اگر ہم مہاتما بدھ کی تعلیمات کو عملی شکل دینا چاہیں، تو مراقبہ ایک اہم موضوع ہے۔ مراقبہ کا، تاہم، بدھ مت سے کوئی مخصوص تعلق نہیں۔ مراقبہ کو ہم سبھی ہندوستانی (مذہبی) رسومات میں پاتے ہیں، تاہم ہندوستان سے باہر غیر بدھ متی نُظُم میں بھی پاتے ہیں۔
مراقبہ کے لئے سنسکرت میں لفظ "بھاونا" ہے۔ بھاونا، لفظ "بُھو" سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "تشکیل"۔، یا "کسی شے کو کسی اور شکل میں ڈھالنا"۔ اسطرح بھاونا کا مطلب ہوا ایک ایسا طریقہ کار جسے ہم کسی تعلیم کواپنے من کی تعمیر و ترقی کے لئے اختیار کرتے ہیں، اور معناً ہم اس حالت میں ڈھل جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، مراقبہ کے طریقہ کار سے ہم اپنے من کو ایک مخصوص فائدہ مند کیفیت میں ڈھالتے ہیں۔
چونکہ بھاونا سنسکرت مادّہ "بُھو" سے آیا ہے، تو لفظ "تشکیل" سے، بھاونا کے معنی میں قلب ماہیت کی تبدیلی بھی شامل ہے۔ مثلاً اگر ہم عشق پر مراقبہ کررہے ہوں، تو ہمارے دل ایک محبت بھرے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ جب اس اصطلاح کا ترجمہ سنسکرت سے تبّتی زبان میں کیا گیا، تو جو لفظ اختیار کیا گیا اس کے معنی ہوتے ہیں "ایک عادت پیدا کرنا"۔ یہ تبّتی لفظ ہے "گوم"۔ گوم کے معنی ہیں اپنے آپ کو کسی مثبت چیز کا خوگر بنانا – نہ کہ کسی منفی یا غیرجانبدار چیز کا – اور اس طرح ایک مثبت تعمیری عادت کا ڈالنا۔
لہٰذا تبّتی زبان کا یہ لفظ،معنوی لحاظ سے، سنسکرت لفظ کے قریب تر ہے۔ دونوں اصطلاحوں کے مفہوم میں یہ بات شامل ہے کہ اپنی قلب ماہیت تبدیل کرنے میں ہم اپنی منزلِ مقصود بن جائیں – مثلاً کوئی ایسا شخص جس کا دل محبت سے سرشار ہو – ہم محبت کو ایک اچھی عادت کی طرح اختیار کرلیں۔ ہم جو طریقہ اس اچھی عادت کو استوار کرنے کے لئے اختیار کرتے ہیں، اسے مراقبہ کہتے ہیں۔
تعلیمات کا سننا
خاص ہندوستانی فلسفیانہ تحریریں جو مہاتما بدھ سے پہلے دستیاب تھیں وہ اُپَنِشَد تھیں۔ اور ان تحریروں میں مراقبہ کے حوالے موجود تھے۔ اُپَنِشَد میں، مراقبہ ایک سہ قدم طریقہ کار کے سلسلہ بیان میں آیا ہے: سننا، سوچنا، اور مراقبہ کرنا۔ مہاتما بدھ نے یہ سہ قدم طریقہ کار ایجاد نہیں کیا، بلکہ یہ اس زمانہ میں پہلے ہی سے جاری و ساری تھا۔ اگر ہم کسی مثبت عادت کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، تو پہلے ہمیں اس کے بارے میں سننا چاہئے، پھر اس پر غور کرکے اسے سمجھنا چاہئے، اور بالآخر، ہمیں اس میں گُم ہوجانا چاہئے۔
اگر ہم دھرم سے بالکل ناواقف ہیں، تو پہلے ہمیں بدھ مت کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات فراہم کرلینی چاہئیں، اور یہ تیقن کرلینا چاہئے کہ یہ معلومات صحیح ہیں۔ صحیح ابتدائی معلومات ہی خالص دھرمی تعلیمات میں دلچسپی کے لئے معتبر بنیاد فراہم کرسکتی ہیں۔ مہاتما بدھ کے زمانہ میں فلسفیانہ تعلیمات کو رقم کرنے کا رواج نہیں تھا۔ تحریر یافتہ متن کی تالیف کا کام صدیوں بعد شروع ہوا۔ اسی لئے یہ سہ قدم طریقہ کار "سننے" کی ضرورت سے شروع ہوتا ہے – دوسرے لفظوں میں، تعلیمات کو بآوازِ بلند سننا۔
آجکل ہم اس پہلے مرحلے میں، جن عادات اور طریقوں کو اختیار کرنا چاہتے ہیں، اُن کے بارے میں کتابیں پڑھنا یا انٹرنیٹ سے استفادہ کرنا بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ نکتہ نزاعی ہے، کیونکہ جب ہم کسی سبق کو استاد سے براہ راست سنتے ہیں تو استاد کی موجودگی سے ایک خاص سماں بندھ جاتا ہے۔ اگر ہم کسی کا درس مقابل بیٹھ کرسنتے ہیں تو استاد کی موجودگی سے جو فیضان حاصل ہوتا ہے وہ کسی کتاب کے پڑھنے سے نہیں ہوتا۔ گو کہ کتاب کو یقیناً کسی نے تصنیف کیا۔ ہمیں یہی بات اپنی روزمرہ کی زندگی میں بھی سچ لگتی ہے۔ مثلاً، جب ہم کسی موسیقی کی محفل میں شریک ہوتے ہیں تو ہمیں بدرجہا زیادہ لطف آتا ہے بہ نسبت اس کے جب ہم گھر پر اُسی موسیقی کو سی ڈی پر سنتے ہیں۔ یہ بڑا مختلف تجربہ ہوتا ہے۔
جب ہم درس سنتے ہیں تو بہترین ہدایات میں سے ایک یہ ہوتی ہے کہ "تین غلطیوں کو، مٹی کے برتن کی مثال استعمال کرتے ہوۓ، دور کردیں":
- پہلی بات یہ کہ ہم الٹے برتن کی حالت والی غلطی نہ کریں، جس میں کچھ نہیں ڈالاجاسکتا۔ بالفاظ دیگر، اگر ہم نے اپنے من کے دریچے بند کرلئے ہوں تو جو ہم سنیں اس سے کچھ سیکھ نہیں سکتے۔
- دوسری بات، ہم ایسے برتن کی طرح نہ ہوں جس کے پیندے میں سوراخ ہے۔ اس صورت میں، جو بھی ڈالا جائے گا وہ سوراخ سے نکل آئے گا۔ انگریزی میں کہتے ہیں "ایک کان سے سنو اور دوسرے سے نکال دو"۔ ہمیں اِس سے احتراز کرنے کی ضرورت ہے۔
- اور آخری بات، ہمیں گندے برتن جیسا ہونے کی غلطی نہیں کرنی چاہئے۔ جب آپ اس میں صاف پانی ڈالیں گے تو وہ بھی گدلا ہوجائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، اگر ہمارے کئی پہلے سے قائم شدہ نظریات ہوں، تو وہ نئے مواد کو بھی گدلا کردیں گے۔ مدرس جو کہہ رہا ہے اسے غور سے سننے کے بجائے ہم ہمیشہ اپنے خیالات کو نئے مواد کے ساتھ گڈمڈ کرنے لگتے ہیں۔
ان غلطیوں سے بچنے کے لئے، جب ہم کچھ اسباق سنیں تو بہترہوگا کہ ہم انہیں لکھ لیں یا کسی طرح محفوظ کرلیں تاکہ جو ہم نے سنا ہے اسے صحیح صحیح یاد رکھ سکیں۔ یہ زیادہ مددگار ہوتا ہے جب ہماری یادداشت کامل نہ ہو – جیسے ہم میں سے بہتوں کی نہیں ہوتی۔ جو سنا ہے اسے لکھنے میں ہم جتنی تاخیر کریں گے، ہمارے پہلے سے موجود نظریات اتنا ہی ہماری یادداشت کو گڈمڈ کردیں گے۔ اور لکھ لینے یا محفوظ کرلینے کے بعد بھی ہمیں چاہئے کہ ہم اسے بار بار سنیں۔ ان اسباق کو کسی نوٹ بک میں لکھ کر طاق میں رکھ دینا، یا کمپیوٹر فائل یا آئی پاڈ میں محفوظ کرلینا کافی نہیں ہوتا!
ساکیہ ماسٹر سونم- سیمو نے کہا ہے کہ دھرم کی عادت میں داخل ہونے کے لئے:
- اولاً ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمیں مسائل اور پریشانیاں ہیں؛
- پھر ہمیں خواہش ہونی چاہئے کہ ہم اس دکھ بھری حالت سے باہر نکلیں؛
- بالآخر، ان مشکلات سے باہر آنے کے لئے ہمیں دھرم میں دلچسپی لینی ہوگی۔
جب ہم نووارِد ہوتے ہیں، تو چاہئے کہ اپنا ذہن کھلا رکھیں ، اور جو کچھ سیکھا ہے اسے یاد رکھیں؛ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم کسی دھارمک تعلیم کو، اِس دلچسپی اور ارادہ کے ساتھ سنیں کہ جو سنا ہے اس کی جانچ پڑتال کریں گے۔ ہم یہ معلوم کرنے کے لئے اسے تولنا چاہتے ہیں کہ پتہ کریں آیا جو ہم نے سنا ہے، اگر ہم اس پر عمل کریں تو، وہ ہماری ذاتی مشکلات پر قابو پانے میں معاون ہوگا یا نہیں۔ ہم بدھ متی تعلیمات کو اس لئے حاصل نہیں کررہے ہیں کہ مدرسہ میں کسی امتحان میں کامیابی حاصل کریں یا اپنے تبحُرّ علمی کی دھاک اوروں پر جمائیں۔ ہم ان تعلیمات کو اس لئے سنتے ہیں کہ دیکھیں ان میں کچھ ایسی باتیں ہیں جو ہماری ذات سے متعلق اور ہمارے لئے فائدہ مند ہیں۔
تعلیمات کو سنتے وقت کئی طریقے ہیں جن سے ہم اپنے آپ اور صورتحال پر غائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ اس طریقہ میں جسے "تین شناختیں" کہا جاتا ہے، ہم اپنے آپ کو مردِ بیمار تسلیم کرتے ہیں، استاد کو معالج، اور تعلیمات کو طِب، جو مختلف امراض یا مسائل پر قابو پانے میں مدد کرسکتی ہیں – امراض وہ جو ہمارے پریشان کن جذبات ہیں۔
جوں جوں ہم اپنی مشق میں مہارت حاصل کرتے ہیں تو استاد کے بارے میں بہت ساری مزید ہدایات موجود ہیں، جیسے استاد کومہاتما بدھ ماننا وغیرہ؛ مگر یہ تعلیمات نوآموز کے لئے نہیں ہیں۔
جو سنا ہے، اس کے بارے میں غور کرنا
دوسرا قدم یہ ہے کہ جو کچھ سنا ہے، اس پر غور کریں۔ ہم غور کرتے ہیں کہ ان کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ جب ہم صحیح طور پر سمجھ لیں کہ ان تعلیمات کا مطلب کیا ہے تو ہم طریقہ فکر کی آخری منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ نہ صرف ہمیں ان تعلیمات کو صحیح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان پر صحیح طور پر عمل پیرا ہوسکیں، بلکہ اس لئے بھی کہ ہم مطمئن ہوجائیں کہ یہ تعلیمات قابلِ قدر ہیں اور یہی ہیں جنہیں ہمیں اختیار کرنا ہے کیونکہ بعض مسائل پر قابو پانے میں یہ ہماری مدد کرسکتی ہیں۔ ہمیں یہ اطمینان بھی ہونا چاہئے کہ یہ تعلیمات جو کچھ سکھارہی ہیں ہم واقعی انہیں حاصل بھی کرسکتے ہیں۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے – کہ ہم اپنے غصہ پر کبھی قابو نہ پاسکیں گے، مثال کے طور پر – تو آخر اس راستہ پر جانے کی ضرورت کیا ہے جو غصہ پر قابو پانے کے لئے ہے؟ ہمیں اطمینانِ کامل چاہئے کہ یہ راستہ معلنہ مقصد کے حصول کی طرف لیجائے گا۔
جب ہم کسی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم مختلف پہلووں سے اس پر غور کرتے ہیں۔ مثلاً، اگر ہم ہر ایک سے یکساں محبت پیدا کرنے کے مراقبہ کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں ان سارے اقدامات سے واقف ہونا چاہئے جو اس طرح کی محبت پیدا کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ مثلاً، سب سے یکساں محبت کا انحصار کس پر ہے؟ یہ منحصر ہے اس بات پر کہ ہم سب کو مساوی درجہ دیں، اور مانیں کہ سب ہمارے ہمدرد ہیں، وغیرہ۔ اپنے من میں ایسی عالمی محبت پیدا کرنے کے لئے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ محبت کا انحصار کس پر ہے، اور اس محبت کو اپنے دل میں جگہ دینے کے لئے پہلے ہی سے کس طرح کی بصیرت اور کیفیتِ من اپنے میں پیدا کرنی ہوگی۔
مزید، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ محبت کے مخالف محرکات کیا ہیں جن کا علاج محبت کرتی ہے۔ خاص طور پر، ہمیں یقین ہونا چاہئے کہ محبت کے مخالف محرکات غصہ اور نفرت ہیں، اور یہ بھی اطمینان ہونا چاہئے کہ محبت ان محرکات پر قابو پا سکتی ہے اور ان سے نجات دلاسکتی ہے۔ ہمیں یہ ادراک بھی ہونا چاہئے کہ محبت کس طرح ان سے نجات دلاسکتی ہے۔
مزید، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ محبت پیدا کرنے کا مقصد کیا ہے، اور ایک دفعہ وہ پیدا ہوجائے تو ہم اس محبت سے کیا کام لے سکتے ہیں، اس کا مطلب ہے محبت کے فوائد کیا ہیں۔ مثلاً، جب ہم ان مختلف تحریروں کو دیکھتے ہیں جو بودھیچت نصب العین سکھاتی ہیں – محدود ہستیوں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر صرف اپنے مستقبل کی روشن ضمیری کے حصول کا مقصد – وہ عموماً بودھیچت نصب العین کے فوائد بیان کرنے سے شروع کرتے ہیں۔ اس طرح شروع کرنے سے ان تحریروں کا مقصد ہمیں یہ اطمینان دلانا ہے کہ ہم زندگی میں ایسا ہی نصب العین پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
بالآخر، ہمیں ان تعلیمات کی منطق پر بھی مطمئن ہونا چاہئے۔ انہیں منطقی اورمعقول ہونا چاہئے، اور اپنے درجات و تفصیلات میں ان کی بات قابلِ فہم ہونی چاہئے ۔
بہت سی چیزیں ہیں جن پر ہمیں غور کرنا ہے۔ کچھ سمجھے بغیر کہ پہلے ہمیں کیا کرنا ہے، اور یہ جانے بغیر کہ کس طرح ہمیں مسائل سے نجات مل سکتی ہے، اور کن مخالف محرکات پر ہمیں نظر رکھنی چاہیئے، مراقبہ کے عمل پر چھلانگ لگا دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ اس کی مثال یوں ہے: "سننا ایسے ہی ہے جیسے منہ میں غذا رکھنا، اور غور کرنا ایسے ہی ہے جیسے اس غذا کا چبانا"۔ اگر ہم چبائے بغیر نگل لینا چاہیں تو دم گُھٹ سکتا ہے۔ اسی طرح، تعلیمات پر غور کئے بنا اگر ہم مراقبہ شروع کردیں تو مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
ٹھیک کس طرح ہم یہ غور کرنے کا طریقہ سرانجام کرسکتے ہیں؟ تدبر کا مرحلہ یا تو، ان سارے نکات پر غور کرنا جن کا میں نے ذکر کیا ہے، آزادانہ (غیر رسمی) طرز کا ہوسکتا ہے، یا پھر وہ سب کرلینے کے بعد رسمی عمل بھی ہوسکتا ہے۔
تدبر کا رسمی عمل
تدبر کے رسمی عمل کا مطلب ہے کہ استدلالی انداز اختیار کیا جائے۔ جب ہم ایک خاص ذہنی حالت کو پہنچنا چاہیں، تو تکملہ کے سارے مراحل بھی طے کرنے پڑیں گے۔ قدم بہ قدم یہ مدارج طے کرنے ہونگے۔ اور یہ اقدامات دلائل پر مبنی رکھنے ہونگے۔ مثلاً، تعلیمات میں ایک استدلال شامل ہوسکتا ہے جو ناپائیداری کا مطلب سمجھائے (کہ چیزیں لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے اسباب و علل سے متاثر ہوتی ہیں، اور ختم ہوجاتی ہیں)۔ یا ان میں یہ استدلال شامل ہوسکتا ہے جو خالی پن کا مطلب سمجھائے (کھوکھلی زندگی گذارنا بےمعنی ہے)۔ منطقی استدلال پر سوچنے اور عمل پیرا ہونے سے ہم نہ صرف قائل ہوتے ہیں کہ ناپائیداری اور خالی پن معقول ہیں بلکہ یہ استدلال معقول طریقہ پر ثابت کرتا ہے کہ ناپائیداری اور خالی پن سچ ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہم اس بات کے بھی قائل ہوتے ہیں کہ استدلال کی منطق کے ذریعہ ہم ایک ناپائیداری اور خالی پن کا ٹھیک اور فیصلہ کُن ادراک بھی پیدا کرسکتے ہیں۔ یاد رکھئے: قائل ہونا سوچ کے عمل ہی کا ایک جز ہے۔
دوسری طرف، ہم من کی ایک سطح تک پہنچح تو سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ کسی استدلال کی بنا پر، بلکہ مدارج کے ذریعہ۔ مثال کے طور پر، اگر ہم بودھیچت نصب العین پیدا کرنا چاہیں، ہم کچھ مدارج سے گذریں گے جیسے قلبِ صفا پیدا کریں اور ہر ایک کو ایسے دیکھنا شروع کریں جیسے وہ کسی پچھلی زندگی میں ہماری ماں رہی ہوں، مادری محبت کی رحمدلی کو یاد کریں، اس پر احسان شناسی محسوس کریں، وغیرہ۔ ہم ان مدارج سے گذرتے ہیں تاکہ ہم قائل ہوجائیں کہ ان زینوں سے گذرتے ہوئے ہم اپنے بودھیچت نصب العین کی منزلِ مقصود تک پہنچ پائیں۔ یہ ابھی غور و فکر کی راہ کا حصہ ہے۔
ہمیں یہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ، اس غور و فکر کی راہ میں، وہ کونسی من کی حالت ہے جس کی ہم آبیاری کررہے ہیں۔ کچھ مراقبہ جات کا مقصد کسی شے، جیسے خیالی مہاتما بدھ، پر اپنے کو مرتکز کرنا ہے۔ اس طرح کسی خیالی مہاتما بدھ پر مراقبہ کرتے وقت ہمیں آگاہ ہونا چایئے کہ یہ وہ مراقبہ ہے جس کا مقصد کسی ایسی خاص شے پر توجہ مرکوز کرنا ہے جو مہاتما بدھ کا ہی چھوٹا اور سہ ابعادی زندہ نوری جسم ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔
دوسری طرف، مختلف النوع مراقبہ جات ہیں جن کا مقصد من کی ایک خاص کیفیت، جیسے عشق، پیدا کرنا ہے۔ عشق کوئی شے نہیں جس پر ہم توجہ مرکوز کرتے ہیں بلکہ ایک من کی کیفیت یا من کا رویہ ہے جسے ہم پیدا کرتے ہیں۔ تو ہمیں واقف ہونا چاہئے کہ کس نوع کے مراقبہ پر ہم کام کررہے ہیں: کسی شے مخصوص پر یا من کی کسی کیفیت پر؟ ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
دونوں صورتوں میں، زانگ کھاپا نے زور دیا ہے کہ ہمیں دو باتوں کی جانکاری ہونی چاہئے:
- اول، ہم پر یہ واضح ہونا چاہئے وہ شے کیا ہے جو ہمارے من کے پردہ پر آشکار ہونی چاہئے، آیا ہم اس مراقبہ کی بات کررہے ہیں جو کسی خیالی مہاتما بدھ پر ہے، یا عشق کے مراقبہ پر۔ وہ کیا بات ہے جس پر مراقبہ کیا جارہا ہے؟
- دوم، ہمیں اس بات سے بھی آگاہ ہونا چاہئے کہ من اس شے کو کس طرح جانتا ہے، کیسے شناخت کرتا ہے۔
اگر ہم پر یہ دونوں باتیں مکمل واضح نہیں ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم من کی وہ کیفیت پیدا کریں جو ہم چاہتے ہیں؟
مثلاً، درد مندی: درد مندی کا رخ کدھر ہے؟ ظاہر ہونے والی شے کونسی ہے؟ درد مندی پر مراقبہ کرتے وقت جو شے پردہ ذہن پر ابھرتی ہے وہ ذی شعور ہستیاں ہیں، تکلیف میں مبتلا کمزور ہستیاں ہیں۔ ہمارا من ان کے بارے میں سوچتا ہے تو ان کی زندگی کے ایک خاص پہلو کی طرف نظر جاتی ہے، یعنی ان کی تکلیف اور اسکی وجوہات۔ ان باتوں کو من کیسے سمجھتا ہے؟ یہ کہ ہم اُن کو اِن تکالیف اور تکالیف کی وجوہات سے کیسے دور رکھیں، اور ہم اس سلسلہ میں خود کیا کرسکتے ہیں۔ اِس طرح اُن ہدایات کے ذریعہ، جو ہم نے سُنی یا پڑھی ہیں، ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ من کی جس کیفیت کو پیدا کرنا چاہتے ہیں اسے اچھی طرح سمجھیں۔
اگر ہم بودھی چت پر مراقبہ کرنا چاہیں، ہمیں سوچنا چاہئےاور اچھی طرح واقف ہونا چاہئے کہ ہمارے من ان مراقبات میں کیا کرتے ہیں۔ اکثر لوگ بودھی چت اور درد مندی کو خلط ملط کرتے ہیں، لیکن دونوں ایک نہیں۔ بودھی چت من کی ایک ایسی کیفیت ہے جس کی اساس درد مندی پر ہے، لیکن درد مندی سے، کہ دوسروں کو تکلیف اور اسکی وجوہات سے آزاد دیکھیں، بودھی چت بہت آگے جاتا ہے۔ وہ کمزور انسانوں کو روشن ضمیری کی طرف لیجانے اور اس ذمہ داری کے اٹھانے کی خواہش سے کہیں آگے لیجاتا ہے۔ لیکن یہ نیک خواہشات اور احساسات وہ مثبت جذبات ہیں جن پر بودھی چت انحصار کرتا ہے اور ان سے نشو و نما حاصل کرتا ہے۔ ہمیں پہلے محبت اور درد مندی کی یہ بنیاد فراہم کرنی چاہئے۔
جب ہم بودھی چت پر مراقبہ کرنے کے لئے اپنی گدیوں پر بیٹھ جاتے ہیں تو اپنی توجہ کس پر مرکوز کرتے ہیں؟ ہم اپنی ہی روشن ضمیری کی طرف رخ پھیرتے ہیں، جو ابھی واقع تو نہیں ہوئی لیکن جس کا، بدھ متی فطرت کے عوامل کی بنیاد پر اور اس روشن ضمیری کے حصول کیلئے جد و جہد کی بنیاد پر، قوی امکان ہے ۔ ہماری بدھ متی فطرت کے عوامل وہ نمایاں خصوصیات ہیں جو ہم میں ودیعت ہیں اور ہمیں مہاتما بدھ بننے میں معاون ہیں، جیسے ہمارے من کی خالص فطرت۔ نہ ہم مہاتما بدھ شکیہ مُنی کی روشن ضمیری پر مرتکز ہوتے ہیں، اور نہ ہم عمومی نوعیت کی مطلق روشن ضمیری پر، بلکہ اپنی انفرادی روشن ضمیری پر کرتے ہیں جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئی۔
ہم غیر وقوع شدہ روشن ضمیری پر کیسے توجہ مرکوز کرتے ہیں؟ یہ بالکل آسان نہیں ہے۔ سب سے پہلے، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس کا مطلب کیا ہے اور یہ کس قسم کا مظہر ہے – ایک غیر وقوع شدہ مظہر یا شے۔ مثلاً، ہمیں غور کرنا چاہئے: کیا غیر وقوع شدہ کونپل بیج میں پہلے سے موجود ہے اور منتظر ہے کہ اس میں سے نکل پڑے؟ یا وہ کونپل بیج میں موجود ہی نہیں ہے؟
واضح طور پر، یہاں خالی پن کا ادراک ضروری ہے، اس بات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے کہ جب ہم اپنی غیر وقوع شدہ روشن ضمیری پر مرتکز ہورہے ہوتے ہیں تو دراصل کس پر ہماری توجہ مرکوز ہے۔ ہماری غیر وقوع شدہ روشن ضمیری کسی مقام پر مقیم نہیں ہے جیسے کسی دوڑ کی اختتامی لکیر جس کی جانب ہم بڑھ رہے ہیں۔ اور نہ یہ ہمارے من میں یا ہماری بدھ متی فطرت میں اس انتظار میں کہیں چپکی ہوئی ہے کہ یکایک نکل پڑے۔ یہ اس طرح کی کوئی شے نہیں جس کا پتہ ہو۔ دوسری طرف، ہم کسی ایسی چیز پر بھی مرتکز نہیں ہورہے ہیں جو معدوم ہو۔ بلکہ، ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہماری غیر وقوع شدہ روشن ضمیری ایسی بات ہے جو بدھ متی فطرت کے عوامل کی بنیاد پر ہمارے ذہنی تسلسل کو، بوجوہ، منسلک کرتی ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بات کا کسی مناسب بنیاد پر، بوجوہ، منسلک ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔
اس غیر وقوع شدہ روشن ضمیری پر مرتکز ہونے کے لئے ہمیں اُس پر مرتکز ہونا چاہئے جس میں روشن ضمیری کا ایک خیالی نقشہ ہمارے ذہنوں میں ابھرتا ہے۔ مثلاً، ہم "روشن ضمیری" کے لفظ کی آواز پر غور کرسکتے ہیں، یا مہاتما بدھ کو اپنے سامنے تصور کرسکتے ہیں۔ تانترا میں، ہم اپنے آپ کو مہاتما بدھ کے روپ میں تصور کرسکتے ہیں۔ اِن مثالوں میں سے ہر ایک میں، خیالی آواز اور خیالی تصویر کو، جو ہمارے ذہن میں ابھرتی ہے، اپنی غیر وقوع شدہ روشن ضمیری کا مظہر سمجھیں۔
پھر، اس خیالی شے پر کس طرح ہمارے من اپنی توجہ مرکوز کرتے ہِیں؟ ہم دو مقاصد کے ساتھ غیر وقوع شدہ روشن ضمیری، جس کی نمائندہ وہ خیالی مظہر ہے جو ہمارے ذہنوں پر ابھرتا ہے، پر مرتکز ہوتے ہیں۔ پہلا مقصد تو یہ ہے "میں روشن ضمیری حاصل کرکے ہی رہوں گا"۔ اس ارادہ کا انحصار کئی چیزوں پر ہے، جن پر ہم نے غور کیا اور سمجھا ہو۔ ہمیں حقیقتاً پتہ ہونا چاہئے کہ روشن ضمیری کے حصول کے لئے کیا کرنا ہے۔ ہمارا رویہ یونہی اتفاقی نہیں ہوسکتا: "اوہ، میں اسے حاصل کروں گا"۔ ہمیں واقف ہونا چاہئے کہ کس طرح اسے حاصل کیاجائے ، اور پر یقین ہوں کہ واقعی اسے حاصل کرسکتے ہیں۔ روشن ضمیری کی کیفیت کے حصول کے لئے ہمارا ارادہ بھی معقول ہونا چاہئے؛ ورنہ اس کا حصول محض ایک خام خیالی ہوگی۔ اور یقیناً، ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ روشن ضمیری ہے کیا، کیونکہ اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ یہ ساری سمجھداری، اس طریقہ کار کے دوسرے قدم پر آتی ہے: تدبر۔
اِس خیالی مظہر پر مرتکز ہوتے وقت ہمارا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اُس روشن ضمیری کے ذریعہ ممکنہ حد تک دوسروں کو فائدہ پہنچائیں گے۔ بایں ہمہ، روشن ضمیری کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کوئی قادرِ مطلق خدا بن جائیں۔ اور ہر ایک کی مدد کا قابل ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم پہلے سے ہی وہ سارے قدم اٹھالیں جن پر بودھی چت منحصر ہے، یعنی محبت اور درد مندی۔ ہم دوسروں کو بھی روشن ضمیری کی طرف لانے کی ذمہ داری لیتے ہیں، کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بھی ساری مصیبتوں سے نجات ملے اور ساری مسرتوں سے ہمکنار ہوں۔
تدبر کا یہ قدم کافی طویل ہے، اور کافی محنت طلب ہے۔ لیکن اس قدم کی تکمیل پر، ہم ٹھیک ٹھیک پورے یقین کے ساتھ سمجھتے اور جانتے ہیں، کہ وہ کونسی من کی کیفیت ہے جس کے حصول کی ہم کوشش کررہے ہیں اور کیسے اس منزل کی طرف پہنچ سکتے ہیں۔ ہم پوری طرح مطمئن ہوتے ہیں کہ ہم وہ من کی کیفیت اُبھارنے کے قابل ہیں اور اس کا ابھارنا بڑا سودمند ہے۔
یہ غور و فکر کا طریقہ مراقبہ کی طرح نظر تو آتا ہے، لیکن یہ مراقبہ کی روائیتی تعریف نہیں۔ مغربی لوگ، جو اِس اصطلاح کا بالکل درست استعمال نہیں کرتے، اس غور و فکر کے طریقے کو "مراقبہ" کا نام دے سکتے ہیں لیکن یہ ٹھیک نہیں۔ ہم پر غور و فکر اور مراقبہ کا فرق واضح ہونا چاہئے۔
یہ طریقہ تدبر ایک قابلِ قدر مصروفیت ہے، اور تعلیمات پر غور کرنے کا کام ہم کسی وقت بھی کرسکتے ہیں۔ در حقیقت، یہ بہت سودمند ہے جب ہم اپنی روزمرہ زندگی کی دوسری مصروفیات میں الجھے ہوئے ہوں۔ مثلاً، جب ہم (گاڑیوں کی) بھیڑ میں پھنس جائیں، تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ ایک مخصوص من کی کیفیت، جیسے محبت، کیسے اس موقع پر منطبق ہوسکتی ہے؟ اس کی کیا اہمیت ہوسکتی ہے؟ اس کے کیا فائدے ہیں؟ وغیرہ۔ یہ وہ نکات ہیں جن پر ہم دن بھر غور کرتے رہ سکتے ہیں۔
مراقبہ
اب ہم سہ قدم طریقہ کے تیسرے اقدام کی طرف آتے ہیں: مراقبہ۔ مراقبہ ایسے ہی ہے جیسے ہم کھانا چبانے کے بعد ہضم کر رہے ہوں۔ مراقبہ کا مقصد ایک خاص مثبت من کی کیفیت کو عادت بنالینا ہے اور اسی میں ضم ہوجانا ہے ، جس کیفیت کو ہم نے ایکبار سوچا اور سمجھ لیا ہے اور مطمئن ہیں کہ اسے پیدا کرسکتے ہیں۔
مراقبہ ایک دوہرا طریقہ کار ہے۔ پہلے قدم کے لئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے اس کا ترجمہ میں "امتیازی مراقبہ" کرتا ہوں۔ ویسے عام ترجمہ "تجزیاتی مراقبہ" ہوتا ہے۔ لیکن اسے "تجزیاتی" کہنے میں غور و فکر کے اقدام سے خلطِ مبحث ہوسکتا ہے۔ میری نظر میں "امتیازی" زیادہ بہتر ترجمہ ہے۔ اس سلسلہ میں "امتیاز" کا مطلب ہے جانچ پڑتال کرنا اور اسے خاص انداز میں سمجھنا۔ مراقبہ کا دوسرا پہلو ارتکازی مراقبہ ہے، جس میں ہم مطلوبہ من کی کیفیت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں۔ اس دوسرے پہلو کو ہم "استحکامی مراقبہ" کہہ سکتے ہیں۔
ہم پہلا قدم "امتیازی مراقبہ" کیسے اٹھاسکتے ہیں؟ غور و فکر کے عمل میں، ہم نے استدلالی انداز میں سوچا، یا ہم ان سارے مدارج و اقدامات سے گذرے جو ہمیں من کی ایک مخصوص کیفیت کی طرف لیجاتے ہیں۔ یہ ہم نے اس مقصد سے کیا کہ ہمیں ادراک ہو، وہ کیا من کی کیفیت ہے جو ہم پیدا کرنا چاہتے ہیں اور کسطرح ہم یہ پیدا کرسکتے ہیں۔ امتیازی مراقبہ میں، ہم ایک بار اور انہی استدلالی خطوط سے گذرتے ہیں، یا انہی مدارج سے گذرتے ہیں جو مخصوص من کی کیفیت پیدا کرے۔ لیکن اب ہم اس طرز کو اختیار کرتے ہیں جو ہمارے لئے عملاً وہ من کی کیفیت پیدا کرے اور اسے ہمارے اندرون میں تازہ رکھے۔ مثلاً، ہر ایک سے درد مندی پیدا کرنے کے لئے ہم یہ دلیل رکھتے ہیں کہ "ہر ایک میری ماں (کی طرح) رہ چکا ہے، ہر ایک مجھ پر مہربان رہا ہے ..." وغیرہ، تاکہ ہم واقعی اپنے آپ کو اس مطلوبہ ذہنی کیفیت تک لیجاسکیں اور اس کو محسوس بھی کرسکیں۔
ایک دفعہ جب ہم اس تدریجی عمل سے گذرچکیں، تب ہم اپنے نقطہ ماسکہ کو ارادتاً تمیز کرتے اور سمجھتے ہیں۔ اگر ہم درد مندی پر مراقبہ کر رہے ہوں، مثال کے طور پر، ہم ساری بےکس ہستیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور خصوصاً ان کی جانچ پڑتال کی تفصیل میں جاتے ہیں: ان کے مسائل اور مشکلات۔ ہم جانچتے ہیں کہ وہ پریشان حال ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ نہ صرف انہیں اپنی پریشانیوں سے نجات ملے بلکہ وہ خود اپنی مدد آپ کرنے کے قابل ہوسکیں۔ ہم ذی شعور ہستیوں کو اپنے من میں دیکھتے ہیں، ہم اپنے من میں اُن کو اِسی طرح دیکھتے ہیں، یا حقیقی زندگی میں افراد سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ درد مندی کا مرکوز غیر لوگ اور ان کی پریشانیاں ہیں، اس خواہش کے ساتھ کہ ان کی یہ سب پریشانیاں ختم ہوجائیں۔
ہم عملاً اس روش پر کچھ عرصہ ہی تک قائم رہتے ہیں۔ اور پھر مستحکم مراقبہ وہ ہوتا ہے جس میں جو کچھ ہم نے امتیاز کرنا سیکھا ہے وہ ہمارے دل و دماغ میں اتر جاۓ، اس موضوع یا من کی کیفیت پر پورے انہماک کے ساتھ ۔ یقیناً، جب ہم امتیازی مراقبہ کررہے ہوں تو ہمیں مکمل انہماک چاہئے، لیکن اس مستحکم دور میں ہم ان احساسات کو دل کی گہرائی تک جاگزیں کرلیتے ہیں، ہم درد مندی سے سرشار ہوتے ہیں۔
ہم باری باری سے ان ادوار سے گذرتے ہیں ، امتیاز اور استحکام، اور بالآخر ہم دونوں کو مجتمع کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ مراقبہ کے ان دو ادوار کا مجمتمع کرنا بڑا دشوار ہے۔ وہ طریقہ جس سے ہم ان دونوں کو مجتمع کرتے ہیں، اس کی بحث بڑی پیچیدہ ہے۔ اگر آپ اس سلسلہ میں کچھ تفصیلات کے خواہشمند ہیں تو میری ویب سائٹ پر اسے پڑھ سکتے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:
اور، جب ہم اعلیٰ درجات تک پہنچتے ہیں، تو ہمیں وہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جسے "مشقتی مراقبہ" کہا جاتا ہے۔مشقتی مراقبہ وہ ہے جس میں امتیازی مراقبہ کے عمل میں مدارج سے گذرنا اور ایک من کی کیفیت پر پہنچنا شامل ہوتا ہے۔ اعلیٰ سطح پر، ہم غیر مشقتی امتیازی مراقبہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ ہم مقصود من کی کیفیت کو ، مدارج یا دلائل کے بغیر،فوری پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم اسی من کی کیفیت کو استعمال کرتے ہیں، تاہم، اپنے نقطہ ماسکہ کو پہچاننے کے لئے من کی اُس کیفیت کو استعمال کرتے ہیں جیسے ہم نے کیا تھا جب ہمارا امتیازی مراقبہ مشقتی تھا۔
مراقبہ کی اقسام
ہم اکثر مراقبہ کی دو اقسام کے بارے میں سنتے ہیں۔ سنسکرت میں انہیں "شماتھ ا" اور " وپاشیانا"، یا تبتی زبان میں " شینے" اور "لھاگ تونگ" کے لفظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ دو اصطلاحات دراصل من کی دو کیفیات سے متعلق ہیں جنہیں ہم مراقبہ کے ذریعہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ شماتھا من کی ایک ساکت اور شانت کیفیت ہے۔ یہ ان معنوں میں ساکت ہے کہ، اس کے ذریعہ ہم نے من کی ہر سطح کی بے کیفی، یا پرواز، یا اضطراب کو پرسکوت کردیا ہے (ایک من جو کسی بھی پسندیدہ شے کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے)۔ چنانچہ زور استقامت بخش مراقبہ پر ہوتا ہے۔
ہم مختلف چیزوں پر توجہ مرکوز کرکے ان ساکت اور شانت من کی کیفیات میں بالیدگی پیدا کرسکتے ہیں، جیسے سانس پر قابو، مہاتما بدھ کا تصور وغیرہ۔ ممکنات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
شماتا مراقبے میں بھی ہمیں ہدایات کو سننے اور پھر مراقبے کی منازل کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہم ایک مہاتما بدھ کا تصور کر رہے ہیں تو ہم اس بارے میں ہدایات سنیں گے کہ کس طرح اس تصور کو بتدریج استوار کیا جاۓ۔ پھر ہم اس پر غور کریں گے کہ پہلے کیا کرنا ہے، پھرکیا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
"وپاشیانا" سے مراد ہے من کی ایک غیر معمولی بصیرت والی حالت جو چیزوں کی غیر معمولی انداز سے فہم و فراست کر سکے۔ پس وپاشیانا مراقبہ امتیازی مراقبہ پر زور دیتا ہے۔ جب ہم وپاشیانا حالت تک پہنچنے کی بات کرتے ہیں تو اس کی صورت یوں ہو سکتی ہے کہ ایک غیر معمولی بصیرت رکھنے والا من جو عدم استقامت اور خالی پن میں تفریق تو کرتا ہے مگر تخصیص نہیں کرتا۔ انوتریوگا تنتر میں، جو کہ تنتر کی اعلیٰ ترین قسم ہے، وپاشیانا جو کہ من کی غیر معمولی بصیرت ہے، کو پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ کسی ننھے سے نقطے یا قطرے کے وجود کو ناک کی نوک پر دھرا تصور کیا جاۓ۔ پھر اس ایک نقطے کے وجود کے تصور کو قائم رکھتے ہوۓ آپ اگلی قطار میں دو، اس سے اگلی میں چار، پھر آٹھ، سولہ، بتیس، وغیرہ وغیرہ نقطوں کا تصور کریں۔ آپ ان سب میں ایک ترتیب قائم رکھیں، اور پھر بتدریج اس تصور کو مٹا دیں۔ اس قسم کا تصور قائم کرنے سے آپ ایک نہائت زیرک، غیر معمولی بصیرت والا من تشکیل دیتے ہیں۔ اگر آپ من کی اس حالت کو نہائت اونچے درجہ تک لیجانا چاہتے ہیں تو کچھ اور مشقیں بھی ہیں جن میں آپ ہر قطرے میں نظام اُلُوہیت کے پورے منڈل کا، جس کی آپ مشق کر رہے ہیں، تصور کرتے ہیں، تمام دیوتاؤں کا ان کی کائنات کے ہمراہ۔ اگر آپ اسے پا لیں تو آپ کا من واقعی ایک غیر معمولی بصیرت والا من ہو گا!
مراقبے کی یہ دو اقسام، شماتھا اور وپاشیانا، بدھ مت کے تمام انداز فکر اور بہت سارے غیر بدھ متی ہندوستانی افکار و انضباط میں پائی جاتی ہیں۔ تیراوادا بدھ متی افکار میں یہ پالی اصطلاحات "سماتھا" اور "وپاسنا" کہلاتی ہیں۔ زین (بدھ مت) میں بھی یہ دونوں ملتی ہیں۔ مثلاً سان بدھ مت میں، جو کہ زین کی کورین شکل ہے، ایک بجھارت ہے: "یہ کیا ہے؟" جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ اس کا کوئی جواب ہے، جیسے:"یہ ایک میز ہے؛ یہ شیشہ ہے،" وغیرہ ۔ دراصل اس طرح ہم من کی ایک "شدید تشکک" والی شکل تشکیل دیتے ہیں – جس کا کام ہے ہر دم حقیقت کو "یہ کیا ہے؟" کے ذریعہ ہدف تنقید بنانا۔ اس طرح ہمارا من غیر معمولی طور پر بصیرت کا حامل ہو جاتا ہے۔
اس بات کے متعلق کہ بیشتر تبتی علما نے زین انداز فکر کا مطالعہ نہیں کیا، وہ اس سے واقف نہیں ہیں، ایک دلچسپ قصہ ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ ایک زین عالم اور کالو رنپوچے کی مشہور ملاقات ہوتی ہے۔ زین ماسٹر نے ایک مالٹا اٹھایا اور کالو رنپوچے کو پوچھا، "یہ کیا ہے؟" کالو رنپوچے نے اپنے مترجم کی جانب سوالیہ انداز میں دیکھا اور کہا،"کیا بات ہے، کیا ان کے ملک میں مالٹے نہیں ہوتے؟"
تو ہمارے ہاں شماتھا ہے اور وپاشیانا ہے۔ شماتھا محض کامل ارتکاز ہی نہیں جو کہ ارتکاز کی نو منازل طے کرنے کے بعد پروان چڑھتا ہے، بلکہ شماتھا میں، کامل ارتکاز کے علاوہ، ایک "فرحت بخش من" بھی ہے۔ "ایک احساس طمانیت"، جو کہ در اصل صحیح اصطلاح ہے۔ تو کامل ارتکاز کے علاوہ ایک احساس طمانیت ہے جو جسمانی اور ذہنی طور پر فرحت بخش ہے۔ "احساس طمانیت" ایک مشاق کھلاڑی کی مانند ہے۔
میرے استاد تسنزاب سرکونگ رنپوچے نے شماتھا کی وضاحت ایک عظیم ا لجثہ ہوائی جہاز کی مثال دے کر یوں کی کہ: اگر تم اسے زمین پر رکھو گے تو یہ ٹکا رہے گا، اور اگر اسے ہوا میں اُڑاؤ گے تو یہ اُڑے گا۔ اس میں یہ احساس نمایاں ہے کہ آپ کسی شے پر بھی کسی مدت کے لئے توجہ مرکوز کر سکتے ہیں۔ نہ جسم تھکے گا نہ ہی من؛ آپ بلکل چوکس محسوس کریں گے؛ اور یہ باعث شادمانی ہے۔ شمانتا من کی ایک نہائت فرحت بخش، پر جوش اور پر مسرت حالت ہے۔ مگر یہ اس قسم کی مسرت نہیں جیسے کسی فلم میں فرط مسرت سے نہال گاتے، ناچتے سڑک پر دوڑتے جانا – یہ ایسے نہیں۔ شماتھا میں من مکمل طور پر ذکی ہوتا ہے جیسے کوئی نہائت ہی مشاق کھلاڑی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ایک وپاشیانا من ایک شماتھا من سے متجاوز ہے۔ شماتھا کی کامل ارتکاز اور اطمینان کی حالت کے علاوہ وپاشیانا اس پر طمانیت کی ایک اور تہ چڑھاتا ہے۔ یہ من کا ایک ایسا احساس ہے جو اسے ہر شے کے ادراک کی صلاحیت بخشتا ہے۔
مراقبے کی ایک اور قسم بھی ہے جسے "طائرانہ نظر مراقبہ" کہا جاتا ہے۔ جب ہم کسی مخصوص مراقبے میں مشغول ہوں تو ہمیں گاہے بگاہے مکمل بدھ متی طریقت کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس امر سے آگاہ رہیں کہ ہمارا تخصیص شدہ موضوع کس طور پوری تصویر کا حصہ ہے، تا کہ ہم کسی ایک موضوع کو ضرورت سے زیادہ اہمیت نہ دیں جبکہ کسی دیگر موضوع کو نظر انداز کر دیں۔ تو طائرانہ نظر مراقبے سے مراد مکمل طریقت کا جائزہ لینا ہے؛ یہ ایک قسم کی نظر ثانی ہے۔
کئی برس پہلے میں ڈاکٹر تنزین چودرک جو کہ تقدس مآب دلائی لامہ کے ذاتی طبیب ہیں، کے ہمراہ ماسکو آیا تھا۔ ہم چرنوبل کے برقناطیسی شعاعوں سے متاثرشدہ مریضوں کے تبتی طب سے علاج پر کام کر رہے تھے۔ ہمارا قیام بڑے نفیس ہوٹلوں میں رہا اور محکمہ صحت کے کارکن سرکاری طور پر ہمیں لئے پھرتے رہے۔ بیشتر اوقات ہم مشہور ہفت طعام روسی دعوتوں پر مدعو ہوتے تھے۔ ڈاکٹر تنزین چودرک نے بیس سال چین کے جنگی جیلوں میں گزارے تھے جس کے بعد وہ رہا ہو کر تبت سے چین آ گیا۔ تو جب سات میں سے پہلا کھانا پیش کیا جاتا، تو خواہ ہم اسے کتنا ہی باز رکھنے کی کوشش کرتے وہ پہلے بھوجن کوہی خوب سیر ہو کر کھاتا۔ ایسے جیسے اگلے پورے ہفتہ کے لئے اسے بس یہی کھانا ملے گا۔ یوں اس کا پیٹ اتنا بھر جاتا کہ وہ بعد میں آنے والے چھہ کھانوں میں سے ذرہ بھر بھی نہ کھا سکتا۔ یہ مثال اس صورت حال کی ہے جس سے ہم طائرانہ نظر مراقبہ کے ذریعہ بچنا چاہتے ہیں۔ ہم ایک جائزہ لیکر ساتوں کھانوں کی فہرست من میں رکھنا چاہتے ہیں تا کہ ہم "بسیار خوری" سے بچیں اور کسی ایک موضوع پر بہت زیادہ مراقبہ نہ کریں۔ یہ ایسے ہی ہوگا کہ پہلا طعام خوب سیر ہو کر کھائیں اور باقی سب کھانوں سے محروم رہیں۔
تو میں ایسے مراقبے کا ذکر کر رہا تھا جس میں ہم من کی ایک خاص حالت پیدا کرتے ہیں۔ مگر بدھ مت میں صرف اسی قسم کا مراقبہ ہی نہیں کیا جاتا۔ مراقبے کی بعض مشقوں میں جیسے کاگیو کے بعض مراقبوں میں جو من کی ماہئیت پر کئے جاتے ہیں یا بعض زین مشقوں میں طریق کار مختلف ہے۔ بجاۓ ایک من کی خاص حالت استوار کرنے کے ہم من کی کسی حالت پر اطمینان کر لیتے ہیں، یہ جاننے کے لئے کہ ہمارے من میں کچھ خصوصیات فطری طور پر موجود ہوتی ہیں مثلاً محبت یا من کا واضح (عیاں) ہونا، اور ہم ان تک رسائی کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جب ہم اس قسم کا مراقبہ بھی کر رہے ہوں تو ہمیں پہلے ہدایات کو سننا اور ان پر غور کرنا چاہئے حتیٰ کہ ہم انہیں سمجھ لیں۔ ہمیں یہ بھی جاننا چاہئے کہ من کی وہ حالت جسے ہم اطمینان بخش پاتے ہیں اس کی بنیاد کس چیز کے حصول پر ہے، اولاً ہمیں کیا کرنا ہے، پھر کیا کرنا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ "اطمینان بخش" مراقبہ اور "رو بہ استوار" مراقبہ، دونوں کا ڈھانچہ ایک جیسا ہے۔
مراقبہ کے لئے سازگار ماحول
مجلس مراقبہ کا ماحول بنانے، جاۓ مراقبہ کی نظم و ترتیب، فرش اور کمرے کی صفائی، اور سجدہ اور چڑھاوا چڑھانے کے قواعد، وغیرہ – سب کے بارے میں تفصیلی ہدایات موجود ہیں جو مراقبہ کے لئے ایک سازگار ماحول بنانے کے لئے نہائت اہم ہیں۔ اگرچہ مراقبہ کے لئے سازگار ماحول اور حالات، خصوصاً ایک موزوں نشست اور پر سکون، صاف ستھرے ماحول کا ہونا ضروری ہے تاہم، یہ لازم نہیں کہ ہم کوئی بڑا لمبا چوڑا انتظام کریں۔ ہمیں اعلیٰ قسم کے سونے کی اشیا، اگر بتیاں، نۓ دور کی موسیقی جو پس منظر میں چل رہی ہو، اور ایسی دوسری اشیا پر بہت سا پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ملاریپا کو یقیناً یہ سب کچھ میسّر نہیں تھا وہ پھر بھی اپنے مراقبہ میں نہائت کامیاب تھا! ہم اپنی جاۓ مراقبہ کو حتی المقدور نفیس بناتے ہیں مگر حد سے تجاوز کر نے اور دکھاوے کی خاطر لمبا چوڑا کچھ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمیں کہیں بھی مراقبہ کرنے کے قابل ہونا چاہئے۔ اگر ہم ریل گاڑی میں سفر پر نکلیں تو ہم یہ نہیں کہتے،"میں ریل گاڑی میں مراقبہ نہیں کر سکتا کیونکہ میرے پاس پانی کے پیالے اور جلانے کو اگربتی نہیں، میں سجدہ نہیں کر سکتا،" وغیرہ۔ ایک بار ہم اگر مراقبہ میں تھوڑی سی مہارت حاصل کر لیں تو ہم کہیں بھی مراقبہ کر سکتے ہیں – ریل گاڑی میں، کہیں بھی، کسی قطار میں کھڑے۔ حتیٰ کہ اپنی روزمرہ زندگی میں، باقاعدہ مراقبوں کے وقفوں کے دوران ہم کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں سے محبت اور دردمندی سے پیش آئیں – یہ ہی تو مراقبہ ہے، ہے نا؟
یاد رکھیں کہ مراقبہ کا بنیادی مقصد تعلیمات کو اپنے اندر سمو لینا ہے – انہیں اپنا حصہ بنا لینا ہے، تا کہ ہم ان کا اطلاق اپنی روزمرہ زندگی میں کر سکیں۔ مگر جب مراقبہ ہماری روزمرہ زندگی سے الگ کوئی چیز بن کے رہ جاتا ہے تو پھر یہ محض تفنّن طبع بن جاتا ہے۔ خصوصاً جب ہمارے مراقبہ میں پُر لطف تنتری تصورات شامل ہو جائیں تو یہ ڈزنی لینڈ کی سیر یا کسی اور خیالی دنیا کی سیر کے مترادف ہوتا ہے جس کا ہماری روزمرہ زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر ہم یہ راہ اختیار کر لیں تو ہم ذہنی عدم استحکام کا شکار ہو جاتے ہیں اور مراقبے کا ہماری روزمرہ زندگی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یاد رہے کہ مراقبہ کا اصل مقصد اسے زندگی میں کام میں لانا ہے۔
اور خواہ ہم کہیں بھی ہوں، جب ہم مراقبہ کریں تو پہلے اپنے مقصد کا تعین کر لیں، پھر اس کا اعادہ کر لیں، اور مکمل ارتکاز کے ساتھ مراقبہ کرنے کی نیت کرلیں۔ اگر ہمارا من بھٹک جاۓ تو اسے واپس لے آئیں۔ اگر ہمیں اونگھ آنے لگے تو اپنے آپ کو بیدار کر لیں۔ اور سب سے آخری بات یہ ہے کہ ہمارے اندر مثبت توانائی موجود ہو۔ اگر ہم اس مثبت توانائی کو جو ہم نے مراقبہ کے ذریعہ پیدا کی ہے مختص نہ کریں تو پھر ہمارے مراقبہ سے صرف ہماری سمساری صورت حال بہتر ہو گی۔ ہمارا مقصد مثبت توانائی کے ذریعہ روشن ضمیری پیدا کرنا ہے، سب کی بھلائی کی خاطر۔
انفرادی اور اجتماعی مراقبہ
بعض لوگ اکیلے مراقبہ کرتے ہیں۔ در حقیقت تبتی لوگ زیادہ تر اکیلے ہی مراقبہ کرتے ہیں؛ وہ اجتماعی شکل میں مراقبہ نہیں کرتے، اگرچہ خانقاہوں میں راہب اور راہبائیں مل کر دعائیں اور صحیفے پڑھتے ہیں۔ مغرب میں ہم نے اجتماعی مراقبہ کی رسم ڈال لی ہے۔ بیشتر لوگوں کے لئے اجتماعی مراقبہ کا سب سے بڑا فائدہ نظم و ضبط ہے۔ اگر ہم اکیلے ہوں تو ہمارے اندر اطمینان سے بیٹھ کر مراقبہ کرنے کا ضبط نہیں ہوتا۔ ہم مقرر کردہ وقت پورا ہونے سے بہت پہلے ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے بر عکس اگر اور لوگ بھی ارد گرد ہوں تو ہم زیادہ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم کم ہلتے جلتے ہیں کیونکہ دوسروں کے سامنے ایسا کرنا شرمندگی کا باعث ہو گا۔
بعض لوگ اجتماعی مراقبہ کو بہت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ اور لوگوں کی موجودگی ان کے مراقبہ میں خلل ڈالتی ہے۔ خاص طور پر جب کوئی کھانسنے لگے یا بے چینی کا اظہار کرے تو وہ اسے بہت برا مانتے ہیں، لہٰذا وہ تنہائی میں مراقبہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ خصوصاً اگر سب مل کر اونچی آواز میں کچھ پڑھ رہے ہیں، اور بعض لوگ عمومی رفتار سے بہت آہستہ پڑھ رہے ہوں تو ہم بہت ناراض اور بیزار ہو جاتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر اس کی رفتار بہت تیز ہو تو بھی ہم ناراض ہوتے ہیں۔
اس بات کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے – انفرادی مراقبہ یا اجتماعی مراقبہ۔ ایک دلچسپ بات میرے مشاہدے میں آئی ہے، وہ یہ کہ جب ہم ایک چھوٹے گروہ یعنی ایک یا دو لوگوں کے ساتھ مراقبہ کر رہے ہوں تو ایسا مراقبہ نہائت کامیاب ہو سکتا ہے خصوصاً اگر آپ کا ان لوگوں سے رشتہ اور تعلق بہت قریبی ہو تو آپ ان سے ایک مطاقبت محسوس کرتے ہیں۔ ایسے جیسے آپ ایک دوسرے کو توانائی بخشتے ہیں۔ اس طرح ان سے مل کر مراقبہ کرنے سے آپ کو بہت توانائی اور روشن خیالی ملتی ہے۔ لیکن اگر ایک چھوٹے گروہ میں مراقبہ کرنے والوں کی توانائی متصادم ہو تواثر الٹا ہوتا ہے: یہ رنجیدگی کا باعث ہوتا ہے اور من کو کُند کر دیتا ہے۔ پس اگر آپ باجماعت مراقبہ کرنے لگے ہیں تو معلوم کر لیں کہ آپ کے ساتھ کون کون ہو گا۔
استقلال کی اہمیت
آخری نصیحت جو کہ نہائت اہم میں سے ایک ہے وہ یہ ہے کہ یہ سمسار کی فطرت ہے کہ یہ اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا یقیناً ہمارا مراقبہ بھی نشیب و فراز کا شکار ہو گا۔ یہ کبھی بھی یک رخ سلسلہ نہیں ہوتا جو دن بدن بہتر ہوتا چلا جاۓ۔ بعض دن ہمارا مراقبہ بہت اچھا ہو گا مگر دوسرے دنوں میں اتنا اچھا نہیں ہو گا۔ بعض دن ہمارا مراقبہ کرنے کو جی چاہتا ہے، بعض دن بالکل نہیں چاہتا۔ یہ عین عمومی اور قدرتی ہے – یہ سمسار کی فطرت ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آپ کی طبیعت کیسی ہی ہو، آپ استقلال کا مظاہرہ کریں اور ثابت قدم رہیں۔ اگر آپ کے دل میں یہ خیال آۓ:" میرا مراقبہ کرنے کو جی نہیں چاہ رہا" – تو پھر کیا ہوا؟ بہر حال مراقبہ کریں۔ تسلسل قائم رکھیں؛ ہر روز مراقبہ کریں خواہ دو یا تین منٹ کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ یہ تسلسل طریقت میں استقامت لانے کے لئے نہائت اہمیت کا حامل ہے۔
مزید یہ کہ مراقبہ کی محفل کو بہت لمبا نہ کھینچیں، خصوصاً شروع شروع میں۔ تین سے پانچ منٹ کافی ہیں۔ وگرنہ آپ کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گا،"یہ سلسلہ کب ختم ہو گا،" اور پھر آپ مراقبہ سے گریز کریں گے۔ اگر آپ اپنا مراقبہ ایسے وقت ختم کریں جب آپ اپنا مراقبہ جاری رکھنا چاہتے ہوں تو پھر واپسی بڑی دلپسند ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کسی شخص سے اس وقت جدا ہوں جب ابھی آپ کا دل بھرا نہ ہو، تو ایسی صورت میں آپ اس شخص کو جلد دوبارہ ملنا چاہیں گے۔ لیکن اگر وہ بہت دیر تک رکے،اسقدر کہ آپ (اس کی موجودگی سے) تنگ آ جائیں اور آپ اس کے چلے جانے کی خواہش کریں، تو آپ اس سے دوبارہ مل کر خوش نہیں ہوں گے۔
اور آخری اہم بات یہ ہے کہ مراقبہ کے دورانیہ کو آہستہ آہستہ بڑھا دیا جاۓ۔ اپنے رویہ میں لچک پیدا کریں – رویہ میں لوچ بہت ضروری ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا: مراقبہ میں ایک دن کا بھی ناغہ نہ کریں۔ باقاعدگی سے مراقبہ کرنے سے آپ کے اندر استحکام، تیقّن اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔ مگر لچک رکھیں: بعض اوقات آپ پورا مراقبہ، جتنا کہ آپ کرنا چاہتے ہیں، کر لیتے ہیں، اور کبھی جب آپ کے پاس وقت کم ہو تو چھوٹا والا مراقبہ کر لیں ۔ بس روزانہ کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ اس معاملہ میں خبطی نہ ہوں اور نہ ہی اپنے آپ پر جبر کریں۔ میرا محبوب زین کوآن ہے: "موت کسی وقت بھی آ سکتی ہے۔ شانت رہو!" آپ کا شکریہ۔