تمہیدی کلمات
میں اپنے درس چند تمہیدی کلمات سے شروع کرتا ہوں۔ کئی طریقے ہیں جو ہمیں باسکون بنانے اورمراقبہ کے لئے ایک مخصوص من کی کیفیت پیدا کرنے یا تعلیمات کو سننے میں معاون ہوتے ہیں۔ کسی بات میں مکمل محو ہوجانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم مناسب طریقہ سے اور دھیمے دھیمے شریک ہوں۔ یہی تمہیدی کلمات کا مقصد ہوتا ہے۔
من کی ایسی کیفیت پیدا کرنے کے جو مراقبہ یا سماعت کے لئے موزوں ہو، کئی مختلف طریقے ہیں۔ میں عموماً کئی ممکنات میں سے بس ایک کو اختیار کرتا ہوں۔ یہ طریقہ سانس کی گنتی کرنے سے شروع ہوتا ہے۔ جب ہم جذباتی یا ذہنی طور پر، یا کام سے، یا یہاں آنے کے سفر سے، یا کسی اور وجہ سے سراسیمہ ہوجاتے ہیں، تو اہم کام یہ ہے کہ پہلے ہم طبعاً پُر سکون ہو جائیں۔ اس سے شانت ہونے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ناک کے ذریعہ معمول کے مطابق سانس لیں، یعنی نہ تیز سانس لیں اور نہ دھیمی، نہ گہری لیں اور نہ ہلکی۔ دور یہ ہو کہ پہلے سانس چھوڑیں اور پھر ہلکا وقفہ لیں۔ چونکہ ہم نے ہلکا وقفہ لیا اس لئے قدرتی طور پر ہم ایک گہری سانس لیتے ہیں۔ آرام سے گہری سانس لینے کا یہ بہتر طریقہ ہے بہ نسبت اس کے کہ شعوری طور پر گہری سانس لیں۔ پھر جب سانس اندر لیں، تو ہم اس کو عدداً ایک گنتے ہیں۔ پھر بلا سانس روکے ہم سانس باہر چھوڑتے ہیں۔ ہم اس کو گیارہ بار دہراتے ہیں۔ پھر اس گیارہ کے دور کو اپنی رفتار پر مبنی دو یا تین بار دہراتے ہیں۔ تعداد اہم نہیں ہے۔ جتنی بار چاہیں کریں۔ ہمیں اس گنتی پرکوئی توہُّم نہیں کرنا ہے۔ نکتہ یہ ہے کہ اپنے من کی بیانیہ توانائی کو کسی طور سانس کی طرف مصروف رکھنا ہے تا کہ سانس پر توجہ مرکوز کرتے وقت دل میں اور کوئی خیال پیدا نہ ہو۔ چلئے ایسا کرکے دیکھتے ہیں۔
جب ہم باسکون ہوجائیں، تب ہم اپنی توانائیوں، اپنے من اور جذبات کو ایک مثبت سمت میں موڑتے ہیں۔ یہ ہم اپنے محرکات پر اطمینان سے حاصل کرتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں؟ یہاں آکر، یا مراقبہ سے، ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ہم یہاں اس لئے ہیں کہ کئی طریقوں کو ذاتی طور پراپنا سکیں جو زندگی گذارنےمیں مدد دیں۔ ہم محض تفریحِ طبع یا عقلی علم کے لئے نہیں آئے ہیں۔ ہم کچھ عملی باتیں سیکھنے آئے ہیں۔ مراقبہ میں بھی یہی بات ہے۔ وہ سستانے، یا کھیل یا شغل کے لئے نہیں ہے۔ ہم مراقبہ کرتے ہیں تا کہ اپنی زندگیوں کے لئے مفید عادتوں کو استوار کرنے میں مدد لے سکیں۔ ہم یہ کام اپنے استاد کو خوش کرنے کے لئے نہیں کرتے ۔ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہمیں اطمینان ہے کہ یہ ہمارے لئے فائدہ مند ہے۔ ہم کچھ عملی باتیں سننی چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی کی مشکلات کو بہتر ماہرانہ طریقہ پر حل کرسکیں، صرف کچھ بہتر ہی نہیں، بلکہ آخرِ کاراپنی ساری مشکلات سے آزاد ہوسکیں۔ ہم وہ طریقے سیکھنا چاہتے ہیں جن کی مدد سے ہم نہ صرف خود مہاتما بدھ بنیں بلکہ اوروں کے لئے بھی بہترین مددگار ثابت ہوسکیں۔
جب ہم اپنے محرکات پر مطمئن ہوجائیں تو ہم یہی نہیں دیکھتے کہ اس درس میں ہم کیا کررہے ہیں، بلکہ یہ دیکھنا بھی اہم ہے کہ ہمارا مقصدِ اعلیٰ کیا ہے۔ ہرچند ہم مکش اور روشن ضمیری چاہتے ہوں، یہ راتوں رات نہیں ہوسکتا اور معجزات عموماً واقع نہیں ہوتے۔ دھرم کوئی جادو نہیں ہے۔ ہم ایسے جادو کے کرتب سیکھنے نہیں آۓ جو ہمیں یکایک تمام دکھ درد سے چھٹکارا دلادے۔ ایسی بات بھی نہیں ہے کہ ہم کچھ طریقے سیکھ لیں اور دن بہ دن صورتحال خوب سے خوب تر ہوتی چلی جائے۔ ہمیں حقیقت پسند ہونا چاہئے۔ حقیقتاً، جیسے ہم اپنی زندگی کے تجربات کی بنا پر جانتے ہیں، مزاج اور واقعات میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے، اور ہوتی رہے گی۔ ہم امید تو کرسکتے ہیں کہ ایک طویل عرصہ کے بعد صورتحال بہتر ہوگی لیکن روزمرہ کی زندگی میں مشکل لمحات آتے ہی رہیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم گھبرانا فوری چھوڑ دیں گے۔ اگر ہم دھرم کے اطوار سیکھنا شروع کریں، اور روزمرہ کی زندگی میں مراقبہ کے ذریعہ حقیقت پسند مشق شروع کردیں، تو ہم ہمت نہیں ہاریں گے۔ جب زندگی میں بڑے مشکل مواقع آہی جائیں اور ہم گھبرا بھی جائیں، تب بھی ہم راستہ سے بھٹکیں گے نہیں۔ یہی ہمارا محرک اور ہمارا مقصد ہے۔ یہی ہم پر واضح ہے کہ ان تعلیمات کو سیکھنے اور مراقبہ اور مشق سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔
اپنے کو یہ یاد دلانا اہم ہے کہ اسی بات کو دہرانا اور اس پر غور کرنا چاہئے۔ چلئے مان لیں کہ ہم مراقبہ کی ایک نشست سے پہلے بہت سراسیمہ ہیں۔ اس موقع پر غذا، دوست، جنسی خلوت، ٹیلیویژن یا بیئر میں پناہ لینے کی بجائے ہم دھرم اور مراقبہ میں پناہ لیتے ہیں کہ ہم اپنی سراسیمگی پر قابو پاسکیں۔ اس موقع پر بھی ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور یہ امید نہ رکھیں کہ ہیروئین کے انجکشن کی طرح، بیٹھ کر مراقبہ کرنا شروع کرتے ہی ہم ایکدم مست و پُرمسرت ہوجائیں گے اور مسائل بھاگ جائیں گے۔ اگر ایسا ہو بھی تو اس پر شک کیجئے۔ اگر ہم مراقبہ صحیح طور پر کریں تو یقیناً ہم بہتر محسوس کریں گے لیکن سو فیصد بہتری تو نہیں ہوگی۔ جب تک ہم ارفع ترین مقام پر نہ ہوں، ممکن ہے کہ ہمارا ناخوشگوار مزاج لوٹ آۓ۔ جیسے میں اکثر کہا کرتا ہوں، "آپ سمسار سے کیا توقع رکھتے ہیں؟"
جب ہم اپنے محرک سے مطمئن ہوجاتے ہیں تو ہم کہتے ہیں "اچھا تو میں اسے کرنے لگا ہوں کیونکہ اس سے مجھے مدد ملے گی۔ میں کوشش کروں گا کہ ان چیزوں کو صحیح طرح اپناؤں کہ ان مشکلات سے مکش ملے جو مجھے پیش آتی ہیں، اور بالآخر دوسروں کی مدد کے بھی قابل ہوسکوں۔" نکتہ یہ نہیں ہے کہ ہم اب سے آدھے گھنٹے بعد بہتر محسوس کریں یا نہیں۔ یہ ہمارا اصلی مرکوز نہیں ہے۔ ہم زندگی میں ایک مخصوص سمت جارہے ہیں، اور اسی سمت آگے جانا چاہتے ہیں۔ یہ رخ ہی ہماری پناہ گاہ ہے۔ ہر بار جب ہم تعلیمات کو سنتے یا مراقبہ کرتے ہیں، تو ہم اسی رخ پر ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں۔ ہم اونچ نیچ کے باوجود چلتے رہتے ہیں۔ یہی حقیقت پسندی ہے۔ ایک لمحہ کے لئے اسی بات کا دوبارہ اقرار کرلیں۔
تب ہم پورے انہماک کے ساتھ مراقبہ کا ایک باشعور فیصلہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب ہماری توجہ بکھرنے لگے ہم اس انہماک کو واپس لالیں گے، اگر ہم پر غنودگی طاری ہو تو ہم خود کو بیدار کرنے کی کوشش کرلیں گے۔ اپنے من کو چست رکھنے کے لئے ہم سیدھے بیٹھتے ہیں، اور من کو چست تر رکھنے کے لئے ہم ایک کیمرے کا تصور کریں جو فوکس میں ہے۔
پھر ہم ایک تھوڑی ہم آہنگی لاسکتے ہیں۔ اول، اگر ہماری توانائیاں نچلی سطح پر ہوں اور ہم اداس ہوں تو ہم توانائی ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے لئے، ہم اپنی بھووں کے درمیان ایک نقطہ پر اس طرح فوکس کرتے ہیں کہ ہماری آنکھیں اوپر دیکھ رہی ہوں اور ہمارا سر سیدھا ہو۔
پھر اگر ہماری توانائیاں وحشت زدہ ہوں اورجسم میں کھنچاؤ محسوس ہو تو ان کو تھامنے کے لئے ہم اپنی ناف پر اس طرح فوکس کرتے ہیں کہ آنکھین نیچے دیکھ رہی ہوں اور ہمارا سر سیدھا ہو۔ ہم سانس اندر لیتے ہیں اور اس وقت تک روکے رکھتے ہیں حتیٰ کہ اسے باہر چھوڑنے کی ضرورت ہو۔
تعارف
آج شام مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں ابتدائیہ کے ایک اور پہلو پر گفتگو کروں، یعنی ان چار تصورات پر جو من کو دھرم کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ خصوصاً، چار تصورات یہ ہیں:
- قیمتی زندگی کی قدردانی کے بارے میں سوچنا،
- موت اور ناپائداری کے بارے میں سوچنا، کہ جو مواقع اس قیمتی زندگی کے ساتھ ہمیں حاصل ہیں وہ ہمیشہ نہیں رہینگے،
- کرم اور اسباب و علل کے بارے میں سوچنا، کہ کس طرح ہمارا رویہ ہمارے تجربات پر اثرانداز ہوتا ہے،
- سمسار کے نقصانات کے بارے میں سوچنا، بار بار پنرجنم پر ہماری بے بسی۔
اگر ہم ان مواقع کی قدردانی کریں جو اس قیمتی زندگی کے ساتھ ہمیں حاصل ہیں، اور ہم اس حقیقت کو پہچان لیں اور اقرار کرلیں کہ یہ زندگی ہمیشہ نہیں رہے گی اور ہمیں کسی بھی وقت مرنا ہے، اگر ہم پہچان لیں کہ ہمارا رویہ ہمارے تجربات کو اس زندگی میں اور اگلی زندگیوں میں بھی متعین کرتا ہے، اور اگر ہم جان لیں کہ مستقبل میں جو بھی ہمیں تجربات ہوں گے، چونکہ وہ من کی الجھن سے پیدا ہوتے ہیں، ہمیں بہت سی مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا ہوگا، تب ہم اپنے من کو دھرم کی طرف موڑیں گے۔
پناہ گاہ کا محفوظ رخ
اپنے من کو دھرم کی طرف موڑنے کا مطلب کیا ہے؟ بنیادی طور پر اس کا مطلب ہے پناہ لینا۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ پناہ لینے سے مراد پہلی بار کسی دھرم مرکز میں داخل ہوکر کچھ کرنا نہیں ہے۔ یہ کسی سماجی کلب یا دھرم مرکز میں شریک ہونا بھی نہیں ہے۔ پناہ لینا ایک اعلیٰ قدم ہے اور ایک مخصوص من کی کیفیت چاہتا ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ "پناہ لینا" اصطلاح ناموزوں ہے اور ایک غلط تاثر دیتی ہے۔ ہماری زبانوں میں اس کا مقاومتِ مجہول مفہوم نکلتا ہے – کہ ہم کسی طاقتورتر شخص یا ہستی کے پاس جائیں اور کہیں کہ ہمیں بچاؤ، تحفظ دو، اور ہم محفوظ ہوجائیں۔ تب ہمیں اپنی طرف سے کچھ کرنا نہیں ہے۔ بدھ مت ہمیں یہ نہیں سکھاتا۔ بلکہ، ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ زندگی میں ہمارا ایک فعال، محفوظ اور مثبت رخ ہو۔ اسی لئے میں اسے ایک محفوظ رخ کہتا ہوں۔ ہمیں یہ چار رویے یا فہم رکھنے چاہئیں قبل اس کے کہ اس رخ کو اپنی زندگی میں پرعزم تیقن کے ساتھ اختیار کرسکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں کچھ اندازہ تو ہو کہ یہ رخ کیا ہے۔
یہ رخ کیا ہے؟ یہ مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا تین جواہر ہیں۔ آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ اس موضوع پر ہم بڑی مبتدیانہ نظر رکھتے ہیں۔ دھرم سے ہم تعلیمات مراد لیتے ہیں، مہاتما بدھ سے مراد وہ ہستی لیتے ہیں جس نے یہ تعلیمات دی ہیں، زبانی بھی اور اپنی تکمیل حصول کی روشنی میں بھی، اور سنگھا سے مراد وہ جائے وقوع سمجھتے ہیں جو بدھ متی چرچ یا دھرم مرکز ہو۔ سنگھا کا یہ مطلب نہیں ہے۔ بلکہ وہ ماہرینِ عالی ہیں جنہوں نے حقیقت کی ٹھیک ٹھیک فہم حاصل کرلی ہے اور مکش یافتگی یا روشن ضمیری کی راہ پر گامزن ہیں۔ اگر ہم یہ کہیں بھی کہ "میں دھرم کی ان تعلیمات کے رخ پر چل رہا ہوں جو مہاتما بدھ نے سکھائی ہیں اور بڑے ماہرین تکمیلِ حصول کررہے ہیں" تو تین جواہر کی اس طرح کی ادنیٰ فہم، زندگی کو اس رخ پر چلانے کی کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے۔
آخر یہ اطمینان کرنے کی بنا کیا ہے کہ یہ مثبت رخ ہے؟ اس کے لئے ہمیں مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا کی تھوڑی مزید مدلل سمجھ ہونی چاہئے۔ جتنی زیادہ مدلل ہماری سمجھ ہوگی، اتنا ہی پائیدار ہمارا رخ ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ پناہ کے اس سارے موضوع کو ہم حقیر نہ جانیں۔ "میں نے ابتدا ہی میں ایسا کیا تھا جب میں مرکز میں آیا تھا اور اب میرے پاس ایک سرخ ڈوری ہے جو میں گلے میں پہنتا ہوں۔" یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر ہمیں کام کرنا ہے اور اس راہ پر چلتے چلتے گہرائی میں بھی جانا ہے۔ ہماری زندگی میں یہ رخ جتنا گہرا ہوگا، اتنے ہی ہم اپنی روحانی راہ پر مستحکم ہونگے۔
اصل رخ کا پتہ تو دھرم جوہر سے ملتا ہے، جسے چار بلند و بالا سچائیوں کے متن میں سمجھا جانا چاہئے۔ یہ چار امورِ واقع ہیں جنہیں کوئی شخص جو حقیقت شناس ہے – بہترین روشن ضمیر – سچی مانتا ہے۔ انہیں "بلند و بالا" کہا جاتا ہے کیونکہ اسی طرح کچھ لوگ سنسکرت کے لفظ "آریہ" کا ترجمہ کرتے ہیں۔ جب ہم حقیقت کا راست مشاہدہ کریں تو ہم یہ چار امور دیکھتے ہیں۔ پہلا امر زندگی کی مشکلات ہیں – وہ دراصل کیا ہیں؟ پھر ہم ان مشکلات کے اصل اسباب دیکھتے ہیں۔ پھر ہم زندگی کی ان مشکلات اور ان کا خاتمہ دیکھتے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ من کی ایک راہداری ہے، دوسرے لفظوں میں انہیں سمجھنے کا ایک طریقہ ہے، جو حقیقت کا علم، مسائل کی اصل وجوہات کو دور کرکے، دے گا: الجھن۔ جب ہم مسائل کی علت یعنی الجھن، سے چھٹکارا پاتے ہیں تو مسائل سے بھی مکش حاصل کرتے ہیں۔
سچے رخ کا پتہ تیسری اور چوتھی بلند و بالا سچائیوں سے ملتا ہے۔ اور وہی دراصل دھرم پناہ گاہ ہے۔ اسے محض ایک اصطلاح سمجھ کرچھوڑے بغیر، ہمارا مقصد اس کیفیت کا حصول ہے جس میں سارے مسائل اور ان کے اسباب اس طرح دور ہوسکیں کہ وہ دوبارہ واپس نہ لوٹیں، اور نہ ہی وہ من کی کیفیت جو ان کا باعث بنتی ہے یا ان کا نتیجہ ہوتی ہے۔ جب ساری مشکلات اور خامیاں دور ہوجائیں، تو ہم من کی ایسی کیفیت تک پہنچتے ہیں جس میں ہم اپنی ساری قابلیتوں کا استعمال کرسکیں۔
ہمارا دھرم رخ کیا ہے؟ یہ مکش اور روشن ضمیری کی ایک کیفیت ہے۔ مکش وہ کیفیت ہے جس میں ہمارا سارا دکھ اور اس کی وجوہات دور ہوجائیں۔ روشن ضمیری وہ کیفیت ہے جس میں ہم ممکنہ حد تک دوسروں کی مدد کرسکیں اور جہاں اس مدد کے سارے موانعات بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائیں۔ مہاتما بدھ افراد وہ ہیں جنہوں نے یہ دونوں باتیں نہ صرف حاصل کرلی ہیں بلکہ ہمیں بتائی بھی ہیں کہ کیسے کی جائیں۔ انہوں نے، اپنے تجربات کی روشنی میں اور قدم بہ قدم ہدایات کے ذریعہ، بتایا ہے کہ کیسے کی جائیں۔ سنگھا وہ لوگ ہیں جنہوں نے کم از کم کچھ مسائل اور ان کے اسباب سے کچھ مکش حاصل کرلی ہے اور مزید کوشش کررہے ہیں، اسطرح انہوں نے ناقابلِ یقین اعلیٰ مقام حاصل کرلیا ہے۔
دھرم کی گذرگاہ
اپنے منوں اور توانائیوں کو مکش اور روشن ضمیری کی طرف مبذول کرنے کے لئے، ہمیں دو باتوں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ مکش اور روشن ضمیری کی تعریف کیا ہے۔ یہ کچھ نفیس الفاظ ہی نہیں ہیں۔ اور، دوسری بات، ہمیں یہ یقین ہونا چاہئے کہ ان کا حصول ممکن ہے۔ اگر ہم مطمئن نہ ہوں کہ مکش اور روشن ضمیری ممکن ہیں تو آخر کیوں ہم ان کے حصول کی کوشش کریں؟ ہم یہ اطمینان کیسے کرسکتے ہیں؟ وہ کیا اقدامات ہیں جو اس طرف ہماری رہنمائی کریں؟
ایک عظیم ساکیہ استاد، سونم تسیمو، نے ایک بہت مفید مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے "دھرم کی گذرگاہ"۔ اسی سوال پر اس نے قلم اٹھایا ہے۔ اس نے کہا کہ ہمیں تین چیزیں چاہئیں۔ پہلی، ہمیں اپنی زندگیوں میں دکھ اور مشکلات کا علم اور اقرار ہونا چاہئے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمیں اپنے آپ پر ایماندارانہ نظر ڈالنی چاہئے اور جانچنا چاہئے کہ ہم پر کیا گذر رہی ہے۔ دوسری بات، ہم میں اس دکھ سے نکلنے کی ایک سنجیدہ خواہش موجود ہو، صرف کام چلاو ہی نہیں بلکہ مصمم ارادہ ہو۔ تیسری بات، دھرم کا کچھ علم ہو تاکہ ہمیں یہ یقین ہو کہ دھرم ہی ہمیں راستہ بتاسکتا ہے۔ یہ یقین کسی پر کشش شخصیت کے خوبصورت الفاظ پر ہی مبنی نہ ہو، بلکہ ہمیں دھرم کا سچا علم اور اچھی سمجھ ہونی چاہئے کہ یہ کیسے ہمیں دکھ درد سے نکال سکتا ہے۔
باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے؟ یہ مکش حاصل کرنا اور روشن ضمیری حاصل کرنا ہے۔ دھرم ہمیں پہلی بلند و بالا سچائی، یعنی دکھ، کی بنیاد پر بتاتا ہے کہ یہ کیسے کیا جائے۔ سونم سیمو نے کہا کہ مسئلہ کو پہچاننے سے یہ کام شروع کرنا چاہئے۔ اور ان مسائل کا کوئی سبب بھی ہوتا ہے۔ اور وہ کہیں سے آتا ہے۔ اپنے مسائل کے سبب کا تدارک کرنا تیسری بلند و بالا سچائی، اور اس فہم کے راستہ پر گامزن ہونا چوتھی سچائی ہے، جو الجھن کو دور کرتی ہے۔
یہ اطمینان ہونا بالکل آسان نہیں ہے کہ ہماری مشکلات کے اسباب کا تدارک کرنا ممکن ہے۔ ہمیں اس کے لئے مستقل لگارہنا اور کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ہم اس پر ایک منطقی طریقہ پر کام کرنا شروع کرسکتے ہیں۔ ہم اب زندگی الجھن میں گذارتے ہیں۔ مثلاً ہم سوچ لیتے ہیں کہ ہم دینا میں سب سے اہم ترین شخص بلکہ مرکزِ عالَم ہیں۔ اور اس بنیاد پر، ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ ہماری ہی مرضی چلنی چاہئے، اور ہم لالچی اور دھونسو بن جاتے ہیں۔ ہم سب سے اہم ہیں، تو سب ہمیں توجہ دیں اور پیار کریں۔ اور اگر لوگ ہمیں توجہ نہ دیں اور پیار نہ کریں تو ہم غضبناک ہوجاتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ ہم پیار کے قابل ہوں لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ساری دنیا اسے تسلیم ہی کرلے! الجھن میں، ہم سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرے۔ یا، دوسری سمت ہم یوں سوچنے لگ جاتے ہیں کہ اگر دوسرے ہمیں پیار نہیں دیتے یا توجہ نہیں کرتے تو شائد ہمیں میں کوئی خامی ہے اور ہم اچھے نہیں ہیں۔ تب ہم ادنیٰ عزتِ نفس کا شکار ہوتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں، ہم نقصان اٹھاتے ہیں۔ ہمارے من کو دکھ پہنچتا ہے جو اس الجھن سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم مرکزِ عالم ہیں اور ہر بات ہماری ہی مرضی کے مطابق ہونی چاہئے۔
مہاتما بدھ نے کہا تھا یہ ممکن ہے کہ اس ساری مصیبت سے، جو ہمیں پیش آتی ہے، چھٹکارا پالیں اگر ہم اس الجھن سے مکش پالیں جو اس کا سبب ہے۔ کیا چیز ہمیں اس الجھن سے مکش دلا سکتی ہے؟ شعور۔ اگر ہم جان لیں کہ کیسے ہم اور دنیا کے دیگر افراد زندگی گذارتے ہیں، تو ہمیں یہ الجھن نہ ہو۔ ہم بیک وقت الجھن اور شعور کی حالت میں نہیں ہوسکتے۔ شعور، الجھن کی ضد ہے۔ چونکہ ہم بیک وقت دونوں حالتوں میں نہیں ہوسکتے، جیت کس کی ہوگی۔ اگر ہم الجھن کو جانچیں، اور جتنا قریب سے جانچیں، یہ محسوس کریں گے کہ الجھن کی تشریح نہیں کی جاسکتی۔ کیا واقعی میں دنیا کا مرکز ہوں؟ جی نہیں، کیونکہ ہر دوسرا بھی یہی سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کا مرکز ہے۔ دوسری طرف، اگر ہم شعور کو جانچیں، تو اس کی تشریح کی جاسکتی ہے۔ کوئی فرد دنیا کا مرکز نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ کوئی ایک فرد سبھی دوسروں کی توجہ کا مرکز نہیں ہے اور نہ سب کا محبوب ہے۔ جتنا زیادہ ہم اس بات پر غور کریں، ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بات دل کو لگتی ہے۔ یہ نہ صرف منطقی بنیاد پر سچ ہے، بلکہ تجربہ اور مشاہدہ کی بنیاد پر بھی۔
چونکہ جانچ پڑتال پر شعور کی تصدیق کی جاسکتی ہے اور الجھن اس کسوٹی پر پوری نہیں اترتی، اس لئے شعور نہ صرف الجھن کی جگہ عارضی طور پر لے سکتا ہے بلکہ اسے دائمی طور پر ختم بھی کرسکتا ہے۔ جب ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی کائنات کا مرکز نہیں ہے، تو ہم جانتے ہیں کہ ہر کوئی ہم پر توجہ نچھاور نہیں کرے گا اور نہ پیار برسائے گا۔ مہاتما بدھ پر بھی کسی نے پیار نہیں لٹایا تھا اور نہ توجہ نچھاور کی تھی، تو ہم پر کیوں؟ اس طرح کی دلیل کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم برہم نہیں ہوتے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ لوگ ہم پر توجہ نہیں دیتے۔ ہم سمسار سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟ کیونکہ ہم برہم نہیں ہوتے ہیں، ہم ہر شخص کے ساتھ برتاؤ میں گرمی، محبت، اور سمجھداری سے کام لے سکتے ہیں، اس دکھ کے بغیر کہ وہ ہمیں سنیں گے یا پسند کریں گے۔ ہم اپنی سی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح، ہم ایک ابتدائی سطح پر زیادہ یقین کے ساتھ کوشش کرسکتے ہیں کہ مکش اور روشن ضمیری واقعی ممکن ہیں۔ مکش اور روشن ضمیری کے حصول کی سمت کوشش میں ہم پاگل نہیں ہیں۔
چار تصورات، الٹی ترتیب میں
چار تصورات کی، جو ہمیں دھرم کی طرف مائل کرتے ہیں، تھوڑی گہرائی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ممکن ہے۔ ہم نے تشریح کی ہے کہ مکش اور روشن ضمیری کے حصول کے امکان پر یقین کیسے ممکن ہے، ان تین بنیادی تصورات کی روشنی میں جو دھرم میں داخلہ کے لئے درکار ہیں: دکھ، دکھ سے نجات کی خواہش، اور یہ یقین کامل کہ دکھ سے رہائی بالکل ممکن ہے۔ چار تصورات جو دھرم کی طرف مائل کرتے ہیں دراصل انہی تین تصورات کی طرف مبذول کرتے ہیں، خصوصاً ان تین میں سے پہلے کی طرف – جانکاری اور اقرار کہ زندگی میں مشکلات اور دکھ موجود ہیں۔ چار میں سے آخری تصور سمسار پر عدم اطمینان ہے، جو حقیقتاً زندگی میں مشکلات اور مسائل کا اقرار ہے۔ ہمیں ہر اقدام کی ترتیب اور ضرورت کی قدر کے لئے الٹی سمت سے کام شروع کرنا پڑے گا۔
ہمیں کیا مشکلات اور مسائل پیش آتے ہیں؟ مہاتما بدھ نے کئی فہرستیں دی ہیں، لیکن مختصر فہرست تین کی ہے۔ ہم انہیں تین قسم کے مسئلے کہہ سکتے ہیں۔ پہلی، شدید دکھ، درد، اور غم۔ اس میں من کے درد کے ساتھ ساتھ جسمانی درد بھی شامل ہے۔ بہت سے لوگ بغیر کسی مشکل کے اس کو پہچان سکتے ہیں۔ کوئی ناخوش نہیں رہنا چاہتا، اسی لئے بہت سے لوگ اس عالم سے باہر نکلنا چاہتے ہیں۔
دوسرا مسئلہ تغیر کا مسئلہ ہے۔ یعنی ہمارے روزمرہ کے مسرت کے تجربات جن پر الجھن کا سایہ پڑا ہو۔ وہ بدلتے رہتے ہیں، اور قائم و دائم نہیں رہتے۔ مثلاً، ہم کھانا کھاتے ہیں اور پیٹ کے بھرجانے کی وقتی تسکین حاصل کرتے ہیں لیکن یہ حالت قائم نہیں رہتی اور ہمیں پھر بھوک لگنے لگتی ہے۔ یہ کیا مسئلہ ہے؟ مسئلہ یہ نہیں کہ تسکین قائم نہیں رہتی بلکہ اس تسکین کی نوعیت ہی یہی ہے۔ خالی پن کی گہری اور راست جانکاری اس حقیققت کو نہیں بدل سکتی کہ یہ خوشی عارضی ہے۔ کوئی اسے بدل نہیں سکتا۔ اس تغیر پذیری کو تسلیم کرلینے سے ہم کم برہم ہونگے، لیکن یہاں نکتہ یہ نہیں ہے۔ اس نوعیت کی خوشی کا اصل مسئلہ اس کا غیر یقینی پن ہے: جب یہ ختم ہوجائے تو ہمیں علم نہیں ہوتا کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا وقت گذار رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں پتہ نہیں ہوتا کہ اچھا وقت گذرجانے کے بعد ہم خوش ہونگے، تھکے ہونگے، ناخوش یا کچھ اور۔ یہی اصل مسئلہ ہے۔ ایسی عارضی خوشی کے پیچھے بھاگنے سے ہمیں کوئی مدد نہیں ملتی، اگرچہ کہ ہم تھوڑی دیر کے لئے بہتر محسوس کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ہمارے سارے مسائل کا خاتمہ نہیں ہوتا، بلکہ ہم ایک غیر محفوظ کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں کہ اگلے لمحہ کیا ہوگا۔
اصل مسئلہ کی تیسری نوعیت محیطِ کُل مسئلہ ہے۔ اس کی نوعیت ہمارے بدن، من، اور جذبات جیسی ہے جو دوسرے سارے مسائل کی افزائش کرتی ہے۔ وہ خود افزوں ہوتے ہیں۔ ہم اس نوعیت کا بدن رکھتے ہیں۔ ہمیں اس کو ہمیشہ خوراک پہنچانا اور اسکی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ اور جب ہم کھاتے ہیں، تسکین قائم نہیں رہتی اور ہمیں بار بار کھاتے رہنا پڑتا ہے۔ یہ کس قدر بے لطف ہے۔ ہم کسی کے ساتھ ایک مشکل رشتہ قائم کرتے ہیں اور کچھ نہیں سیکھتے اور نقصان اٹھاتے ہیں، اور یہی دہراتے رہتے ہیں۔ الجھن باقی ہی رہتی ہے۔ دوسرا کوئی شہزادہ یا دلبر شہزادی نہیں نکلتی اور ہم کسی اور کسی اور کے منتظر رہتے ہیں۔ عدم تحفظ کا احساس ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے؛ جو بار بار وقوع پذیر ہوتا ہے۔ ان تین دکھوں کو سمجھنا چوتھا تصور ہے، دکھوں کے نقصانات۔ یہ پہلی بلند و بالا سچائی بھی ہے، کہ مسائل ہیں۔
سمسار کے نقصانات کی جانکاری کی بنیاد کیا ہے؟ تیسرا تصور، کرم کی جانکاری اور وجوہات و اثرات۔ یہ سمسار کی دکھ کی وجہ ہے۔ یہ دوسری بلند و بالا سچائی ہے۔ ہمیں کیوں پہلی نوعیت کے سچے مسئلہ کا سامنا ہوتا ہے، حد درجہ دکھ؟ تخریبی طریقوں پر عمل کرنے سے۔ ہم تخریبی عمل الجھن کی وجہ سے کرتے ہیں۔ یا تو ہمیں اپنے اعمال کے نتائج کا اندازہ نہیں ہوتا یا ہم سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی نتیجہ ہی نہیں ہے۔
تغیر اور غیر یقینی کیفیت دوسری نوعیت کا مسئلہ ہے۔ اس وجہ کو سمجھنے کیلئے کہ یہ کیوں پیش آتا ہے، ہمیں کرم کو سمجھنا چاہئے۔ اگر ہم کرم کا علم رکھتے ہوں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا تجربہ بڑا پیچیدہ ہے۔ ہم الجھن میں اور بغیر کسی آغاز کے کتنے تعمیری اور تخریبی کام کرتے رہے ہیں۔ شائد ہم سوچتے ہوں کہ ہم کائنات کا مرکز ہیں اور ہر ایک کے ساتھ بھلے یا برے رہنا یا ہونا چاہتے ہوں۔ ہم نے لاکھوں مثبت و منفی کرمائی امکانات پیدا کئے ہیں۔ تو، ایک لمحہ کے لئے ہمیں خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ جو مثبت امکان سے آتا ہے۔ پھر یہ ختم ہوجاتا ہے۔ تب کیا؟ کرم کی ان گنت ممکنات ہیں جو پکنے کو تیار ہیں۔ اگلی چیز کیا پکے گی؟ یہ بات سادہ نہیں ہے۔ ان کا انحصار کئی عوامل پر ہے: ہمارا رویہ، حالات، دوسرے لوگوں کا عمل، ہماری صحت وغیرہ۔ کوئی تعجب نہیں جو بے یقینی ہو، کوئی تعجب نہیں جو سمسار میں ہمارا تجربہ اونچا نیچا ہوتا ہو۔ دست نگر نمو کی بارہ کڑیاں بیان کرتی ہیں کہ کس طرح کرم اور الجھن سمسار کو پھیلاتے ہیں۔ جب ہم کو کرم کی گہری جانکاری ہو تو ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ کیسے کرم کی ساری کاریگری میں اتھل پتھل ہوتی ہے، یہ قائم رہتی ہے، جو سب پر حاوی مسئلہ ہے۔
تیسرا تصور جو ہمیں دھرم کی طرف مائل کرتا ہے، من کی جانکاری کی کیفیت کی طرف لیجاتا ہے کہ یہ بے یقینی کیوں ہے۔ اس طرح سوچنے کی طرف من کیوں ہمیں لیجاتا ہے؟ موت اور فنا سے آگاہی۔ ہماری طوالت عمر غیر یقینی ہے۔ یہ دوسرا تصور ہے جو دھرم کی طرف مائل کرتا ہے۔ اگر ہم موت اور فنا کو سنجیدگی سے لیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حالات عموماً قائم نہیں رہتے تب ہم کرم کی تعلیمات، جو ہم پر لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہوئے حالات کی غیر یقینی آشکار کرتی ہیں، کی قدر کرنی شروع کردیں گے۔
ہمیں کیا بات موت پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے؟ زندگی اور اس کے مواقع کی قدر: یہ قیمتی انسانی جان۔ اس قیمتی انسانی جان کا احساس وہ پہلا تصور ہے جو ہمیں دھرم کی طرف مائل کرتا ہے۔
تلخیص
اس طرح الٹی سمت پر عمل کرنے سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہر رویہ پچھلے سے جنم لیتا ہے۔ کوئی اسے پہلے سے چوتھے تک منطقی ترتیب میں سمجھا تو سکتا ہے۔ لیکن جیسے آپ میں سے بہتوں نے پہلے سے ہی اس کا مطالعہ کر رکھا ہے، میں اسے الٹی ترتیب میں پیش کرنا چاہتا تھا کہ کیسے ہر تصور پچھلے سے منسلک ہے۔ صحیح ترتیب میں، ہم اپنی قیمتی انسانی جان پر غور کرتے ہیں کہ یہ ہمیشہ قائم نہیں رہے گی، اور اس بات کا انحصار کرم پر ہے کہ موت کے بعد، اگلی زندگیوں میں، کیا ہوگا۔ اگر ہم نے موافق حالات میں جنم لیا تب بھی کئی مسائل ہونگے۔ یہ سمجھتے ہوئے، ہم دکھ سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے، ہمیں کامل بھروسہ ہونا چاہئے کہ دھرم واقعی ہمیں مکش کی راہ دکھاتا ہے، مسائل سے مکش اور روشن ضمیری کا حصول بالکل ممکن ہے۔ وہ محفوظ راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور بودھیچت پیدا کرتا ہے، جس کے ذریعہ ہم اپنے آپ کو روشن ضمیری کے حصول میں مکمل وقف کردیتے ہیں کہ سب کی مدد کے قابل ہوسکیں۔
الٹی ترتیب میں، جیسا ہم نے دیکھا ہے، اپنی زندگی کو صحیح راہ پر ڈالنے اور بودھیچت کے لئے ہمیں کامل یقین ہونا چاہئے کہ دکھ اور اس کے اسباب سے مکش بالکل ممکن ہے۔ اس کے لئے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ الجھن کی نوعیت کیا ہے اور کیسے جانکاری الجھن کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ اس کے لئے، ہمیں علم ہونا چاہئے اپنی زندگی میں مشکلات کا، سمسار کی مشکلات کا: مسائل کی تکرار اور غیریقینی کا۔ کرم کی وجہ سے بے یقینی ہے۔ غیریقینی کے پہلو سے سوچنا شروع کرتے وقت، ہمیں پہلے موت کی طرف غور کرنا چاہئے۔ ہم موت سے گھبرائینگے نہیں، اگر ہم زندگی اور اس کے مواقع کے بارے میں نہ سوچیں جو اب ہمیں حاصل ہے اور ہم جسے کھونا نہیں چاہتے۔
چاہے ہم ان چار تصورات کو صحیح ترتیب میں دیکھیں یا اس کے برعکس، ہمیں راہ پر مستحکم ہونے میں مدد دینے کے لئے یہ بہت ضروری ہیں تاکہ ہم اپنے آپ کی زیادہ مدد کرسکیں اور دوسروں کی بھی۔
سوالات و جوابات
سوال: عدم تیقن کا دنیاوی تفکرات میں، کہ کاش مجھے اپنی خوشی کے لئے یہ یا وہ مل جائے، کیا مقام ہے؟
جواب: اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں کیا بات خوشی دے سکتی ہے۔ اگر ہم سوچتے ہیں، "اگر میں صرف روشن ضمیری حاصل کرلوں تو میں خوش ہوجاؤں گا" تو یہ اس بات سے مختلف ہوگا، "اگر مجھے موزوں ساتھی مل جائے، مجھے دائمی خوشی مل جائے گی اور کبھی دکھ لاحق نہیں ہوگا۔" اگر ہم دکھوں سے ایسی مکمل مکش چاہتے ہیں کہ پھر وہ قریب نہ پھٹکیں تو چاکلیٹ، ساتھی، یا جنسی قربت سے ہم ہمیشہ مایوس ہونگے۔ تاہم، اگر ہم صرف معمولی خوشی چاہتے ہیں جیسی بھی وہ ہے، تب ہم اسے ایک عارضی مقصد کی طرح لیں۔ اگر ہمیں ایک مخصوص سطح کی خوشی حاصل ہے، تو اسے اپنی راہ پر ایک پڑاؤ کی طرح لیں کہ جہاں سستا کر آگے چلیں۔ اسی لئے لام-رِم کی تدریجی راہ کی ابتدائی تعریف باقسمت پنر جنم ہے۔ ہمیں ایسی عام دنیاوی خوشی درکار ہے جو مکش اور روشن ضمیری کے حصول کی طرف لیجائے۔ یہ منحصر ہے ایسی واقفیت پر جو اپنی عام خوشی کو ایسے ہی لے جیسی وہ ہے اور اونچی توقع نہ باندھے۔ ہمیں اپنے قدم زمین پر رکھنے چاہئیں۔
خاتمۂ کلام
ان چار تصورات کے ساتھ کام کرنا بڑا مددگار ہوتا ہے۔ انہیں ابتدائی اس خیال سے کہا جاتا ہے کہ وہ مضبوطی کے ساتھ ہمیں ایک مناسب و موزوں من کی کیفیت کی راہ پر ڈالتے ہیں، جیسے درس شروع ہونے سے پہلے ابتدائی باتیں سبق سننے کے لئے من کو تیار کرتی ہیں۔ دھرم کی راہ پر گامزن ہونے کا مطلب کیا ہے؟ ہم انہیں فنی اصطلاحات کی زبان میں بیان کرسکتے ہیں، لیکن ابھی اس سطح پر نہ کریں۔ راہ پر گامزن ہونے کا مطلب ہے کہ ہم جو کررہے ہیں اس پر ہمارا من مطمئن ہو اور ہمارا دل پوری طرح اس میں لگا ہو۔ ورنہ، ہم مستحکم نہیں ہونگے۔ شائد کچھ دیر کے لئے تفریحی طور پر، یا دوسروں کی دیکھا دیکھی، کر بھی لیں لیکن اس میں ہمارا دل نہیں ہوگا۔
پوری طرح دل لگانا رویہ میں تبدیلی مانگتا ہے۔ یہ ایک مخصوص انداز فکر مانگتا ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ زندگی کی صورتحال کو دیکھیں اور اقرار کرلیں کہ اس میں مسائل اور مشکلات کا وجود ہے۔ اپنی قیمتی زندگی کی قدر کرنا اور یہ جان لینا اہم ہے کہ یہ ہمیشہ قائم رہنے والی نہیں ہے۔ ہماری زندگی میں مسائل ہیں اور یہ مسائل بنیادی طور پر الجھن اور کرم کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ گو کہ ہم اپنی زندگی میں مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں، تاہم اس سے تسکین نہیں ہوتی کیونکہ یہ دائم نہیں ہے اور کوئی تیقن نہیں ہے کہ ہماری خوش مزاجی قائم رہے گی۔ یہ کافی نہیں ہے کہ ہمیں تھوڑی دیر کیلئے ہی خوشی ملے۔
شائد ہم جانتے ہوں کہ ہم ناہموار تعلقات میں داخل ہوتے ہیں، لیکن کیونکہ ابتداءً ان میں جوش اور مزہ آتا ہے، ہم ایک اور میں داخل ہوتے ہِیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم یا دوسرا اسے بگاڑ دے گا۔ اسی طرح ہم مکرر یہی دہراتے ہیں۔ بالآخر، ہم اس سے تھک جاتے ہیں اور کہتے ہیں، "بس میں اس کو ختم کر دینا چاہتا ہوں!" ہم مان جاتے ہیں کہ اس کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس اطمینان کی بنا پر، ہم حقیقتاً اس کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس راہ پرچلتے چلتے، ہمیں چاہئے کہ عارضی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ ہمارا سفر آسان کردے گی۔ لیکن ہمارے تجربہ میں اونچ نیچ ہوسکتی ہے۔ مستقلاً کسی دلبر شہزادہ یا شہزادی کی تلاش کرنے کی بجائے، کوئی ایسا رشتہ استوار کرنے کی کوشش کریں جو کامل تو نہ ہو – اس سطح پر کوئی رشتہ کامل نہیں ہوسکتا – لیکن جسے ہم آگے بڑھنے کے لئے استعمال کرسکیں۔ پیسہ کے ساتھ بھی یہی ہے۔ اگر ہماری ساری زندگیاں زیادہ سے زیادہ پیسہ کی تلاش میں گذرجائیں، تو یہ سلسلہ لامتناہی ہوگا۔
ہمیں زندہ رہنے کے لئے کسی قدر مادی آسائش کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح اپنے پر کام کرنے میں موافق حالات کے لئے کسی قدر الفت، محبت، اور رفاقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ساتھی کی رفاقت کبھی مثالی نہیں ہوتی۔ بنک میں رکھی کوئی رقم کبھی کافی نہیں ہوتی۔ اپنے گھر میں کتنی ہی آسائش ہو کبھی کافی نہیں ہوتی۔ یہی تغیر کا مسئلہ ہے۔ ان میں سے کسی کو بھی جی بھر حاصل کرنے کی کوشش کرنا دیوار سے سر ٹکرانا ہے۔ اپنی روحانی زندگی کو جاری رکھنے کے لئے جس قدر کچھ مادی سہولیات فراہم ہوں اسی کے ساتھ ہمیں اپنی روحانی زندگی جاری رکھنی چاہئے! نکتہ یہ ہے کہ کم مقدار سے کام چلا کر جو بھی حقیقتاً ہم حاصل کرسکتے ہیں، اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں: منزلِ مقصود۔ ہم اپنے منوں سے الجھاؤ کو دور کر سکتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دکھ درد دور کر سکتے ہیں۔ یہ ہی اس سب کا مدعا ہے۔ یوں نہ صرف ہم خود خوش ہوں گے بلکہ اوروں کو بھی خوشی دے سکیں گے۔ کیا ہم اوروں کی مدد کے زیادہ قابل ہمیشہ کسی رفیقِ کامل کے ذریعہ ہونگے، یا اپنے غصہ پر قابو پاکر؟
دعا
آئیں ایک دعا کے ساتھ اسے ختم کریں۔ ہم نے جو بھی ادراک حاصل کیا ہے، وہ گہرا تر ہوتا جائے، اور آہستہ آہستہ ہمارے اندر رچ بس جاۓ، اور ہمارے مثبت امکانات میں اضافہ کرے تاکہ ہم بتدریج ان چار تصورات کی روشنی میں دیکھنا شروع کریں۔ ہم اپنی زندگی کی محفوظ راہ پر مستحکم ہوں تاکہ بالآخر ہر ایک کی بہتری کے لئے مکش اور روشن ضمیری حاصل کرسکیں۔