غزنوی اور سلجوق

گندھارا اور شمال مغربی ہندوستان میں غزنوی مہم

محمود غزنوی نے ۱۰۰۸ء میں اپنے شمال کی جانب قاراخانی سلطنت پر جو حملہ کیا تھا، اس میں پسپائی کے بعد، اس نے اپنی حکومت کو قاراخانی انتقام سے بچانے کے لیے جنوبی سغد اور خوارزم میں سلجوق ترکوں کو اپنا حامی بنا لیا۔ سلجوقیوں کا تعلق ایک غلام بنالیے جانے والے ترکیائی قبیلے سے تھا جسے سامانیوں نے دفاعی افواج کے طور پر استعمال کیا تھا اور۹۹۰ء کے بعد کی دہائی میں انہیں اسلام کے دائرے میں شامل کرلیا تھا۔ اپنے وطن کی حصولیابی کے بعد، محمود نے اب پھرسے برصغیر ہندوستان کی طرف اپنی توجہ مبذول کی۔

کئی دہائیاں پہلے ۹۶۹ء میں فاطمیوں (۹۱۰۔۱۱۷۱ء) نے مصر پر فتح پائی تھی اور اسے اپنی تیزی سے پھیلتی ہوئی سلطنت کا مرکز بنا دیا تھا، وہ اپنے اسمٰعیلی فرقے کے پرچم کے تلے پوری مسلم دنیا کو متحد کرنے کی خواہش رکھتے تھے تاکہ اسلامی مسیحا موعود کی آمد کے استقبال کی تیاری کرسکیں، جیسا کہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ بارہویں صدی کے آغاز کے ساتھ ایک الہامی جنگ ہوگی جو دنیا کو ختم کردے گی۔ ﴿اور پھر ان کا ظہور ہوگا﴾ ان کاعلاقہٴ اقتدار شمالی افریقہ سے مغربی ایران تک پھیلا ہوا تھا، اور ایک بڑی بحری طاقت کے طور پر، انہوں نے اپنے اثر اور عقیدے کی توسیع کے لیے دور دراز علاقوں تک اپنے سفیروں اور مشنریوں کو روانہ کیا۔ اسلامی دنیا کی سربراہی کے لیے، وہ سنی عباسیوں کے خاص حریف تھے۔

بنوامیہ کی فتح کے بعد سندھ میں مسلم حکومت کے آثار انتہائی کمزور تھے۔ عباسی خلیفا کے لیے سنی العقیدہ گورنروں کی اطاعت بس برائے نام تھی، جب کہ دراصل وہ مقامی ہندو حکمرانوں کے ساتھ اقتدار میں شریک تھے۔ ایک پرامن بقائے باہمی ﴿کے اصول﴾ کے تحت اسلام بدھ مت، ہندومت اور جین مت کے ساتھ چین سے رہ رہا تھا۔ بہر حال، اسمٰعیلی مشنریوں کو وہاں ان کی باتوں پر کان دھرنے والے کچھ لوگ مل گئے جو سنیوں اور ہندوؤں میں صورت حال کی یکسانیت سے اکتائے ہوئے تھے۔ ۹۵۹ء تک شمالی سندھ میں ملتان کا حکمراں اپنا مذہب بدل کر اسمٰعیلی شیعہ ہوگیا، اور ۹۶۸ء میں ملتان نے اپنے آپ کو عباسیوں کے اقتدار سے آزاد ایک اسمٰعیلی فاطمی تابعدار ریاست کے طور پر مشہور کردیا۔ اسی نقطے پر، عباسیوں کو، جن کے ساتھ ان کے تابعدارغزنوی بھی آگئے تھے، مشرق اور مغرب دوسمتوں سے ان کے فاطمی حریفوں نے گھیر لیا۔ ان کے سروں پر اب ﴿ایک ساتھ﴾ دوطرفہ ﴿دو محاذوں سے﴾ حملے کا خوف منڈلا رہا تھا۔ غزنویوں پر حملہ کرنے کے لیے ملتان کے اسمٰعیلیوں کو صرف غزنوی دشمنوں، یعنی کہ ہندو شاہیوں کے علاقے سے گزرنے کی ضرورت تھی۔

ہر چند کہ اس کے باپ نے شیعی اسلام کی حمایت کی تھی، مگر محمود غزنوی نے سنی اسلام اختیار کیا جو صرف عباسیوں کا ہی نہیں، قاراخانیوں اور سامانیوں کا بھی ممتاز عقیدہ تھا۔ اسلام کی دوسری شکلوں ﴿مسالک﴾ کے لیے اپنی عدم رواداری کے باعث وہ خاصا بدنام ہے۔ ۹۹۸ء میں تخت نشین ہونے اور افغانستان میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے بعد، ۱۰۰۱ء میں اس نے گندھارا اور اڈیانہ کے ہندو شاہیوں پر حملہ کیا اور اپنے باپ کے دشمن جے پال کو شکست دی جسے وہ خود بھی اپنے لیے ایک امکانی ﴿اور قوی﴾ خطرے کے طور پر دیکھتا تھا۔ ہر چند کہ اوڈیانہ ابھی تک بودھی تنتر کا ایک خاص مرکز تھا، یوں کہ راجہ اندربھوتی اور پدم-سمبھاوا، ہندو شاہی حکومت سے پہلے وہیں سے آئے تھے، یہاں بارونق بودھی خانقاہوں کی کمی تھی۔ اس کے برعکس، یہاں کے ہندو مندورں میں دولت بھری پڑی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محمود نےانہیں لوٹا اور برباد کردیا۔

اب جے پال کے جانشین آنند پال ﴿دور:۱۰۰۱۔۱۰۱۱ء﴾ نے ملتان کے ساتھ ایک اتحاد کی تشکیل کرلی۔ لیکن ۱۰۰۵ء تک، محمود نے ان کی مشترکہ فوجوں کو شکست دی اور ملتان کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا، اس طرح مشرق کی طرف سے سنی عباسی دنیا کے تئیں فاطمی اسمٰعیلی خطرے کو بے اثر کردیا۔ محمود نے اپنے سپاہیوں کو ”غازی” کا لقب دیا، یعنی کہ عقیدے کے لیے جنگ کرنے والے، اور اپنی مہم کو ”جہاد” قرار دیا جس کا مقصد اسمٰعیلی شیعوں کی بدعت کے خلاف راسخ العقیدہ سنی رسوم و آداب کا دفاع کرنا تھا۔ اگرچہ ہوسکتا ہے کہ مذہبی جوش اس کی ترغیب کا حصہ رہا ہو، مگر اس سے زیادہ بڑا حصہ، بلاشبہ، اس کی اس خواہش کا رہا ہو گا کہ اسلامی دنیا کے قائدین کے طور پر وہ عباسیوں کے محافظ کی حیثیت سے اپنے آپ کو قائم کرلے۔ اس طرح کے رول کی ادائیگی، عباسیوں کے ایک تابعدار کی شکل میں اس کی اپنی حکومت کو حق بجانب ثابت کردے گی اور اس نے جو لوٹ مار برپا کی تھی اس کی مدد سے کہیں اور بھی فاطمی مخالف عباسیوں کی مہمات کو معاشی تعاون دیا جاسکے گا۔ مثال کے طور پر، قدیم ہندو سوریہ مندر، ملتان کا سورج مندر، برصغیر ہندوستان کا سب سے دولت مند مندر ہونے کی شہرت رکھتا تھا۔ اس کے خزانوں نے اور زیادہ مال و دولت حاصل کرنے کی غرض سے، مزید مشرق کی طرف محمود کے جانے کی پیاس بڑھا دی۔

قاراخانیوں کے خلاف محمود کی ناکام مہم کے بعد، ۱۰۰۸ء میں وہ پھر ہندوستانی برصغیر کو لوٹ آیا، اور آج کے دور کے ہندوستانی پنجاب اور ہماچل پردیش میں آنند پال اور راجپوت حکمرانوں کے مابین ایک اتحاد کو شکست دے دی۔ اس کے بعد محمود نے ناگر کوٹ ﴿موجودہ کانگڑہ﴾ میں ہندوشاہیوں کا غیرمعمولی طور پر بڑا خزانہ ضبط کرلیا اور آئندہ برسوں میں اس علاقے کے مالدار ہندو مندروں اور بودھی خانقاہوں میں لوٹ مار کے ساتھ تباہی مچا دی۔ اس نے جو بودھی خانقاہیں تباہ کیں ان میں، موجودہ دہلی کے جنوب میں واقع متھرا کی خانقاہیں بھی تھیں۔

۱۰۱۰ء میں محمود نے ملتان کی ایک بغاوت کچلی، پھر ۱۰۱۵ء میں یا ۱۰۲۱ء میں ﴿اس کا انحصار قبول کیے جانے والے ماخذ پر ہے﴾، اس نے اگلے ہندو شاہی حکمراں ترلوچن پال ﴿دور:۱۰۱۱۔۱۰۲۱ء﴾ کا پیچھا کیا جو کشمیر کی طرف جانے والے مغربی دامن کوہ میں واقع، لوہارا قلعے کے مقام پر اپنی فوجوں کو مستحکم کر رہا تھا۔ بہر حال، اس قلعے پر قبضہ حاصل کرنے یا کشمیر پر حملہ کرنے میں محمود کو کبھی بھی کامیابی نہ مل سکی۔ یہ بات واضح نہیں ہے کہ کشمیر کے لوہارا شاہی سلسلے (۱۰۰۳۔۱۱۰۱ء) کے ہندو بانی سنگرام راجا ﴿دور: ۱۰۰۳۔۱۰۲۸ء﴾ نے محمود کو شکست دینے میں کتنا مضبوط کردار ادا کیا تھا۔ روایتی بودھی تذکروں کے مطابق ناروپا کے ایک شاگرد، پرجنارکشتا کے ذریعے پڑھے جانے والے بودھی منتروں نے غزنوی فرماں روا کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔

محمود کی فوجوں کی طرف سے ہندوستانی پنجاب اور ہماچل پردیش کی بودھی خانقاہوں کو پہنچا جو بھاری نقصان اس کی وجہ سے بہت سے بودھی پناہ گزینوں نے کہیں اور جا کر پناہ ڈھونڈ لی۔ لیکن، کشمیر کی سمت میں غزنوی سپاہیوں کے حملوں کے ساتھ زیادہ تر پناہ گزیں اپنے آپ کو وہاں محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ لہٰذا، ادھر جانے کے بجائے، پناہ گزینوں کا زبردست ریلا، کانگڑہ سے ہوتے ہوئے ہمالیہ سے آگے تبت میں نگاری کی طرف گیا،۱۰۲۰ء کے بعد کی دہائی میں، وہاں کے راجہ نے ایک قانون کے ذریعے غیرملکیوں پر، اپنے ملک میں تین سال کی مدت سے زیادہ کے لیے، ٹھہرنے پر پابندی عائد کر دی۔

اس تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ برصغیر ہندوستان میں غزنوی جہاد کا رخ اصلاً بودھوں، ہندوؤں یا جینیوں کی طرف نہیں بلکہ ﴿شروع میں﴾ اسمٰعیلیوں کی جانب تھا۔ تاہم، جب ایک مرتبہ محمود نے اپنا مذہبی اور سیاسی مقصد حاصل کرلیا، تو اس کی کامیابی نے اسے مزید علاقے اور خاص طور پر، ان علاقوں میں واقع دولت مند مندورں اوربودھی خانقاہوں سے لوٹ کا مال حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ جیسا کہ تین صدیاں پہلے بنوامیہ کی مہم کے ساتھ ہوچکا تھا، ترکیائی فوجیوں نے ان علاقوں کو پہلے فتح کیا، پھر انہیں اچھی طرح لوٹنے کے بعد مندروں اور خانقاہوں کو مسمار کردیا، لیکن اپنی تمام نئی رعایا پر، اسلام کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ محمود ایک عملی اور حقیقت پسند انسان تھا اور اس نے ان ہندو سپاہیوں کو جنہوں نے مذہب نہیں بدلا تھا، یہاں تک کہ ایک ہندو جنرل کو بھی، آل بوئیہ کے ایران میں، جو شیعہ مسلمان اس سے مزاحم ہوئے، ان کے خلاف استعمال کیا۔ اس کا خاص نشانہ شیعی اور اسمٰعیلی ہی رہے۔

Top