سٹڈی بدھزم: کیا آپ اپنے بارے میں کچھ بتا سکتی ہیں؟
تنزین پالمو: میں انگلستان میں پیدا ہوئی اور لندن میں پلی بڑھی۔ جب میں اٹھارہ برس کی تھی تب میں نے ایک کتاب پڑھی اور دھرم سے شناسا ہوئی۔ جب میں نے آدھی کتاب پڑھی تھی تو میں اپنی ماں سے یوں مخاطب ہوئی، "میں ایک بدھ متی ہوں،" جس کے جواب میں اس نے کہا،"تو یہ بات ہے؟ خوب، تم جب کتاب ختم کر لو تو مجھے اس کے بارے میں بتانا۔" میں نے محسوس کیا کہ میں ہمیشہ سے ہی بودھی مسلک کی پیرو تھی مگر میں اس کے وجود سے بےخبر تھی، کیونکہ ان دنوں'بدھا' کا لفظ تک نہیں بولا جاتا تھا۔ یہ ساٹھ کی دِہائی کی بات ہے، اس لئیے کچھ زیادہ مواد میسر نہیں تھا، حتیٰ کہ لندن میں بھی نہیں۔ بعد از آں میں نے محسوس کیا کہ میں تبتی مسلک کی جانب زیادہ راغب تھی، اور جب میں بیس برس کی ہوئی تو میں بھارت گئی۔ اپنی اکیسویں سالگرہ پر میں اپنے لاما خمترُل رنپوچے سے ملی، اور تین ہفتے بعد میں نے اپنا پہلا منصب رسید کیا بطور ایک بھکشو کے، اور پھر اس کے ساتھ کام شروع کر دیا۔
اس نے مجھے لاہول جانے کو کہا، جہاں میں نے اگلے اٹھارہ سال گزارے۔ پھر میں نے چند برس بھارت میں بسر کئیے۔ مجھے ایک دھرم شالا قائم کرنے کو کہا گیا اس لئیے میں بھارت کو لوٹی، تب سے میں نے اپنا وقت یہیں گزارا ہے، دنیا بھر میں گھوم پھر کر دھرم پر خطبے دیتے ہوۓ۔
سٹڈی بدھزم: بدھ مت میں ایسی کونسی چیز تھی جس نے آپ کو اپنی جانب مائل کیا؟
تنزین پالمو: مجھے بچپن سے ہی یہ احساس تھا کہ ہم فطری طور پر کامل ہیں، اور یہ کہ ہمیں بارہا لوٹنا ہے تا وقتیکہ ہمیں اپنے فطری طور پر کامل ہونے کی آگہی ہو جاۓ۔ مگر سوال یہ تھا کہ کمال فی الحقیقت کیا شے ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جاۓ؟ بیشتر روحانی مسلک الوہی ہیں اور ایک ایسے خارجی خدا کا تصور جو اس نظام کو چلاتا ہے میرے من کو نہیں بھاتا تھا۔ تو میں نے بدھ مت کو پایا اور مجھے صحیح راستہ ملا۔ میں مہاتما بدھ کی بے حد مشکور ہوں کہ اس نے راہ دکھائی، اور محض اس کا ما حاصل ہی نہیں بتایا، بلکہ کھول کر یہ بھی بتایا کہ وہاں تک کیسے پہنچا جاۓ۔
سٹڈی بدھزم: کیا آپ کو کبھی یہ بات انوکھی لگی کہ لندن کی ایک لڑکی کوہ ہمالیہ کے دور دراز علاقے میں جا بسی؟
تنزین پالمو: مجھے لندن سے اٹھ کر لاہول جا بسنے میں کبھی کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ یہ بڑا قدرتی سا امر لگا۔ لندن میں مجھے یہ احساس تھا کہ میں کسی غلط جگہ پر ہوں اور میں اسے چھوڑنا چاہتی تھی۔ میں نے آسٹریلیا یا نیوزی لینڈ جانے کا سوچا۔ اس میں انگلستان کے خلاف کوئی بات نہیں مگر مجھے یہ احساس تھا کہ وہ جگہ میرے لئیے نہیں تھی۔ لیکن ایک بار جب میں دھرم سے روشناس ہو گئی، تو مجھے سمجھ آ گئی کہ مجھے وہاں جانا ہے جہاں گورو ہیں۔ اس وقت یہ جگہ بھارت تھی۔
سٹڈی بدھزم: آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ہمیں تمام معلومات کے لئیے انٹرنیٹ پر تکیہ کرنا چاہئیے یا کیا ہمیں جیتے جاگتے گورووں سے گیان لینا لازم ہے؟
تنزین پالمو: انٹرنیٹ بے حد مفید ہو سکتا ہے جیسا کہ کتابیں، مگر میں یہ سمجھتی ہوں کہ بدھ مت کے پاٹھ کے لئیے یہ ہی سب کچھ نہیں۔ ایک مقام پر پہنچ کر، جیسے کوئی بھی اور فن سیکھنے کی مانند، کسی ایسے شخص سے مدد لینا پڑتی ہے جو ہم سے زیادہ ماہر ہے۔ اگر ہم موسیقار، رقاص یا کھلاڑی بننا چاہتے ہیں، تو ہم کچھ ڈی وی ڈی ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھ سکتے ہیں، لیکن آخر کار ہمیں کسی کی ضرورت پڑتی ہے جو ہماری کارکردگی کو جانچ سکے اور ہمیں نجی طور سے ہدایات دے سکے۔ یہ دونوں ہم پلہ ہیں۔ ہم ہر دم استاد کے قدموں میں نہیں بیٹھے رہ سکتے، لیکن ہمیں وقتاّ فوقتاّ کسی کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمارا جائزہ لے اور ہمیں راہ دکھاۓ۔
سٹڈی بدھزم: ہم استاد کیسے تلاش کریں؟
تنزین پالمو: بھارت میں بہت سے لوگ میرے ساتھ معاملات پر تبادلہ خیال کرنے آتے ہیں۔ میرا یہ کہنا ہے کہ ان میں سے آدھے یہ کہتے ہیں،" مجھے ایک مسٔلہ درپیش ہے۔ مجھے کسی گورو کی تلاش ہے۔" بقیہ آدھے کہتے ہیں،" مجھے ایک مسٔلہ درپیش ہے کیونکہ میرا ایک گورو ہے!" پس یہ اتنا آسان نہیں۔
ویسے تو بہت سے قابل معلّم موجود ہیں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر استاد سب کے لئیے موزوں ہے، ایسے جیسا کہ سب لوگ ایک ہی شخص سے محبت نہیں کرتے۔ ہم سب کے کرم جدا جدا ہیں تو اس لئیے مختلف چیلوں کے لئیے مختلف گورو کارگر ہوں گے۔
ایسے ہی بعض اساتذہ ایسے ہیں جنہیں کہ استاد نہیں ہونا چاہئیے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہمیں بھولپن سے کام نہیں لینا چاہئیے، یا کسی کی پر کشش شخصیت سے مسحور نہیں ہونا چاہئیے۔ محض اس لئیے کہ کوئی بہت جاذب نظر ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ واقعی قابل بھی ہے۔ یہ بات کتابوں میں بھی لکھی ہے اور تقدس مآب دلائی لاما بھی ہمیں یاد دہانی کرواتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے رویہ کو اس وقت نہیں جانچنا چاہئیے جب وہ تخت نشین ہوں، بلکہ ان کی نجی زندگی کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔ وہ عام لوگوں سے کیسے پیش آتے ہیں – نہ کہ بڑے عطیات دینے والوں سے – مگر عام عوام سے جو ان کے لئیے کچھ اہمیت نہیں رکھتے۔ میں نے اپنے لاما سے ایک خصوصی طور پر متنازعہ فی لاما کے بارے میں دریافت کیا جسے وہ بخوبی جانتا تھا، تو وہ کہنے لگا کہ اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے، ہاں البتہ آج سے بیس برس بعد وہ دیکھے گا کہ اس کے چیلے کیسے نکلے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے، میں نے جب اپنے لاما کا نام سنا تو مجھے اسی دم پتہ چل گیا کہ یہی میرا لاما ہے۔ تو یہاں میں اپنی ہی نصیحت کی تنسیخ کر رہی ہوں! بہر حال وہ ایک مہاتما بدھ تھا تو یہ میرے لئیے بڑی خوش قسمتی کی بات تھی۔ اوروں کو میں یہ مشورہ دوں گی کہ استاد کے شاگردوں کو دیکھیں۔ کیا آپ ان جیسا بننا چاہتے ہیں؟ اگر آپ کو ایک اچھا ہم آہنگ تعلق نظر آۓ، اور ان کا پاٹھ اچھا ہو اور وہ اچھے نیک دل لوگ ہوں، تو آپ بھروسہ کر سکتے ہیں۔
سٹڈی بدھزم: آج کے اس لاکھوں نظریات اور فلسفوں کے دور میں بدھ مت کا ہی مطالعہ کیوں کیا جاۓ؟
تنزین پالمو: بدھ مت کے ہاں اچھی بات یہ ہے کہ یہ محض آپ کو اچھا بننے کو نہیں کہتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کیسے اچھا بنا جاۓ۔ یہ محض یہ نہیں کہتا کہ،"غصہ مت کرو،" یہ ہمیں غصہ نہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتا ہے۔ یہ ہر اس کام کو کرنے کے طریقے بھی بتاتا ہے جس کی یہ تلقین کرتا ہے۔ اور ان سب منفی گنوں کو قابو میں لانے کے جس کی ہمیں تحویل کرنی ہے۔
یہ بےحد فائدہ مند ہے کیونکہ اگر کوئی پکا بودھی نہ بھی ہو، تو بھی یہ ہمیں بہتر انسان بنانے میں معاون ہوتا ہے۔ میں کئی ایسے کیتھولک پادریوں اور راہباؤں کو جانتی ہوں جو بہتر کیتھولک بننے کی خاطر بودھی تعلیمات کو اپناتے ہیں، اور ایسے یہودی جو بہتر یہودی بننے کے لئیے انہیں اپناتے ہیں۔ کیوں نہ ہو! یہ ہمیں ہماری فطرت کو اور قریب سے پہچاننے میں مدد دیتا ہے، جس میں بالآخر ہم سب شریک ہیں۔
سٹڈی بدھزم: حالیہ برسوں میں ذہنی خبرگیری بہت مقبول ہوئی ہے۔ آپ کا اس کے متعلق کیا خیال ہے؟
تنزین پالمو: آج کل ذہنی خبر گیری ایک ہمہ گیر اصطلاح بن گئی ہے، مگر اپنی روز مرہ کی زندگی میں زیادہ باخبری کا اصول بہت اہم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بعض من کی تربیت کے اشلوکوں پر غور کرنا جو کہ ہمارے مسائل کو ڈھالنے اور حل کرنے کے لئیے تشکیل دئیے گئے ہیں، نہائت فائدہ مند ہے۔ تمام تر خارجی حالات اور وہ ناشائستہ لوگ جن سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، تو بجاۓ غصہ، ناراضگی اور پریشانی کے، ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ان سب چیزوں کو لے کر بدھ مت کی راہ پر یوں چلیں کہ جس سے ہمیں شکست کی بجاۓ تقویت ملے۔ یہ بڑی کارآمد نصیحت ہے، اور اسی لئیے میں اس موضوع پر بہت بات کرتی ہوں کہ دھرم کی مشق کو کیسے اپنی زندگی کا حصہ بنایا جاۓ، وگرنہ تو مایوسی اور بے یارو مددگاری ہمیں آسانی سے گھیر لیتی ہے۔
ہم خواہ چلہ کاٹ رہے ہوں یا باہر کی دنیا میں ہوں،ہمیں چاہئیے کہ ہم باخبری کی صفت کو زیادہ سے زیادہ استوار کریں۔ خلفشار ہم سب کے لئیے ایک بڑا مسٔلہ ہے – جسے مہاتما بدھ نے بندر دماغ کا نام دیا۔ ہمیں اس بندر دماغ کو سِدھانا ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی ہوں اور جو بھی کر رہے ہوں، ہم یا تو باخبر ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔ یا ہم حاضر دماغ ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔ اس میں کوئی بانٹ نہیں ہے۔ زندگی میں ایک بہترین مشورہ جو مجھے ملا وہ آشرم میں جوگیوں سے ملا۔ انہوں نے من کا ہر گھنٹے میں تین بار مشاہدہ کرنے کی نصیحت کی۔ ہم ذرا دیر کے لئیے رکنے کا عہد کرتے ہیں یہ دیکھنے کے لئیے کہ ہمارا من کیا کر رہا ہے، اور کس حالت میں ہے۔ ہم اس پر کوئی فیصلہ صادر نہیں کرتے، ہم محض اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ دھیرے دھیرے ہم اپنی سوچ اور اپنی مثبت اور منفی حالتوں کے بارے میں باخبر ہونے کے عادی ہو جائیں گے۔ اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اپنے من کے آقا نہ کہ غلام بن جائیں گے۔
سٹڈی بدھزم: اکثر اوقات دھرم پاٹھ پر جانے کے لئیے اپنے جوش و خروش کو قائم رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اسے قائم رکھنے کے لئیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
تنزین پالمو: پہلی بات تو یہ ہے کہ ذرا ہلکا پھلکا محسوس کریں! میں نے کئی بار کہا ہے کہ ساتواں پیمانہ مذاق کی حِس ہونی چاہئیے، تا کہ ہم اپنے آپ کو حد سے زیادہ اہمیت نہ دیں۔ ہمیں اپنا پاٹھ سنجیدگی سے کرنا چاہئیے، مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے آپ کو حد سے زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہئیے۔
یہاں میں یہ سمجھتی ہوں کہ ہمارے لئیے اس بات کا احساس بہت ضروری ہے کہ ہم بطور انسان پیدا ہوۓ ہیں تو ہم جو چاہیں کر سکتے ہیں، کوئی کتاب اٹھا کر نہ صرف اسے پڑھ سکتے ہیں بلکہ اسے سمجھ بھی سکتے ہیں۔ تعلیم کا یہ معیار انسانی تاریخ میں شاذ ہی نظر آتا ہے، اس لئیے ہمیں اسے یوں ہی نہیں جاننا چاہئیے۔ ہمیں جو کچھ ملا ہے اس کی بےحد قدر کرنی چاہئیے اور اسے ضائع نہیں کرنا چاہئیے، وگرنہ ہمیں بہت پچھتاوا ہو گا۔
مزید یہ کہ یہ کسی حد تک ٹیکنالوجی سے بھی متماثل ہے، آپ کو اپنی بیٹری کو چارج کرنا پڑتا ہے۔ چلے کاٹنا، وقتاّ فوقتاّ قابل استادوں سے نجی سبق لینا، یہ سب ہماری بیٹری چارج کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس طرح ہمیں تحریک ملتی ہے اور ہم اس علم کا اپنی زندگی میں اطلاق کر سکتے ہیں جو ہمیں ملا ہے، جو کہ بہت اہم ہے۔
اور آخر میں، مہاتما بدھ نے اچھے دوستوں کی اہمیت پر بہت زور دیا۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو ایک ہی سمت میں چلا جا رہا ہے، اس لئیے ایسے چند دوستوں کا ہونا ضروری ہے جن کی اور ہماری اقدار مشترک ہوں اور جو ہماری حوصلہ افزائی اور مدد کریں یہ جاننے میں کہ ہم تنہا یا انوکھے نہیں، بلکہ ہم جو کر رہے ہیں یہ زندگی بسر کرنے کا عمدہ طریقہ ہے۔ اس سے ہمیں دھرم کو اپنی زندگی کے وسط میں نہ کہ اطراف میں رکھنے میں مدد ملے گی، تا کہ ہم زندگی کو دھرم کی مشق میں صرف کریں۔
سٹڈی بدھزم: بعض اوقات لوگ بدھ مت کو مجہول انداز فکر قرار دیتے ہیں، آپ کا کیا خیال ہے؟
تنزین پالمو: بدھ مت سب سے زیادہ فعال نظام ہے! سارا وقت ہم من کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں، اسے کیسے سِدھایا جاۓ، اور ہم کیسے اپنے روائتی من سے ماورا ہوں۔ اس کے لئیے بےحد مصمم ارادہ اور ثابت قدمی درکار ہے۔ مزید یہ کہ اس کے لئیے پرسکون مزاج اور کشادہ دلی بھی چاہئیے، نہ کہ تناؤ اور پریشانی۔ یہ یقیناّ کوئی ٹیک لگا کر بیٹھنے اور خود بخود ہونے والا معاملہ نہیں۔ اگر ہم اس پر کام نہیں کریں گے، تو یہ نہیں ہو گا!
سٹڈی بدھزم: بدھ مت میں خواتین کا جو کردار ہے کیا آپ اس کے متعلق کچھ بتا سکتی ہیں؟
تنزین پالمو: بدھ مت میں خواتین کے کردار کی کوئی خاص روائت نہیں۔ تمام کتابیں بھکشووں نے دوسرے بھکشووں کے لئیے لکھیں۔ تو عورت کے متعلق عام رویہ زن بیزاری کا تھا، جس میں عورتیں ممتنع غیر کا کردار ادا کرتی تھیں، جو کہ کسی چھوٹے معصوم بھکشو پر گھات لگاۓ بیٹھی ہوں۔ اس سماج میں خواتین کے لئیے تعلیم اور دقیق گیان کا حصول تا کہ وہ بہت قابل بن جائیں بہت مشکل تھا۔
اب حالات بہت بدل گئے ہیں۔ لڑکیاں بھی لڑکوں کے ہمراہ سکول میں پڑھتی ہیں، اور خاصی تعلیم یافتہ ہو رہی ہیں۔ اس سال گیشماوں، دینی عالموں کی پہلی کھیپ تیار ہو کر نکلے گی جنہیں تقدس مآب دلائی لاما سندیں عطا فرمائیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر بھکشو عورتیں آگے آ رہی ہیں، بڑا زبردست روحانی پاٹھ اور لمبے چلے کاٹ رہی ہیں، اور یوں اپنی خفیہ صلاحیتوں کو پہچان رہی ہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس تحریک کے بڑے سرپرست خود بھکشو ہیں، بس ایک بار جب انہیں احساس ہو گیا کہ عورتیں بھی پڑھ لکھ سکتی ہیں۔ وہ استاد بن گئے اور وہ بھکشو خواتین کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش تھے۔ البتہ وہ عورتوں کی مکمل منصب یابی کے مخالف ہیں، جس کی گزشتہ تیس سال سے مخالفت ہو رہی ہے۔
سٹڈی بدھزم: بھکشو عورتیں جو کامیابی حاصل کر رہی ہیں اس کے بارے میں جان کر بہت خوشی ہوئی۔ کیا یہ سب قدرتی طور پر ہوا یا کہ اس کی شروعات مشکل تھی؟
تنزین پالمو: اگر آپ کسی آشرم کو جائیں اور پوچھیں کہ سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے، تو اس کا جواب ہمیشہ یہ ہو گا کہ پست عزتِ نفس اور اعتماد کا فقدان۔ اس پر وقت لگے گا۔ لداخ میں پہلی بار جو لڑکیاں بھکشو بنیں اور جو آج کل کی ہیں کے درمیان فرق حوصلہ افزا ہے۔ نئی لڑکیوں کو یہ احساس نہیں کہ انہیں 'کمزور' اور فرمانبردار ہونا ہے، تو وہ یہ سمجھتی ہیں کہ وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں کیونکہ انہوں نے ان کی پیش رو کو کرتے دیکھا ہے۔ اس طرح، ان کے دل میں کوئی شک شبہ نہیں۔
میں نے بھکشو خواتین کے پہلے جتھے سے پوچھا کہ کیا مرد فطری طور پرعورتوں کی نسبت زیادہ ذہین ہیں تو سب نے ہاں میں جواب دیا۔ میں نے کہا کہ،"نہیں، انہیں محض زیادہ مواقع میسر آۓ ہیں۔ اگر آپ دونوں کو برابر کے مواقع ملیں تو آپ دونوں خوب ہو۔ بعض مرد ذہین ہوتے ہیں، بعض بُدھو۔ بعض عورتیں ذہین ہوتی ہیں، بعض بُدھو۔ ہم سب انسان ہیں، کوئی ایک دوسرے سے ارفع و اعلیٰ نہیں۔" اب اگر میں یہ سوال پوچھوں تو لڑکیاں اس سوال سے ہی مخمصے میں پڑ جائیں گی! تو صورت حال بہتر تو ہو رہی ہے۔
سٹڈی بدھزم: عورتوں کو مکمل منصب داری دینے کا امکان نظر آتا ہے؟
تنزین پالمو: اس وقت ہم تقدس مآب کرمپا سے یہ امید کر رہے ہیں کہ بقول ان کے یہ کام ہو جاۓ گا۔ تو ہمیں اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اسے کیسے کریں گے، کیونکہ ہر کوئی متجسس ہو گا۔ یہ بات اہم ہے کہ یہ کام صحیح طور سے ہو اور وہ اسے یوں کریں کہ سب اِس سے متفق ہوں کہ یہ بجا منصب یابی ہے، کیونکہ اس سے سب کے لئیے راہ ہموار ہو جاۓ گی۔
سٹڈی بدھزم: اور آخر میں، جو لوگ تنہائی یا مایوسی کا شکار ہیں، وہ کیا کریں؟
تنزین پالمو: اغلباّ نراش، عزت نفس کی کمی، تنہائی وغیرہ کا بہترین تریاق اس بات کا احساس ہے کہ ہم مہاتما بدھ جیسی فطرت کے مالک ہیں۔ باقی سب مسائل جیسے غصہ، حسد، ہوَس، ایسی عادات ہیں جو ہم نے خود ڈالی ہیں، مگر ہماری فطرت کا جزوِ لازم نہیں ہیں۔
ہم گھٹیا زیاں کار نہیں، ہم رائگاں ہستیاں نہیں۔ ہم موتی کی مانند خوبصورت ہیں۔
ہمیں اکثر یہ بتایا جاتا ہے کہ ہماری صلاحیت محدود ہے، جو کہ بڑی افسوسناک بات ہے۔ در حقیقت، ہماری صلاحیت لا محدود ہے۔ من کی فطرت نا قابل یقین حد تک حیرت انگیز ہے۔ ہم گھٹیا زیاں کار نہیں، ہم رائگاں ہستیاں نہیں۔ ہم موتی کی مانند خوبصورت ہیں۔
بدھ مت ہمیں ہمارے لا انتہا انا زدہ من کے اوپر قابو پانے اور کسی وسیع تر اور خالصتاّ بامعنی مقصد کو اپنانے میں مدد کرتا ہے۔ مراقبے کے توسط سے ہم گہری آگہی حاصل کرتے ہیں۔ عام طور پر ہم فکر، احساس اور جذبات کے دھارے میں بہہ رہے ہوتے ہیں۔ آگہی کے ذریعہ ہم ان سب کا مشاہدہ کر سکتے ہیں بغیر اس میں بہہ جانے کے۔ اس سے ہمیں اپنے روز مرہ معمول کے جکڑے ہوۓ من کی بجاۓ کسی گہری اور وسیع تر صورت سے آشنائی ملتی ہے۔ ہم سب اس تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایسا مشکل کام نہیں۔ کچھ درس اور مشق سے ہر کوئی اسے کر سکتا ہے۔