دنیا کے لوگوں میں بہت سے ایسے افراد جنہوں نے اسلام قبول کیا اور ان میں سے کئی لوگوں کو بدھ مت نے ایک مستحکم پس منظر مہیّا کیا ہے، جیسے کہ ترک، افغان، پاکستانی، انڈونیشیائی اور ملیشیائی باشندے ہیں۔ آئیے ہم ان میں سے ایک گروہ یعنی کہ ترکوں میں بدھ مت کے فروغ پر قریب سے ایک نظر ڈالتے ہيں۔
ترکی شاہی
ترکی شاہی خاندان ترکوں میں سب سے پہلے بدھ مت قبول کرنے والوں میں ہے۔ ان لوگوں نے تیسری صدی عیسوی کے وسط سے لے کر چوتھی صدی عیسوی کے اوائل تک شمال مغربی ہندوستان پر حکومت کی تھی۔ اس کے بعد یہ لوگ مغرب کی طرف گئے اور پھر موجودہ افغانستان کے مرکزی حصّے پر اور بالآخر مرکزی اور شمالی پاکستان پر نویں صدی عیسوی کے وسط تک حکومت کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے اجداد سے ہینیان اور مہایان کا ایک ملا جلا روپ ورثے میں پایا تھا۔ ان کے اجداد جن میں کُشان اور سفید فام ہُن لوگ شامل تھے، اس علاقے میں پہلے سے موجود لوگوں نے خانقاہی تعلیماتی مرکزوں کی زبردست سرپرستی کی تھی۔ آٹھوی صدی عیسوی کے اواخر اور نویں صدی عیسوی کے اوائل میں ترکی شاہی تبتی سامراج کے جاگیرداروں میں سے تھے اور انہوں نے وہاں بدھ مت کے فروغ میں اہم رول ادا کیا تھا۔
مشرقی اور مغربی ترک
اس کے بعد جس ترکی گروہ نے بدھ مت قبول کیا تھا وہ تھے قدیم ترک جن کے نام پر ترک لوگوں کی شناخت قائم ہوئی۔ مشرقی ترک سامراج نے چھٹیں صدی عیسوی کے اواخر سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی کے وسط تک حکومت کی تھی۔ ان کی سرپرستی میں ہندوستانی، مرکزی ایشیائی اور چینی استادوں نے متعدد بودھ صحیفوں کا قدیم ترکی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کے نتیجے میں قدیم ترکی کی متعدد بودھ تکنیکی اصطلاحات مرکزی ایشیا میں معیاری اصطلاحات کے طور پر رائج ہو گئیں اور ان کے بعد میں ویغوروں اور منگولوں نے قبول کر لیا۔ قدیم ترکوں نے بودھ مذہب میں اپنے پرانے ترک دیوتاؤں، جیسے کہ "تینگری" اور زرتشت دیوتا جن سے وہ مانوس تھے، ان پر یقین کو بھی شامل کر لیا تھا۔ ویغوروں اور منگولوں کو یہ انتخابی طرز عمل وراثت میں ملا تھا اور انہوں نے اس کو بھی جاری رکھا۔ آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں مشرقی ترکی کے شاہی خاندان کی ایک شاہزادی کی شادی تبت کے شہنشاہ سے ہوئی تھی اور شاہزادی نے جنوب مشرقی ترکستان کے ختن سے بہت سارے بودھ راہبوں کو تبت بلایا تھا۔
مغربی ترکی سلطنت نے ساتویں صدی عیسوی کے آغاز سے لے کر آٹھویں صدی عیسوی کے آوائل تک بدھ مت کی زبردست سرپرستی کی۔ اس کے حکمرانوں نے ازبکستان میں نئی خانقاہیں قائم کیں۔ مغربی ترکوں کی ایک شاخ ترغش قبیلوں پر مشتمل تھی۔ ان قبیلوں نے بدھ مت کو کرغیزستان اور جنوب مشرقی قازقستان تک پھیلایا۔ اور یہ کام ساتویں صدی عیسوی کے اواخر سے آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل کے درمیان انجام پذیر ہوا۔ ترغش لوگ تبتی سامراج کے حلیف تھے۔
آٹھویں صدی عیسوی کے آوائل میں کرغیزستان اور قازقستان میں ترغش قبیلوں کی جگہ قرلوق قبیلے نے لے لی جو کہ مشرقی ترک کا ایک قبیلہ تھا۔ ان لوگوں نے بدھ مت اپنا لیا تھا اور تبتوں کے حلیف بن گئے تھے۔ قرلوق قبیلے کی ایک شاخ قاراخانی کے طور پر جانی جاتی تھی۔ اس شاخ کے لوگوں نے نویں صدی عیسوی کے وسط میں مشرقی کرغیزستان اور کاشغر کے علاقے میں، جو مشرقی ترکستان کے جنوب مغرب میں واقع تھا، اپنی سلطنت قائم کر لی تھی۔ قاراخانیوں نے ایک صدی سے زیادہ عرصہ تک کاشغری بدھ مت کے ساتھہ اپنی مقامی شمن-پرستی کی ایک مخلوط شکل اپنا رکھی تھی۔
ویغور لوگ
بہر حال، ترکی بدھ مت کی سب سے اہم شکل ویغور لوگوں پر مشتمل تھی۔ آج کا شمال مشرقی سنکیانگ جو اس وقت کا ترفان علاقہ تھا، اس کی طرف نویں صدی عیسوی میں نقل مکانی کے بعد انہوں نے بدھ مت کی ایک شکل مرتب کی جو موجودہ ازبکستان کی تجارت پیشہ قوم، سغدیان نیز ترفان کے تشاریوں اور اس علاقے کے چینی سوداگروں کے عقائد میں شامل عناصر کا ایک امتزاج تھی۔ بدھ مت کی یہ شکل ویغور قوچو سلطنت کے تمام تر علاقے میں پھیل گئی جو جنوب مغرب کے کاشغر اور ختن کے حصّوں کے علاوہ آج کے پورے سنکیانگ کا احاطہ کرتی تھی۔
دوسری طرف تیرہویں صدی عیسوی کے اوائل، یعنی چنگیز خان کے دور میں ویغور لوگوں نے بدھ مت کے اس روپ کو جو ان کا اپنا پیدا کیا ہوا تھا اور اسی کے ساتھہ ساتھہ اپنے حروف اوراپنی انتظامی صلاحیتوں کو منگولوں میں منتقل کر دیا۔ تیرہویں صدی عیسوی کے اواخر میں ویغروں نے اپنے مذہبی طور طریقے بدل دیے اور بدہ مت کی تبتی شکل کو اپنا لیا، جیسا کہ ان کے منگول حلیفوں نے کیا تھا۔ ویغوروں نے سنسکرت، سغدیائی، تخاری، چینی اور تبتی ماخذ سےمتعدد بدھ متون کے ترجمے کیے تھے۔ انہوں نے بودھ مذہبی متون کا منگولیائی زبان میں ترجمہ کرنے کی داغ بیل ڈالی تھی۔ ترجموں کا اسلوب جس میں سنسکرت کی تکنیکی اصطلاحات کو برقرار رکھا گیا تھا، منگولوں نے اپنا لیا۔ ویغوروں میں بدھ مت کا چلن تقریباً سترہویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔
ویغور لوگوں کے تین اور گروہ بدھ مت کے پیروکار تھے۔ ان میں سے ایک گروہ انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں شمال مغربی کرغیزستان کے دریائے چو کی وادی میں منتقل ہوا تھا۔ ان لوگوں نے بدھ مت کی اس شکل کو اپنا لیا تھا جو وہاں قرلوق حکمرانوں کی سرپرستی میں اور اس سے قبل ترغش ترکوں کی سرپرستی میں مروج تھی۔ اسی دوران ایک گروہ مشرقی ترکستان کے کاشغر علاقے میں منتقل ہو گیا تھا اور بدھ مت کی کاشغری روایات پر عمل پیرا تھا۔ قاراخانی ترک، جنہوں نے ایک صدی بعد اسی علاقے میں حکمرانی کی تھی، انہوں نے بھی اسی کاشغری روایت کو اختیار کیا تھا۔ ویغور کا تیسرا گروہ جو زرد ویغور کہلاتا تھا، یہ لوگ منگولیا سے نویں صدی عیسوی کے وسط میں موجودہ چین کے گانسو صوبے میں منتقل ہوئے تھے، جہاں اس وقت تبتی سامراج قائم تھا۔ زرد ویغور لوگ آج بھی بدھ مت کی تبتی شکل کے پیروکار ہیں۔
تووا
آخری ترکی گروہ جس نے بدھ مت کو اپنا لیا تھا وہ لوگ تووا یعنی موجودہ سائیبیریا کے باشندے تھے۔ یہ مغربی منگولیا کے شمال میں واقع ہے۔ یہ لوگ اٹھارویں صدی عیسوی سے بدہ مت کی تبتی روایت کے علم بردار تھے۔