دذوگ چن کی تاریخ

ابتدائیہ

دذوگ چن، یعنی عظیم تکمیل، مہایان نظام کی ایک مشق ہے جو روشن ضمیری کی راہ دکھلاتی ہے اور یہ حقیقت کے ایک نظارہ، مراقبہ کے طریقہ اور سلوک کی راہ پر مشتمل ہے۔ اس کا اولین ذکر نیئنگما اور بون (قبل از بدھ مت) روایات میں ملتا ہے۔

بون کی اپنی تشریح کے مطابق اس کا آغاز وسطی ایشیاء کے ایرانی ثقافتی علاقہ 'تازگ' میں شنراب میوو کے ہاتھ سے ہوا اور اسے ژانگ ژونگ (مغربی تبت) میں گیارہویں صدی قبلِ مسیح میں لایا گیا۔ اس دعوی کو سائنسی طریق سے جانچنے کا کوئی طریقہ نہیں۔ مہاتما بدھ نے چھٹی صدی قبلِ مسیح میں ھندوستان میں زندگی گزاری تھی۔

قبل از نیئنگما بدھ مت اور ژانگ ژونگ رسوم کا وسطی تبت میں تعارف

سن ۶۴۵ ق۔م میں یارلُنگ (وسطی تبت) نے ژانگ ژونگ کو فتح کر لیا۔ یارلنگ شہنشاہ سونگ تسن گامپو کے حرم میں نہ صرف چینی اور نیپالی شاہی خاندانوں سے بیویاں تھیں (جو دونوں اپنے ساتھ کچھ بودھی متون اور مجسمے لائی تھیں) بلکہ ژانگ ژونگ کے شاہی خاندان سے بھی۔ نتیجتاً شاہی دربار نے ژانگ ژونگ (بون) تدفین کی رسومات اور جانوروں کی قربانی کو اختیار کر لیا۔ اگرچہ بون کے مطابق جانوروں کی قربانی تبت کی مقامی رسم تھی نہ کہ بون روایت۔ شہنشاہ نے تبت اور بھوٹان میں تیرہ بودھی معبد بنوائے لیکن کسی خانقاہ کی بنیاد نہ رکھی۔

وسطی تبت میں بدھ مت کی اس قبل از نیئنگما صورت کی تعلیمات دذوگ چن نہ تھیں۔ در حقیقت یہ کہنا مشکل ہے کے بدھ مت کی تعلیمات و روایات کا کیا معیار یہاں متعارف کرایا گیا۔ یہ ژانگ ژونگ رسوم کی مانند یقیناً بہت محدود ہو گا۔

گرو رنپوچے اور نیئنگما دذوگ چن کی ابتدا

اگلی اہم شخصیت، شہنشاہ ٹری سونگ دتسن چینیوں کی جانب ہوشیار اور ژانگ ژونگ کی طرف بیحد محتاط تھی۔ غالباً کیونکہ اس کے چینیوں کے طرفدار والد کو شاہی دربار میں ایک غیر گزیر، قدامت پسند ژانگ ژونگ گروہ نے قتل کر دیا تھا۔ ۷۶۱ء میں اس نے ھندوستانی بودھی بزرگ راہب شنترکشت کو تبت بلا بھیجا۔ اس وقت چیچک کی ایک وبا پھیلی ہوئی تھی۔ دربار میں موجود ژانگ ژونگ گروہ نے شنترکشت کو اس کا سبب ٹھیرایا اور اسے ملک سے نکال دیا۔ پھرراہب کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے شہنشاہ نے سوات (شمال مغربی پاکستان) سے گرو رنپوچے (پدم-سمبھاوا)کو مدعو کیا جنہوں نے ان شیطانوں کا اخراج کیا جو چیچک کی وبا کا باعث تھے۔ تب شہنشاہ نے دوبارہ شنترکشت کو بلا لیا۔

گرو رنپوچے ۷۷۴ء میں دذوگ چن کےمکمل انتقال سے پہلے ہی واپس چلے گئے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ زمانہ ابھی سازگار نہیں تھا، انہوں نے کچھ خالص دذوگ چن متون کو بطور 'مدفون خزانہ متون' کے دفن کر دیا۔

سامیے خانقاہ اور بونپو جلاوطنی

سامیے خانقاہ (تبت کی پہلی خانقاہ بمعہ اولین سات راہب) اس کے کچھ ہی عرصہ بعد تکمیل ہوئی۔ چان روایت (جاپانی میں 'زین') کے چینی، ھندوستانی اور ژانگ ژونگ کے مترجم یہاں مل کر کام کرتے تھے۔ ۷۷۹ء میں بدھ مت بطور سرکاری مذہب رائج ہو گیا، غالباً کیونکہ شہنشاہ ٹری سونگ دتسن کو مملکت کو متحد کرنے کے لیے ژانگ ژونگ ثقافت کا کوئی متبادل درکار تھا۔ شہنشاہ نے ہر راہب کی کفالت کی ذمہ داری تین خاندانوں کے ذمہ لگائی۔

۷۸۱ء میں تبت نے دُن ہوانگ کو فتح کر لیا جو کہ تبت کے شمال مغرب میں شاہراہِ ریشم پر واقع چین کے زیرِ تسلط ایک بودھی نخلستان تھا۔ اس کے باوجود چینی شاہنشاہ اپنا اثر قائم رکھنے کے لیے ۷۸۱ء کے بعد ہر دوسرے سال، دو چینی راہب سامیے خانقاہ بھیجتے رہے۔

شنترکشت چینیوں کی طرف سے خطرہ کی نشاندہی کرتے ہوئے ۷۸۳ء میں وفات پا گئے۔ لیکن یہ نصیحت کر گئے کہ اُن کے چیلے کمالشیلا کو چینیوں کے ساتھ بحث کے لیے بلایا جائے اور اس پر تبتوں نے عمل کیا۔

اُس سے اگلے سال، ۷۸۴ء میں بونپووں (بون کے پیروکاروں) پر بڑے پیمانے پر ظلم وستم ہوئے اور ان کی جلاوطنی کا واقعہ پیش آیا۔ ان میں سے اکثر گلگت (پاکستان) یا یوننان (جنوب مغربی چین) چلے گئے۔ روایتی بون تاریخ کے مطابق اس وقت ایک ژانگ ژونگ، ڈرنپا نامکا نے محض دذوگ چن ہی نہیں بلکہ تمام بون متون کو ان کی حفاظت کی خاطر دفن کر دیا تھا۔

تاریخی اور سیاسی تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جلاوطنی کا سبب یہ شک و شبہ تھا کہ کہیں غیر گزیر، قدامت پسند ژانگ ژونگ گروہ، شہنشاہ کو اپنے والد کی طرح ھندوستانیوں کی طرفداری کی بنا پر قتل نہ کر دیں۔ مزید از آں، اس وقت ریاست نے بون رسومِ تدفین اور قربانیوں کو جاری رکھاجس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ستم بون مذہب کے خلاف نہیں تھا بلکہ ژانگ ژونگ سیاسی گروہ کے خلاف تھا۔

اسی وجہ سے کئی مغربی علماء کا کہنا ہے کہ اس دور میں 'بونپو' (یعنی بون کے پیرو)، ایک سیاسی اصطلاح تھی نہ کہ مذہبی۔ اس سے مراد شاہی دربار میں ژانگ ژونگ سیاسی گروہ اور اس کے پیروکار تھے نہ کہ دربار میں ژانگ ژونگ مذہبی رسوم ادا کرنے والے روحانی رہنما اور اُن کے پیرو۔

وائروچان ، وِمالمترا اور سامیے مباحثہ

شہنشاہ ٹری سونگ دتسن نے وائروچان، سامیے خانقاہ کے سات ابتدائی تبتی راہبوں میں سے ایک،کو مزید متون لانے کے لیے ھندوستان بھیجا۔ وہ وہاں سے دذوگ چن اور بودھی طبی متون لایا اور ساتھ ہی اس نے ھندوستانی دذوگ چن استاد ومالمترا کو مدعو کیا جو اپنے ساتھ مزید متون لائے۔

سامیے مباحثہ ۷۹۲ تا ۷۹۴ عیسوی میں چینی اور ھندوستانی بدھ مت کے درمیان ہوا۔ ھندوستانی گروہ کمالشیلا کی سربراہی میں یہ مباحثہ جیت گیا۔ چینی گروہ جس کا سربراہ ہوشنگ مہایان (چینی زبان میں 'مہایان راہب') تھا، کو تبت سے نکال دیا گیا اور تبت نے باقاعدہ طور پر ھندوستانی بدھ مت اور ھندوستانی بودھی طب کو اختیار کر لیا اگرچہ انہوں نے کچھ چینی طبی اثرات کو بھی برقرار رکھا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد تبتی وائروچان کو، کچھ ھندوستانی بزرگ راہبوں کے اس امر پر مطعون کرنے پر کہ اس نے بہت زیادہ چیزیں ظاہر کر دیں تھیں، تبت سے جلا وطن کر دیا گیا ۔ نتیجتاً اس نے اور ھندوستانی ومالمترا نے مزید کچھ دذوگ چن متون کو دفن کر دیا۔

نیئنگما خزانہ متون کی تین اقسام

وائروچان، ومالمترا اور اس سے پہلے، گرو رنپوچے کے دفن کردہ خزانہ متون سے دذوگ چن تعلیمات کو بعد از آں تین اقسام میں تقسیم کیا گیا۔

  1. 'سیم دے' (ذہنی تقسیم) جو کہ خالص آگہی کی بطور ہر چیز کی بنیاد پر زور دیتی تھی۔
  2. 'لونگ دے' (کھلی فضا تقسیم) جو کہ خالص آگہی کے ادراک کی کھلی فضا کو ہر چیز کی بنیاد قرار دیتی تھی۔
  3. 'مننگاگ دے' (جوہری تعلیم تقسیم) جو 'نئینگ تِگ' (دِل جوہری تقسیم) بھی کہلاتی ہے، خالص آگہی کے بنیادی طور پر خالص ہونے پر زور دیتی تھی۔

پہلے دو اقسام ان خزانہ متون سے ماخوذ ہیں جنہیں تبتی راہب وائروچان نے دفن کیا تھا اور آج ان کی زیادہ مشق نہیں کی جاتی۔ ذہنی تقسیم ان ھندوستانی متون سے آئی جن کا وائروچان نے ترجمہ کیا، کھلی فضا تقسیم اس کی زبانی تعلیمات سے آئی اور جوہری تعلیم تقسیم کے دو ھندوستانی استادوں سے دو ذریعہ تھے: ایک گرو رنپوچے کی ”کڈرو نئینگ تِگ“ یعنی 'داکِنی جوہری تعلیمات' اور دوسری ”ویما نئینگ تِگ“ از ومالمترا یعنی'ومالمترا کی دلی جوہری تعلیمات' ۔

بدھ مت پر ظلم وستم

شہنشاہ رلپاچن، جو کہ ایک متشدد بودھی تھا، نے ۸۲۱ء میں چین کے ساتھ ایک صلح کا معاہدہ (جس میں قربانیاں شامل تھیں) کرنے کے بعد سامیے خانقاہ کے بزرگ راہب کو ریاستی مجلس کا سربراہ مقرر کر دیا۔ اس نے حکم دیا کہ تبت میں ہر راہب کی کفالت کے ذمہ دار سات خاندان ہوں گے۔ اس نے ایک مجلس کا قیام بھی کیا جس کے ذمہ شاہ کے جاری کردہ تبتی سنسکرت ترجمہ کی اصطلاحات کے ایک بڑے مجموعہ، ”مہاویوتپتی“ یعنی 'مخصوص [اصطلاحات] کے فہم کی عظیم [لغت] ' کے لیے اصطلاحات کی اجازت دینا تھا۔ اس مجموعہ میں کوئی تنتر اصطلاحات شامل نہیں تھیں۔ یہ شاہ اور اس کی مجلس کا فیصلہ تھا کہ کس چیز کا ترجمہ کیا جائے اور صرف پہلے دو اقسام کے تنتروں کی مشق کی اجازت تھی۔

غالباً شہنشاہ رلپاچن کی زیادتیوں کی وجہ سے اس کے جانشین شاہ لنگ درما نے سن ۸۵۶ تا ۸۴۲ عیسوی میں خانقاہوں کو بند کر دیا اور راہبوں پر ظلم و ستم کیا۔ تاہم، بودھی کتاب خانہ اور 'نگگ پا' (تنتری) عوامی روایت قائم رہیں۔

اولین دفن شدہ خزانہ متون کو ۹۱۳ء میں اتفاقاً دریافت کر لیا گیا۔

نئے انتقالی مکاتبِ فکر

دسویں صدی عیسوی کے اخیر میں ھندوستان سے آتیشا کو مدعو کیا گیا تاکہ وہ بدھ مت میں غلط فہمیوں کا ازالہ کرے بالخصوص تنتروں میں مباشرت اور قربانیوں کے بارہ میں۔ سنسکرت زبان سے نئے ترجمہ کیے گئے جن میں پہلا رنچن زانگپو کا تھا۔

گیارہویں صدی کے شروع میں کدم (جو بعد میں گیلوگ بنی) ساکیہ اور کاگیو روایات بڑھ کر سرما (نیا انتقال، نئے تنتر) مکتبِ فکر میں تبدیل ہو گئیں۔ اس کے برعکس نیئنگما پرانا انتقال یا پرانا تنتر مکتبِ فکر ہے ۔

اس دور میں بون کا بھی دوبارہ احیاء ہوا لیکن اب اس پر بدھ مت کا گہرا رنگ چڑھ چکا تھا۔ سن ۱۰۱۷ء میں بون متون (زیادہ تر غیر دذوگ چن متون) کی بودھی ادب کی اہم اقسام کے مطابق تدوین کی گئی۔ گیارہویں صدی کے آخر میں مزید نیئنگما اور مزید بون متن دریافت کیے گئے، عموماً ایک ہی شخص (کی کاوشوں) سے۔

جنوبی اور شمالی خزانہ متن نسب بندی

چودہویں صدی کے پہلے حصہ میں ساکیہ استاد 'بوتن' نے ”ژالو مسودہ“ مرتب کیا جو کہ ”کانگیور“ (مہاتما بدھ کے الفاظ) کا پیشرو تھا۔ اُس نے اس میں کوئی دذوگ چن مواد شامل نہیں کیا اور نہ ہی قدیم ترجمہ دور کا کوئی تنتروں کا ترجمہ۔

بوتن کے ہمعصر لونگچنپا نے ”کڈرو نئینگ تِگ“ اور ”ویما نئینگ تِگ“ کو ”نئینگ تِگ يانژی“ (دِلی جوہری تعلیمات ذہن کا خزانہ متن) میں جمع کر دیا۔ اس نے اپنے وقت میں مہیّا دذوگ چن متون کو بھی جمع کیا اور ان کی تدوین کی۔ نیئنگما جنوبی خزانہ متون کا نسب اس سے آغاز ہوتا ہے۔

چودہویں صدی کے دوسرے نصف میں ”کانگیور“ کی متبادل بون متون کی تدوین ہوئی بشمول دذوگ چن کے۔

نیئنگما شمالی خزانہ متن نسب، چودہویں صدی کے آخر میں 'رِگدزن گودم جے' سے شروع ہوا جو کہ قدیم تبتی بادشاہوں کی نسل سے تھا۔ اس نسب کے سردار کو 'رِگدزن چنپو' کہا جاتا ہے۔

نیئنگما آئینی اور اہم متون کی ترتیب

پندرہویں صدی کے شروع میں رتنا لِنگپا نے لونگچنپا کے کام کو جاری رکھتے ہوئے ”نیئنگما گیوبم“ کو مرتب کیا جو کہ تمام دذوگ چن متون اور تنتروں کے تمام قدیم انتقال تراجم کا مجموعہ تھا۔

جِگمے لِنگپا نے اٹھارہویں صدی کے اختتام پر ذہن کا خزانہ متن ”لونگچن نئینگ تِگ“ یعنی 'لونگچنپا کی دلی جوہری تعلیمات' کا انکشاف کیا۔ یہ لونگچنپا کی ”نئینگ تِگ يانژی“ کا گاڑھا ہونا تھا۔ اُس کے چیلے، دوڈروب چن اوّل نے اس متن کی ابتدائی مشقوں کی ایک رسمی کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ”لونگچن نگونڈرو“۔

جِگمے لِنگپا کے ایک نئے جنم 'پالٹرول' (پاٹرول رنپوچے) نے ”میرے مکمل بہترین مربی سے ہدایاتِ رہنمائی“ یعنی ”میرے بہترین استاد کے کامل الفاظ“ تحریر کی۔ یہ 'لَم رِم' (راہ کے مرتب مراحل) کے برابر سب سے مفصل نیئنگما متن ہے”لونگچن نئینگ تِگ“ کی ابتدائیات پر۔

ریمے غیر فرقہ وارانہ تحریک

مزید، جِگمے لِنگپا کے بعد اگلی نسل میں سے 'ریمے' یعنی غیر فرقہ وارانہ تحریک کے تین موٗسسین، کونگٹرول، جم یانگ کئینتسے وانگپو اور میپام میں سے آخر الذکر نے بنیادی نیئنگما متون پر اہم تفاسیر لکھیں۔

چوگ گیور لِنگپا جو کہ کونگٹرول اور جم یانگ کئینتسے وانگپو، دونوں کا استاد اور شاگرد بھی تھا، کی ترما دور تصنیف”چوگ لِنگ ترسار“ کی دونوں نیئنگما اور کرم کاگیو مکاتبِ فکر پیروی کرتے ہیں۔

جم یانگ کئینتسے وانگپو اور پالٹرول کے شاگرد ، دوڈروب چن سوّم نے دذوگ چن پر صاف ترین تفاسیر ”دذوگ چن ادوار“ اور ”دذوگ چن پر متفرق تحریریں“ لکھ کر دذوگ چن کو تبتی بدھ مت کی دوسری روایات کے سیاق و سباق میں بیان کیا۔ یہی وہ تفاسیر ہیں جن پر عزتِ مآب چودہویں دلائی لامہ اپنے تبتی بدھ مت کی چاروں روایات کے متحدہ نظریہ کی وضاحت کے لیے انحصار کرتے ہیں۔

کیا دذوگ چن بودھی ہے یا بون؟

کیا بون بودھی ہے یا غیر بودھی؟ دونوں ہی روشن ضمیری کی راہ دکھلاتے ہیں اور 'بدھیت' کی اصطلاح استمعال کرتے ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے ھندوستانی استاد دھرمکیرتی نے کہا تھا کہ اگر کوئی امر بدھ مت کے بنیادی موضوعات سے مطابقت رکھتا ہے تو وہ مہاتما بدھ کی تعلیم ہے۔ پس دونوں نیئنگما اور بون دذوگ چن واضح طور پر مہایان بدھ مت کی تعلیمات ہیں کیونکہ دونوں ہی مہایان سوتروں سے مشترکہ خصوصیات رکھتے ہیں۔ یقیناً ہر ایک کی اپنی غیر مشترکہ خصوصیات بھی ہیں۔

کیونکہ نیئنگما اور بون دونوں کا دعوی ہے کہ دذوگ چن کا آغاز ان سے ہوا اور ان سے دوسرے فریق کو منقول ہوا، لہذا تین ممکنہ صورتیں ہیں:

  1. دذوگ چن کا آغاز بدھ مت کے ابتدائی دور میں ہوا اور بون نے اسے ایران اور وسطی ایشیا میں بدھ مت کے ابتدائی پھیلاوٗ سے ژانگ ژونگ کے ذریعہ وصول کیا۔ لہذا بون دذوگ چن کا بودھی اصل ہے لیکن بدھ مت کی ھندوستانی شاخ سے نہیں۔
  2. بون نے دذوگ چن کو سامیے خانقاہ میں گرو رنپوچے سے سیکھا اور جب ۷۸۴ عیسوی میں ژانگ ژونگ بون گروہ کو گلگت (شمالی پاکستان) میں جلا وطن کیا گیا تو انہوں نے اسے دفن کر دیا۔
  3. جب ژانگ ژونگ بونپو گلگت میں جلا وطنی میں تھے تو انہوں نے وہاں اس کی تعلیم پائی، نہ کہ گرہ رنپوچے سے۔

حتمی طور پر یہ فیصلہ کرنا ناممکن ہے کہ ان میں سے کون سا امکان درست ہے۔

دذوگ چن کاگیو روایات میں

دذوگ چن ڈروگپا کاگیو میں بھی ملتا ہے اور یہ اس کے بارہویں صدی عیسوی کے بانی تسانگپا گیارے سے آیا تھا۔

کارماپا سوّم نے چودہویں صدی عیسوی کے آغاز میں دذوگ چن کو کارما کاگیو میں متعارف کرایا اور ”کارما نیئنگ تِگ“ یعنی ”کارماپا کی دلی جوہری تعلیمات“ تصنیف کی۔ اُس نے دذوگ چن کی تعلیم کمار راجا سے حاصل کی جو کہ لونگچنپا کے بھی استاد تھے۔ لہذا، کارما پکشی مشق میں گرو رنپوچے کا کارماپا کارما پکشی پکشی دوّم کے دل میں تصور کیا جاتا ہے۔ گرو رنپوچے کی ایک کارما کاگیو مشق بھی ہے۔

دذوگ چن ڈریگونگ کاگیو روایت میں بذریعہ خزانہ متون کے داخل ہوا جنہیں سولہویں صدی عیسوی کے اساتذہ ڈریگونگ رتنا اور ڈریگونگ لہو جے ڈرونگ نے دریافت کیا تھا۔

دذوگ چن اور دلائی لامہ

دلائی لامہ پنجم کو ستارہویں صدی کے وسط میں دذوگ چن کے خالص رویا نظر آئے جنہیں انہوں نے ”رازوں کی مہر کی برداری“ میں اکٹھا کیا اور ان دذوگ چن مشقوں کو اپنی نمگیال خانقاہ میں متعارف کرایا جہاں ورنہ صرف گیلوگ روایات کا عمل تھا۔

گرو رنپوچے نے پیشگوئی کی تھی کہ اگر ابتدائی تبتی بادشاہوں کی نسل، کہ جن کی اولاد رگدزن چنپو کی نسل سے شمالی خزانہ متون کی سربراہ تھی، قطع ہو گئی تو یہ تبت کے لیے مضر ثابت ہو گا۔ پس دلائی لامہ پنجم نے اپنے دذوگ چن نسب اپنے زمانہ کے رگدزنچن پووں تک بھی پہنچائے۔ نتیجتاً شمالی خزانہ متن نسب بھی دلائی لامہ پنجم کی دذوگ چن تعلیمات کا پیروکار ہے۔

اگلے رگدزن چنپو نے دلائی لامہ پنجم کی دذوگ چن تعلیمات کو نیچنگ خانقاہ تک پہنچایا جو کہ سروشِ غیبی 'نیچنگ' کی خانقاہ تھی۔ گرو رنپوچے نے سروشِ غیبیِ نیچنگ کو تبت کی حفاظت کے لیے سامیے میں مقرر کیا تھا۔ دلائی لاماوٗں اور نیچنگ سروشِ غیبی کے درمیان دلائی لامہ دوم کے زمانہ سے ایک ذاتی تعلق موجود ہے جب آخرالذکر ٹاشیلہونپو خانقاہ سے ڈریپونگ خانقاہ نقل مکانی کر گئے تھے۔

دلائی لامہ پنجم نے نیئنگما مِنڈرول لِنگ خانقاہ کے تخت نشین کو جنوبی خزانہ متون نسب کا سربراہ بھی مقرر کیا۔ پس انہوں نے دونوں اہم نیئنگما نسبوں کی حمایت کی۔ اس وقت سے اب تک دلائی لامہ سلسلہ اور نیئنگما روایت کے درمیان ایک قریبی تعلق قائم ہے۔

Top