مسترد کر دیا ہو گا جنہیں انہوں نے غیر مستند گردانا۔ البتہ یہ فیصلہ کسی قسم کی جانبداری کی بنیاد پر کرنے کے بجاۓ انہوں نے کسی تحریر کی صداقت کو پرکھنے کی خاطر ساتویں صدی کے ہندوستانی مفکر دھرم کیرتی کے مقرر کردہ معیار کو معتبر مانا – کیا کوئی عبادت بدھ مت کے بہتر پنر جنم، مکش یا روشن ضمیری جیسے مقاصد پانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ بدھ متی صحیفوں میں اور حتیٰ کہ ایک ہی تحریر میں طرز و انداز کی تفریق اکثر مختلف وقتوں کی غمازی کرتی ہے جن میں ان تعلیمات کے مختلف حصے رقم کئے گئے، یا ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ لہٰذا تحریروں کے تجزیہ کے جدید طریقوں کے پیش نظر ان صحیفوں کا مطالعہ اکثر فائدہ مند ہو سکتا ہے اور وہ اس عہد کے متناقض نہیں۔
(۷) راہبوں کے چوغے اتارنا یا ایسے فعل جیسے ان کے چوغے چرانے کا مرتکب ہونا
اس حرکت کا تعلق ایک، دو یا تین بدھ متی راہبوں یا راہبات کو نقصان پہنچانے کی خاطر کوئی گھٹیا کام کرنا ہے، خواہ ان کا اخلاقی درجہ یا مطالعہ اور مشق کا درجہ کچھ بھی ہو۔ ایسے فعل کی ترغیب بدخواہی اور بغض ہو سکتی ہے، اور اس میں مار پیٹ، گالی گلوچ، ان کے مال پر قبضہ یا ان کا خانقاہ سے اخراج شامل ہیں۔ راہبوں کی بے دخلی کوئی گراوٹ نہیں اگر انہوں نے چار بڑے عہدوں میں سے ایک بھی توڑا ہے: کسی کو نہ مارنا، خصوصاً کسی انسان کو؛ چوری نہ کرنا، خصوصاً راہبوں کا مال؛ جھوٹ نہ بولنا، خصوصاً روحانی کمالات کے متعلق؛ اور مکمل برہمچاری قائم رکھنا۔
(۸) پانچ وحشیانہ جرائم میں سے کسی ایک کا ارتکاب
پانچ وحشیانہ جرائم یہ ہیں (ا) اپنے باپ کا قتل، (ب) ماں کا قتل، یا (پ) کسی ارہت (مکش پایا شخص) کا قتل، (ت) بری نیت سے کسی مہاتما بدھ کا خون نکالنا، (ٹ) راہب جتھہ میں پھوٹ ڈالنا۔ آخری قبیح جرم کا تعلق مہاتما بدھ اور خانقاہ کی تعلیمات کو رد کرنے، راہبوں کو خانقاہوں سے دور کرنے، اور انہیں اپنے کسی حال ہی میں قائم کئے گئے مذہب اور خانقاہوں میں شامل کرنے سے ہے۔ اس میں کسی دھرم مرکز یا ادارے کو اس بنیاد پر چھوڑنا کہ یہ ادارہ اور اس کے روحانی اساتذہ بد عنوانی کا شکار ہیں، اور ایک دوسرا مرکز قائم کرنا جو کہ مہاتما بدھ کی تعلیمات کی پیروی کرتا ہو، شامل نہیں۔ مزید بر آں، اس قبیح جرم میں سنگھا کی اصطلاح خاص طور پر راہبوں کی جماعت کے حوالے سے استعمال کی گئی ہے۔ یہاں 'سنگھا' سے مراد اس اصطلاح کا وہ غیر روائتی استعمال نہیں جسے مغرب کے بدھ متوں نے کسی دھرم مرکز یا ادارے کی مجلس کے لئے گھڑا ہے۔
(۹) تحریف شدہ اور معاندانہ راۓ رکھنا
اس سے مراد حقیقت اور باقدر (چیز) سے انکار ہے – مثلاً رویہ کے متعلق علت و معلول کے قوانین، زندگی میں محفوظ اور مثبت راہ کا وجود، پنر جنم، اور اس سے مکش – ایسے خیالات سے معاندت اور ان سے جو ایسے خیالات رکھتے ہیں۔
(۱۰) مختلف جگہوں جیسے شہروں کو تباہ کرنا
اس گراوٹ سے مراد جان بوجھ کر (عمارتیں) منہدم کرنا، بمباری کرنا، یا کسی قصبہ، شہر، ضلع، یا دیہی علاقہ کی فضا کی بربادی، اس طرح کہ یہ جگہ انسانوں یا جانوروں کی رہائش کے قابل نہ رہے۔
(۱۱) غیر تربیت یافتہ من کے لوگوں کو خالی پن کی تعلیم دینا
اس گراوٹ کا بنیادی نشانہ وہ لوگ ہیں جن کی ترغیب بودھی چت ہے مگر وہ ابھی خالی پن کو سمجھنے سے قاصر بہیں۔ یہ لوگ اس تعلیم سے الجھن یا خوف کا شکار ہو جائں گے اور نتیجتہً بودھی ستوا راہ جس سے وہ ذاتی مکش حاصل کرنا چاہتے ہیں کو چھوڑ دیں گے۔ یہ اس سوچ کے نتیجہ میں ممکن ہے کہ اگر تمام مظاہر فطری، قابل شناخت وجود سے عاری ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ کسی شے کا کوئی وجود ہے ہی نہیں، تو پھر کسی کی مدد کی تیاری کی تکلیف کیوں گوارا ہو؟ اس فعل میں یہ بھی شامل ہے کہ کسی ایسے شخص کو خالی پن کا سبق دیا جاۓ جو اسے غلط سمجھے، اور اس کے نتیجہ میں دھرم کو بالکل چھوڑ دے، مثلاً یہ سوچ کر کہ بدھ مت کے مطابق کسی شے کا کوئی وجود نہیں، لہٰذا یہ سراسر حماقت ہے۔ بغیر چھٹی حس کی پاسداری کے یہ جاننا مشکل ہے کہ آیا لوگوں کے من اسقدر ترقی یافتہ ہیں کہ وہ مظاہر کے خالی پن کی تعلیمات کا کوئی غلط مطلب نہیں لیں گے۔ پس یہ بات اہم ہے کہ اوروں کو یہ تعلیم دیتے وقت درجہ بدرجہ پیچیدگی کے مراحل سے تشریح کے راستے گذارا جاۓ، اور وقتاً فوقتاً ان کی فہم کا امتحان لیا جاۓ۔
(۱۲) دوسروں کو مکمل روشن ضمیری حاصل کرنے سے روکنا
اس کا نشانہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے پہلے سے بودھی چت ترغیب استوار کر رکھی ہے اور اب وہ روشن ضمیری کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس میں تنزل والی بات انہیں یہ بتانا ہے کہ وہ ہر دم خلوص، صبر، وغیرہ کو قائم نہیں رکھ پائں گے – اور یہ کہنا کہ وہ مہاتما بدھ نہیں بن سکتے، لہٰذا بہتر ہو گا اگر وہ محض اپنے مکش کے لئے جدوجہد کریں۔ اگر وہ لوگ روشن ضمیری کے راستے سے نہ ہٹیں تو یہ عمل نا مکمل رہے گا۔
(۱۳) دوسروں کو ان کے پراتیمکش عہد سے پھیرنا
پراتیمکش، یعنی انفرادی مکش کے عہد، میں عام مرد، عام عورتیں، عارضی راہبات، نئے راہب، نئی راہبات، پورے راہب، اور پوری راہبات شامل ہیں۔ یہاں جن لوگوں پر توجہ ہے وہ یہ لوگ ہیں جو ان پراتیمکش عہد کے کسی ایک مجموعہ پر کاربند ہیں۔ یہاں یہ گراوٹ کی بات ہے کہ بطور ایک بودھی ستوا کے انہیں یہ بتانا کہ ان پراتیمکش عہد کا باندھنا بیکار ہے کیونکہ بودھی ستوا کے لئے تمام اعمال خالص ہیں۔ اس تنزل کی تکمیل کے لئے ان کا اپنے عہد کو مکمل طور پر توڑنا ضروری ہے۔
(۱۴) شراوک طریق کی تحقیر
چھٹی گراوٹ شراوک یا پراتیک بدھ طریق کی تحریروں کو مہاتما بدھ کے مستند الفاظ نہ ماننا۔ یہاں ہم یہ تو مانتے ہیں کہ یہ (مہاتما بدھ کے مستند الفاظ) ہیں، مگر ان کی تعلیمات کو بے اثر سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے ذریعہ پریشان کن جذبات اور رویوں سے چھٹکارا نا ممکن ہے، مثلاً جن کا تعلق وپاسنا(زیرک مراقبہ) سے ہے۔
(۱۵) خالی پن کے حصول کا جھوٹا دعویٰ کرنا
ہم اس گراوٹ کے مرتکب ہوتے ہیں جب ہم نے مکمل طور پر خالی پن کو نہ پایا ہو، لیکن ہم اس کے متعلق کچھ لکھیں یا اس کا درس دیں، یہ تاثر دینے کے لئے کہ ہم نے ایسا کیا ہے، کیونکہ ہم عظیم مفکروں سے حسد کرتے ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا آیا کوئی شاگرد یا قاری ہمارے جھانسے میں آیا یا نہیں۔ بہر حال ان کا ہماری بات کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر ہماری بات ان کے پلے نہ پڑے تو یہ تنزل ادھورا ہو گا۔ اگرچہ اس عہد کا تعلق خاص طور پر خالی پن کے بارے میں جھوٹے دعوے کرنے سے ہے، لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ ہمیں اس سے تب بھی گریز کرنا چاہئے جب ہم بودھی چت یا دھرم کے دوسرے مسائل پر درس دے رہے ہوں۔ خالی پن کے متعلق، اسے مکمل طور پر حاصل کرنے سے پہلے، سکھانے میں کوئی حرج نہیں، تاہم، ہمارا یہ ماننا ضروری ہے کہ ہم اپنے موجودہ محدود علم کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں۔
(۱۶) تین جواہر سے چراۓ گئے مال کو قبول کرنا
اس گراوٹ کا تعلق کسی ایسی چیز کو بطور تحفہ، نذرانہ، اجرت، انعام، جرمانہ، یا رشوت کے قبول کرنا ہے جسے کسی نے خود یا کسی دوسرے شخص کی وساطت سے مہاتما بدھوں، دھرم، یا سنگھا، جس میں ایک، دو، یا تین راہب اور راہبات بھی شامل ہیں چرایا ہے یا خورد برد کیا ہے۔
(۱۷) غیر منصفانہ پالیسیاں قائم کرنا
اس سے مراد مشق کرنے والے قابل لوگوں کے خلاف، ان سے ناراضگی یا دشمنی کی بنا پر، تعصّب رکھنا۔ اور ان کی حمائت کرنا جنہوں نے کم حاصل کیا ہے یا کچھ حاصل نہیں کیا، ان سے تعلق کی بنا پر۔ اس گراوٹ کی ایک مثال یہ ہے کہ ہم ان طلبا کو بطور استاد کے زیادہ وقت دیں جو غیر رسمی نجی سبق لیتے ہیں مگر زیادہ فیس دے سکتے ہیں، لیکن ان سنجیدہ طلبا کو نظرانداز کریں جو کچھ نہیں دے سکتے۔
(۱۸) بودھی چت کو ترک کر دینا
اس سے مراد سب کے بھلے کی خاطر روشن ضمیری حاصل کرنے کی خواہش ترک کر دینا۔ بودھی چت کے دو درجوں، مشتاق اور مشغول، اس کا تعلق خصوصاً پہلے والے کو مسترد کرنا ہے۔ ایسا کرنے سے دوسرا بھی چھوٹ جاتا ہے۔
کبھی کبھار ایک انیسویں گراوٹ کا ذکر بھی آتا ہے:
(۱۹) طنزیہ فقرے کس کے یا الفاظ کے ذریعہ کسی کی تحقیر
اسے پہلی بودھی ستوا گراوٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
عہد پر قائم رہنا
جب لوگ ان عہد کے متعلق سنتے ہیں، تو بعض اوقات یہ خیال کرتے ہیں کہ ان پر قائم رہنا مشکل ہے اور اس لئے انہیں اپنانے سے ڈرتے ہیں۔ ہم اس قسم کی حوصلہ شکنی سے اس طرح بچ سکتے ہیں کہ ہم ان کے بارے میں اچھی طرح جان لیں۔ ان کی وضاحت کے دو طریقے ہیں۔ پہلا یہ کہ یہ عہد ہماری زندگی کا ایسا رویہ ہے جو ہمیں منفی روش سے باز رکھتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ ایک ایسا لطیف روپ ہے جو ہم زندگی کو بخشتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں عہد قائم رکھنے کے لئے ذہن میں رکھتے ہوئے، ذہنی چوکسی، اور ضبط نفس کی ضرورت ہے۔ ذہن میں رکھتے ہوئے کے ساتھ ہم اپنے عہد کو سارا دن من میں رکھتے ہیں۔ ذہنی چوکسی کے ذریعہ ہم اپنے طرز عمل پر نظر رکھتے ہیں اس بات کا تعین کرنے کی خاطر کہ یہ ہمارے عہد کے مطابق ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ ہم حد سے تجاوز کر رہے ہیں یا کرنے والے ہیں، تو ہم ضبط نفس کو بروۓ کار لاتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنی زندگی کی ایک اخلاقی صورت کا تعین کرتے ہیں اور اسے قائم رکھتے ہیں۔
عہد باندھنا اور ان سے ذہن میں رکھتے ہوئے عجیب یا مشکل بات نہیں۔ جب ہم گاڑی چلاتے ہیں تو حادثات کو کم کرنے اور تحفظ بڑھانے کی خاطر بعض قوانین کی پابندی کی رضا مندی کرتے ہیں۔ یہ قوانین ہماری ڈرائیونگ کی تشکیل کرتے ہیں – ہم تیز رفتاری سے پرہیز کرتے ہیں اور سڑک کی اپنی جانب چلتے ہیں – اور اپنی منزل پر پہنچنے کا سب سے عملی اور مناسب راستہ تجویز کرتے ہیں۔ کچھ تجربہ کے بعد ان قوانین کی پابندی اس قدر آسان ہو جاتی ہے کہ ان کے بارے میں ذہن میں رکھتے پر ہوئے محنت نہیں لگتی اور یہ کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ جب ہم بودھی ستوا یا اور کوئی اخلاقی عہد قائم کرتے ہیں تو تب بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
عہد ٹوٹنے کے چار لازم عنصر
اگر ہمارے عہد کا عمل دخل ہماری زندگی میں ختم ہو جاۓ تو ہم اسے کھو بیٹھتے ہیں۔ اسے بنیادی تنزل کہا جاتا ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تو اس اخلاقی حالت کی بحالی کا ایک ہی طریقہ ہے، اور وہ ہے ہمارے رویہ کی اصلاح – کوئی خالص مشق کرنا جیسے محبت اور درد مندی پر مراقبہ، اور پھر سے عہد باندھنا۔ بودھی ستوا کی اٹھارہ تنزل کی وجوہات میں سے جونہی ہم نویں یا اٹھارویں کی من کی حالت پیدا کرتے ہیں – یعنی ایک تحریف شدہ یا معاندانہ رویہ یا بودھی چت کا ترک – تو اپنے من میں تبدیلی کے باعث ہم بودھی ستوا عہد سے تشکیل شدہ اپنی زندگی کی اخلاقی صورت کو کھو دیتے ہیں، اور یوں اسے قائم رکھنے کی تمام سعی رک جاتی ہے۔ نتیجتہً ہم تمام بودھی ستوا عہد سے محروم ہو جاتے ہیں، محض ان سے ہی نہیں جنہیں ہم نے توڑا ہے۔
بقیہ سولہ بودھی ستوا عہد کی خلاف ورزی سے بنیادی تنزل واقع نہیں ہوتا ماسوا اس کے کہ اس کے ہمراہ جو رویہ ہو اس میں چار لازمی عناصر پاۓ جاتے ہوں۔ ان عناصر کا وجود عہد توڑنے کی ترغیب کے فوراً بعد سے لے کر خلاف ورزی کے ارتکاب کے عین بعد تک قائم دائم ہونا لازم ہے۔
چار لازم عناصر مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) منفی فعل کو نقصان دہ نہ سمجھنا، محض اسے اچھا جاننا، اور فعل کا ارتکاب بغیر کسی پچھتاوے کے کرنا۔
(۲) حدود سے تجاوز کا عادی ہونا، اس سے گریز اور اسے دوہرانے کی خواہش یا نیت کا فقدان، اب بھی اور مستقبل میں بھی۔
(۳) منفی عمل میں خوشی محسوس کرنا اور اسے شادمانی سے سر انجام دینا۔
(۴) اخلاقی عزت نفس کا فقدان (عزت نفس کا کوئی پاس نہ ہونا) اور اس بات سے لاپرواہی کہ ہمارے اعمال کا دوسروں پر کیا اثر ہو گا (حیا کی کمی)، مثلاً ہمارے اساتذہ اور والدین پر۔ تو جو نقصان ہم اپنے آپ کو پہنچا رہے ہیں اس کی تلافی کی نیت کا فقدان۔
اگر ہماری سولہ میں سے کسی بھی عہد کی خلاف ورزی کے ہمراہ یہ چار رویے موجود نہیں تو ہماری زندگی میں بودھی ستوا اثر موجود ہے، اور اسے قائم رکھنے کی جہد بھی، مگر وہ دونوں کمزور پڑ چکے ہیں۔ ان سولہ عہدوں میں خالی توڑنے اور کھونے میں بہت فرق ہے۔
مثال کے طور پر، فرض کیجئے کہ ہم تعلق یا بخل کی بنا پر اپنی کوئی کتاب کسی کو ادھار دینے سے انکار کرتے ہیں۔ ہمیں اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی – کیونکہ یہ شخص اس پر کافی گرا سکتا ہے، یا ہو سکتا کہ اسے واپس نہ کرے۔ ہم نے پہلے بھی کبھی اسے ادھار نہیں دیا اور اب یا مستقبل میں ہمارا اس پالیسی کو تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مزید یہ کہ جب ہم انکار کرتے ہیں تو ہم اپنے اس فیصلہ میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اخلاقی عزت نفس کی کمی کے باعث ہمیں نہ کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ ہم اس بات سے لاتعلق ہیں کہ ہمارا انکار ہمارے متعلق کیا تاثر دیتا ہے، باوجودیکہ ایک ایسے انسان کے جو سب کو روشن ضمیری کی راہ دکھا رہا ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم علم کے کسی ذخیرے کو دوسروں کے ساتھ نہ بانٹیں؟ ڈھٹائی کے عالم میں ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارے اس فعل کا ہمارے روحانی مرشد یا بدھ مت پر کیا اثر ہو گا۔ اور ہم اس خود غرضی کے منفی اثرات کو زائل کرنے کی خاطر کچھ بھی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اگر ہم کتاب ادھار دینے سے انکار کے وقت ایسا رویہ رکھتے ہیں، تو ہم نے یقیناً بودھی ستوا ڈھنگ کو اپنی زندگی سے کھو دیا ہے۔ ہم اپنی مہایان تربیت میں مکمل طور پر ناکام ہو گئے ہیں اور اپنے بودھی ستوا عہد کھو بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف اگر ہمارے اندر ان رویوں میں سے بعض کی کمی ہے اور ہم کتاب ادھار دینے سے انکار کرتے ہیں، تو ہم نے صرف اپنی زندگی کو بودھی ستوا ڈھنگ پر قائم رکھنے کی کوشش میں کمی کی ہے۔ ہمارے عہد ابھی بھی قائم ہیں مگر ذرا کمزور پڑ گئے ہیں۔
انحطاط پذیر عہد
سولہ عہد میں سے کسی ایک کی عہد شکنی، چاروں لازم عناصر کی غیر موجودگی میں، سے بودھی ستوا عہد کمزور نہیں پڑتے۔ مثال کے طور پر، ہم کتاب ادھار تو نہیں دیتے مگر یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ بری بات ہے۔ ہم اسے اپنا معمول نہیں بنانا چاہتے، ہم نہ کہ کر ناخوش ہیں، اور ہم اس بارے میں فکر مند ہیں کہ ہمارے انکار کا ہمارے اوپر اور ہمارے اساتذہ پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ہمارے انکار کی کوئی معقول وجہ ہو سکتی ہے، مثلاً ہمیں اس کتاب کی اس وقت اشد ضرورت ہے، یا ہم نے پہلے سے اسے کسی کو دینے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہماری ترغیب میں تعلق یا بخل شامل نہیں۔ ہم اس وقت اسے نہ دے سکنے پر معذرت کرتے ہیں اور وجہ بتاتے ہیں، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ جس قدر جلد ممکن ہو سکا ہم اسے انہیں ادھار دے دیں گے۔ نقصان پورا کرنے کی خاطر ہم اپنے نوٹس کی پیشکش کرتے ہیں۔ ایسا کرنے سے ہم مکمل طور پر اپنی زندگی کو بودھی ستوا ڈھنگ پر قائم رکھتے ہیں۔
ہمارا یہ ڈھنگ تیزی سے کمزور پڑنا شروع ہو جاتا ہے اور ہماری گرفت ہمارے عہد پر کمزور پڑنا شروع ہو جاتی ہے جب ہم مزید تر تعلق اور بخل کے زیر سایہ آتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ دھرم کی تعلیمات یا کوئی اور ذخیرہ علم دوسروں کے ساتھ نہ بانٹنے سے گریز کا عہد ہمیں اپنی کتب سے تعلق اور بخل سے نجات نہیں بخشتا۔ یہ محض ہمیں ان کے زیر اثر قدم اٹھانے سے روکتا ہے۔ ہم اپنی کتاب ادھار دیں، یا اشد ضرورت کے تحت ابھی نہ دیں، ہم پھر بھی اس سے تعلق میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور بنیادی طور پر بخیل۔ ہمارے عہد، بہر حال، ان پریشان کن جذبات کے خاتمہ میں ہماری جہد میں مدد کرتے ہیں، اور ان مسائل اور دکھ جو ان سے پیدا ہوتا ہے سے مکش دلاتے ہیں۔ لیکن جتنے یہ ٹںٹا گیر مضبوط ہوتے ہیں، اتنا ہی ضبط نفس مشکل ہو جاتا ہے تا کہ یہ ہمارے رویہ کا تعین نہ کر سکیں۔
ہم زیادہ سے زیادہ تعلق اور بخل کے زیر اثر آتے جاتے ہیں – اور ہمارے عہد زیادہ سے زیادہ کمزور ہوتے جاتے ہیں – جب، ہمارا کتاب ادھار نہ دینے کا فعل، جو ہم جانتے ہیں کہ غلط ہے، مگر ہم باقی ایک، دو یا تین لازم عناصر کو پکڑے رکھتے ہیں۔ یہ ہمارے عہد کے معمولی بدعنوانی کے چھوٹے، درمیانہ اور بڑے درجات بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم یہ جانتے ہیں کہ کتاب ادھار نہ دینا غلط بات ہے، لیکن یہ ہماری پالیسی ہے اور اس میں لچک کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ہم اس فعل کو برا گردانیں، اور اس پر شرمندہ ہوں کہ ہمارے انکار سے ہمارے اوپر اور ہمارے اساتذہ پر کیا اثر ہو گا، تو بودھی ستوا ڈھنگ جس پر ہم اپنی زندگی کو چلانا چاہ رہے ہیں، اتنا کمزور نہیں ہو گا۔ لیکن اگر ہم اپنی پالیسی پر خوش ہوں، اور مزید یہ کہ ہم اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ لوگ ہمارے اور ہمارے اساتذہ کے متعلق کیا سوچیں گے، تو ہم مزید تر اپنے تعلق اور بخل کا شکار بن رہے ہیں۔
جب ہم کتاب ادھار نہ دینے کے فعل کو برا نہیں سمجھتے تو زندگی کو اس ڈگر پر قائم رکھنے کا ایک اور بھی کمزور مقام آ جاتا ہے۔ یہ درمیانہ درجہ کی بد عملی کا چھوٹا درجہ ہے۔ اگر ہم اس میں ایک یا دو اور لازم عناصر شامل کریں تو یہ صورت اور بھی کمزور پڑ جاتی ہے علی ا لتّرتیب بڑی درمیانہ بد عملی اور بڑی بد عملی میں۔ جب چاروں لازم عناصر موجود ہوں، تو ہم ایک بنیادی تنزل کے مرتکب ہوتے ہیں اور مکمل طور پر اپنے بودھی ستوا عہد کھو بیٹھتے ہیں۔ اس صورت میں ہم بھر پور طور پر تعلق اور بخل کے اثر تلے آ جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ اب ہم ان کمزوریوں پر قابو پانے یا اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں مشغول نہیں تا کہ اوروں کو فائدہ پہنچا سکیں۔ بودھی چت کی مشغول حالت کو چھوڑنے سے ہم اپنے بودھی چت عہد کو جو اس درجہ کی تشکیل کرتا ہے، کھو دیتے ہیں۔
کمزور عہد کو مضبوط کرنا
اگر ہم نے اپنے بودھی ستوا عہد کو کمزور کر دیا ہے یا اسے کھو دیا ہے تو اس کا ازالہ کرنے میں پہلا قدم اس امر کو تسلیم کرنا ہے کہ یہ (حد سے) تجاوز ہماری بھول تھی۔ یہ کام ہم ایک کفارہ ادا کرنے کی رسم سے کر سکتے ہیں۔ اس رسم میں ہمیں کسی اور کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف نہیں کرنا ہوتا، نہ ہی مہاتما بدھوں سے معافی کی التجا کی جاتی ہے۔ ہمیں اپنے اور اپنے عہد کے بارے میں ایمانداری برتنی چاہئے۔ اگر ہمیں عہد کو توڑتے وقت اس بات کا احساس ہوا تھا کہ یہ بری بات ہے، تو اب ہم اس اعتراف کا اعادہ کرتے ہیں۔ پھر ہم چار ایسے عناصر پیدا کرتے ہیں جو مخالف قوتوں کا کام دیتے ہیں۔ یہ چار عناصر مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اپنے کئے پر پچھتانا۔ پچھتاوا، خواہ عہد شکنی کے وقت یا بعد میں، جرم کے برابر نہیں۔ پچھتاوے سے مراد یہ احساس ہے کہ کاش ہم نے یہ فعل جو ہم کر رہے ہیں یا جو ہم کر چکے ہیں، نہ کیا ہوتا۔ یہ کسی کام سے لطف اندوز ہونے یا بعد میں اس پر شادمانی کے متناقض ہے۔ اس کے برعکس 'جرم' ایسا زبردست احساس ہے کہ ہمارا فعل واقعی برا ہے یا تھا اور ہم سچ مچ بہت برے انسان ہیں۔ ان شناختوں کو فطری اور استمراری جانتے ہوۓ ہم مریضانہ حد تک ان سے چمٹے رہتے ہیں اور ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ البتہ احساس جرم کبھی بھی ہماری خطاؤں کا مناسب اور سود مند حل نہیں ہوتا۔ فرض کیجئے کہ ہم کوئی چیز کھاتے ہیں جو ہمیں بیمار کرتی ہے، ہم اپنے کئے پر پچھتاتے ہیں – یہ غلط کام تھا۔ البتہ یہ حقیقت کہ ہم نے وہ چیز کھائی ہمیں فطری طور پر برا انسان نہیں بناتی۔ ہم اپنے اعمال اور ان کے نتائج کے ذمہ دار ہیں، مگر لعنت ملامت کے سزاوار نہیں جو ہمیں عزت نفس سے محروم کر دے۔
(۲) اس امر کا اقرار کہ ہم دوبارہ یہ غلطی نہیں کریں گے۔ اگرچہ عہد شکنی کے وقت بھی ہماری نیت یہی تھی، پھر بھی ہم شعوری طور پر اس اقرار کا اعادہ کرتے ہیں۔
(۳) اپنی اساس کی جانب لوٹنا۔ اس کا مطلب ہے کہ مثبت اور محفوظ راہ پر زندگی کو ڈالنے کا اعادہ کرنا، اور اپنے دل کو سب کے بھلے کی خاطر روشن ضمیری حاصل کرنے کے لئے وقف کرنا – دوسرے لفظوں میں اپنی پناہ گاہ اور بودھی چت کے مشتاق درجہ کو نئے سرے سے تقویت بخشنا اور مضبوط تر بنانا۔
(۴) حد درازی کی تعدیل کی خاطر اصلاحی اقدام اٹھانا۔ ان اقدامات میں محبت اور سخاوت پر مراقبہ، اپنے ترش رویہ کی معافی، اور دوسرے مثبت اعمال شامل ہیں۔ مثبت رویہ کے لئے چونکہ اخلاقی عزت نفس اور اس امر کی فکر شامل ہے کہ ہمارے اعمال کا ان پر کیا اثر ہوتا ہے جن کی ہم عزت کرتے ہیں، تو یہ ان عناصر کی کمی کا ازالہ کرتا ہے جو ہمارے منفی فعل کے ہمراہ ہو سکتے ہیں۔ عہد شکنی کے وقت اگر ہم نے شرمندگی محسوس کی بھی، تو یہ مثبت اقدامات ہماری عزت نفس کو اور ہمارے اس احساس کو کہ غیر لوگ ہمارے اساتذہ کے متعلق کیا سوچیں گے، تقویت بخشتے ہیں۔
ماحصل بحث
پس ہم نے دیکھا کہ بودھی ستوا عہد کی مکمل تضیع بہت مشکل ہے۔ جب تک ہم ان کی خلوص دل سے تحریم کرتے ہیں اور انہیں مشعل راہ بناتے ہیں، تب تک ہم ان سے کبھی محروم نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاروں لازم عناصر کبھی مکمل نہیں ہوتے خواہ ہم اپنے پریشان کن جذبات کی وجہ سے کسی عہد کو توڑ بھی ڈالیں۔ اور اگر ہم کوئی تحریف شدہ، معاندانہ رویہ اختیار کریں بھی یا بودھی چت سے دستبردار ہو جائیں ، تو اگر ہم اپنی غلطی کا اعتراف کر لیں، پچھتاوا یا ایسی دوسری مخالف قوتوں کو جمع کر لیں، اور عہد کا ازسر نو اعادہ کر لیں، تو ہم سنبھل سکتے ہیں اور اپنی راہ پر پھر سے گامزن ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا عہد باندھتے وقت یہ زیادہ موزوں ہے کہ ہم انہیں بطور مشعل راہ قائم رکھنے کی مسلسل جہد کی اپنی صلاحیت کا جائزہ لیں، بجاۓ اس کے کہ آیا ہم انہیں کامل طور پر قائم رکھ سکتے ہیں یا نہیں۔ اگرچہ یہ احسن ہے کہ ہم کبھی بھی عہد کو کمزور نہ پڑنے دیں اور نہ ہی اسے توڑیں۔ اگرچہ ٹانگ ٹوٹ جانے کے بعد بھی ہم چل تو سکتے ہیں مگر لنگڑا کر۔