دس نقصان دہ اعمال سے گریز

15:06
ہم سب اپنی بہبود میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں، اور ہم میں سے بیشتر اوروں کے ساتھ صحت مند، تسکین بخش تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خلا میں ظہور پذیر نہیں ہو گا: اس کے لئیے اخلاقیات درکار ہیں۔ جس سے مراد ضرر رساں رویے سے پرہیز اور فائدہ مند، تعمیری اطوار کو اپنانا ہے۔ جب ہم پریشان کن جذبات مثلاً غصہ یا لالچ کے زیر اثر ہوتے ہیں تو ہم تباہ کن رویہ اختیار کرتے ہیں، جس سے ہمارے من کا چین اور ضبط نفس کھو جاتا ہے۔ منفی عادات سے مجبور ہم اضطراری روش اپناتے ہیں، جس سے نہ صرف دوسروں کو بلکہ خود اپنی ذات کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں؛ ہمارا اپنا رویہ ہماری دیرپا عدم مسرت کا سبب بنتا ہے۔ دوسری جانب، اگر ہم ضبط نفس سے کام لیں اور پیار اور درد مندی سے کام لیں، تو ہم اوروں کے لئیے اور اپنے لئیے بھی قابلِ اعتماد دوست کا کردار ادا کریں گے، اور یقیناً خوشگوار زندگی بسر کریں گے۔

نقصان دہ رویّہ کی تعریف

ہر نظامِ اخلاقیات کے ہاں تباہ کن رویہ کی اقسام کی ایک فہرست ہے جس کی بنیاد ان متنوّع نظریات پر ہے کہ کیا قابل قبول ہے اور کیا نہیں ہے۔ مذہبی اور شائستگی نظام کے قوانین کا ماخوذ کوئی آسمانی طاقت، ملک کا سربراہ، یا کوئی قانون ساز ادارہ ہوتا ہے۔ جب ہم نافرمانی کے مرتکب ہوں تو ہم مجرم گردانے جاتے ہیں اور سزا کے مستحق ہوتے ہیں؛ جب ہم فرمانبردار ہوں تو ہم جنت میں انعام کے سزاوار ہوتے ہیں، یا اس زندگی میں محفوظ اور مربوط معاشرہ کے۔ انسانیت کے نظام کسی کو نقصان نہ پہنچانے پر زور دیتے ہیں، مگر اس میں بھی مسائل ہیں: 'کیا ہم ہمیشہ جان سکتے ہیں کہ کسی کے لئیے کیا مفید ہے اور کیا نقصان دہ؟' مثال کے طور پر، کسی پر چلانے سے ان کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں، مگر ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی بدولت کسی بڑے خطرے سے بچ جائیں۔

بودھی اخلاقیات خود تلف رویہ سے پرہیز پر زور دیتی ہیں – خصوصاً ایسے اعمال سے جو ہمیں مستقبل بعید میں نقصان پہنچائیں۔ اگر ہم اس ڈرائیور پر جو ہم سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے چلائیں تو اس سے ہمیں وقتی طور پر اچھا تو محسوس ہو گا، مگر اس سے ہمارا من پریشان اور ہماری شکتی لرزاں ہو گی، جس سے ہمارے من کا سکون برباد ہو گا۔ جب ہم چلانے کی عادت ڈال لیتے ہیں تو ہم کوئی بھی بے آرامی برداشت نہیں کر پاتے؛ اس سے نہ صرف ہمارے دوسروں سے تعلقات خراب ہوتے ہیں بلکہ ہماری صحت پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

اس کے بالمقابل، جب ہمارا رویہ دوسروں کے لئیے پر خلوص فکر، پیار، درد مندی اور مفاہمت سے عبارت ہو، تو ہم فطری طور پر چلانے سے گریز کرتے ہیں خواہ ہمارا من یوں کرنے پر مائل ہو – ہم خندہ دلی سے اس ڈرائیور کو گزر جانے دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ڈرائیور بھی خوش اور ہم بھی خوش؛ ہم ایک خوش باش من کے ساتھ پر سکون اور شانت رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی چیخنے چلانے کی احتیاج کو روکنا نہیں پڑتا اور نہ ہی ہم شکست خوردگی کا شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہر کوئی جلد از جلد اپنی منزل مقصود پر پہنچنا چاہ رہا ہے، اور ہم اپنی ڈرائیو کو گاڑیوں کی دوڑ میں تبدیل کرنے کی حرکت کی بیکاری اور بے مقصدیت کو محسوس کرتے ہیں۔

بدھ مت کے ہاں نقصان دہ رویہ سے مراد پریشان کن جذبات اور بری عادات کے اثر تلے بے قابو ہو کر کچھ کرنا ہے۔ ہم عیوب و محاسن کے بیچ درست تفریق کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، یا تو محض اس لئیے کہ ہم نہیں جانتے کہ بھلا کیا ہے یا پھر اگر ہم جانتے بھی ہیں تو ہم ضبط نفس سے مکمل طور پر عاری ہوتے ہیں۔ لالچ، غصہ اور ہمارے فعل، گفتار اور فکر جب وہ ان پریشان کن جذبات کی تحریک سے پیدا ہوۓ ہوں، کے نتائج سے بھولپن کی حد تک بے خبری، یہ ہیں موٹے موٹے پریشان کن جذبات۔ اور اس پر طرہ یہ کہ بیشتر اوقات ہم اپنی قدر و قیمت کو کم پہچانتے ہیں، لہٰذا اس بات کی بالکل پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارا رویہ کیسا ہے۔ ہمارا رویہ ایسا ہے 'جو بھی ہے سو ہے'، جہاں کسی چیز سے کوئی سروکار نہیں سواۓ چند مصنوعی اشیاء کے جیسے ہمارا لباس کیسا ہے، ہمارے بال کیسے ہیں، اور ہمارے دوست کون ہیں۔ ہم قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ہمارے رویہ کا ہماری پوری نسل، قوم، مذہب یا جس کسی گروہ سے ہم منسلک ہیں پر کیا اثر پڑتا ہے۔ ہمارے اندر عزتِ نفس کی کمی ہے۔

دس تباہ کن اعمال کی روائتی فہرست

ایسے بہت سارے طبعی، لفظی اور دماغی فعل ہیں جو ضرر رساں ہیں۔ بدھ مت ان میں سے دس جو سب سے زیادہ نقصان دہ ہیں کی خاکہ کشی کرتا ہے۔ یہ اس لئیے نقصان دہ ہیں کیونکہ یہ تقریباً ہمیشہ پریشان کن جذبات، بے حیائی، بے شرمی، یا لا تعلقی کے رویہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کا ماخوذ ہماری پختہ عادات ہیں، اور اس کے نتیجہ میں یہ ہمارے منفی رحجانات کو تقویت بخشتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ضرر رساں رویہ عدم مسرت سے عبارت زندگی کا پیغام دیتا ہے جس میں ہم اپنے لئیے مسائل کو جنم دیتے رہتے ہیں۔

مادی رویہ کی تین قسمیں ایسی ہیں جو نقصان دہ ہیں:

  1. 'کسی کو جان سے مارنا' -  کسی انسان سے لے کر کسی ننھے مُنے کیڑے تک۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی بھی ناگوار شے کا وجود برداشت نہیں کرتے؛ کسی بھی نا پسندیدہ شے کی جانب ہمارا فوری رد عمل یہ ہوتا ہے کہ اسے ضرب لگائیں اور تباہ کر دیں؛ ہم اکثر لڑ پڑتے ہیں۔
  2. 'کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کر لینا' -  چوری، مستعار لی ہوئی چیز واپس نہ کرنا، کسی کی کوئی چیز ان کی اجازت کے بغیر استعمال میں لانا، وغیرہ۔ اس کے نتیجہ میں ہم اپنے آپ کو ہمیشہ فقر اور مظلومیت کا شکار محسوس کرتے ہیں؛ کوئی ہمیں کوئی شے ادھار نہیں دیتا؛ ہمارے تعلقات کی بنیاد باہمی استحصال بن کر رہ جاتی ہے۔
  3. 'غیر مناسب جنسی رویہ اختیار کرنا' – زنا بالجبر، منکوحہ کے علاوہ کسی سے بد کاری، محرم کے ساتھ بد کاری، وغیرہ۔ اس کے نتیجہ میں ہمارے تعلقات عارضی ہوتے ہیں اور ہم اور ہمارے رو بہ تکرار ساتھی ایک دوسرے کو معروضیت بخشتے ہیں؛ بنیادی طور پر ہم غلیظ اشیا کو پُرکشش پاتے ہیں۔

لسانی رویہ کی چار قسمیں ایسی ہیں جو نقصان دہ ہیں:

  1. 'دروغ گوئی' -  جان بوجھ کر ایسی بات کہنا جو سچ نہ ہو، دوسروں کو گمراہ کرنا، وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ ہماری بات کا کوئی یقین کرتا ہے اور نہ ہی اعتبار، اور ہم بھی کسی کی بات کو سچ نہیں مانتے؛ ہم حقیقت اور اپنی من گھڑت باتوں کے درمیان تمیز نہیں کر پاتے۔
  2. 'تفرقہ ڈالنے والی باتیں کرنا' – دوسروں کی بد خوئی کرنا تا کہ ان کے درمیان پھوٹ پڑے یا ان کی دشمنی اور بڑھے۔ اس کے نتیجہ میں ہماری دوستیاں دیرپا نہیں ہوتیں کیونکہ ہمارے دوست ہمارے اوپر شک کرتے ہیں کہ ہم ان کی بھی پیٹھ پیچھے برائی کرتے ہوں گے؛ ہمارا کوئی قریبی دوست نہیں ہوتا اور ہم تنہا محسوس کرتے ہیں۔
  3. 'ترش کلامی' -  ایسی باتیں کہنا جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔ اس کے نتیجہ میں لوگ ہمیں ناپسند کرتے ہیں اور ہم سے گریزاں ہوتے ہیں؛ اور جب وہ ہمارے ساتھ بھی ہوں تو وہ خوش نہیں ہوتے اور اکثر اوقات جواباً ہمیں بری باتیں کہتے ہیں؛ اس طرح ہم اور بھی تنہا ہو جاتے ہیں
  4. 'یاوہ گوئی' -  فضول باتوں سے اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنا؛ لوگ جب کسی تعمیری کام میں مصروف ہوں تو اپنی بیکار باتوں سے ان کے کام میں مداخلت کرنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی ہمیں سنجیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا؛ ہم کسی کام پر بھی توجہ نہیں دے پاتے بغیر اپنے دستی آلہ کو ہر چند منٹ کے وقفہ سے چیک کئیے؛ ہم کوئی کار آمد کام نہیں کر پاتے۔

سوچ کے تین انداز ایسے ہیں جو ضرر رساں ہیں:

  1. 'حریصانہ خیالات' – حسد کی بنا پر، کسی اور کے پاس جو کوئی شے یا گن ہے اسے حاصل کرنے یا ان پرسبقت لے جانے کی اضطراری سوچ اور منصوبہ بندی۔ اس کے نتیجہ میں، ہمیں کبھی من کا سکون یا خوشی نصیب نہیں ہوتی، کیونکہ ہم ہر وقت دوسروں کی کامیابیوں کے احساس کی وجہ سے دکھی رہتے ہیں۔
  2. 'کینہ پروری' -  کسی کو نقصان پہنچانے کی خاطر یا ان کے کسی قول یا فعل کا بدلہ لینے کی خاطر منصوبہ بندی کرنا۔ اس کے نتیجہ میں، نہ تو ہم کبھی محفوظ محسوس کرتے ہیں اور نہ ہی شانت؛ ہم مستقل طور پر اس خوف تلے رہتے ہیں کہ دوسرے لوگ بھی ہمارے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
  3. 'تحریف زدہ معاندانہ سوچ' -  نہ صرف حقیقت کو ہٹیل سوچ سے جھٹلانا بلکہ اپنے من ہی من میں دوسروں سے جو ہم سے متفق نہیں ہیں جھگڑنا اور جارحانہ انداز سے ان کی ہتک کرنا۔ اس کے نتیجہ میں، ہم اور بھی تنگ نظر ہو جاتے ہیں اور کسی بھی مفید مشورے یا نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں؛ ہمارے دل کے دروازے بھی اوروں کے لئیے بند ہو جاتے ہیں، اور ہم ہمیشہ اپنے ہی بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور یہ کہ ہم ہمیشہ صحیح ہیں؛ ہم جاہل اور احمق رہتے ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ ہم کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، ان دس خامیوں سے پرہیز ہر اس شخص کے لئیے مناسب ہے جو ایک خوشگوار زندگی بسر کرنا چاہتا ہے۔

نقصان دہ رویّہ کے دس وسیع تر طبقات

دس ضرر رساں اعمال دس قسم کے رویہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس سے ہمیں بچنا ہے۔ ہمیں اپنے رویہ اور اس کے نتائج کے متعلق جس قدر بھی ممکن ہو وسعت نظری سے سوچنا ہے۔ یہاں خاطرِ فکر چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں، مگر مجھے یقین ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اس میں مزید اضافہ کر سکتا ہے۔

  1. 'کسی کی جان لینا' -  مار پیٹ سے کام لینا، کسی کو کوئی بھاری کام کرنے کے لئیے مدد درکار ہو تو اسے نظر انداز کرنا، کسی بیمار یا عمر رسیدہ شخص کے ہمراہ تیز تیز چلنا، یا کسی قسم کا جسمانی نقصان پہنچانا بشمول فضا کو آلودہ کرنے کے اور غیر تمباکو نوشوں کے قریب، خصوصاً بچوں کے، تمباکو نوشی کرنا
  2. 'کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا' -  انٹرنیٹ سے غیر قانونی طور پر مواد ڈاؤن لوڈ کرنا، بنا اجازت چربہ سازی، دھوکہ دہی، ٹیکس کی چوری، دوسروں کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی، حتیٰ کہ اپنے ساتھی یا دوست کی پلیٹ سے ان سے پوچھے بغیر لقمہ لینا
  3. 'جنسی بے راہ روی' -  کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا، بوقتِ جماع اپنے ساتھی کی ضرورت کو نظر انداز کرنا، اور بہت کم یا حد سے زیادہ پیار کا اظہار کرنا
  4. 'دروغ گوئی' -  کسی کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں اپنے سچے جذبات اور خیالات کے متعلق دھوکہ دہی کرنا
  5. 'تفرقہ ڈالنا' – کوئی شخص جو کوئی تعمیری یا ادھرمی کام کر رہا ہو یا کرنا چاہ رہا ہو اس کی حوصلہ شکنی کرنا
  6. 'درشت لہجہ میں بات کرنا' -  لوگوں پر چیخنا چلانا، جارحانہ انداز سے بات کرنا، جب کوئی پریشان ہو اس سے غیر ہمدردانہ، برا سلوک کرنا، اور غیر موزوں صورت حال یا غیر مناسب موقع پر گندی، طنزیہ زبان استعمال کرنا
  7. 'یاوہ گوئی' -  کسی کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا اور ان کے راز افشاء کرنا، معمولی باتیں ٹیکسٹ کرنا یا ان کے بارے میں پیغام بھیجنا، خصوصاً آدھی رات گئے، اپنی روز مرہ زندگی کے معمولی معاملات سے متعلق تصاویر اور تبصرے سماجی ذرائع ابلاغ پر لکھنا، کسی کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں ٹوک دینا، اور سنجیدہ گفتگو کے دوران احمقانہ فقرہ کسنا یا کوئی بیوقوفی کی بات کہنا
  8. 'حریصانہ سوچ' -  اس بات کی تمنا کرنا کہ جس شخص کے ساتھ ہم ریستوران میں کھانا کھا رہے ہیں وہ اپنا طعام ہمیں چکھنے کی پیشکش کریں گے، اور جب سماجی ذرائع ابلاغ پر لوگوں کی تصاویر اور لکھائی دیکھیں جو اس بارے میں ہے کہ وہ کیسے مزے لوٹ رہے ہیں، تو اپنی حالت زار پر تاسف کا اظہار کریں اور دل میں رشکیہ خیال لائیں کہ کاش ہم بھی ایسے ہی مقبول اور خوش و خرم ہوتے
  9. 'کینہ پروری' -  جب کوئی شخص ہم سے ترش کلامی کرتا ہے اور ہم اس کا کوئی فوری جواب نہیں دے پاتے، تو بعد از آں اپنے من میں سوچتے رہنا کہ میں اس کو کیا جواب دے سکتا تھا جس سے اس کے جذبات مجروح ہوتے
  10. 'تحریف زدہ معاندانہ سوچ' -  کسی شخص کے بارے میں جو کسی ایسے معاملہ میں ہماری مدد کرنا چاہ رہا ہے جس میں ہم اپنے کو طاق سمجھتے ہیں منفی اور معاندانہ سوچ رکھنا، اور یہ سوچنا کہ کوئی شخص کتنا احمق ہے جو کہ کسی ایسے شعبہ میں اپنے آپ کو بہتر بنانا چاہ رہا ہے جو کہ نقصان دہ نہیں ہے، لیکن جس میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں یا جسے ہم غیر اہم تصور کرتے ہیں۔

اپنی ذات کو نقصان پہنچانا

جس طرح ہم اپنے آپ سے پیش آتے ہیں وہ اتنا ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے جتنا کہ ہمارا رویہ دوسروں کے لئیے ہوتا ہے۔ خوشگوار زندگی گزارنے کی خاطر ہمیں ان منفی طور اطوار کی شناخت اور ان کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو، دس نقصان دہ اطوار اس قسم کے رویہ کی نشاندہی کرتے ہیں جس کا ہمیں سدِ باب کرنا ہے۔

  1. 'کسی کی جان لینا' -  اپنے آپ سے جسمانی بد سلوکی بذریعہ حد سے زیادہ کام، گھٹیا خوراک، ورزش کا فقدان، یا نیند پوری نہ کرنا 
  2. 'کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا' -  بیکار چیزوں پر پیسہ خرچ کرنا، اپنی ذات پر پیسہ خرچ کرنے کے معاملہ میں بخل سے کام لینا جبکہ اس کی ضرورت نہیں
  3. 'جنسی بے راہ روی' -  ایسے جنسی فعل کرنا جن سے ہماری صحت کو خطرہ لاحق ہو، یا فحش لٹریچر سے اپنے من کو آلودہ کرنا
  4. 'دروغ گوئی' -  اپنے آپ کو اپنے جذبات اور نیت کے متعلق دھوکہ دینا
  5. 'تفرقہ ڈالنا' -  ایسے ناگوار انداز سے بات کرنا، جیسے ہر وقت شکائتی لہجے میں بات کرنا، کہ لوگ ہم سے اس قدر نالاں ہوں کہ وہ ہماری رفاقت سے گریز کریں
  6. 'درشت لہجہ میں بات کرنا' -  اپنے آپ کو برا بھلا کہنا
  7. 'یاوہ گوئی' -  اپنے ذاتی معاملات، شکوک و شبہات اور پریشانیوں کے بارے میں بلا امتیاز بات کرنا، یا گھنٹوں سوشل میڈیا پر گزارنا، بیکار قسم کی ویڈیو گیمز کھیلتے رہنا، یا انٹرنیٹ پر موج رانی کرنا
  8. 'حریصانہ سوچ' -  ایک کمال پسند ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو مات کرنا
  9. 'کینہ پروری' -  یہ احساس جرم کہ ہم کس قدر برے انسان ہیں اور ہمیں خوش ہونے کا کوئی حق نہیں
  10. 'تحریف زدہ معاندانہ سوچ' -  یہ سوچنا کہ ہم کس قدر احمق ہیں جو کہ اپنے آپ کو بہتر بنانے یا دوسروں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اپنے تباہ کن اطوار سے کیسے نمٹا جاۓ

جب ہم اپنے ماضی کے تمام ضرر رساں اطوار کا جائزہ لیں، تو یہ لازم ہے کہ اپنے بارے میں منفی احساس سے گریز کریں۔ احساس جرم کے ہاتھوں مفلوج ہو جانے کی نسبت ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہئیے کہ ہم نے جو کیا وہ لا علمی کے سبب ہوا اور یہ کہ ہم اپنے اعمال کے اثرات کے بارے میں بھولپن کا شکار تھے: ہم پریشان کن جذبات کے غلام تھے، نہ کہ ہم بنیادی طور پر کوئی برے انسان ہیں۔ ہم اپنے کئیے پر نادم ہوتے ہیں، یہ سوچتے ہوۓ کہ کاش ایسا نہ ہوتا، مگر یہ بھی جانتے ہوۓ کہ ماضی کو بدلا نہیں جا سکتا۔ جو ہو گیا سو ہو گیا – مگر اب ہم یہ تہیّہ کرتے ہیں کہ ہم پوری کوشش کریں گے کہ اس رویہ کا اعادہ نہ ہو۔ پھر ہم اس مثبت راہ کی توثیقِ مکرر کرتے ہیں جس پر ہم نے چلنا ہے، اور پیار اور درد مندی کی بنیاد پر قائم مثبت اعمال پر عمل کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ اس سے مزید مثبت عادات استوار ہوتی ہیں جو نہ صرف توازن پیدا کرتی ہیں بلکہ آخر کار منفی عادات کی قوت کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔

لوگ اور حالات جن سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے ان سے معاملہ کرنے میں ہم قدرے دھیرج سے کام لیتے ہیں، تا کہ ہم اپنے حسب عادت اضطراری رد عمل اور درست عمل کے درمیانی وقفہ کو بڑھا سکیں۔ اس لمحہ میں ہم سود مند اور ضرر رساں رویہ کے درمیان تمیز کرتے ہیں جو ہمیں نقصان دہ فعل، گفتار اور افکار سے بچاتا ہے۔ جیسا کہ عظیم ہندوستانی گورو شانتی دیو نے کہا، "لکڑی کے ایک بلاک کی مانند رہو۔" ہم ایسا کر سکتے ہیں مگر اس کے لئیے سمجھ بوجھ، پیار، درد مندی، اور اپنے اور دوسروں کے لئیے عزت و احترام درکار ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی چیز کو دبا رہے ہیں جو کہ بعد میں ہمیں اور زیادہ پریشان کرے گی۔ ایک زیرک اور درد مند من کے توسط سے ہم منفی توانائی کا خاتمہ کرتے ہیں جو ہمیں ایسا کچھ کہنے یا کرنے پر اکساتی ہے جس پر ہم بعد میں پچھتاتے ہیں۔ تو اس طرح ہم مثبت جذبات اور سمجھ بوجھ کے ذریعہ تعمیری رویہ اپناتے ہیں۔

خلاصہ

جب ہم ضرر رساں اطوار سے پرہیز کرتے ہیں تو اس سے محض دوسروں کو ہی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ ہم خود اس سے سب سے بڑھ کر مستفید ہوتے ہیں۔ جب ہم یہ بات جان لیتے ہیں کہ ہمارے اپنے طور طریقے ہماری عدم مسرت کا سبب ہیں تو ہم خود بخود  - در  حقیقت، ہم منفی، نقصان دہ عادات و اطوار سے بچنے میں خوشی محسوس کریں گے۔ جب ہم ان عادات کو تقویت پہنچانا بند کر دیں گے، تو ہمارے دوسروں کے ساتھ تعلقات مضبوط اور پر خلوص ہوں گے، اور ہم اپنے من میں مزید شانت ہوں گے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے من شانت ہوں تو ہمیں فعل، گفتار اور افکار کے تباہ کن اطوار سے جان چھڑانے کی کوشش کرنا ہو گی۔ ایسا کرنے سے ہمارا معیار زندگی بہت بلند ہو گا۔ 

Top