ایک صحت مند سماج کا قیام

31:57

تعارف

تبتی بدھ مت کا ایک اہم ترین اصول دست نگر نمو ہے۔ دوسرے عناصر سے کسی تعلق اور انحصار کے بغیر بذات خود کوئی شے نہ تو اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے اور نہ ہی وقوع پذیرہوسکتی ہے۔ مزید برآں، ہر بات کئی وجوہات اور حالات کی بنا پروجود میں آتی ہے؛ محض ایک وجہ یا کسی وجہ کے بغیر ہی کوئی بات واقع نہیں ہوتی۔ مثلاً، اندرونی سطح پر، ایک صحتمند جسم بنتا ہے سارے اعضا اور نظام کے صحیح اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر کام کرنے سے۔ اور خارجی سطح پر، اچھی صحت منحصر ہوتی ہے دواؤں، خوراک، دوسروں کی ہمدردی، اور ماحول وغیرہ پر۔ اِسی طرح، ایک صحتمند سماج بنتا ہے، اندرونی سطح پر، اس کے سارے مشمول گروہوں کے ہم آہنگ باہمی تعاون سے۔ اور خارجی سطح پر، سماجی صحت مبنی ہوتی ہے دنیا کی عمومی صورتحال کے علاوہ معاشی، سیاسی، اور ماحولیاتی عناصر پر۔

انفرادی اور سماجی صحت کے لئے اس کے اصولِ اخلاق بھی ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر افراد بداخلاق طرزِ زندگی سے اجتناب کرنے کے لئے اخلاقی ضبطِ نفس قائم نہ رکھیں، اور متبادل طریقے اختیار نہ کریں تو وہ بیمار پڑجاتے ہیں۔ اسی طرح، اگر ایک سماج کے مختلف گروہ باہمی مشترک اخلاقی اصولوں پر برقرار نہ رہیں، تو وہ سماج بھی بیمار پڑجاتا ہے۔ ان اخلاقی اصولوں میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ خود غرضانہ روش سے پرہیز کریں، اور اس کے بجائے دوسروں کی بھلائی کے لئے بے غرض ایثار پسند اطوار اختیار کریں۔

مختلف النوع سماجوں میں، ہر مشمول گروہ اپنے اخلاقی طور طریقوں کی رہنمائی کے لئے اپنا ایک مخصوص مذہب اور فلسفہ رکھتا ہے، جبکہ سماج کے کچھ افراد کسی مذہب اور کسی مخصوص فلسفہ کی پیروی ہی نہیں کرتے۔ خود غرضانہ روش کو کم کرنے اور ایثار پسندی کی روش کو بڑھانے کے طریقے ہر گروہ کے لئے مختلف ہوسکتے ہیں، لیکن اگر مقصد ایک ہی ہو – ایک ہم آہنگ خوش باش مختلف النوع تہذیبی معاشرہ کا قیام – تو ایسا معاشرہ تب قائم ہوگا جب سارے رکن گروہ ایک دوسرے میں باہمی سمجھوتہ، عزت اور تعاون کی فضا پیدا کریں۔

اس نکتہ کی وضاحت کے لئے، فرض کریں کہ آپ اس تحقیقی کشتی کے مسافروں میں سے ایک ہیں جو دسمبر ۲۰۱۳ میں انتارکتکا کے ساحل پر برف میں اٹک گئی تھی۔ ۵۲ سائنسدان اور سیاح وہاں دس دنوں تک پھنسے رہے، جبکہ اس کشتی کا عملہ تو ان مسافروں کے چینی جہاز کے ذریعہ (جو انہیں بچانے آیا تھا) محفوظ مقام پر پہونچا دئیے جانے کے بعد بھی کئی اور دن پھنسا رہا۔ اس مصیبت کے دوران، کسی کو پتہ نہ تھا کہ وہ وہاں کتنی مدت تک پھنسے رہیں گے۔ ان معاندانہ حالات اور محدود ذخیرہ خوراک میں ان سب کے لئے زندہ بچے رہنے کی ایک ہی صورت تھی کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ اگر ہر شخص صرف اپنی ہی فکر کرتا، تو سب کی تباہی یقینی تھی۔ ان کے بچنے کی ایک ہی صورت تھی کہ، مختلف ذاتی مذہب اور تہذیبی پس منظر کے باوجود، ہر فرد بنیادی اخلاقی اصولوں پر چلے۔

فرض کریں کہ ان مسافروں میں تبتی بدھ دھرمی، مسلم، عیسائی، اور کنفیوشسٹ دینی رہنما تھے اور ایک سیکولر لیڈر بھی تھا جس کی سب عزت کرتے تھے، اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کسی منظم مذہب یا فلسفہ کی پیروی نہیں کرتے تھے۔ سوال ہے کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کیسے کرتے؟ ان سب کے سوچنے کا انداز کیا ہوتا، اور وہ دوسروں کو کیا مشورہ دیتے۔ آخر ہر ایک پریشان اور خوفزدہ تھا، اور کچھ مسافر تو غصہ میں بھی تھے کہ کیا ہوگیا اور جھگڑنے لگے تھے، اور کئی تو بجھ سے گئے تھے۔

Top