تعارف
تبتی بدھ مت کا ایک اہم ترین اصول دست نگر نمو ہے۔ دوسرے عناصر سے کسی تعلق اور انحصار کے بغیر بذات خود کوئی شے نہ تو اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے اور نہ ہی وقوع پذیرہوسکتی ہے۔ مزید برآں، ہر بات کئی وجوہات اور حالات کی بنا پروجود میں آتی ہے؛ محض ایک وجہ یا کسی وجہ کے بغیر ہی کوئی بات واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً، اندرونی سطح پر، ایک صحتمند جسم بنتا ہے سارے اعضا اور نظام کے صحیح اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر کام کرنے سے۔ اور خارجی سطح پر، اچھی صحت منحصر ہوتی ہے دواؤں، خوراک، دوسروں کی ہمدردی، اور ماحول وغیرہ پر۔ اِسی طرح، ایک صحتمند سماج بنتا ہے، اندرونی سطح پر، اس کے سارے مشمول گروہوں کے ہم آہنگ باہمی تعاون سے۔ اور خارجی سطح پر، سماجی صحت مبنی ہوتی ہے دنیا کی عمومی صورتحال کے علاوہ معاشی، سیاسی، اور ماحولیاتی عناصر پر۔
انفرادی اور سماجی صحت کے لئے اس کے اصولِ اخلاق بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر افراد بداخلاق طرزِ زندگی سے اجتناب کرنے کے لئے اخلاقی ضبطِ نفس قائم نہ رکھیں، اور متبادل طریقے اختیار نہ کریں تو وہ بیمار پڑجاتے ہیں۔ اسی طرح، اگر ایک سماج کے مختلف گروہ باہمی مشترک اخلاقی اصولوں پر برقرار نہ رہیں، تو وہ سماج بھی بیمار پڑجاتا ہے۔ ان اخلاقی اصولوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود غرضانہ روش سے پرہیز کریں، اور اس کے بجائے دوسروں کی بھلائی کے لئے بے غرض ایثار پسند اطوار اختیار کریں۔
مختلف النوع سماجوں میں، ہر مشمول گروہ اپنے اخلاقی طور طریقوں کی رہنمائی کے لئے اپنا ایک مخصوص مذہب اور فلسفہ رکھتا ہے، جبکہ سماج کے کچھ افراد کسی مذہب اور کسی مخصوص فلسفہ کی پیروی ہی نہیں کرتے۔ خود غرضانہ روش کو کم کرنے اور ایثار پسندی کی روش کو بڑھانے کے طریقے ہر گروہ کے لئے مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن اگر مقصد ایک ہی ہو – ایک ہم آہنگ خوش باش مختلف النوع تہذیبی معاشرہ کا قیام – تو ایسا معاشرہ تب قائم ہوگا جب سارے رکن گروہ ایک دوسرے میں باہمی سمجھوتہ، عزت اور تعاون کی فضا پیدا کریں۔
اس نکتہ کی وضاحت کے لئے، فرض کریں کہ آپ اس تحقیقی کشتی کے مسافروں میں سے ایک ہیں جو دسمبر ۲۰۱۳ میں انتارکتکا کے ساحل پر برف میں اٹک گئی تھی۔ ۵۲ سائنسدان اور سیاح وہاں دس دنوں تک پھنسے رہے، جبکہ اس کشتی کا عملہ تو ان مسافروں کے چینی جہاز کے ذریعہ (جو انہیں بچانے آیا تھا) محفوظ مقام پر پہونچا دئیے جانے کے بعد بھی کئی اور دن پھنسا رہا۔ اس مصیبت کے دوران، کسی کو پتہ نہ تھا کہ وہ وہاں کتنی مدت تک پھنسے رہیں گے۔ ان معاندانہ حالات اور محدود ذخیرہ خوراک میں ان سب کے لئے زندہ بچے رہنے کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ اگر ہر شخص صرف اپنی ہی فکر کرتا، تو سب کی تباہی یقینی تھی۔ ان کے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ، مختلف ذاتی مذہب اور تہذیبی پس منظر کے باوجود، ہر فرد بنیادی اخلاقی اصولوں پر چلے۔
فرض کریں کہ ان مسافروں میں تبتی بدھ دھرمی، مسلم، عیسائی، اور کنفیوشسٹ دینی رہنما تھے اور ایک سیکولر لیڈر بھی تھا جس کی سب عزت کرتے تھے، اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کسی منظم مذہب یا فلسفہ کی پیروی نہیں کرتے تھے۔ سوال ہے کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کرتے؟ ان سب کے سوچنے کا انداز کیا ہوتا، اور وہ دوسروں کو کیا مشورہ دیتے۔ آخر ہر ایک پریشان اور خوفزدہ تھا، اور کچھ مسافر تو غصہ میں بھی تھے کہ کیا ہوگیا اور جھگڑنے لگے تھے، اور کئی تو بجھ سے گئے تھے۔
تبتی بدھ مت پر مبنی اخلاقیات استوار کرنے کے طرائقِ کار
تبتی بدھ دھرم کے پیشوا نے اپنی جماعت کے دوسرے بدھ دھرمیوں کو تحمل کے بارے میں عظیم بھارتی گورو شانتی دیو کے الفاظ یاد دلائے ہونگے: "اگر کچھ درست ہوسکتا ہے توکسی بات پر اپنا موڈ کیوں خراب کرو؟ اور اگر کچھ ٹھیک نہیں ہوسکتا، تو اس پر اپنا موڈ خراب کرنے سے کیا فائدہ؟"۔ دوسرے الفاظ میں، اگر کسی مشکل سے نکلنے میں آپ کچھ کرسکتے ہیں، تو اس پر بگڑنے کی ضرورت نہیں، بس عمل کریں۔ لیکن اگر آپ کچھ نہیں کرسکتے، تو پھر کیوں پریشان ہوں؟ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ دراصل، ایسا کرکے آپ مزید رنجیدہ ہی ہونگے۔ غصہ ہونے اور رنجیدہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں، بلکہ آپ کو تحمل پیدا کرنے اور ڈٹ کر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
برف میں دھنس جانے والی کشتی سے نکلنے جیسی مشکل صورتحال میں ایک عملی فکر ہی سے مدد مل سکتی ہے۔ اول، یہ صورتحال تو کئی عناصر کی بنا پر پیدا ہوئی، کوئی ایک فرد یا عنصر نہیں کہ جس پر آپ الزام دھریں اور غصہ کریں۔ یہ بات، کہ آپ میں سے ہر ایک اس کشتی پر ہیں، کئی وجوہات سے پیدا ہوئی۔ اول، آپ میں سے ہر ایک کے لئے مختلف وجوہات تھیں جنکی بنا پر آپ اس مہم میں شریک ہوئے، اور وہ وجوہات متعلق تھیں اس بات سے کہ اس شرکت کیلئے آپ میں سے ہر ایک نے کسی سائنسی میدان میں یا تو مہارت حاصل کی تھی یا دلچسپی لی تھی، یا پیسہ اور وقت لگایا تھا۔ یا پھر پچھلے جنموں کے کچھ اتفاقی عوامل تھے جن کی وجہ سے موجودہ جنم میں اس صورتحال سے دوچار ہونا پڑا۔ یا پھردوسرے نہ صرف اِس مہم میں آپ کی شرکت پر اثرانداز ہوئے بلکہ انہی کی وجہ سے آپ شرکت کے قابل بھی ہوئے، جیسے آپ کے خاندان والوں یا آجرین کی طرف سے کوئی اعتراضات نہیں اٹھے۔ یا پھر کچھ وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ سائنسی مہم شروع کی گئی، کچھ وجوہات تھیں جنکی بنا پر ایک مخصوص تاریخِ روانگی چنی گئی، کچھ وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ کشتی چنی گئی اور کشتی کی سلامتی پرکھی گئی، انتارکتکا کا جغرافیائی مقام چنا گیا، موسم وغیرہ دیکھا گیا۔ برف میں دھنس جانا انہی سب عوامل کی وجہ سے ہوا۔ اور یہ حقیقت ہے۔ اگر ان میں سے کوئی ایک عنصر نہ ہوتا، تو آپ یہاں اس بکھیڑے سے دوچار نہ ہوتے۔ اب عوامل اور حالات کے اس عظیم جال میں کیا کوئی ایک مخصوص عنصر ہے جس کو آپ مورد الزام ٹھہرائیں اور اس پر آپ غضبناک ہوں؟ تو پھر جب آپ محسوس کریں کہ آپ کو غصہ آنے لگا ہے، یا افکار پریشان کرنے لگے ہیں، تو آپ سکوت اختیار کریں اور اپنی سانس پر توجہ دیں، ناک سے دھیمے دھیمے سانس لیں اور اگر چاہیں تو، بہ تکرار گیارہ تک سانس کی گنتی کریں۔
یاد رکھئے کہ جب تک مطلع صاف نہیں ہوتا اور ایک نجات دہندہ جہاز آ نہیں پہنچتا، تب تک کوئی کچھ عجلت نہیں کرسکتا۔ یہ سوچنا وہم ہے کہ ہم میں سے کوئی صورتحال پر قابو پاسکتا ہے، کیونکہ کیا ہوگا اور کیسے ہوگا وہ متعدد عوامل پر منحصر ہے۔ مزید، حقیقت یہ ہے کہ ہم سب اس صورتحال میں برابر کے شریک ہیں۔ یہ صرف میرا یا آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔ بقا کا مسئلہ سب کا مسئلہ ہے، اورضرورت ہے کہ ہم خودغرضانہ فکر سے بالا ہوکر یہ سوچیں کہ مل جل کر اس صورتحال سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔ نہ ہمارا موسم پر اختیار ہے، اور نہ ہی نجات دہندہ کشتی کی آمد پر۔ لیکن جس امر پر اثر ڈال سکتے ہیں وہ ہے ہماری اپنی ذہنی کیفیت، خصوصاً یہ کہ ہم دوسرے کوکیا مقام دیتے ہیں۔
فکرِ ذاتی پر قابو پانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھ لیں کہ سب یہاں پچھلے جنموں میں آپ کے ماں یا باپ رہ چکے ہیں اور انہوں نے آپ کے ساتھ شفقت اور محبت کا سلوک کِیا تھا۔ تو ہر فرد کو اس طرح دیکھئے جیسے وہ آپ کے کھوئے ہوئے ماتا یا پتا ہیں جنہیں آپ نے پچھلے کئی جنموں سے نہیں دیکھا تھا۔ جب ان میں سے کسی سے آپ ملیں گے تو ماضی میں ملی شفقت کی قدر کرتے ہوئے فطری طور پر ان کیلئے آپ کے دل میں گرمجوشی پیدا ہوگی۔ اسی گرمجوشی میں اضافہ کریں اور ان میں سے ہر ایک کیلئے دل میں یہ خواہش پیدا کریں کہ وہ شادکام رہیں اور غمزدہ نہ ہوں، کیونکہ ہر ایک، آخرِ کار، یہی چاہتا ہے۔ آپ ہی کی طرح، ہر ایک شادکام رہنا چاہتا ہے اور کوئی غمزدہ ہونا نہیں چاہتا۔ اس معاملہ میں ہم سب مساوی ہیں۔ مزید، ہر ایک کو یکساں حق ہے کہ وہ شادکام رہے اور غمزدہ نہ ہو۔ جیسے خوراک کے محدود ذخیرہ کی صورت میں، ہر شخص مساویانہ کھانا چاہتا ہے اور اسکی ضرورت بھی ہے۔ آپ نہ خود بھوکے رہنا چاہتے ہیں، نہ کوئی اور۔ اپنے اور دوسروں کی مساوات پر مبنی محبت اور رحمدلی کے ان جذبات کے ساتھ ذمہ داری اٹھائیں اور پھر کوشش کریں کہ ہر ایک کو مسرت سے ہمکنار کریں اور پژمردگی سے محفوظ رکھیں۔ یعنی ان مشکل حالات میں سارے گروہ کی بھلائی کی فکر کریں اور جتنی مدد کرسکتے ہیں کریں، ایسی ہی جیسی آپ موجودہ زندگی میں خود اپنے ماتا یا پتا کے لئے کرتے۔
بدھ دھرم کے پیشوا نے جماعت کے دوسرے آدمیوں کو یہ بھی نصیحت کی ہوگی کہ "دو اور لو" کی روش اختیار کرتے ہوئے وہ دوسروں کی مدد کیلئے ہمت و جرأت پیدا کریں۔ ہر دن کئی بار اس نے ان سے کہا ہوگا کہ وہ مراقبہ میں پرسکوت بیٹھیں، پھر اپنی سانس پر توجہ مرکوز اور محبت و درد مندی کا اقرار بار بار کرتے ہوئے مزید تسکین پیدا کریں۔ دوسروں کے لئے ایک گہری پیار بھری خواہش کے ساتھ کہ وہ اپنے غموں سے آزاد ہوجائیں، تصور کیجئے کہ ہر کس کا خوف اور پریشانی ان سے، کالی روشنی کی طرح، چھوٹ کر آپ کے اندر ناک کے ذریعہ داخل ہورہی ہے جب آپ کئی بار دھیرے دھیرے سانس لے رہے ہوں۔ تصور کیجئے کہ وہ آپ کے دل میں اتر رہی ہے اور وہاں آپ کے اپنے ذہن کے سکون و صفائی میں تحلیل ہورہی ہے۔ اس حالتِ سکوت میں کچھ لمحوں کے لئے دم لیجئے۔
تب، اپنے پچھلے ماتا پتا کو ذہنی الجھاؤ سے نجات دلانے پر قدرتی طور پر پیدا ہونے والی خاموش مسرت کے ساتھ، تصور کیجئے کہ مسرت کا یہ خاموش احساس، گرمجوشی اور پیار، ایک سفید روشنی کی شکل میں آپ کی ناک کے ذریعہ، جب آپ آہستہ آہستہ سانس چھوڑ رہے ہوں، آپ کے دل میں اتر رہا ہے۔ پیار اور مسرت کی یہ سفید روشنی، ہر ایک میں داخل ہوتی ہے، ان کے جسموں کو بھردیتی ہے، اور تصور کیجئے کہ ان سب کو سکونِ قلب اور مسرت بھرا مثبت اندازِ نظر ملتا ہے۔ یہ سب کرتے ہوئے، اگر آپ محبت کے اس منتر کا جاپ شروع کردیں "اوم منی پدمے ہوم"، تو اس سے آپ کو اپنے ذہن کو مطمئن اور مرتکز رکھنے، اور محبت کا شعور قائم رکھنے میں مدد ملے گی۔
اگرچہ اس طرح مراقبہ کرنے سے دوسروں پر کوئی راست اثر نہ ہوتا ہو، تاہم اس سے آپ کو حالات سے نمٹنے کے لئے تقویت، ہمت، اور اطمینانِ قلب حاصل ہوگا، اور خود آپ کو قدرتی طور پر سکونِ قلب اور مسرور و مثبت اندازِ فکر بھی ملے گا۔ اس مشق کا ایک بالواسطہ اثر دوسروں پر بھی پڑے گا، کیونکہ اپنے مراقبہ کی وجہ سے جومراسم آپ ان سے رکھیں گے وہ ایک اچھی مثال قائم کریں گے اور انہیں بھی حوصلہ ملے گا۔
اسلام پر مبنی طرائقِ کار
مسلم روحانی مُرشِد نے دوسرے مسلم ہمسفروں سے گفتگو کی ہوگی۔ اس نے سمجھایا ہوگا کہ یہ رضائے الٰہی تھی کہ ہم سب یہاں برف میں پھنس جائیں۔ ہم بے بس ہیں کہ کچھ کرپائیں؛ ہم جئیں یا سب مرجائیں، یہ سب خدا کے ہاتھ ہے۔ لیکن یاد رکھئے، خدا اپنی ذات میں بڑا رحیم ہے خصوصاً ان پر رحم کرتا ہے جو اپنی خطاؤں پر توبہ کرتے ہیں۔ تو اگر آپ خدا پر ایمان کھوبیٹھے ہوں اور اس پر شک کرنے لگے ہوں، تو توبہ کیجئے اور خدا سے مغفرت کی دعا کیجئے۔ خدا کے انصاف پر پکا یقین ہو تو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔
اس نے مذہب اسلام کے تین پہلو یاد دلائے ہونگے: خدا اور اس کی رضا کی اطاعت، خدا کی مخلوق ہونے پرخاکساری کے ساتھ ایمان، اور ساری مخلوقات کے ساتھ حسنِ عمل۔ اس نے ان کو یہ یاد دلا کر حوصلہ بڑھایا ہوگا کہ اگر آپ رضائے الٰہی پر ایمان میں پکے ہیں تو آپ کو اطمینانِ کامل ہے۔ کوئی شک اور پریشانی نہیں۔
اس نے مزید کہا ہوگا کہ خدا نے آپ کے دلوں میں اپنی روح ڈال کر آپ سب کو پیدا کیا ہے، ازلی پاکیزگی کی حالت میں، اور ہر شخص کو اچھی صفات عطا کی ہیں جیسے پیار و محبت۔ ہمارے لئے خدا کی محبت، اس کا مخلوقات علیا کے لئے جذبہ قربت ہے۔ چنانچہ آپ کا خدا کو اپنی محبت لوٹانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کی پرستش کریں، اس کی مخلوقات کے ساتھ بہترین سلوک کرکے، خصوصاً اپنے سارے ہمسفروں سے نرم خو اور مددگار ہوکر۔ قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ خدا ان سے محبت کرتا ہے جو دوسروں سے حسنِ سلوک کریں، جو اپنے کو پاکیزہ رکھیں، جو شریعت اور فرائض کے مطابق صحیح عمل کریں، جیسے نمازِ پنجگانہ، اور جو عادل و منصف ہوں۔
یاد رکھئے، جب آپ دوسروں کے لئے پرخلوص محبت کا جذبہ رکھیں، تو یہ محبت محض ان افراد کے لئے نہیں بلکہ یہ اس خدا کیلئے ہے جس نے ان افراد کے دلوں میں فضیلت اور حسنِ اخلاق پیدا کئے ہیں۔ تو آپ اپنے خوف، شبہات، اور خودغرضانہ خیالات کے خلاف جہاد کیجئے۔ جہاد اکبر، بالآخر، قلبِ منتشر کے منفی احکامات کے خلاف ہے جن کی وجہ سے آپ خدا کو بھلابیٹھتے ہیں اور جو تخریبی وساوس اور عمل پر اکساتا ہے۔
عیسائیت پر مبنی طرائقِ کار
اگلی بات، عیسائی دینی پیشوا نے عیسائی مسافروں کو مخاطب کیا ہوگا۔ اس نے انہیں یہ یاد دلایا ہوگا کہ خداوند، ہمارے باپ، نے ہم سب کو اپنی محبت میں پیدا کیا۔ جتنا ہم اس محبت کو دھیان میں رکھیں گے، اتنا ہی ہم اپنے کو اس سے قریب پائیں گے۔ خدا سے قربت کو محسوس کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان اخلاقیات اور اقدار کی پیروی کی جائے جن کی بنیاد وہ محبت ہے جس میں تمہیں پیدا کیا گیا ہے۔ خداوند نے تم سب کو اپنی مثال پر پیدا کیا ہے، تم میں اپنی محبت کی ایک چنگاری رکھ کر۔اس محبت کو ظاہر کرنے کا تم سب میں ظرف ہے۔
حضرت عیسیٰ پر غور کرو، جس نے اپنے آرام یا تحفظ کی پرواہ کئے بغیر، ہمارے لئے صعوبتیں اٹھائیں، صلیب پر اپنی جان دی، پھر ہمیں اپنے گناہوں سے نجات دینے کیلئے مر کر جی اٹھے۔ اگر تم عیسیٰ پر ایمان رکھتے ہو، تو ان کی بے لوث محبت میں ان کی مثال کی پیروی کرو جو انہوں نے مریضوں، مسکینوں اور حاجتمندوں کی خدمت کی۔ خداوند نے ان سب کو بھی پیدا کیا ہے اور انہیں زندگی دینے کا کوئی مقصد بھی ہوگا۔ لہٰذا تمہیں ان سب کا احترام کرنا چاہئے، خصوصاً حاجتمندوں کا جیسے وہ خداوند کی اولاد ہوں۔ مزید، خداوند نے اپنے پر ایمان کے امتحان کیلئے ہمیں برف میں دھنسنے کی مصیبت میں ڈالا ہے۔ کشتی میں بہتیرے ایسے ہونگے جن کے دل خوف اور وحشت سے لرز رہے ہونگے۔ اپنے ایمان کو تازہ کرو، خداوند کے حاجتمند بچوں کی خدمت کرکے، جیسے عیسیٰ نے کی ہوتی، محبت اور شفقت کے ساتھ ۔
کنفیوشِیَن اصولوں پر مبنی طرائقِ کار
کنفیوشین پیشوا نے اپنے پیرو مسافروں کو مخاطب کیا ہوگا۔ اس نے ان کو ڈھارس بھی بندھائی ہوگی کہ پریشان نہ ہوں۔ اس نے یہ بھی کہا ہوگا کہ آپ کو 'یی' (义) کے مطابق عمل کرنا ہو گا، سب کے ساتھ انصاف؛ اس نے یہ بھی کہا ہوگا، کہ 'لی' (礼) کے مطابق، جو مشکل اوقات میں مناسب و موزوں طریقہ ہے۔ آپ زندہ بچیں یا موت سے ہمکنار ہوں، وہ 'مینگ ' (命) یعنی قسمت کا نتیجہ ہوگا، لیکن جب تک آپ کا عمل صحیح ہو، آپ کو افسوس نہیں ہوگا۔ مناسب بات تو یہ ہے کہ ناگہانی حالات میں آپ کشتی کے سارے سرکاری قواعد پر عمل کریں۔ 'ژینگ مینگ' (正名) تصحیحِ اسماء کے اصولوں کے مطابق، اگر کپتان وہ عمل کرے جو ایک کپتان کو کرنا چاہئے، اور مسافر آپس میں وہ عمل کریں جو مسافروں کو آپس میں کرنے چاہئیں، تو آپ سب میں وہ ہم آہنگی ہوگی جو ان حالات کا تقاضا ہے۔
آپ سب میں 'رین' (仁)، حسنِ عمل کا اندرونی ظرف، ہے یعنی وہ جو دوسروں کے تئیں صحیح ہے۔ 'رین' منبع ہے ساری فیض رساں خصوصیات کا، جیسے محبت، حکمت، خلوص اور دوسروں کے تئیں انصاف۔ آپ کو بھلائی کے اس اندرونی ظرف کی آبیاری کرنی چاہئے، کیونکہ اس کے بغیر آپ تکلیفوں کو سہارنے کے قابل نہ ہونگے، اور نہ کارِ صحیح کرپائیں گے۔
اس اندرونی ظرف کے بارے میں جب کنفیوشس سے پوچھا گیا تو اس نے کہا "جب پہلے پہل مشکلات ہوں اور آپ ان کا مقابلہ کریں تو اسے 'رین' کہتے ہیں"۔ دوسرے لفظوں میں، جیسی مشکل میں اب ہیں، ویسی کسی مشکل صورتحال سے اگر دوچار ہوں تو ایسی صورتحال میں آپ اس سے مناسب انداز میں نمٹنے کی صلاحیت رکھینگے، ہر ایک سے انصاف کے ساتھ ۔ دوسرے انداز میں اسے سمجھنا یوں ہے کہ " جب مشکلات کے گھیرے میں آپ سب سے آگے ہوں، اور فائدہ اٹھانے میں سب سے پیچھے، تو اسے ren کہتے ہیں"۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مشکل حالات میں آپ جو کرتے ہیں وہ محض اس لئے کہ وہ صحیح ہے، اس فکر کے بغیر کہ آپ کی تعریف ہو یا بدلہ میں اس سے کوئی فائدہ اٹھائیں۔
اس اندرونی ظرف کی آبیاری کرنا آپ سیکھ سکتے ہیں، تاریخ کی ان بلند شخصیات کی مثالوں کے مطلعہ سے جنہوں نے سماجی بربادی کا مقابلہ کرنے میں وہی کیا جو اخلاقی اعتبار سے درست تھا۔ کنفیوشس نے کہا "جس شخص نے اپنے اندرونی ظرف کی آبیاری خیرخواہی کے لئے کی، اپنے آپ کو راستباز رکھنے کے لئے، وہ دوسروں کو بھی استوار رکھتا ہے، اور جب وہ اپنی کامیابی کی خواہش رکھتا ہے، تو وہ دوسروں کو بھی کامیاب کرتا ہے۔" کنفیوشس نے یہ بھی کہا "خودغرضی پر قابو پانے اور راہِ راست پر چلنے میں ہی اچھائی کا اندرونی ظرف ہے۔ اگر آپ ایک دن کے لئے ہی خودغرضی پر قابو پاسکیں اور وہ کریں جو صحیح ہے، تو ہر فردِ عالَم 'رین' کی طرف لوٹ آئے گا"۔ جب مزید پوچھا گیا کہ 'رین' کیا ہے، تو کنفیوشس نے جواب دیا کہ یہ عوام سے محبت ہے۔ اس نے سمجھایا کہ جو 'رین' رکھتے ہیں وہ جری اور باہمت ہوتے ہیں۔ تو اپنے اندرونی ظرف کی آبیاری کرتے رہو اور عمل صحیح کرتے رہو، جیسے راستباز مسافروں کو کرنا چاہئے، کپتان کی ہدایت کے مطابق قواعد کی پابندی کرتے رہو، پھر چاہے کچھ ہوجائے، تمہیں ایسی کوئی بات پیش نہیں آئے گی جس پر شرمندہ ہونا پڑے۔
بنیادی انسانی اخلاقی اقدار پر مبنی طرائقِ کار
سیکولر رہنما نے پھر سارے مسافروں کو مخطب کیا ہوگا۔ اس نے ان سے کہا ہوگا کہ اگرچہ تم میں بدھ مت، اسلام، عیسائیت اور کنفیوشس کے پیرو موجود ہیں، تاہم بہت سے ایسے بھی ہیں جو کسی منظم دین یا فلسفہ کی پیروی نہیں کرتے۔ ہم سب کو ضرورت ہے کہ اس کڑی آزمائش سے سلامت نکلنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقاً پیش آئیں۔ ان میں ایمان نہ رکھنے والے بھی شامل ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑا کرنے لگیں، تو ہم کبھی بچ نہ پائیں گے۔ تم میں سے جو کسی دین یا فلسفیانہ نظام کے پیرو ہیں وہ اپنے نظام کی تعلیمات پر ایمان و ایقان رکھتے ہیں جن سے انہیں اپنی اخلاقی روش کیلئے رہنمائی ملتی ہے، اسمیں کوئی مضائقہ نہیں۔ اگرچہ کسی اخلاقی برتاؤ کیلئے تمہارے اسباب مختلف ہونگے، لیکن تمہارا اپنا اذعانِ کلّی، دوسروں سے محبتانہ طور پر پیش آنے میں تمہیں اندرونی ہمت دیتا ہے۔ یہ سارے مذاہب اور فلسفیانہ نظام محبت، شفقت، درگذر، قناعت اوراپنے انشارانگیز رویہ میں کمی کرنا سکھاتے ہیں۔ یہ اقدار ہیں، تاہم، جن کو کسی باقاعدہ نظام میں ایمان و یقین نہیں ہے، اُنہیں بھی اِن کو سودمند سمجھ کر اختیار کرنا تسلیم ہے۔ ان کو "بنیادی انسانی اخلاقی اقدار" کہا جاتا ہے۔
اگر ہم اِن بنیادی انسانی اقدار کے طرز پر سوچتے ہیں، تو ہم سب اپنی اخلاقی روش کی ایک مشترک بنیاد رکھتے ہیں، اور یہ ہمارے سارے گروہ کی نجات کی کلید ہے۔ ہمیں امن، ہم آہنگی اور باہمی تعاون قائم رکھنا چاہئے، لیکن خارجی امن، اندرونی سکون پر منحصر ہے۔ دوسرے الفاظ میں خارجی امن اس بات پر منحصر ہے کہ کہ ہم میں سے ہر ایک اپنا من ٹھنڈا اور پرسکون رکھے۔ ذہنی سکون دوسروں سے تعلقات پر مبنی ہے۔ اگر آپ دوسروں کے لئے غیردوستانہ خیالات کو جگہ دیں، اور ہمیشہ اپنے ہی متعلق اپنی ہی کامیابی کے بارے میں سوچتے رہیں، تو جب آپ دوسروں سے میل جول قائم کریں گے تو آپ کو یہ خوف ہوتا رہے گا کہ دوسرے آپ کو کسی طرح نقصان پہنچائیں گے اور کامیاب نہ ہونے دینگے۔ آپ کو ان پر بھروسہ نہیں ہوتا اور آپ خوف و شک میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ بھی جواباً اس کو محسوس کرلیں گے، اور نتیجتاً آپ پر بھروسہ نہیں کرینگے۔ یہ چیز آپ کے اور دوسروں کے درمیان فاصلہ پیدا کرتی ہے؛ اور کھلے تبادلہ خیال میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ یہ فاصلہ اور رکاوٹ آپ کو غیر محفوظ اور تنہا محسوس کراتی ہے۔غیر محفوظ سمجھتے ہوئے، آپ چیلنج سے نبرد آزما ہونے اور مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے اپنی خوداعتمادی کھو بیٹھتے ہیں۔ آپ گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ دوسری طرف، اپنی جماعت کے دوسرے لوگوں سے اپنے کو زیادہ قریب محسوس کریں گے، آپ کو یہ زیادہ محسوس ہوگا کہ آپ ایک کمیونٹی کا جز ہیں۔ آپ کو محسوس ہوگا کہ آپ انہی سے متعلق ہیں اور یہ آپ کو زیادہ محفوظ تصور کرائے گا۔ جتنا زیادہ آپ محفوظ محسوس کرینگے، اتنا ہی قدرتاً آپ میں خود اعتمادی پیدا ہوگی۔
ہم انسان سماجی حیوان ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے، جب ایک سماجی حیوان مثلاً بھیڑ اپنے گلّے سے جدا ہوجاتی ہے تو گھبرا جاتی ہے، لیکن جب وہ دوبارہ اپنے گلّے میں آ شامل ہوتی ہے تو پھر سے مطمئن ہوجاتی ہے۔اسی طرح جب ہم بھی اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں تو گھبراجاتے ہیں۔ اکثر، تاہم، اگر آپ دوسروں کے ساتھ محفل میں شریک ہوں بھی لیکن آپ کا من شک و خوف سے بھرا ہو تو ویسی محفل میں آپ کا دل نہیں لگتا۔ تو براہِ کرم سمجھ لیں کہ من کا چین اور آشا قائم رکھنے کی اہلیت، برف میں دھنس جانے کی اِس دُرگھٹنا میں، اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کا رویہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیسا ہے۔ جب آپ ہر دوسرے سے قربت محسوس کریں گے، تو اُس احساس سے آپ کو اندرونی طاقت اور خود اعتمادی ملے گی۔ پھر کبھی آپ کمزور اور متشکی محسوس نہیں کرینگے۔ آپ کا خوداعتماد اور احساس تحفظ آپ کو ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کے قابل بناتا ہے، اور بھروسہ کھرا دوستانہ لاتا ہے۔
کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر ان کے پاس پیسہ اور طاقت ہو تو ان کے کئی دوست ہونگے۔ لیکن ایسے دوست محض آپ کے پیسہ اور طاقت کے دوست ہونگے۔ جب آپ کا پیسہ اور طاقت چلے جائینگے، تو وہ بھی ہوا ہوجائینگے۔ سچے دوست ایسے نہیں ہوتے۔ اصلی دوستی جو آپ کو خوشی اور فرحت بخشتی ہے وہ باہمی بھروسہ کے بل پر بنتی ہے۔ جب آپ ایک دوسرے کے ساتھ صاف گو اور پُرخلوص ہوں، تو آپ نہ صرف زیادہ محفوظ اور پراعتماد محسوس کرتے ہیں، بلکہ آپ کا من بھی شانت ہوتا ہے۔ اس حال میں، آپ ایک دوسرے کو تھام سکتے ہیں اور ان مشکلات سے نبردآزما ہوسکتے ہیں جن سے اب اجتماعی طور پر دوچار ہیں۔ آخر کار، اس میں مَیں ہی نہیں اور آپ ہی نہیں بلکہ ہم سب ہی برف میں پھنسے پڑے ہیں۔
جب ہم اس ناگوار صورتحال سے نکل آئیں، اگر آپ غیروں کے ساتھ اسی مثبت کھلی روش پر قائم رہیں توآپ وہی با اعتماد دوستیاں جاری رکھ سکیں گے۔ زندگی میں مشکلات تو ہمیشہ رہیں گی۔ یہ سوچنا سادہ لوحی ہوگی کہ آپ آئندہ پھر کسی اور مسئلہ سے دوچار نہیں ہونگے۔ لیکن صاف گوئی اور خلوص کے ساتھ ساتھ جو خوداعتمادی اور بھروسہ پیدا ہوتا ہے، ان کی مدد سے آپ غیروں کے ساتھ تعاون کیلئے بہتر تیار ہونگے، اور اسی طرح دوسرے بھی آپ کے ساتھ، کہ ہر اس حالت کا مقابلہ کریں جو خواہ کچھ ہو – اچھی یا بری۔
اگر آپ پوچھیں کہ پابند اخلاق ہونے کی ضرورت کیا ہے، تو یہ محض اس لئے کہ ہم انسان ہیں۔ ہمیں با اخلاق ہونا ضروری ہے، کیونکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اور زندہ رہنے کیلئے ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر آپ دوسروں کی خوشی اور بھلائی سے لاتعلق ہوں، بلکہ ان کیلئے مصیبت کھڑی کریں، تو بالآخر اپنے کو ان سے دور کرکے اور ان کی ہمدردی سے محروم کرکے، خود ہی مصیبت میں گرفتار ہونگے۔
غیروں کیلئے دو طرح کی ہمدردیاں ہوتی ہیں۔ ایک تو جذبات پر مبنی ذاتی مطلب کی ہوتی ہے کہ اوروں سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جب تک وہ آپ سے اچھے ہیں یا عمومی خوشگوار برتاؤ رکھتے ہیں، تو آپ انہیں پسند کرتے ہیں اور ان کی خاطرداری کرتے ہیں، انہیں کسی مصیبت میں رنجیدہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ لیکن جونہی ان کا برتاؤ بگڑنے لگے اور یا تو نقصان پہنچائیں یا صرف آپ سے اختلاف ہی کریں تو آپ کا رویہ ان کے تئیں بدلنے لگتا ہے۔ آپ انہیں پسند کرنا چھوڑدیتے ہیں، اور پرواہ ہی نہیں کرتے کہ وہ خوش ہیں یا رنجیدہ۔ آپ انہیں ان کے رویہ کی وجہ سے ٹھکرادیتے ہیں۔ یہ جذبات پر مبنی محبت اور ہمدردی ہے، اور اصلی دوستی کی کبھی پائندہ بنیاد نہیں ہوسکتی۔
دوسری طرح کی، غیروں کیلئے ہمدردی اس برتاؤ اور رویہ پر مبنی نہیں ہوتی۔ اس کا انحصار صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ محض آپ جیسے انسان ہیں۔ آپ خود کو خوش رکھنا چاہتے ہیں، خواہ آپ کا عمل کچھ ہو یا آپ کے من کی کیفیت کیا ہو۔ اور یہ صرف اس بنیاد پر ہے کہ آپ کو خوشی چاہئے اور آپ کو اپنی ہی پرواہ ہے؛ آپ اپنی بھلائی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو سبھوں پر صادق آتی ہے، جنمیں وہ بھی شامل ہیں جن کو آپ ان کی روش یا خیالات کی وجہ سے پسند نہیں کرتے۔ با ایں ہمہ، وہ بھی خوش رہنا چاہتے ہیں؛ وہ بھی ہمدردی و محبت میں پھلتے ہیں۔ اس خوش رہنے کی خواہش میں ہم سب مساوی ہیں۔ ہر ایک خوش رہنا چاہتا ہے۔ خوش رہنے کی اس خواہش میں نہ صرف ہم مساوی ہیں، بلکہ ایک خوشگوار زندگی کا ہم سب کو مساوی حق ہے؛ اور ایک خوشگوار زندگی اس وقت ملتی ہے جب ہمارے اندر غیروں کےلئے ایک پرخلوص ہمدردی ہو اور پرواہ کرتے ہوں کہ وہ بھی خوش رہیں۔ یہ ہرکس کے ساتھ ایک بےغرض دوستی پر مبنی ہے، بھلے آپ کسی کے ساتھ ہوں۔
صرف انسان ہی اس قابل ہیں کہ کوئی اُن سے ناشائستہ حرکت کرے تو وہ ان سے بدلہ لیں۔ صرف وہی اس قابل ہیں کہ وہ ان کی بھلائی کی پرواہ کریں۔ یہ قابلیت یا تو آپ کی انسانی فراست سے آتی ہے یا کسی مذہب یا فلسفیانہ نظامِ عقائد پر ایمان سے۔ جانوروں میں یہ دونوں نہیں ہوتیں – وہ انسانی فراست اور ایمان سے محروم ہیں۔ جب کوئی جانور دوسرے کو دھمکاتا یا گزند پہنچاتا ہے تو بس وہ بدلہ میں اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ بطور انسان، گو ہم سب کسی دھرم یا فلسفیانہ نظام کو ماننے والے نہیں ہوتے، تاہم انسانی فراست تو ہوتی ہے۔ ہمیں وہ فراست استعمال کرنے کی ضرورت ہے یہ سمجھنے کیلئے کہ کیوں غیروں کی خوشی اور بھلائی میں ہماری اپنی خوشی بھی پنہاں ہے۔
چاہے آپ کسی خالق پر ایمان رکھتے ہوں، یا پچھلے جنموں پر، یا اپنے پُرکھوں کے گہرے زیرِ اثر ہوں، کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ وہ ایک ماں کے پیٹ سے آئے ہیں۔ ماں کی محبت اور شفقت کے بغیر، یا کسی اورشخص کے جس نے ماں ہی کی طرح بے بس طفولیت میں آپ کا خیال رکھا، آپ زندہ بچ نہیں سکتے تھے۔ سائنسدانوں نے بتایا ہے کہ وہ لوگ جنہیں بچپن میں بیحد محبت و شفقت ملی، وہ ساری زندگی اپنے کو زیادہ محفوظ، بااعتماد اور خوش تر پاتے ہیں؛ جبکہ وہ جو بچپن میں غفلت یا زیادتی کا شکار ہوتے ہیں وہ ہمیشہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں چاہے جس حال میں ہوں۔ وہ ہمیشہ گھبرائے سے رہتے ہیں۔ وہ اپنی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں کہ ان کی زندگی میں کچھ کمی سی ہے، اور اکثر ناخوش رہتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بتایا ہے کہ ماں کا محبت بھرا لمس بچے کی اچھی ذہنی نشو و نما کیلئے بیحد ضروری ہے۔ مزید، ڈاکٹروں نے ثابت کیا ہے کہ کیسے مستقل غصہ، خوف اور نفرت دفاعی نظام کو کھاجاتے ہیں۔
ہر آدمی ایک صحتمند جسم رکھنے کا دھیان رکھتا ہے، تو اسے زیادہ توجہ دینی چاہئے کہ ایک صحتمند جسم قائم رکھنے کیلئے من کو بھی باصحت و پُرسکون رکھے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کس طرح من کو باصحت اور پُرسکون بنایا جائے۔ اگر آپ نے واحد اولاد کی طرح پرورش پائی ہے، بہت زیادہ محبت و شفقت کے ساتھ، تب بھی اگر آپ کو مسابقتی سماج میں کامیابی کے لئے مدرسہ یا ملازمت میں بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہو، تو آپ غیرمحفوظ اور کھچاؤ تو ضرور ہی محسوس کرینگے۔ لیکن اگر آپ محسوس کریں کہ اپنی کامیابی کیلئے دوسروں کو نیچا دکھانا ہوگا تو آپ کا من بے اعتمادی، خوف اور حسد سے بھرا ہوگا، اور نتیجتاً آپ کا من خلجان اور تناؤ کا شکار رہے گا۔ یہ تکلیف دہ من کی کیفیت نہ صرف آپ کی کامیابی کے امکانات کو دھکا پہنچائے گی بلکہ آپ کی صحت کو بھی متاثر کرے گی۔
دوسری طرف، اپنی بہترین کوششیں کرتے ہوئے اگر آپ دوسروں کی بھلائی کا بھی خیال رکھیں، تو آپ کو پتہ چلے گا کہ جیسے آپ ہمت افزائی، مدد، اور تعاون کے خواہاں ہیں اِسی طرح وہ بھی آپ سے متوقع ہیں۔ اگر آپ ان کیلئے پرخلوص لگن پیدا کریں – یہ خواہش کہ وہ ناکام نہ ہوں بلکہ کامیاب ہوں – تو اس سے آپ کو ایک اندرونی طاقت اور خوداعتمادی ملے گی کہ اپنی پوری کاوشیں سارے دوسروں کی کامیابی پر لگیں۔ دوسروں پر شفقت اور ان کا دھیان رکھنا، طاقت کی ایک علامت ہے، کمزوری کی نہیں۔ دراصل، یہ طاقت کا منبع اور من کا چین ہے۔
اسی تجزیہ کا اطلاق ہماری موجودہ صورتحال (برف میں پھنس جانے) پر بھی ہوتا ہے۔ اگر آپ ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کریں، حجت کریں، اور محدود وسائل پر مقابلہ آزمائی کریں تو ہم سب مصیبت میں مبتلا رہیں گے۔ ہم سب کمزور پڑجائیںگے۔ اگر آپ ایک دوسرے کیلئے پُرخلوص ہمدردی رکھیں اور کوئی سراسیمہ ہوجائے تو اسے ڈھارس دیں، تو ایک ماں کی طرح جو روتے ہوئے بچہ کو تھپکتی ہے، ماں اور بچہ دونوں بہتر محسوس کریں گے۔ ٹھنڈے دماغ اور پیار بھرے دوستوں کے ساتھ جڑے ہونے کے احساس سے ہم سب کو زندہ رہنے کی تقویت ملے گی۔
پس اپنی انسانی فراست کا استعمال کیجئے۔ اگر کوئی آپ کو پریشان کرنے لگے اور آپ کو ایسا غصہ آنے لگے کہ آپ اس پر چلانے لگیں، تو یاد رکھئے کہ ایسا کرنے سے بات بگڑ جائے گی۔ وہ آپ کے من کو اتھل پتھل کردے گی، اور ساری جماعت کے موڈ کو متاثر کرے گی۔ ہر ایک خوفزدہ اور پریشان ہے، اور اگر کوئی ناشائستہ حرکت کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غیرمحفوظ اور خوفزدہ ہے۔ مہربانی کرکے ایسے لوگوں کو ہمدردی اور سمجھ دکھا کر زیادہ بےخطر محسوس کرائیے کہ وہ آس نہ کھو بیٹھیں۔
ایک بہتر مستقبل کی آس سے مسرت حاصل ہوتی ہے، اور ہم مذاق حبیب دوستوں کی پشت پناہی سے امید قائم ہوتی ہے۔ مختصراً، ان بنیادی مشترک انسانی اقدار کی وجہ سے ہم سب ایک اخلاقی انداز میں عمل کرپائیں گے۔ اگر آپ کا دینی ایمان اور فلسفیانہ عقیدہ اِن اخلاقی اقدار کو تقویت دیتا ہے تو واقعی بہت خوب ہے۔ اگر آپ ایسے کسی عقیدہ سے منسلک نہیں تو اپنی انسانی فراست پر اور ان بنیادی انسانی اخلاقی اقدار پر ہی مکمل بھروسہ کیجئے۔ آپس کی مذہبی تال میل کے ساتھ اور ہر ایک کے اِن بنیادی انسانی اقدار کو بڑھاوا دینے سے ہم سب اس کٹھن وقت سے مشترک تجربہ کی بنا پر بہتر انسان بن کر نکل آئیں گے۔
خلاصہ
اس تجزیہ سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مذہبی، فلسفیانہ اور سیکولر نظریات اس نتیجہ تک لیجاتے ہیں کہ سماج میں ایک مشکل صورتحال کا مقابلہ کرنے کیلئے بقا کی کلید صرف اخلاقی ضبطِ نفس ہے۔ اس کا مطلب خودغرضی، خوف و خلجان پر قابو پانا ہے اور محبت، شفقت، ہمدردی اور احترام کی بنیاد پر باہمی تعاون ہے۔ ان پانچ نقاطِ نظر میں سے ہر ایک – تبتی بدھ دھرم، مسلم، عیسائی، کنفیوشِیَن، اور غیرمذہبی – ان اچھی خصوصیات کی نشو و نما کیلئے اپنا اپنا الگ طریقہ کار ہے:
- تبتی بدھ دھرم کا نظریہ یہ ہے کہ مشکل حالات کے پیدا ہونے کی بنیاد کئی وجوہات اور شرائط ہیں۔ کوئی اکیلا انسان یا عنصر نتیجہ بدل نہیں سکتا، گو کہ ہر ایک کچھ مثبت مدد دے سکتا ہے جس کا اثر نتیجہ پر پڑسکتا ہے۔ وہ سب کو مساوی سمجھتے ہیں، پچھلے جنموں میں ہمارے ماتا پتا ہونے میں اور مسرت یا غمزدہ نہ ہونے کی خواہش رکھنے میں۔
- مسلم اپنی مشکلات کا سبب رضائے الٰہی، اور مسائل کا حل خدا کے ہاتھ سمجھتے ہیں۔ وہ رضائے الٰہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کردیتے ہیں اور اس کی عبادت کا ذریعہ اس کے تمام بندوں کی خدمت میں مانتے ہیں۔
- عیسائی مانتے ہیں کہ مشکل حالات ہمیں آزمانے کیلئے خداوند کی طرف سے آتے ہیں، اور حضرت عیسیٰ کی پیروی میں غریبوں اور ضرورتمندوں کی خدمت کرتے ہیں۔
- جو کنفیوشس کے اصولوں پر چلنے والے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ مشکلات وقتاً فوقتاً لازمی آتی ہیں۔ یہ ہماری قسمت ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ مشکلات سے نمٹنے کیلئے، وہ کپتان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ضروری قواعد کی پابندی کرتے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ منصفانہ، شائستہ، اور محبت کا سلوک کرنے کیلئے نیکی و فیض رسانی کی اپنی اندرونی حس کی آبیاری کرتے ہیں۔
- اور وہ لوگ، جو محض بنیادی انسانی اخلاقی اقدار پر چلتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی مشکلات پیش آئیں، ہر آدمی محبت اور مشفقانہ برتاؤ پسند کرتا ہے۔ سماجی حیوان کی طرح، ہمیں زندہ رہنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ باہمی تعاون کرنا چاہئے۔ اور اگر ایک دوسرے کی فکر کریں تو مشکلات پر قابو پانے کیلئے ہمیں طاقت اور خوداعتمادی ملتی ہے۔
اس طرح ان پانچ نقاطِ نظر میں سے ہرایک اپنا الگ اخلاقی نظام تو رکھتا ہے؛ پھر بھی جو کوئی صدقِ دل سے ان میں سے کسی ایک نظام کی تعلیم یا نصیحت پر عمل کرتا ہے وہ اُسی منزل پر پہنچتا ہے۔ وہ غیض و غضب میں آئے بغیر صورتحال کو تسلیم کرنے کے قابل ہونگے۔ اگر وہ کسی مسافر کو ایسا عمل کرتے دیکھیں، جیسے خوراک کی ذخیرہ اندوزی، جس سے ساری جماعت کی بھلائی خطرہ میں پڑتی نظر آئے، اور جس کے تدارک کیلئے تادیبی کاروائی کرنی پڑے، تو یہ سارے نظریات ان کی مدد کرینگے کہ وہ غصہ کی حالت میں نہیں بلکہ سارے پریشان حال مسافروں کی بہبود کے خیال سے تدابیر اختیار کریں۔ وہ ہر سوار کی بھلائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے سکونِ قلب قائم رکھینگے اور مثبت مدد کرینگے۔ نتیجتاً ساری آبادی اس کٹھنائی سے نہ صرف بچ نکل آئے گی، بلکہ سارے افراد ایک دوسرے سے پہلے کی بہ نسبت قریب تر ہوجائینگے، ایک دوسرے کی بھلائی کی ذمہ داری اٹھانے کے مشترک تجربہ کی وجہ سے۔
حاصلِ کلام
یہ سمجھنے کیلئے کہ ایک کثیرتہذیبی معاشرہ کیسے ایک صحتمند انداز میں ان مشکلات سے بہترین طریقہ پر نمٹ سکتا ہے جو زندگی میں لازماً پیش آتی ہی رہتی ہیں، انٹارکٹیکا میں برف کے اندر پھنس جانے والی کشتی کی مثال مددگار ہے۔ اس کے حصول کیلئے لوگوں کو اپنے سماج کے سارے بڑے بڑے گروہوں کی تہذیبوں اور عقائد سے واقف ہونا سیکھنا چاہئے۔ ان عقائد سے نا واقفیت کی بنا پر خوف اور عدم اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ ٹھیک تعلیم سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ سارے مذاہب اور فلسفے ایک نظامِ اخلاق رکھتے ہیں اور ان میں جو قدرِمشترک ہے وہ بنیادی انسانی اخلاقی اقدار سے تطابق رکھتی ہے، جسے سب، بشمول غیرعقیدتمندوں کے، قبول کرسکتے ہیں۔ سب کے لئے گہری چاہت پر مبنی یہ محبت، شفقت، نرم روی کی اقدار ہیں۔
ان بنیادی انسانی اقدار کا اظہار اگر سنجیدہ ہو، مختلف عقائد کا لحاظ کئے بغیر جن کو ساتھ لیکر مختلف گروہ آتے ہیں، تو اچھے اور برے دونوں حالات میں معاشرہ ہم آہنگ ہوکر چلتا ہے۔ یہ اس لئے کہ ہر گروہ دوسرے کا احترام کرتا ہے، باہمی واقفیت کی بنا پر؛ اور ان کے ساتھ باہمی اعتماد پیدا ہوتا ہے۔جب مختلف تہذیبوں کے لوگ ایک دوسرے کا احترام اور اعتماد کرتے ہیں، تو انہیں ایک دوسرے کا خوف نہیں ہوتا۔ اس سے ایک صحتمند ہم آہنگ معاشرہ بنتا ہے، ان بنیادی اخلاقی اصولوں کی بنا پر جو ہر ایک میں مشترک ہے۔
چونکہ ایک صحتمند سماج بنتا ہے کئی عوامل سے – معاشی، ماحولیاتی، سماجی، قانونی اور تعلیمی نظاموں اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں اخلاقی اور مذہبی ہم آہنگی سے – اگر ان میں سے کوئی ایک عنصر کمزور پڑجائے تو معاشرہ پنپ نہیں سکتا۔ ہمیں انفرادی سطح پرشروع کرنا ہوگا، خصوصاً اپنے اخلاقی معاملات میں اور دوسروں کے احترام اور ان کے خیالات کی عزت میں۔ اگر ہم ایک شانت مَن اور دوسروں کے ساتھ نرم روی اختیار کریں، اور یہی اپنے خاندانوں، دوستوں، اور اپنے قریبی ماحول کی طرف بھی جاری رکھیں تو آہستہ آہستہ ہم سارے سماج کو صحتمند بنا سکیں گے۔ سارے سماج کی صحت اس بات پر مبنی ہے کہ اس کا ہر ایک فرد صحیح من اور اخلاق حِس قائم کرے۔ یہ خصوصاً ضروری ہے کثیر تہذیبی سماجوں، بلکہ ساری دنیا کے لئیے۔
دینا کے بڑے مذاہب اور فلسفے، جیسا کہ ہم تبتی بدھ دھرم، اسلام، عیسائیت اور کنفیوشس دھرم کی صورت میں دیکھ چکے ہیں، بنیادی انسانی اخلاقی اقدارکا مجموعہ رکھتے ہیں جسے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں جن کا اپنا کوئی دین یا فلسفہ نہیں ہوتا۔ ہمیں اپنی اولاد کو ان بنیادی انسانی اخلاقی اقدار کے بارے میں سکھانا چاہئے، تاکہ رفتہ رفتہ ساری دنیا سبھوں کی بھلائی کے لئے ایک بہتر جگہ بن سکے۔ شکریہ۔