کرم پر خطبہ

روزمرہ زبان میں چار بلند و بالا سچائیاں

ایک بار پھر حالاپا میں اپنی موجودگی پر میں بہت خوش ہوں اور اس شام جس موضوع پر گفتگو کے لئے مجھے کہا گیا ہے وہ ہے کرم۔ جب ہم بدھ مت سے متعلق کسی موضوع کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ خیال کر لینا بھی یقیناً اہمیت رکھتا ہے کہ ہم یہ مطالعہ کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ اس کی اہمیت کیا ہے اور اسے بدھ مت کے باب میں کیا مقام حاصل ہے۔ مہاتما بدھ بنیادی طور پر عام لوگوں کے تجربات کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ زندگی میں ہمیں کیسے تجربات ہوتے ہیں، کیا کچھ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ بنیادی چیز کیا ہے جس سے ہم سب کا واسطہ پڑتا ہے، سب کا؟ وہ یہ ہے کہ کسی وقت ہم نا خوش ہوتے ہیں اور کسی وقت خوش۔ اسی طرح ہم زندگی کے تجربات سے گزرتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟

کسی وقت خوش اور کسی وقت ناخوش ہونے کی صورت حال کو جب ہم پرکھتے ہیں تو ہم اس حقیقت سے واقف ہو جاتے ہیں کہ بہت سے مسائل اس سے وابستہ ہیں۔ جب ہم ناخوش ہوتے ہیں تو ظاہر ہے یہ ایک مصیبت ہوتی ہے۔ کوئی بھی ناخوش ہونا پسند نہیں کرتا۔ کیا کوئی کرتا ہے؟ ہم بعض چیزوں کو دیکھ کر ناخوش ہو سکتے ہیں مثلاً کسی دوست کی دور دراز روانگی، یا کوئی ناخوشگوار بات سن کر، یا مختلف باتیں سوچ کر جو مختلف جذبات سے وابستہ ہیں۔ لیکن کبھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم ناخوش ہیں مگر ایسا نظر نہیں آتا کہ اس بات کا تعلق ان چیزوں سے ہے جو ہم دیکھ یا سن رہے ہیں یا جو ہمارے گردوپیش میں ہو رہا ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے، ہے کہ نہیں؟

لیکن خوشی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ بعض اوقات ہم خوش ہوتے ہیں، کیا نہیں ہوتے؟ ہم چیزین دیکھنے سے،باتیں سننے سے ، اپنے کسی پیارے کو سننے سے، اور ہم کسی چیز کے بارے میں سوچنے سے بھی خوشی محسوس کرتے ہیں جیسے کسی بہت اچھے وقت کو یاد کر کے جو ہم نے کسی کے ساتھ گزارا تھا۔ لیکن جب ہم زیادہ گہرائی میں جھانکتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جو خوشی ہمیں ہوتی ہے اس کے ساتھ بھی کچھ مسائل وابستہ ہیں۔ سب سے پہلا یہ کہ یہ کبھی پائدار نہیں ہوتی اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کتنے عرصہ تک قائم رہے گی۔ اور ایسا کبھی نہیں لگتا کہ یہ کافی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک چمچہ بھر غذا کھا کر خوش ہوں مگر یہ کافی نہیں۔ ہم اور کھانا چاہتے ہیں ۔ در حقیقت یہ ایک بہت دلچسپ سوال ہے۔ حقیقی لطف اندوزی کے لئے تمہیں کسی شے کی کتنی مقدار کھانی چاہئے؟ اس پر ذرا غور کرو۔ اس خوشی میں دوسرا عیب، دوسری خرابی یہ ہے کہ ہم آنے والے لمحہ سے بے خبر ہیں۔ ہم اگلے پل تک مسلسل خوش رہ سکتے ہیں یا ہم نا خوش ہو سکتے ہیں۔ اس میں تبدیلی آ سکتی ہے، لہٰذا اس خوشی کی کوئی ضمانت نہیں۔

در حقیقت خوشی اور ناخوشی کا اس قسم کا نظریہ یا تجزیہ بدھ مت کے نزدیک کوئی انوکھی بات نہیں، دنیا کے بہت سے عظیم مفکروں نے یہ مشاہدہ کیا ہے اور یہی تعلیم دی ہے۔ مگر مہاتما بدھ نے جو تعلیم دی اور انہوں نے اسے جس طرح سے سمجھا وہ ایک گہرے مسئلے اور دکھ کی شکل میں ہے۔ مہاتما بدھ نے ہر شخص کی زندگی کے اس نشیب و فرازکو زیادہ گہرائی میں دیکھا، مسرت اور عدم مسرت کو جو اوپر نیچے، کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ اور اس سے جو سمجھا وہ یہ تھا کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کا سبب در حقیقت ہر اس لمحے کا حصہ ہے جس سے ہم گزرتے ہیں۔ ہمیں یہ جو مسرت اور عدم مسرت کے کم زیادہ ہونے والی کیفیتوں کا تجربہ جس طریقے سے ہوتا ہے یہ عدم اطمینان کی صورت حال کو مستحکم کر دیتا ہے۔

لہٰذا تب مہاتما بدھ نے غور کیا اور دیکھا کہ (اس بات کا) سبب ہر لمحے میں پوشیدہ تھا اور وہی اس عدم اطمینان کی صورت حال کو تقویت دیتا ہے۔ اوریہ حقیقت کا دھندلا پن ہے۔ بہ الفاظ دیگر یہ فریب نظری ہے ہمارے وجود کے بارے میں، دوسروں کے وجود کے بارے میں، اور دنیا کے وجود کے بارے میں۔

یہ مشاہدہ اس سے مختلف ہے جو دوسروں نے اس بارے میں کہا ہے۔ مثال کے طور پر مسرت اور عدم مسرت کا نشیب و فراز جس کا ہمیں تجربہ ہوتا ہے وہ بنیادی طور پر سزا اور جزا کی وجہ سے ہے، قاعدے کے مطابق یا قاعدے کے خلاف چلنے کے سبب۔ بہت سے معلموں کے مطابق مسرت اور عدم مسرت کی بنیادی وجہ فرمانبرداری ہے۔ مگر مہاتما بدھ نے کہا: کہ یہ ایسے نہیں۔ اس کی اصل وجہ ہماری بے یقینی ہے۔ یہ فرمانبرداری اور نا فرمانبرداری کا مسئلہ نہیں۔ اس کا تعلق زندگی کے حوالے سے ہے، یقین ہونے سے ہے۔ آگے چل کر مہاتما بدھ نے کہا کہ جس طرح ہمیں زندگی کے تجربات ہوتے ہیں تو بے یقینی زندگی کا لازمی جزو نہیں ہے۔ اس کا وجود لازم نہیں۔ اسے مکمل طور پر دور کیا جا سکتا ہے تا کہ پھرکبھی اس کا اعادہ نہ ہو۔ پھر اس نے کہا کہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طریقے کو تبدیل کر دیا جائے جس طرح ہم چیزوں کو اپنے تجربے میں لاتے ہیں۔

اس بے یقینی سے نجات حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم کسی سے گزارش کریں کہ وہ ہمیں اس سے نجات دلوا دے۔ یہ در اصل ہمیں اپنے رویہ میں اور حقیقت کے بارے میں اپنی فہم و فراست میں تبدیلی لانے کا معاملہ ہے۔ اگر ہم بے عقلی کو تعقل میں تبدیل کر دیں اور پھر اس پر قائم رہیں تب ہمیں معلوم ہو گا کہ ہماری مسرت اور عدم مسرت میں وہ نشیب و فراز نہیں اور ہم مسرت اور عدم مسرت کے نشیب و فراز کو استقلال نہیں دیتے۔ پس روز مرہ کی زبان میں مہاتما بدھ کا بیان کردہ یہ نہائت بنیادی درس ہے۔

کرم رویوں کے اسباب و اثرات سے نبرد آزما ہوتا ہے

جب ہم کرم کی بات کرتے ہیں، تو کرم ہی اس بات کی بنیادی وضاحت ہے کہ مسرت اور عدم مسرت کے حوالے سے ہمارے تجربات کیوں اور کیسے اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہماری بے یقینی کس طرح مسرت اور عدم مسرت اور خوشگوار اور ناخوشگوار حالات کے نشیب و فراز پیدا کرتی ہے؟ دوسرے لفظوں میں علت و اثر سے نبرد آزمائی ہے جو کہ ایک نہائت پیچیدہ موضوع ہے۔ جیسا کہ مہاتما بدھ نے کہا کہ پانی کی بالٹی نہ تو پہلے قطرے سے بھرتی ہے نہ ہی آخری قطرے سے، بلکہ یہ بہت سارے قطروں کو جمع کرنے سے بھرتی ہے۔ اسی طرح ہمیں زندگی کا جو تجربہ ہوتا ہے وہ کسی ایک سبب کا نتیجہ نہیں ہوتا۔ سبب محض کوئی ایک چیز نہیں ہے جو ہم نے بس ابھی ابھی تھوڑی دیر پہلے کی یا صدیوں پہلے کی۔ یہ بے شمار علُتی عناصر اور حالات کا نتیجہ ہے۔

یہ درحقیقت سائنسی نکتہءنظر سے خاصہ ہم آہنگ ہے۔ کیونکہ یہ کہ رہا ہے کہ واقعات خلا میں نہیں ہو رہے،در اصل ہر شے دوسروں سے مربوط ہے۔ اس کی ایک سادہ سی مثال یہ ہے کہ اگر ہسپانوی لوگ امریکہ نہیں آتے تو آج ہم سب اس کمرے میں یہ تقریر نہیں سن رہے ہوتے، کیا ایسا ہوتا؟ وہ ہمارے یہاں ہونے کی ایک وجہ ہے۔ اسی طرح یہ جس سے ہم اب یا کسی بھی لمحے گزرتے ہیں اس کی بے شمار مختلف قسم کی بلا واسطہ اور بالواسطہ وجوہات ہیں۔

کرم، بہر حال، ان اسباب کی وضاحت کر رہا ہے جو خاص طور پر ہمارے من سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے تجربات پراثر اندازاور کئی اسباب بھی ہیں – طبیعاتی اسباب، مثلاً موسم، وغیرہ۔ بہت سی چیزیں جو ہمارے اوپر اثر انداز ہوتی ہیں وہ نہ صرف ہمارے من کی پیداوار ہیں بلکہ دوسروں کے من سے بھِی آتی ہیں۔ مثلاً سیاستدانوں کے فیصلے جن سے ہم متاثر ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی اس بے یقینی کے ساتھ خلط ملط ہو سکتا ہے۔ کیا ایسا نہیں؟

کرم ایمان کے بارے میں بات نہیں کرتا، نہ ہی یہ قسمت اور مقدر اور اس قسم کی چیزوں کی بات کرتا ہے۔ بلکہ یہ کہتا ہے کہ چیزیں کس طرح ہمارے تجربے میں آتی ہیں اور ہمارے رویے ہمارے زندگی کے تجربات پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں لفظ کرم بہت عام سے مفہوم میں استعمال ہوا ہے ہر اس چیز کے حوالے سے جو رویّاتی اسباب و اثرات کے ذیل میں آتی ہے، دوسرے لفظوں میں علت و معلول کا وہ رشتہ جو ہمارے رویّے اور برتاؤ سے پیدا ہوتا ہے۔ کرم عموماً رویّاتی سبب و اثر کے پورے موضوع کا احاطہ کر سکتا ہے ۔ یا یہ صرف کسی ایک مخصوص پہلو کے تمام مرحلوں کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم کرم کے نظام کار کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں کچھ تفصیل سے ادراک، ذرا زیادہ درستگی کے ساتھ اس پر نظر ڈالنی ہو گی۔

ویڈیو: ڈاکٹر الیگزینڈر برزن ـ «کرم کو کیونکر سمجھا جاۓ؟»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

کرم کی وضاحت کے متعدد قاعدے

جب ہم بدھ مت کے اندر زیادہ درست توضیحات پر نظر ڈالتے ہیں تو جلد ہی جان لیتے ہیں کہ ادھر صرف ایک ہی وضاحت نہیں۔ کچھ مغربیوں کو یہ اک ذرا تکلیف دہ لگتا ہے۔ اگر ہمارا کوئی مسٔلہ یا مرحلہ ہے تو ہم اپنے اپنے نکتہءنظر کے مطابق اسے کئی مختلف طریقوں سے بیان کر سکتے ہیں۔ مغرب میں ہم یوں کرتے ہیں کہ چیزوں کی سماجی، نفسیاتی یا معاشی نکتہءنظر سے توضیح بیان کرتے ہیں – یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ مختلف توضیحات دراصل پوری طرح بات کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتی ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، اور جو ہو رہا ہے اسے بیان کرنے کے لئے ان طریقوں میں سے ہر اک کسی خاص نظام فکر پر قائم ہے – نظام نفسیات، نظام سیاسیات، معاشیات وغیرہ۔ بدھ مت میں ہمارے یہاں ایسا ہی ہے، تو ہم دیکھتے ہیں کہ کرم کے نظام عمل کی وضاحت بیان کرنے کے کئی ایقانی افکار ہیں۔ یہ انداز فکر مغرب میں بھی رائج ہے بلکہ اس حد تک کہ ایک ہی شعبے میں، مثلا" نفسیات میں ایک وضاحت فرائڈ کی ہو سکتی ہے، دوسری یُنگ کے نکتہءنظر سے، اشتراکیت سے یا پھر سرمایہ دارانہ سوچ کے مطابق۔ بدھ مت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان متعدد نظاموں پر تفکر درحقیقت سود مند ہے کیونکہ یہ ہمیں مختلف نوع کی بصیرت دیتے ہیں کہ کرم کیسے کام کرتا ہے۔ فی الحال اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کہ ان نظاموں میں کیا تفریق ہے مگر یہ جاننا فائدہ مند ہے کہ اور کئی نظام بھی ہیں۔

اس کا یقیناً ضمنی مطلب یہ ہے کہ ہم ان مغربی نظاموں کو بھی اپنا سکتے ہیں جو اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ہمارے تجربات کے بیچ کیا ہو رہا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ اس کے متناقض ہو جو ہم کرم کے حوالے سے کہتے ہیں۔

کرم کسی احتیاج کے من کی عنصرکی حیثیت سے

جب ہم کرم کے بارے میں کسی ایک خاص حوالے سے بات کرتے ہیں، کسی ایک خاص نظام کی پیروی کرتے ہوۓ -بطور اک من کی عنصر۔ تو "من کی عنصر" سے ہماری کیا مراد ہے؟ من کی عنصر کسی شے سے واقفیت کا طریقہ ہے۔ مثال کے طور پر ہم کسی شخص کو دیکھتے ہیں اور ہم اس کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔ اس مشاہدے میں بہت سارےخیالی عناصر شامل ہیں۔ ان کا تعلق ان مختلف پہلوؤں سے ہے جن کے ذریعہ ہم اس شخص سے واقف ہیں۔ بعض بہت بنیادی نوعیت کے ہیں مثلاً اس شخص کا دوسرے لوگوں سے یا ایک دیوار سے امتیاز۔ دلچسپی – یہ اس شخص کو دیکھتے وقت اس کی موجودگی کا احساس ہے۔ ہو سکتا ہے اس پر پوری توجہ مرکوز ہو اور مختلف جذبات بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ سب خیالی عناصر ہیں اور یہ اس لمحہ باہم کارفرما ہوتے ہیں جب ہم اس شخص کی جانب قدم بڑھاتے ہیں۔

ان میں سے کونسا من کی عنصر کرم ہے؟ کرم وہ من کی عنصر ہے جو ہمیں اس شخص کی جانب کھینچتا ہے۔ یہ وہ احتیاج ہے جو اس شخص کو دیکھنے اور اس کی جانب جانے سے وابستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض نظریات کے تحت کرم کو قریب قریب بطور ایک مادی قوت کے بیان کیا گیا ہے۔ یقیناً دوسرے خیالی عناصر بھی ہو سکتے ہیں مثلاً ارادہ۔ ہم اس شخص کے ساتھ کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ ہماری اس سے گلے ملنے کی نیت بھی ہو سکتی ہے یا اس کے منہ پر ایک گھونسہ رسید کرنے کی۔ اس میں بہت سے پہلو شامل ہیں۔ مگر کرم وہ حاجت پیدا کرنے والی خیالی قوت ہے جوہمیں اس شخص کو دیکھتے اور اس کی جانب قدم بڑھاتے ہوۓ اس کو گلے لگانے یا گھونسہ مارنے کے عمل کی طرف لیجا رہی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ خیالی احتیاجات محض جسمانی حرکتوں مثلاً گلے لگانے یا گھونسہ مارنے کے لئے ہی نہیں ہوتیں۔ ایک ایسی محرک خیالی احتیاج بھی ہو سکتی ہے جو کسی سوچ کا باعث ہو۔ اس کا تعلق کچھ کہنے یا کرنے سے نہیں۔ چاہے ہم کچھ سوچ رہے ہوں ، کہ رہے ہوں یا جسمانی طور پر کچھ کر رہے ہوں، ان سب میں کسی نہ کسی طرح کی خیالی احتیاج شامل ہوتی ہے۔

کرمائی برتاؤ کے اثرات

سائینس کی مانند بدھ مت کی تعلیم بھی علت و معلول کے حوالے سے ہے۔ تو اگر ہمارے قول، فعل اور افکار اس احتیاج یعنی کرم کے باعث ہیں تو اس کا ضرور کوئی نتیجہ نکلے گا۔ کرم کا تعلق زیادہ تر اس بات چیت سے نہیں کہ ہمارے رویے کا دوسروں پر کیا اثر ہو گا – اگرچہ اس کا اثر دوسروں پر یقیناً ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جو سلوک دوسروں سے کرتے ہیں اس کے ان پر اثر کا تعلق حقیقتاً ایک بڑی حد تک ان پر منحصر ہے۔ ہم جو سلوک دوسروں سے کرتے ہیں اس کے اثرات بعض اوقات محض جسمانی ہوتے ہیں: آپ نے کسی کو مارا اور اس کی جلد چھل گئی۔ یہ محض علت و اثر کی بات ہے۔ ہم کرم کے حوالے سے اس کی بات نہیں کر رہے۔ مگر ہم کسی سے جو کہتے یا کرتے ہیں اس کا وہ کیا اثر لیتے ہیں اور کیسے لیتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے۔ ہے کہ نہیں؟ مثلاً اگر ہم کسی کو کوئی سخت ترش بات کہیں تو ان کے جذبات بری طرح مجروح ہو سکتے ہیں، وہ سخت ناراض ہو سکتے ہیں۔ مگر وہ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ میں ایک بہت احمق انسان ہوں اور وہ میری بات کا یقین نہیں کرتے اور مجھے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے میری بات سنی ہی نہ ہو یا غلط سنی ہو۔ ہو سکتا ہے ان کا من کسی اور خیال سے مغلوب ہو۔ تو اگرچہ ہماری یہ بھیانک نیت تھی کہ ہم ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں مگر یہ لازم نہیں کہ ایسا ہی ہو، گو کہ بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ ہم کسی کو نقصان نہ پہنچائیں۔ لیکن یہاں اس کا کرم سے کوئی تعلق نہیں۔

جب ہم کسی چیز کے کرمائی نتائج کی بات کرتے ہیں تو یہی وہ کرمائی نتائج ہیں جو ہم بھگتیں گے اگر ہم کرمائی احتیاجات سے لبریز، غوروفکر سے عاری، اضطراری رویہ اختیار کریں۔

ہمارے اندر اس کے کیا اثرات ہیں؟ ان میں سے ایک یہ ہے جس کی مغربی سائنس بھی تائید کرتی ہے کہ ہم کسی خاص انداز سے سوچنے، بات کرنے اور عمل کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں لہٰذا یہ اس رویہ کو بار بار دہرانے کا رحجان پیدا کر لیتا ہے۔ اور اس عمل کی تکرار کے رحجان اور امکان کے نتیجہ میں ہم رحجانات اور امکانات میں بھی تفریق کرتے ہیں مگر اس وقت اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں وگرنہ ہم اس عمل کو دہرانا چاہیں گے۔

یہ رحجان اور یہ امکان کس شے کو جنم دیتا ہے؟ رحجان یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ جیسے میں اٹھ کر آپ کے پاس جاؤں اور آپ کو گلے لگاؤں۔ یا آپ کے پاس جا کر کوئی فضول بات کہوں۔ اور جب ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ ہم ایسا کریں یا نہ کریں۔ اس بات کا ادراک ایک اہم بات ہے کہ جب ہم اپنے احساس کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ ہم ایسا کریں یا نہ کریں۔ اور اگر ہم یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں ایسا کرنا ہے، یا ہم اس بات کو کہ ایسا کرنا ہے یا نہیں کرنا خاطر میں ہی نہ لائیں اور بس کر گزریں، تو اس کی اگلی منزل وہ ہے جہاں کرم کا عمل دخل ہوتا ہے۔ کرم ہی وہ احتیاج ہے، وہ محرک ہے، وہ اضطرار ہے جس سے ہم یہ کرتے ہیں۔

پھر اور بھی کئی چیزیں ہیں جو ان رحجانات سے پختہ ہوتی ہیں۔ ان میں سے بنیادی طور پرایک چیز وہ ہے جو ہمارے تجربے میں شامل ہے۔ "مشمول" ایک موٹا لفظ ہے، میرے خیال میں ہمیں ذرا تخصیص سے کام لینا چاہئے۔ مثال کے طور پر یہاں اس کا مطلب ہے اس شخص سے ملنا اور اُس سے نہ ملنا۔ اس میں لوگوں کا ہم سے برتاؤ بھی شامل ہے۔ زیادہ درستگی کی خاطر ہمیں نہائیت محتاط انداز میں بات کہنی چاہئے۔ ہمارے کرم کی وجہ سے تو دوسرا شخص ہمارے اوپر نہیں چلا رہا، وہ ہم پر اپنے ان رحجانات کی وجہ سے چلا رہا ہے جو اس میں لوگوں پر چلانے کے لئے پائے جاتے ہیں۔ مگر دوسروں کے ہمارے اوپر چلانے کی ذمہ داری ہمارے کرم کی ہی ہے۔

اس بات کا ادراک یقیناً کوئی آسان کام نہیں۔ مگر میرے خیال میں اسے ایک مثال کے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بچہ پوتڑا پہنے ہوۓ ہے اور وہ اپنا پوتڑاگندہ کر دیتا ہے تو اسے اس گندگی کو برداشت کرنا ہو گا، اپنے کئے کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ اگر ہم اس بات کو خارج از بحث کر دیں کہ آیا کوئی بچے کا پوتڑا تبدیل کرتا ہے یا نہیں تو اصل مسٔلہ یہاں یہ ہے کہ تم نے گند ڈالا، تمہیں اس کو بھگتنا ہو گا۔ بنیادی طور پر اس کا طرزعمل یوں ہے کہ ہم زندگی میں آلائش پیدا کرتے ہیں اور جوں جوں زندگی آگے بڑھتی ہے ہم مزید آلودگی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ خصوصاً ہم دوسروں سے ایک خاص انداز سے پیش آتے ہیں، اور ہم دیکھیں گے کہ دوسرے بھی ہم سے ویسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ مگر کرم کے بارے میں یہاں ایک اہم قاعدہ یہ ہے کہ ایسا فوری طور پر نہیں ہوتا۔ ایسا ممکن ہے کہ ہم کسی سے نہائت نرمی اور شفقت سے مخاطب ہوں اور وہ پھر بھی غصے سے ہم پر چلائیں۔

اسی لئے کرم کے عمل کو حقیقتاً سمجھنے کے لئے پنر جنم کو زیربحث لانا ضروری ہے، کہ واقعات کے نتائج ظہور پذیر ہونے میں ایک لمبا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ نتائج موجودہ زندگی میں سامنے آئیں۔ در حقیقت اکثروبیشتر ایسا نہیں ہوتا۔ ہم مغربی لوگوں کے لئے اس بات کو سمجھنا کوئی آسان کام نہیں۔ بعض لوگ اسے یوں لیں گے کہ جیسے بدھ مت یہ کہ رہا ہے "اس زندگی میں اچھے بنو اور اگلی زندگی میں تم جنت کے مزے لوٹو گے، اور اگر برے بنو گے تو اگلی زندگی میں جہنم رسید ہو گے"۔

ہمیں اس کا غور سے جائزہ لینا چاہئے کہ آیا بدھ مت یہی کہ رہا ہے یا کچھ اور؟ یہ کوئی آسان موضوع نہیں، یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ کیونکہ کرمائی علت و اثر کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں بدھ مت کے پیراۓ میں پنر جنم کو سمجھنا ضروری ہے، نہ کہ کسی غیر بدھ متی نظریہء پنر جنم کو۔ وہ کون ہے جو ایک کرمائی سبب پیدا کرتا ہے اور وہ کون ہے جو اس سے متاثر ہوتا ہے؟ کیا یہاں کوئی"میں" ہے جو انعام یا سزا کی سزاوار ہو؟

لیکن پنرجنم اور کسے اس سے واسطہ پڑتا ہے کے مسٔلہ کو ایک طرف کر کے، جیسا میں نے شروع میں کہا تھا، بدھ مت قوانین کی بجاآوری کی بنیاد پر قائم ایک نظام سزاوجزا پر بات نہیں کرتا۔ بدھ مت یہ نہیں کہتا کہ یہ زندگی کسی قسم کا امتحان ہے اور اس کا نتیجہ ہمیں اگلے جنم میں ملے گا۔ یہ محض اتنا کہ رہا ہے کہ افعال کے اثرات ظہور پذیر ہونے میں ایک لمبا عرصہ لگتا ہے۔ ہم اسے ماحولیات کے حوالے سے دیکھ سکتے ہیں۔ ہم کسی خاص انداز سے عمل پیرا ہوتے ہیں اور اس کے کچھ اثرات ہماری زندگی میں مرتب ہوتے ہیں مگر ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیوں میں اس کے بے شمار نتائج سامنے آئیں گے۔ یہ کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

مسرت اور عدم مسرت

ایک مختلف پہلو جس سے کرم پختہ ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں جس سے ان کرمائی اعمال کے نتائج سامنے آتے ہیں اس کا تعلق خوشی اور ناخوشی کے پہلوسے ہے جس کا ذکر ہم نے اس خطبہ کے شروع میں کیا تھا۔ بعض اعمال کا اعادہ کرنے سے ہمارے ساتھ بعض واقعات پیش آتے ہیں – لوگ ہم سے خاص قسم کا برتاؤ کرتے ہیں وگرنہ یہ ایسے ہو جیسے پہاڑ پر سے کوئی پتھر ہمارے سر پر آن گرے۔ ہم ان چیزوں میں مسرت اور عدم مسرت پاتے ہیں۔ ذرا اس پر غور کرو۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایک لال بیگ کو پاؤں تلے کچل کربڑے خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں – وہ مارا!۔ کچھ دوسرے وہ ہیں جو لال بیگ پر پاؤں آجانے پر برا محسوس کرتے ہیں اور ناخوش ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب کوئی انہیں ضرب لگاتا ہے، ان پر چلاتا ہے وہ بہت ناراض اور غمگین ہو جاتے ہیں جبکہ بعض دوسرے لوگ اس پر خوش ہوتے ہیں "ہاں، میں ایک گناہ گار اور بد انسان ہوں، میں مارنے اور چلانے لائق ہوں"۔

آپ اس قول سے تو واقف ہوں گے، یہ یہاں میکسیکو سے ہی ہے یا شائد کسی نے یہ کہانی گھڑ لی اور میں نے اسے سچ مانا، یہ یوں ہے "اگر میرا خاوند مجھے مارتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مجھ سے سچ مچ پیار کرتا ہے، اور اگر نہیں مارتا تو اس کا مطلب ہے کہ اسے میری کوئی پرواہ نہیں"۔

اس قسم کی خوشی یا ناخوشی قریب قریب ایک مختلف ہی بات لگتی ہے۔ کیا نہیں لگتی؟ ایک لحاظ سے جو ہم اضطراراً، عادتاً کرتے ہیں اور جو ہم پہ گزرتی ہے – یہ تو ہے ایک پہلو، اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم اسے کیسے لیتے ہیں، مسرت سے یا عدم مسرت سے۔ یہ چیزیں، یہ دو پہلو جن کا ہمیں تجربہ ہوتا ہے، یہ ماضی کے کرمائی اعمال سے پختہ ہو رہی ہیں، مگر مختلف اعمال سے۔ اگر ہم محض خوشی اور ناخوشی کے پہلو کو دیکھیں تو یہ ایک نہائت معمولی پہلو ہو گا۔ یہ ہمارے تخریبی اور تعمیری اعمال کی پیداوار ہے۔ اگر ہمارا فعل تخریبی ہو گا تو ہمیں عدم مسرت ملے گی، اگر ہم تعمیری فعل کریں گے تو نتیجہ خوشی کی صورت میں ہو گا۔

تعمیری اور تخریبی طرزعمل

اب اس بات کا جائزہ کہ بدھ مت میں تعمیری اور تخریبی سے کیا مراد ہے بہت دلچسپ ہو جاتا ہے۔ لازماً اس کی کئی توضیحات ہیں۔ لیکن ہم نے یہ دیکھا کہ ہم کسی فعل کو اس کے دوسروں پر پیدا کردہ اثرات کے ترازو میں نہیں تول سکتے، کیونکہ کون جانتا ہے کہ اس کا اثر کیا ہو: کیونکہ اس میں اور بے شمار عناصر کا عمل دخل ہے۔ لہٰذا تعمیری اور تخریبی کا تعلق ہمارے من کی اس حالت سے ہے جس سے ہم کسی فعل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے فعل کی بنیاد حرص، لگاؤ، غصہ یا محض لاعلمی ہے تو یہ فعل تخریبی ہے۔ دوسری طرف اگر ہمارا فعل غصہ، حرص، لگاؤ اور لاعلمی سے پاک ہے تو یہ تعمیری ہو گا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس سے آگے چلیں تو اگر یہ پیار، ہمدردی اور سخاوت پر مبنی ہو تو بھی یہ تعمیری ہے۔

اس میں کچھ اور عناصر بھی شامل ہیں۔ ان عناصر کا جائزہ جو ایک فعل کو تعمیری یا تخریبی بناتے ہیں نہائت دلچسپ ہے۔ ان میں سے ایک ہے ذاتی اخلاقی وقار۔ اس کا تعلق ہمارے اپنی ذات بارے تصور اور عزت نفس سے ہے۔ اگر ہم عزت نفس سے عاری ہیں تو ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ہمارے رویہ کا ہمارے اوپر کیا اثر ہو گا۔ یہ "جو بھی ہے" والا طرزعمل ہے۔ اس طرح کی کمتر عزت نفس کے ہوتے ہوۓ ہم تخریبی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ دوسرے لفضوں میں اگر میں اپنے بارے میں مثبت راۓ رکھتا ہوں ، اور میں بحیثیت ایک انسان کے اپنی عزت کرتا ہوں، تو پھر میں ایک بیوقوف شخص کی طرح کوئی حرکت نہیں کروں گا۔ میں کوئی احمقانہ، ظالمانہ روش اختیار نہیں کروں گا کیونکہ میں اپنے آپ کو گرا کر اس نیچی سطح پر نہیں لانا چاہتا۔ میری راۓ اپنے بارے میں بہت بلند ہے، اپنی اہلیت کے بارے میں۔ یہاں ہم اس امر کی بات کر رہے ہیں: یا تو ذاتی اخلاقی وقار کا وجود یا غیر موجودگی۔ یہ عنصر اس امرکا تعین کرنے میں کہ ہم تعمیری طرزعمل اختیار کرتے ہیں یا تخریبی نہائت اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ایک اور اہم عنصر یہ احساس ہے کہ ہمارے سلوک کا دوسروں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ ہم کیا بات کر رہے ہیں؟ اگر میرا رویہ نہائت ناگوار ہو تو اس کا میرے گھر والوں پر کیا اثر ہو گا؟ میرے ملک پر کیا اثر ہو گا؟ اگر میں نہائت بدسلوکی سے پیش آؤں تو لوگ میکسیکو کے لوگوں کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ اگر ہم بدھ مت کے پیروکار ہیں اور میں باہر جا کر شراب کے نشے میں دھت ہو جاؤں اور کسی سے لڑ پڑوں تو لوگ بدھ مت اور اس کے پیروکاروں کے بارے میں کیا سوچیں گے؟ چونکہ ہم اپنا خاندان، اپنا گروہ، اور جو بھی ہے، مذہب، ملک، شہر، سب کے لئے دل میں عزت رکھتے ہیں، تو اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوۓ کہ ہمارے برتاؤ کا ان سب پر کیا اثر ہو گا اور اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہوۓ کہ ہمارا رویہ دوسروں پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے، ہم تخریبی روش اختیار کرنے سے گریزاں ہوں گے۔ اگر ہمارے اندر یہ احساس نہ ہو تو پھر ہم تخریبی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بدھ مت میں یہ ایک نہائت اعلیٰ پیمانے کی بصیرت ہے۔ یہاں اہم عنصر کونسا ہے؟ عزت نفس، ذاتی وقار،اور ہمارے حلقہ کے لئے احساس تکریم۔

اس سے ہمیں دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے بعض عناصر کے بارے میں عمیق بصیرت ملتی ہے۔ اگر آپ کسی شخص کو اور اس کے گروہ کو ان کے تمام ذاتی وقار سے محروم کر دیں، ان کی زندگی عذاب بنا دیں اور ان کے بارے میں معاندانہ سوچ رکھیں تو وہ یہ محسوس کریں گے کہ انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کے اعمال کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ اگر انہیں اپنی اور اپنے گروہ کی عزت نفس کا کوئی پاس نہیں تو (وہ یہ سوچیں گے کہ) کیوں نہ باہرجا کر تباہی مچائیں؟ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کوئی نقصان نہیں ہونے والا۔ میرے خیال میں دوسروں کے ساتھ تعلقات میں، خصوصاً دنیاوی مسائل کے سلسلہ میں، اس بات کو یاد رکھنا مفید ثابت ہو گا۔ یہ بات اہم ہے کہ کسی کو اس کی عزت نفس سے اور اس کے گروہ کو ان کے وقار سے محروم نہ کیا جاۓ۔

یہ ان من کے عناصر میں سے چند ایک ہیں جن کا تعلق کسی فعل کو تخریبی یا تعمیری بنانے سے ہے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم سنجیدگی سے اس بات پر غور کریں کہ جس طرح ہم دوسروں سے پیش آتے ہیں اس کا ان پر اثر ہوتا ہے۔ یہ احساس توجہ اور ہمدردی کے حوالے سے ہے، میں نے اسے "جذبہءہمدردی" کا نام دیا ہے۔ مگر بعض اوقات ہم بڑے بھولپن کا مظاہرہ کرتے ہیں، ہم سوچتے ہیں کہ میں تمہیں کچھ بھی کہ دوں تمہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں تمہارے جذبات کو اہمیت نہیں دیتا۔ ایسی صورت میں ہم پرواہ یا خیال کرنے کے جذبہ سے عاری ہوتے ہیں۔

اگر ہم ان من کے عناصر سے کام لیں – لالچ، غصہ، عزت نفس کا فقدان، اس احساس کی عدم موجودگی کہ جو اور جیسے ہمارے اعمال ہوتے ہیں ان کا دوسروں پر اثر پڑتا ہے، لا پرواہی، اس بات کو سنجیدگی سے نہ لینا کہ ہمارے اعمال نہ صرف دوسروں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ ان کا ہمارے اوپر بھی اثر ہوتا ہے – تو اس کا کیا نتیجہ ہو گا؟ عدم مسرت۔ ایسی عدم مسرت اگرچہ کوئی سزا نہیں۔

ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ من کی ایسی حالت جس میں یہ سب منفی عناصر شامل ہوں کیا واقعی ایک خوش باش من کی حالت ہو سکتی ہے، اور کیا یہ واقعی ہمیں مسرت سے ہمکنار کر سکتی ہے؟ یا یہ صرف غم ہی دے سکتی ہے؟ اگر ہم اس پر مزید غور کریں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ویسی من کی حالت، وہ منفی من کی حالت، غم کی حالت پیدا کرے گی۔ اور اگر ہمارے من کی حالت اس کے متناقض ہو گی، جو لالچ، غصہ اور ایسی ہی چیزوں سے پاک ہو، تو وہ مسرت کا باعث ہو گی۔ اس لئے ہمارے ہاں رویہ کی یہ عمومی قسمیں ہیں – تعمیری اور تخریبی – اور یہ ہمارے لئے خوشی اور غم کے تجربات پیدا کرتی ہیں۔

مزید برآں، ہم بعض مخصوص قسم کے افعال کے مرتکب ہوتے ہیں: کسی پر چلانا، کسی سے شفقت سے پیش آنا، وغیرہ۔ اور یہ بھی اس قسم کے اثرات کا موجب بنتے ہیں جیسے اس رویے کی تکرار، اور ایسے حالات پیدا کرنا جس میں دوسرے بھی ہم سے ویسے ہی پیش آئیں۔

ہمارے کرمائی رویے کا ایک اور نتیجہ یہ نکلتا ہے – اور ابھی اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں – کہ ہمارا پنر جنم کیسا ہو گا: کیا (دوسرے جنم میں) ہمارا جسم اور من ایک کتے کی مانند ہو گا، ایک لال بیگ کی طرح یا ایک انسان جیسا۔ ہمارے چیزوں کو جاننے اور ایک خاص طرز عمل کے حوالے سے ہمارا من اور جسم کس نوعیت کا ہو گا۔ اس کی اور بھی کئی توضیحات ہیں مگر میں یہاں، اس تعارفی خطبے میں، صرف بنیادی اصولوں کا احاطہ کرنا چاہتا ہوں۔

فلسفہء جبریت یا آزادانہ قدرت فیصلہ

پس ایک طرف تو ہم بعض قسم کے طرزعمل میں تکرار اور واقعات جو ہمیں پیش آتے ہیں کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور دوسری طرف اس سے وابستہ غم اور مسرت سے بھی ہمکنار ہوتے ہیں جو کہ بعض اوقات تو ہمارے طرزعمل سے مطابقت رکھتا ہے اور بعض اوقات قطعاً نہیں (رکھتا)۔ اور یہ سب اونچ نیچ، اس ہر وقت کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ آئیندہ کیا ہونے والا ہے۔ اور یقیناً جو کچھ ہوتا ہے وہ محض میری اور میرے اعمال کی وجہ سے ہی نہیں ہوتا۔ اس پردنیا کے دوسرے لوگوں کی زندگیوں اور ان کے فعل واعمال کا بھی اثر ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ جہان جمادات میں جو کچھ ہو رہا ہے یعنی عناصر عالم جیسے موسم، زلزلے وغیرہ۔ اس وجہ سے اس بات کی پیشین گوئی کرنا کہ آگے کیا ہونے والا ہے نہائت مشکل ہے کیونکہ جو عناصر اس پر اثر انداز ہوتے ہیں وہ نہائت ہی گمبھیر ہیں۔ بقول مہاتما بدھ کے تمام مسائل میں سے یہ مسئلہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔

یہاں ہماری سوجھ بوجھ نہائت واضح ہونی چاہۓ کیونکہ بیشمار لوگ اعمال کے بارے میں یہ پوچھتے ہیں – کیا یہ جبریت کا نتیجہ ہیں یا ہمیں قدرت فیصلہ حاصل ہے؟ ان دونوں میں سے کوئی بھی درست نہیں، دونوں انتہا پسند ہیں۔ جبریت سے مراد یہ ہے کہ کسی خارجی یا ارفع ہستی نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ ہم کیا کریں گے اور ہمارے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ بدھ مت کہتا ہے کہ یہ یوں نہیں ہے۔ یہ بات نہیں کہ اور کسی نے اس بات کا فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہم محض کسی کھیل کے پتلے ہیں جس کا ڈرامہ نویس کوئی اور ہے ۔

دوسری طرف آزادانہ قدرت فیصلہ کچھ ایسے ہے جیسے کوئی شخص کسی طعام گاہ میں بیٹھا کھانوں کی فہرست ہاتھ میں لئے یہ سوچ رہا ہوکہ کھانے کیلئے کیا منگواۓ۔ زندگی ایسے نہیں۔ بدھ مت کہتا ہے کہ ایسا سوچنا غلط اور الجھاؤ والی بات ہے۔ انسان کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ اس کی ایک الگ ذات ہے- زندگی سے الگ، ہستی سے الگ، مگر کون ایسا شخص ہے جو زندگی کو 'باہر' سے بطور ایک کھانوں کی فہرست کے دیکھ کر اس میں سے اشیاء کا انتخاب کرے گا۔ زندگی اورہستی سے الگ کوئی "میں" نہیں، اور جو کچھ ہمارے ساتھ پیش آنے والا ہے وہ کھانوں کی فہرست کی مانند نہیں جہاں سے ہم اپنی مرضی کی چیز کا انتخاب کر سکیں، نہ ہی یہ کسی مشین میں رکھا بکاؤ مال ہے جو ایک بٹن دبانے سے باہر آن گرے گا، یا ایسی ہی کوئِ اور چیز۔ میرے خیال میں یہ ایک عمدہ مثال ہے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ یہ کیسی احمقانہ بات ہے۔ ہمارے تجربات کسی مشین میں رکھی مٹھائی کی مانند نہیں جن کا انتخاب ہم اپنی مرضی سے کر لیں۔ بٹن دباؤ، پیسے ڈالو اور یہ رہا آپ کا انتخاب۔ زندگی ایسے نہیں۔ یا کیا واقعی ایسے ہے؟ ہم پہلے سے اس بات کا فیصلہ نہیں کرتے کہ "آج میں مسرت سے ہمکنار ہوں گا اور آج ہر شخص مجھ سے اچھی طرح پیش آۓ گا"۔ پھر ہم زندگی کی مشین میں پیسے ڈالتے ہیں اور ہماری من پسند شے سامنے آ جاتی ہے۔ یہ ہے قدرت فیصلہ کی آزادی۔ ہے کہ نہیں؟ آزادانہ قدرت فیصلہ یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ پیش آنے والے معاملات، حالات کا خود تعین کریں، اور یہ کہ ہم نے کیا کرنا ہے۔ مگر جو ہمارے ساتھ پیش آتا ہے وہ ان جبریت اور خود مختاری کے انتہا پسند عناصر سے کہیں زیادہ لطیف اور نفیس ہوتا ہے۔

ذہنی الجھاؤ بطور منبہء کرم

اس خطبے میں پیچھے یہ بیان آیا کہ بدھ مت کی یہ ایک منفرد بات ہے کہ مہاتما بدھ نے (زندگی کے) خوشی اور غم کے مستقل اتار چڑھاؤ اور ان تمام واقعات جو ہمیں ہماری مرضی کے خلاف پیش آتے ہیں،اور جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں کی وجہ بتائ ہے۔ یہ وجہ ہماری ہستی کے ہر لمحہ کا حصہ ہے اور یہ اس (مرض) کی علامات کو دوام بخشتی ہے – اس وجہ کا نام ہے الجھاؤ۔ نہ صرف یہ بلکہ جب ہم ذہنی انتشار تلے کام کرتے ہیں ،خواہ وہ تخریبی ہو یا تعمیری، یہ اس الجھاؤ تلے کام کرنے کی عادت جسے ہم "پختہ عادت" کہتے ہیں کو مزید تقویت دیتی ہے، نتیجتہً ہم ہر لحظہ الجھاؤ تلے رو بہ عمل ہوتے ہیں۔

یہ انتشار کیا شے ہے؟ بدھ مت میں یہ ایک نہائت فلسفیانہ موضوع ہے۔ لیکن اگر ہم اسے سادے انداز میں دیکھیں تو اس کا مطلب ہے میرے، تمہارے اور ہر انسان کے وجودی ملاحظہ کا مطالعہ۔ مثلاً ہماری یہ سوچ کہ میں ہی دنیا کا محور ہوں، میں سب سے اہم ہوں، میری خواہش ہمیشہ پوری ہونی چاہئے، میں ہمیشہ صحیح بات کہتا/کرتا ہوں اور لوگوں کو ہمیشہ میرے لئے وقت نکالنا چاہئے۔ اس طرز عمل کو ہم اپنے سیل فون کے حوالے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہم اس زعم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ میں جب چاہوں جس کسی سے فون پر رابطہ کروں اور ان (کے کام میں)دخل دوں خواہ وہ کچھ ہی کر رہے ہوں اور انہیں مجھے وقت دینا چاہئے کیونکہ جو بات میں نے کہنی ہے وہ ان کے اس کام سے جو وہ اس وقت کر رہے ہیں کہیں زیادہ اہم ہے۔ اس غلط فہمی کی بنا پر ہم کسی سے تخریبی طور پر پیش آ سکتے ہیں، ان پر چلا سکتے ہیں، بد سلوکی کر سکتے ہیں۔ اور ہم ایسا اس لئے کرتے ہیں کیونکہ وہ وہ نہیں کر رہے جو میں ان سے توقع کرتا ہوں یا وہ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں جو مجھے ناگوار ہے۔ انہیں وہی کرنا چاہئے جو میں چاہتا ہوں کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ جو میں چاہتا ہوں وہ ان کی خواہش کے مقابلہ میں زیادہ اہم ہے۔ یا اسی غلط فہمی کی بنیاد پر ہم کسی پر مہربان ہو سکتے ہیں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ شخص مجھے اچھا جانے اور مجھ سے راضی ہو۔ میں اس لئے اہم محسوس کرتا ہوں کیونکہ میں کسی کے لئے کچھ ایسا کام کر رہا ہوں جس کی انہیں، میرے خیال میں، ضرورت ہے۔ تو میں اپنی بیٹی کو بتاؤں گا کہ بچوں کی پرورش کیسے کی جائے یا گھرانہ کیسے چلایا جاتا ہے۔ کیا یہ فائدہ مند نہیں؟ اور اس بات کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں کہ ہماری بیٹی کو ہمارے مشورہ اور مدد کی ضرورت ہے یا نہیں، مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ میں سب سے اہم ہوں اور میں اپنی اہمیت جتانا چاہتا ہوں اور صاف ظاہر ہے کہ بچے پالنے کے بارے میں میں اپنی بیٹی سے زیادہ جانتا ہوں اور یقیناً اسے مجھ سے یہ سیکھنا چاہئے۔

تو پس یہی وہ مغالطہ ہے جو تخریبی اور تعمیری دونوں رویّوں کا موجب ہے۔ یہ اس غلط فہمی کا ہی نتیجہ ہے جو ہم اس اوپر نیچے، اوپر نیچے کے چکر کو دوام بخشتے ہیں۔ پس ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس سے کیسے نجات حاصل کریں۔

ویڈیو: ڈاکٹر شونی ٹیلر ـ «نشہ کیا چیز ہے؟»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

ذہنی الجھاؤ سے چھٹکارا

جب ہم اس نظام کا جائزہ لیتے ہیں جس کے تحت کرمائی رحجانات اور عادات پختہ ہوتے ہیں، خصوصاً رحجانات تو (ہم دیکھتے ہیں) کہ اس کا تعلق ہمارے اس رویہ سے ہے جو ہمارے تجربہ میں آنیوالی مسرت اور عدم مسرت کے نشیب و فراز کی نسبت ہے۔ ہمارے ایسے دو اہم من کےعناصر ہیں جو ہمارے مسرت اور عدم مسرت کے تجربات سے پیوستہ ہیں۔ ان میں سے پہلے کا نام ہے "شدید طلب"۔ جب ہم خوشی سے ہمکنار ہوتے ہیں تو ہماری طلب اور شدید ہو جاتی ہے – جس کا مطلب ہے کہ ہماری شدید خواہش ہے کہ ہم اس سے جدا نہ ہوں۔ " مجھ سے دور نہ جا۔ ہر لمحہ میرے پاس گذار۔ کیا تم اور رک سکتی ہو"۔ یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ہم کسی کی موجودگی سے محظوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ یا جیسے ہم چاکلیٹ کیک کھا کر خوشی محسوس کر رہے ہوں تو ہمیں اس خوشی سے رخصتگی گوارا نہیں۔ اس بنا پر ہم اورسے اور کھاتے چلے جاتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں؟ یہ ہے شدت کی طلب۔ پس یونہی جب ہم عدم مسرت کا مزہ چکھ رہے ہوں تو ہماری زبردست خواہش ہوتی ہے کہ جلد از جلد اس سے الگ ہو جائں۔ ان دونوں کے پیچھے جو عنصر کار فرما ہے وہ ہے دوسرا عنصر- اپنی ذات کی پہچان کا زبردست رویہ، ایک ٹھوس "میں" کا احساس جس کے ذریعہ ہم تجربات حاصل کر رہے ہیں۔ مجھے یہ مسرت حاصل کرنی ہے اور وہ شے بھی جو اس کا باعث ہے، زیادہ سے زیادہ اورمجھے اس سے جدائی منظور نہیں۔ جو چیز مجھے پسند نہیں اس سے علیحدگی چاہئے۔ جو تم کہ رہے ہو یہ مجھے پسند نہیں لہٰذا بکواس بند کرو وگرنہ میں تم پر چلاؤں گا۔

جب اپنی زندگیوں میں ہمارا واسطہ اس غیرمستقل مزاج مسرت اور عدم مسرت سے پڑتا ہے جس میں ایسی شدت کی خواہش، ایک ٹھوس "میں" کی زبردست پہچان اور کیا کچھ ہو رہا ہے، جو کہ بہر حال بے یقینی پر قائم ہے، – یہ ان تمام کرمائی رحجانات کی پختگی کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح ہم نشیب و فراز، مسرت اور عدم مسرت کے نشیب و فراز کو استمرار بخشتے ہیں، اور اپنے تمام گزشتہ اطوار کا اعادہ کرتے ہیں کیونکہ یہی وہ ہے جو ان رحجانات سے پختہ ہوتا ہے۔ اس کے متعلق جو خراب بات ہے وہ یہ کہ مسرت اور عدم مسرت کے ہر لمحے یہ بے یقینی موجود رہتی ہے۔ اور یہ مسرت اور عدم مسرت کے لمحات کومزید فروغ دیتی ہےجن میں یہ بے یقینی شامل ہے۔ جس بے یقینی سے ہم اب گزر رہے ہیں یہ ہماری گزشتہ بے یقینی کا نتیجہ ہے جب ہمارا مسرت اور عدم مسرت سے واسطہ پڑا تھا۔

یہ بے قابو تکرار، یہ خوددوامی چکر – یہی وہ شے ہے جسے بدھ مت میں "سمسارا" (سنسار) کہتے ہیں۔ اگر ہم اس بے یقینی سے نجات حاصل کر لیں تو کرم کا تمام نظام تتر بتر ہو جاتا ہے اور ہمیں سنسار سے رہائی مل جائے گی۔ اگر ہم بے یقینی کو صحیح فہم و فراست میں تبدیل کر دیں – اور میں اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا، بس ایک عمومی خیال کر لیں – اگر ہم بے یقینی کو صحیح فہم وفراست میں تبدیل کر دیں تو پھر اس ٹھوس "میں" کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی ۔ نہ اس بات کی کہ "مجھے یہ لینا ہے اور وہ نہیں لینا"۔ جب شدید خواہش نہیں تو پھر ان رحجانات اور عادات کو روۓ عمل لانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اور جب ان رحجانات اور عادات کا محرک ہی نہ رہے تو پھر تم یہ نہیں کہ سکتے کہ ابھی بھی تمہارے اندر یہ رحجانات اور عادات موجود ہیں۔

میں آپ کو ایک مثال دینے کی کوشش کرتا ہوں۔ اگر ڈائناسور دیکھنے کا امکان ہو تو جب ڈائناسور ناپید ہو جائیں تو اگر آپ جنگل سے گذریں تو اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ آپ کو کوئی ڈائناسور نظر آۓ۔ کیا یہ (امکان)ہے؟ کبھی ایسا ہوا کرتا تھا کہ: جب بھی میں جنگل سے گذرتا تو ہمیشہ ڈائناسور دیکھتا- اب چونکہ ڈائناسور نہیں ہیں اس لئے ان کے دکھائی دینے کا امکان بھی نہیں۔ اس مثال کو استعمال کرتے ہوۓ، جب کسی رحجان کو پختہ کرنے کا سبب ہی موجود نہیں۔ آپ کے سامنے چلتا ہوا ایک ڈائنا سور، اس رحجان کو ایک ڈائناسور تصور کرتے ہوۓ جو پختہ ہو رہا ہے، اگر اس رحجان کا محرک ہی نہیں تو پھر رحجان بھی نہیں۔ اور اگر رحجانات کی عدم موجودگی کی وجہ سے کرمائی رحجانات پروان نہیں چڑھ رہے تو پھر ہمیں مسرت اور عدم مسرت کے اتار چڑھاؤ سے بھی واسطہ نہیں پڑ رہا اور اس سے ملحق بے یقینی سے بھی یقیناً پالا نہیں پڑ رہا۔ (اس کے ساتھ) وہ بھی گئی۔

اس طرح ہم تمام سنساری جھنجھٹ سے مکش حاصل کر لیتے ہیں۔ ہمیں اس غیر تسلی بخش، ناپائدار مسرت اور عدم مسرت کے نشیب و فراز سے واسطہ نہیں پڑتا، مگراس کے بجاۓ ہم ایک بالکل مختلف، بڑی پائدار، بڑی مختلف خصوصیت کی حامل مسرت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں – یہ وہ والی مسرت نہیں جس میں بے یقینی شامل ہے، اور نہ ہی وہ جیسے"میں نے کھیل جیت لیا ہے اور یہ رہا میرا انعام"۔ یہ اس قسم کی خوشی ہے جو کسی مخمصے سے چھٹکارا پانے سے ملتی ہے۔ اس (مسرت) کی ایک سادہ مثال، جو اگرچہ بالکل منطبق نہیں، اس بارے میں جس پر ہم بات کر رہے ہیں یوں ہے جیسے وہ آرام جو دن کے آخر میں ایک تنگ جوتا اتارنے سے ملتا ہے- یہ ایک پرمسرت احساس ہے کہ اب ہمیں اس درد سے نجات ملی۔

اس مکش کے ساتھ یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ اب ہمارے افعال کا کارن کرم کی یہ اضطراری تاکیدات نہیں جن کی بدولت ہم کوئی خاص رویہ اختیار کرتے ہیں، مختلف تجربات سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس کے بجاۓ اگر ہم محض نجات کے حصول سے بھی ماورا کسی مقصد جیسے مہاتما بدھ بننے پر کام کر رہے ہیں تو جو چیز ہمارے فعل کا محرک ہے وہ ہے دردمندی – دوسروں کو دکھ اور دکھ کے اسباب سے نجات دلوانے کی خواہش۔

خلاصہء استدلال

یہ کرم کے بنیادی اصولوں کا ابتدائی تعارف ہے۔ اس کے علاوہ اور بہت کچھ اس بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ اس میں سے کچھ کی عمومی اصولوں سے توضیح کی جا سکتی ہے۔ مثلاً اس قسم کے فعل کا کس قسم کا اثر ہو گا، اگر یہ عنصر موجود ہو تو نتیجہ ٹھوس ہو گا، اور اگر یہ موجود نہ ہو تو ، جیسے تم کسی فعل کے حادثہ تن نہ کہ سہواً مرتکب ہوتے ہو، تو نتیجہ مختلف ہو گا، وغیرہ وغیرہ۔ یہاں بہت سی تفصیلات کی گنجائش ہے۔

مزید یہ کہ اب کیا ہونے والا ہے اس بات کا اندازہ اصولوں کی مدد سے کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا انحصار ان تمام عوامل پر ہے جو ہمارے گرد کار فرما ہیں۔ ابھی جو ہمارے ساتھ پیش آ رہا ہے اس کا حساب ہم عمومی اصولوں سے نہیں کر سکتے کیونکہ ابھی جو ہونا ہے اس کا دارومدار اس سب کچھ پر ہے جو ہو رہا ہے۔ ذرا سوچو کہ اگر تم ابھی سڑک پر کسی حادثے کا شکار ہو جاؤ تو اس کی کیا وجہ ہوئی؟ یہ وہ کرم ہے جو سب کوان کی جانب سے کھینچ کر سڑک پر لے آیا، اور گاڑیوں کی آمدورفت، اور موسم، اور سڑک کی حالت۔ تو اس حادثہ کے وقوع پذیر ہونے میں بہت سارے عناصر ملوث ہیں۔

اگر ہمیں اس موضوع میں دلچسپی ہے تو اس کے کئی پہلوؤں کو کھنگالنے کی گنجائش ہے۔ میرے خیال میں ہم کرم کو جس قدر زیادہ سمجھیں گے اتنا ہی اس کے چنگل سے آزادی حاصل کر سکیں گے، تو اس طرح نہ صرف ہم خود سنسار کے دکھ درد سے مکش پائیں گے بلکہ اس کام میں دوسروں کی بھی مدد کر سکیں گے۔

آپ کے سوالات کیا ہیں؟

سوالات

اس بحث میں احساس گناہ کا کوئی ذکر نہیں؟ کیا اس کا احساس گناہ سے کوئی تعلق نہیں، یا ہے؟

بجا۔ بدھ مت کی کرم کی توضیحات کا احساس جرم سے کوئی تعلق نہیں۔ احساس جرم کی بنیاد اس سوچ پر ہے کہ میری ایک الگ، نہائت مظبوط ہستی"میں" ہے، اور وہ جو میں نے بطور کسی اور،الگ ہستی کے کیا، پنگ پانگ کے دو گیندوں کی مانند، یا ایسی ہی کوئی چیز۔ اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ وہ ہستی "میں" بہت بری ہے اور وہ جو "میں نے کیا" بہت برا تھا۔ لہٰذا یہ ان دو بظاہر ٹھوس ہستیوں کے بارے میں اظہار راۓ ہے اور پھر اوپر سے درگذر بھی نہ کرنا، یہ ہے احساس جرم۔ یہ ایسے ہے جیسے گھر کا کوڑا کرکٹ کبھی نہ پھینکا جاۓ، اسے گھر کے اندر سنبھال کر رکھیں اور پھر شکائت کریں کہ کسقدر گندگی ہے، کتنی بدبو ہے، مگر کبھی اسے پھینکیں نہیں۔

یہ بات بڑی منطقی اور واضح لگتی ہے۔ میں اس سارے نظام کو سمجھ سکتا ہوں اور یہ کہ بے یقینی، شدت طلب، رحجانات وغیرہ سے کیسے نجات حاصل کی جاۓ، مگر میرے خیال میں اس وقت درپیش حالات اور اضطراری تحریک سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے محض اسے سمجھ لینا کافی نہیں۔

یہ درست ہے۔ اسی لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اخلاقی ضبط نفس سے کام لیں۔ یاد رہے میں نے کہا تھا کہ جب میں کوئی بات کہنا چاہتا ہوں مثلاً "آج تم نے کتنا بد صورت لباس پہن رکھا ہے" اور جب میں واقعی یہ بات کہتا ہوں تو ان دونوں کے بیچ ایک معمولی سا وقفہ ہوتا ہے۔ اگر ہم اس لمحے کو پہچان لیں تو پھر ہمارے اندر یہ جانچنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر میں اس (خاتون)سے کہوں کہ اس نے بدصورت لباس پہن رکھا ہے تو اس کا اثر کیا ہو گا۔ اور اگر ہمیں محسوس ہو کہ ایسا کہنا کوئی اچھی بات نہیں تو ہم ایسے نہیں کہیں گے۔ یہاں سے ہم بات شروع کرتے ہیں – اخلاقی ضبط نفس سے۔

مزید یہ کہ ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ کسی کام کو کرتے وقت ہمیں کیا احساس ہوتا ہے؟ کیا میرے کچھ کرنے کا محرک کوئی پریشان کن جذبہ مثلاً حرص ہے؟ کیا اس کی بنیاد غصہ ہے یا لاعلمی؟ کیا میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے یہ کہنے کا کہ تمہارا لباس بدصورت ہے تم پر کوئی اثر نہیں ہو گا؟ یا کیا میری کچھ کرنے کی خواہش شفقت اور مثبت چیزوں پر مبنی ہے؟ اس لئے پریشان کن احساس اور رویےّ کی تعریف جاننا بہت کارگر ہے: یہ من کی وہ حالت ہے جو جب طاری ہوتی ہے تو ہم من کا سکون اور ضبط نفس کھو بیٹھتے ہیں۔

جب ہمارا سکون کھو جاۓ تو ہمیں پتہ چل جاتا ہے: ہمارے دل کی دھڑکن قدرے تیز ہو جاتی ہے، ہم ذرا بے چین سے ہو جاتے ہیں۔ تو ہم لطیف احساسات کا احاطہ کرتے ہیں مثلاً کیا میں کچھ تکبر کی وجہ سے کہ رہا ہوں؟ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے" میں یہ بات نہیں سمجھا"، اور آپ کہتے ہیں "مگر میں سمجھ گیا!"، تو آپ اس میں تھوڑی سی بے کلی پائیں گے، اس کے پس پردہ کچھ غرور، کچھ تکبر موجود ہے اور یہ وہ جنس ہے جس کی آپ کو تلاش ہے۔

مگر حقیقت کو سمجھنا، جس کا مطلب ہے خالی پن کا ادراک اور ایسی اور باتیں، نہائت کٹھن کام ہے۔ اور اگر ہم اس کو پا بھی لیں تب بھی ہمیں اس کا عادی ہو نا ہو گا تا کہ یہ ہر لمحہ ہمارے ساتھ رہے۔ اسی لئے ہم ضبط نفس سے شروع کرتے ہیں تا کہ ہم تخریبی طور طریقے سے بچیں۔

میں کچھ ٹھیک طرح سے سمجھ نہیں پایا۔ میرا خیال ہے کہ آپ نے دو جذبات کا ذکر کیا جو اس مسرت اور عدم مسرت کو اور اس نشیب و فراز کو دوام بخشتے ہیں۔ کیا آپ نے کہا کہ ان میں سے ایک تو شدید طلب ہے، اور دوسری کیا ہے؟

میں ان دو عناصر کی وضاحت کر رہا تھا جو کرمائی رحجانات کا محرک ہوتے ہیں، یہ دست نگر نمو کے بارہ رابطوں کی تعلیمات سے ماخوذ ہے۔ ایک تو ہے شدید طلب، اور دوسری، جیسا کہ میں بات کو آسان پیراۓ میں بیان کر رہا تھا، دوسری در حقیقت "حاصل کنندہ کا رویہ یا احساس"کہلاتی ہے جو کہ قریب پانچ مختلف امکانات پر مشتمل ہے۔ یہ ہی وہ ہے جو نتائج پیدا کرتی ہے۔ لہٰذا سب سے نمایاں عنصر اس ٹھوس "میں" کی پہچان ہے جس کے توسط سے ہم جو کچھ ہو رہا ہے اس سے واقف ہیں۔

یہ جو ٹھوس "میں" کی پہچان ہے کیا یہ کسی اور چیز کے حوالے سے ہے؟ یہ تو عیاں ہے کہ یہاں بے یقینی موجود ہے، اور ہمیں اس کا بندوبست کرنا ہے اور اس سے چھٹکارا پانا ہے۔ مگر وہ کونسی چیز ہے جس کے بارے میں ہمیں مغالطہ ہے اور دوسری کس شے سے ہم اسے غلطی سے تشبیہ دے رہے ہیں؟

اس سوال کا جواب اتنا آسان نہیں۔ ہم اس "میں" روائیتی "میں"، جو واقعتاً ایک وجود رکھتی ہے کے متعلق اس جھوٹی "میں" سے جس کا کوئی وجود نہیں مغالطہ میں ہیں۔ ہم اصلی "میں" جو قائم بالوجود ہے کے بارے میں یہ تصور کرتے ہیں کہ اس کا وجود کسی ناممکن صورت میں ہے، مگر یہ مبالغہ آرائی ہے۔ یہ اپنے پاس سے مسالہ لگانے والی بات ہے۔ مثلاً: میں خوش ہوں یا ناخوش۔ یہ بات نہیں کہ تم ناخوش ہو، میں ناخوش ہوں۔ جب ہمیں مسرت یا عدم مسرت کا تجربہ ہوتا ہے تو ہم اس کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ میں خوش ہوں۔ ایسا نہیں کہ تم خوش ہو یا کوئی اور خوش ہے – میں خوش ہوں۔ وہ "میں" ہی وہ روائتی "میں" ہے جو قائم بالوجود ہے۔

میں اس روائتی "میں" کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کیجئے کہ ہم ایک فلم دیکھتے ہیں اور وہ فلم ہے "گان ود دی ونڈ"۔ اس میں ایک پر مسرت منظرہے، پھر ایک غمگین اور پھر ایک پر مسرت۔ تو یہ کیا ہو رہا ہے؟ یہ خوشی کا منظر"گان ود دی ونڈ" سے ہے اور غم کا منظربھی "گان ود دی ونڈ" سے ہی ہے۔ اور ہم اس کل تجربے کو، ان تمام مناظرکو، خوشی اور غم دونوں کو، جیسا کہ مروج ہے، "گان ود دی ونڈ" کا ہی نام دیں گے۔ مگر "گان ود دی ونڈ" محض ایک عنوان ہے، ایک نام ہے۔ تو جب ہم "گان ود دی ونڈ" کا ذکر کرتے ہیں تو ہم محض عنوان کی بات نہیں کر رہے ہوتے۔ ہم اس فلم کے بارے میں بات کر رہے ہوتے ہیں جس کی جانب عنوان اشارہ کرتا ہے۔ یہ ہے وہ روائتی طور پر موجود فلم: یہ وجود رکھتی ہے۔ یہ فلم ان مناظر سے الگ کوئی شے نہیں۔ ایک ایسی فلم جس کا ان مناظرکے بغیر وجود ہو وہ ایک بناوٹی فلم ہو گی۔ اس کا کوئی وجود نہیں۔ ان مناظر کی بنیاد پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ روائیتاً ایک وجود رکھنے والی فلم وہ ہے جسے ہم کوئی عنوان دے سکیں، جس کا انتساب کر سکیں۔

اسی طرح ہماری زندگی میں مسرت کے لمحات ہوتے ہیں اور عدم مسرت کے بھی۔ تو ہم اس سب کی طرف کیسے اشارہ کرتے ہیں؟ اسے ہم "میں" روائتی "میں" کا نام دیتے ہیں جس کا ایک وجود ہے۔ یہ آپ نہیں، "میں" ہوں۔ اسی طرح وہ فلم "گان ود دی ونڈ" ہے نہ کہ "سٹار وارز"۔ پس ان خوشی اور غم کے لمحات سے الگ، وہ جو ان سے گذر رہی ہے، ایسی کوئی "میں" نہیں۔ یہ ایک جھوٹی "میں" ہو گی، ایسی "میں" جس کا کوئی وجود نہیں۔ اور "میں" محض ایک لفظ ہے، تو "میں" وہ لفظ ہے جو زندگی کے تمام تجربات کا احاطہ کرتا ہے۔

پس یہ سوچنا غلط ہو گا کہ ہمارے جسم کے اندر کوئی الگ "میں" موجود ہے جواس میں آباد اور کسی طرح اس سے ملحق ہے اور وہ بٹن دبا رہی ہے، اور اس وقت اس "میں" کی بدولت میرے پاؤں میں درد ہو رہا ہے جو مجھے ناگوار ہےاور میں بہت ناخوش ہوں۔ یہ یوں ہے جیسے کوئی چیز "میں" اس احساس سے الگ جو ایک غیر مانوس جنس جس کا نام جسم ہے میں موجود ہے۔ پھر اس مغالطہ کی بنیاد پر جو ہمیں اس الگ، جھوٹی "میں" اور روائتی "میں" کے درمیان ہے اور ہم اس جھوٹی "میں" سے جو نسبت قائم کرتے ہیں، ہم زبردست خواہش کرتے ہیں "مجھے اس دکھ، درد اور جسمانی تکلیف جس کی بدولت میں عدم مسرت سے ہمکنار ہوں سے علیحدگی اختیار کرنی ہے"۔ بہر صورت جب ہمیں اس ٹھوس "میں" کا خیالی تصور نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور درد برداشت کرتے رہتے ہیں۔ اگر ہمارا پاؤں آگ میں جل رہا ہے تویقیناً ہم اسے آگ سے باہر نکالتے ہیں، مگر اس کے پس پردہ "میں" کا جو تصور ہے وہ بہت مختلف ہے۔ اس میں گبھرانے کی کوئی بات نہیں۔

مگر یہ جھوٹی "میں" اور روائتی "میں" کا تصور بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ ہے۔ تو ہم یہاں بس کرتے ہیں۔ اور اس عہد کے ساتھ اس شام کا اختتام کرتے ہیں کہ، ہم سوچتے ہیں: اس سے جو بھی تعقل پیدا ہوا، جو بھی مثبت قوت آئی کاش وہ گہری سے گہری اور مظبوط سے مظبوط تر ہو تی جاۓ اور سب کے بھلے کے لئے روشن ضمیری حاصل کرنے کا باعث ہو۔

Top