تبتی علمِ نجوم: تاریخ اور سلسلے

تاریخ

چینی فلکیاتی مادے ھندوستانی نژاد مادوں سے قبل تبت پہنچے۔ یہ ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں ہوا، عظیم تبتی سلطنت کے بانی شہنشاہ سونگتسن گامپو کے زمانہ میں۔ اس کے حرم میں چینی اور نیپالی شہزادیاں موجود تھیں جن میں سے اول الذکر تبت میں اپنے ہمراہ چینی فلکیاتی اور طبی متون لائی تھی۔ چند سالوں کے اندر تبتی دربار نے سالوں کے نام کا تعین بارہ جانوروں کے نشانوں سے شروع کر دیا اگرچہ فی الحال چونسٹھ سالہ دور استمعال نہیں کیا۔ اگلی دو صدیوں تک یہ نظام تبت میں تقریباً بلا شرکت غیرے استمعال ہوتا رہا۔

نویں صدی عیسوی میں عمومی ثقافتی زوال کے ایک عرصہ کے بعد دسویں صدی کے شروع سے مشرقی ترکستان میں واقع ختن کے علاقہ سے چینی فلکیاتی علوم کے اثرات کی ایک نئی لہر در آئی۔ تبتی استاد دھرمکار نے اس کی گزشتہ زمانہ کے مادوں میں سے جو کچھ انہیں اور دوسروں کو یاد تھا اور جو کہ فاسد ہو چکا تھا، اس کے ساتھ آمیزش کر دی۔ انہوں نے عنصری حساب کی ایک نئی معتبر قسم بنائی جس میں اب موت، شادی، مشکلات، زائچہ بندی اور علمِ رمل شامل تھا۔ گیارہویں صدی میں تبت میں ساٹھ سالہ عنصر جانور دور کا استمعال عام تھا۔

موجودہ دور کی تبتی تقویمیں بھی شاہی سال کا نمبر مہیا کرتی ہیں۔ یہ ان سالوں کا شمار ہے جو کہ اولین تبتی بادشاہ نیاٹری تسنپو کی سن ۱۲۷ قبل مسیح میں تخت نشینی سے شروع ہوئے۔

تبت میں ھندوستانی فلکیاتی مادہ کی شروعات کالچکر تنتر کی آمد کے ساتھ ہوئیں۔ مختلف مترجمین اور اساتذہ نے گیارہویں سے تیرہویں صدی کے درمیان کئی مرتبہ بنیادی کالچکر متون کا سنسکرت سے ترجمہ اور ان کا تبت میں انتشار کیا۔ ان متون نے کاگیو اور ساکیہ روایات میں اہمیت اختیار کی اور ان پر مختلف شرحیں لکھی گئیں اور ہندوستانی اور چینی اساتذہ کے وضع کردہ نقوش کو جمع کر کے ایک امتیازی تبتی فلکیاتی روایت کی بنیاد ڈالی گئی۔

سالوں کے شمار کے لیے مشتری کا ساٹھ سالہ دور،کالچکر اور ہندو نظاموں میں مشترک ہے۔ اسےاس کے اولین برس کی نسبت سے 'رابجُنگ' یعنی معروف دور کہا جاتا ہے۔

تبتی تقویم کے 'معروف' ساٹھ سالہ دور کا اولین سال، کہ جسے تبت میں کالچکر کے آغاز کی با ضابطہ تاریخ سمجھا جاتا ہے، کالچکر ادب میں موجود وہ مشہور سالوں کا شمار ہے یعنی 'آتش فضا سمندر' جو کہ ۶۲۴ عیسوی میں مسلمان دور کے آغاز کے بعد سے ہے اگرچہ یہ دور در حقیقت ۶۲۲ عیسوی میں شروع ہوا۔

کالچکر اور مختلف ہندو نظام دونوں نمبروں کی وضاحت ناموں سے کرتے ہیں جن سے مراد بین الہندی نظام کا شمار ہوتا ہے اور ان کی فہرست اکائی، دہائی، سینکڑہ وغیرہ میں دی جاتی ہے۔ تین آتش ہیں، فضا صفر کی مانند خالی ہے اور چار عدد سمندر ہیں۔ پس 'آتش فضا سمندر' سے مراد ۶۲۴ کے ۴۰۳ سال بعد یعنی کہ ۱۰۲۷ عیسوی ہے۔

جب کالچکر کے 'معروف' ساٹھ سالہ دور کو چینی عنصری جانور ساٹھ سالہ دور سے ہم آہنگ کیا گیا تو سن ۱۰۲۷ عیسوی چینی دور کے آغاز سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ چینی دور ہمیشہ 'لکڑی نر چوہے' سال سے شروع ہوتے ہیں جبکہ یہ 'آگ مادہ خرگوش' دور کا چوتھا برس تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تبتی ساٹھ سالہ دور کا آغاز 'آگ مادہ خرگوش' سال سے ہوتا ہے اور بارہ جانوروں کی ترتیب خرگوش سے شروع ہوتی ہے نہ کہ چوہے سے۔ پس دونوں نظاموں کے ادوار میں تین برس کا فرق ہے یعنی موجودہ ستارہواں تبتی برس ۱۹۸۷ عیسوی میں شروع ہوا جبکہ موجودہ ستائیسواں چینی دور ۱۹۸۴ عیسوی میں شروع ہوا تھا۔

اگرچہ پہلے 'معروف' ساٹھ سالہ دور کا آغاز ۱۰۲۷ عیسوی میں ہوا، تبت میں کالچکر تقویم نے تیرہویں صدی کے آخر میں غلبہ پایا۔ تاہم عوام سالوں کو ان کے عنصر جانور ناموں سے یاد رکھتے تھے جیسا کہ اب بھی کرتے ہیں، نہ کہ ان کے 'معروف' دور کے ناموں سے۔ تاہم، تقویم کا ریاضی حساب کالچکر نظام سے تھا۔

ابتدائی ساکیہ استاذہ اور فلکیاتی علوم کے مؤلفین میں سے ایک چوگیال پاگپا تھا جو کہ تیرہویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں پیدا ہوا۔ وہ چین کے منگول حکمران قبلائی خان کا اتالیق بھی تھا اور کہا جاتا ہے کہ تبتی بدھ مت کو منگولیا لے جانا کا سہرا بھی اس کے اور اس کے عم، ساکیہ پنڈت کے سر پر ہے۔ کیونکہ وہ کالچکر تعلیمات کا ایک مشہور استاد تھا اس لیے بلا شک تبتی فلکیاتی مادہ کی ترسیل بھی چوگیال پاگپا نے کی۔ مزید از آن، کالچکر تقویم کی تبت کی سرکاری تقویم بننے کی وجہ بھی غالباً یہ تھی کہ قبلائی خان سے شروع ہو کر منگول حکمرانوں نے جو کہ یوان خاندان کے چینی شہنشاہ تھے، پہلے ساکیہ پنڈت اور پھر چوگیال پاگپا کو تبت کا غیر مذہبی حکمران مقرر کیا تھا۔

قبلائی خان کے دادا چنگیز خان نے تیرہویں صدی کی ابتدا میں ویغوروں کے توسط سے سالوں کے لیے بارہ جانوروں کا شمار اپنا کر اسے اپنی سلطنت میں رائج کر دیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق چنگیز خان نے موجودہ دور کے مشرقی گانسو اور اندرونی منگولیا میں واقع تنگوت سلطنت کی فتح کے موقع پر "منگول مہینوں" کی اصطلاح وضع کی جو کہ چینی مہینوں کے مطابق تھے اور ان کا قائم مقام تھے۔

جب چنگیز کے جانشینوں نے اسی صدی کے وسط میں منگول سلطنت میں تبتی تقویم رائج کی تو انہوں نے منگول مہینوں کو کالچکر مہینوں کے مطابق بنا دیا بجائے چینی مہینوں کے جو کہ خاصے مختلف ہیں۔ تاہم انہوں نے چینی روایت کے مطابق، اولین منگول مہینہ کو سال کی ابتدا قرار دیا اگرچہ یہ اولین کالچکر مہینہ سے دو ماہ قبل ہے۔ اس کو تبت میں بھی قبول کر لیا گیا۔ نتیجتاً تمام منگول سلطنت میں سال کی ابتدا کے بارہ میں نسبتاً یکسانیت تھی۔ تاہم چینی اور تبتی نئے سال ہمیشہ ہم آہنگ نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں نظام لوند کے مہینوں کو جمع کرنے اور ہر مہینہ کے آغاز اور اختتام کا حساب لگانے کے لیے مختلف ریاضی فارمولے استمعال کرتے ہیں۔ تبت میں منگول مہینوں کو تبتی مہینے بھی کہا جاتا ہے اور دونوں اصطلاحات استمعال ہوتی ہیں۔

تبتی فلکیاتی علام کے سلسلے

آج تبتی فلکیاتی علوم کے دو عدد سلسلے موجود ہیں: 'تسورپو' اور 'پوگپا'۔ اول الذکر کا ماخذ ابتدائی چودہویں صدی کی کالچکر تفسیریں ہیں کہ جنہیں تسورپو خانقاہ کے تیسرے کارماپا رانگجونگدورجے' نے تحریر کیا۔ یہ سلسلہ جو کہ محضکرم کاگیو روایت میں پایا جاتا ہے اور سورج اور چاند کے مقامات کا حساب لگانے کے لیے خلاصہ نظام استمعال کرتا ہے جبکہ سیاروں کے لیے کامل راسخ عقیدہ نظام۔

تسورپو نظام سے ماخوذ ہی 'چتوپیِٹھکالچکر حسابی نظام' ہے۔ اسے سولہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ڈروگچنپدمکارپونے شروع کیا۔ کیونکہ ڈروگپا کاگیو روایت اور بھوٹانی اس نظام کے پیرو ہیں اس لیے اسے بھوٹانی حسابی نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کالچکر اور چتوپیِٹھ یعنی 'چار نشست تنتر' کے مادوں کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اس میں اور تسورپو میں اہم فرق یہ ہے کہ یہ نظام حساب شدہ قمری ہفتہ کے دنوں کو بطور گزشتہ تاریخ کے لیتا ہے نہ کہ بطور موجودہ تاریخ کے۔ مثلاً اگر تسورپو نظام میں ایک مخصوص بدھ کے دن کا حساب نو تاریخ کو ہے تو بھوٹانی نظام میں نو گزشتہ دن ہو گا اور بدھ کا دن دس تاریخ کو سمجھا جائے گا۔ اس کے برعکس، ڈریگونگکاگیوروایت ایک ایسے نظام کی پیروی کرتی ہے جس میں تسورپو اور پوگپا نظاموں کو جمع کر دیا گیا ہے۔

پوگپا نظام یا سلسلہ کی ابتدا پندرہویں صدی عیسوی میں تین اساتذہ سے ہوئی جن سب کے نام میں "گیاتسو" آتا تھا یعنی پوگپالہونڈروبگیاتسو، کئیڈروبنورزنگگیاتسواورتسانگچونگچوڈرگگیاتسو۔یہ چودہویں صدی کے ساکیہ استاد بوتن کی روایت پر مبنی ہے جو کہ کالچکر تنتر کا ایک عظیم مفسر تھا۔ یہ حساب و شمار کےنو تعمیر شدہ راسخ عقیدہ نظام کو اہمیت دیتا ہے۔ ستارہویں صدی عیسوی کے وسط میں 'دیسی سانگیے گیاتسو' نے اپنے متن "سفید آبِ بحر" میں راسخ عقیدہ نظام اور خلاصہ نظام دونوں کو پیش کر کے روایت میں ترمیم کی۔انہوں نے وضاحت کی کہ راسخ عقیدہ نظام کو تقویم اور جنتریوں کے لیے استمعال کیا جائے اور جنتریوں میں گرہنوں کا حساب لگانے کے لیے خلاصہ نظام کا مواد شامل کیا جائے۔ گیلوگ، ساکیہ، نیئنگما، شانگپا کاگیو روایات اور روس کے کلمیکمنگول پوگپا سلسلہ کے پیرو ہیں۔ پس یہ مقبول ترین فلکیاتی نظام ہے۔

وسیع چینی طرز یعنی زرد حساب نے دونوں پوگپا اور تسورپو نظاموں میں نمو پائی۔ جب چین کے چِنگخاندان کے پہلے مانچو شہنشاہ کی دعوت پر دلائی لامہ پنجم ۱۶۵۲ء میں چین گئے تو انہوں نے بیجنگ میں شاہی محل میں روایتی چینی تقویم اور فلکیاتی نظام سے ماخوذ اعلان اور اسناد دیکھے جن سے وہ متاثر ہوئے۔ انہوں نے اپنے ترجمان 'مرگن کاچوپا' کو ان کا علم حاصل کرنے کا حکم دیا۔ تبت واپس آ کر مرگن کاچوپا نے اس وسیع چینی طرز کے حساب پر تیرہ عدد جلدوں کی تدوین کی۔ ان متون کو دلائی لامہ کے پوٹالا محل میں چھپا دیا گیا اور یہ کبھی استمعال نہیں ہوئے۔ دیسی سانگیے گیاتسو، جو کہ دلائی لامہ پنجم کا وزیر تھا، کے مندرجہ بالا متن میں اس زرد نظام کا کوئی ذکر نہیں۔ تاہم اس تقویمی اور فلکیاتی روایت کو شروع کرنے کا اعزاز مرگن کاچوپا کو جاتا ہے۔

اٹھارہویں صدی عیسوی میں تبتوں کے اندر چینی تقویم اور فلکیات کا ایک نیا شوق پیدا ہوا۔ اس کو پروان چڑھانے میں چین کے مانچو شہنشاہ چیانلونگکی حوصلہ افزائی کا بڑا ہاتھ تھا۔ تسورپو سلسلہ سے بارہویں کارماپا اور بعد از آں، تائی سیتو ہشتم نے مانچو شاہی دربار کا دورہ کیا اور مزید ترجموں کا اہتمام۔ پوگپا سلسلہ کے اندر بھی شمال مشرقی تبتی صوبہ امدو کے گیلوگ اساتذہ کو بھی اس موضوع میں خاص دلچسپی تھی خاص طور پر لبرانگ ٹاشیکیل خانقاہ کے فلکیاتی مدرسہ میں۔ انہوں نے کئی متون کا ترجمہ کیا۔ اندرونی منگولیا بھی انہی کے سلسلہ کا پیروکار ہے۔

وسطی تبت کے پوگپا مکتبِ فکر میں زرد حساب کی ایک مختصر قسم ایک متن میں پائی جاتی ہے کہ جسے چیندزو سونگراب نے انیسویں صدی کے اوائل میں تحریر کیا۔گینلوڈروگیاتسو کے اندراج اور مشاہدوں کی بنیاد پر پروفیسور ٹراگٹن نے انیساسیکیدہائیمیںاس نظام کی تدوین کی جو کہ اب دھرمسالہ تبتی طبی و فلکیاتی ادارہ میں پڑھایا جا رہا ہے۔ لہاسا تبتی طبی و فلکیاتی ادارہ کے نظام کی حال میں تسیتنثابڈرونگاور موگے سامتن نے تدوین کی ہے۔

زرد نظام کالچکر تقویم کا حساب استمعال کرتا ہے اور اس طرح اصلی کلاسیکی چینی تقویم کی ساخت سے بالکل مختلف ہے۔ تاہم اس کا دگنے مہینہجمع کرنے کا طریقہ چینی طریقہ سے مشابہ ہے اگرچہ بالکل وہی نہیں۔ دوسرے تبتی اور ھندوستانی نظاموں کے برعکس کہ جن سب میں قمری مہینوں کی دگنی اور محذوف تاریخیں ہوتی ہیں، وسیع چینی طرز کے حساب میں، کلاسیکی چینی نظام کی مانند، یہ نقش موجود نہیں ہے۔زرد نظام میں ہر مہینہ کی ابتدا کی تاریخ ہمیشہ کلاسیکی چینی نظام سے ہم آہنگ نہیں ہوتی اور نہ ہی پوگپا اور تسورپو نظاموں سے۔ اگرچہ اکثر ایسا ہو بھی جاتا ہے۔

اندرونی منگولیا اور وسطی تبت کے پوگپا سلسلوں میں کئی فرق ہیں، مثلاً دگنے مہینے لگانے کے طریقہ میں۔ اندرونی منگولیا کی تقویم کی تنظیم زرد نظام کے مطابق ہے جبکہ وسطی تبت میں اس کا مواد محض پوگپا جنتریوں میں شامل ہے۔ وسطی تبت میں زرد نظام کا اہم مقصد "زمین بیل" حساب کرنا ہے جس سے سال کے موسموں اور عمومی حالات کی پیشگوئی کی جاتی ہے۔

منگولیا کے خلخامنگول اور سائیبیریا کے بُریات اور تُوایبھی پوگپا کی ایک قسم کے پیروکار ہیں جسے "نیا گیدن" یعنی نیا مثبت سلسلہ کہا جاتا ہے۔اس کی ابتدا امدو کے ایک منگورمنگول طب و فلکیات کے استاد سُمپاکنپو یےشےپلجور نے ۱۷۸۶ء میں کی۔ یہ نظام پندرہویں صدی عیسوی کی کئیڈروبجےکی کالچکر تفاسیر کو بنیاد بناتا ہے۔ اکثر حساب پوگپانظام کے قوانین کے تحت ہوتے ہیں اور ساٹھ سالہ ادوار کا بھی وہی شمار ہے۔

تاہم، اگرچہ ساٹھ سالہ معروف دور "آگ مادہ خرگوش" سے شروع ہوتا ہے لیکن ساٹھ سالہ دور کے حساب کا ابتدائی نقطہ "آگ نر گھوڑے" کو تصور کیا جاتا ہے جو کہ اس دور کا چالیسواں سال ہے۔ یہ اس لیے کہ شاکیہمُنیمہاتما بدھ اس برس میں پیدا ہوئے تھے۔ ان اختلافات کی وجہ سے منگول تقویم یگانہ ہے۔

بون نظامِ فلکیات کو "تین تجزیوں کا خالص حساب" کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بونپو بون نظام کو سب سے قدیم جانتے ہیں، کسی بھی بودھی نظام سے قدیم تر، لیکن اس کی متنی تدوینکیونگٹرولجِگمے نامکے دورجے(۱۸۸۰تا ۱۹۵۳ء) نے کی۔ اس نظام میں بیرونی، اندرونی، خفیہ اور مزید خفیہ خالص حساب ہیں۔ بیرونی اور اندرونی حساب معمولی فرق کے ساتھ پوگپا روایت سے ہم آہنگ ہیں۔ جبکہ خفیہ اور مزید خفیہ حساب، بیرونی اور اندرونی حساب کی نسبتزیادہ با وثوق حساب کے لیے استمعال ہوتے ہیں۔ بون تقویم بعینہ پوگپا تقویم ہے۔

ان تبتی نظاموں کے مابین فرق ان کے شمسی اور قمری تقویم کو ہم آہنگ کرنے کے طریقوں میں واضح ہوتے ہیں۔ لیکن یہ دیکھنے کے لیے ہمیں پہلے خود تبتی تقویم کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو کہ بنیادی طور پر کالچکر تنتر سے ماخوذ ہے۔

Top