اخلاقیات کے تین اہم پہلو : نقصان دہ رویہ سے گریز، ضبط نفس اور دیگر کی مدد کرنا
بدھ مت میں جب ہم اخلاقیات یا اخلاقی اسلوب کی بات کرتے ہیں، تو ہم تین مختلف مضامین کا ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلا نقصان دہ رویہ سے گریز ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ ہم طیش میں آ کر یا لالچ اور خود غرضی کے زیر اثر کوئی قدم نہ اٹھائیں، خواہ ہمارا مدعا کسی کو نقصان پہنچانا ہو یا نہ ہو۔ بعض اوقات ہمارا رویہ خود غرضانہ ہوتا ہے اور ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، اور ہمارا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی اس سے بہت ساری مصیبت اور مسائل جنم لیتے ہیں۔
اگر ہمارا رویہ محض ایسا ہو کہ "ہمیشہ میری ہی مرضی چلے" اور "مجھے جو چاہئیے وہ مجھے ضرور ملے" کیونکہ ہم خود غرض ہیں – ہم محض اپنے ہی بارے میں سوچ رہے ہیں – تب ہم دوسروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ انہیں سہواً بہت سارا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اور اگر ہم غصہ میں ہوں تو ہم آپے سے باہر ہو جاتے ہیں، ہے نا، اور ایسی باتیں کہتے یا کرتے ہیں جن پر بعد میں نادم ہوتے ہیں اور ایسی چیزوں نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ لہٰذا اخلاقیات کا پہلا سبق نقصان دہ رویہ سے پرہیز ہے۔
جب ہم اخلاقیات کی بات کرتے ہیں تو ہم ضبط نفس کی بات کرتے ہیں۔ ضبط نفس سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی کو قابو میں رکھیں اور اپنے آپ کو کاہلی اور اس قسم کی تمام پریشان کن من کی حالتوں سے جو ہمیں زندگی میں کچھ حاصل کرنے کی راہ میں حائل ہوتی ہیں سے مغلوب ہونے سے بچائیں۔ پس دوسری قسم کا اخلاقی رویہ کسی تعمیری کام میں مشغولیت ہے۔ مثال کے طور پر، محنت سے مطالعہ کرنا اور عمدہ تعلیم حاصل کرنا۔ اس کے لئیے بہت سارا ڈسپلن چاہئیے، ہے نا – مطالعہ کرنے اور سیکھنے کا ذاتی ضبط نفس۔ لیکن اگر ہم زندگی میں کوئی مثبت کارنامہ سر انجام دینا چاہتے ہیں، تو اس کے لئیے ہمارے پاس صلاحیت کا ہونا ضروری ہے؛ اس کے لئیے تربیت لینا ہو گی، اور اس کے لئیے ضبط نفس درکار ہے۔ اور یہ بھی ایک اخلاقی پہلو ہے۔
اس میں اخلاقیات کی کونسی بات ہے؟ کیونکہ ہم ایک اچھا چور، یا ایک اچھا مجرم بننے کی تربیت لے سکتے ہیں، یا ہم ایک ایسا انسان بننےکی تربیت بھی لے سکتے ہیں جو معاشرے کی بھلائی کے کام کرے۔ تو جب ہم کسی چیز کی تربیت لینا چاہیں، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہئیے کہ ہماری اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر کونسی چیز مفید ترین ثابت ہو گی۔ اور اس کا انحصار کسی حد تک اس بات پر ہے کہ مجھے کیا پسند ہے اور میں کس کام سے محظوظ ہوتا ہوں۔ اور جب ہم اس طور سوچیں کہ مجھے کیا پسند ہے تو یقیناً میرا جواب یہ ہو گا کہ مجھے ٹیلیوژن دیکھنا اور دوستوں سے کھیلنا پسند ہے، مگر ہم تمام عمر یہ کام نہیں کر سکتے، ہے نا؟ پس جب ہم اپنے محظوظ ہونے کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اس لمحہ کیا اچھا لگتا ہے، بلکہ ایسی چیز کی تلاش جو ہمیں تمام عمر مسرت سے ہمکنار کرے۔
اخلاقیات کی تیسری قسم وہ ہے جس میں ہم دوسروں کی مدد کرنے کو اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔ ہمارے اپنے لئیے عمدہ صفات کی تربیت لینا ہی کافی نہیں ہے، کیونکہ ہم سماج میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں اس لئیے یہ امر نہائت اہم ہے کہ ہم اپنی تمام صفات اور صلاحیتیں دوسرے لوگوں کے ساتھ بانٹیں۔ ہمارے پاس جو بھی صلاحیت ہے ہم اسے دوسروں کی مدد کرنے کے لئیے کام میں لا سکتے ہیں۔ بہر حال، معاشرے میں رہتے ہوۓ ہماری مسرت کا دار و مدار بڑی حد تک پورے سماج کی مسرت پر ہے۔ پس جب ہم اخلاقیات کی بات کرتے ہیں تو ہمیں وسیع النظر نہ کہ تنگ نظر یا خود غرض ہونا چاہئیے۔ اس سے مراد محض اپنے بارے میں یا اپنے خاندان کے بارے میں سوچنا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کو ذہن میں رکھنا ہے۔ اور نہ صرف حال کے متعلق سوچنا بلکہ مستقبل کو دھیان میں رکھنا ہے اور یہ کہ میرے اعمال کے اثرات کیا ہوں گے۔
اخلاقی رویہ کی بنیاد: ایک احساس مند شعار
جب ہم اخلاقی اسلوب کی بات کرتے ہیں، تو اساس کے حوالہ سے سب سے اہم بات "احساس مند رویہ" ہے۔ اس احساس مند رویہ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بارے میں اس بات کی فکر کرتا ہوں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میں نے یونہی بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم نہیں اٹھانا، کسی بھی تحریک یا احتیاج کی بنیاد پر جو میرے من میں آۓ، بلکہ میں اس بات کو پیش نظر رکھتا ہوں کہ میرے عمل کا اثر کیا ہو گا اور یہ کہ میں اپنی زندگی کیسے بسر کرتا ہوں، اور اس کا میرے اوپر اور دوسوں کے اوپر کیا اثر ہو گا۔
اگر میں نقصان دہ طور اطوار اختیار کروں تو میرا مستقبل کیسا ہو گا، یا یہ کہ میں کاہلی کا شکار ہوں اور زندگی میں کچھ بھی نہ کروں تو کیا ہو گا؟ خاص طور پر اگر میں نوجوان ہوں جیسا کہ آپ میں سے بیشتر یہاں موجود ہیں، تو میں روزی کیسے کماؤں گا، میں زندگی کے معاملات کیسے نپٹاؤں گا، اگر ابھی میں نے اس کے لئیے تربیت حاصل نہ کی تو؟ اگر ہمارا اسلوب ایسا ہو: "مجھے کچھ پرواہ نہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا" یا ہم یہ محسوس کریں کہ "نا امیدی کا بادل چھایا ہوا ہے، اس لئیے عمدہ تعلیم حاصل کرنے یا کوئی ہنر سیکھنے یا کوئی پیشہ اختیار کرنے سے کیا حاصل؟" تب زندگی کے بعد کے سالوں میں ہم پچھتائں گے کہ ہم نے ایک عمدہ موقع جو ہمیں میسر تھا گنوا دیا۔
لہٰذا اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا بہت اہم ہے، میرے موجودہ اعمال کے نتائج کیا ہوں گے۔ ہمیں اس بات کا احساس استوار کرنا چاہئیے کہ یہ ایک نہائت اہم امر ہے – کہ یہ میرے لئیے بہت اہم ہے کہ میرا مستقبل کیسا ہو گا۔ اگر میں خود اپنا خیال نہیں رکھوں گا تو اور کون کرے گا؟
اپنی عقل کے گھوڑے کی باگ اپنے ہاتھ میں لینا
بدھ مت میں ہم ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ اپنی زندگی کو اپنے ہاتھ میں لینا؛ بالفاظ دگر، اپنی زندگی کو اپنے اختیار میں لینا۔ اسے ایک گھوڑے کی مثال دے کر واضح کیا جاتا ہے۔ آپ کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے، وہ رسیاں جو گھوڑ سوار گھوڑے کو ہانکنے کے لئیے استعمال کرتا ہے، اور ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے من کے گھوڑے کی باگ اپنے ہاتھ میں لینی چاہئیے، تا کہ گھوڑا بے قابو نہ ہو جاۓ یا کوئی اور اسے قابو نہ کر لے۔
یہ امر نہائت اہم ہے کہ اس بات پر پورا اختیار ہو کہ میں نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کرنا ہے، اور میں کس قسم کا انسان بننا چاہتا ہوں۔ کیا میں ایک ایسا کاہل انسان بننا چاہتا ہوں جو زندگی میں کچھ بھی نہ کرے؟ یا میں ایک ایسا انسان بننا چاہتا ہوں جو ایک با مقصد اور بھر پور زندگی بسر کرتا ہے؟ با مقصد اور بھر پور زندگی گزارنا اس امر پر منحصر ہے کہ میں لوگوں سے کس طرح معاملہ کرتا ہوں۔ کیا میرا رویہ ایک ہمدرد اور مدد گار انسان جیسا ہے یا میں ایک ایسے انسان کی مانند شعار رکھتا ہوں جو نہائت خود غرض ہے اور ہر ایک پر ناراض ہوتا ہے؟
کوئی بھی کسی ایسے انسان کو پسند نہیں کرتا جو ہر وقت غصہ میں رہے اور ناراضگی پر آمادہ ہو؛ در حقیقت لوگ ایسے انسان سے ڈرتے ہیں۔ لوگ ان کے قریب جانا پسند نہیں کرتے کیونکہ ۔۔۔۔ وہ مجھ پر ناراض ہو سکتا ہے: "میں اس شخص کی صحبت نہیں چاہتا۔" یا کوئی ایسا شخص جس کا کام ہر وقت شکائت اور نکتہ چینی ہو، وغیرہ وغیرہ – ایسے شخص کی صحبت میں کوئی مزہ نہیں، ہے نا؟ لیکن اگر ہم ایسے انسان ہیں جو دوسروں کی فکر کرتا ہے، ان کا خیال رکھتا ہے، لوگوں میں دلچسپی لیتا ہے، اور جو، ان کی کمزوریوں اور غلطیوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجاۓ، انہیں بہتر بنانے اور ترقی کرنے میں مدد دیتا ہے، تو پھر ہر کوئی ہمیں پسند کرے گا؛ اور ہماری صحبت کا تمنائی ہو گا۔
پس اس چیز کا انحصار اخلاقیات پر ہے کہ ہم کس قسم کے انسان ہیں اور ہم کیسے انسان بن سکتے ہیں۔ ہم اپنے اسلوب اور عمل کے ہمارے اوپر اثرات کے متعلق فکر مند ہوتے ہیں – کہ ہم جس طرح کے انسان بن جائں گے – اور ہم اس بات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں کہ اس کا ہمارے دوسرے لوگوں سے معاملہ پر کیسا اثر پڑے گا۔ یہ ہے احساس فکر مندی۔
('باگ-یود'، سنسکرت اپرامد) لفظ جس کا ترجمہ میں "احساس مند رویہ" کر رہا ہوں کا مطلب "محتاط رہنا" بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی گفتار اور عمل اور افکار سب کے متعلق محتاط رہنا چاہئیے۔ کیونکہ اگر ہم بری عادات ڈال لیں، تو یہ عادتیں پختہ سے پختہ تر ہوتی جاتی ہیں اور پھر ہم بغیر سوچے سمجھے ان کے مطابق یعنی برے طریقہ سے کرم کرتے ہیں۔
میں ایک مثال دیتا ہوں: بہت سارے لوگ، جب وہ بات کرتے ہیں، تو بہت زیادہ ناروا الفاظ استعمال کرتے ہیں – بلکہ غیر شستہ، اکھڑ زبان استعمال کرتے ہیں۔ یہ معاملہ انگریزی میں یقیناً ہے اور شائد روسی زبان میں بھی۔ میں آپ کی روز مرہ زبان سے واقف نہیں ہوں لیکن میرے خیال میں ہر زبان میں برے اور بیہودہ الفاظ پاۓ جاتے ہیں۔ نوجوان لوگ اکثر ایسا درشت لب و لہجہ اختیار کر لیتے ہیں، اور وہ اس کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ بعد میں زندگی کے دوران بعض ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ وہ بنا سوچے سمجھے ایسی زبان استعمال کرتے ہیں اور یہ بہت ندامت کا باعث ہو سکتا ہے۔
اس سے بچنے کے لئیے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے – ہمیں ابھی سے احتیاط کرنی ہے – کہ ہم کس قسم کی عادات پروان چڑھاتے ہیں۔ ہمیں اس لئیے بھی محتاط رہنا ہے کیونکہ ہم اپنے موجودہ طور اطوار کے مستقبل میں اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں۔ تو ضبط نفس کے توسط سے ہم اپنی گفتار، اپنے اعمال اور اپنے افکار کے متعلق خبردار رہتے ہیں، اور اس بات کا احساس کرتے ہیں کہ اگر میں اطوار و عادات استوار کرنا شروع کروں، منفی عادات، تو بعد از آں انہیں بدلنا بہت مشکل ہو گا۔
اب جبکہ آپ نوجوان ہیں – ناظرین میں سے بہت سارے تو ہیں – یہی وقت ہے جب آپ کی عادات بنتی ہیں۔ اس لئیے یہ نہائت اہم ہے کہ آپ اپنے من کے اور اپنے شعار کے گھوڑے کی باگ اپنے ہاتھ میں لیں، آپ کو اس امر پر اختیار ہو کہ آپ نے کیسا انسان بننا ہے۔ کیا میں منفی سمت جانا چاہتا ہوں یا کیا میں مثبت سمت جانا چاہتا ہوں؟ ایسا کہنے سے کام نہیں چلے گا، "میں اپنی زندگی کی باگ اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا: سماج اس طرح کا ہے اور معیشت اس طرح کی ہے،" اور محض شکائت کریں، کیونکہ ہمارے حالات خواہ کیسے ہی ہوں، پھر بھی ہم کس طرح کے انسان بنتے ہیں – اس کا انحصار ہمارے اوپر ہے۔ اگر ہم بدترین حالات میں رہ رہے ہوں پھر بھی ہم ایک نیک دل انسان ہو سکتے ہیں یا ایک بیہودہ اور ظالم انسان ہو سکتے ہیں؛ ہم نہائت خود غرض ہو سکتے ہیں یا سب کے ساتھ مل جل کر امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔
اخلاقی اسلوب کے لئیے امتیازی آگہی درکار ہے: یہ جاننا کہ کیا نقصان دہ ہے اور کیا فائدہ مند
بدھ مت میں جب ہم اخلاقیات کی بات کرتے ہیں تو ہم یہ نہیں کہتے: یہ رہے قوانین، اور یہ رہے اصول، اور میرا کام محض ان کی اطاعت کرنا ہے۔ یہ بدھ مت کا طریق کار نہیں ہے۔ ہم اپنی زندگی کسی فوجی کی مانند نہیں گزارتے جیسا کہ: "جی جناب! میں ان اصولوں کا پابند رہوں گا۔" یہ ایسے نہیں ہے۔ بلکہ بدھ مت میں اخلاقیات کی بنیاد "امتیازی آگہی" پر ہے۔ ہمیں فائدہ مند اور نقصان دہ کے بیچ تفریق کرنی ہے۔ چونکہ ہر انسان مسرت کا متلاشی ہے اور کوئی بھی آزار نہیں چاہتا، تو اگر میں عدم مسرت سے بچنا چاہتا ہوں، تو مجھے اس چیز سے پرہیز کرنا چاہئیے جو نقصان دہ ہے، جو میری اور دوسروں کی خوشی کو برباد کر دے گی۔ اگر مجھے مسرت کی تلاش ہے تو مجھے وہ کچھ کرنا چاہئیے جو فائدہ مند ہے، وہ جس سے خوشی ملے گی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم سماج کا حصہ ہیں؛ اس کرہ ارض پر ہم اکیلے ہی نہیں ہیں۔ پس جب ہم اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ہمیں کس قدر خوشی چاہئیے، تو ہمیں اتنی خوشی حاصل کرنے کے لئیے جہد کرنی چاہئیے جو سب کے لئیے کافی ہو۔ اب ہم یہ سوال اٹھا سکتے ہیں، "یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمام انسانوں کو خوش کر سکوں؟" یہ تو صاف ظاہر ہے کہ ہمارے ایک اکیلے کی جد و جہد سے سب کو خوش نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن جیسا کہ مہاتما بدھ نے کہا کہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ پس ہم اپنا ایک قطرہ اس بالٹی میں ڈال سکتے ہیں۔ میں بالٹی میں کیسا قطرہ ڈالنا چاہتا ہوں؟ کیا یہ کوئی مصیبت زدہ قطرہ ہو گا جو میں بالٹی میں ڈالوں گا جس سے کہ دوسروں کے لئیے مسائل پیدا ہوں؟ یا میں کوئی ایسا قطرہ ڈالنا چاہوں جو کسی حد تک مفید ثابت ہو، خواہ وہ فائدہ کچھ ہی ہو؟ وہ مدد خواہ اس صورت ہو کہ ایک گھرانے میں بچوں کو پال پوس کے بڑا کیا جاۓ، ایسے بچے جو مثبت اقدار کے حامل ہوں، یہ ایک مفید قطرہ ہے۔ اس کے لئیے کوئی بڑا ڈرامائی فعل درکار نہیں، ہے نا؟ تو یہ سب ہمارے اختیار میں ہے۔
ہماری اقدار کا احساس
اخلاقیات کی ایک اور بنیاد ہمارا احساسِ اقدار ہے۔ ہمیں عمدہ اور مثبت صفات اور جو لوگ ان کے حامل ہیں کو قدر و منزلت کی نظر سے دیکھنا چاہئیے۔ میں کسے زیادہ عزت لائق سمجھتا ہوں؟ کیا میں کسی بڑے مجرم کو اپنا ہیرو مانتا ہوں، یا کسی ایسے اعلیٰ لیڈر کو جو لوگوں کی مدد کرتا ہے؟ یہ بہر حال ایک دلچسپ سوال ہے، ہے نا؟ کیا میں کسی راک اینڈ رول کلاکار کو اپنا ہیرو مانتا ہوں؟ کیا میں کسی فلم کے اداکار کو اپنا ہیرو مانتا ہوں؟ یا کوئی کھلاڑی؟ ان میں سے بعض لوگ زندگی میں اچھے کام کرتے ہیں – تو ٹھیک ہے۔ لیکن بعض نہیں بھی کرتے۔ یا کیا میں کسی عظیم روحانی گرو کو اپنا ہیرو سمجھتا ہوں – مثال کے طور پر، تقدس مآب دلائی لاما؟
وہ کونسی اقدار ہیں جنہیں میں زندگی میں نہائت اہم تصور کرتا ہوں. کیا یہ کسی گیند کو ٹھوکر مار کر جال میں ڈالنا ہے؟ یا سچ مچ کوئی ایسا کام کرنا جس سے لوگوں کی زندگی بہتر ہو؟ ہم گیند کو ٹھوکر مار کر جال میں ڈالنا سیکھ سکتے ہیں۔ بہت عمدہ بات ہے اور اس سے بہت سارے لوگ محظوظ ہوتے ہیں، لیکن شائد آپ کسی جانور کو بھی یہ ہنر سکھا سکتے ہیں۔ تو اگرچہ یہ ایک عمدہ ہدف ہو سکتا ہے، یعنی ایک عمدہ کھلاڑی بننا، پر کیا میں کسی ایسے ہنر کی تربیت لے کر اسے استوار کر سکتا ہوں جو کوئی جانور نہ کر سکتا ہو؟ یقیناً، بے شک، ہم انسان ہونے کے ناطے بہت کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ ہمیں عقل ودیعت ہوئی ہے، ہم جذبات رکھتے ہیں، ہم نہ صرف لوگوں کے لئیے تفریح کا سامان مہیا کر سکتے ہیں بلکہ ہم اور کئی طریقوں سے بھی ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
لوگوں کو تفریح کا سامان مہیا کرنا یہ یقیناً ایک آرام دہ اور سکون بخش امر ہے، اور اس کا کوئی منفی پہلو نہیں ہے۔ لیکن اگر ہم اس سے بھی زیادہ کچھ کر سکتے ہیں، تو کیوں نہ کریں؟ ہم بیک وقت ایک اچھے تماشا گر، ایک عمدہ کھلاڑی اور ایک ایسا انسان بن سکتے ہیں جو سماج کی بھلائی کے لئیے اور بھی کام کرے۔ یہ اقدار کے احساس کا معاملہ ہے۔ لوگوں کا کس چیز سے بھلا ہو گا؟ تفننِ طبع ایک ایسی شے ہے جس سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہے تو تیمار داری ان کے لئیے سود مند ہے۔ لوگوں کو تعلیم دینا – یہ بھی ان کی مدد کا ایک طریقہ ہے۔ اگر میں ایک کامیاب تماشا گر یا کھلاڑی ہوں تو اچھی بات ہے۔ لیکن میں اپنی شہرت اور دولت کو کیسے صرف کروں گا؟ میں اپنی رہائش کے لئیے ایک محل تعمیر کر سکتا ہوں، یا میں اس سے ہسپتال تعمیر کر سکتا ہوں اور لوگوں کے لئیے چندہ جمع کر سکتا ہوں۔ پس اقدار کا ایک احساس۔ تو کونسی چیز اہم ہے، میرا کسی محل میں رہائش پذیر ہونا یا لوگوں کی مدد کرنا؟
اور اگر ہم اپنے آپ پر نظر ڈالیں، تو ہم سب کے اندر بےشمار صلاحیتیں ہیں، اور ان سب کو بروۓ کار لایا جا سکتا ہے۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ ہمارا اپنے آپ کو پہچاننا: مجھ میں کونسی صلاحیتیں ہیں؟ میرے پاس کونسا خاص ہنر ہے؟ ٹھیک؟ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ممکن ہے کہ میں ایک اچھا باورچی ہوں؛ اس کا کوئی غیر معمولی چیز ہونا ضروری نہیں ہے۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ "میں اسے کیسے کام میں لاؤں؟ اس ہنر کو، اس صلاحیت کو لوگوں کی مدد کرنے کی خاطر کیسے کام میں لاؤں؟" لوگوں کی مدد ۔۔۔ بےشک، اگر ہم فوری طور پر ان کے کام آ سکیں، موجودہ صورت حال میں – مثلاً ان کے لئیے عمدہ پکوان تیار کریں یا ان کا دل بہلائں – بہت خوب۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن اگر میں مستقبل میں بھی ان کی مدد کر سکوں – نہ صرف ابھی اس لمحہ، جیسے کھانا بنانا تو کیا یہ اور بھی بہتر نہیں ہو گا؟
پس یہ سب ہمارے اختیار میں ہے یعنی: "مجھے کس قسم کا ضبط نفس درکار ہے؟ کیا مجھے کوئی بھی ضبط نفس نہیں چاہئیے؟ کمزور ضبط نفس چاہئیے؟ یا مجھے اخلاقیات پر مبنی زبردست ضبط نفس استوار کرنا ہے؟" اور اس سب کا انحصار، جیسا کہ میں نے کہا، احساس مند شعار پر ہے، اور یہ بھی کہ محتاط رہنا، اپنی زندگی کو اپنے اختیار میں رکھنا، اس بات کی تمیز کا ہونا کہ "کیا مفید ہے؟ اور کیا نقصان دہ ہے؟" اور پھر یہ کام کرنا کہ: تربیت حاصل کرنا – عمدہ عادات استوار کرنا؛ اور بری عادتوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرنا۔ اس امر پر ہوشیار اور باخبر رہنا کہ "میرا فعل کیسا ہے؟ میری گفتار کیسی ہے؟ میرا انداز فکر کیسا ہے؟" اور ان سب عناصر کی کسی ایسی سطح پر مطمٔن نہ ہو بیٹھیں جس پر میری زندگی میں خاص خوشی نہیں ہے؛ ہم ہمیشہ حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اخلاق کی پابند زندگی مسرت کے حصول کا ایک طریقہ ہے
جب ہم اپنے آپ کو بہتر بنانے کی بات کرتے ہیں، تو اس کا مطلب اپنی جان کنی نہیں ہے – "میں بیکار انسان ہوں" – اور اپنے متعلق منفی سوچ رکھنا، تو اس طرح کسی قسم کی اخلاق کی پابند زندگی ایک طرح کی سزا بن جاۓ۔ یہ کوئی سزا نہیں ہے۔ ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہئیے کہ اخلاق کی پابند زندگی بسر کرنا مسرت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس سے دوسرے لوگوں کی مسرت میں بھی اضافہ ہوتا ہے، جس سے ہماری خوشی کو تقویت ملتی ہے۔
پس ہمارے مستقبل کا دار و مدار کلّہم ہمارے اوپر ہے۔ اب اور مستقبل دونوں میں ہم کس قسم کے انسان بننا چاہتے ہیں – یہ سب ہمارے اوپر منحصر ہے۔ تو ہم خواہ اس وقت سکول میں نوجوان طالب علم ہیں یا بالغ یا عمر رسیدہ انسان ہیں، ہم سب اس راہ پر چل سکتے ہیں۔
سوالات
اقدار کا احساس پیدا کرنے کے لئیے ہمیں کیا کرنا چاہئیے؟
اقدار کا احساس پیدا کرنے کے لئیے ہمیں اپنے اندر جھانک کر دیکھنا چاہئیے کہ ہمارے اندر مثبت صفات موجود ہیں: ہم سب کا ایک شریر ہے، تو ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کام، مختلف کام کر سکتے ہیں۔ ہم سب میں گفت و شنید کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ ہم سب کا ایک ذہن ہے اس لئیے ہم باتوں، چیزوں کو سمجھ سکتے ہیں؛ ہم نئی باتیں سیکھ سکتے ہیں۔ اور ہم سب ایک قلب رکھتے ہیں – ہمارے جذبات ہیں – ہم درد مند، مہربان جذبات کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پس ہر انسان ان چیزوں کا مالک ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ اور ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ یہ میرا کار آمد اثاثہ ہے۔ میں اس کو کیسے استعمال کرتا ہوں، یہ میرے اوپر منحصر ہے۔ اگر ہم اس بات کو دھیان میں رکھیں کہ یہ ہمارا بنیادی ساز و سامان ہے، تو ہمارے اندر ایک عزت نفس پیدا ہو گی – "مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے۔ میں اپنے کار آمد ساز و سامان سے کوئی مثبت کام کر سکتا ہوں" – تو اس سے ہمیں یہ قدر کا احساس ملتا ہے۔
ہم اپنی مثبت صفات کو کیسے پرکھیں اور انہیں لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں کام میں لائں؟
ہماری مثبت صفات کی پرکھ کا مطلب اپنے اندر جھانک کر دیکھنا ہے۔ یہ بنیادی ساز و سامان ۔۔۔ یہ جاننے کی خاطر کہ یہ میرے پاس موجود ہے ہمیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں – کہ میرا ایک من ہے، میرا ایک شریر ہے، میں بات کر سکتا ہوں، وغیرہ۔ ان کی پہچان کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے: "کیا میں نے زندگی میں کچھ سیکھا ہے؟" خواہ ہم کتنے ہی چھوٹے کیوں نہ ہوں ہم نے چند چیزیں سیکھی تو ہیں: ہم نے چلنا سیکھا، ہم نے باتیں کرنا سیکھیں ۔۔۔ نہائت بنیادی باتیں۔ اور یہ دیکھنے کی خاطر کہ مجھے کس سمت جانا ہے، جہاں تک میری بنیادی صلاحیتوں کے استعمال کا تعلق ہے، پھر آپ یہ دیکھتے ہیں: "میں نے کونسی چیز آسانی سے سیکھ ڈالی؟ میرے لئیے کیا سیکھنا آسان ہے؟ ہم میں سے بعض کے لئیے ریاضی کی نسبت زبان سیکھنا آسان ہے۔ بعض لوگ سائنس اور ریاضی میں ماہر ہوتے ہیں مگر لکھنے میں کمزور ہوتے ہیں۔
پس ہمیں اپنے آپ کو پرکھنا چاہئیے، یہ جاننے کے لئیے: "مجھ میں کیا خوبی ہے؟" اور یہ بات بھی اس میں شامل ہے کہ: "مجھے کیا کرنا پسند ہے مجھے کیا کرنا اچھا لگتا ہے؟" ہمیں اپنی زندگی کے تجربات سے خود گزرنا چاہئیے۔ میں اپنی زندگی کیسے بسر کرتا ہوں ۔۔۔ خوب، میں ہی وہ انسان ہوں جس نے اپنی زندگی خود گزارنی ہے: کیا میں ہنسی خوشی زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں، یا کیا میں ناخوش رہنا چاہتا ہوں؟ بہترین صورت میں ہم اپنی زندگی میں ایسا کچھ کرنا چاہتے ہیں جس سے ہم محظوظ ہوتے ہوں اور اسے ہم با مقصد سمجھتے ہوں۔ اگر اس سے کسی کو فائدہ پہنچے تو یہ با مقصد کہلاۓ گا۔ اس کا کوئی بڑی اور ڈرامائی چیز، عالمی سطح پر، ہونا ضروری نہیں ہے۔
پس ہماری عمدہ صفات کا جائزہ لینے کا انحصار اس بات پر ہے: " میں نے آج تک کیا کیا ہے؟ اور " میرے لئیے کیا کرنا آسان ہے اور میں کیا کرنا پسند کرتا ہوں؟" میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں جسے بعض لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔ بعض لوگوں میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے بات کرنا پسند کرتے ہیں: وہ بالکل شرمیلے نہیں ہوتے، اور وہ کسی سے بھی آسانی سے بات کر لیتے ہیں؛ وہ اجنبی لوگوں سے بھی اپنائت محسوس کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اسے کوئی بڑی بات تصور نہ کریں لیکن در حقیقت یہ ایک بڑی عمدہ صفت ہے کیونکہ، مثال کے طور پر، فرض کیجئیے کہ آپ کسی دوکان میں کام کرتے ہیں۔ آپ سوچ سکتے ہیں، "یہ کوئی بڑا زبردست پیشہ نہیں ہے۔" لیکن اگر آپ ان لوگوں سے جو آپ کی دوکان میں آتے ہیں اچھی طرح بات کر سکتے ہیں اور ان سے بے تکلفی سے معاملہ کر سکتے ہیں – آپ شرمیلے نہیں اور نہ ہی سرد مہری سے پیش آتے ہیں (آپ دوکان میں ایک روباٹ کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں) – تو لوگ آپ کو پسند کریں گے، وہ آپ کی دوکان میں آنا پسند کریں گے، وہ مسکراتے ہوۓ واپس جائں گے۔ یہ ایک عمدہ صفت ہے، ایک قابل قدر خوبی۔ اس سے لوگوں کی مدد ہوتی ہے۔
جب ہم کسی نہائت خود غرض انسان کے ہمراہ ہوں تو ہم کیا کریں؟
ہر بات کا انحصار اس امر پر ہے کہ یہ شخص کس حد تک مدد قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ میں برلن میں جہاں میں مقیم ہوں موجود ایک انسان کی مثال دے سکتا ہوں جو میرے ذہن میں آتی ہے، جو ہر وقت اپنے ہی بارے میں سوچتی رہتی ہے – بہت زیادہ اپنی ذات میں مگن، ہر دم اپنے ہی متعلق بات کرتی ہے، اور بیشتر اوقات شکائت اور نکتہ چینی کرتی ہے۔ آپ اس کے ساتھ لنچ کھائیں تو وہ زیادہ وقت اس بات کی شکائت کرنے میں صرف کر دے گی کہ اسے اپنے کمرے میں نیا پردہ لگانے کے لئیے مناسب کپڑا تلاش کرنے میں کس قدر دقت اور ناکامی ہوئی۔ تو ایسے انسان کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جاۓ؟ ایسے لوگوں کے متعلق آپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ نہائت ناخوش اور تنہائی کا شکار ہیں۔ پس جب وہ کسی سے ملتی ہے تو وہ متواتر بولتی چلی جاتی ہے، وہ توجہ کی متلاشی ہے۔ تو اس کا ارادہ یقیناً یہ نہیں کہ میرے ساتھ لنچ کو میرے لئیے نا خوشگوار یا اکتاہٹ بھرا بنایا جاۓ، بلکہ اس کی نیت کچھ توجہ اور کچھ ہمدردی حاصل کرنے کی ہے۔ تو ایسے حالات میں جہاں میں اس سے سختی سے پیش نہیں آ سکتا (وہ سخت ناراض ہو جاۓ گی) – جیسے، "بند کرو یہ شکوہ شکائت اور کسی اہم موضوع پر، پردوں سے زیادہ اہم، بات کرو" – میں یہ کر سکتا ہوں کہ اس کے ساتھ صبر کی مشق کروں، اور وسعت نظر سے اس کی بات سنوں، اور اس سے کچھ اظہار ہمدردی کروں، جس سے کہ اس کی کچھ تشفی ہو۔ کیونکہ جس طرح وہ بات کر رہی ہے اور شکائت کر رہی ہے وہ سخت تناؤ کا شکار ہے۔
تو میرے خیال میں یہ بیشتر خود غرض اور اپنے آپ میں مگن لوگوں کی اصناف ہیں۔ وہ ناخوش ہوتے ہیں، تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، وہ متواتر بولتے چلے جاتے ہیں اور توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ تو میرے خیال میں انہیں تسلی دینے اور ان سے کچھ اظہار ہمدردی نہ کہ محض عدم برداشت کے مزید کچھ کرنا بہت مشکل ہے۔ تب انہیں دھیرے دھیرے احساس ہوتا ہے کہ آپ بھی وہاں موجود ہیں، نہ صرف ایک ناظر کی حیثیت سے بلکہ کسی باہمی عمل کاری میں شریک کار کی حیثیت سے۔