پارتھیا اور باختر
تاریخی اعتبار سے بدھ مت، سب کی سب سابقہ پانچ مرکزی ایشیائی، جمہوریتوں، یعنی مغربی ترکستان، ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان،کرغیزستان اور قازقستان میں پایا جاتا تھا۔ سب سے پہلے یہ پہلی صدی قبل مسیح میں گندھارا (پاکستان) اور افغانستان سے ریاست پارتھیا [۱] اور باختر میں آیا تھا۔ ریاستپارتھیا ترکمانستان اور جنوب مشرقی ایران پر مشتمل تھی، جبکہ ریاست باختر [۲] جنوبی ازبکستان، تاجکستان اور شمالی افغانستان پر مشتمل تھی۔
سغدیہ
مغربی ترکی سلطنت
ساتویں صدی عیسوی میں منگولیا کے ترکوں نے وسط ایشیا کے بیشتر حصّوں پر فتح حاصل کر لی تھی، اس وقت بدھ مت سعدوں اور جنوب ترکستان کے کاشغر/ختن سے جنوبی قازقستان کے دریائے تالاس کی وادی میں اور شمالی کرغیزستان کے دریائے چو کی وادی تک پھیل گیا۔ یہ علاقے مغربی ترکی سلطنت کے حصّوں [۴] پر مشتمل تھے۔ آٹھویں صدی عیسوی میں جب مشرقی ترکستان پر تبت کی حکومت قائم تھی، تب تبتوں نے مشرقی کرغیزستان پر بھی قبضہ جما لیا تھا اور وہاں ابتدائی تبتی بدھ مت کی اشاعت کرنے لگے تھے۔ [۵]
حالانکہ اسلام ان مرکزی ایشیائی جمہوریتوں میں نویں اور دسویں صدی عیسوی میں اور شمال حصوں میں تو گیارہویں صدی عیسوی میں آیا تھا۔ تاہم بدھ مت شمالی حصے میں مکمل طور پر ختم نہیں ہوا تھا۔ اس خطّے میں اسلام ہمیشہ سے کمزور تھا اور وہاں شمن پرستی اور بدھ مت کے ساتھ گھل مل گیا تھا۔ اسلام کی خاص شکل جو اس پورے علاقے میں پائی جاتی ہے ہمیشہ سے متصوفانہ رہی ہے، جس میں ایک غیر راسخ فرقہ مراقبے پر زور مراقبہ ہے اور جو اپنے انتہائی مخلص مویّدین کے ساتھہ ایک پیر کے احکامات کے مطابق اسی گرد زندگی گزارتا ہے۔
دزونغر منگول لوگوں
مشرقی ترکستان کے دزونغر منگول لوگوں [۶] جو تبتی بدھ مت کی گیلوگ روایت سے کی پيروی کرتے تھے، سولہویں صدی عیسوی اور اٹھارویں صدی کے وسط میں مشرقی قازقستان کاسیمریچیے علاقہ جو بلخش جھیل کے مشرق جنوب میں واقع تھا، وہاں دزونغر لوگوں کو خانقاہیں خیموں قائم تھا۔ اسی طرح کی خانقاہیں سترھویں صدی عیسوی کے وسط میں اور وسط اٹھارویں صدی کے دوران کرغیزستان کے اِسیک کول جھیل کے آس پاس قائم تھیں۔ سترہواں ویں صدی کے شروع میں ، کلمیک لوگوں کو دزونغر لوگوں سے الگ ہوگئے۔ قازقستان کے بہت سے حصوں میں کلمیک لوگوں کی بھی ایسی ہی خیموں میں خانقاہیں آباد ہوتی گئیں جب وہ ہجرت کر کے والگا کی طرف گئے۔
دزونغر لوگوں نے مشرقی قازقستان میں بلخش جھیل کے اِرد گرد ایسی خانقاہوں [۷] کی تعمیر کی تھی جو پتھر کی تھیں۔ یہ گیلوگ خانقاہیں [۸]انیسویں صدی کے وسط تک قائم رہیں جب قازقستان پر روس نے فتح حاصل کر لی۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ اِن خانقاہوں کو دزونغروں نے اٹھارویں صدی عیسوی کے وسط میں منچو سلطنت کے ہاتھوں شکست کے پہلے بنایا تھا اور وہ منہدم ہونے سے بچ گئی تھیں۔ یا انہیں اُن دزونغر مہاجروں نے بنایا تھا جو خون ریزی اور مشرقی ترکستان کو چینی منچو سلطنت میں لے لینے کے بعد قازقستان کی طرف بھاگ گئے تھے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھہ کو کلمیک لوگوں نے بنایا ہو، جو اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر میں والگا سے مشرقی ترکستان لوٹ آئے تھے۔ لیکن جو قازقستان میں بس گئے تھے۔ یہ سوال اس لیے بھی غیر واضح ہے کہ روسی زبان میں دزونغروں کو عام طور پر کلمیکوں بھی کہا جاتا ہے۔
اسلام اور بدھ مت کے ما بین ثقافتی لین دین
اس پورے علاقے میں اسلام اور بدھ مت کے مابین ثقافتی لین دین کے کافی نشانات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر، قازقی صوفی لوگ نہ صرف یہ کہ تناسخ میں یقین رکھتے ہیں بلکہ تبتی اور منگول بودھوں کی طرح اپنے پیشرو صوفی کے نئے اوتاروں کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ صوفی لوگ اپنے شیوخ کی درگاہیں قبرستانوں کی شکل میں بناتے ہیں، ان کا طواف کرتے ہیں اور وہاں روغن کے چراغ جلاتے ہیں، جو بودھوں میں مروّج اپنے مرحوم گرووٴں کے استوپ کے ارد گرد ادا کی جانے والی رسومات کی یاد دلاتے ہیں۔ صوفیوں کے مراقبے میں منتروں سے مماثل اسلامی دعاوٴں کی قرٲت شامل ہے جو اکثر ان کے دائرۂ تنفّس اور اسی کے ساتھہ ساتھہ رسول خدا نیز دوسرے روحانی پیشواوٴں کے مفروضہ دیدار سے جا ملتی ہے۔
[۱] ترکمانستان کے مرو (موجودہ ماری) میں اور اشک آباد کے پاس دو پارتھیائی استوپاؤں کے آثار ملے ہیں۔ اشک آباد کے پاس بودھ گپھائیں دریافت ہوئی ہیں۔
[۲] ترمز کے پاس جنوبی ازبکستان کے کارا ٹپے، فایس ٹپے اور دلویرزن ٹپے میں باختری بودھ خانقاہوں کے آثار ملے ہیں۔ اور زورملا میں ایک بودھ استوپ کے آثار اور بلالیک ٹپے میں بودھ دیواری تصویریں ملے ہیں۔ دونوں سرخان دریا کے علاقے میں ہیں. جنوبی تاجکستان کے اجینا ٹپے میں ایک بودھ خانقاہ کے آثار کی کھدائی کی گئی ہے۔
[۳] ازبکستان میں سمرقند کے پاس یرکرگان اور تاجکستان میں پنجکنت پر سغدیائی ثقافت کے کچھہ بودھ آثار ملے ہیں۔ کچھہ ایسے ہی آثار مشرقی ازبکستان میں وادئ فرغانہ کے کووا میں بھی ملے ہیں۔ مذکورہ بالا بیشتر باختری مقامات پر پائی جانے والی باقیات کا سلسلہ سغدیائی دور تک جاتا ہے۔
[۴] دریائے تالاس (تراز) کی وادی میں شمکنت (چمکنت) کے قریب سایرم کیلئے کے مقام پر اور جامبيل علاقے میں تکتور ماس کے مقام پر بھی یہ دریافتیں کی گئی ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ اس ضمن میں پر امید ہیں کہ انھیں تراز (جامبيل) کے قریب کوس توبے میں بھی بودھ باقیات مل جائیں گی۔ اسیک کول جھیل کے شمال ساحل پر موجودہ دور کے چولپون اتا کے نزدیک واقع دریائے چو کی وادی کے ساتھہ ساتھہ کزل ازن کے مقام پر، اور توکموک اور بلاساغون کے قریب اک بیشم (سویاب) کے مقام پر دریائے چو کی معاون ندی کرسنویا کے ساتھہ ساتھہ بھی بودھ آثار پھیلے ہوئے ہیں۔
[۵] كاراكول (پرژیوالسک) کے نزدیک اسیک کول جھیل کے اطراف اور تمگا کی کھائی میں اس جھیل کے جنوبی کنارے کے ساتھ اوراسی کے ساتھہ ساتھہ جنوب کی سمت میں جھلکو جولکو اور بارسکاوٴن کے درّوں میں نیز جھیل کے شمال میں اسیکاتا درے کے قریب کچھہ "مانی" پتھر زیر آب پائے گئے ہیں۔
[۶] اس دور کے "مانی" پتھر سیمریچیے میں تنگلالی تاس کے مقام پر؛ الماتی کے قریب مختلف مقامات پر؛ اور اسیک کول جھیل کے جنوبی کنارے پر واقع زنکا کی کھائی میں بھی پائے گئے ہیں۔
[۷] قازقستان میں المالک کے مقام پر، قازق/ چینی سرحد کے قریب بلخش جھیل کے مشرق میں دریائے الی کے ساتھہ ساتھہ، اور ژزقازغان کے قریب کزل کنت کے مقام پر، بلخش جھیل کے مغرب میں دریائے ساری سو کے ساتھہ ساتھہ پتھر سے بنی ہوئی دزونغر بودھ خانقاہوں کی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔ دریائے ارتش کے ساتھہ ساتھہ،بلخش جھیل کے شمال میں قازق/روسی سرحد کے قریب، سیمی سیمپالاتنک کے مقام پر ایک شاندار بودھ خانقاہ موجود تھی اور ایک دوسری خانقاہ کی باقیات بھی است کمینوگرسک کے قریب ابلائیکیت میں دریافت ہوئی ہیں۔ الماتی کے مشرق میں، ان زائیلیسکی الاتاوٴ پہاڑوں کے شمالی رُخ پر، جو اسیک کول جھیل کو قازقستان سے علیحدہ کرتے ہیں، موجودہ چینی سرحد کے ساتھہ ساتھہ پورے علاقے میں بودھ خانقاہیں موجود تھیں۔ ان خانقاہیں کے اوشیش الماتے کے قریب تلگار میں اور سرحد پر نارنکول علاقے میں سوبے میں پائے جاتے ہیں۔
[۸] ایک چوبی خانقاہ جو ان سب میں آخری ہے، انیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں، الماتی کے قریب میدیؤ کے مقام پر تعمیرکی گئی تھی۔