بدھ مت کے متعلق عام غلط فہمیاں

بدھ مت کے متعلق بہت سی مختلف غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور ان کی وجوہات الگ الگ ہیں۔ بعض کا تعلق کسی خاص ثقافت سے ہے، یا تو مغربی ثقافت سے، یا پھر ایشیائی یا دوسری ثقافتیں جن پر مغربی ثقافت کا اثر ہوا ہے۔ بعض کا تعلق دوسری علاقائی تہذیبوں سے ہے، جیسے روائیتی چینی انداز فکر۔ کوئی ایسی غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے جو لوگوں کے پریشان کن جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ اور کچھ غلط فہمی محض اس بات سے آتی ہے کہ مواد زود فہم نہیں ہے۔ بعض اوقات غلط فہمی اساتذہ کے باتوں کو کھول کر نہ بیان کرنے یا انہیں ادھورا چھوڑ دینے سے بھی پیدا ہوتی ہے، اور ہم ان کا وہ مطلب نکال لیتے ہیں جو ہم مناسب سمجھتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ اساتذہ کا معانی سے نا بلد ہونا بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ تمام استاد کامل نہیں ہوتے: کئی اساتذہ کو تعلیم و تربیت مکمل ہونے سے پہلے ہی پڑھانے پر معمور کر دیا جاتا ہے۔ اوریہ بھی ممکن ہے کہ استاد تو بات کو کھول کر بیان کر دیں مگر ہم ان کی بات دھیان سے نہ سنیں، یا وقت گزر جانے کے بعد ہم ان کی بات کو صحیح طور یاد نہ رکھیں۔ یا ہم مناسب نوٹس نہ لیں اور دوبارہ انہیں کبھی نہ پڑھیں۔ اگرچہ اس طرح پیدا ہونے والے بے شمار غلط تصورات ہیں، آئیے ہم عمومی موضوعات پر کچھ عام قسم کے غلط تصورات کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ اس موضوع پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔

بدھ مت کے متعلق عمومی غلط فہمیاں

یہ سوچ کہ بدھ مت یاس پسند ہے

مہاتما بدھ کا پہلا سبق چار بلند و بالا سچائیوں کے متعلق تھا، اور ان میں سب سے پہلی سچائی "حقیقی دکھ" تھی۔ ہم خواہ عدم مسرت کی بات کریں، یا ہمای مسرت کی عمومی صورتوں کی، یا اضطراری پنر جنم کا سب پر محیط واقعہ، یہ سب آزار کی شکلیں ہیں۔ "دکھ" انگریزی زبان میں قدرے سخت لفظ ہے۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ سب حالتیں غیر تسلی بخش ہیں اور مسائلِ زندگی ہیں، اور چونکہ ہر کوئی خوشی کا تمنائی ہے، اور کوئی بھی عدم مسرت نہیں چاہتا، اس لئیے ہمیں اپنے مسائل پر قابو پانا ہے۔
یہ ایک غلط تصور ہے کہ بدھ مت کے نزدیک خوشی محسوس کرنے میں کوئی خرابی ہے۔ لیکن ہماری چھوٹی موٹی خوشیوں میں کمزوری پائی جاتی ہے – وہ کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتیں، وہ کبھی بھی تسکین بخش نہیں ہوتیں، اور جب وہ اختتام کو پہنچیں تو ہم ہمیشہ اور کی تمنا کرتے ہیں۔ اگر ہمیں ہماری کوئی من پسند چیز وافر مقدار میں ملے، مثلاً ہماری من پسند غذا، تو ہمارا دل اس سے بھر جاتا ہے اور اگر اور کھائں گے تو ناخوش ہوں گے۔ پس بدھ مت ہمیں ایسی خوشی کی تلاش سکھاتا ہے جو اس قسم کے غیر تسلی بخش حالات سے مبرّا ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارا اعلیٰ ترین ہدف بے حسی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسرت کی کئی قسمیں ہیں، لیکن جس چیز کا ہم مزہ چکھتے ہیں، اگرچہ وہ عدم مسرت سے بہتر ہے، پر یہ خوشی کی وہ اعلیٰ ترین شکل نہیں ہے جس کا ہم مزہ لے سکتے ہیں۔

یہ سوچ کہ عدم استقلال کی تعبیر صرف منفی ہی ہے

ععدم استقلال کو ہماری عمومی خوشی کے آئینہ میں دیکھنا غلط ہے: یہ اختتام کو پہنچے گی اور عدم تسکین اور عدم مسرت کا باعث ہو گی۔ عدم استقلال سے مراد یہ بھی ہے کہ ہماری زندگی کا کوئی ناخوشگوار دور آخر کو ختم ہو جاۓ گا۔ اس سے بازیابی اور نئے مواقع سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے امکانات جنم لیتے ہیں۔ پس، بدھ مت ہمیں ہماری زندگی کے متعلق رویہ اور انداز فکر کو تبدیل کرنے کے بے شمار طریقے پیش کرتا ہے، تا کہ باالآخر، مکش اور روشن ضمیری حاصل کی جا سکے۔ ان تمام تبدیلیوں کا منبع عدم استقلال کا اصول ہے۔

یہ سوچ کہ بدھ مت ایک قسم کی لا وجودیت ہے

مہاتما بدھ نے فرمایا کہ ہم سب کے مسائل کا سبب حقیقت سے لا علمی ہے – وہ، دوسرے اور ہر کوئی شے کیسے وجود رکھتی ہے۔ اس نے خالی پن کو اس الجھن کا تریاق بتایا۔ یہ سوچنا کہ خالی پن عدم وجودیت کی ایک قسم ہے یہ غلط فہمی ہے اور مزید یہ کہ مہاتما بدھ نے کہا کہ ہر شے وجود سے عاری ہے – تمہارا کوئی وجود نہیں، دوسروں کا کوئی وجود نہیں، تمہارے مسائل کا کوئی وجود نہیں، تو تمہارے مسائل کا حل یہ ہے کہ کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے، یہ بھی غلط فہمی ہے۔
خالی پن کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے۔ ہم اشیاء کے وجود کی مختلف النّوع غیر ممکنہ اشکال کو حقیقت کا روپ دیتے ہیں – مثلاً، ہر غیر شے سے الگ آزادانہ وجود۔ ہم اس حقیقت سے نابلد ہیں کہ ہر شے ایک دوسرے سے بھر پور، فطری انداز میں منسلک اور ایک دوسرے پر منحصر ہے۔ اس کے متعلق ہماری عادی الجھن اشیاء کے وجود کو غیر ممکن طور پر دیکھتی ہے، جیسے یہ ویب سائٹ، اس کا وجود آزادانہ نظر آۓ حالانکہ اسے بنانے میں ایک سو سے زائد لوگوں نے ہزاروں گھنٹے صرف کئیے ہیں۔ وجود کا یہ ناممکن طریقہ حقیقت کے کسی بھی پہلو سے مطابقت نہیں رکھتا۔ خالی پن سے مراد کسی بھی ایسے حوالے کی عدم موجودگی ہے جو ہمارے وجودیت کے نا ممکنہ طریقوں کی عکاسی کرتا ہو۔ کوئی شے بھی آزادانہ وجود کی حامل نہیں؛ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسے چیز کا کوئی وجود ہی نہیں۔

اخلاقیات اور عہد و پیمان کے متعلق غلط فہمیاں

 یہ سوچنا کہ بودھی اخلاقیات کی بنیاد نیک و بد کی اخلاقی تمیز پر ہے

اخلاقیات اور کئی اور معاملات کے متعلق اصطلاحات کے غلط ترجمے کی بنا پر غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کی بدولت ہم غیر بودھی نظریات کو بودھی تعلیمات میں شامل کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم ایسی اصطلاحات استعمال میں لا سکتے ہیں جو بائیبل والے معانی رکھتی ہوں، جیسے پاکباز اور غیر پاکباز، نیکی اور گناہ۔ اس قسم کے الفاظ بودھی اخلاقی تعلیمات میں اخلاقی نیکی اور بدی کا تصور پیش کرتے ہیں: کہ بعض کام نیک ہیں، یعنی مناسب اور بھلے۔ اگر ہم انہیں کریں گے تو اچھے انسان کہلائیں گے، اور ایسا رویہ رکھنے سے ہم انعام کی مستحق خوبی پیدا کریں گے۔ لیکن اگر ہم "غیر پاکباز" انداز سے اعمال سر زد کریں گے تو ہم گناہ کے مرتکب ہوں گے جس کی سزا ہمیں ضرور ملنی ہے۔ یہ صاف طور پر بائیبل کی اخلاقیات ہیں جنہیں ہم بدھ مت پر منطبق کر رہے ہیں۔

بودھی اخلاقیات کا تعلق صریحاً امتیازی آگہی استوار کرنے سے ہے۔ ہمیں تعمیری اور تخریبی کے درمیان، سود مند اور ضرر رساں کے درمیان تمیز کرنا ہے، اور پھر سوجھ بوجھ کے ذریعہ نقصان دہ، تخریبی رویہ سے گریز کرنا ہے۔

یہ سوچ کہ بودھی اخلاقیات کی بنیاد قوانین کی پابندی ہے

اگلی بات کی بنیاد یہ غلط فہمی ہے کہ بودھی قوانین کا ماخوذ امتیازی آگہی کی بجاۓ قوانین کی پابندی ہے۔ بعض معاشروں میں لوگ قوانین کی سختی سے پابندی کرتے ہیں، اور وہ اس معاملہ میں نہائت ہٹیل ہو جاتے ہیں: وہ قانون کی خلاف ورزی کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے برعکس تبتی لوگ اخلاقی اقدار کے متعلق اتنے سخت گیر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بے راہ رو ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض حالات میں انسان کو کسی اخلاقی قدر کے اطلاق کے متعلق فیصلہ کر نے میں امتیازی آگہی کو کام میں لانا چاہئیے۔ یہاں جس چیز کے درمیان ہم نے امتیاز کرنا ہے وہ یہ کہ کیا ہم کسی پریشان کن جذبے کے تحت کچھ کر رہے ہیں یا اس رویہ کے پس پشت کوئی تعمیری محرک موجود ہے۔

یہ سوچ کہ عہد و پیمان ایسے قوانین کی مانند ہیں جن میں کچھ کمزوریاں ہو سکتی ہیں

دوسری طرف انتہا یہ ہے کہ ہم عہد و پیمان کو ایک وکیل تصور کر سکتے ہیں، تو ہم کرم کے بیان میں کمزوریاں تلاش کرتے ہیں تا کہ ہم تخریبی رویہ اختیار کرنے کا جواز پیدا کر سکیں یا کسی عہد میں کمی بیشی کر سکیں یا اسے کمزور اور بے اثر بنا سکیں۔ میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کیجئیے ہم نا مناسب جنسی رویہ اختیار کرنے سے پرہیز کا عہد کرتے ہیں، اور پھر ہم اورل سیکس کو جائز قرار دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ اظہار محبت ہے۔ ہم اپنے آپ کو قابل گرفت نہیں سمجھتے کیونکہ ہمیں ایسا جنسی فعل پسند ہے۔ یا شراب نہ پینے کا وعدہ کر کے ہم اپنے والدین کے ساتھ کھانے کے وقت شراب پینے کو اس لئیے جائز قرار دیتے ہیں تا کہ ہمارے والدین ہم سے خفا نہ ہوں، یا یہ کہ کبھی کبھار پی لینے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ہم دھت نہ ہو جائیں۔ ہم اس قسم کے بہانے اس لئیے تراشتے ہیں تا کہ کسی عہد کی خلاف ورزی کر سکیں۔ 

مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کوئی عہد باندھیں، تو اسے دل و جان سے مکمل طور پر اپنائیں۔ آپ عہد کا کچھ حصہ نہیں اپناتے۔ یہ ہے عہد کا درست بیان۔ اگر ہم کسی عہد کے تمام پہلووں پر یا کسی ایک عہد پر کار بند نہیں رہ سکتے، جیسا کہ صحیفے میں بیان کیا گیا ہے، تو عہد کو نہ باندھیں۔ عہد باندھنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔

اس کا ایک نعم البدل بھی ہے۔ عہد و پیمان کے متعلق 'ابھی دھرم' مباحثہ میں تین قسموں کا ذکر ہے: ایک عہد تو وہ ہے جس میں آپ کسی تخریب کن شے سے پرہیز کا وعدہ کرتے ہیں۔ اور پھر ایک اور قسم ہے جس کا ترجمہ بہت مشکل ہے – یہ ایک قسم کی سچ مچ کی مانع عہد ہے۔ یہ کسی ضرر رساں فعل سے باز نہ رہنے کا عہد ہے، مثال کے طور پر، قتال سے۔ مثلاً اگر آپ فوج میں بھرتی ہوں تو آپ حملے کی زد میں آنے کی صورت میں گولی چلانے سے باز نہ رہنے کا عہد باندھیں۔ اور پھر ایک اور قسم ہے جو ان کے بیچ ہے: کسی عہد کے کسی ایک حصہ سے گریز۔

یہاں ہم اس درمیان والی قسم کا اطلاق کر سکتے ہیں۔ مثلاً، جنسی بے راہ روی سے پرہیز کے معاملہ میں اگر عہد کے کچھ حصے ایسے ہیں جن پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پابند نہیں رہ سکیں گے تو ہم محض اس بات کا عہد کر سکتے ہیں کہ ہم کسی کے ساتھی سے جنسی فعل نہیں کریں گے، یا جنسی فعل میں تشدد استعمال نہیں کریں گے، جیسے کسی سے زنا باالجبر، یا کسی کو جنسی فعل پر مجبور کرنا۔ اس قسم کا عہد باندھنے کا ذکر صحیفوں میں نہیں ہے۔ مگر یہ بہت مثبت ہے اور بہت سی مثبت شکتی پیدا کرتا ہے -  میں مثبت شکتی کو انعام کی مستحق خوبی پر ترجیح دیتا ہوں، اور منفی شکتی کو گناہ کے اوپر – تو یہ ہمارے من کے چلار کے اوپر بہت مثبت شکتی استوار کرتی ہے بجاۓ محض اس قسم کے رویہ سے پرہیز کے۔ یہ عہد کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتی بلکہ نہائت مضبوط اخلاقی رویہ بن جاتی ہے۔

یہ سوچ کہ بودھی اخلاقیات انسانیت پر مبنی ہیں – محض دوسروں کو نقصان پہنچانے سے پرہیز پر

بودھی اخلاقیات کے متعلق ایک اور غلط تصور یہ ہے کہ یہ انسانیت پر مبنی ہیں۔ "انسانیت پسندی" سے مراد بس اتنی ہے کہ ہم ایسے کام کرنے سے گریز کریں جن سے دوسروں کو نقصان پہنچے۔ اگر اس سے کسی کو نقصان نہیں پہنچتا تو یہ جائز ہے۔ یہ انسانیت پسند اخلاقیات ہیں، یا کم از کم میری سمجھ ان کے متعلق ایسی ہے۔ اگرچہ یہ نہائت عمدہ بات ہے مگر بودھی اخلاقیات یہ نہیں کہتیں۔ بودھی اخلاقیات کی بنیاد خود تلف رویہ سے پرہیز پر ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ کسی کو کونسی چیز سے نقصان پہنچ سکتا ہے: آپ کسی کو دس لاکھ یورو دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم اس کا بھلا کر رہے ہیں۔ اور اگلے ہی روز، اس پیسے کی بدولت، وہ شخص لُٹ جاتا ہے اور قتل کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہم نہیں جانتے کہ کسی کے لئیے کیا سود مند ہے۔ ہم مستقبل سے ناواقف ہیں۔ بودھی اخلاقیات کے متعلق تعلیمات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر ہمارا رویہ تخریب زدہ ہو، جس کی بنیاد پریشان کن جذبات ہیں – غصہ، لالچ، شہوت، حسد، بھولپن، وغیرہ – تو یہ خود تلف ہو گا۔ ہمیں اس رویہ کا اعادہ کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے، اور اس سے ہم خود تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہ بودھی اخلاقیات کی بنیاد ہے۔

پنر جنم کے متعلق غلط فہمیاں   

پنر جنم کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے اپنے ضرر رساں رویہ اور تباہ کن جذبات پر قابو نہ پانا

بدھ مت کی اخلاقیات کا انسانیت پسند ہونے کا غلط تصور – بس دوسروں کو نقصان نہ پہنچاؤ - مہایان مسلک کو غیر ضروری اہمیت دینے سے آتا ہے، اس سوچ سے کہ ہم لم- رم کے ابتدائی اور درمیانہ درجہ کے مراحل کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔ "لم- رم" سے مراد روشن ضمیری پانے کی درجہ بہ درجہ منزلوں کو طے کرنا ہے۔ سب سے اول محرک بد حال پنر جنموں سے چھٹکارا پانا ہے۔ تو ہم تو پنر جنم کو مانتے ہی نہیں۔ درمیانہ درجہ پر مکمل طور سے اضطراری رو بہ اعادہ پنر جنم سے بچنا ہے۔ لیکن چونکہ ہم پنر جنم پر یقین ہی نہیں رکھتے تو یہ سب باتیں ہمیں بے معنی لگتی ہیں۔ ہم یوں سوچتے ہیں، "ہم اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔" لیکن ہم مہایان تعلیمات کو پر کشش پاتے ہیں، کیونکہ کئی لحاظ سے، وہ ہمارے مغربی افکارِ محبت، درد مندی، برداشت، دریا دلی، سخاوت، وغیرہ سے متماثل نظر آتے ہیں۔ یہ بہت عمدہ لگتا ہے اور اس لئیے ہم اسے جاذبِ نظر پاتے ہیں، اور اس طرح ہم دو اولین درجات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ایسا کرنے سے ہم ان کے ایک نہائت اہم پہلو کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں، یعنی ہمارا ضرر رساں رویہ اور تباہ کن جذبات اور طور طریقے کیونکہ وہ خود تلف ہیں۔ ہم محض دوسروں کی مدد کرنے کے لئیے کود پڑتے ہیں۔ یہ غلط بات ہے۔ اگرچہ مہایان پر زور دینا اہم ہے، مگر اسے بنیادی اور درمیانی سطح کی بنیاد ہونا چاہئیے۔ پہلے ہمیں اپنے ضرر رساں رویہ اور تباہ کن جذبات پر قابو پانا چاہئیے، کیونکہ یہ دوسروں کی مدد کرنے میں شدت سے حائل ہوتے ہیں۔

پنر جنم کو اہمیت نہ دینا

 ہم میں سے بیشتر کے لئیے ابتدائی تعلیمات کو نظر انداز کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم پنر جنم کے وجود میں یقین نہیں رکھتے۔ بہر حال، ابتدائی منزل پر زور اس بات پر ہے کہ کیسے بد ترین پنر جنموں سے چھٹکارا حاصل کیا جاۓ؛ اس لئے ہم پناہ مانگتے ہیں (اپنی زندگی کو مثبت راہ پر ڈالتے ہیں) اور کرم کے اصولوں پر عمل کرتے ہوۓ تباہ کن رویہ سے گریز کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں بد ترین پنر جنم دیتا ہے۔ ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں یا اسے اہم نہیں جانتے کیونکہ ہم پنر جنم پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور خاص طور پر ہم دوزخ اور گرفت گر بھوت (بھوکے بھوت) اور دیوتا اور شیاطین میں یقین نہیں رکھتے۔ ہم سوچتے ہیں کہ ان کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہےاور یہ کہ دھرم کی کتابوں میں ان کا ذکر در اصل انسان کی نفسیاتی کیفیات کی جانب حوالہ ہے۔ یہ تعلیمات کے ساتھ سخت نا انصافی ہے اور ایک بہت بڑی غلط فہمی۔

غیر انسانی اور غیر حیوانی حیات میں پنر جنم کو سنجیدگی سے نہ لینا 

میں یہاں بہت لمبی چوڑی تفصیلات میں جانا نہیں چاہتا، لیکن اگر ہم ایک من کا مطالعہ کریں، من کا ایک چلار، خواہ وہ ہمارا ہو یا کسی اور کا، تو اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ یہ کیوں وہ تمام مسرت اور عدم مسرت اور خوشی اور غم کو محسوس نہ کر سکے، اور محض اتنے ہی عینی طیف پر اکتفا کرے جو ہمارے جسم اور من بطور ایک انسان کے اسے دیتے ہیں۔ مختلف نوع کے حسی مشاہدات کا معاملہ ایسا ہی ہے۔ بعض جانور انسانوں سے کہیں زیادہ دور تک دیکھ سکتے ہیں۔ ؛ بعض زیادہ بہتر سنتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ تو آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ مسرت اور عدم مسرت، خوشی اور غم کی حدود جنہیں ہم محسوس کر سکیں انہیں بڑھا دیا جاۓ، اور اس کی بنیاد ایک موزوں مادی شکل ہو گی جیسا کہ جہنمی شریر یا دیوتائی جسم۔

زندگی کی دوسری اشکال کو محض انسانی نفسیاتی حالتوں میں ڈھالنا

اگرچہ کرم کی تعلیمات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں گزشتہ زندگیوں کے کچھ باقی ماندہ اثرات ان دوسرے معاملات میں ہو سکتے ہیں – ہمیں ویسے ہی تجربات سے واسطہ پڑتا ہے جیسا کہ وہ ان زندگیوں میں تھے؛ پھر بھی، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان دوسری حیاتی اشکال کے معاملہ کو جو ہم اور دوسرے لوگ اپنا سکتے ہیں، انسانی نفسیات کے حوالے سے بیان کریں۔ یہ تعلیم کی اہمیت کم کرنے والی بات ہے۔

یہ سوچ کہ کرم کا فلسفہ بے تُکا ہے، کیونکہ ہم اسے زندگی کے ایک دورانیہ تک محدود کر دیتے ہیں

پنر جنم سے اور ان دوسری وجود کی حالتوں سے منکر ہو کر ہم کرم کے متعلق یہ غلط تصور قائم کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اعمال کے نتائج کا ظہور صرف اسی زندگی میں ہو گا۔ اس قسم کی حد بندی کرم کے متعلق بہت سارے شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے۔ بعض ایسے بھاری مجرم ہیں جو کبھی پکڑے نہیں گئے۔ ہماری زندگی میں  کئی نہائت بھیانک واقعات پیش آ سکتے ہیں جیسے کہ سرطان سے موت، حالانکہ ہم نے کبھی کوئی ایسا زبردست، ضرر رساں فعل نہیں کیا۔ تو اگر ہم اپنی بحث کا دائرہ محض اس زندگی کے دورانیہ تک محدود کر دیں تو پھر کرم کی کوئی تُک نہیں بنتی۔

کرم کے متعلق غلط فہمیاں

 بدھ مت سے ان عناصر کا اخراج جو ہمیں پسند نہیں

اس سب کے پیچھے ایک بڑی مشکل ہے، دھرم کے متعلق ایک بہت بڑی غلط فہمی، جو یہ سوچ ہے کہ ہم دھرم میں سے اپنی پسندیدہ چیزیں چن سکتے ہیں اور جو ہمیں قبول نہیں انہیں رد کر دیں یا نظر انداز کر دیں۔ : یعنی کہ "مطہَر" بدھ مت۔ ہم اس میں سے مشکل مشکل چیزیں نکال دیتے ہیں۔ 

جب ہم کرم کے متعلق ایسی کہانیاں سنتے ہیں جس میں ہاتھی زیر زمین جا کر سونا بطور فضلہ خارج کرتے ہیں، اور ایسی ہی اور باتیں، تو ہم سوچتے ہیں،" جانے دو بھیّا! وہ تو بچوں کے لئیے گھڑی گئی جنّوں پریوں کی کہانیاں ہیں!" ہم ان میں کوئی سبق تلاش نہیں کرتے۔ خواہ ہم انہیں سچ مانیں، جیسا کہ بعض تبتی لوگ کرتے ہیں، یا نہ مانیں، اس سے کچھ  فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات یہ ہے کہ انہیں رد نہ کیا جاۓ کیونکہ وہ شکشا کا حصہ ہیں۔ مہایان سوتروں میں ایک اور مثال ملتی ہے، جس میں مہاتما بدھ لاکھوں کروڑوں  ہستیوں کو درس دے رہے ہیں؛ اور وہاں لاکھوں کروڑوں مہاتما بدھ درس لے بھی رہے ہیں؛ اور ہر مہاتما بدھ کے ہر مسام میں مزید لاکھوں کروڑوں مہاتما بدھ ہیں؛ علیٰ الہٰذالقیاس۔ بعض اوقات ہم ان کے متعلق شرمندگی محسوس کرتے ہیں، اور کہتے ہیں،" یہ بہت عجیب ہے۔" ہم انہیں دھرم کا حصہ نہیں مانتے۔ 

یہاں مسٔلہ بدھ مت کی ان باتوں کو چننے اور اپنانے کا ہے جنہیں ہم پسند کرتے ہیں۔ بدھ مت کی بعض تعلیمات کو رد کرنے یا انہیں غیر مستند قرار دینے کے خلاف کچھ تنتری اور بودھی ستوا عہد موجود ہیں؛ دوسرے لفظوں میں، شکشا کے کچھ حصوں کو اپنانا اور دوسروں کو نظر انداز کر دینا، بس اسے اپنا لینا جو ہمیں اچھا لگتا ہے۔ اگر ہم بدھ مت کو اپنا روحانی مسلک بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں صاف دلی سے یہ کہنا چاہئیے،" میں اس شکشا کو نہیں سمجھ پایا۔" یہ لازم ہے کہ ہم اپنے من بند نہ کر لیں اور انہیں رد کر دیں۔

یہ سوچ کہ ایک اور قیمتی انسانی پنر جنم پانا آسان ہو گا

اگر ہم پنر جنم کو مان بھی لیں تو بھی یہ تصور کہ ایک اور قیمتی انسانی جنم ملنا آسان ہوگا یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ ہم اکثر یوں سوچتے ہیں، "ہاں، ہاں' میں پنر جنم میں یقین رکھتا ہوں، اور بے شک میں پھر سے بطور ایک انسان کے پیدا ہوں گا اور مجھے اپنا پاٹھ جاری رکھنے کے تمام مواقع میسر ہوں گے،" وغیرہ وغیرہ۔ یہ بھولپن ہے، بے حد بھولپن۔ خاص طور پر اگر ہم اس تمام تباہ کن رویہ کو دھیان میں رکھیں جس کے ہم مرتکب ہوۓ، وہ تمام مدت جس میں ہم پریشان کن جذبات سے مغلوب رہے – غصہ، لالچ، خود غرضی، وغیرہ۔ – اس وقت کے مقابلہ میں جو ہم نے پیار اور درد مندی پر صرف کیا، تو پھر یہ ہم پر واضح ہو جاۓ گا کہ اگلی بار ایک قیمتی انسانی جنم لینا کس قدر مشکل ہے۔

قیمتی انسانی روپ میں پنر جنم کے لئیے تگ و دو کرنا تا کہ ہم پھر اپنے عزیزوں کے ساتھ  زندگی بسر کر سکیں

ایک اور غلط تصور یہ ہے کہ ہم جتن کر کے بذریعہ پنر جنم پھر سے ایک قیمتی انسانی زندگی پا سکتے ہیں تا کہ ہم اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ رہیں، جس کی وجہ ہمارا ان سے گہرا اُنس ہے۔ یا محض یہ سوچ رکھنا کہ اگر مجھے قیمتی انسانی روپ میں پنر جنم ملے تو میں اپنے تمام دوست احباب، رشتہ دار، اور عزیزوں سے دوبارہ مل سکوں گا۔ یہ بھی ایک غلط تصور ہے۔ دنیا میں ان گنت ذی حس ہستیاں اور زندگی کے روپ پاۓ جاتے ہیں۔ ہمارے سب کے انفرادی کرمائی ریکارڈ کے مطابق، ہم سب کا پنر جنم مختلف حالات میں ہو گا۔ اس لئیے اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ ہم کس روپ میں دوبارہ جنم لیں گے اور ہم کس سے ملیں گے۔ در حقیقت، اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ ہماری کسی اس جنم والے انسان سے ملاقات ہو، ایسا ہونے کے لئیے بہت عرصہ لگے گا۔ شائد ہم مل پائیں، یہ نا ممکن نہیں ہے۔ مگر یہ سوچنا کہ یہ آسان کام ہے یا کہ اس کی کوئی ضمانت ہے غلط ہے۔

کرم کے متعلق غلط فہمیاں

یہ سوچ کہ ہم برے ہیں اور اپنے منفی کرمائی امکانات کی پختگی کے سزا وار ہیں

کرم اور پنر جنم کے متعلق ایک اور بات یہ ہے کہ اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ ہمارے دکھ درد کا سبب ہمارے پچھلے جنم کے منفی کرمائی امکانات کی پختگی ہے، تو ہم یوں سوچ سکتے ہیں، "میں اگر دکھ جھیلوں، اگر میرے ساتھ کچھ برا پیش آتا ہے، تو میں اس کا سزا وار ہوں۔" یا اگر یہ تمہیں پیش آۓ تو تم اس کے سزا وار ہو۔ یہاں غلط فہمی کا پہلو یہ ہے کہ ہم ایک ٹھوس "میں" کے وجود کو فرض کر لیتے ہیں جس نے قانون کی خلاف ورزی کی، جو بد ہے اور قصور وار ہے، اور اب میں وہ سزا پا رہا ہوں جس کا میں مستحق ہوں۔ پس ہم "میں" پر الزام دھرتے ہیں – یہ ٹھوس "میں" جو بہت بری ہے اور اب اپنے کئیے کی سزا بھگت رہی ہے – اس کی وجہ ہماری کرم کے قوانین کی نا سمجھی ہے، علت و معلول کے قوانین کی۔

یہ سوچ کہ ہم دوسروں کے کرم کی پختگی کے ذمہ دار ہیں

پھر ہم اس احساس جرم کا دوسروں کے کرم کی پختگی پر اطلاق کرتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ کرم کی پختگی کے پس پشت بے شمار حالات و معاملات ہوتے ہیں اور ہر ایک کے اپنے اپنے اسباب ہوتے ہیں۔ یہ سوچ سراسر غلط ہے کہ میں دوسرے لوگوں کے کرم کی پختگی کا ذمہ دار ہوں۔ انہیں جو بھی درپیش ہے وہ ان سب عناصر کا مرہونِ منت ہے، نہ کہ محض میری وجہ سے۔

میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کیجئیے کہ کوئی گاڑی مجھ سے ٹکرا جاتی ہے۔ اس کا سبب میری کسی گزشتہ زندگی کا کوئی فعل نہیں جو اس شخص کے لئیے مجھے مارنے کا سبب بنا۔ اگر میں یہ سوچوں، " اس شخص کے مجھے مارنے کا میں کرمائی طور پر ذمہ دار ہوں،" تو یہ درست نہیں ہے۔ جس چیز کے ہم کرمائی لحاظ سے ذمہ دار ہیں وہ ہمیں اس چوٹ کا لگنا ہے۔ ہمیں کار سے چوٹ لگنے کا عمل اس شخص کے کرم کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح، ہمیں جو ہوتا ہے یہ بے شمار مختلف النوع کرمائی عناصر کے باہمی تعامل کا نتیجہ ہے، جس میں پریشان کن جذبات اور کئی عمومی عناصر بھی شامل ہیں – جیسے موسم: بارش ہو رہی تھی، سڑک پھسلنی تھی، وغیرہ، وغیرہ۔ یہ تمام عناصر مل کر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو ہمارے لئیے آزار اور مسائل کا سبب بنتے ہیں۔

گرووں کے متعلق غلط فہمیاں

اس حقیقت سے چشم پوشی کہ گرووں کا قابل ہونا اور ہمیں ترغیب دینا ضروری ہے

اب ہم گرووں کی بات کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اس معاملہ میں بہت زیادہ غلط فہمی پائی جاتی ہے، محض مغربی لوگوں کے ہاں ہی نہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ گرو کی اہمیت پر زور دینے کی وجہ سے، ہم اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ گرو کا قابل ہونا ضروری ہے -  صلاحیتوں کی فہرستیں موجود ہیں۔ اور اگر گرو قابل ہو بھی، پھر بھی ہمارا اس سے وجدان محسوس کرنا ضروری ہے۔ 

روحانی استاد کا وجود اس لئیے ضروری ہے کہ استاد ترغیب دیتا ہے، پاٹھ میں کام آنے والی شکتی، وہ نمونہ جس پر ہم نے چلنا ہے، یہ سب مہیا کرتا ہے۔ معلومات تو ہم کتابوں سے اور انٹرنیٹ سے بھی لے سکتے ہیں۔ بے شک گرو ہمارے سوالوں کے جواب دیتا ہے، اور اسے اس قابل ہونا چاہئیے کہ اگر ہم اپنے مراقبہ کی مشق میں کوئی غلطی کریں تو وہ ہماری اصلاح کر سکے۔ لیکن اگر وہ شخص ہمیں تحریک نہیں دے سکتا تو ہم کچھ زیادہ نہیں سیکھ پائیں گے۔

کسی کو بغیر اچھی طرح پرکھے اپنا گرو مان لینا

اس غلط تصور کی بنا پر کہ ان کا قابل اور ترغیب دینے کا اہل ہونا ضروری ہے، ہم کسی شخص کو اپنا گرو بنانے میں، بغیر انہیں اچھی طرح پرکھنے کے، جلد بازی سے کام لیتے ہیں۔ اس دباؤ کی وجہ سے ہم بھی دباؤ محسوس کرتے ہیں: "آپ کا کوئی گرو ہونا لازم ہے؛ آپ کا کوئی گرو ہونا لازم ہے۔" پھر ہم آنکھ سے پردہ اٹھنے کا خطرہ مول لیتے ہیں جب، بعد میں، ہم حقیقت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس گرو میں کمزوریاں پاتے ہیں۔ ہم نے شروع میں ٹھیک سے نہیں پرکھا۔ یہ ایک بڑا مسٔلہ ہے کیونکہ بعض روحانی اساتذہ پر نا مناسب رویہ کے سچے یا جھوٹے الزامات کے سبب کئی سکینڈل بنے ہیں۔ بعض اوقات ان پر ایسے الزامات درست ہوتے ہیں؛ وہ واقعی اس قابل نہیں تھے لیکن ہم نے اس گرو کو اپنانے کے دباؤ تلے آ کر انہیں اپنا گرو مان لیا ہو گا۔ پھر جب ہمیں اپنے گرو کے متعلق ان سکینڈلوں کا پتہ چلتا ہے تو ہم سخت برہم ہوتے ہیں۔

یہ سوچ کہ تمام تبتی، خصوصاً تیاگی، اور خاص طور پر خطاب یافتہ کامل بودھی ہیں  

اس ضمن میں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ یہ سوچ کہ تمام تبتی؛ یا کہ تمام بھکشو، مرد یا عورتیں؛ بلکہ تمام رنپوچے، گیشے اور کنپوس بدھ مت پاٹھ کی عمدہ مثالیں ہیں۔ یہ غلط فہمی عام ہے۔ ہم سوچتے ہیں، "وہ کامل بودھی ہوں گے: وہ تبتی ہیں،" یا "کامل بودھی: انہوں نے چوغے پہن رکھے ہیں۔" "کامل بودھی: ان کے پاس رنپوچے کا خطاب ہے۔ وہ یقیناً روشن ضمیر ہستی ہوں گے۔" یہ سراسر بھولپن ہے۔ ان میں سے بیشتر عام لوگ ہیں۔ 

یہ ممکن ہے کہ دوسرے معاشروں کی نسبت تبت میں زیادہ بدھ مت کے پیرو کار ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان کی تہذیب میں بعض بودھی اقدار موجود ہوں؛ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کامل ہیں، کسی لحاظ سے بھی۔ اگر کوئی بھکشو بن جاتا ہے، تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ تبتی لوگوں میں، یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے والدین آپ کی کفالت کے متحمل نہ تھے تو انہوں نے بچپن میں ہی آپ کو کسی آشرم میں ڈال دیا تا کہ آپ کو خوراک اور تعلیم میسر ہو۔ اس کی وجہ کوئی اپنے تئیں قائم شدہ محرک بھی ہو سکتا ہے – جیسے کہ مجھے مسائل در پیش ہیں اور مجھے آشرم کا با ضابطہ ماحول چاہئیے تا کہ میں اپنے مسائل پر قابو پا سکوں۔ 

میرے ایک رنپوچے دوست نے بتایا، "چوغہ پہننے کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہے کہ مجھے اس نظم و ضبط کی ضرورت ہے، کیونکہ میں ایک بے ہنگم، پریشان کن جذبات کا مارا انسان ہوں جو ان پر قابو پانے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے۔" لہٰذا ہمیں معصومیت سے یہ نہیں سوچنا چاہئیے کہ وہ سب روشن ضمیر ہیں، خصوصاً رنپوچے کے بارے میں۔ تقدس مآب دلائی لاما ہمیشہ کہتے ہیں: کسی بڑے خاندانی نام پر بھروسہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان رنپوچے کو اس زندگی کے دوران اپنی قابلیت کو ثابت کرنا ہے، نہ کہ محض اپنے نام کی بڑائی پر بھروسہ۔

مرد اور خواتین بھکشووں کی عزت نہ کرنا، ان سے عام عوام کے لئیے خدمت لینا

دوسری طرف، مرد اور خواتین بھکشووں کی عزت نہ کرنا اور دھرم کے مراکز میں ان سے عام عوام کے لئیے خدمت لینا بھی ایک غلط سوچ ہے۔ ایسا اکثر ہوتا ہے کہ کسی دھرم کے مرکز میں کوئی مرد یا عورت بھکشو رہتا ہے۔ اس بھکشو کا کام مرکز کی صفائی، درس کے لئیے تیاری اور ہر شے کو ٹھکانے پر رکھنا، چندہ وصول کرنا وغیرہ ہوتا ہے۔ اور اگر یہ کوئی رہائشی مرکز ہے تو رہائش گاہوں کا خیال رکھنا اور اختتام ہفتہ کورس کے لئیے بند و بست کرنا ان کے ذمہ ہوتا ہے، حتیٰ کہ بے حد مصروفیت کے باعث خود درس میں شامل نہیں ہو پاتے۔ یہ ایسا ہے کہ لوگ ان تیاگیوں کو اپنا خدمت گزار سمجھتے ہیں۔

حالانکہ معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہونا چاہئیے۔ بطور بھکشو کے وہ عزت و احترام کے حقدار ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ اخلاقیات کے کس درجہ پر ہیں۔ سنگھا میں محفوظ راہ یا پناہ کی تعلیمات میں ذکر ہے: احترام کرو حتیٰ کہ چوغہ کا بھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سوچیں کہ وہ کامل ہیں اور اس سے بیگانہ ہیں۔ مگر کچھ نہ کچھ احترام تو ہونا چاہئیے۔

یہ تصور کہ گرو سچ مچ ایک کامل مہاتما بدھ ہے اور اپنی زندگی کی تمام ذمہ داری ترک کر دینا

اس اصطلاح یعنی "گرو سے والہانہ وابستگی" کے متعلق بھی بہت غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ میرے خیال میں یہ اتنا فائدہ مند ترجمہ نہیں ہے، کیونکہ اس سے گرو کی اندھا دھند اطاعت ظاہر ہوتی ہے، جیسا کہ کسی مسلک میں۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ یہاں روحانی استاد کے ساتھ تعلق کو ظاہر کرنے کے لئیے جو اصطلاح استعمال کی گئی ہے اس سے مراد کسی پر اعتماد اور بھروسہ ہے جیسا کہ ہم کسی قابل ڈاکٹر پر بھروسہ کرتے ہیں۔ تو جو اصطلاح ہم ڈاکٹر کے ساتھ تعلق کے لئیے استعمال کرتے ہیں وہی اپنے گرو کے لئیے بھی کرتے ہیں۔ لیکن گرو کو بطور مہاتما بدھ تصور کرنے کے ہم غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں اور استاد کو کامل سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہم اس کی غیر مشروط اطاعت کریں، جیسا کہ کسی مسلک میں۔ یہ غلط ہے۔ اس کی بنا پر ہم اپنی تمام تحقیقی قابلیت اور احساس ذمہ داری کھو بیٹھتے ہیں، اور ہم فال نکالنے کے طریقہ پر بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے ہیں (پانسہ، پیشین گوئی) – پانسہ پھینکو اور ہمارے سارے فیصلے کر دو۔

ہم بذات خود مہاتما بدھ بننا چاہ رہے ہیں، لہٰذا عقل اور درد مندی کی بنیاد پر خود فیصلے کرنے کی خاطر امتیازی آگہی استوار کرو۔ پس اگر کوئی استاد، مرد یا عورت، طاقت کے نشہ میں، ہمیں ان کے اوپر محتاجی کی جانب لے جا رہا ہے، تو معاملہ گڑ بڑ ہے۔ اسے درست سمجھنا اور اس کی پیروی کرنا غلط ہے۔ کسی استاد کے ساتھ اس قسم کے طاقت اور کنٹرول کے کھیل کا شکار ہونا صحیح راستہ سے انحراف ہو گا۔

گرو کو کوئی معالج یا پادری تصور کرنا  

کسی بودھی استاد کو ایک پادری یا معالج سمجھ کر اس سے نصیحت لینے کی خاطر اپنے ذاتی مسائل بیان کرنا بھی غلط فعل ہے۔ ایک بودھی روحانی استاد کا یہ کام نہیں ہے۔ ایک بودھی روحانی استاد ریت کے مطابق محض درس دیتا ہے، اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان تعلیمات کو کیسے استعمال میں لاتے ہیں۔ جو بات مناسب ہے وہ یہ کہ ہم شکشا اور مراقبہ کے متعلق اپنی فہم کے بارے میں سوال پوچھیں۔

اگر آپ کو نفسیاتی مسائل درپیش ہیں تو کسی معالج (ماہرِ نفسیات) کی طرف رجوع کریں؛ آپ کسی روحانی گرو کے پاس نہیں جائں گے۔ اور خاص طور پر اپنے ازدواجی مسائل یا قریبی تعلقات یا جنسی مسائل کا کسی مرد یا عورت بھکشو سے ذکر نہیں کرتے۔ وہ مجرد ہیں اور ان معاملات سے مبرّا ہیں۔ اس قسم کے مسائل کے لئیے یہ لوگ غیر موزوں ہیں۔ لیکن ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھنے کی بنا پر جس میں پادری، مُلّا اور یہودی علما پاۓ جاتے ہیں ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ یہ عمومی کلیسائی کردار ادا کر کے مشکل حالات میں ہماری راہنمائی کریں گے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں۔ میں نو برس تک اپنے روحانی گرو تسنژاب سرکونگ رنپوچے کے ساتھ رہا، بیشتر اوقات، بہت قریب، ہر روز۔ اس نو برس کے عرصہ میں اس نے کبھی کوئی ذاتی سوال نہیں پوچھا۔ کبھی بھی نہیں۔ میری ذاتی زندگی کے متعلق، میرے خاندان کے متعلق، میرے گزشتہ حالات و معاملات کے متعلق۔ ہمارا روز مرہ کا معمول یا تو اس کا مجھے درس دینا تھا، یا میرا اس کے ساتھ کام کرنا تا کہ دوسروں کا بھلا ہو – اس کے لئیے ترجمہ کرنا، یا اس کے سفر کے انتظامات کرنا، یا جو بھی۔ تو یہ تعلق اس سے بہت مختلف تھا جس کے ہم مغرب میں عادی ہیں اور ہمارا اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔

پناہ لینے – یعنی اپنی زندگی کو محفوظ راہ پر ڈالنے کو معمولی بات سمجھنا

استاد سے معاملہ کرنے کے سلسلہ میں ہمیں پناہ لینے کے موضوع سے واسطہ پڑتا ہے، جسے میں "محفوظ سمت" کہتا ہوں۔ اس کا مطلب ہماری زندگی کو محفوظ سمت ڈالنا ہے، جیسا کہ مہاتما بدھ نے، دھرم نے اور سنگھا نے بتایا ہے۔ اس کو محض کسی کلب میں شمولیت سمجھنا ایک غلط فہمی ہے۔ آپ اپنے بالوں کی ایک لِٹ کاٹتے ہیں، ایک سرخ رسی لے کر اسے گلے میں باندھتے ہیں، کوئی تبتی نام لیتے ہیں، اور اب آپ کلب میں شامل ہو گئے۔ یہ اس وقت مزید مسٔلہ بنتی ہے جب استاد کسی خاص تبتی پیڑھی سے تعلق رکھتا ہو، تو ہم جس کلب کے رکن بنے ہیں ہم اسے اس خاص تبتی سلسلہ کا حصہ سمجھتے ہیں نہ کہ بدھ مت میں عمومی شمولیت: "اب میں ایک گیلوگپا بن گیا ہوں۔" "اب میں ایک کرم کیگیو بن گیا ہوں۔" "اب میں ایک نئینگما بن گیا ہوں۔"  " اب میں ایک سکیا بن گیا ہوں۔" بجاۓ یہ کہنے کے: "اب میں نے مہاتما بدھ کی راہ اختیار کر لی ہے۔" اس غلط فہمی کی وجہ سے ہم فرقہ پرست بن جاتے ہیں، اختصاص پسند بن جاتے ہیں، اپنے منتخب شدہ دھرم مرکز کے علاوہ کسی اور دھرم مرکز میں نہیں جاتے۔ یہ بات خاصی حیران کن ہے کہ بیشتر مغربی بدھ مت کے پجاری جو دھرم مراکز میں جاتے ہیں صرف ایک ہی کا رخ کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے میں قدم نہیں رکھتے۔

گرو جو مغرب کا رخ کرتا ہے وہ اپنا مخصوص دھرم مرکز اور ادارہ قائم کرنا چاہتے ہیں

ایک اور بات جو مزید الجھن کا باعث ہے وہ یہ کہ ہر روائیتی گرو جو مغرب میں آتا ہے وہ اپنا مخصوص دھرم مرکز اور اپنا ادارہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ اس طرح صورت حال نا قابل برداشت بن جاتی ہے۔ آپ مستقبل میں ایک لمبے عرصہ تک بدھ مت کے چار سو مختلف مسالک کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ مزید یہ کہ یہ نئے طلبا کے لئیے بہت الجھن والی بات ہے۔ اس کے علاوہ اتنی بے شمار قربان گاہوں اور کتب خانوں کو چلانے کے اخراجات، کرایہ وغیرہ ۔ اگرچہ تبت میں بہت سے اساتذہ بھارت اور نیپال سے آۓ اور بہت سارے مختلف آشرم قائم کئیے گئے، مگر آخر کار وہ سب ایک جگہ اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے مل کر امتیازی گروہ بنا لئیے۔ وہ بھارت والے گروہ نہیں تھے – بھارت میں کیگیو اور سکیا موجود نہیں تھے – مگر وہ ایسے گروہوں میں ڈھل گئے جو وجود بر قرار رکھنے کے اہل تھے اور انہوں نے مختلف مسالک اور پیڑھیوں کو یکجا کر دیا۔ 

تو اگرچہ مغربی دھرم میں بڑے بڑے ادارے پاۓ جاتے ہیں جیسا کہ وہ جنہیں ترنگپا رنپوچے، سوگیال رنپوچے، لاما ییشے اور لاما زوپا وغیرہ نے شروع کیا، لیکن ہمیں ایسے گروپ بنانے کے متعلق غور کرنا چاہئیے جو بڑی پیڑھیاں تشکیل دے سکیں، جیسا کہ تبت میں ہوا۔ مگر ایسا کرنے میں دو انتہائی صورتیں ہیں جن سے ہمیں بچنا ہے۔ ایک تو یہ کہ اگر مغربی بدھ مت کے کئی حصے بخرے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں۔ دوسری طرف اگر یہ حد سے زیادہ اصول و قوانین کا پابند ہے تو بھی کام نہیں چلے گا۔ پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ مگر میرے خیال میں استقامت بڑا مسٔلہ ہے۔

یہ سوچ کہ اگر ہمارا کوئی استاد ہے تو ہم دوسرے اساتذہ سے سبق نہیں لے سکتے

 دوسرے دھرم مراکز کو نہ جانے کے سلسلہ میں یہ سوچ بھی غلط ہے کہ ہم دوسرے اساتذہ سے سبق نہیں لے سکتے خواہ وہ ہمارے استاد کے مسلک سے ہی کیوں نہ ہوں۔ بیشتر تبتی لوگوں کے کئی استاد ہوتے ہیں، نہ کہ محض ایک۔ اس بات کا ریکارڈ موجود ہے کہ اتیشا کے ۱۵۵ استاد تھے۔ مختلف اساتذہ کی مختلف صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ کوئی ایک اس بات کو اچھی طرح بیان کرتا ہے، کوئی اور کسی اور بات کو بخوبی سمجھاتا ہے۔ کسی کا یہ مسلک ہے؛ کسی کا وہ۔ بہت سے گرووں سے سبق لینے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپنے استاد سے بے وفائی کر رہے ہیں۔ جیسا کہ تقدس مآب دلائی لاما فرماتے ہیں: ہم اپنے گرووں کو گیارہ سر والا آوالوکی تیشور تصور کر سکتے ہیں، ہر استاد ایک الگ چہرہ ہے، اور وہ سب مل کر ایک شریر بنتے ہیں جو ہماری روحانی راہنمائی کرتا ہے۔

بہت سے اساتذہ سے تعلق جو ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں

تو بہر حال یہ بات بہت اہم ہے کہ بہت سے گرووں سے تعلق نہیں رکھنا چاہئیے جو باہمی نقیض کے حامل ہوں۔ یہ نہیں چلے گا۔ آپ کو ایسے گرو تلاش کرنا ہیں جن کا باہمی تعلق – جسے تبتی زبان میں 'ڈیم-تشگ' کہتے ہیں - گہرا ہو اور باہمی مطابقت رکھتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض اوقات، بد قسمتی سے، ایسے واقعات پیش آتے ہیں جنہیں ہم "سیاروں کی روحانی جنگیں" کہتے ہیں۔ یہ ان روحانی گرووں کے درمیان وقوع پذیر ہوتی ہیں جو کسی مسٔلہ پر شدت سے اختلاف رکھتے ہیں – خواہ یہ محافظوں کے متعلق ہو، یا یہ کہ اصل کرمپا کون ہے، یا جو بھی۔ پس اگر آپ ایک سے زائد استادوں سے سبق لینا چاہ رہے ہیں تو اس بات کی تسلی کر لیں کہ وہ آپس میں مربوط  اور ہم آہنگ ہیں۔

یہ سوچ کہ محض کسی کا ایک لیکچر سن کر اسے اپنا روحانی گرو مان لیا جاۓ

یہاں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ کسی بدھ گرو کا ایک لیکچر سننے سے وہ ہمارا روحانی استاد نہیں بن جاتا معہ گرو سے آدابِ عقیدت کے، اگرچہ یہ لازم ہے کہ ہم اس شخص کو بجا عزت دیں۔ جیسا کہ تقدس مآب فرماتے ہیں، "آپ کسی کا لیکچر سن سکتے ہیں جیسا کہ کسی یونیورسٹی میں ہوتا ہے۔" اس کی اس سے بڑھ کر کوئی اہمیت نہیں ہے۔

پاٹھ کے متعلق غلط فہمیاں

مطالعہ کو پاٹھ کے ساتھ نہ ملانا  

جہاں تک عبادت کا تعلق ہے تو یہ سوچ کہ گیلوگ مسلک صرف مطالعہ پر مبنی ہے جبکہ کیگیو اور نئینگما مسالک خالص طور پر پاٹھ پر مبنی ہیں غلط ہے۔ اس بھولپن کی وجہ سے ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اگر ہم کسی ایک پر کار بند ہیں تو ہم دوسرے پہلو سے غافل ہیں – یا تو ہم مطالعہ سے بے نیاز ہیں یا پھر مراقبہ سے۔ جب اساتذہ ان میں سے کسی ایک پر زور دیتے ہیں – مطالعہ یا مراقبہ – تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ایک پر عمل کریں اور دوسرے کو نظر انداز کر دیں۔ یہ بات واضح ہے کہ ہمیں دونوں کی ضرورت ہے۔

گزشتہ دنوں، مغربی لوگوں کے ایک گروہ سے بات کرتے ہوۓ جنہوں نے دھرم شالا کی لائبریری میں ستر اور اسی کی دہائیوں میں تعلیم حاصل کی تھی، تقدس مآب دلائی لاما نے ایک بہت عمدہ مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ تنتر، مہا مدرا، دزاگچن اور ایسے ترقی یافتہ مراقبے ہاتھ کی انگلیوں کی مانند ہیں۔ ہاتھ کی ہتھیلی، جو کہ بنیاد ہے، ہندوستانی مسلک جو کہ نالندا آشرم سے آیا ہے کی نمائیندگی کرتی ہے، جو کہ ہندوستان کے سوتر کے ماہر نالندا گرووں کی تعلیمات ہیں۔ غلط فہمی کا پہلو یہاں یہ ہے کہ انگلیوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دینا۔ بعض اوقات استاد بھی ایسے کرتے ہیں، انہوں نے کہا، انگلیوں پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ ان کے شاگرد انگلیوں کا مطالعہ کرتے ہیں مگر ہاتھ کو بھلا دیتے ہیں۔ انگلیاں ہاتھ سے منسلک ہیں لیکن بذات خود کچھ نہیں کر سکتیں۔ یہ وہ مثال ہے جو تقدس مآب نے استعمال کی، اور میرے خیال میں یہ بہت مفید نصیحت ہے۔ یہ سوچ غلط ہے کہ، "مجھے صرف دزاگچن مراقبہ کرنا ہے؛ بس قدرتی حالت میں بیٹھے رہنا۔" ایسا کرنا ان تعلیمات کی، بغیر کسی بنیاد کے، لا یعنی تسہیل ہے۔

اپنے آپ کو مِلا ریپا تصور کر کے عمر بھر کا مراقبہ چلہ کاٹنا

یہ بھی غلط سوچ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مِلا ریپا تصور کریں اور یہ کہ ہر شخص – خصوصاً ہم خود – عمر بھر لمبا، یا کم از کم تین برس کا چلہ کاٹیں۔ صرف چند ایک لوگ تمام عمر کا مراقبہ کرنے کے لئیے موزوں ہو سکتے ہیں؛ بیشتر لوگوں کو فلاح عامہ کے کام کرنے چاہئیں۔ یہ نصیحت بغیر کسی واسطہ کے تقدس مآب دلائی لاما کی جانب سے ہے۔ ہمارے زندگی بھر کے مراقبہ کے لئیے موزوں ہونے کا امکان تقریباً ناپید ہے یا یہ کہ ہمیں تین برس لمبا مراقبہ کرنے سے کوئی فائدہ ہو گا ما سواۓ اس کے کہ ہم ایک جگہ بیٹھے تین سال تک منتر جاپتے رہیں، اور کسی گہری سطح پر اپنے آپ کو بہتر بنانے پر کام نہ کریں۔

یہ سوچ کہ محض اپنے فارغ وقت میں مراقبہ کرنے سے ہم روشن ضمیر ہو جائیں گے

 بے شک مکش پانے یا روشن ضمیری حاصل کرنے کے لئیے کل وقتی دھرم پاٹھ ضروری ہے، اور یہ سوچ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ ہے کہ ہم بغیر کل وقتی پاٹھ کے مکش پانے یا روشن ضمیری حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ہم سوچتے ہیں، " میں اپنے فالتو وقت میں مراقبہ کر کے مکش اور روشن ضمیری پا سکتا ہوں۔" یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ لیکن یہ بھی غلط ہو گا کہ اگر ہم اپنے آپ سے ایمانداری سے کام نہ لیں اور اپنی گہرا مراقبہ کرنے کی صلاحیت پر شک کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اپنے اوپر بہت دباؤ ڈالیں لیکن ہم ایسا گہرا مراقبہ کرنے کے اہل نہ ہوں تو ہوتا یہ ہے کہ ہم بہت شکست خوردگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم تبتی زبان میں 'لنگ' کا شکار ہوتے ہیں جو کہ شکست اور گھبراہٹ بھری شکتی ہے اور یہ ہمیں نفسیاتی، جذباتی اور جسمانی طور پر بد حال کر دیتی ہے۔

حقیقت پسندی سے کام نہ لیتے ہوۓ سوچنا کہ روشن ضمیری پانے میں لاکھوں جنم بیتیں گے

اس کا تعلق کسی حد تک پنر جنم میں ایمان نہ ہونے پر بھی ہے، کیونکہ اگر پنر جنم میں ہمارا ایمان نہ ہو تو ہم سنجیدگی سے صدیوں کے پاٹھ کے بعد اپنا ہدف پانے کی توقع نہیں رکھتے۔ ایک شکشا ہمیں بتاتی ہے کہ موجودہ دورانِ حیات میں روشن ضمیری پانا ممکن ہے، لیکن اس کے سبب یوں نہیں سوچنا چاہئیے، "ہمارے پاس صرف ایک یہ ہی زندگی کا دورانیہ ہے، کیونکہ پنر جنم کا کوئی وجود نہیں ہے،" اس طرح ہم اپنے آپ کو اس لمحہ اپنی اہلیت سے زیادہ زیرِ دباؤ لائیں۔

روز مرہ کے باقاعدہ پاٹھ کو اہم نہ جاننا

اس کے دوسرے پہلو کو بھی دیکھو، یعنی روز مرہ کے باقاعدہ پاٹھ کی اہمیت کا احساس نہ ہونا بھی غلط ہے۔ یہ نہائت اہم ہے کہ ہم اپنے روزانہ کے مراقبہ میں باقاعدگی قائم رکھیں اگر ہم اپنے دھرم کے پاٹھ میں استقامت چاہتے ہیں۔ ہماری زندگی میں نظم و ضبط، اقرار، استقامت اور احتیاج کے لحاظ سے اس کے بے شمار فوائد ہیں: کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم ہر روز مراقبہ ضرور کریں گے۔ اگر ہم مفید عادات استوار کرنا چاہتے ہیں، مراقبہ کا نصب العین ہی یہی ہے، تو ہم مشق کریں۔

ویڈیو: گیشے لہاکدور ـ «اصل مراقبہ»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

"مشق" سے کیا مراد ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ تجزیہ اور تکرار کے ذریعہ ایک مفید عادت استوار کرنا۔ مثال کے طور پر، کسی مخصوص حالات میں ہم کسی ایسے مشکل حالات کا تصور کریں جس میں ہم اکثر غصہ میں آ جاتے ہیں اور پھر اپنے جذباتی ہیجان کے اسباب کا جائزہ لیں۔ ہم سوال اٹھائں گے،"میں اس صورت حال کے بارے میں غصہ میں کیوں ہوں؟ مثلاً، جب میں بیمار ہوتا ہوں تو میں کیوں چڑ چڑا ہو جاتا ہوں؟ کیا اس کی وجہ  ۔۔۔۔۔" پھر ہم مزید گہرائی میں جاتے ہیں، اور دیکھتے ہیں، "میں اپنے آپ پر توجہ مرکوز کر رہا ہوں۔ میں دکھ جھیل رہا ہوں۔ میں بیچارہ۔"

اگر ہم بیماری کے دوران شعوری طور پر "میں بیچارہ" نہ بھی سوچیں، لیکن اگر ہم ایمانداری سے کام لیں، ہم دیکھیں گے کہ ہماری توجہ کا مرکز "میں" ہی ہوں، جسے ہم اپنی سوچ میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اور پھر چونکہ ہم اپنے حالات سے خوش نہیں ہیں، تو ہم چڑ چڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے غصہ کو دوسروں کے اوپر نکالتے ہیں۔ تو مراقبہ میں ہم ایسے حالات کا جائزہ لیتے ہیں جو ہمارے ذاتی تجربات سے آتے ہیں، اور پھر ایک سود مند رویہ اختیار کرتے ہیں – جیسے یہاں، صبر – اس تکلیف دہ مسٔلہ کی جانب۔ ایک ایسی روز مرہ کی مشق جس میں ہم ایسے مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں اور کوئی مفید عادت استوار کرنے پر کام کرتے ہیں بے حد فائدہ مند چیز ہے۔ ایسا سوچنا کہ ہم اس کے بغیر کام چلا سکتے ہیں بہت بڑی غلط فہمی ہے۔

یہ سوچ کہ بدھ پاٹھ کا مطلب محض ایک رسم پوری کرنا ہے

 یہ بھی ایک غلط تصور ہے کہ بدھ پاٹھ کا مطلب محض ایک رسم پوری کرنا ہے نہ کہ اپنے آپ کو بہتر بنانے پر کام کرنا ہے۔ بہت سے لوگ، وقتاً فوقتاً، یا تو ایک گروپ کی شکل میں یا اکیلے ہی، ایک 'سادھنا' جو کہ کسی تنتر کا استبصار ہے پڑھتے ہیں۔ اور اکثر وہ اسے تبتی زبان میں پڑھتے ہیں – ایک ایسی زبان جسے وہ سمجھتے ہی نہیں – اور اسے "پاٹھ' مانتے ہیں۔ اس پر دزانگسر خینتسے رنپوچے نے ایک عمدہ مثال دی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر تبتی لوگ اپنی دعائں اور تحریری عبادات جو جرمن زبان میں تبتی رسم الخط میں لکھی گئی ہوں ہر روز پڑھیں، اس کے معانی کا معمولی سا شائبہ کئیے بغیر، تو اسے شک ہے کہ بہت سے تبتی ایسا کریں گے۔ پھر بھی ہم بطور مغربی لوگوں کے ایسا کرتے ہیں اور اسے پاٹھ تصور کرتے ہیں اور یہ کہ ایسا کرنے سے انہیں روشن ضمیری حاصل ہو گی۔ حالانکہ اصل عبادت کا مطلب اپنے اوپر کام کرنا ہے: اپنا رویہ بدلنا، تجزیہ اور درست فہم کے توسط سے اپنے پریشان کن جذبات پر قابو پانا، اور اس طرح مزید سود مند عادات جیسے پیار، درد مندی اور درست فہم وغیرہ استوار کرنا ہے۔

یہ سوچ کہ دھرم پر صحیح طور پر چلنے کے لئیے تبتی رسوم کی ادائگی ضروری ہے

  ایک اور غلط فہمی یہ ہے کہ دھرم پر صحیح طور عمل کرنے کے لئیے ہمیں تبتی یا دوسری ایشیائی رسوم جیسے ہمارے گھر کے اندر اپنے ذاتی "عبادت کے کمرہ" میں یا دھرم مرکز میں تبت انداز کی قربان گاہ کا ہونا ضروری ہے۔ بہت سے تبتی استاد جو مغربی ممالک کو آتے ہیں، بے شک، ایک ایسا دھرم مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں جسے وہ ایک تبتی بدھ مندر کی طرح سجائں جس کی دیواروں پر ویسا ہی رنگ و روغن ہو اور سکرول تصاویر وغیرہ کی آرائش ہو۔

جیسا کہ میرے تبتی دوست کہتے ہیں کہ، "اگر تم مغربی لوگوں کو یہ پسند ہے تو کیوں نہیں؟ اس میں کوئی حرج نہیں۔" لیکن یہ سوچنا کہ ایسی آرائش لازم ہے فاش غلطی ہے۔ خاص طور پر اگر اس کی لاگت بہت زیادہ ہو، کیونکہ اس صورت میں اس پیسے کا بہتر استعمال ممکن ہے۔ پس خواہ یہ آرائش کسی دھرم مرکز میں ہو یا ہمارے گھر کے اندر، ہمیں تبتی بدھ مت کی عبادت کے لئیے ایسی لمبی چوڑی تبتی انداز کی سجاوٹ کی ضرورت نہیں۔ اگر ہمارا پاٹھ کا کمرہ صاف ستھرا ہے، اور یوں یہ ہمارے کام کا احترام ظاہر کرتا ہے، تو اتنا ہی کافی ہے۔

 یہ سوچ کہ ہم جلد ہی اپنے پریشان کن جذبات سے نجات پا لیں گے

دھرم میں گو کہ اصل زور ہمارے دکھ کے اسباب کو ہمیشہ کے لئیے ختم کرنے پر ہے – یعنی ہماری حقیقت اور پریشان کن جذبات کے متعلق لا علمی کو، لیکن یہ سوچنا کہ ہم جلد ہی پریشان کن جذبات پر قابو پا لیں گے غلط خیال ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ جب تک ہم ایک ارہت، ایک مکش شدہ ہستی نہ بن جائیں، ہم غصہ، لگاوٹ وغیرہ سے مکمل نجات نہیں پا سکیں گے، اس راہ پر گامزن ہم پھر بھی ان سے دو چار ہوں گے اگرچہ اتنی شدت سے نہیں۔ اگر ہم یہ بھلا دیں، اور اگر ہم برسوں کے پاٹھ کے بعد بھی غصہ کا اظہار کریں تو ہم دل برداشتہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسا اکثر ہوتا ہے۔

پس ہمارا اپنے ساتھ صبر سے کام نہ لینا بھی ایک لرزش ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہئیے کہ سمسار کی مانند دھرم کا پاٹھ بھی زیر و بم کا شکار ہوتا ہے۔ عرصہ طویل میں ہم بہتری کی توقع کر سکتے ہیں، مگر یہ آسان نہیں ہو گا۔ جب ہم نا موافق حالات سے دو چار ہوں تو اپنے آپ سے صبر سے کام نہ لینا ایک غلطی ہے۔ لیکن دوسری جانب ہمیں اپنی منفی عادات اور اپنے کو بہتر بنانے پر کام نہ کرنے میں سستی کرنے پر اپنے کو ڈھیل دینا بھی غلط ہے۔ میانہ روی کا تقاضا ہے کہ ہم جب غصہ میں آئیں تو اپنے آپ کو پیٹنا نہ شروع کر دیں، لیکن دوسری جانب یہ بھی نہ ہو کہ محض اتنا کہہ کر، "میں غصے میں ہوں،" یا "میرا موڈ خراب ہے،" خاموش ہو رہیں اور اس پر قابو پانے کا کوئی دھرم والا طریقہ استعمال نہ کریں۔

یہ دیکھنا کافی دلچسپ ہو گا کہ جب ہمارا موڈ خراب ہو تو ہم اس کا کیا علاج کرتے ہیں۔ کیا میں مراقبہ کی جانب رجوع کرتا ہوں۔ کیا میں پناہ لیتا ہوں۔ یا کیا میں چاکولیٹ، جنسی لذّت، ٹیلیوژن، دوستوں سے گپ شپ یا انٹر نیٹ پر موج رانی کرتا ہوں؟ میں کیا کرتا ہوں؟ میرے خیال میں یہ ہمارے دھرم کے پاٹھ کے لئیے بہت کار آمد ہے – میں برے موڈ سے کیسے نبرد آزما ہوتا ہوں۔

خلاصہ

یہ وہ چند ایک غلط فہمیاں ہیں جو اس موضوع پر سوچنے پر میرے ذہن میں آئیں۔ مجھے یقین ہے کہ اور بے شمار ایسی باتیں ہیں جنہیں اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ کئی ایسی غلط فہمیاں ہیں جو مواد کی دقت، خصوصاّ خالی پن، مختلف نظام ہاۓ عقیدہ، وغیرہ سے تعلق رکھتی اور ان سے پیدا ہوتی ہیں۔ دھرم کے متعلق ایک اہم بات یہ ہے کہ: مہاتما بدھ نے جو سبق دیا وہ دوسروں کا بھلا کرنے کے لئیے تھا۔ اگر ہم اس پر سنجیدگی سے غور کریں، شکشا میں ان مخمصوں کے اسباب کو تلاش کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہمیں کوئی بات سمجھ میں نہ آۓ تو اسے دھرم کے طریقوں اور دلیل سے حل کرنے کی کوشش کریں، اور اگر ہم اسے نہ سمجھ پائیں تو کسی ایسے شخص سے پوچھیں جسے ہم معتبر مانتے ہوں۔ اگر ہم یہ بات قبول کرنے کو تیار ہیں کہ ہماری زیادہ تر الجھن کا سبب ہماری غلط فہمیاں ہیں، تو ہم اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لئیے تیار ہوں گے تا کہ ہم شکشا سے پورا پورا فائدہ اٹھا سکیں۔

Top