تقدس مآب: مادی چیزیں صرف جسمانی آرام دے سکتی ہیں، دماغی سکون نہیں۔ مادہ
پرست شخص کا اور ہمارا دماغ تو ایک ہی ہے لہذا ہم دونوں کو ذہنی تکلیف، تنہائی، خوف ، بے یقینی، حسد کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس سے ہرشخص کے ذہن میں پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ اسے پیسے سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ پریشان ذہن، بے تحاشا تناؤ اور دباؤ میں آئے ہوئے لوگ دوائیں لیتے ہیں۔ اس سے وقتی طور پر تناؤ کم ہو جاتا ہے مگر کتنے ہی ذیلی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔ شاید ذہنی سکون خریدا جا ہی نہیں سکتا۔ یہ چیز کسی بازار میں نہیں بکتی لیکن ذہنی سکون کی ہر ایک کو ضرورت ہے۔ اس کے لیے بہت سے لوگ سکون اور دوائیں استعمال کرتے ہیں لیکن ذہنی تناؤ کے مریض دماغ کی اصل دوا درد مندی ہے۔ سو، مادہ پرست لوگوں کو ہمدردی اور مہربانی کی حاجت ہے۔
اچھی صحت کے لیے سب سے اچھی دوا ذہنی سکون ہے اس سے جسمانی عناصر میں زیادہ توازن پیدا ہوتا ہے۔ یہی بات نیند بھر سونے کے بارے میں بھی درست ہے۔ اگر ہم ذہنی سکون میں سوتے ہیں تو نیند میں کوئی خلل نہیں پڑتا اور ہمیں نیند آور دوائیں نہیں کھانا پڑتیں۔ کتنے ہی لوگ اپنے چہرے کے حسن کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ لیکن اگر آپ غصے میں بھرے ہوئے ہوں تو چاہے جتنا غازہ مُنہ پر تھوپ لیں، کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ آپ کی بدصورتی وہیں رہے گی۔ لیکن اگر آپ میں غصہ نہ ہو، مسکراہٹ ہو تو آپ کا چہرہ پر کشش ہو جاتا ہے، زیادہ بھلا لگتا ہے۔
اگر ہم درد مندی کی بھرپور کوشش کریں تو پھر جب غصہ آئے گا تو صرف تھوڑی دیر کے لیے ہو گا۔ گویا ہمارا دفاعی نظام طاقتور ہو گیا ہو اور جب کوئی جرثومہ حملہ کرے تو زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ سو ہمیں سب پہلووں کو نظر میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس کی اور درد مندی کی ضرورت ہے۔ اس طرح ایک دوسرے سے آشنا ہونے، مانوس ہونے اور ہر ایک کے باہم دگر مربوط ہونے کا تجزیہ کر کے ہمیں مزید قوت حاصل ہو گی۔
ہم سب میں نیکی کرنے کی ایک سی صلاحیت ہوتی ہے۔ سو اپنے آپ پر غور کیجیے۔ اپنے تمام مثبت امکانات دیکھیے۔ منفی چیزیں بھی ہوتی ہیں لیکن اچھی چیزوں کے لیے صلاحیت بھی تو موجود ہے۔ انسان کی بنیادی فطرت میں بھلائی برائی سے زیادہ ہے۔ ہماری زندگی درد مندی سے شروع ہوتی ہے لہذا درد مندی کا بیج غصے کے بیج سے زیادہ طاقتور ہے۔ پس اپنے آپ کو زیادہ مثبت انداز میں دیکھیے۔ اس سے آپ کو زیادہ شانتی اور سکون ملے گا۔ پھر اگر کوئی مسئلہ اٹھے گا تو اسے سنبھالنا آسان ہو گا۔
ہندوستان کے ایک بڑے بدھ گرو، شانتی دیو نے لکھا ہے کہ کوئی مسئلہ درپیش ہونے والاہو اور ہم اس کا تجزیہ کر کے اس کو سلجھانے کا یا اس سے بچنے کا کوئی راستہ سوچ لیں تو پھر فکر کی کوئی بات نہیں۔ اور اگر ہم مسئلے پر قابو نہ پا سکیں تو خواہ مخواہ کی پریشانی فکر مندی سے کوئی مدد نہیں ملنے والی۔ ایسے میں حقیقت کو قبول کر لو۔