اسلام اور بدھ مت کا ایک دوسرے کے بارہ میں علم

قبل از اسلام عرصہ

شاکیہمُنی مہاتما بدھ شمال مشرقی ھندوستان میں ۵۶۶ قبلِ مسیح سے ۴۸۵ ق۔ م تک گزرے ہیں۔ انہوں نے مراقبہ اور تربیت کی ایک روحانی راہ سکھائی جو کہ ان کے زمانہ کے ہندوستانی فلسفہ کے مطابق تھی۔ پس مہاتما بدھ نے اکثر ھندوستانی فلسفیانہ مکاتبِ فکر میں پائے جانے والے بنیادی عناصر کو قبول کیا۔ اس میں نہ صرف انسانوں بلکہ اور بہت سی زندہ چیزوں کا متواتر دوسرا جنم لینا (سنسکرت میں: سمسار) شامل ہے، جس کی خصوصیت ابتلا ہے جو کہ ناآگہی اور الجھن کی بنا پر پیدا ہوتی ہے، اور یہ نظام رویّانہ علت و معلول کے تحت چلتا ہے۔ روحانی مقصد اس سمسار سے نجات (مُکش) حاصل کرنا ہے جو کہ نفس یا روح (سنسکرت میں: آتما) اور دوسری تمام تجلیوں کے کامل اور محکم فہم و ادراک حاصل کرنے کے ذریعے سے ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے طریقے بنیادی طور پر اخلاقی تربیتِ نفس، کامل ارتکاز، مطالعہ اور مراقبہ ہیں۔

مہاتما بدھ اپنے زمانے کے دوسرے ھندوستانی مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کا ادراک رکھتے تھے۔ تاہم انہیں اُن نظاموں کے سکھائے ہوے تزکیہ نفس کے طریقوں اور ان کے نفس کی ماہیت کے بارہ میں دعووں سے اختلاف تھا۔ نتیجتاً انہوں نے اس بارہ میں جو فرمایا وہ عموماً اُن دوسرے دعووں کے رد میں تھا۔ بعد کے ھندوستانی بودھی اساتذہ نے اپنے آپ کو ان دوسرے ھندوستانی مکاتبِ فکر کی فلسفیانہ ترقی سے باخبر رکھا اور وہ اکثر و پیشتر اُن کے ساتھ پُر زور بحثوں میں حصہ لیتے رہے۔

مہاتما بدھ کی زندگی کے بعد کی صدیوں میں بودھی تعلیمات برِ صغیر سے نکل کر موجودہ دور کے افغانستان، مشرقی ایران، ازبکستان، ترکمانستان اور تاجکستان تک پھیل گئیں۔ وہاں بودھی عوامی اور خانقاہی گروہ، دونوں ہی خوب پھلے اور پھولے۔ ان علاقوں میں بدھ مت کا واسطہ زرتشتیت، مثریت، نو افلاطونیت، اور بالآخر، مانویت کے اعتقادات اور روایات سے ہوا۔ بودھی اساتذہ نے ان علاقوں میں جہاں بدھ مت پھیل رہا تھا، کے مقامی مذاہب میں دلچسپی لی اور ان کے بارہ میں مطالعہ کیا۔ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ بعض اوقات بدھ مت نے کئی مقامی رسوم کو اپنا لیا، مثلاً نو افلاطونی علاقے میں سبزی خوری کو۔ کچھ دوسرے مواقع پر بدھ مت نے ھندوستانی بدھ مت کے ان حصوں پر زیادہ زور دیا جو مقامی اعتقادات کے کچھ پہلووں سے میل کھاتے تھے۔ مثال کے طور پر، بودھی ستوا مطلوب، خالص سرزمین اور امیتابھ یعنی لا متناہی روشنی کا بدھ، سب کے سب ایرانی ثقافتی علاقوں میں پائی جانے والی زرتشتیت میں متشابہ تصورات رکھتے تھے۔

تاہم، بودھی متون ان علاقوں میں پائی جانے والی اخلاقی طور پر قابلِ اعتراض رسوم پر تنقید کرنے سے نہیں گھبراتے۔ مثلاً دوسری صدی عیسوی میں کشمیر میں مرتب کی جانے والی "بڑی تفسیر" (سنسکرت میں: مہاویبھاس) کہتی ہے کہ یوناک تعلیمات محرمات سے مباشرت اور چیونٹیوں کے قتل کی اجازت دیتی ہیں۔ لفظی طور پر یوناک کا مطلب کشان سلطنت کے باختری علاقہ میں یونانی آبادکار ہیں، لیکن خاص طور پر اس سے مراد ہند سكوثيون سے ہے جو وہاں رہتے تھے اور زرتشتیت اور مثریت کے پیروکار تھے۔

خلافتِ بنو امیہ کا دور (۶۶۱ تا ۷۵۰ عیسوی)

حضرت محمد صلى الله عليه وسلم عربستان میں، مہاتما بدھ کے تقریباً ایک ہزار سال بعد، ۵۷۰ سے ۶۳۲عیسوی تک گزرے ہیں۔ نتیجتاً، ھندوستان میں بودھی ادب کے ابتدائی دور میں اسلام اور اس کی تعلیمات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ تاہم رسولِ خدا کے وقت کے بعد بھی بودھی ماخذوں میں اسلامی دین، جو کہ ان علاقوں میں پھیل رہا تھا جہاں بدھ مت پہلے سے قائم تھا، کے اصولوں کے بارہ میں خال ہی کوئی معلومات ملتی ہیں۔ یہ اس کے بالکل بر عکس ہے جب بودھی اساتذہ ان علاقوں کے مقامی مذاہب کے بارہ میں معلومات حاصل کر رہے تھے جہاں بدھ مت پھیل رہا تھا۔ دوسری طرف، مسلمان عالموں نے اُن بودھی روایات کے بارہ میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی جن سے ان کا سامنا اسلام کے جزیرہ نمائے عرب سے باہر پھیلنے پر ہوا۔

ساتویں صدی کے وسط سے شروع ہو کر، یعنی رسولِ خدا کے وقت سے تین دہائیاں بعد، ایران، افغانستان اور مغربی ترکستان کے علاقے کہ جہاں بدھ مت پھیل چکا تھا، عرب اموی خلافت کے زیرِ حکومت آ گئے۔ یہاں مسلمان اور بودھی ثقافتوں کے درمیان پہلا رابطہ ہوا۔

اسلام کے ظہور سے کئی صدیاں قبل سے ہی ھندوستانی برادریاں اور گروہ ملک عرب اور آس پاس کی بندرگاہوں میں موجود تھے مثلاً موجودہ دور کے جنوبی عراق کی بندرگاہ بصرہ میں۔ ان میں زیادہ تعداد سندھ سے آئے ہوئے جاٹوں کی تھی۔ محمد بن جریر الطبری (۸۳۰ء ۹۲۳ء) کی "تاریخ الرسول و الملوک" جسے "تاریخ الطبری" کے مختصر نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے مطابق ان میں "سرخ پوش" (عربی میں: احمراء) یعنی بودھی راہب بھی شامل تھے۔ اموی اسلامی عالم، واصل بن عطاء (۷۰۰ء ۷۴۸ء) جو کے معتزلہ مکتبِ فکر کے بانی تھے، کہ بارہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ بودھی تعلیمات سے خوب متعارف تھے۔ بدھ مت کی طرح معتزلہ نظریات بھی منطق اور منطقی جدل کے ذریعہ اعلی معرفت حاصل کرنے پر زور دیتے ہیں۔ مزید از آں، معتزلہ نظریہ بھی گناہوں کی تلافی کے لیے دوسرا جنم لینے پر یقین رکھتا ہے۔ تاہم، یہ کہنا مشکل ہے کہ واصل بن عطاء بدھ مت کا کتنا علم رکھتے تھے اور دوسری جانب، ان پر یونانی فلسفہ کا، جو کہ اس وقت بصرہ میں موجود تھا، کتنا اثر تھا۔

اموی دور میں مسلمانوں کے بدھ مت کے بارہ میں علم کی ایک بہتر مثال عمر بن الازرق الکرمانی کی ہے۔ اس فارسی مؤلّف نے اپنے مسلمان قارئین کو بدھ مت کے بارہ میں معلومات فراہم کرنے میں دلچسپی لی۔ نتیجتاً، آٹھویں صدی عیسوی کے شروع میں اس نے بلخ، افغانستان میں واقع نووہار خانقاہ کے بارہ میں ایک تفصیلی شرح لکھی۔ نووہار سارے ایشیائے وسطی میں اعلی بودھی تعلیم کا سب سے اہم مرکز تھی اور اس علاقے کی سب سے بڑی خانقاہ۔ الکرمانی نے وہاں کی بنیادی بودھی رسوم کو متشابہ اسلامی نظریات کی مدد سے واضح کیا۔ پس، اس نے مرکزی مندر کو، جہاں چادر سے آراستہ ایک پتھر کا مکعب تھا اور جس کے ارد گرد لوگ طواف اور سجدہ کرتے تھے، مکہ میں کعبہ سے تشبیہ دی۔ تاہم اس نے بودھی اعتقادات کے بارہ میں کچھ نہیں لکھا۔ الکرمانی کی تحریریں دسویں صدی عیسوی کی ابن الفقیہ الہمدانی کی "کتابِ ممالک" (عربی میں: کتاب البُلدان) میں محفوظ ہیں۔ تاہم، ایسا لگتا ہے کہ بودھی عالموں نے اسلامی رسوم و اعتقادات کو بودھی قارئین کے سامنے پیش کرنے میں کسی ایسی متقابل دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ ایسے کسی بیان کا کوئی قلم بند ثبوت موجود نہیں۔

خلافت بنوعباس کا دور (۷۵۰ تا ۱۲۵۸ عیسوی)

مسلمان اور بودھی علما کے درمیان اولین طویل تر روابط آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں عباسی خلافت کے ابتدائی دور میں شروع ہوئے۔ دوسرے عباسی خلیفہ المنصور (دورِ خلافت: ۷۵۴ تا ۷۷۵عیسوی) نے اپنی سلطنت کے نئے دارالخلافت کی تعمیر کے لیے ھندوستانی ماہرِ تعمیرات ملازم رکھے۔ اس نے اس نئے شہر کا نام بغداد رکھا جو کہ ایک سنسکرت نام ہے جس کا معنی ہے "عطیہِ خداوندی"۔ شہر کے منصوبہ کے مطابق خلیفہ نے بیت الحکمت تعمیر کروایا جس کا مقصد یہ تھا کہ یونانی اور ہندوستانی ثقافتی دنیاؤں کے ادب کا مطالعہ اور ترجمہ کیا جائے بالخصوص سائینسی موضوعات پر۔ اگلے عباسی حکمران، خلیفہ المہدی (دورِ خلافت: ۷۷۵ تا ۷۸۵عیسوی) نے بیت الحکمت میں کام کرنے کے لیے برِصغیر اور افغانستان سے کئی بودھی راہبوں کو مدعو کیا۔ اس نے اُن کے ذمہ، بنیادی طور پر طِب اور علمِ نجوم کی کُتب کا سنسکرت سے عربی میں ترجمہ کا کام لگایا۔

پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید (دورِ خلافت: ۷۸۶ تا ۸۰۹عیسوی) کا وزیر یحیی بن خالد بن برمک تھا جو کہ بلخ کی نووہار خانقاہ کے بودھی انتظامی سربراہوں میں سے ایک کا مسلمان پوتا تھا۔ اگرچہ اس وقت بغداد کے بیت الحکمت میں بودھی عالم پہلے سے موجود تھے لیکن یحیی نے مزید بودھی عالموں کو بھی مدعو کیا، خاص طور پر کشمیر سے۔ ان کی توجہ کا مرکز بودھی طبی متون تھے، خاص طور پر رویگپت کی کتاب "کامیابیاں کا سمندر" (سنسکرت میں: سدھاسار)۔

یہ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں بودھی اور مسلمان عالموں کے درمیان مذہبی اعتقادات پر بحثیں ہوئیں ہو گی۔ اس کا ثبوت بارہویں صدی کے اسماعیلی عالم الشہرستانی کی "مذاہب اور فرقوں کی کتاب" (عربی میں: کتاب الملل و النحل) سے ملتا ہے جو کہ مسلمان الحادی فرقوں پر ایک مقالہ ہے۔ اس میں الشہرستانی، خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں مسلمان علما کے بدھ مت کے تصور کا ایک مختصر خاکہ پیش کرتا ہے۔ لیکن چونکہ بیت الحکمت کے علما کی مرکزی دلچسپی یونانی فلسفہ میں تھی اس لیے ان کا بدھ مت کا بہت گہرا مطالعہ نہیں تھا۔ تاہم ابن ندیم کی دسویں صدی عیسوی کے آخر کی کتاب "الفہرست" میں کئی بودھی مقالوں کا ذکر ملتا ہے جنہیں اس دور میں عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا، مثلاً "بدھ کی کتاب" (عربی میں: کتاب البُد)۔ یہ دو مختلف سنسکرت کتابوں سے ماخوذ تھی: " گزشتہ زندگی تاریخ کی ایک مالا" (سنسکرت میں: جتک مالا) اور اشواگھوش کی "بدھ کے اعمال" (سنسکرت میں: بدھا کاریتا)۔

ایسے تراجم سے نہ صرف عرب قارئین کو بدھ مت کے کچھ پہلووں کا علم ہوا بلکہ اسلامی ثقافت میں بھی بودھی ادب کے کچھ نقوش مستعار لیے گئے۔ بعض اوقات یہ مستعار لی گئی چیزیں، بدھ مت سے مانوی ماخذ اور ان سے مسلمانوں تک پہنچیں۔

کچھ علما کا قیاس ہے کہ ابتدائی تصوف پر بھی بودھی اثرات تھے اگرچہ یہ نقطہ قابلِ بحث ہے۔ مثلاً بایزید بسطامی ( ۸۰۴ تا ۸۷۴ عیسوی) نے اپنے شیخ ابو علی السندی کے زیرِ اثر تصوف میں "فنا" اور "خدعہ" کے تصورات متعارف کرائے۔ فنا کا مطلب ہے انسانی ہستی کا خاتمہ اور انفرادی خودی کو کلیتاً فنا کرتے ہوئے اللہ کے ساتھ ایک ہو جانا ہے، اور خدعہ کا مطلب دھوکہ یا فریب ہے، وہ الفاظ جن سے مادی دنیا کو بیان کیا جاتا ہے۔ زہنیر نے، تاہم، مدلل طور پر دعوی کیا ہے کہ السندی کسی دوسرے مذہب سے اسلام میں داخل ہوئے تھے اور انہوں نے غالباً فنا کا تصور "چھاندوگیا اپنشد" سے اور خدعہ کا تصور "سویتا شوترا اپنشد" سے اخذ کیا تھا بمطابق اس شرح کے جو ادویت ویدانت کے بانی شنکر ( ۷۸۸ تا ۸۲۰ عیسوی) نے کی تھی۔ اگرچہ، بدھ مت کے تمام مکاتبِ فکر اس سے ملتے جلتے موضوع،" نروان" یعنی مسلسل جنم در جنم سے نجات کو زیر بحث لاتے ہیں اور بہت سے مہایانی مکاتبِ فکر کا مؤقف یہ ہے کہ یہ عالم ظاہر گو کہ "مایا" یعنی فریب نہیں لیکن مایا جیسا ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا اغلباً ناممکن ہے کہ بدھ مت کی کسی بھی صورت نے صوفیانہ فکر کے ارتقا میں کوئی کردار ادا کیا تھا۔

کالچکر ادب

اگرچہ بغداد میں مسلمان علما نے بودھی فلسفہ اور ادب میں دلچسپی لی تاہم، یوں لگتا ہے کہ وہاں پر مقیم بودھی علما نے اسلامی تعلیمات اور ثقافت میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس زمانہ میں کسی عربی کتاب کے سنسکرت میں ترجمہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اگرچہ اسی دور کے بودھی خانقاہی مدرسوں میں جو آج کے افغانستان اور ہندوستان کے علاقے میں واقع تھے، بودھی راہبوں کے ہاں دوسرے ہندوستانی مذاہب اور مختلف عقائد کے دعووں کے بارے میں تو زوردار بحثیں ملتی ہیں لیکن اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ ایسی ہی کوئی بحث مسلمان اہل علم سے بھی چلی ہو۔ سنسکرت کی بودھی فلسفیانہ کتابوں میں سے کسی میں اسلامی عقیدہ کا کوئی ذکر نہیں ملتا ، نہ تو اس زمانے میں نہ ہی اس کے بعد۔

اس زمانے میں اسلامی عقائد کے بارے میں بدھ مت کا اگر کوئی حوالہ ملتا ہے تو صرف ایک جگہ، سنسکرت کی "کالچکر تنتر" تحریروں میں جو کہ دسویں صدی عیسوی کے اختتام اور گیارہویں صدی کے شروع میں سامنے آئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس سے قبل بدھ مت، اسلام کو بطور ایک رقیب مذہب کے نہیں دیکھتا تھا۔ اور نہ ہی بدھ مت روایتی اسلامی علاقوں میں پھیل رہا تھا جہاں اسے ان مقامی اعتقادات کی شرح کی ضرورت ہوتی جن سے اس کا سامنا ہو رہا تھا۔ اب، تاہم، ایک نئی صورتحال درپیش تھی: بودھی اساتذہ نے ایک خاص اسلامی فرقہ کی جانب سے اپنے معاشرہ کے لیے خطرہ محسوس کیا اور نتیجتاً انہوں نے یہ ضروری جانا کہ اپنے پیروکاروں کو ممکنہ "حملہ آوروں" کے اعتقادات سے متعارف کروائیں۔

کالچکر کا مطلب ہے دورِ زمان یعنی وقت کے چکر۔ یہ نروان پانے کے لیے مہایان بدھ مت کی تنتر مشقوں کا ایک نظام ہے جس سے اندر کی جوت جگا کر ہر مخلوق کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں وقت کے تین متوازی دور ہیں: داخلی، خارجی اور متبادل۔ خارجی ادوار میں سیاروں کی گردش، ترتیبِ بروج اور تاریخی ادوار داخل ہیں جن میں بیرونی طاقتوں کی عہد بہ عہد یلغار بھی شامل سمجھی گئی ہے۔ اندرونی دورِ زمان سے مراد حیاتیاتی اور نفسیاتی زیر و بم اور آہنگ ہے۔ متبادل ادوار دھیان جمانے کی وہ مشقیں ہیں جن کے ذریعے ہم داخلی اور خارجی ادوار کی گرفت سے بچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔

ان تحریروں کا جو حصہ بیرونی ادوار کا ذکر کرتا ہے وہ حملہ آوروں کو "ملیچھ" کا نام دیتا ہے۔ یہ روایتی سنسکرت نام ہے برِ صغیر کے تمام حملہ آوروں کے لیے جو کہ اسکندرِ اعظم سے لے کر کشان اور ہپتھلای ہُنوں کے لیے استمعال ہوا ہے۔ اس اصطلاح سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناقابلِ فہم غیر ھندوستانی زبانیں بولتے تھے۔ ملیچھوں کی خصوصیت ان کی بی رحم حملہ آور فوجیں تھیں۔ حملہ آوروں کے لیے جو دوسری اصطلاح استمعال کی گئی ہے وہ "تائی" ہے جو کہ عربی "طائی" یا اس کے فارسی متبادل "تازی" کی سنسکرت میں صوتی نقل نویسی ہے۔ طائی اسلام سے پہلے سب سے طاقتور عرب قبیلہ تھا اور "تازی" فارسی زبان میں عربوں کا نام پڑ گیا۔ مثال کے طور پر آخری ساسانی پادشاہ یزدگرد سوّم نے عرب حملہ آوروں کے لیے تازی کی اصطلاح استمعال کی تھی۔

کالچکر تحریروں میں ذکر شدہ اسلامی فرقہ کی شناخت

کالچکر تحریروں میں جن ملیچھوں کا ذکر ہے ان سے مراد تمام عرب یا سب مسلمان نہیں، بلکہ احتمال ہے کہ مراد موجودہ شمال وسطی پاکستان میں واقع ملتان کی مملکت (۹۶۸ تا ۱۰۱۰ عیسوی) کے مشرقی اسماعیلی شیعہ تھے۔ ملتان کی مملکت فاطمیوں کی مصر میں مرتکز اسمٰعیلی سلطنت کی باجگزار ریاست تھی ۔ عباسی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی اور اسے دو طرف سے فاطمیوں اور ان کی باجگزار ملتانی ریاست نے گھیر رکھا تھا۔ عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنا ان کا مقصد تھا اور ان کی طرف سے سخت خطرہ تھا کہ وہ اس غرض سے عباسی سلطنت پر حملہ آور ہو جائیں گے۔

ملتان کے شمال اور مشرق میں واقع عباسی علاقوں یعنی آج کے مشرقی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان کی آبادی میں ہندووں اور بودھیوں کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ ۸۷۶ تا ۹۷۶ عیسوی، یہ سارا علاقہ ہندو شاہی حکومت کے ماتحت تھا۔ عباسیوں کے باجگزار، سُنّی مسلمان غزنویوں نے افغان حصہ کو ۹۷۶ عیسوی تک فتح کر لیا تھا اور پاکستانی طرف بھی ۱۰۱۰ عیسوی میں انہوں نے ہندوشاہی حکمرانوں کا تختہ لپیٹ دیا۔ غزنوی حکمران سابقہ ہندو شاہی علاقوں میں ہندو مت اور بدھ مت کے لیے رواداری کے قائل تھے۔ البیرونی (۹۷۶ تا ۱۰۴۸ عیسوی) ، ایک ایرانی عالم اور ادیب جو کہ غزنوی دربار میں ملازم تھا، لکھتا ہے کہ دسویں صدی عیسوی کے اختتام پر آج کے مشرقی افغانستان میں واقع بودھی خانقاہیں بشمول نووہار خانقاہ کے، قائم و دائم تھیں۔ تاہم، غزنوی حکمران اپنے سنّی فرقہ کے سوا باقی اسلامی فرقوں کے روادار نہ تھے اور وہ بالخصوص ملتان کی اسماعیلی شیعہ مملکت کو اپنے اقدار اور دین کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔

مستقبل کے حملہ آوروں کے پیغمبروں کی فہرست

اس مفروضہ کی تائید میں، کہ کالچکر تحریروں میں ذکر شدہ طائی ملیچھ حملہ آوروں سے مراد ملتانی اسماعیلی ہیں، ہمارے پاس جو مرکزی ثبوت ہے وہ "مختصر راجائی کالچکر تنتر" (باب: ۱، شعر: ۱۵۳) سے فراہم ہوتا ہے۔ اس اشلوک میں ان آئندہ حملہ آوروں کے آٹھ پیغمبروں کی فہرست دی گئی ہے۔ 

آدم ، نوح، ابراہیم اور پانچ مزید – موسیٰ ، عیسیٰ ، سفید پوش، محمد صلى الله عليه وسلم اور مہدی۔ آٹھواں نابینا ہو گا۔ ساتویں کا ظہور مکہ کی سرزمین میں واقع بغداد میں ہو گا اس دنیا (کی وہ جگہ) جہاں ذات (اسورا) کا بڑا حصہ طاقتور و بیرحم ملیچھوں کی صورت اختیار کر لے گا ۔

یہ سات پیغمبروں کی وہی فہرست ہے جو اسمعیلی حضرات کے ہاں جانی جاتی ہے البتہ اس میں سفید پوش کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سفید پوش تیسری صدی عیسوی کی شخصیت مانی کی طرف اشارہ ہے جو مانویت کے بانی تھے۔ یہ اس لیے کہ ابتدائی اسماعیلی مفکرین پر نام نہاد "مانوی اسلام" کے کچھ اثرات تھے۔ مثال کے طور پر اسماعیلیت کے مبینہ بانی اور فاطمی اماموں کے جدِ امجد عبداللہ بن میمون القدح (وفات:۸۲۵ عیسوی) کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ وہ مانی سے بہت متاثر تھا۔

کالچکر تحریروں کی اس فہرستِ پیامبران میں آٹھ پیغمبر گنوانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے پہلے کے اشلوک (باب:۱، شعر:۱۵۲ ) میں وشنو کے جو آٹھ اوتار بتائے گئے ہیں، تو ان انبیاء کی تعداد کو بھی اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس نکتہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان پیغمبروں کے پیروکار اسورا ذات کے لوگ کہے گئے ہیں۔ بدھ مت کی کونیات میں أسورا ایک طرح کے حاسد مزاج، نیم دیوتا ہیں جو ہندو دیوتاؤں کے رقیب کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ان سے ہمیشہ بر سر پیکار رہتے ہیں۔ اگر ہندو خدا وشنو کے آٹھ اوتار ہیں تو پھر آٹھ ہی اسورا پیغمبر ہونے چاہییں جو ان سے مقابلہ کر سکیں۔

ملیچھ اعتقادات اور روایات کا بیان

کالچکر تحریروں میں طائی ملیچھوں کے کچھ عقائد اور رسم و رواج کا ذکر ملتا ہے ان میں سے زیادہ تر عقائد مجموعی طور اسلام میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ کچھ اس زمانے کی اسمٰعیلی فکر سے مخصوص ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جو اس فکر کا ابطال کرتے ہیں۔ اس گڑبڑ کی وجہ شاید یہ ہے کہ کالچکر تحریروں کو ترتیب دینے والوں کی معلومات ملتان کے اسمٰعیلی عقائد کے بارے میں نامکمل تھیں اور انہوں نے اپنے بیان میں اسلام کی ان دوسری شکلوں کے بارے میں معلومات ڈال کر بات پوری کی جن سے ان کا سابقہ پڑا تھا۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ الہیات کے بارے میں اس دور کے مرکزی اسمیعلی مفکر ابو یعقوب السجستانی کی آراء ملتان میں زیادہ نہیں پھیل سکی تھیں۔ ابو یعقوب فاطمی ریاست کا پر جوش حامی تھا۔ یہی وجہ رہی ہو گی ورنہ السجستانی کی تصانیف تو سرکاری طور پر فاطمیوں کے عقائد کی بنیاد تھیں جو مشرقی اسمٰعیلی علاقوں میں رائج تھے۔

بعض اوقات کالچکر تحریریں کچھ اسلامی موضوعات کو اپنے مشترکہ ہندو بودھی قارئین کے لیے آشنا الفاظ میں پیش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنڈاریکا اپنی کتاب "بے داغ روشنی 'مختصر راجائی کالچکر تنتر' کی وضاحتی شرح" میں لکھتا ہے: 

ملیچھوں کے بارہ میں، محمد، رحمن کے ایک اوتار تھے۔ ملیچھ تعلیمات کے نمائندہ، وہ طائی ملیچھوں کے گرو اور آقا تھے۔

 ہندو مت میں اوتار کسی دیوتا کی روح کے کسی اور صورت میں تجسیم کو کہتے ہیں۔ پس محمد صلى الله عليه وسلم کو رحمن کا اوتار کہنا کرشنا کا وشنو دیوتا کا اوتار ہونے کے ہندو دعوی کے متوازی ہے۔ تاہم، اکثر اوقات کالچکر تحریریں مسلمان اعتقادات کو ھندوستانی ثقافت کی اصطلاحات میں نہیں پیش کرتیں۔

تخلیق اور اطاعتِ خداوندی

"مختصر راجائی کالچکر تنتر" (باب ۲ شعر ۱۶۴) میں آیا ہے

پیدا کی ہوئی ہے ہر شے پیدا کرنے والے کی ، ساکت اور متحرک۔ اسے خوش کرنے کے بدلے جنت ہے جو طائیوں کے لیے نجات کا وسیلہ ہے۔ واقعتاً یہی رحمن کی تعلیم ہے، لوگوں کے لیے۔

"رحمن" اللہ کی صفت ہے اور عربی میں اس کا مطلب ہے "وہ جو مہربان" ہے۔

پنڈاریکا "بے داغ روشنی" میں اس کی تشریح کچھ یوں کرتا ہے:

سو، طائی ملیچھوں کا کہنا ہے کہ رحمن خالق نے ہر برسرعمل شے کو پیدا کیا، چاہے وہ چلتی پھرتی ہو يا ساکت۔ سفید پوش ملیچھوں یعنی طائی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نجات اس سے ملتی ہے کہ رحمن ان سے خوش ہو جائے اور اس سے ان کو یقینی طور پر (جنت میں) ایک اونچا نیا جنم ملے گا۔ اسے ناراض کرنے سے جہنم میں (دوبارہ جنم لے کر) جانا ہو گا۔ یہ ہیں رحمن کی تعلیمات ، طائیوں کے دعوے۔

اسلام کا یہ عمومی دعوی ہے کہ خدا زمین و جنت کا خالق ہے۔ السجستانی، تاہم، اس تخلیقِ خداوندی کی ایک منفرد تشریح کرتا ہے۔ اُس کی شرح کے مطابق خدا نے اپنے امر یا کلمہ کے ذریعہ "عقلِ" کُلّی کو تخلیق کیا۔ عقلِ کلّی ایک ازلی، غیر متحرک، غیر متغیر اور کامل اور ابتدائی ہستی ہے۔ یہ ہئیت سے ماوراء ایک ایسی کلّی ہستی ہے جو ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے، ایک طرح کا کلّی "ذہن" لیکن وہ جو ایک وجود کی صورت میں ہو۔ "عقلِ" کلّی سے "نفسِ" کلّی کا صدور ہوا جو اسی کی طرح ازلی ہے لیکن یہ دائماً حرکت میں ہے اور کمال سے محروم ہے۔ "نفس" کلّی میں عالم طبيعی کی مادی دنیا پیدا ہوتی ہے۔ "نفس" کلّی کے دو متضاد میلان ہیں، حرکت اور سکوت۔ عالم طبیعی میں حرکت سے صورت جنم لیتی ہے اور سکون سے مادے کی تخلیق ہوتی ہے۔ مادہ جامد اور ساکت رہتا ہے جبکہ اس کی صورتیں متواتر گردش میں رہتی ہیں اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

پس شاید السجستانی کے بیانِ تخلیق ہی کا حوالہ ہے جس کی طرف "مختصر راجائی کالچکر تنتر" میں یوں اشارہ کیا گیا ہے۔ "پیدا کی ہوئی ہے ہر شے پیدا کرنے والے کی، ساکت اور متحرک" ۔ اسمعیلی فکر میں اگرچہ "نفسِ" کلّی اور "عقلِ" کلّی کے تصورات نمایاں رہے ہیں تاہم اسلام کی دوسری شکلوں میں ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔

السجستانی نے البتہ "جنت میں دوبارہ اعلی جنم لینے" کی جو وجہ لکھی ہے وہ بہت مختلف ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں کہ عمومی اسلامی معنی میں شرعی قوانین کی پابندی یا عمومی شیعی اور بعد ازاں اسمعیلی معنی میں سلسلۂ آئمہ کو معصوم جاننے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کچھ اور کہتا ہے۔

السجستانی کا کہنا یہ ہے کہ "نفسِ" کلّی سے افراد کے جزوی نفوس پیدا ہوتے ہیں جو عالمِ صورت و مادہ کی طبيعی دنیا میں وارد کیے جاتے ہیں۔ نوع انسانی کے ہر فرد میں اس کا انفرادی نفس "عقلِ" کلّی کا ایک جداگانہ حصہ حاصل کرتا جو جزوی بھی ہوتا ہے اور محدود بھی۔ جنت میں جانے کا سبب یہ بنتا ہے کہ نفسِ انفرادی دو چیزوں میں امتیاز کرتا ہے۔ اس قوت امتیاز سے وہ مادی دنیا کی لذتوں سے منہ موڑ کر اس کی جگہ "عقلِ" کلّی کی پاک اور خالص دنیا کی طرف اپنا رخ کر لیتا ہے۔ جنت اس عمل کا صلہ ہے۔ اس عمل سے ہی نفسِ انفرادی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز حاصل کرتا ہے۔

ختنہ، رمضان کے روزے اور حلال

پنڈاریکا نے اپنی کتاب "شاندار گہری ترین خدمت" میں اس کی یوں وضاحت کی ہے

دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ (جنت میں) دوسرا اونچا جنم پانے کے لیے ختنہ کروانا اور دن ختم ہونے اور رات شروع ہونے پر کھانا کھانا پڑتا ہے۔ سو طائی لوگ یہی کرتے ہیں۔ وہ ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے جو اپنے کرموں سے (قدرتی موت) مرے ہوں۔ بلکہ صرف وہ جانور کھاتے ہیں جن کو ذبح کیا گیا ہو۔ یہ نہ کیا جائے تو پھر یہ نہیں ہوسکتا کہ مردوں کو جنت میں دوسرا اور اونچا جنم مل سکے۔

پنڈا ریکا نے اس عبارت کے دوسرے حصے کو اپنی کتاب "بے داغ روشنی" میں کھول کر بیان کیا ہے۔ 

وہ ملیچھوں کے خدا کا منتر "بسم اللہ" پڑھتے ہوئے جانور کے گلے پر چھری چلاتے ہیں اور پھر ان جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں جن کو ان کے خدا کا منتر پڑھ کر ذبح کیا گیا ہو۔ یہ لوگ ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے جو اپنے کرموں سے (قدرتی موت) مرے ہوں۔ بلکہ صرف وہ جانور کھاتے ہیں جن کو ذبح کیا گیا ہوں۔

 "بسم اللہ" کا مطلب ہے "اللہ کے نام پر"۔

ان عبارتوں میں اسلام کی عمومی عبادات یعنی ختنہ، رمضان میں سورج ڈوبنے سے پہلے کچھ نہ کھانا اور غذا میں حلال و حرام کی پابندی کے احکامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ پنڈاریکا، تاہم، غلطی کھاتے ہوئے "بے داغ روشنی" میں حلال ذبیحہ کو ویدوں کی رسوم کی طرح کی خدا کے لیے قربانی تصور کرتا ہے۔ اپنے ہندو قارئین کے لیے وہ لکھتا ہے

آپ طائی تعلیمات کو درست سمجھیں گے کیونکہ آپ کے ویدوں میں یہ الفاظ آئے ہیں 'جانوروں کو قربانی کے لیے استمعال کرو'۔

اخلاقیات، نماز اور خدا کے مجسمے

"شاندار کالچکر تنتر کے مزید تنتر کا اصل" میں آیا ہے کہ

ان لوگوں کی تعلیمات کے مطابق جن کی عورتیں نقاب اوڑھتی ہیں، طائی سواروں کے غول جنگ میں دیوی دیوتاؤں کی ہر وہ مورتی توڑ ڈالتے ہیں جو ان کے سامنے آئے اور اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں برتتے۔ ان کے ہاں ایک ہی ذات ہوتی ہے، یہ چوری نہیں کرتے اور سچ بولتے ہیں۔ یہ صاف رہتے ہیں، دوسرے کی بیویوں سے گریز کرتے ہیں۔ پرہیز گاری کے طے شدہ طریقے رکھتے ہیں اور اپنی بیویوں کے وفا دار رہتے ہیں۔ (پہلے) وضو کرتے ہیں پھر رات کی تاریکی میں ، دوپہر میں، غروب کے وقت، عصر کے وقت اور جب پہاڑوں سے سورج ابھرتا ہے یہ غیر بودھ طائی لوگ الگ الگ مقررہ اوقات میں (روزانہ) پانچ مرتبہ نماز گزارتے ہیں جس میں وہ اپنی ارض مقدس کی طرف رخ کر کے زمین پر سجدہ کرتے ہیں اور اس کی پناہ طلب کرتے ہیں جو دھرتی سے اوپر آسمانی عالم میں تمس والوں کا پروردگار ہے۔

یہاں کالچکر عبارت نے سب مسلمانوں کے "مشترکہ" عقائد کی وضاحت کی ہے: مشرکانہ مجسمے نہ بنانا، اسلام میں سب انسانوں کی برابری کا احترام، اخلاقیات کی سخت پابندی اور دن میں پانچ مرتبہ نماز۔

اگرچہ مندرجہ بالا اقتباس مسلمانوں کے ان بتوں کے متعلق عمومی رویہ کی نشاندہی کرتا ہے جن کے بارہ میں یہ گمان کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی دیوتا کی شبیہ ہیں اور ان کی بطور صنم پوجا کی جاتی ہے۔ تاہم، اسلامی ثقافت کئی مورتیوں اور ان کی خانقاہوں اور مندروں کی خوبصورتی سے بھی متاثر ہوئی۔ اس زمانہ کی فارسی شاعری 'نو بہار' (نووہار) کو بطور استعارہ استمعال کرتی ہے ان جگہوں کے لیے جو "نوبہار کی طرح خوبصورت" ہیں۔ مزید از آں، نووہار اور بامیان میں بدھ کی مورتیاں، خصوصاً مائیتریا یعنی مستقبل کا بدھ، کے سروں کے پیچھے چاند کا ہالہ تھا۔ اس کے نتیجہ میں خالص حُسن کے لیے شاعرانہ اصطلاح "ایک بدھ کا چاند سا چہرہ" (فارسی میں: بتِ ماہ روئی) وضع ہوئی۔ پس فارسی اصطلاح بُت جو کہ سغدیائی 'پُرت' سے ماخوذ تھی، بدھ اور مورتیوں دونوں کے لیے استمعال ہوتی تھی اور مہاتما بدھ کے لیے عربی لفظ 'البُد' ہندوستان میں تمام مورتیوں کے لیے استمعال ہوتا تھا۔ تاہم، ابتدائی گیارہویں صدی عیسوی کی فارسی نظمیں مثلاً عیوقی کی 'ورقہ و گلشاہ' میں لفظ 'بت' مہاتما بدھ کے لیے ایک مثبت مفہوم میں استمعال ہوا ہے نہ کہ اپنے دوسرے تحقیر آمیز معنی بطور 'مورتی' کے۔ یہ غیر جنسی حسن کے کمال پر دلالت کرتا ہے۔

آخرت کی زندگی

جب آخرت کی زندگی کی نوعیت اور اس پر ایک انسان کے اس دنیا میں اعمال کے اثر کا ذکر آتا ہے تو کالچکر تحریریں محض طائی ملیچھوں کے دعووں کا ذکر ہی نہیں کرتیں۔ انہوں نے اس کو ضروری سمجھا کہ یہاں اس کے بدھ مت کے ساتھ تضاد کی نشاندہی بھی کر دی جائے۔ "مختصر راجائی کالچکر تنترر" (باب۲، شعر ۱۷۴) میں آیا ہے

ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی سے ہی فرد کو اپنے ان تجربات کے نتیجے کا سامنا ہوتا ہے جو اس دنیا میں اپنے پہلے کے کیے ہوئے کرموں کا پھل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو ایک جنم سے دوسرے جنم میں جاتے ہوئے انسانی کرموں کا بوجھ اترنے کا امکان نہ رہے گا۔ اس طرح سمسار سے اخراج نہ ہو سکے گا اور مُکش میں قدم دھرنے کی نوبت نہ آئے گی خواہ اس کو ہستئ لامحدود کے معنی ہی میں کیوں نہ لیا جائے۔ یہ خیال طائیوں میں بلاشبہ پایا جاتا ہے گو دوسرے فرقے اسے رد کرتے ہیں۔

پنڈاریکا "بے داغ روشنی" میں اس کی شرح یوں کرتا ہے: 

طائی ملیچھوں کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں ان کو رحمان کے فیصلے کے مطابق ایک بالا تر جنم میں (جنت میں) یا جہنم میں اپنے انسانی جسم کے ساتھ خوشی یا عذاب ملے گا۔

اس عبارت میں اشارہ اس عام اسلامی عقیدہ کی طرف ہے جس کے مطابق قیامت کے دن سب انسان موت کے بعد اپنے انسانی جسموں میں اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالی ان کا حساب کتاب کرے گا۔ اپنے کیے کی سزا یا جزا کے طور پر ان کو یا تو انسانی جسموں میں ہی ابدی خوشی ملے گی یا جہنم میں ہمیشہ کے لیے عذاب۔ اسمٰعیلی عقیدہ، السجستانی کے مطابق، اس حشرِ اجساد سے انکار کرتا ہے- السجستانی کا کہنا ہے کہ جنت کی خوشیاں اور جہنم کی تکلیف کا نفسِ انفرادی کو صرف ذہنی طور پر تجربہ ہوتا ہے اور اس کا کوئی جسمانی پہلو نہیں ہے۔

دوسری جانب بدھ مت، کرموں کے نظریے کے مطابق، یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ پریشان کن جذبات اور رویوں کے زیرِ اثر انسان کے کرموں کے پھل کے طور پر جنم در جنم کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ تخریبی عمل، جو غصے، لالچ، لگاؤ یا رویوں کے علت و معلول کے نظام سے بے خبری کی وجہ سے واقع ہوں بالآخر جہنم میں ، یا بھوت کی طور پر یا جانور کی جون میں دوبارہ جنم لینے تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس بے خبری کا سبب علم کی کمی بھی ہو سکتی ہے اور سمجھنے میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ عمل جو تعمیری تو ہو لیکن حقیقت سے بے خبری پر مبنی ہواس سے بھی فرد کو یا تو دوبارہ انسان کی جون میں جنم لینا ہوتا ہے یا "خدا کے خلاف" یعنی ایک أسورا کے طور پر یا پھر کسی ایک جنت میں۔ ان میں سے ہر طرح کا دوبارہ جنم جس کا کسی کو تجربہ ہو سکتا ہے، جنت اور جہنم میں دوبارہ جنم لینے سمیت، ایسے جسموں میں ہو گا جو اس عالم سے مخصوص ہوں گے۔ کسی جنت یا جہنم میں آپ انسانی جسم میں دوبارہ جنم نہیں لے سکتے۔

مزید از آں، بدھ مت کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ ہر طرح کے کرموں کا پھل خوشی یا تکلیف کی صورت میں ملتا تو ضرور ہے مگر ایک مقررہ وقت کے لیے۔ جب کرموں کا یہ پھل پک کر پورا ہو جاتا ہے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان اس جنتی یا جہنمی جنم میں مر جاتا ہے اور اسے کسی اور سمسار کی اقلیم میں جنم مل جاتا ہے۔ بدھ مت کے نقطۂ نظر سے کسی جنت یا جہنم میں انسان کا دوسرا جنم ابدی نہیں ہو سکتا ہے۔ تاہم سمسار میں اس کے پے درپے جنم، ایک کے پیچھے دوسرا، ہمیشہ کے لیے چلتے چلے جائیں گے جب تک انسان ان کی اصل علت اور سبب کو دور نہ کر دے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے جنتی جنم کی خوشی بھی ایک طرح کی تکلیف ہی ہے کہ اس سے کبھی دل نہیں بھرتا اور آخر کار ایک دن اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

پس بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ اگر انسان سب پریشان کن رویوں اور جذبات سے نجات حاصل کر لے تو اس کے کرموں کے وہ عمل سرزد ہونا بند ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں سمسار میں جنم در جنم کا چکر چلتا رہتا ہے، خواہ یہ دوسرے جنم کی جنت میں ہوں، جہنم میں ہوں، اس دنیا میں ہوں یا کسی اور جگہ۔ اسی طرح انسان اپنے پہلے کے کیے ہوئے کرموں کے جمع شدہ نتیجے سے بھی بچ جاتا ہے۔اس کے بعد حقیقت سے بے خبری نہ کرتے ہوئے تعمیری اعمال کرنے کی بنیاد پر انسان کو نروان کی ابدی، پرامن اور پر مسرت حالت مل جاتی ہے اور اسے سمسار میں بار بار جنم لینے سے مُکش حاصل ہو جاتی ہے اور نہ تو حساب کتاب کا کوئی دن ہے نہ کوئی حساب لینے والا۔ سمسار میں بار بار جنم لینا سزا نہیں جیسے نروان پا لینا جزا نہیں۔ انسانی رویوں کی علت اور معلول کا سلسلہ ایک میکانیکی انداز میں چلتا رہتا ہے، اس سے خدا کا کوئی تعلق نہیں۔

وہ اہم نکتہ جہاں بودھی متون اختلاف کرتے ہیں یہ ہے کہ جنت میں دوسرا جنم حتمی روحانی مقصد ہے اور وہ آخری منزل جہاں ایک شخص پہنچ سکتا ہے کیونکہ یہ بدھ مت کے مرکزی اصولوں یعنی کرم اور سمسار سے متضاد ہے۔

مادہ کی ایٹمی نوعیت اور نفس کی نوعیت

کچھ اور نکات کے ذکر میں کالچکر تحریریں اپنے قارئین کی آسان فہمی کی خاطر ملیچھ دعووں کو بودھی سیاق و سباق میں پیش کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر انیسویں صدی عیسوی کا تبتی شرح نگار میپام "واجر سورج کی تابانی، عظیم کالچکر تنتر کی عبارت کے مطلب کی وضاحت، باب پنجم کی شرح، گہری آگہی" میں لکھتا ہے:

ملیچھوں کے دو (فلسفیانہ نکات) ہیں جس کے وہ قائل ہیں۔ وہ دنیا کی خارجی چیزوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ایٹموں کے مجموعے سے بنتی ہیں اور ان کا عقیدہ یہ بھی ہے کہ ہر فرد جو عارضی جنم لیتا ہے یا جس کا کوئی ایک پہلو سمسار میں جنم لیتا ہے اس کی روح کا مقصد ہے خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنا۔ اس کے سوا وہ کسی اور طرح کے نروان کا دعوی نہیں رکھتے۔

میپام پھر یہ بھی کہتا ہے کہ مادہ کی ایٹمی نوعیت کے بارہ میں ملیچھ دعوے بدھ مت کے اعتقادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ ہینیان بدھ مت کے وائبھاشک اور ساؤتراتک فلسفیانہ مکاتب فکر کا دعوی ہے کہ ایٹم ناقابل تقسیم اور بغیر اجزاء کے ہے جبکہ مہایان بدھ مت کے چت متر اور مدھیامک مکاتب فکر ایسے ایٹموں کے قائل ہیں جن کی تقسیم در تقسیم کی کوئی حد نہیں ہے۔

میپام ایٹموں سے متعلق اس مسلمان دعوے کی تفصیل میں نہیں جاتا تاہم جو فلسفیانہ خیالات اسلام میں دسویں صدی عیسوی سے پہلے پروان چڑھے ان میں بعض علماء نے ایٹم کو ناقابل تقسیم سمجھا۔ ان میں شیعہ معتزلہ میں سے الحاکم اور النظام اور اہلسنت میں سے الاشعری شامل ہیں۔ جبکہ اس زمانہ اور بعد کے مسلمان علماء کی اکثریت نے ایٹم کو قابل تقسیم کہا اور ان کے خیال میں ایٹم کی تقسیم در تقسیم کی کوئی حد نہیں تھی۔ السجستانی کے خیالات البتہ اس کے بارے میں مبہم ہیں۔

میپام مزید لکھتا ہے:

مہاتما بدھ ان کے رجحانات اور خیالات جانتے تھے سو انہوں نے ان سوتروں کی تعلیم کی جو وہ (طائی) بھی قبول کر سکیں۔ مثال کے طور پر 'ذمہ داری اٹھانے کے سوتر' میں مہاتما بدھ نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنے کیے کے ذمہ دار ہوں واقعی موجود ہیں لیکن انھوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے پتا چلے کہ آدمی کی روح فانی ہے یا لا فانی ۔ بظاہر تو یہ باتیں طائی عقاید کے مطابق ہیں۔ مہاتما بدھ کی مراد ان لفظوں سے یہ ہے کہ انسان ایک ایسی ذات کا تسلسل ہے جو اپنے کرموں کی ذمہ دار ہے اور اس ذمہ داری کا اطلاق محض اس تسلسل پر لاگو ہوتا ہے جو اپنی ماہیت میں نہ تو دائمی ہے نہ مٹ جانے والی ہے۔

بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ الگ الگ لوگوں اور ذہنوں کے سلسلوں کی ایک محدود لیکن ناقابل شمار تعداد ہے۔ ایک فرد، ایک شخص وہ نام ہے جو ایک جداگانہ ذہنی تسلسل کو دیا جاتا ہے اسی طرح جیسے ایک ہی جیسی حرکت یا رویے کے مسلسل دہرانے کو ہم ایک عادت کا نام دے دیتے ہیں۔

ہر انسان کا تسلسل، ہر جداگانہ ذہنی سلسلے کی طرح دائمی تو ہے مگر غیر ساکت بھی ہے۔ یہ سلسلے اس معنی میں ابدی ہیں کہ ان کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اس لحاظ سے غیر جامد بھی ہیں کہ ان میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ہر لمحہ ہر شخص ایک نیا کام کرتا ہے جیسے کسی مختلف اور نئی شے کا ادراک۔

دوسری جانب ناسمجھی سے ہر شخص کرموں کا عمل انجام دیتا ہے اور اپنے کرموں کا پھل پاتا ہے۔ کرموں کی یہ میراث، ان کاموں کا نتیجہ، ان کا پھل اس شخص کے لیے جنم در جنم کے ایک سلسلے کی صورت میں سمسار کی خوشی یا سمسار کے دکھ کا تجربہ بن کر وارد ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اس قابل ہو جائے کہ حقیقت کی درست آگہی کو مسلسل برقرار رکھ سکے تو وہ ان کرموں کی فصل پکنے کے تجربے سے آزادی کے مرحلے تک پہنچتا ہے۔ یوں اس شخص کی ہستی کا تسلسل سمسار میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے اور اسے مُکش مل جاتی ہے، نروان حاصل ہو جاتا ہے۔ البتہ اس فرد کی مسلسل بدلتی ہوئی ہستی اور ذہنی تسلسل، جس سے اس شخص کی انفرادی ہستی عبارت ہے، دائمی طور پر نروان پانے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں۔

مختصر یہ کہ مہایان بدھ مت کے مطابق، کہ کالچکر تحریریں جس کی ایک شاخ ہیں، ہر شخص، ہر فرد اس معنی میں مستقل نہیں ہے کہ وہ ساکت و جامد ہے۔ اسی طرح وہ عارضی ہونے کے معنی میں غیر مستقل بھی نہیں ہے۔ مزید براں ہر فرد، ہر شخص کی ہستی سمسار میں اس معنی میں دائمی نہیں ہے کہ وہ ابدی ہو اور نہ ہی کسی فرد کی نروانی ہستی عارضی ہونے کے معنی میں غیر دائمی ہے۔

میپام کی نفس کے بارہ میں ملیچھ دعووں کی تشریح السجستانی کی شرح سے کسی حد تک مطابقت رکھتی ہے۔ السجستانی کا یہ بھی دعوی تھا کہ افراد، جن سے یہاں مراد ہے روحیں، اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہیں اور خود یہ ارواح نہ دائمی ہیں نہ ہی عارضی ۔ تاہم اس کے دعوے کی مابعد الطبیعیاتی بنیاد بدھ مت کے نظریے سے خاصی مختلف ہے۔ "نفسِ" کلی بے حرکت ہونے کے معنی میں دائمی نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمیشہ حرکت اور تغیر میں رہتا ہے۔ اسی طرح یہ عارضی ہونے کے معنی میں بھی غیر دائمی نہیں ہے، بلکہ اسے ابدی کہنا چاہیے ۔

السجستانی کے بقول انسانوں کی انفرادی ارواح اس ایک "نفسِ" کلی کے اجزا یا حصے ہیں۔ جب انفرادی روح کسی انسانی جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کی عارضی جسمانی ہستی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہ اس غیر متمیز "نفسِ" کلی کی طرف لوٹ جاتی ہے اور قیامت کے دن سے پہلے اسے دوبارہ جنم نہیں ملتا۔ البتہ یہ بغیر جسم کی انفرادی روح کسی نہ کسی طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھتی ہے۔ حشر اور روز حساب کا وقت آنے پر انفرادی روح کو ابدی جنت کی ذہنی لذتوں تک رسائی مل جاتی ہے اگر اسے اس زمانے میں حق کا علم کافی حد تک ہو چکا ہو جب وہ ایک جسم کے اندر تھی اور ایک عقلِ انفرادی سے منسلک تھی۔ دوسری طرف اگر یہ انفرادی روح اس وقت جسمانی اور مادی لذتوں ہی میں سرمست رہی ہو جب یہ کسی جسم کے اندر تھی اور حق کا عقلی علم حاصل نہ کیا ہو تو اسے دوزخ میں ہمیشہ کے ذہنی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لہذا، انفرادی روح اس معنی میں دائمی نہیں ہے کہ یہ ابدی طور پر جسم میں قید نہیں رہتی۔ لیکن یہ غیر دائمی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حشر اور حساب کتاب کے بعد اسے ہمیشگی مل جاتی ہے اور جسم میں رہتے ہوئے اس نے جو عمل کیے ہوں اس کی ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے۔

غزنوی خاندان کا دور (۹۷۵ تا ۱۱۸۷ عیسوی)

اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کالچکر تحریروں کے لکھے جانے کے بعد مسلمان علما کو ان میں موجود اپنے اعتقادات کی وضاحت کا علم ہوا ہو۔ لیکن جیسا کہ کئی تاریخی مقالوں سے پتا چلتا ہے، اُن کی بدھ مت میں دلچسپی برقرار رہی۔ جبکہ کالچکر تفسیری تشریحوں کے بعد کی صدیوں میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اسلام میں مزید دلچسپی صفر رہی۔

مثال کے طور پر، غزنوی دورِ حکومت میں، ایرانی مؤرخ البیرونی، محمود غزنوی کے ابتدائی گیارہویں صدی عیسوی میں ھندوستان پر حملہ میں اس کے ہمراہ تھا۔ اس نے ھندوستان میں جو کچھ سیکھا اس پر مبنی ایک کتاب 'کتاب الہند' تحریر کی۔ اس میں اُس نے بنیادی بودھی روایات اور اعتقادات کی تفصیل بتائی اور کہا کہ ھندوستانی مہاتما بدھ کو ایک پیغمبر مانتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ البیرونی مسلمانوں کو کہ رہا تھا کہ وہ مہاتما بدھ کو خدا کا پیغمبر تسلیم کر لیں لیکن اس سے یہ ضرور واضح ہوتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ بدھ مت کے پیرو شاکیہمنی کو اپنا خدا نہیں مانتے۔ سلجوق خاندان کے دورِ حکومت میں الشہرستانی نے اپنی بارہویں صدی عیسوی کی 'کتاب الملل و النحل' یعنی مذاہب اور فرقوں کی کتاب میں بھی بدھ مت کے بارہ میں البیرونی کی دی گئی تفصیلات دوہرائیں۔

غزنوی دور میں ہمیں اسلامی ادب میں بدھ مت کے اثر کی مزید مثالیں ملتی ہیں۔ مثلاً نابیناؤں کے ایک گروہ کی کہانی جس میں ہر شخص ایک ہاتھی کو مختلف رنگ میں بیان کر رہا تھا اُس کے مختلف اعضا کو ہاتھ لگا کر۔ یہ کہانی ایرانی عالم ابو حامد الغزالی (۱۰۵۸ تا ۱۱۱۱عیسوی) کی تحریروں کے ذریعہ تصوّف میں پہنچی۔ فلسفیانہ شک و شبہ کی حمایت میں الغزالی نے اس تمثال کو یہ دکھانے کے لیے استمعال کیا کہ مسلمان متکلمون حق کا صرف کچھ حصہ جانتے تھے۔ جبکہ مہاتما بدھ نے اسے غیر بودھی فرقوں کی آپس کی بحث کی بے فائدگی سکھانے کے لیے "غیر بودھی فرقوں کے سوتّا" میں استمعال کیا۔

ایلخانی خاندان کا دور (۱۲۵۸ تا ۱۳۳۶ عیسوی)

سن ۱۲۵۸ عیسوی میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان نے ایران فتح کیا اور بغداد میں عباسی خلافت کا خاتمہ کرتے ہوئے ایلخانی خاندان کی حکمرانی کی بنیاد رکھی۔ ہلاکو بدھ مت کی تبتی قسم کا پیروکار تھا اور جلد ہی اس نے شمال مغربی ایران میں واقع اپنے دربار میں تبت، کشمیر اور لدّاخ سے بودھی راہبوں کو بلا بھیجا۔ تاہم چھٹا ایلخانی حکمران، غزان خان (دورِ حکومت: ۱۲۹۵ تا ۱۳۰۴ عیسوی) شیعہ صوفی شیخ صدرالدین ابراہیم کے زیرِ اثر مسلمان ہو گیا۔ اس کے باوجود اس نے اپنے وزیر رشید الدین کو حکم دیا کہ وہ ایک عالمگیر تاریخ (عربی میں: جامع التواریخ) مرتب کرے۔ نیز اس نے ہدایت دی کہ اس تاریخ میں ان مختلف قوموں کے اعتقادات بھی شامل ہوں جن سے منگولوں کا سامنا ہوا تھا، بشمول بدھ مت کے۔ پس اس نے اپنے دربار میں کشمیر سے ایک بودھی راہب بکشی کمالشری کو مدعو کیا تاکہ وہ رشید الدین کی اعانت کرے۔ اس اشتراک کا نتیجہ " بدھ کی زندگی اور تعلیمات" تھا جو کہ عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں 'جامع التواریخ' کی دوسری جلد کے تیسرے حصہ "تاریخِ ہند" میں شامل تھا۔

الکرمانی اور البیرونی کی طرح رشید الدین نے بھی بدھ مت اور اس کی تعلیمات کو مسلمان اصطلاحات میں واضح کیا۔ پس ان نے اُن چھ مذہبی بانیوں کی فہرست دی جنہیں ھندوستانی بطور پیغمبر تسلیم کرتے تھے: تین یزدانی : شِو، وشنو اور برہما اور تین غیر یزدانی: جین مت کے ارہنت، چارواک نظام کے ناستک اور بدھ مت کے شاکیہمنی۔ اس نے دیووں کا ذکر بطور فرشتوں کے کیا اور مارا کا بطور ابلیس یعنی شیطان کے۔ یہ متن چھ سمساری حالتوں کا ذکر بھی کرتا ہے اور کرمی قانونِ علت و معلول کا بھی اور اس امر کا کہ مہاتما بدھ کے الفاظ "کانگیور" کے تبتی ترجموں کے مجموعہ میں محفوظ ہیں۔

رشید الدین نے یہ بھی لکھا کہ اس کے زمانہ میں ایران میں گیارہ بودھی متون عربی ترجمہ میں موجود تھے۔ ان میں امیتابھ کی خالص سرزمین کے بارہ میں "سکھہ کی پاک صاف سرزمین کے ترتیب کی سوتر"، 'آوالوکیت-ایشور' یعنی درد مندی کی تجسیم کے بارہ میں "بُنی ہوئی ٹوکری کی طرح ترتیب کی سوتر" اور 'مایتریا' یعنی مستقبل کے بدھ اور محبت کی تجسیم کے بارہ میں "مایتریا کا بیان" شامل تھے۔ تاہم، رشید الدین کی کتاب کے کچھ حصہ کافی پُر از تخیّل تھے مثلاً اس کا یہ بیان کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ قبل از اسلام بدھ مت کے پیروکار تھے اور کعبہ میں بدھ کی مورتیوں کی پوجا کرتے تھے۔

اس کے تقریباً ایک صدی بعد، ابتدائی پندرہویں صدی عیسوی میں حافظِ آبرو نے سمرقند میں تیموری پادشاہ شاہ رُخ کے دربار میں ملازمت کے دوران "مجمع التواریخ" مرتب کی۔ اس کتاب کا مہاتما بدھ اور بدھ مت کے بارہ میں حصہ رشیدالدین کی کتاب سے ماخوذ ہے۔

اگرچہ مسلمان عالموں کی لکھی ہوئی تواریخِ ھندوستان میں بودھی اعتقادات کا ذکر موجود ہے لیکن ہم اس کے مانند مسلمان اعتقادات کا کوئی ذکر، مسلمانوں کے ھندوستان آنے کے بعد کسی تبتی یا منگول بودھی ادیب کی لکھی ہوئی ھندوستان کی تاریخ میں نہیں پاتے۔ مثلاً ابتدائی ستارہویں صدی عیسوی میں لکھ گئی تبتی عالم تاراناتھ کی تصنیف "ھندوستان میں بدھ مت کی تاریخ" میں وہ ابتدائی تیرہویں صدی عیسوی میں شمال وسطی ھندوستان میں غوری خاندان کے غُز ترکوں کے ہاتھ بودھی خانقاہوں کی تباہی کا ذکر تو کرتا ہے لیکن وہ اسلام کے اپنے بارہ میں کچھ نہیں کہتا۔

موجودہ امکانات

اگرچہ ماضی کے مسلمان علما نے متعدد مرتبہ بدھ مت کے بارہ میں علم حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کی جبکہ بودھی علما نے اسلام کے بارہ میں معلومات حاصل کرنے میں نسبتاً کم شوق ظاہر کیا، لیکن اب یہ صورتحال آہستہ، آہستہ بدل رہی ہے۔ دسمبر ۲۰۰۷ میں اٹلی کے شہر میلان میں دیے گئے ایک لیکچر میں عزتِ مآب چودہویں دلائی لامہ نے اس بدلتے ہوئے رویہ کا بہت صاف مظاہرہ کیا:

اگرچہ میں ایک بدھ مت کا پیرو ہوں اور اسلام سے خارج، تاہم ۱۱ ستمبر سے میں اسلام کے عظیم مذہب کے دفاع میں رضاکارانہ کوششیں کر رہا ہوں۔ میرے بہت سے مسلمان بھائی (اور معدودی چند بہنیں) مجھے بتاتے ہیں کہ اگر کوئی خون بہاتا ہے تو یہ اسلام نہیں ہے۔ اس وجہ سے کہ ایک سچے مسلمان، اسلام کے ایک سچے پیروکار کو تمام مخلوق کے لیے ویسے ہی محبت رکھنی چاہیے جیسا کہ وہ اللہ کے لیے رکھتا ہے۔ تمام مخلوقات اللہ کی بنائی ہوئی ہیں اس لیے اگر کوئی اللہ سے محبت کرتا ہے اور اُس کا احترام کرتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کی تمام مخلوق سے بھی محبت کرے۔
میرے ایک صحافی دوست نے آیت اللہ خمینی کے دور میں کچھ وقت طہران میں گزارا۔ بعد میں اس نے مجھے بتایا کہ وہاں مُلا کیسے امیر خاندانوں سے پیسے جمع کر کے انہیں غریب لوگوں میں تقسیم کرتے تھے، غربت اور تعلیم کے لیے مدد کرنے کی خاطر۔ یہ ایک حقیقی اشتراکی عمل ہے۔ مسلمان ملکوں میں بینکوں میں سود کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ پس اگر ہم اسلام کو جان لیں اور ہم دیکھیں کہ اسلام کے پیروکار کیسے اس پر سنجیدگی سے عمل درآمد کرتے ہیں، تو تمام دوسرے مزاہب کی طرح یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔ بالعموم، اگر ہم دوسروں کے مذاہب کو جان لیں تو ہم باہمی احترام اور تحسین پیدا کریں گے اور غنی تر ہو جائیں گے۔ لہذا ہمیں ادیان کے درمیان تفہیم کو ترویج دینے کے لیے پیہم کاوش کی ضرورت ہے۔

مسلمان علما اور مذہبی رہنماؤں نے بھی بین الادیان تفہیم اور مکالمہ میں بڑھتی ہوئی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ نتیجتاً گزشتہ سالون میں کئی بین الاقوامی تنظیموں نے بودھی مسلمان کانفرنسوں کا انعقاد کیا ہے۔ مثال کے طور پر ستمبر ۲۰۰۸ء میں "عالمی خاندان برائے محبت و امن" نے تائیپی، تائیوان کے"دنیا کے مذاہب کے میوزیم" کے ہمراہ، "عالمگیر انسانی حقوق کے اعلان" کی ساٹھویں سالگرہ پر مسلمان بودھی مکالمہ کے سکسلہ کی دسویں کڑی "ایک عالمی خاندان کی جانب" کی پشت پناہی کی۔ اس سلسلہ کی گزشتہ کانفرنسوں میں مئی ۲۰۰۳ء میں پیرس، فرانس میں یونسکو کے صدر دفتر میں "ایک بودھی مسلمان مکالمہ در بارہٗ عالمی اخلاقیات اور بہتر طرزِ حکمرانی" اور جولائی ۲۰۰۴ء میں بارسیلونا، ہسپانیہ میں "عالمی مذاہب کی پارلیمنٹ" کے حصہ کے طور پر "دھرم، اللہ اور حکمرانی: ایک بودھی مسلمان مکالمہ" شامل ہیں۔ مسلمان اور بدھ مت کے رہنما دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ ایسے مکالموں اور کانفرنسوں کے ذریعہ پروان چڑھائی گئی بین الادیان تفہیم، دینی ہم آہنگی اور بین الاقوامی امن کے قیام کے لیے بہت سودمند ثابت ہو گی۔

Top