سٹڈی بدھزم: از راہ کرم اپنا تعارف کروائیے۔
سرکونگ رنپوچے: میرا نام تسنژاب سرکونگ رنپوچے ہے، یہ ایک خطاب ہے جو مجھے تقدس مآب دلائی لاما نے عطا فرمایا ہے۔ میں جب قریب ساڑھے تین برس کا تھا تو مجھے بطور پنر جنمے تسلیم کیا گیا۔ میں نے آشرم جا کر مختلف صحائف کا مطالعہ کیا۔
میں سپیتی کے ایک بڑے گھرانے میں پیدا ہوا – میرے نوں بہن بھائی ہیں۔ میں چوتھا بالک ہوں۔ لیکن مجھے اپنے خاندان اور بھائی بہنوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ میں آشرم میں تھا۔ سپیتی ایک خشک، دور افتادہ ریگستان جیسا علاقہ ہے۔ یہ سطح سمندر سے کافی بلند ہے۔ یہاں کے لوگ اور ان کی تہذیب تبتی لوگوں سے بہت مشابہ ہے۔ ہم ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے ہیں اور لوگ بہت نرم دل ہیں۔ بےشک بہت سے لوگ اندھا ایمان بھی رکھتے ہیں!
سٹڈی بدھزم: آپ کو سرکونگ رنپوچے جو کہ ایک عظیم استاد تھے کا پنر جنمے مانا گیا۔ کیا آپ یہ محسوس کرتے ہیں کہ آپ وہی سابقہ شخصیت ہیں؟
سرکونگ رنپوچے: اس کا جواب بڑی ٹیڑھی بات ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں سابقہ ہستی سے کبھی ملا ہی نہیں۔ شکل و صورت بھی مختلف ہے اور من بھی بالکل ویسا نہیں۔ تو میں یہ کہ سکتا ہوں ہمارے درمیان کچھ زیادہ مشابہت نہیں۔ جس طرح وہ پاٹھ کرتے تھے اور جو گورو والی عقیدت ان میں تھی – میں جب ان کی صفات کے بارے میں سنتا ہوں تو میں انہیں بہت سراہتا ہوں۔
تاہم، لوگوں کی بھلائی کے سلسلہ میں سرکونگ رنپوچے کی جو ذمہ داریاں ہیں میں خود کو ان سے بہت قریب محسوس کرتا ہوں۔ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں،" کیا میں واقعی پنر جنمے ہوں یا نہیں، مجھے یہ ایک سنہری موقع ملا ہے۔" تو میں اس سنہری موقع کے ملنے پر نہائت خوش قسمت ہوں۔
سٹڈی بدھزم: کیا آپ اپنی ذمہ داریوں کے متعلق کچھ بتا سکتے ہیں؟
سرکونگ رنپوچے: سابقہ سرکونگ رنپوچے کا سب سے بڑا کمال تقدس مآب دلائی لاما کی خدمت کرنا تھا۔ مزید یہ کہ ان کے سپیتی کے عوام کے لئِے جذبہ درد مندی کی بدولت انہوں نے ان کے ساتھ، تبتی عوام کے ساتھ اور بعض یورپی اور امریکی لوگوں کے ساتھ گہرے مراسم پیدا کئیے۔
میرے دل میں بھی تقدس مآب کی خدمت کی خواہش ہے۔ مگر میرا کام قدرے مختلف ہو گا، کیونکہ میرے پیش رو ایک قابل معلم تھے، اور میں ان کا پاسنگ بھی نہیں ہوں۔ مجھے ابھی اور مطالعہ اور مشق کرنی ہے۔ لیکن تقدس مآب کی راہنمائی سے میں وہ سب کچھ کرنے کی پوری کوشش کروں گا جس کی وہ تمنا کریں گے۔
اس کے علاوہ، اپنے پیش رو کے کام کو جاری رکھتے ہوۓ، بے شمار لوگ مجھ سے درس لینا چاہتے ہیں، اور میرے ساتھ کرمائی تعلق جوڑنا چاہتے ہیں۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے یہ کام ان کی خاطر کرنا ہے۔
سٹڈی بدھزم: آپ ایک نہائت روائتی سنیاسی ماحول میں پلے بڑھے ہیں، اور ابھی حال میں آپ تین برس کینیڈا رہ کر آۓ ہیں۔ یہ ایک غیرمعمولی بدلاؤ تھا۔ اس سے نبرد آزمائی میں آپ کی بودھی تعلیم و تربیت کیسے کام آئی۔
سرکونگ رنپوچے: میرے سنیاسی طرزِ زندگی اور کینیڈا کے طرزِ زندگی میں کئی قسم کی تفریق ہے۔ آشرم میں ہمیں سب طرف کے اصول و قوانین کو ماننا اور ان پر چلنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر کبھی آپ کو ان پر چلنا نامنظور ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی قید خانے میں ہیں۔ میں نے بیشتر اوقات سنیاسی پنتھ کی پابندی کی، مگر کبھی کبھار یوں بھی محسوس ہوتا تھا کہ میں اس سے منحرف ہوں۔
میرے کینیڈا ہجرت کر جانے پر میں نے یقیناّ مکمل کینیڈین روپ نہیں دھارا۔ میں انگریزی سیکھنے گیا تھا اور میرے سب یار دوست مجھے سرکونگ پکارتے تھے جو کہ بہت تمسخر آمیز بات تھی۔ میں نے چند اچھے دوست بناۓ، اور آخر یوں محسوس ہونے لگا کہ میں ان میں سے ہی ہوں۔ میں نے اپنے دیس کے لوگوں کی سوچ اور کینیڈا کے لوگوں کی سوچ کے درمیان کئی چیزوں میں فرق دیکھا۔ میں نے محسوس کیا،"اوہ! تو عام لوگ ایسے سوچتے ہیں!"
جب میں آشرم میں تھا تو سب لوگ مجھ سے بڑے احترام سے پیش آتے تھے۔ لیکن کینیڈا میں میرے دوستوں کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ تھی۔ اس سے مجھے بخوبی احساس ہوا کہ میں ایک عام انسان ہوں۔ آشرم میں میری اپنی مخصوص طشتری، پیالہ اور چھری کانٹا تھا جسے اور کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔ کینیڈا میں میرے دوست آئس کریم کھاتے ہوۓ کہتے،" یہ لو چکھو، یہ کس قدر لذیذ ہے!" اس سے میرا رشتہ دوسرے لوگوں سے مضبوط ہوا۔
سٹڈی بدھزم: آپ نے بدھ مت کا مطالعہ کرنے میں عمر گزاری ہے۔ آپ سے ایسا کرنے کی کوئی معقول وجہ پوچھی جاۓ تو آپ کیا کہیں گے؟
سرکونگ رنپوچے: لوگ بدھ مت کا مطالعہ کیوں کریں؟ یہ بڑی انفرادانہ بات ہے! یہ ہر انسان کی ذاتی دلچسپی پر منحصر ہے۔ تقدس مآب دلائی لاما اکثر کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بدھ دھرم، بدھ فلسفہ اور بدھ سائینس ہے۔ پس مختلف لوگ ان مختلف چیزوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر، درد مندی۔ بودھی لوگ اس کا بہت ذکر کرتے ہیں، مگر محض درد مندی پر عمل آپ کو بودھی نہیں بنا دیتا۔ اسے اچھی طرح استوار کرنے کے لئیے ہم سب بودھی طریقوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح ہم اپنی درد مندی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ کون اپنی درد مندی کو بہتر نہیں بنانا چاہتا، کیونکہ یہ ایک نہائت عمدہ شے ہے۔ ہے نا؟
جب ہم یہ محسوس کریں کہ ہم سمسار سے نجات چاہتے ہیں – ہمارے تمام دکھ اور مسائل – تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمیں واقعی مزید مطالعہ کرنا چاہئیے۔ ویسے، عمومی طور پر، بدھ مت کے مطالعہ سے، بغیر ایک بودھی بننے کی خواہش کے، ہم بہت سی عمدہ صفات سیکھ سکتے ہیں۔
سٹڈی بدھزم: کیا آپ ایشیا اور مغرب میں بودھی عبادات اور بودھی طریقوں کے فی الواقع اطلاق میں کوئی فرق دیکھتے ہیں۔ کیا مغرب کے مکینوں کے کوئی خاص مسائل ہیں؟
سرکونگ رنپوچے: میرے خیال میں یہ فرق بہت بڑا ہے۔ جیسا کہ ایشیا میں ہم اس ماحول میں پیدا ہوتے ہیں جہاں ہمارے والدین یوں بولیں گے،" جاؤ اور چند چکر لگاؤ اور اوم منی پدمے ہُوم کا جاپ کرو،" اور ہم خود بخود ہی یہ کام کر لیں گے۔ اور اس کے ساتھ ایک بات یہ بھی ہے کہ لوگوں میں بدھ مت کی تعلیم کی بہت کمی ہے۔ وہ یوں محسوس کرتے ہیں،" یہ محض ہمارا دستور ہے، اور کچھ نہیں۔"
میں جب سپیتی میں درس دیتا ہوں تو سب لوگ نہائت انہماک سے سنتے ہیں اور میں جو بھی کہتا ہوں اس پر ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔ پھر جب میں اپنے درس کے بارے میں کسی سوال کا منتظر ہوتا ہوں تو عموماّ کوئی سوال نہیں پوچھا جاتا۔ میرے خیال میں یہ ایک مسٔلہ ہے۔ اگر کسی کو کوئی شک نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دلچسپی کی کمی ہے۔
مغرب میں ایسا نہیں! لوگ بدھ مت پر لیکچر سننے جاتے ہیں تو اہم نکات کو غور سے سنتے ہیں۔ درس کا ان کے دل پر اثر ہوتا ہے! مغرب میں میں جو کچھ بھی کہتا ہوں لوگ اس کا تجزیہ کرتے ہیں، اس پر سوال اٹھاتے ہیں، اس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے۔
بےشک تبت کی تہذیب مکمل طور پر تقدس مآب کے کرم اور راہنمائی سے قائم ہے۔ لیکن یہ وہ بڑا فرق ہے جو میں مغرب اور ہمالیہ کے سماجوں بیچ دیکھتا ہوں۔
سٹڈی بدھزم: آپ کے خیال میں کیا یہ ممکن ہے کہ بدھ مت کا مطالعہ اور مشق بخوبی طور پر مغرب کے اندر رہ کر ہی کی جا سکتی ہے، یا اس کے لئیے ایشیا جانا ضروری ہے؟
سرکونگ رنپوچے: پہلے وقتوں میں مہان، قابل اساتذہ سے ملنے کی خاطر بھارت جانا ضروری ہوتا تھا۔ مگر آج کل، ٹیکنالوجی کی بدولت، جو لوگ دھرم کے مواد تک رسائی چاہتے ہیں، ان کے لئیے یہ کام بہت آسان ہے۔
علاوہ ازیں اب بہت سے ممالک میں بدھ مراکز قائم ہیں جہاں نہائت قابل گیشے اور اساتذہ موجود ہیں، اس لئیے اب بھارت آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
سٹڈی بدھزم: نوجوان طبقہ بہت مصروف زندگی گزارتا ہے۔ وہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ تفریح بھی چاہتے ہیں، مگر ان میں سے کئی بدھ مت کا مطالعہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا ان کے لئیے کیا مشورہ ہے؟
سرکونگ رنپوچے: پھر بھی انہیں کچھ تو پڑھنا چاہئیے۔ میں جانتا ہوں کہ مغربی لوگوں کی یہ حیران کن عادت ہے کہ وہ جہاں بھی ہوں – ہوائی جہاز میں یا ریل گاڑی میں – وہ کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ تو بدھ مت پر کتابیں پڑھو۔ جب تمہیں کسی پڑھی ہوئی بات پر شک ہو تو کسی استاد سے پوچھنے کی کوشش کرو یا انٹرنیٹ سے مدد لو۔
تو اگر تم کوئی بات سیکھتے ہو تو اس کا اطلاق اپنی روز مرہ زندگی پر کرو۔ آہستہ آہستہ، تم ایک بڑے ہدف تک جا پوہنچو گے۔ بےشک، جتنا بڑا ہدف ہوگا اتنا بڑا ہی اس کا نتیجہ نکلے گا۔
سٹڈی بدھزم: (بدھ مت میں) بہت سے عہد و پیمان ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ ایک قید خانے کی مانند ہے جو ہمیں تفننِ طبع سے روکتا ہے۔ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے؟
سرکونگ رنپوچے: بے شک، جب کوئی عہد آپ کو وہ کچھ کرنے سے روکے جو آپ کرنا چاہتے ہیں تو یہ ایک قید خانہ ہی لگتا ہے۔ مگر عہد و پیمان کا معاملہ ایسا ہے کہ ہمیں ان کو اپنانے پر کوئی مجبور نہیں کرتا۔ ہم انہیں اپنی مرضی سے قبول کرتے ہیں، اور یہ ہمارے بودھی پاٹھ کے لئیے عمدہ موقع فراہم کرتے ہیں۔
سٹڈی بدھزم: مغرب کے مکین نوجوانوں کے لئیے چھوٹے مراقبے کرنے کے متعلق کوئی مشورہ؟
سرکونگ رنپوچے: میں یہ کہنا چاہوں گا کہ درد مندی اور آگہی پر مزید غور کرو۔ بنا درد مندی ہمارے پاس کچھ نہیں۔ ہمیں اپنے لئیے اور دوسروں کے لئیے درد مندی کی ضرورت ہے۔
سٹڈی بدھزم: عنایات کیا چیز ہیں؟
سرکونگ رنپوچے: یہ ایک عمدہ سوال ہے! ایشیا میں لوگ کسی شے کو متبرک جان کر عنائت پانے کی خاطر کھاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ عنایات کا معاملہ ایسے ہے – اس کے لئیے ایمان کی ضرورت ہے۔
میرا ایک دوست تھا جس کا باپ ایک لمبے عرصہ کے لئیے ہسپتال میں داخل تھا۔ وہ بےخوابی کا شکار تھا اور ڈاکٹر نے اسے کئی ہفتوں کے لئیے کچھ گولیاں دیں. پھر ڈاکٹر نے اسے کہا کہ اب وہ ٹھیک ہو گیا ہے اور اسے ان کی ضرورت نہیں، اور وہ معمول کے مطابق سو سکتا ہے۔ اس نے بہت کوشش کی مگر وہ دوا کے بغیر سونے میں ناکام رہا۔ اس نے ڈاکٹر کو بلایا اور دوا کے لئیے اس کی مِنّت کی۔ ڈاکٹر راضی ہو گیا۔ اگلے روز ڈاکٹر نے اس سے پوچھا کہ اس کی نیند کیسی رہی، تو میرے دوست کے والد نے بتایا کہ اسے بخوبی نیند آئی۔ تب ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ اس نےاُسے جھوٹ موٹ کی دوا دی تھی۔
میرے خیال میں اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہمیں کسی چیز کے بارے میں تیقّن ہو، تو اس کے پیچھے کوئی طاقت کارفرما ہوتی ہے جو عنائت بن جاتی ہے۔