تمہید
عالمگیریت اور دنیا میں درجہ حرارت بڑھنے جیسے مسائل کے بارے میں تشویش جوں جوں پھیل رہی ہے اور پریشانی جیسے جیسے بڑھ رہی ہے، اسی قدر اس چیز کی اہمیت بھی زیادہ واضح ہو رہی ہے جسے تقدس مآب چودھویں دلائی لامہ نے "عالمی ذمہ داری" کا نام دیا تھا۔ صرف محفوظ اور پائیدار ترقی ہی کا نہیں بلکہ ہماری بقا کا دارومدار بھی اس پرہے کہ ان عالمگیر مسائل کوحل کرنے کے لیے اقوام، مختلف ثقافتیں، مذاہب اور افراد سب اکٹھے ہو کر اپنی ذمہ داری قبول کریں۔ اور ایک دوسرے سے تعاون اور مل جل کر کام کرنے کی لازمی بنیاد یہ ہے ایک دوسرے کو سمجھا جائے۔ دوسری ثقافتوں کے بارے میں جاننے سیکھنے کے بعد ہی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ کے کسی ممکنہ "تہذیبی تصادم" کے تباہ کن اثرات سے بچاؤ ہو سکےگا۔
بدھ مت اور عالم اسلام ایسی ہی دو تہذیبیں ہیں۔ تاریخ میں ان دونوں تہذیبوں کے مابین تعمیری اور تخریبی، دونوں قسم کے تعلقات رہے ہیں۔ جب ان تہذیبوں کا آپس میں ٹکراؤ ہوا تو مذہبی عقائد کو شاید جتھا بندی کے لیے استعمال کیا گیا۔ لیکن اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جاۓ تو نظر یہ آتا ہے کہ ان جھگڑوں کی تہ میں بنیادی طور پر اقتصادی، سیاسی اور فوجی حکمت عملی سے متعلقہ عوامل کارفرما تھے۔
آج کی دنیا میں بہت کم جگہیں ایسی ہیں کہ جہاں روایتی بودھی اور مسلم گروہ اکٹھے زندگی گزار رہے ہوں۔ جن علاقوں میں دونوں مذاہب کے یہ ماننے والے اکٹھے رہ بھی رہے ہیں جیسے تبت، لدّاخ اور جنوبی تھائی لینڈ میں، وہاں بھی ان کے باہمی تعلقات پر دوسری ثقافتوں اور قوموں کے لوگوں اور ان کے عمل کا اتنا گہرا اثر ہے کہ مخصوص بودھی مسلم معاملات کو ان کے وسیع تر سیاق و سباق سے الگ کر کے بامعنی انداز میں دیکھا نہیں جا سکتا۔ دوسرے علاقوں مثلاً انڈونیشیا اور ملیشیا میں بدھ مت کے پیروکاروں کی بیشتر آبادی بیرون ملک سے آکر آباد ہونے والے چینی باشندوں پرمشتمل ہے اور ان کے اور مقامی مسلمانوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت کا دارو مدار اقتصادی عوامل پر ہے۔ خلاصہ یہ کہ آج بودھوں اور مسلمانوں کے تعلقات میں ان کے عقائد اور مذہب کے اختلافات کا بہت کم حصہ ہے۔
تو پھر بودھی مسلم مکالمے کو پروان چڑھانے کا مقصد کیا ہے؟ عقیدے کا اختلاف تو دونوں مذہبوں کے درمیان ہمیشہ رہے گا اور اسے جاننے اور تسلیم کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان جانے میں کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ لیکن اگر دونوں مذہبوں کے درمیان مشترکہ انسانی اقدار دریافت کر لی جائیں اور ان کا اثبات کیا جاۓ مثلاً یہ کہ ہر شخص خوش رہنا چاہتا ہے اور دکھ نہیں اٹھانا چاہتا اور یہ کہ ہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں، تو اس طرح صرف مسلمان اور بدھ مت کے پیروکار ہی نہیں بلکہ سارے مذاہب کے ماننے والے اور تمام گروہ اپنے وسائل یکجا کر سکتے ہیں اور اپنی کوششیں اس چیز پر صرف کر سکتے ہیں کہ ان مشترکہ مسائل کو کیسے حل کیا جاۓ جو ساری دنیا کو پریشان کر رہے ہیں۔
اب ہم بودھی مسلم رابطوں کی تاریخ کا مختصر جائزہ لیں گے جو دور نبوی کے بعد کے ہزار سال میں ہمیں نظر آتے ہیں اور یہ دیکھیں گے کہ ہند۔ تبتی بدھ مت کی روایت کو اسلام کے بارے میں کس حد تک معلومات حاصل تھیں اور اس کی نگاہ میں وہ کون سے نکات تھے جو ان دونوں مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرتے تھے یا مسائل کو جنم دیتے تھے۔ جن باتوں سے جھگڑا کھڑا ہوتا تھا ان سے ہمیں ان مسائل کا اندازہ ہوتا ہے جن کے بارے میں باہمی رواداری اور برداشت کی ضرورت ہے تاکہ مل جل کر کام کرنے کا امکان باقی رہے۔ دوسری جانب جو باتیں مشترک ہیں وہ ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ باہمی احترام اور مشترکہ کاوشوں کی عمارت تعمیر کرنے کے لیے مثبت بنیادیں کیا ہیں اور ان کو مضبوط تر کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس مقالے میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ایل خانی دور کے ایران کے زمانے میں بدھ مت اور اسلام کے باہمی تعلقات کا مفصل تذکرہ کیا جا سکے جب ۱۲۵۶ء سے ۱۲۹۵ء کے دوران منگول حکمران ایران میں اپنے قبول اسلام سے پہلے تبتی بدھ مت کی سرپرستی کرتے رہے اور اس کی اشاعت میں مددگار رہے۔ اسی طرح ہم نے مقالے میں ویغور بدھ مت کے پیروکاروں کے رویے کا ذکر بھی نہیں کیا جو ان کے زمانے کے مشرقی ترکستان يعنی آج کے چین کے علاقہ سنکیانگ کی عملداری میں گیارہویں اور چودہویں صدی عیسوی کے درمیان اسلام کے پھیلنے کے رد عمل کے طور پر سامنے آیا۔
اسلام اور بدھ مت کی دنیا کے باہمی تعلقات کا تاریخی جائزہ
شاکیہمنی، مہاتما بدھ ۵۶۶ قبلِ مسیح سے ۴۸۵ قبلِ مسیح کے دوران شمال مرکزی ہندوستان میں رہتے تھے جبکہ محمد (صلى الله عليه وسلم) کا زمانہ ۵۷۰ ء سے ۶۳۲ ء کے عربستان کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں بدھ مت کتابوں کی تالیف کے تشکیلی دور میں اسلام اور اس کی تعلیمات کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ اور رسول خدا کے زمانے کے بعد بھی بدھ مت کے تحریروں میں اسلام کے عقائد اور تعلیمات کا شاذ و نادر ہی کوئی حوالہ ملتا ہے۔ دونوں مذاہب کے درمیان اس زمانے میں جو بھی تعلقات رہے ہوں گے وہ ایک دوسرے کے عقائد کے بارے میں انہی ناکافی اور محدود معلومات پر مبنی تھے۔
اموی اور عباسی حکمرانوں کے دور میں بدھ مت
مہاتما بدھ کے بعد کی ابتدائی صدیوں میں بدھ مت کی تعلیمات برصغیر ہندوستان سے نکل کر موجودہ افغانستان، مشرقی ایران، ازبکستان، ترکمانستان، اور تاجکستان کے علاقوں تک پھیل چکی تھیں۔ بدھ مت کی عوامی اور راھبانہ آباد یاں ان علاقوں میں پھل پھول رہی تھیں۔ پھر جب رسول خدا (صلى الله عليه وسلم) کے زمانے کے تیس سال بعد یہ علاقے اموی اور عباسی خلفا کی عرب حکومت کے ماتحت آئے تو ان میں بدھ مت والوں کو ذمّی کی حیثیت دی گئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بطور غیر مسلم ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی تھی لیکن ان کے عوام کو ایک اضافی ٹیکس دینا پڑتا تھا۔ ان سے ظالمانہ سلوک کے جو اکا دکا واقعات ہوئے وہ بھی عارضی تھے اور بدھ مت والوں کو اپنی خانقاہوں کی تعمیر نو کی اجازت دے دی گئی جو تباہ ہو گئی تھیں۔ لیکن بدھ مت کے ان پیروکاروں نے جو مسلمان حکومتوں کے تحت ذمّی کی حیثیت سے رہتے تھے، لگتا ہے کہ نہ تو اسلام میں کوئی لمبی چوڑی دلچسپی لی اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ تحریر کیا۔
اس زمانے میں اس علاقے کی بہت سی بودھ آبادی نے اسلام قبول کر لیا۔ ان کے مسلمان ہونے کے اسباب ایک علاقہ سے دوسرے علاقے اور ایک فرد سے دوسرے تک بدلتے رہے۔ تاہم لگتا یوں ہے کہ مذہب تبدیل کرنے کے اصل عوامل معاشی اور سیاسی مفادات رہے ہوں گے اور دوسرے مذہب پر یقین یا تلوار کے زور پر تبدیلی مذہب کا اس میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ قبول اسلام کرنے والے ان لوگوں نے مذہب تبدیل کرنے کے بارے میں شاید کوئی تحریر بھی نہیں چھوڑی جس میں عقائد کے بارے میں یا اس کے علاوہ کسی اور تبدیلی کے اسباب بیان کیے گئے ہوں۔
بدھ مت کے علماء بغداد میں
بدھ مت اور اسلام کے اہل علم کے مابین جو سب سے پرانا اور قابل لحاظ رابطہ قائم ہوا وہ عباسی دور حکومت میں آٹھویں صدی عیسوی کے وسط میں تھا۔ خلیفہ المنصور کے عہد میں بغداد میں بیت الحکمت کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا تھا جہاں یونانی اور ہندی تہذیبوں کے ادب کا مطالعہ اور ترجمہ کیا جاتا تھا، خاص طور پر ان تحریروں کا جو سائنسی موضوعات پر تھیں۔ اس سلسلے میں اس کے بیٹے خلیفہ المہدی نے ہندوستان اور نووہار، جو کہ افغانستان کے شہر بلخ کی ایک بڑی خانقاہ تھی، سے بدھ مت کے علما کو بغداد آنے کی دعوت دی۔
یہ کہنا تو مشکل ہے کہ بدھ مت کے علما بغداد میں واقعی کسی رسمی حیثیت میں بیت الحکمت سے منسلک تھے تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانے میں ان کی گفتگو مسلمان اہل علم سے رہتی تھی۔ اس کے ثبوت کے طور پر بارہویں صدی عیسوی کے اسمٰعیلی عالم الہیات الشہرستانی کی تصنیف کتاب الملل و النحل ﴿م ذاہب اور فرقوں کی کتاب﴾ پیش کی جا سکتی ہے، جس میں مصنف نے سارے اسلامی فرقوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اس میں شہرستانی نے اپنے زمانے کے مسلمان اہل علم کے تصور بدھ مت کا مختصر بیان درج کیا ہے۔ تاہم، چونکہ مسلمان علما کی اصل دلچسپی یونانی فکر سے تھی سو انہوں نے بدھ مت کا گہرا مطالعہ نہیں کیا۔
دوسری طرف لگتا ہے کہ بغداد آنے والے بدھ مت کے علماء نے بھی اسلامی تعلیمات اور عقائد میں کسی خاص دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگرچہ اسی دور کے بودھ خانقاہی مدرسوں میں جو آج کے افغانستان اور ہندوستان کے علاقے میں واقع تھے بودھ راہبوں کے ہاں دوسرے ہندوستانی مذاہب اور مختلف عقائد کے دعووں کے بارے میں تو زوردار بحثیں ملتی ہیں لیکن اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ ایسی ہی کوئی بحث مسلمان اہل علم سے بھی چلی ہو۔ سنسکرت کی بودھی فلسفیانہ کتابوں میں سے کسی میں اسلامی عقائد کا کوئی ذکر نہیں ملتا ، نہ اس زمانے میں نہ اس کے بعد۔
برصغیر ہند میں بودھ خانقاہوں کی تباہی
برصغیر پر ہونے والے مختلف حملوں کے دوران کئی بودھ خانقاہیں تباہ ہو گئی تھیں۔ کچھ پہلے اموی حکم رانوں کے لشکر کے ہاتھ آٹھویں صدی عیسوی کے پہلے نصف میں اور کچھ بعد میں گیارہویں صدی کے آغاز سے لے کر تیرہویں صدی عیسوی کے وسط تک عباسی خلافت کی ماتحت باجگذار ترک ریاستوں کی ملی جلی فوجوں کے ذریعے۔ اس تباہی کے بعد یہ خانقاہیں کبھی آباد نہ ہو سکیں اور ہندوستان میں اگرچہ بدھ مت کے بہت سے پیروکار بعد ازاں مسلمان ہو گئے تاہم ان میں سے زیادہ تر لوگ عام ہندو آبادی میں جذب ہو گئے۔
ترکوں کے فوجی حملوں کے پیچھے مذہبی جذبہ کم اور فوجی ، سیاسی اور اقتصادی فائدہ اٹھانے کی نیت زیادہ کار فرما تھی۔ اس کے باوجود مسلمانوں، بودھوں اور مغربی مورخین کے بیان کردہ تاریخی واقعات میں ان مہمات کے دوران سرزد ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اور ظلم و ستم کا جو ذکر ملتا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان خانقاہوں کو ڈھانے کا مقصد جو بھی رہا ہو، اس دور کی تحریروں سے ہمیں اس بارے میں مزید کوئی معلومات حاصل نہیں ہوتیں کہ بدھ مت والے اسلام کی تعلیمات کو کیسے دیکھتے تھے۔
تبت کے مسلمان پانچویں دلائی لامہ کے تحت
سترہویں صدی کے وسط میں اپنے وطن میں پھیلے ہوئے قحط کی وجہ سے میں کشمیر کے مسلمان مہاجرین کا ایک گروہ لہاسا، تبت میں جا آباد ہوا۔ یہ پانچویں دلائی لامہ کی حکومت کا زمانہ تھا۔ مذہبی رواداری پانچویں دلائی لامہ کا شیوہ تھا سو مسلمانوں کو خصوصی مراعات عطا کی گئیں۔ ان کو مسجد اور قبرستان کے لیے زمین دی گئی، اپنے داخلی معاملات کی نگرانی کے لیے پانچ رکنی کمیٹی منتخب کرنے کی اجازت دی گئی، اپنے باہمی جھگڑے شرعی قوانین کے مطابق طے کرنے کی آزادی ملی اور انہیں ٹیکس سے مستثنی قرار دے دیا گیا۔ ان مراعات سے یہ تو پتا چلتا ہے کہ بدھ مت کے پیرو تبت میں مسلمان آبادی کی مذہبی خود مختاری کا احترام کرتے تھے لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس زمانے میں دونوں مذاہب کے درمیان کوئی مکالمہ بھی ہوا ہو۔
نتیجہ
اس جائزے سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہوگا کہ رسول خدا (صلى الله عليه وسلم) کے زمانے سے لے کر اگلے ہزار سال تک ہند۔تبتی دنیا اور عالم اسلام کے مابین تعلقات کبھی پر امن اور کبھی مسائل کی زد میں رہے- تاہم بدھ مت کے پیروکاروں نے اسلام کی تعلیمات کے بارے میں جاننے کی شاید ہی کبھی کوئی خواہش ظاہر کی ہو۔
کالچکر ادب، اسلام کے متعلق بدھ مت کے کلاسیکی نقطۂ نظر کے ماٴخذ کے طور پر
اس زمانے میں اسلامی عقائد کے بارے میں بدھ مت کا اگر کوئی حوالہ ملتا ہے تو صرف ایک جگہ ، سنسکرت کی کالچکر تحریروں میں۔ کالچکر کا مطلب ہے دورِ زمان یعنی وقت کے چکر۔ یہ نروان پانے کےلیے مہایان بدھ مت کی تانتر مشقوں کا ایک نظام ہے جس سے اندر کی جوت جگا کر ہر مخلوق کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں وقت کے تین متوازی دور ہیں: داخلی، خارجی اور متبادل۔ خارجی ادوار میں سیاروں کی گردش، ترتیب بروج اور تاریخی ادوار داخل ہیں جن میں بیرونی طاقتوں کی عہد بہ عہد یلغار بھی شامل سمجھی گئی ہے۔ ان حملوں کا بیان کرتے ہوئے یہ بنیادی تحریر ہندو قارئین کو خطاب کرتی ہے۔ اندرونی دورِ زمان سے مراد حیاتیاتی اور نفسیاتی زیر و بم اور آہنگ ہے۔ متبادل ادوار دھیان جمانے کی وہ مشقیں ہیں جن کے ذریعے ہم داخلی اور خارجی ادوار کی گرفت سے بچنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
کالچکر تحریروں میں اسلام کا جو حوالہ ملتا ہے اس کے بارے میں زیادہ گمان یہی ہے کہ اس کا آغاز کچھ تو موجودہ مشرقی افغانستان میں واقع بودھ خانقاہوں سے ہوا ہو گا اور کچھ دسویں صدی عیسوی کے دوران تنتر کی جنم بھومی اڈیانہ سے جو آج کے شمال مغربی پاکستان میں واقع تھی۔ دونوں علاقے اس زمانے میں ہندو شاہی حکمرانوں کی سلطنت میں شامل تھے۔ اس صدی کے آخر تک یہ تحریریں برصغیر ہند میں پہنچ چکی تھیں اور کشمیر میں ان کو محمود غزنوی (۱۰۰۱ء تا ۱۰۲۵ء) کے حملوں کے تجربے سے خلط کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان تحریروں کی رسائی تبت تک ہوئی تاہم ہند۔تبتی بدھ مت کی روایت میں دوسری چیزوں کے مقابلے میں ان کو ہمیشہ ایک ثانوی اور غیر اہم حیثیت ہی دی گئی ہے۔ سو یہ ضروری ہے کہ اسلامی فکر کے بارے میں بدھ مت کی معلومات کے پھیلاؤ کو درست سیاق و سباق میں رکھا جائے۔ بدھ مت کے پیرو زیادہ تر اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہی رہے۔
ملتان کے اسمعیلی شیعہ اور کالچکر تحریروں میں اسلام کی بنیادی صورت کے نمائندے
بدھ مت نے گذرے وقتوں میں اسلام کو کس نظر سے دیکھا۔ اس نکتہ پر غلط فہمی سے بچنے کے لیے یہ چیز اہم ہے کہ یہ طے کر دیا جاۓ کہ کالچکر تحریروں میں جو اسلام کا ذکر ہے تو وہ اسلام کی کس صورت کا بیان ہے۔ ان کتابوں میں اسلام سے اشارہ پورے دین اسلام کی طرف نہیں اور یہ بھی یقینی ہے کہ ان کی مراد وہ اسلام نہیں ہے جسے آج ہم جانتے ہیں اور جس پر اس کی بہت سی شکلوں میں آج عمل کیا جانا ہے۔ کالچکر کی تحریریں تو ایک ایسی اجنبی قوم کے متعلق بات کرتی ہیں جن کی طرف سے انہیں مستقبل میں شمبھالہ حکومت پر یلغار کا خطرہ تھا اور یہ حکومت اس پہاڑی علاقے میں قائم تھی جہاں کالچکر تعلیمات پھل پھول رہی تھیں۔ آنے والے وقت کے ان حملہ آوروں کے عقائد کا جو بیان کالچکر تحریروں میں درج ہے اس سے تو یہ لگتا ہے کہ یہ لوگ مشرقی شیعہ اسمعیلی فرقے کے ابتدائی زمانے کے پیروکاروں سے تعلق رکھتے تھے۔
اس مفروضے کی تائید میں ہمارے پاس جو مرکزی ثبوت ہے وہ "مختصر راجائی کالچکر تنتر" [1] سے فراہم ہوتا ہے۔ اس اشلوک میں ان آئندہ حملہ آوروں کے آٹھ پیغمبروں کی فہرست دی گئی ہے۔
آدم ، نوح، ابراہیم اور پانچ مزید - موسیٰ ، عیسیٰ ، سفید پوش، محمد (صلى الله عليه وسلم) اور مہدی آٹھواں نابینا ہو گا۔ ساتویں کا ظہور مکہ کی سرزمین میں واقع بغداد میں ہو گا اس دنیا (کی وہ جگہ) جہاں ذات (أسورا) کا بڑا حصہ طاقتور و بیرحم ملیچھوں کی صورت اختیار کر لے گا۔
یہ سات پیغمبروں کی وہی فہرست ہے جو اسمعیلی حضرات کے ہاں جانی جاتی ہے البتہ اس میں سفید پوش کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ سفید پوش تیسری صدی عیسوی کی شخصیت مانی کی طرف اشارہ ہے جو مانویت کے بانی تھے۔ ابتدائی اسمعیلی مفکرین پر اگرچہ ممکن ہے کہ نام نہاد "مانوی اسلام" کے کچھ مانوی اثرات پڑے ہوں لیکن اسمعیلی علماۓ الہیات مانویت کو بطور بدعت و زندقہ رد کرنے میں عام مسلمانوں سے متفق رہے ہیں۔
کالچکر تحریروں کی اس فہرستِ پیامبران میں آٹھ پیغمبر گنوانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے پہلے کے اشلوک [2] میں وشنو کے جو آٹھ اوتار بتائے گئے ہیں، تو ان انبیاء کی تعداد کو بھی اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا اندازہ اس نکتے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان پیغمبروں کے پیروکار اسورا ذات کے لوگ کہے گئے ہیں۔ بدھ مت کی کونیات میں أسورا ایک طرح کے حاسد مزاج، نیم دیوتا ہیں جو ہندو دیوتاؤں کے رقیب کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ان سے ہمیشہ بر سر پیکار رہتے ہیں۔ اگر ہندو خدا وشنو کے آٹھ اوتار ہیں تو پھر آٹھ ہی اسورا پیغمبر ہونے چاہییں جو ان سے مقابلہ کر سکیں۔
اس اشلوک پر ایک پرانی ہندوستانی شرح سے ایک اور وضاحت سامنے آتی ہے۔ اس شرح کا عنوان "مشکل نکات کی شرح موسوم بہ پدمنی" ہے۔ اس کے مطابق سفید پوش حضرت محمد (صلى الله عليه وسلم) ہی کا ایک اور نام ہے۔ بات کچھ بھی رہی ہو، کالچکر میں ان پیغمبروں کے ماننے والوں کے لیے جو سنسکرت اصطلاحات برتی گئی ہیں ان سے اس اسمعیلی گروہ کا محل وقوع متعین کیا جا سکتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ لوگ دسویں صدی عیسوی کے نصفِ آخر میں ملتان کے اسمعیلی تھے جو شمالی سندھ، یعنی آج کے پاکستان میں واقع ہے۔
کالچکر تحریروں میں حملہ آوروں کو ہمیشہ ملیچھ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور یہی اصطلاح روایتی طور پر سنسکرت زبان میں برصغیر کے بیرونی حملہ آوروں کے لیے استعمال کی گئ ۔ اس کا استعمال سکندر اعظم سے لے کر کشان اور ہپتھلای ہن حملہ آوروں تک سب کے لیے کیا گیا۔ اس اصطلاح کا مطلب ہے وہ لوگ جو نا قابل فہم غیر ہندوستانی زبانیں بولتے ہیں۔ ملیچھوں کی خاصیت ہے ان کی بے رحم حملہ آور فوجیں۔ حملہ آوروں کے لیے دوسری مرکزی اصطلاح ہے "تائی" جو سنسکرت کا صوتی متبادل ہے عربی کے طائی کا یا اس کی فارسی صورت یعنی "تازی"۔ طائی قبیلہ قبل از اسلام کا سب سے طاقتور عرب قبیلہ تھا سو طائیہ اور "تازی" فارسی میں عربوں کے لیے بولا جانے لگا۔ مثال کے طور پر آخری ساسانی حکمران، یزد گرد سوم نے "تازی" کا لفظ ایران کے عرب حملہ آوروں کے لیے استعمال کیا ہے۔
ملتان کی مملکت فاطمیوں کی مصر میں مرتکز اسمٰعیلی سلطنت کی باجگزار ریاست تھی ۔ عباسی سلطنت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی اور اسے دو طرف سے فاطمیوں اور ان کی باجگزار ملتانی ریاست نے گھیر رکھا تھا۔ عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنا ان دونوں کا مقصد تھا اور ان کی طرف سے سخت خطرہ تھا کہ وہ اس دھن میں عباسی سلطنت پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ پس یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کالچکر تحریروں میں مذکور ان بیرونی حملہ آوروں سے اشارہ ملتان کے ان اسمعیلیوں کی طرف تھا۔ اس نتیجے سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ کالچکر تحریروں کا آغاز ہندو شاہی حکومت کے زیر نگیں افغان اور اڈیانہ علاقوں سے ہوا تھا جو ملتان اور عباسی سلطنت کے علاقوں کے درمیان دبے ہوتے تھے۔
کالچکر تحریروں میں طائی اعتقادات کا بیان
کالچکر کتابوں میں طائی ملیچھوں کے کچھ عقائد اور رسم و رواج کا ذکر ملتا ہے ان میں سے زیادہ تر عقائد مجموعی طور اسلام ميں بنیادی حيثيت رکھتے ہیں۔ ان ميں سے کچھ اس زمانے کی اسمٰعیلی فکر سے مخصوص ہیں جبکہ کچھ ایسے ہیں جو اس فکر کا ابطال کرتے ہیں۔ اس گڑبڑ کی وجہ شاید یہ ہے کہ کالچکر تحریروں کو ترتیب دینے والوں کی معلومات ملتان کے اسمٰعیلی عقائد کے بارے میں نامکمل تھیں اور انہوں نے اپنے بیان میں اسلام کی ان دوسری شکلوں کے بارے میں معلومات ڈال کر بات پوری کی جن سے ان کا سابقہ پڑا تھا۔ دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ الہیات کے بارے میں اس دور کے مرکزی اسمیعلی مفکر ابو یعقوب السجستانی کی آراء ملتان میں زیادہ نہیں پھیل سکی تھیں۔ ابو یعقوب فاطمی ریاست کا پر جوش حامی تھا۔ یہی وجہ رہی ہو گی ورنہ السجستانی کی تصانیف تو سرکاری طور پر فاطمیوں کے عقائد کی بنیاد تھیں جو مشرقی اسمٰعیلی علاقوں میں رائج تھے۔
بہر حال يہ احتیاط ضروری ہے کہ طائی عقائد کو جس طرح کالچکر نے بیان کیا ہے اسے سارے اسلام کے بارے میں، ایشیا میں، بدھ مت کے تمام پیروکاروں کی ہر زمانے کی رائے سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔ یہ ایک خاص جگہ، ایک خاص زمانے اور ایک خاص سیاسی، تاریخی ماحول تک محدود آراء تھیں۔ اس کے باوجود کالچکر کے بیانات بھی غیر متعلق نہیں ہیں کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق صرف یہی بدھ مت کی وہ کلاسیکی تحریریں ہیں جو اسلامی عقائد کے بارے میں کچھ کہتی ہیں۔ اس لیے، بطور اولین ماخذ کے، ان کی طرح کی اور کوئی تحریر موجود نہیں اور انہی سے اسلام کے بارے میں بدھ مت کے کلاسیکی نقطۂ نظر کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔
تخلیق اور اطاعت خدا وندی
"مختصر راجائی کالچکر تنتر" [3] میں آیا ہے
پیدا کی ہوئی ہے ہر شے پیدا کرنے والے کی ، ساکت اور متحرک۔ اسے خوش کرنے کے بدلے جنت ہے جو طائیوں کے لیے نجات کا وسیلہ ہے۔ واقعتا یہی رحمن کی تعلیم ہے، لوگوں کے لیے۔
"رحمن" اللہ کی صفت ہے اور عربی میں اس کا مطلب ہے "وہ جو مہربان" ہے۔
اپنی کتاب "بے داغ روشنی 'مختصر راجائی کالچکر تنتر' کی وضاحتی شرح" میں پنڈاریکا اس کو کھول کر یوں کہتے ہیں
سو، طائی ملیچھوں کا کہنا ہے کہ رحمن خالق نے ہر برسرعمل شے کو پیدا کیا، چاہے وہ چلتی پھرتی ہو يا ساکت ہو۔ سفید پوش ملیچھوں یعنی طائی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ نجات اس سے ملتی ہے کہ رحمن ان سے خوش ہو جائے اور اس سے ان کو یقینی طور پر (جنت میں) ایک اونچا نیا جنم ملے گا۔ اسے ناراض کرنے سے جہنم میں (دوبارہ جنم لے کر) جانا ہوگا۔ یہ ہیں رحمن کی تعلیمات ، طائیوں کے دعوے۔
اس عبارت میں طائیوں کو جو سفید کپڑے پہننے والے بتایا گیا ہے تو شاید یہ مسلمان حاجیوں کی طرف اشارہ ہے جو حج کے لیے مکہ میں حج کرتے وقت سادہ سفید کپڑے کی چادریں پہنتے ہیں ۔
السجستانی نے لکھا ہے کہ اللہ نے اپنے امر اور کلمے سے "عقلِ" کلّی کو خلق کیا۔ "عقلِ" کلّی ایک ازلی، غیر متحرک، غیر متغیر اور کامل اور ابتدائی ہستی ہے۔ یہ ہئیت سے ماوراء ایک ایسی کلّی ہستی ہے جو ہر شے کا احاطہ کیے ہوئے ہے، ایک طرح کا کلّی "ذہن" لیکن وہ جو ایک وجود کی صورت میں ہو۔ "عقلِ" کلّی سے "نفس" کلّی کا صدور ہوا جو اسی کی طرح ازلی ہے لیکن یہ دائماً حرکت میں ہے اور کمال سے محروم ہے۔ "نفس" کلّی میں عالم طبيعی کی مادی دنیا پیدا ہوتی ہے۔ "نفس" کلّی کے دو متضاد میلان ہیں، حرکت اور سکوت۔ عالم طبیعی میں حرکت سے صورت جنم لیتی ہے اور سکون سے مادے کی تخلیق ہوتی ہے۔ مادہ جامد اور ساکت رہتا ہے جبکہ اس کی صورتیں متواتر گردش میں رہتی ہیں اور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔
پس شاید السجستانی کے بیان تخلیق ہی کا حوالہ ہے جس کی طرف "مختصر راجائی کالچکر تنتر" میں یوں اشارہ کیا گیا ہے۔
پیدا کی ہوئی ہے ہر شے پیدا کرنے والے کی، ساکت اور متحرک۔
اسمعیلی فکر میں اگرچہ "نفسِ" کلّی اور "عقلِ" کلّی کے تصورات نمایاں رہے ہیں تاہم اسلام کی دوسری شکلوں میں ان کی یہ حیثیت نہیں ہے۔ السجستانی نے البتہ "جنت میں دوبارہ اعلی جنم لینے" کی جو وجہ لکھی ہے وہ بہت مختلف ہے۔ اس کا کہنا یہ نہیں کہ عمومی اسلامی معنی میں شرعی قوانین کی پابندی یا عمومی شیعی اور بعد ازاں اسمعیلی معنی میں سلسلۂ آئمہ کو معصوم جاننے سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ وہ کچھ اور کہتا ہے۔
السجستانی کا کہنا یہ ہے کہ "نفسِ" کلّی سے افراد کے جزئی نفوس پیدا ہوتے ہیں جو عالمِ صورت و مادہ کی طبيعی دنیا میں وارد کیے جاتے ہیں¬۔ نوع انسانی کے ہر فرد میں اس کا انفرادی نفس "عقلِ" کلّی کا ایک جداگانہ حصہ حاصل کرتا جو جزئی بھی ہوتا ہے اور محدود بھی۔ جنت میں جانے کا سبب یہ بنتا ہے کہ نفسِ انفرادی دو چیزوں میں امتیاز کرتا ہے۔ اس قوت امتیاز سے وہ مادی دنیا کی لذتوں سے منہ موڑ کر اس کی جگہ "عقلِ" کلّی کی پاک اور خالص دنیا کی طرف اپنا رخ کر لیتا ہے۔ جنت اس عمل کا صلہ ہے۔ اس عمل سے ہی نفسِ انفرادی حق اور باطل کے درمیان فرق کرنا سیکھتا ہے اور اچھے برے کی تمیز حاصل کرتا ہے۔
ختنہ، رمضان کے روزے اور حلال
پنڈاریکا نے اپنی کتاب "شاندار گہری ترین خدمت" میں اس کی یوں وضاحت کی ہے
دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ (جنت میں) دوسرا اونچا جنم پانے کے لیے ختنہ کروانا اور دن ختم ہونے اور رات شروع ہونے پر کھانا کھانا پڑتا ہے۔ سو طائی لوگ یہی کرتے ہیں۔ وہ ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے جو اپنے کرموں سے (قدرتی موت) مرے ہوں۔ بلکہ صرف وہ جانور کھاتے ہیں جن کو ذبح کیا گیا ہوں۔ یہ نہ کیا جائے تو پھریہ نہیں ہوسکتا کہ مردوں کو جنت میں دوسرا اور اونچا جنم مل سکے۔
پنڈا ریکا نے اس عبارت کے دوسرے حصے کو اپنی کتاب "بے داغ روشنی" میں کھول کر بیان کیا ہے۔
وہ ملیچھوں کے خدا کا منتر "بسم اللہ" پڑھتے ہوئےجانور کے گلے پر چھری چلاتے ہیں اور پھر ان جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں جن کو ان کے خدا کا منتر پڑھ کر ذبح کیا گیا ہو۔ یہ لوگ ان جانوروں کا گوشت نہیں کھاتے جو اپنے کرموں سے (قدرتی موت) مرے ہوں۔ بلکہ صرف وہ جانور کھاتے ہیں جن کو ذبح کیا گیا ہوں۔
"بسم اللہ" کا مطلب ہے "اللہ کے نام پر"۔
ان عبارتوں میں ختنہ، رمضان میں سورج ڈوبنے سے پہلے کچھ نہ کھانا اور غذا میں حلال و حرام کی پابندی کے احکامات اور اسلام کی عمومی رسوم اور عبادات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
اخلاقیات، نماز اور خدا کی مورتیوں پر پابندی
"شاندار کالچکر تنتر کے مزید تنتر کا اصل" میں آیا ہے کہ
ان لوگوں کی تعلیمات کے مطابق جن کی عورتیں نقاب اوڑھتی ہیں، طائی سواروں کے غول جنگ میں دیوی دیوتاؤں کی ہر وہ مورتی توڑ ڈالتے ہیں جو ان کے سامنے آۓ اور اس معاملے میں کوئی رعایت نہیں برتتے۔ ان کے ہاں ایک ہی ذات ہوتی ہے، یہ چوری نہیں کرتے اور سچ بولتے ہیں۔ یہ صاف رہتے ہیں، دوسرے کی بیویوں سے گریز کرتے ہیں۔ پرہیز گاری کے طے شدہ طریقے رکھتے ہیں اور اپنی بیویوں کے وفا دار رہتے ہیں۔ (پہلے) وضو کرتے ہیں پھر رات کی تاریکی میں ، دوپہر میں، غروب کے وقت، عصر کے وقت اور جب پہاڑوں سے سورج ابھرتا ہے یہ غیر بودھ طائی لوگ الگ الگ مقررہ اوقات میں (روزانہ) پانچ مرتبہ نماز گزارتے ہیں جس میں وہ اپنی ارض مقدس کی طرف رخ کر کے زمین پر سجدہ کرتے ہیں اور اس کی پناہ طلب کرتے ہیں جو دھرتی سے اوپر آسمانی عالم میں تمس والوں کا پروردگار ہے۔
"تمس" ان تین تشکیلی عناصر (س: ترگن) میں سے ایک ہے جن میں ہندوستان کے سانکھيہ نظام فلسفہ نے کائنات کو تقسیم کیا ہے۔ "مختصر راجائی کالچکر تنتر" [4] کے مطابق موسیٰ، عیسیٰ، مانی، محمد (صلى الله عليه وسلم) اور مہدی، سب پیغمبر "تمس والے ہیں"۔
یہاں کالچکر عبارت نے سب مسلمانوں کے "مشترکہ" عقائد کی وضاحت کی ہے: مشرکانہ مجسمے نہ بنانا، اسلام میں سب انسانوں کی برابری کا احترام، اخلاقیات کی سخت پابندی اور دن میں پانچ مرتبہ نماز۔
کالچکر تحریروں میں مسائل کا ذکر
کالچکر تحریروں میں دو ایسے مسائل کا ذکر کیا گیا ہے جن سے مذہبی ہم آہنگی میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ یہ اہم بات ہے کہ ان تحریروں میں یہ نہیں کہا گیا کہ یہ دو مسائل طائی فوجوں کے آئندہ حملوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ کالچکر میں وقت کا جو تدوّری تصور پایا جاتا ہے اس کے مطابق فوجی حملے وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں اور"مختصر راجائی کالچکر تنتر" [5] کے مطابق انہیں یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ ایسے ہی ہیں جیسے ہر فرد کے ذہن میں پریشان کن خیالات، جذبات اور رویوں کی وقفے وقفے سے یلغار ہوتی رہتی ہے۔ باہر کی دنیا میں یہ اسی کا عکس اور اسی کی نمائندہ ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ ان مسائل میں سے کوئی مسئلہ نہ تو ملتانی اسمعیلیت سے خاص ہے نہ اسے عمومی طور پر اسلام سے مخصوص کیا جا سکتا ہے۔ یہ تو وہ مسئلے ہیں جن کا سامنا ہر مذہب کو کرنا پڑتا ہے۔
قربانی کے طور پر جانور ذبح کرنا
کالچکر تحریروں میں جس بات کو پہلا مسئلہ بتایا گیا ہے وہ اس زمانے کے ہندوؤں میں بھی موجود تھا۔ اس مسئلے کا تعلق ہے طائی خدا کے نام پر بسم اللہ کر کے جانوروں کو ذبح کرنے سے ہے۔ پس دیکھیے کہ پنڈاریکا نے " بے داغ روشنی" میں کیا غلطی کی کہ ذبح کرنے کے حلال طریقے کو خدا کے لیے چڑھاوا، قربانی سمجھ لیا، جیسا ویدوں کی رسوم میں ہوتا ہے۔ اپنے ہندو قارئین کے لیے لکھتے ہوئے پنڈاریکا نے کہا کہ
آپ اس (طائی) رسم کو درست سمجھیں گے کیونکہ آپ کے (ویدوں) میں لکھا ہے کہ 'قربانی کے لیے گایوں کا استعمال کرو۔'
بدھ مت کی تعلیمات میں جانوروں کی قربانی سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ مہاتما بدھ کا فرمان ہے کہ ذی شعور ہستیوں کے کئی جنم ہوتے ہیں اور وہ لوٹ کر کسی بھی جاندار میں جنم لے سکتی ہیں جس میں دماغ ہو، خواہ جانور ہو یا انسان نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ جس جانور کی قربانی کر رہے ہوں وہ کسی گذرے جنم میں آپ کی ماں رہی ہو! یہ ٹھیک ہے کہ کالچکر تحریروں نے حلال طریقے سے ذبح کرنے کو خدا کے لیے قربان کرنے کا عمل سمجھا اور ان تحریروں میں حج کے موقع پر حاجیوں کی جانور ذبح کرنے کی مذہبی عبادت کا ذکر بھی نہیں ملتا تاہم جانوروں کا بطور قربانی ذبح کرنا پہلے بھی بدھ مت اور اسلام کے درمیان ایک اختلافی مسئلہ تھا اور آج بھی ہے۔
قربانی کے لیے جانور ذبح کرنے کے مسئلے کو قبول کرنے میں بدھ مت کوجو دشواری ہے وہ صرف اسلام تک محدود نہیں بلکہ ہندو مت کی کئی شکلوں کے ساتھ بھی موجود ہے۔ اور یہ مسئلہ بدھ مت کی ان شکلوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جو مقامی رسم و رواج میں گھل مل گئی ہیں۔ مثال کے طور پر بودھ گیا، ہندوستان میں جنوری ۱۹۷۵ء میں کالچکر عطاء اختیار کرتے ہوئے دلائی لامہ نے بدھ مت کے ان پیروکاروں کو جو دور دراز کے ہمالیائی علاقوں سے آئے تھے سختی سے ہدایت کی کہ وہ جانوروں کی ہر طرح کی قربانی ترک کر دیں۔
آج کے زمانے میں یہ لگتا ہے کہ بدھ مت والے حلال طریقے سے ذبح کرنے کو چڑھاوے کی قربانی سے الگ کر کے دیکھنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پر تبت میں کمیونسٹ دور سے پہلے مقامی مسلمانوں کو نہ صرف یہ اجازت تھی کہ حلال طریقے سے جانور ذبح کیا کریں بلکہ یہ بھی ہوتا تھا کہ بہت سے تبتی خانہ بدوش اپنے مویشی لا کر مسلمان قصابوں کے ہاتھ فروخت کر دیتے تھے تاکہ وہ ذبح کر کے ان کا گوشت فروخت کر لیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اکثر تبتی یہ محسوس کرتے تھے کہ گوشت سے تیار کردہ سب سے اچھےکھانے مسلمان ریستورانوں میں ملتے ہیں اور وہاں آنے جانے اور کھانا کھانے میں انہیں کوئی باک نہ ہوتا تھا۔
آخرت کی زندگی
دونوں مذاہب کے نظام عقائد کے درمیان ایک اور مسئلے پر بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے جس کا ذکر کالچکر تحریروں میں آیا ہے۔ اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہوگی۔ "مختصر راجائی کالچکر تنتر" [6] کا بیان ہے،
ہمیشہ رہنے والی آخرت کی زندگی سے ہی فرد کو اپنے ان تجربات کے نتیجے کا سامنا ہوتا ہے جو اس دنیا میں اپنے پہلے کے کیے ہوئے کرموں کا پھل ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ایک جنم سے دوسرے جنم میں جاتے ہوئے انسانی کرموں کا بوجھ اترنے کا امکان نہ رہے گا۔ اس طرح سمسار سے اخراج نہ ہو سکے گا اور مُکش میں قدم دھرنے کی نوبت نہ آئے گی خواہ اس کو ہستئ لامحدود کے معنی ہی میں کیوں نہ لیا جائے۔ یہ خیال طائیوں میں بلاشبہ پایا جاتا ہے گو دوسرے فرقے اسے رد کرتے ہیں۔
"بےداغ روشنی" میں پنڈاریکا نے اس عبارت کی تفصیل لکھی ہے۔
طائی ملیچھوں کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں ان کو رحمان کے فیصلے کے مطابق ایک بالا تر جنم میں (جنت میں) یا جہنم میں اپنے انسانی جسم کے ساتھ خوشی یا عذاب ملے گا۔
اس عبارت میں اشارہ اس عام اسلامی عقیدے کی طرف ہے جس کے مطابق قیامت کے دن سب انسان موت کے بعد اپنے انسانی جسموں میں اٹھائے جائیں گے اور اللہ تعالٰی ان کا حساب کتاب کرے گا۔ اپنے کیے کی سزا یا جزا کے طور پر ان کو یا تو انسانی جسموں میں ہی ابدی خوشی ملے گی یا جہنم میں ہمیشہ کے لیے عذاب۔ اسمٰعیلی عقیدہ، السجستانی کے مطابق، اس حشرِ اجساد سے انکار کرتا ہے- السجستانی کا کہنا ہے کہ جنت کی خوشیاں اور جہنم کی تکلیف کا نفس انفرادی کو صرف ذہنی طور پر تجربہ ہوتا ہے اور اس کا کوئی جسمانی پہلو نہیں ہے۔
دوسری جانب بدھ مت، کرموں کے نظریے کے مطابق، یہ دعویٰ رکھتا ہے کہ پریشان کن جذبات اور رویوں کے کارن انسان کے کرموں کے پھل کے طور پر جنم در جنم کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ تخریبی عمل، جو غصے، لالچ، لگاؤ یا رویوں کے علت و معلول کے نظام سے بے خبری کی وجہ سے واقع ہوں بالآخر جہنم میں ، یا بھوت کی طور پر یا جانور کی جون میں دوبارہ جنم لینے تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس بے خبری کا سبب علم کی کمی بھی ہو سکتی ہے اور سمجھنے میں غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ عمل جو تعمیری تو ہو لیکن حقیقت سے بے خبری پر مبنی ہواس سے بھی فرد کو یاتو دوبارہ انسان کی جون مین جنم لینا ہوتا ہے یا "خدا کے خلاف" یعنی ایک أسورا کے طور پر یا پھر کسی ایک جنت میں۔ ان میں سے ہر طرح کا دوبارہ جنم جس کا کسی کو تجربہ ہو سکتا ہے، جنت اور جہنم میں دوبارہ جنم لینے سمیت، ایسے جسموں میں ہوگا جو اس عالم سے مخصوص ہوں گے۔ کسی جنت یا جہنم میں آپ انسانی جسم میں دوبارہ جنم نہیں لے سکتے۔
اس کے علاوہ بدھ مت کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ ہر طرح کےکرموں کا پھل خوشی یا تکلیف کی صورت میں ملتا تو ضرور ہے مگر ایک مقررہ وقت کے لیے۔ جب کرموں کا یہ پھل پک کر پورا ہو جاتا ہے تو اسے مٹا دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان اس جنتی یا جہنمی جنم میں مر جاتا ہے اور اسے کسی اور سمسار کی اقلیم میں جنم مل جاتا ہے۔ بدھ مت کے نقطۂ نظر سے کسی جنت یا جہنم میں انسان کا دوسرا جنم ابدی نہیں ہو سکتا ہے۔ تاہم سمسار میں اس کے پے درپے جنم، ایک کے پیچھے دوسرا، ہمیشہ کے لیے چلتے چلے جائیں گے جب تک انسان ان کی اصل علت اور سبب کو دور نہ کر دے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے جنتی جنم کی خوشی بھی ایک طرح کی تکلیف ہی ہے کہ اس سے کبھی دل نہیں بھرتا اور آخر کار ایک دن اس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
سو بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ اگر انسان سب پریشان کن رویوں اور جذبات سے نجات حاصل کر لے تو اس کے کرموں کے وہ عمل سرزد ہونا بند ہو جاتے ہیں جن کے نتیجے میں سمسار میں جنم در جنم کا چکر چلتا رہتا ہے، خواہ یہ دوسرے جنم کی جنت میں ہوں، جہنم میں ہوں، اس دنیا میں ہوں یا کسی اور جگہ۔ اسی طرح انسان اپنے پہلے کے کیے ہوئے کرموں کے جمع شدہ نتیجے سے بھی بچ جاتا ہے۔
اس کے بعد حقیقت سے بے خبری نہ کرتے ہوئے تعمیری اعمال کرنے کی بنیاد پر انسان کو نروان کی ابدی، پرامن اور پر مسرت حالت مل جاتی ہے اور اسے سمسار میں بار بار جنم لینے سے مُکش حاصل ہو جاتی ہے اور نہ تو حساب کتاب کا کوئی دن ہے نہ کوئی حساب لینے والا۔ سمسار میں بار بار جنم لینا سزا نہیں جیسے نروان پا لینا جزا نہیں۔ انسانی رویوں کی علت اور معلول کا سلسلہ ایک میکانیکی انداز میں چلتا رہتا ہے، اس سے خدا کا کوئی تعلق نہیں۔
جانوروں کی قربانی کے مسئلے کی طرح آخرت کی زندگی کی نوعیت اور ابدی جنت و جہنم کے معاملے پر جو اختلاف ہے وہ صرف اسلام اور بدھ مت کی تعلیمات میں فرق تک محدود نہیں ہے۔ یہ جھگڑا تو بدھ مت کے پیروکاروں اور ہندوؤں اور دوسری جانب مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بھی ہے۔
کالچکر تحریروں میں طائی ملیچھوں سے جنگ کا تذکرہ
"مختصر راجائی کالچکر تنتر" [7] میں ذکر آیا ہے کہ طائی ملیچھ اپنے مذہب کے آغاز سے ۱۸۰۰ سال بعد شمبھالہ پر حملہ کریں گے اور شمبھالہ کی فوجیں انھیں جنگ میں شکست دیں گی۔ اگلے باب [8] کی عبارت میں البتہ جنگ کے داخلی مترادف کا بیان کیا گیا ہے یعنی مراقبات یا دھیان کے طریقوں کی نبرد آزمائی کا ذکر ہے۔ یہ اشلوک [9] یوں ختم ہوتے ہیں:
ملیچھوں کے سردار سے لڑائی بلاشبہ جسم رکھنے والی ہستیوں کے بدن کے اندر ہوتی ہے۔ دوسری طرف (لڑائی کی خارجی سطح)، اصل میں ایک سراب کی صورت ہے۔ (پس) مکہ میں ملیچھوں سے جنگ سچ مچ کی جنگ نہیں ہے۔
پندرھویں صدی کے شرح نگار کئیڈروب جے نے اپنی شرح حقیقت کی اصل ماہیت کی وضاحت "بے داغ روشنی کی تفصیلی شرح، عظیم کالچکر تنتر کی بڑی تفسیر" میں اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے:
دوسرے باب میں اس کی جو یہ شرح کی گئی ہے وہی اس بیان کے اصل معنی ہیں جو پہلے باب میں جنگ کے بارے میں آیا ہے۔ اسے یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ یوگ ہے جو اپنے جسم کے اہم مقامات کو گودنے سے ابھرتا ہے… جب عبارت یہ کہتی ہے کہ یہ (خارجی سطح) محض ایک دھوکہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ جس کا پہلے باب میں ذکر ہے اس سے مراد وہ عمل ہے جو یہ دوسرا باب بیان کر رہا ہے۔ سو، اس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جنگ کا ایک ڈھنگ لوگوں کو بتایا جائے جو ایک صدور ہے وہم میں آنے والی شکل کی طرح۔ اس سے (مراد) یہ نہیں کہ (لوگ) ملیچھوں کے خلاف جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں اور ان کو قتل کر کے ایک ایسا کام کر ڈالیں جو بہت بڑے نقصان کا سبب بن جائے۔
سو بظاہر یہ لگتا ہے کہ کالچکر تحریروں میں مسلمانوں اور بدھ مت والوں کے درمیان کسی بڑی جنگ کی پیشن گوئی کی گئی ہے لیکن اصل عبارتیں اور ان کی شرحیں یہ بات واضح کر دیتی ہیں کہ یہاں جنگ کا مطلب کچھ اور ہے اور اسے صرف اس اندرونی جنگ کی ایک تمثیل یا علامت سمجھنا چاہیے جو انسان کو اپنے ذہن کی پریشان اور خراب کرنے والی کیفیات اور حالتوں کے خلاف لڑنا ہوتی ہے۔
دونوں نظاموں کے مشترک نکتے اور ان کی اختلافی تعبیر
بدھ مت کا دعوی ہے کہ چونکہ مہاتما بدھ بہت سے طریقوں کے ماہر تھے اور ہر شخص کو فائدہ پہنچانا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے مختلف ذہنوں کے لیے اپنی تعلیمات بیان کرتے ہوئے مختلف طرح کے انداز اختیار کیے جو ان ذہنوں کی مناسبت سے تھے۔ سو ان کی تعلیمات میں ایسی چیزیں بھی ہیں جو دوسرے مذاہب کے عقاید جیسی ہی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان دیگر مذاہب نے ان تعلیمات میں بیان کردہ نکات کو ایک اور انداز میں سمجھا ہے۔ اس کے باوجود ان میں جو یکسانیت پائی جاتی ہے اسے مذہبی ہم آہنگی، افہام و تفہیم اور پر امن تعاون کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔ کالچکر تحریریں اسی اصول کا عملی مظاہرہ کرتی ہیں۔
انیسویں صدی عیسوی میں تبت کے ایک شرح نگار میپام کی شرح "واجر سورج کی تابانی، عظیم کالچکر تنتر کی عبارت کے مطلب کی وضاحت، باب پنجم کی شرح، گہری آگہی" میں ان کے ہاں اس نکتے کی وضاحت اس طرح ملتی ہے۔
ملیچھوں کے دو (فلسفیانہ نکات) ہیں جس کے وہ قائل ہیں۔ وہ دنیا کی خارجی چیزوں کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ یہ ایٹموں کے مجموعے سے بنتی ہیں اور ان کاعقیدہ یہ بھی ہے کہ ہر فرد جو عارضی جنم لیتا ہے یا جس کا کوئی ایک پہلو سمسار میں جنم لیتا ہے اس کی روح کا مقصد ہے خداؤں کی خوشنودی حاصل کرنا۔ اس کے سوا وہ کسی اور طرح کے نروان کا دعوی نہیں رکھتے۔
ایٹم کی نوعیت
میپام نے ایسی کوئی عبارت پیش نہیں کی جس میں مہاتما بدھ نے مادے کے ایٹموں سے مل کر بننے کا ذکر کیا ہو۔ لیکن می پام نے ہندوستان میں بدھ فلسفے کے چار مکاتب فکر کا عہد بہ عہد بیان کرتے ہوئے حملہ آوروں کی آراء کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہاں میپام کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ طائی لوگوں کے خیالات بدھ مت کے افکار کے مطابق ہیں۔ اس نے وضاحت کی ہے کہ ہينیان بدھ مت کے وائبھاشک اور ساؤتراتک فلسفیانہ مکاتب فکر کا دعوی ہے کہ ایٹم ناقابل تقسیم اور بغیر اجزاء کے ہے جبکہ مہایان بدھ مت کے چت متر اور مدھیامک مکاتب فکر ایسے ایٹموں کے قائل ہیں جن کی تقسیم در تقسیم کی کوئی حد نہیں ہے۔
اسی طرح جو فلسفیانہ خیالات اسلام میں دسویں صدی عیسوی سے پہلے پروان چڑھے ان میں بعض علماء نے ایٹم کو ناقابل تقسیم سمجھا۔ ان میں شیعہ معتزلہ میں سے الحاکم اور النظام اور اہلسنت میں سے الاشعری شامل ہیں۔ جبکہ اس زمانہ اور بعد کے مسلمان علماء کی اکثریت نے ایٹم کو قابل تقسیم کہا اور ان کے خیال میں ایٹم کی تقسیم در تقسیم کی کوئی حد نہیں تھی۔ السجستانی کے خیالات البتہ اس کے بارے میں مبہم ہیں۔
مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں نے ایٹموں کے نا قابل تقسیم ہونے کے رد میں جو دلائل استعمال کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے خاصے مختلف ہیں۔ بدھ مت والے کہتے ہیں کہ یہ بات منطق کہ خلاف ہے کہ ایٹم کی جہتیں یا اطراف اور پہلو نہ ہو، ورنہ دو ایٹموں کا ایک دوسرے سے جڑنا نا ممکن ہو جائے گا۔ دو ایٹم اگر ایک دوسرے سے جڑیں گے تو دونوں کا ایک ایک پہلو دوسرے سے جڑے گا اور اس صورت میں ان کو تقسیم کیا جا سکے گا، کم از کم دائیں بائیں کے حصوں میں ان کی تقسیم کا ذہنی تصور ہو سکے گا۔ مسلمانوں کی بنیادی دلیل اس سلسلے میں یہ تھی کہ اگر ایٹم نا قابل تقسیم ہوتے تو اس سے یہ ثابت ہو گا کہ اللہ کی قدرت محدود ہو گئی ہے۔ اللہ قادر مطلق ہے، وہ یہ قدرت رکھتا ہے کہ ایٹم کو لا محدود طور پر تقسیم کرتا چلا جائے۔
روحوں کی یا اشخاص کی نوعیت
میپام یہ بھی لکھتا ہے کہ
بدھ فلسفی ان کے رجحانات اور خیالات جانتے تھے سو انھوں نے ان سوتروں کی تعلیم کی جو وہ (طائی) بھی قبول کر سکیں۔ مثال کے طور پر 'ذمہ داری اٹھانے کے سوتر' میں بدھ فلسفی نے فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنے کیے کے ذمہ دار ہوں واقعی موجود ہیں لیکن انھوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس سے پتا چلے کہ آدمی کی روح فانی ہے یا لا فانی ۔ بظاہر تو یہ باتیں طائی عقاید کے مطابق ہیں۔ بدھ فلسفی کی مراد ان لفظوں سے یہ ہے کہ انسان ایک ایسی ذات کا تسلسل ہے جو اپنے کرموں کی ذمہ دار ہے اور اس ذمہ داری کا اطلاق محض اس تسلسل پر لاگو ہوتا ہے جو اپنی ماہیت میں نہ تو دائمی ہے نہ مٹ جانے والی ہے۔
بدھ مت کا نقطہٴ نظر
بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ الگ الگ لوگوں اور ذہنوں کے سلسلوں کی ایک محدود لیکن نا قابل شمار تعداد ہے۔ ایک فرد، ایک شخص وہ نام ہے جو ایک جداگانہ ذہنی تسلسل کو دیا جاتا ہے اسی طرح جیسے ایک ہی جیسی حرکت یا رویے کے مسلسل دہرانے کو ہم ایک عادت کا نام دے دیتے ہیں۔
ہر انسان، ہر فرد کا تسلسل، ہر جداگانہ ذہنی سلسلے کی طرح دائمی تو ہے مگر غیر ساکت بھی ہے۔ یہ سلسلے اس معنی میں ابدی ہیں کہ ان کی نہ ابتدا ہے نہ انتہا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اس لحاظ سے غیر جامد بھی ہیں کہ ان میں لمحہ بہ لمحہ تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ہر لمحہ ہر شخص ایک نیا کام کرتا ہے جیسے کسی مختلف اور نئی شے کا ادراک۔
دوسری طرف ناسمجھی سے ہر شخص کرموں کا عمل انجام دیتا ہے اور اپنے کرموں کا پھل پاتا ہے۔ کرموں کی یہ میراث، ان کاموں کا نتیجہ، ان کا پھل اس شخص کے لیے جنم در جنم کے ایک سلسلے کی صورت میں سمسار کی خوشی یا سمسار کے دکھ کا تجربہ بن کر وارد ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص اس قابل ہو جائے کہ حقیقت کی درست آگہی کو مسلسل برقرار رکھ سکے تو وہ ان کرموں کی فصل پکنے کے تجربے سے آزادی کے مرحلے تک پہنچتا ہے۔ یوں اس شخص کی ہستی کا تسلسل سمسار میں ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے اور اسے مُکش مل جاتی ہے، نروان حاصل ہو جاتا ہے۔ البتہ اس فرد کی مسلسل بدلتی ہوئی ہستی اور ذہنی تسلسل، جس سے اس شخص کی انفرادی ہستی عبارت ہے، دائمی طور پر نروان پانے کے بعد بھی باقی رہتی ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کالچکر تحریریں مہایان بدھ مت کی شاخ ہیں اور مہایان بدھ مت کے مطابق ہر شخص، ہر فرد اس معنی میں مستقل نہیں ہے کہ وہ ساکت و جامد ہے۔ اسی طرح وہ عارضی ہونے کے معنی میں غیر مستقل بھی نہیں ہے۔ مزید براں ہر فرد ہر شخص کی ہستی سمسار میں اس معنی میں دائمی نہیں ہے کہ وہ ابدی ہو اور نہ کسی فرد کی نروانی ہستی عارضی ہونے کے معنی میں غیر دائمی ہے۔
السجستانی کا اسمٰعیلی نظریہ
السجستانی کا یہ بھی دعوی تھا کہ افراد، جن سے یہاں مراد ہے روحیں، اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہیں اور خود یہ ارواح نہ دائمی ہیں نہ ہی عارضی ۔ تاہم اس کے دعوے کی مابعد الطبیعیاتی بنیاد بدھ مت کے نظریے سے خاصی مختلف ہے۔ "نفسِ" کلی بی حرکت ہونے کے معنی میں دائمی نہیں ہے بلکہ یہ تو ہمیشہ حرکت اور تغیر میں رہتا ہے۔ اسی طرح یہ عارضی ہونے کے معنی میں بھی غیر دائمی نہیں ہے، بلکہ اسے ابدی کہنا چاہیے۔
السجستانی کے بقول انسانوں کی انفرادی ارواح اس ایک "نفسِ" کلی کے اجزا یا حصے ہیں۔ جب انفرادی روح کسی انسانی جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کی عارضی جسمانی ہستی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہ اس غیر متمیز "نفسِ" کلی کی طرف لوٹ جاتی ہے اور قیامت کے دن سے پہلے اسے دوبارہ جنم نہیں ملتا۔ ہاں کبھی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بغیر جسم کی انفرادی روح کسی طرح اپنی انفرادیت برقرار رکھے۔ حشر اور روز حساب کا وقت آنے پر انفرادی روح کو ابدی جنت کی ذہنی لذتوں تک رسائی مل جاتی ہے اگر اسے اس زمانے میں حق کا علم کافی حد تک ہو چکا ہو جب وہ ایک جسم کے اندر تھی اور ایک عقلِ انفرادی سے منسلک تھی۔ دوسری طرف اگر یہ انفرادی روح اس وقت جسمانی اور مادی لذتوں ہی میں سرمست رہی ہو جب یہ کسی جسم کے اندر تھی اور حق کا عقلی علم حاصل نہ کیا ہو تو اسے دوزخ میں ہمیشہ کے لیے ذہنی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پس انفرادی روح دائمی نہیں ہے، اس معنی میں دائمی نہیں ہے کہ یہ ابدی طور پر جسم میں قید نہیں رہتی۔ لیکن یہ غیر دائمی بھی نہیں ہے۔ کیونکہ حشر اور حساب کتاب کے بعد اسے ہمیشگی مل جاتی ہے اور جسم میں رہتے ہوئے اس نے جو عمل کیے ہوں اس کی ذمہ داری اٹھانا پڑتی ہے۔
خالقِ کائنات کیا ہے
بدھ مت ایک ایسے قادر مطلق خالقِ کائنات کا قائل نہیں ہے جو دنیا اور اس میں ہونے والی ہر چیز کو اپنی منشا کے مطابق چلا رہا ہے۔ اسی طرح بدھ مت کے عقیدے کے مطابق کائنات یا نوع انسانی کے افراد کا کوئی مطلق آغاز یا مطلق انتہا نہیں ہے۔ ہاں کالچکر تحریروں میں بار بار ایک ابدی، انفرادی، روشن-صاف ذہن کا ذکر آتا ہے جو ہر ہستی کے اندر ہے۔ کرموں کا یہ پھل جو ہر شخص نے اپنے سابقہ رویے سے پایا ذہن کے اس سب سے گہری سطح پر سمسار اور نروان کے ظواہر پیدا کرتا ہے جو اس شخص کو انفرادی طور پر اور داخلی طور پر تجربہ کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ ذہن کی یہ روشن-صاف سطح وہ سارے امکانات رکھتی ہے جس سے ہر ہستی ایک روشن ضمیری یافتہ بدھ بن سکتی ہے اس لیے کالچکر تحریروں میں اسے آدی-بدھ کا نام دیا گیا ہے، یعنی پہلا یا پراچین بدھ، "پہلا" بہ معنی بدھیت کے پہلے اور سب سے گہرے مآخذ کے ہیں۔
انڈونیشی ریاست کی فلسفیانہ بنیاد کی تشکیل جن پانچ اصولوں (پنکاسیلہ) سے ہوتی ہے اس کا پہلا اصول ہے خدائے واحد و یکتا پرایمان۔ اس اصول سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے انڈونیشیا کے بدھ مت والوں نے یہ دعوی کیا کہ آدی-بدھ ہی بدھ مت میں خدا کا مترادف ہے۔ آدی-بدھ اگرچہ اس معنی میں ایک قادر مطلق خالق کائنات اور فیصلہ کرنے والا نہیں ہے جس میں اللہ تعالی ہے تاہم ہر شخص کی صاف روشن ذہنی سطح میں کچھ اوصاف ایسے ہیں جو السجستانی کی بیان کردہ صفات کے مطابق ہیں۔ اللہ کو یا آدی-بدھ کو جاننے کے لیے ہمیں پہلے اس سے سب صفات کی نفی کرنا ہوتی ہے اور پھر اس نفی کی بھی نفی کرنا ہوتی ہے۔ دونوں ہی، الفاظ اور تصورات سے ماوراء ہیں۔ السجستانی کے ہاں اس عمل سے اللہ تعالی کی تنزیہ مطلق، اس کے ذات بے ہمتا ہونے کا اثبات ہے جب کہ کالچکر میں اس سے یہ چیز مستحکم ہوتی ہے کہ روشن-صاف ذہن ان تمام ذہنی سطحوں سے الگ اور بلند ہے جو ہستی اور عدم ہستی کے تصورات قائم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلامی تصور یہ ہے کی اللہ کو کبھی بھی کسی صورت شکل میں نہیں دیکھا جا سکتا جبکہ اس کے برعکس کالچکر میں یہ درج ہے کہ آدی-بدھ کو چار چہروں اور چوبیس ہاتھوں والی کالچکر بدھی شبیہ کی صورت میں دکھایا جاتا ہے۔
خلاصہ
مختصر یہ کہ اگر بدھ مت کی کالچکر تحریروں اور اسمٰعیلی ماہر الہیات السجستانی کی ما بعد الطبیعی نظریات کی گہرائی میں جا کر جائزہ نہ لیں تو دونوں نظام عقائد اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ کوئی بھی شخص یا روح نہ تو دائمی ہے نہ غیر دائمی، لیکن اس کے باوجود اس کے اعمال کی ذمہ داری اس پر عاید ہوتی ہے۔ دونوں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ابدی خوشی حاصل کرنے کے لیے اخلاقی طرز عمل اور حق کے علم کا ناگزیر کردار ہے، چاہے یہ خوشی نروان میں حاصل ہو یا ہمیشہ رہنے والی جنت میں جا کر نصیب ہو۔یہ وہ باتیں ہیں جن پر دونوں مذہب متفق ہیں اور ان سے وہ راستہ نکلتا ہے جسے آج بھی اسلام- بدھ مت تعاون اور ہم آہنگی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بدھ مت اور اسلام کے موجودہ روابط
اس وقت سات بڑے علاقے ایسے ہیں جہاں مسلمان اور بدھ مت کے پیروکار یا تو اکٹھے رہتے ہیں یا ایک دوسرے کے قریب آباد ہیں اور وہاں ان کے ایک دوسرے سے لین دین اور تعلقات ہیں۔ یہ علاقے تبت، لدّاخ، جنوبی تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈونیشیا، برما/میانمار اور بنگلہ دیش ہیں۔ تاہم ان ساتوں علاقوں میں دونوں مذاہب کے باہمی تعلقات پر بنیادی اثرات ان کے مذہبی عقاید کے نہیں بلکہ اقتصادی اور سیاسی عوامل کے ہیں۔
تبت
تبت کی مقامی بدھ آبادی اور صدیوں سے اقامت پزير کشمیری مسلمانوں کے باہمی تعلقات اچھے رہے ہیں کیونکہ ان کی بنیاد پانچویں دلائی لامہ کی تشکیل دی ہوئی پالیسیوں اور لائحہ عمل پر تھی۔ آج بھی مسلمان تبتوں کو تبت میں اور اس سے باہر دوسرے تبتی لوگوں کی طرف سے تبت کے باشندوں کے طور پر پوری طرح قبول کیا جاتا ہے اور وہ ہندوستان میں مقیم تبت کی جلا وطن آبادی کے ایک لازمی جزو کے طور پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
دوسری طرف تبت کی بدھ آبادی اور چین کے ھُوِئی مسلمانوں کے درمیان خاصے سنگین مسائل پائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں گروہ صدیوں سے تبت کے روایتی شمال مشرقی علاقے امدو میں اکٹھے رہتے چلے آۓ ہیں جو آج کے عوامی جمہوریہ چین کے چنگھائی اور گانسو صوبوں میں بٹا ہوا ہے۔ ھُوِئی جنگجو سرداروں نے اگرچہ بعض اوقات اس علاقے کے بعض حصوں پر اپنا قبضہ جمائے رکھا لیکن یہاں رہنے والے مسلمانوں اور بدھ مت والوں نے مل کر زندگی گزارنے کا ایک اچھا راستہ نکال لیا تھا۔ البتہ گذشتہ چند دہائیوں میں عوامی جمہوریہ چین کی حکومت نے تبت کی سر زمین کو معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے والی جگہ کے طور پر خاصا مشہور کیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ھُوِئی تاجروں نے بڑی تعداد میں صرف امدو ہی نہیں بلکہ روایتی تبتی علاقوں میں بھی آباد ہونا شروع کر دیا ہے جن میں مرکزی تبت (خود مختار تبتی علاقہ) شامل ہے۔ تبت کے مقامی باشندے ان نوواردوں کو ایسے غیر ملکیوں کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے مقابلے میں اتر آۓ ہوں اور یوں وہ انہیں ناگواری سے دیکھتے ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین کے ان روایتی تبتی علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں اور بودھوں دونوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے میں شدید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مرکزی تبت کے علاقے میں تو خاص طور پر عوام کے لیےمذہبی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی راستہ ہی نہیں چھوڑا گیا۔ سو ان دونوں مذہبی گروہوں کے درمیان جو بھی چقپلش ہے وہ مذہبی اختلافات کی وجہ سے نہیں ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ نئے آبادکار لوگ مسلمان ہیں بلکہ یہ کہ وہ چین سے وارد ہو رہے ہیں اور مقامی آبادی کی اقتصادی فلاح و بہبود کے لیے خطرہ بن گئے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مذہبی مکالمہ اور باہمی تعاون بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ عوامی جمہوریہ چین کے حکمران ثقافتی اختلافات کو ہوا دیتے رہتے ہیں تاکہ ان دونوں میں پھوٹ ڈال کر ان کو اپنے قبضے میں کیے رہیں۔
لدّاخ
لدّاخ آج کل ریاست جموں کشمیر کے بھارتی حصے کا جزو ہے۔ اس میں تبت کی بدھ آبادی بھی موجود ہے۔ لدّاخ میں رہنے والے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہمسائے یعنی ریاست کے کشمیری حصے کے مسلمان باشندوں کی زیادہ توجہ کشمیر کے مستقبل کے بارے میں ہندو مسلم سیاسی کشمکش پر مرکوز ہے اور وہ یہ طے کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں شامل ہو جائیں، ہندوستان کے ساتھ رہیں یا آزاد ریاست بنا لیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ کشمیر اور تبت کے درمیان روایتی تجارتی راستہ جو لدّاخ سے ہو کر گذرتا تھا، تبت پر چینی کمیونسٹ قبضے کی وجہ سے بند ہو چکا ہے۔ اس لیے کشمیر کے مسلمان تاجروں کا نہ تو تبت کی بدھ آبادی سے کوئی رابطہ باقی رہا ہے اور نہ وہاں کی بڑھتی ہوئی مسلمان آبادی سے۔
لداخ کے مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں میں جھگڑا زیادہ تر اس وجہ سے بڑھ جاتا ہے کہ دونوں ترقیاتی امداد حاصل کرنے میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ تبت میں تو اب بدھ مت کی کوئی زندہ روایت رہی نہیں سو مغربی سیاح گروہ در گروہ لدّاخ کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ تبتی بدھ مت کو اس کی روایتی صورت شکل میں عملاً دیکھ سکیں۔ سیاحوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر ہندوستانی اور بین الاقوامی اداروں نے ترقیاتی منصوبے بنا کر ان کے لیے امداد دینا شروع کر دی۔ ریاست کے کشمیری حصے میں چونکہ حالات بگڑے رہتے ہیں لہذا ترقیاتی منصوبوں کے سلسلے میں ادھر توجہ بہت کم دی جاتی ہے۔ قدرتی بات ہے کہ اس سے بہت سے کشمیری مسلمان ان امدادی منصوبوں کو نا پسند کرتے ہیں جو لدّاخ کے حصے میں آ رہے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ ان حالات میں اسلام اور بدھ مت کا بین المذہبی مکالمہ مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کوئی اہم کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔
جنوبی تھائی لینڈ
جنوبی تھائی لینڈ کی بڑی آبادی مسلمان ہے جو باقی تھائی لینڈ کی بدھ آبادی کے مقابلے میں ملیشیا کے مسلمانوں سے زیادہ قریب ہے۔ اس علاقے میں جو بھی کشمکش ہے اس کا تعلق مسلمانوں کی اس خواہش سے ہے کہ انھیں زیادہ سے زیادہ سیاسی خود مختاری ملے۔ مذہبی معاملات کا اس کشاکش سے کوئی تعلق نھیں معلوم ہوتا۔
برما/میانمار
برما/میانمار کی شمال راکھین ریاست اراکان کی ایک تہائی آبادی مسلمان ہے۔ باقی بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ یہ دونوں گروہ الگ الگ نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ٩٢-١٩٩١ء کے درمیان ان میں سے ڈھائی لاکھ مسلمان جو روہنگیہ کہلاتے ہیں مہاجرین کے طور پر بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ لیکن ان کے فرار کی وجہ حکومت کا ظلم و ستم اور ان سے امتیازی سلوک کا رویّہ تھا۔ برما کی فوجی حکومت سرکاری طور پر خود کو بدھ مت کا پیرو کار کہتی ہے اور اسی کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کی نظر میں یہ مسلمان آبادی غیر ملکی آباد کار ہیں۔ نتیجہ یہ کہ ان کو ملک کا شہری نہیں مانا جاتا، ان کی نقل و حرکت پر پابندی ہے – ان کے لیے تعلیم اور روزگار کے مواقع محدود کر دیے گئے ہیں۔١٩٩٥ء میں اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین نے ان مسلمان مہاجرین میں سے ٩٤٪ کی رضا کارانہ واپسی کے لیے امداد فراہم کی- انھیں ابھی تک انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی جا رہی ہے اور اب کہیں جا کر آہستہ آہستہ ان میں سے کچھ لوگوں کو حکومت کی طرف سے شناختی دستاویزات جاری ہونا شروع ہوئی ہیں۔ بدھ مت والوں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف بلوہ فساد البتہ اب بھی ہوتا رہتا ہے۔ مسلمان حکومت کو الزام دیتے ہیں کہ فسادات حکومت کرواتی ہے اور فسادیوں کو شہ دیتی ہے۔ دونوں مذاہب اور دونوں نسلی گروہوں کے درمیان اس تناوٴ کی جڑ یہ ہے کہ برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے دور میں بدھ مت کے پیروکاروں کے مقابلے میں دوسروں سے ترجیحی سلوک کیا جاتا تھا۔ موجودہ فوجی حکومت جو بدھ مت والوں سے یہ ترجیحی سلوک کر رہی ہے تو اسے اُس پرانے دور کا رد عمل کہا جاسکتا ہے۔ جب تک حکومت کی پالیسی تبدیل نہیں ہوگی اس وقت تک برما/ میانمار میں مسلمانوں اور بدھ مت والوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ختم ہونا مشکل ہے اور صرف مذہبی مکالمے سے اسے طے نہیں کیا جا سکتا۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش کی صرف ایک فی صد آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے، بڑی اکثریت مسلمان ہے۔ بدھ مت والے زیادہ تر ضلع چٹاگانگ اور چٹاگانگ کے پہاڑی علاقے میں آباد ہیں۔ ١٩٨٨ء میں بنگلہ دیش کے آئین میں ایک ترمیم کی گئی جس کے تحت ملک میں ایک "اسلامی طرز حیات'' کو فروغ دینے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے بعد سے حکومت کے اندر سیکولر اور مذہبی گروہوں میں باہمی تناوٴ بڑھ گیا ہے۔ ٢٠٠١ء سے شروع ہونے والی "دہشت گردی کے خلاف جنگ" نے صورتحال کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں نے بنگلہ دیش کی اسلامی بنیاد پرستی کو کچھ اور ہوا دی ہے اور اس سے بدھ مت والوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں کو پہلے سے زیادہ سختیوں کاسامنا کرنا پڑ رھا ہے۔
ملیشیا اور انڈونیشیا
ملیشیا اور انڈونیشیا دونوں ملکوں کی آبادی کی اکثریت مسلمان ہے اور ان میں کہیں کہیں بدھ مت والوں کی آباد یاں ہیں جو زیادہ بیرون ملک سے آ کر بسنے والے چینی ہیں یا جنوب مشرقی ایشیا کے باشندے ہیں۔ بودھ اور مسلمان طبقے اپنے اپنے مذہب کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ دراصل ملیشیا میں ان لوگوں پر سخت قانونی پابندی ہے جو نسلی طور پر ملیشیائی ہیں۔ وہ نہ تو اسلام چھوڑ کر بدھ مت قبول کر سکتے ہیں نہ انہیں بدھ مت کی کسی تعلیم یا تہوار وغیرہ میں شامل ہونے کی اجازت ہے۔ دونوں ملکوں میں بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں میں اصل مقابلہ اقتصادی میدان میں ہے اور اسی سے کشاکش جنم لیتی ہے۔
نتیجہ
تبت، لدّاخ، جنوبی تھائی لینڈ، برما/میانمار، بنگلہ دیش، ملیشیا اور انڈونیشیا میں بدھ مت کے پیروکاروں اور مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات کا فروغ اورا یک دوسرے سے مکالمے کی فضا پیدا کرنا اہم بھی ہے اور اس کے بہت سے فائدے ہیں۔ اس سے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے مابین پائے جانے والی آویزش کو دور کیا جا سکتا ہے اور اس میں کمی آ سکتی ہے خواہ اس میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ سیاسی اور اقتصادی مسائل حل ہو سکیں جو اس کمشکش کو جنم دیتے ہیں۔ سو، بدھ مت اور اسلام کے باہمی تعاون اور افہام و تفہیم کی بنیادی ذمہ داری کا دارومدار دونوں مذاہب کے مذہبی رہنماوٴں کے کوششوں پر رہ جاتا ہے اور یہ سب اس سیاق و سباق اور ماحول سے الگ ہے جس میں مسلمان اور بدھ آبادیوں کو آج کی دنیا میں اپنی زندگی اصل میں بسر کرنی پڑتی ہے۔
اسلام اور بین المذاہب ہم آہنگی کے بارے میں تقدس مآب دلائی لامہ کا نقطہٴ نظر
تقدس مآب چودھویں دلائی لامہ برسوں سے دنیا کے کتنے ہی حصوں میں منعقد ہونے والے بین المذاہب گفتگو کی مجالس میں دوسرے مذاہب کے مذہبی رہنماوٴں سے بار بار ملتے رہے ہیں۔ دلائی لامہ کا پیغام اس سلسلے میں بالکل صاف ہے۔ دلائی لامہ نے نئی دہلی کے بیرونئ نامہ نگاروں کے پریس کلب میں ٨، اکتوبر ٢٠٠٦ء کو ایک پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس کے بعد ایجنسی فرانس پریس نے درج ذیل رپورٹ جاری کی:
دلائی لامہ نے تنبیہ کی ہے کہ اسلام کو ایک تشدد پسند مذہب کے طور پر پیش نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغرب میں ستمبر١١ کے حملوں کے بعد سے مسلمانوں کو بے جا طور پر برا بنا کر دکھایا جا رہا ہے۔ مذہبی روا داری کو فروغ دینے کے لیے دنیا میں بدھ مت کے سب سے با اثر رہنما نے اتوار کو یہ بیان دیا کہ 'مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان تہذیبی تصادم کی بات غلط بھی ہے اور خطرناک بھی۔' مسلمان دہشت گردوں کے حملوں نے لوگوں کے ذہن میں اسلام کاتصور بگاڑ دیا ہے اور وہ اس خیال کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ اسلام ایک انتہا پسند مذہب ہے جب کہ اس کی بنیاد تو دردمندی پر ہے... ہر مذہب میں انتہا پسند پائے جاتے ہیں اور '(مسلمانوں کے بارے) اس بات کو قاعدہ کلیہ بنا لینا درست نہیں۔ یہ (دہشت گرد) لوگ اس سارے دین کے نمائندے کیونکر ہو سکتے ہیں'... دلائی لامہ نے کہا کہ انھوں نے اسلام کا دفاع کرنے کا بیڑا اس لیے اٹھایا ہے کہ وہ مذہب کے بارے میں لوگوں کے خیالات کو نئی شکل دینا چاہتے ہیں۔
اسی بات کو دلائی لامہ نے ایک اور کانفرس میں دہرایا جو پراگ، چیک جمہوریہ میں فورم ٢٠٠٠ کی طرف سے دس اکتوبر ٢٠٠٦ء کو ہوئی تھی۔ اس کا عنوان تھا "عالمگیریت کے خطرات: کیا مذاہب اس کا حل پیش کر سکتے ہیں یا مذاہب خود اس کا ایک سبب ہیں"۔ ان کا کہنا تھا کہ
آج کی طرح، ماضی میں بھی مذہب کے نام پر بٹوارہ ہوتا تھا اور اس پر قابو پانے کے لیے مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کا سلسلہ متواتر جاری رہنا چاہیے... اگر آپ کو سچ مچ یقین ہے کہ آپ کا مذہب خدا نے بھیجا ہے تو پھر آپ کے لیے یہ ماننا بھی لازم ہے کہ دوسرے مذاہب بھی خدا کے ہی بنائے ہوئے ہیں۔
اس بیان میں دلائی لامہ وہی بات کہہ رہے ہیں جو شمالی امریکی اسلامک سوسائٹی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر سید ایم سعید نے کہی تھی۔ سان فرانسسکو، کیلی فورنیا میں ١٥ اپریل ٢٠٠٦ء میں ایک بین المذاہب مجلس منعقد ہوئی تھی جس کا عنوان تھا۔ "اہل دل کی محفل، دردمندی پر روشنی ڈالنے کے لیے" جس میں دلائی لامہ بھی شریک محفل تھے۔ وہاں ڈاکٹر سعید نے کہا تھا کہ
قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ اگر اللہ کی مرضی ہوتی تو سارے انسان ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہو جاتے۔
بدھ مت اور اسلام، ہم آہنگی کے وسیلے کے طور پر کالچکر عطاء اختیار کا عصری کردار
اسلام اور بدھ مت مکالمے کی ترقی اور نشوونما کی ایک قابل توجہ ضمنی سر گرمی وہ بھی ہے جو کالچکر عطاء اختیار فراہم کرتی ہے کہ وہاں لوگ اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے بارے میں جانتے ہیں۔ مثال کے طور پر شہزادہ صدرالدین آغا خان نے مہمان خصوصی کے طور پر جولائی ١٩٨٥ء میں ریکون سوئٹزرلینڈ میں منعقد ہونے والی مجلس پیمان میں شرکت کی جہاں دلائی لامہ نے کالچکر کے عطاء اختیار دئیے۔ شہزادہ صدر الدین مرحوم، تقدس مآب شہزادہ کریم آغا خان چہارم، کے چچا تھے اور شہزادہ کریم اسمٰعیلی شیعہ حضرات کی نزاری شاخ کے روحانی سربراہ تھے۔ سات سال بعد کینیا، مغربی افریقہ کے ایک گدی نشین صوفی مذہبی رہنما ڈاکٹر ترمذیاوٴ دیالو نے کالچکر کی عطاء اختیار میں شرکت کی جب یہ مجلس اکتوبر ٢٠٠٢ء میں گراتس، آسٹریا میں منعقد کی گئی تھی۔
اس کے علاوہ ایک اور واقعہ ہوا کہ جنوری ٢٠٠٣ء میں جب کالچکر عطاء اختیار بودھ گیا، ہندوستان میں ہو رہی تھیں اور یہ جگہ بدھ مت کی ساری دنیا میں سب سے مقدس مقام سمجھا جاتا ہے۔ ان کے دوران دلائی لامہ اس مسجد میں بھی گئے جو مرکزی ستوپ کےقریب واقع ہے۔ اس کی سرکاری رپورٹ دھرمشالہ ہندوستان کے اطلاعات اور مرکزی تبتی انتظامیہ کے بین الاقوامی امور کے محکمے نے جاری کی جو کچھ یوں تھی:
مسجد کے امام مولانا محمد شہیر الدین نے دلائی لامہ کا استقبال کیا۔مولانا اس مسجد کے ساتھ ملے ہوئے مدرسے کے نگران بھی ہیں۔ طلباء اور اساتذہ سے خطاب کرتے ہوئے دلائی لامہ نے فرمایا کہ یہ درست ہے کہ ہم مختلف مذہبوں کے پیروکار ہیں لیکن بنیادی طور پر ہم سب ایک سے انسان ہیں۔ ساری مذہبی روایتیں ہمیں اچھے انسان بننے کی تعلیم دیتی ہیں۔ ہمیں یہ منزل خود اپنی محنت سے حاصل کرنا ہے۔
عالمگیر ذمہ داری، بدھ مت اوراسلام کے ما بين تعاون کی بنیاد کے طور پر
دلائی لامہ نے اس بات پر اکثر زور دیا ہے کہ مذاہب کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی، خواہ مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان ہو یا دنیا کے تمام مذاہب کے درمیان، اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد ان سچائیوں پر رکھی جائے جو ہر مذہبی گروہ کے اپنے اپنے نظام میں مانی جاتی ہیں۔ ان میں سے دو حقائق یہ ہیں کہ ہر آدمی خوش رہنا چاہتا ہے اور دکھ سے بچنا چاہتا ہے اور ساری دنیا میں ایک ربط باہمی ہے اورسب کا ایک دوسرے پر دارومدار ہے۔ جیسا کہ ہم نے کالچکر تحریروں کے سلسلے میں لکھا تھا اسلام اور بدھ مت میں کئی مشترک تعلیمات ہیں مثلاً یہ کہ ہر فرد اپنے کیے کا ذمہ دار ہے۔ دونوں مذاہب میں ان دونوں مقولوں کی فلسفيا نہ تشريح مختلف رہی ہے۔ بدھ مت نے ان دو نکات کی وضاحت منطق کے حوالے سے کی ہے جب کہ اسلام اس کی شرح اس پہلو سے کرتا ہے کہ خدا کی ساری مخلوق برابر ہے۔ اس کے باوجود ہمیں دونوں مذاہب سے ایک سی آواز بلند ہوتی نظر آتی ہے اور ایک ہی آرزو ملتی ہے جو عالمگیر ذمہ داری کی پالیسی کی تائید کرتی ہے۔
آٹھویں صدی عیسوی کے ہندوستانی بدھ گرو شانتی دیو نے اپنی کتاب "بودھی ستوا رویہ اختیار کرنا" [10] میں لکھا ہے:
جس طرح بدن کے کئی حصے ہیں، ہاتھ پاوٴں وغیرہ، اور اس کے ساتھ ہم سارے بدن کی دیکھ بھال کرتے ہیں، اسی طرح دھرتی پر پھیلی مخلوق بھی مختلف ہے اور اس رنگا رنگی کے باوجود خوشی اور تکلیف کے لحاظ سے یہ سب میرے برابر ہیں کیونکہ سب خوش رہنا چاہتے ہیں اور یوں سب مل کر ایک کُل بناتے ہیں۔
نعمان ابن بشیر الانصاری نے ایک حدیث روایت کی ہے۔ اس میں رسول خدا نے بھی یہی بات فرمائی ہے:
ایک دوسرے کے لیے دردمندی اور شفقت میں مؤمنين کی مثال ایک جسم کی سی ہے۔ اگر کسی ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم بخار اور بےخوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ان تعلیمات کی بنیاد پر بدھ مت اور اسلام کے روحانی رہنماوٴں ہی کی نہیں بلکہ دونوں مذاہب کے ماننے والے عام لوگوں کی شرکت سے ہونے والی مسلسل کوششوں سے مسلمانوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے مابین مذہبی ہم آہنگی اور عمومی طور پر دنیا کے تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے امکانات امید افزا کہے جا سکتے ہیں۔
[1] "مختصر راجائی کالچکر تنتر۔" باب ۱، شعر۱۵۳۔
[2] "کالچکر تحریریں۔" باب ۱، شعر۱۵۲۔
[3] "مختصر راجائی کالچکر تنتر۔" باب ۲، شعر۱۶۴سی ڈی۔
[4] "مختصر راجائی کالچکر تن تر۔" باب ۱، شعر۱۵۳۔
[5] "مختصر راجائی کالچکر تنتر۔" باب ۲، شعر۴۸-۵۰۔
[6] "مختصر راجائی کالچکر تنتر۔" باب ۲، شعر۱۷۴۔
[7] "مختصر راجائی کالچکر تنتر۔" باب ۱، شعر۱۵۸۔۱۶۶۔
[8] "مختصر راجائی کالچکر تنتر۔" باب ۲، شعر۴۸-۵۰ اے بی۔