اخلاقی ضبط نفس پیدا کرنا

22:13

آج شام میں اخلاقی ضبط نفس پر بات کروں گا اس تفصیلی انداز سے جیسے شانتی دیو نے اپنی تحریر "بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" میں بیان کیا ہے۔ اگر ہم بودھی ستوا بننا چاہتے ہیں، اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے اپنی اصلاح کریں اور غیروں کی مدد کریں تو یہ کتاب بہترین خزانہ ہے جس پر تمام ہندوستانی اور تبتی مفکرین متفق ہیں۔

اخلاقی ضبط نفس بطور ایک دور رس رویہ کے

اخلاقی ضبط نفس چھ دور رس رویوں (سنسکرت: پارمتا) میں سے ایک ہے۔ ان رویوں کو عموماً "کمالات" کہا جاتا ہے۔ بہت سے لوگ لفظ "کمال" کو نامناسب سمجھتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں، "میں کیسے کامل ہو سکتا ہوں؟" میں ایک لفظی معنی کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہ وہ رویے ہیں جو ہمیں دور لیجاتے ہیں، بہت دور روشن ضمیری کے دہانے تک۔

یہاں ہم محض ایسے نظم و ضبط کی بات نہیں کر رہے جو ایک عمدہ کھلاڑی یا عمدہ موسیقار بننے کے لئے درکار ہوتاہے، بلکہ ایسا نظم و ضبط جو روشن ضمیری دے اور دوسروں کی مدد کی اہلیت۔ شانتی دیو کا سبق بودھی چت استوار کرنے کے متعلق ہے۔ یہ ہماری ترغیب کی اہمیت بتاتا ہے جو کہ ہمارا مدعا یا ہدف ہے۔ ہم نظم و ضبط کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں؟ ہم اس کا کیا کریں گے؟ دنیا کے تمام محدود لوگ مسائل سے دوچار ہیں اور دکھ اٹھا رہے ہیں، اور ہم خود بھی مصیبت زدہ ہیں۔ ہم اپنی ایسی حالت میں کسی کی کیسے مدد کر سکتے ہیں؟ ہمیں پہلے اپنی حالت کو سنوارنا ہو گا پھر ہم حتی المقدور اوروں کی مدد کے قابل ہوں گے۔ ہمیں اپنی اصلاح کر کے روشن ضمیری حاصل کرنی ہے تا کہ دوسروں کی مدد کر سکیں۔ اور ایسا کرنے کی خاطر ہمیں نظم و ضبط درکار ہے۔ اگر ہمیں اس بارے میں ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو کہ ہمیں نظم و ضبط کیوں درکار ہے اور ہم اسے کیسے استعمال میں لائیں تو پھر اس کا پیدا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ وگرنہ جب ہم نظم و ضبط کا سنتے ہیں تو ہمارے دل میں کھیل کود، فنون لطیفہ، یا فوج کا خیال آتا ہے۔ ہم اس کی بات نہیں کر رہے۔ ہم احکام کی تعمیل کے نظم و ضبط کی بات نہیں کر رہے۔

اولاً ہم بودھی چت کی تمنائی حالت پیدا کرتے ہیں۔ ہم دراصل روشن ضمیری حاصل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سب کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اب ہم اس سے منہ نہیں موڑیں گے خواہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ پیش آۓ یا جتنا مرضی وقت لگے۔ ہمارا ارادہ پکا ہے۔ ہمیں یہ کرنا ہی ہے۔ بودھی چت کی مشغول حالت کا مطلب یہ ہے کہ ہم واقعی اس میں مشغول ہیں۔ ہم سچ مچ اس میں کود پڑتے ہیں اور بودھی چت عہد و پیمان کو پورے خلوص سے نبھاتے ہیں۔

یہ بات نہائت عمدہ ہے کہ مہاتما بدھوں نے اور عظیم مفکروں نے ہمیں بتایا ہے کہ بودھی ستوا عہود کے معاملہ میں ہم دوسرں سے تعلقات میں جو غلطیاں کرتے ہیں۔ پہلا بودھی ستوا عہد یہ ہے کہ خود ستائی سے گریز اور ذاتی وقار، فائدہ حاصل کرنے کی خاطر دوسروں سے بد سلوکی سے اجتناب۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کہنا کہ ہم بہت بڑے استاد ہیں، اور ہمارے مقابل لوگ بیکار ہیں، برے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے بدھ متی مرکز میں آئیں اور ہمارا درس سنیں، کیونکہ ہم طاقت، دولت، شہرت وغیرہ وغیرہ کے متمنی ہیں۔ اگر ہمارا رویہ ایسا ہو تو کون ہمارا اعتبار کرے گا؟

ان بودھی ستوا عہود کے مطابق ہم اپنا رویہ تشکیل دیتے ہیں۔ ان سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ کن چیزوں سے پرہیز کیا جاۓ۔ وہ اس راہ کی نشاندہی کرتے ہیں جو ہمیں روشن ضمیری کی طرف لیجاتی ہے۔ اگر حدبندی واضح نہ ہو تو ہمیں کوئی اندازہ نہ ہو کہ روشن ضمیری کیسے حاصل کی جاۓ۔ یہ عہود کو جاننے کا بڑا سود مند طریقہ ہے: سڑک پر حدود بندی کے نشان۔ اگر ہمیں خوشی منانے کا کوئی بہانہ چاہئے تو یہ بات نہائت خوش آئیند ہے کہ اس مقصد کے لئے بودھی ستوا عہد ایک حیرت انگیز چیز ہے۔ یہ کتنی عمدہ بات ہے کہ اس راہ کی واقعی نشاندہی ہو چکی ہے! یہ شاندار بات ہے۔

روشن ضمیری کی راہ پر ہم کن چیزوں کی مشق کرتے ہیں؟ ہم، جس حد تک بھی ممکن ہو، چھ دوررس رویوں کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہ رویے ہیں، من کی حالتیں ہیں، جو ہم چاہتے ہیں کہ ہر کام، ہر بات، ہر سوچ میں ہمارے ہمراہ ہوں۔ یہ کوئی ایسی دوردراز چیزیں نہیں جن کی ہم زندگی سے لا تعلق ہو کر مشق کرتے ہیں۔ ہم ایسی من کی حالتوں کا ذکر کر رہے ہیں جن کے ساتھ ہم زندگی کا ہر لمحہ گذارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اخلاقی ضبط نفس بطور من کے ایک پہلو کے

اخلاقی ضبط نفس من کا ایک پہلو ہے – دوسرے لفظوں میں کسی چیز کے بارے میں آگہی جو ہمارے حسی یا من کے ادراک کے ہمراہ ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسا من کا رویہ ہے جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے خواہ ہم تنہا ہوں یا محفل میں۔ میں اسے اخلاقی ضبط 'نفس' اس لئے کہتا ہوں کیونکہ ہم کسی غیر کے رویہ کو زیر ضبط نہیں لاتے۔ اور یہ 'اخلاقی ضبط نفسی' بھی ہے۔ یہ کسی موسیقی کے ساز کو بجانا سیکھنے کا نظم و ضبط بھی نہیں۔ اس کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ یہ ایک ایسا من کا عنصر یا رویہ ہے جو من کو بھٹکنے سے روکتا ہے۔ اس کا ایک پوشیدہ مفہوم یہ ہے کہ من کی اس حالت کے ہمراہ اور بھی کئی من کے پہلو پاۓ جاتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم امتیازی آگہی (سنسکرت: پرجنا؛ حکمت) ہے، ایک ایسی من کی حالت جو بھٹکنے سے بچنے کے فوائد سے بخوبی واقف ہے، اور ایسا کرنے کے نقصانات سے بھی۔ لہٰذا ہم ایک تعمیری شے کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں، اور بھٹکتے نہیں، کیونکہ ہم اسے کھونے کے نقصانات سے واقف ہیں۔

اخلاقی ضبط نفس کی تین اقسام

اخلاقی ضبط نفس کی تین قسمیں ہیں۔ پہلی بات تخریبی فعل، قول اور فکر سے گریز کا نظم ہے۔ یہ اپنے آپ کو تخریبی عمل سے روکنے کا رویہ ہے کیونکہ ہم تخریب کاری کے نقصانات سے بخوبی واقف ہیں اور اس سے بچنے کے فوائد سے بھی آشنا ہیں۔ مثلاً جب ہمارے دل میں کسی کے متعلق بدخوئی کی احتیاج پیدا ہوتی ہے تو ہم جانتے ہیں کہ یہ نقصان دہ ہے اور یوں بہت دکھ کا سبب پیدا کرتے ہیں۔ پس یہاں نظم سے مراد من کا یہ رویہ ہے کہ کوئی بری بات کہنے کی احتیاج کی پیروی سے پرہیز۔

دوسری قسم مثبت اعمال میں شمولیت کا اخلاقی ضبط نفس ہے۔ اس کا تعلق خصوصاً مراقبہ، درس پر جانا، مطالعہ اور دھرم کی مشق کے نظم سے ہے۔ یہ ہمیں ٹیلیویژن دیکھنے کی بجاۓ بیٹھے رہنے اور مراقبہ کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔ اس کی بنیاد یہ امتیازی آگہی ہے کہ تفریح طبع کی خاطر ٹیلیویژن کے مختلف چینل تبدیل کرنا وقت کا ضیاع ہے، اور مراقبہ ہمیں واپس روشن ضمیری کی طرف لے آۓ گا۔ اگر ہم کھانے پر قابو رکھنے کی سادہ سی مثال لیں تو اس قسم کا اخلاقی ضبط نفس من کی ایک ایسی کیفیت ہے جو ہمیں بار بار ریفریجریٹر کو جا کر اپنے منہ میں کیک ٹھونسنے سے باز رکھتی ہے، کیونکہ ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم مزید موٹے ہو جائیں گے جو کہ ہم کوئی بھی وجوہات کی بنا پر نہیں چاہتے۔

تیسری قسم کا اخلاقی ضبط نفس دوسروں کی مدد سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ہمیں ایسی باتیں کہ ہم بہت مصروف ہیں یا بہت تھکے ہوۓ ہیں، کہنے سے روکتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہمیں کوئی یہ کہے"میں بہت مصروف ہوں اس لئے تمہاری مدد نہیں کر سکتا۔ مجھے افسوس ہے۔ مجھے اس وقت یہاں محبت پر مراقبہ کرنا ہے۔"

اخلاقی ضبط نفس کی یہ تین اقسام ہمیں روشن ضمیری تک لے جائیں گی۔ شانتی دیو نے اس دوررس رویہ پر دو باب وقف کئیے ہیں۔ صرف یہی ایک موضوع ہے جس پر اس نے دو باب لکھے ہیں۔ دونوں میں سے ہر ایک میں من کے دوسرے عناصر کا ذکر ہے جو اخلاقی ضبط نفس کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ تا کہ ہمیں اندازہ ہو کہ اسے کیسے استوار کیا جاۓ اور یہ کیسے کام کرے گا۔

دیکھ بھال کے رویہ

"بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" کے چوتھے باب میں من کے ایک ایسے عنصر کا ذکر ہے جو دیکھ بھال کے رویہ اور دوسروں کی فکر کے متعلق ہے ۔ اس اصطلاح کا ترجمہ کرنا آسان نہیں۔ اسے بعض اوقات میں 'حساسیت تربیت' میں دیکھ بھال کے دل کہتا ہوں۔ ہم جو بھی کرتے، کہتے یا سوچتے ہیں اس کا خیال کرتے ہیں۔ اس میں فکر کا کوئی شائبہ نہیں۔ بلکہ یہ ان چیزوں کو اہم سمجھتا ہے۔ ہم انہیں اہم سمجھتے ہیں۔ ہم حقیقتاً اپنے اعمال، افکار اور کلام کے اثرات پر توجہ مبذول کرتے ہیں۔ ہم اپنے اور دوسروں کے اوپر ان کے اثرات کے بارے میں فکر کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنے رویہ کے اثرات، اپنے اوپر اور دوسروں پر، کی پرواہ نہ کریں، تو ہم تخریبی عمل سے گریزاں نہیں ہوں گے اور نہ ہی تعمیری روش رکھیں گے۔

یہ محض ایک عاقلانہ کھیل نہیں۔ اگر ہمیں اپنی صحت اور وزن کی فکر نہ ہو، تو ہم کھانے پینے میں پرہیز نہیں کریں گے۔ ہمارے رویہ کے ہمارے اوپر اور دوسروں پر جو اثرات ہوتے ہیں ہمیں انہیں اہم گرداننا چاہئے۔ ہمیں اخلاقی ضبط نفس پیدا کرنے کے لئے اس دیکھ بھال کے رویہ کو استوار کرنا لازم ہے۔ شانتی دیو اس رویہ کا ذکر پریشان کن جذبات اور رویوں کے زیر اثر نہ آنے کے حوالے سے کرتے ہیں۔ پریشان کن جذبات اور رویوں کی فہرست لمبی ہے۔ ہم فرج میں رکھے کیک سے تعلق والی مثال کے اثر تلے نہیں آنا چاہتے۔

اگر ہم اپنے بارے میں سنجیدہ نہیں تو پھر ہم اپنی صحت اور وزن کا بھی خیال نہیں رکھیں گے۔ جب ہم اپنے آپ کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ من کے دو عناصر ایسے ہیں جو ہمیشہ من کی تعمیری کیفیت کے ہمراہ موجود ہوتے ہیں۔ پہلا عنصر اخلاقی ضبط نفسی عزت نفس ہے۔ ہم اپنے آپ کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ہم احمقانہ حرکتیں نہیں کرتے۔ اگر ہماری کوئی عزت نفس نہ ہو پھر ہم پرواہ نہیں کرتے۔ دوسرا عنصر اس امر کی دیکھ بھال ہے کہ ہمارے اعمال کا اوروں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے خاندان پر، ہمارے روحانی اساتذہ پر، ہمارے مذہب پر، ہمارے ملک پر، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہمیں ان کی عزت کی پرواہ نہیں تو ہم کوئی بھی رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اور اگر ہمیں اس کی فکر ہے تو پھر ہم اخلاقی ضبط نفس کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

ذہن میں رکھتے ہوئے اور ذہنی چوکسی

پانچویں باب میں ذہن میں رکھتے ہوئے اور ذہنی چوکسی کا ذکر ہے۔ یہ دو مزید من کے پہلو ہیں جن کی اخلاقی ضبط نفس میں ضرورت ہے۔ چونکہ ان کا ترجمہ کرنا بھی مشکل ہے اس لئے ہم ان کے مطالب کا جائزہ لیں گے۔ ذہن میں رکھتے ہوئے، سادہ لفظوں میں، من کی گوند کی طرح ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ جو کہ mindfulness ہے کچھ اتنا مناسب نہیں۔ یہ ایک ایسا عنصر ہے جس کے ذریعہ سے ہم کسی چیز کو (خیال میں) پکڑے رکھتے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ یہ من کی وہ حالت ہے جو غذا پر قابو کے خیال کو پکڑے رکھتی ہے جب ہم کسی بیکری کے پاس سے گذرتے ہیں۔ ہمارا نظم قائم رکھنے میں سب سے بڑی بات قابو میں رکھنا اور بچ کر نہ جانے دینا ہے۔ ہم استقامت کا اظہار کرتے ہیں اگرچہ ہمارا دل کچھ اور ہی کرنے کو کہہ رہا ہوتا ہے۔ آخر کیوں؟ (اس لئے کہ) ہم اوروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں؛ ہم اس امر کا امتیاز کرتے ہیں کہ کوئی منفی بات کرنے، کہنے یا سوچنے سے ہمارے اس ہدف کو نقصان پہنچے گا؛ اور ہم اپنے رویہ کے اثرات کی بھی فکر کرتے ہیں۔ اس طرح ہم نظم قائم رکھتے ہیں۔ نظم اور من کی گوند ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔

من کی چوکسی کا عنصر من کی گوند کے ساتھ آتا ہے۔ یہ در حقیقت من کی گوند کا حصہ ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جو اس امر پر نظر رکھتا ہے کہ ہم کہیں کمزور نہ پڑ جائیں اور پریشان کن جذبات کا شکار نہ بن بیٹھیں۔ اگر یہ محسوس کرے کہ ہم ان جذبات کے اثر تلے آنے لگے ہیں، تو یہ ایک خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے اور ایک اور من کا عنصر جسے توجہ کہتے ہیں اس گوند (جوڑ) کو دوبارہ قائم کر دیتا ہے۔ پہلے ہم اپنے رویہ اور اخلاقی ضبط نفس کے سلسلہ میں ذہن میں رکھتے ہوئے، ذہنی چوکسی اور توجہ کے عناصر کی مشق کرتے ہیں اور پھر ہم انہیں ارتکاز میں استعمال کرتے ہیں۔ ہماری مغربی لغت من کی ان حالتوں سے مطابقت نہیں رکھتی۔

تقدس مآب دلائی لاما ہمیشہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ہمیں اپنی تمام توجہ خبرداری نظام پر صرف کرنے کی بجاۓ اصل قابل توجہ چیز گوند کو اہم جاننا چاہئے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو خبرداری نظام خودبخود فعال ہو گا۔ اگر ہم محض گھنٹی پر توجہ دیں تو ہم گوند کو کھو دیتے ہیں۔

تقدس مآب دلائی لاما کی یہ ہدایات ناقابل یقین حد تک سود مند ہیں۔ ذرا اس پر غور کیجئے۔ جب ہم تمام تر توجہ خطرے کی گھنٹی پر مبذول کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ تو ہم من کی آوارگی اور پریشان کن جذبات کے متعلق دماغی خلل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس سے ہم بہت سراسیمہ اور غصیلے ہو جاتے ہیں۔ پھر ہم احساس جرم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ تقدس مآب کا یہ کہنا ہے کہ یہ عمومی رویہ اور مراقبہ میں ایک بہت بڑا رخنہ ہے۔ اصل بات اس کام کو جاری رکھنا ہے جو ہم کر رہے ہیں کیونکہ ہم نتائج کی فکر کرتے ہیں؛ ہم اس بات کی فکر کرتے ہیں کہ ہم کہیں وہ سب کچھ نہ کھو دیں جو ہمارا مقصود و منتہا ہے۔ ہم اس پر توجہ دیتے ہیں، نہ کہ ذہنی خلفشار پر۔

ذہن میں رکھتے ہوئے پیدا کرنا

آگے چل کر شانتی دیو بتاتا ہے کہ من کی یہ گوند کیسے پیدا کی جاۓ۔ پہلا عمل یہ ہے کہ روحانی استادوں کی صحبت اختیار کرنا۔ اگر ہم اپنے روحانی استاد کی محفل میں ہوں جن کی ہم بہت عزت کرتے ہیں تو یقیناً ہم احمقانہ حرکتیں نہیں کریں گے۔ ہم ان کی بیحد عزت کرتے ہیں اور ہم بیحد عزت نفس رکھتے ہیں۔ بیشک ہم ہر وقت اپنے روحانی اساتذہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے، تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ وہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ وہ پہلے والی بات ہے کہ اپنے رویہ کے بارے میں فکر کہ اس کا ہمارے روحانی اساتذہ پر کیا اثر ہو گا۔ اگر ہم اپنے روحانی استاد کے سامنے بیٹھے مراقبہ کر رہے ہوں تو ہم مراقبہ کے دوران اٹھ کر ٹیلیویژن دیکھنے نہیں چل دیں گے، ہے نا؟ ہم من کی گوند قائم رکھیں گے اور وہیں بیٹھے رہیں گے۔

دوسری مددگار شے ان کی ہدایات پر عمل ہے، یعنی اپنے اساتذہ کی باتوں کو یاد کرنا، عظیم مفکروں کو، تحریروں کو، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم روشن ضمیری کی راہ پر، سب کی مدد کرنے کی خاطر، گامزن ہیں اور ہمیں پورا یقین ہے کہ دھرم کی تعلیمات ہمیں وہاں تک لے جائیں گی تا کہ ہم دوسروں کی مدد کر سکیں، تو پھر ہم ہر حال میں اس من کی گوند کو قائم رکھتے ہیں۔ یہ ہدایات مختلف تخریبی اور تعمیری اعمال کی طرف، اوروں کی مدد، وغیرہ کے طریقوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ہم انہیں یاد رکھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں۔ ہم تعلیمات کو اہم گردانتے ہیں۔ تنتری عہود میں اس امر کا ذکر ہے کہ کسی بھی تعلیم کو معمولی نہ سمجھو۔ مہاتما بدھ کا درس تفریح کی خاطر نہیں تھا۔ اس نے ہمارے فائدے کے لئے تعلیم دی۔ اس کا تعلیم دینے کا صرف یہی مقصد تھا۔ کسی بھی درس کا مقصد ہماری بھلائی ہے۔ اگر ہم واقعی پناہ چاہتے ہیں تو ہم تعلیمات کو اہم سمجھتے ہیں۔ پس اگر ہمیں یہ بات سمجھ نہ آۓ کہ کوئی ایک خاص تعلیم ہمیں کیسے فائدہ پہنچاتی ہے تو یہ جاننا کہ کیسے ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔

تیسرا عنصر جس کا ذکر شانتی دیو کرتا ہے وہ ہے من کی گوند کو قائم نہ رکھنے کے نتائج سے خوفزدگی۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس کا انجام کیا ہو گا۔ شانتی دیو مختلف صورتوں کا ذکر یکے بعد دیگرے مصرعوں میں کرتا ہے: جیسے کوئی لکڑی کا ٹھوس بلاک ہو۔ ہم لکڑی کے ایک ٹھوس بلاک کی مانند ایک جگہ قائم رہتے ہیں، اور جب تخریبی انداز میں قول، فعل، یا فکر کی احتیاج پیدا ہوتی ہے تو اس پر عمل نہیں کرتے۔

حاصل بحث

ان طریقوں سے اخلاقی ضبط نفس پیدا ہوتا ہے جو تخریبی عمل سے روکتا ہے، اور دھرم کی پیروی میں شمولیت اور دوسروں کی حتی المقدور مدد کرنے کی توفیق دیتا ہے۔ ہم کیونکر اخلاقی ضبط نفس کے خواہاں ہیں؟ کیونکہ ہم روشن ضمیری حاصل کرنا چاہتے ہیں تا کہ اوروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جا سکے۔ ہم ان چیزوں پر قائم رہنے کے فوائد، اور ان سے دوری کے نقصانات کی امتیازی آگہی رکھتے ہیں۔ کیسے؟ اپنی اخلاقی عزت نفس کی خاطر اپنے رویہ کے دوسروں پر اثرات کی فکر مندی کی بدولت۔ ہم اس بات کی بھی فکر کرتے ہیں کہ ہمارے رویہ کا ان لوگوں پر کیا اثر ہوتا ہے جن کی ہم عزت کرتے ہیں، ہمارا گھرانہ، اساتذہ اور دیگر لوگ۔ ہم من کی گوند کے ذریعہ اسے جو ہم کرنا چاہتے ہیں قابو میں رکھتے ہیں، خبرداری نظام کو قائم رکھتے ہوۓ تا کہ اگر ہم پریشان کن جذبات کا شکار ہونے لگیں تو ہماری چوکسی ہمیں واپس راہ پر لے آۓ۔ ایسا کرنے میں جو چیز معاون ثابت ہوتی ہے وہ اس بات کا احساس ہے کہ ہم ہر دم اپنے اساتذہ کی نظروں کے سامنے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تعلیمات ہمارے بھلے کے لئے ہیں، اسی لئے ہم ان پر قائم رہتے ہیں، اور ہم اس تباہی و بربادی سے خوف کھاتے ہیں جو ان (تعلیمات) پر نہ چلنے سے پیدا ہو گی۔

ہمارے لئے یہ امر بیحد مسرت کا باعث ہے کہ شانتی دیو جیسے عظیم مفکر نے کسی ایسی چیز کو جو دیکھنے میں نہائت مشکل لگتی ہے، اتنے آسان پیراۓ میں بیان کیا ہے۔ تعلیمات اپنی جگہ موجود ہیں۔ یہ بڑی عمدہ بات ہے۔ تو بس ان پر عمل کیجئیے۔ وقت ضائع نہ کریں۔ اگر آپ تالاب میں کودنے والے ہیں، تو کود پڑیں۔ خالی ایک انگلی نہ ڈالیں۔ تذبذب (تھی-شوم، شک) چھ بنیادی پریشان کن جذبات میں سے ایک ہے کیونکہ یہ ہمیں مکمل طور پر مفلوج کر سکتا ہے تا کہ ہم کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں۔ ہمیں فیصلہ کرنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

سوال و جواب

جب ہم کھانے پینے میں احتیاط برتتے ہیں، یا ارتکاز کرتے ہیں، یا اخلاقی ضبط نفس پانے کی سعی کرتے ہیں، تو ممکن ہے کہ ہمیں اس جہد کا گہرا ادراک نہیں ہوتا کہ ہم کیوں کر رہے ہیں، مگر ہم اس پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اس میں بہت سی پریشانی اور اندرونی خلفشار پایا جاتا ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کیسے توازن قائم رکھا جاۓ۔

شانتی دیو کا کہنا ہے کہ جب ہم کچھ کرنے کے متعلق سوچ رہے ہوں تو ہمیں پہلے سے ہی نہائت دھیان سے دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم اس کام کو کرنے کے اہل ہیں۔ اگر ہم یہ محسوس کریں کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں، تو ہمیں شروع ہی نہیں کرنا چاہئے۔ اور اگر ہم شروع کر دیں تو پھر اسے آخر تک پروان چڑھانا چاہئے۔ ہمیں غیر منظم جوش و خروش سے پرہیز لازم ہے۔ پریشانی کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اگر ہم نے کسی کام کو کرنے کی صلاحیت کا جائزہ نہ لیا ہو۔ اگر ہم نے کسی کام کو کرنے کے فوائد و نقصانات کا اچھی طرح جائزہ لیا ہے اور ہمیں ان کے بارے میں پورا وثوق ہے، اور ہم نے اس کام کو کرنے کی اپنی صلاحیت کا جائزہ لیا ہے اور ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم اسے کر سکتے ہیں، پھر یہ اتنا پریشان کن نہیں ہو گا – خصوصاً اگر ہم الارم سسٹم کو توجہ کا مرکز نہ بنائیں۔

اخلاقی ضبط نفس قائم رکھنے میں معاون نو ضمنی بودھی ستوا عہود ہیں۔ ان میں یہ شامل نہیں کہ ہم کسی کام کو نہ کرنے کی ضد کریں جب اس کا کرنا اس کی ممانعت پر سبقت رکھتا ہے۔ اگر ہم کھانے پینے میں احتیاط برت رہے ہیں، لیکن ہم خاندان کی بڑی دعوت میں مدعو ہیں، اور وہ لوگ ناراض ہوں گے اگر ہم کھانا نہ لیں اور محض کچھ پرہیزی سفوف پر اکتفا کریں، تو یہاں ضرورت ممانعت پر بھاری ہے۔ بودھی ستوا عہود کا یہ حصہ ہے کہ ہم کٹرپن سے بچیں۔ اگر ہم اس بات کو یاد رکھیں تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیں۔

آپ نے کہا کہ منفی فعل، قول اور فکر سے پرہیز کیا جاۓ۔ پہلے دو تو میری سمجھ میں آتے ہیں، مگر تیسرے کو میں محض یوں سمجھ سکتا ہوں کہ ایک ایسے من کی تشکیل جس میں مثبت سوچ پیدا ہو۔ میں اپنے خیالات پر قابو پانا نہیں جانتا۔ تو ہم کیسے ان منفی خیالات سے کنارہ کشی کر سکتے ہیں؟

یہ بالکل وہی بات ہے۔ اولاً، ہمیں تخریبی سوچ کے انداز کی پہچان ہونی چاہئے۔ اگر کسی نے ایک ماہ پہلے کوئی بری حرکت کی، اور ہم ابھی تک اس کے متعلق سوچ رہے ہیں تو ایسی سوچ تخریبی اور بہت منفی ہے۔ ایسا کرنے سے ہمیں کوئی خوشی نہیں ملتی، ہے نا؟ یہ من کی بہت ناخوشگوار کیفیت ہے اور یہ ہمیں غمگین بناتی ہے۔ جب اس واقعہ کا خیال آۓ تو ہمیں جلد از جلد جان لینا چاہئے کہ یہ قطعی طور پر سود مند نہیں۔ پھر ہمیں پکا ارادہ کرنا ہے کہ ہم من کی اس راہ پر قدم نہیں رکھیں گے۔

کسی خیال سے منہ موڑ لینا آسان کام نہیں، تو عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ کسی اور چیز کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں۔ سب سے آسان بات جو من میں رکھ کر منفی خیالات کے بدلے کی جا سکتی ہے وہ ہے ایک منتر جپنا۔ تو یہ ورد کریں"اوم منی پدمے ہنگ"۔ اور اس کے ساتھ محبت اور درد مندی کا خیال دل میں لائیں۔ اگر منتر جپنے کے دوران ہمارا من بھٹکنے لگے تو خطرے کی گھنٹی بج جاتی ہے۔ ہم پھر سے خبردار ہو کر اپنا منتر جاری رکھتے ہیں۔ یہ بہت فائدہ مند ہے، نہ صرف منفی خیالات کے بلکہ موسیقی کے سلسلہ میں بھی۔ میں نے دیکھا ہے کہ میں اگر کوئی گیت سنوں تو اسے اپنے دماغ سے نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ بڑی احمقانہ بات ہے۔ اس کا ایک ہی علاج ہے، یعنی کوئی منتر جپنا۔ یہ اسے روک دے گا۔

جہاں تک شانتی دیو کی تحریروں پر شرح کا تعلق ہے، تو اس وقت ایسی کئی شرح دستیاب ہیں جنہیں تقدس مآب دلائی لاما نے رقم کیا ہے – چھٹے باب پر جو صبر کے متعلق ہے، نویں باب پر جو امتیازی آگہی کے متعلق ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ مطالعہ کے لئے بہترین کتب ہیں۔

میرا یہ تجربہ رہا ہے کہ میں منفی خیالات کو تو قابو میں رکھ سکتا ہوں مگر شدید جذبات کو نہیں۔ یہ مجھ پر میرے جسم کا ایک حصہ بن کر غلبہ پا لیتا ہے۔ ہم جذبات پر کیسے قابو رکھیں؟

ہمارا انگریزی لفظ emotion بڑی وسیع اصطلاح ہے۔ کسی کی موت پر سوگوار ہونا نفرت کے احساس سے بہت مختلف ہے، حالانکہ ہم دونوں کو emotions ہی کہتے ہیں۔ محبت اور درد مندی بھی جذبات ہی ہیں۔ مگر یہ منفی جذبات نہیں اور انہیں دبانے کی ضرورت نہیں، اگرچہ ان میں تعلق کا عنصر ہو سکتا ہے جو کہ منفی ہے۔ غم کا احساس بھی صحت مند ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی عزیز کی وفات کے بعد کچھ عرصہ سوگ منانا معقول امر ہے۔ لیکن یہ ایک مشکل ہوگی اگر ہم غم کے پھندے میں پھنس جائیں، مگر وہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

دوسرے جذبات جیسے خوف فائدہ مند نہیں ہیں۔ لیکن خوف بھی دو طرح کا ہے، مثبت خوف اور منفی خوف۔ ہم اس ڈر سے کہ کسی گاڑی سے ٹکرا نہ جائیں سڑک پار کرتے وقت دونوں جانب دیکھتے ہیں – یہ صحت مند قسم کا خوف ہے۔ مگر دوسری جانب اضطراری قسم کے خوف، مثلاً اندھیرے کا ڈر غیر صحت مند ہے۔ یہ ہمیں ناکارہ کر دیتا ہے اور وہ کچھ کرنے سے باز رکھتا ہے جو ہمارے لئے شائد سود مند ہو۔ ان منفی جذبات کے بارے میں اہم بات ان کی پہچان ہے پیشتر اس کے کہ یہ بے قابو ہو جائیں۔ پھر ہم نظم وضبط کے ذریعہ مخالف قوت بروۓ کار لاتے ہیں۔ اگر یہ کافی شدید ہو تو یہ مخالف قوت کوئی سانس کی مشق بھی ہو سکتی ہے۔ خوف دور کرنے کے لئے ہمیشہ تارا منتر تجویز کیا جاتا ہے۔

اگر یہ جذبہ نفرت یا انتقام، وغیرہ پر مشتمل ہو تو ذرا اس کے نقصانات پر غور کریں۔ اس منفی احساس کو دبانے کی بجاۓ اس کا کوئی مثبت نعم البدل ڈھونڈیں۔ بدھ مت میں پریشان کن جذبات اور رویوں کے لئے ایک ہی اصطلاح ہے، نیون-مونگز، اور خوشی اور غم کے لئے ایک مختلف اصطلاح ہے، تشور-با، جس کا ترجمہ "احساس" کیا جاتا ہے۔ مغرب میں ہم جذبہ اور احساس دونوں کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کرتے ہیں، اور اس سے مغالطہ پیدا ہوتا ہے۔

دعا

ہم نے ایک مثبت کام کیا ہے۔ ہمارے اخلاقی ضبط نفس کے متعلق سننے اور سیکھنے سے کچھ مثبت طاقت پیدا ہوئی ہے۔ ہم اسے کوئی سمسار تعمیر کرنے والا مثبت فعل نہیں بنانا چاہتے، بلکہ ایسا جو روشن ضمیری کی تعمیر کرے۔ پس ہم اسے روشن ضمیری کے ہدف کو منسوب کرتے ہیں۔

اے کاش ہم نے جو بھی سیکھا ہے یہ ہمیں مہاتما بدھ بننے اور ہر ایک کی حتی المقدور مدد کرنے میں معاون ثابت ہو۔ یہ سمجھ بوجھ گہری تر ہوتی جاۓ، جو کچھ ہم نے سیکھا ہے اس کے ساتھ اور ہمارے تمام مثبت اعمال کے ساتھ مل کر کام کرے تا کہ روشن ضمیری کی راہ پر ہم مزید سے مزید تر اخلاقی ضبط نفس پیدا کر سکیں اور سب کا مزید تر بھلا کر سکیں۔ اے کاش کہ دنیا کا ہر انسان اخلاقی ضبط نفس استوار کرنے کا اہل ہو، خصوصاً ہمارے آج کے مشکل دور میں۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

Top