تعلیم بطور بدھ مت اور اسلام کی قرابت کی کلید

بدھ مت اور اسلام دونوں ہی پیار، درد مندی، صبر اور عفو جیسی عالمگیر اقدار کی تعلیم دیتے ہیں۔ جب بودھی لوگ اور مسلمان تعلیم کے توسط سے اس اشتراک کی نشاندہی کرتے اور اس کو پہچانتے ہیں، تو پھر اپنی نظریاتی تفریق کے باوجود، وہ مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد ڈال دیتے ہیں۔

تقدس مآب دلائی لاما اکثر کہتے ہیں کہ مذہبی ہم آہنگی کی بنیاد تعلیم پر ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کی تعلیمات کے بارے میں لا علمی عدم اعتماد اور معاندت کا سبب بنتی ہے۔ تمام مذاہب پیار، درد مندی، عفو اور نرم دلی جیسی عالمگیر اقدار پر ایمان رکھتے ہیں۔ ان کا مدعا بھی مشترک ہے: فرد اور معاشرے کی زندگی کو خوشگوار بنانا۔ ان کے فلسفیانہ تفرقات کسی صورت بھی ان مقاصد کو حاصل کرنے میں ان اقدار کی اہمیت کی نفی نہیں کرتے۔ وہ محض ان مختلف النّوع اطوار اور اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں جو اُس مذہب کے پیروکاروں کے لئیے ان محاسن کے حصول میں یکساں طور پر موثر ہوں۔ لہٰذا، مذہبی قرابت پیدا کرنے کی خاطر، مختلف مذاہب کے پیروکاروں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے ادیان کے ہاں یہی اخلاقی اقدار مشترک ہیں۔ اس اشتراک کا احساس درست معلومات کی بنیاد پر ہی ہو گا، جس سے بھروسہ، عزت اور قرابت جنم لیں گی۔ 

ادیان کے مابین تعلیم کا فروغ بودھی- مسلم تعلقات کے سلسلہ میں خصوصی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر مینمار، تھائی لینڈ اور سری لنکا میں وقوع پذیر فرقہ وارانہ فسادات کی روشنی میں۔ اگرچہ فرقہ وارانہ فسادات عام عوام کے درمیان بھی قابلِ مذمّت ہیں مگر اس وقت تو قطعاً نا قابلِ برداشت ہیں جب بھکشو برادری انہیں ہوا دے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسٔلے کو حل کرنے کے لئیے کیا اقدامات اٹھاۓ جا سکتے ہیں۔

بودھی دنیا میں سات سو برس سے زیادہ عرصہ تک نالندا یونیورسٹی بڑی دانش گاہ مانی جاتی رہی۔ وہاں بڑے بڑے بودھی علما نے ہندوستان کے چار بودھی پنتھوں کی درس و تدریس اور ان پر مقالے لکھنے کا کام کیا؛ اور اس جگہ وہ اس دور کے دوسرے نظریات کے حامل علما سے ملتے اور بحث مباحثہ کرتے۔ اس مبحث میں جو ہار جاتا وہ جیتنے والے کے نظریات کو بطور حتمی حقیقت کے تسلیم کر لیتا۔ انعام بہت بڑا تھا: جیتنے والے کو بادشاہ کی سر پرستی سے نوازا جاتا تھا۔

جامع نالندا میں بھکشو طلباء بحث مباحثہ کی تربیت حاصل کرتے اور غیر بودھی ہندوستانی پنتھ نظریات کا مطالعہ کرتے۔ ان کے مطالعہ کا مقصد ان نظریات کو جھوٹا ثابت کرنا تھا۔ تبت کے آشرموں نے نالندا کے بحث مباحثہ کے ذریعہ علم حاصل کرنے، اور بودھی نظریات کے قدیم غیر بودھی ہندوستانی نظریات سے تقابل کی نالندہ یونیورسٹی کی ریت کو قائم رکھا ہے۔
 
بدھ مطالعہ کی نالندا ریت، جو غیر بودھی نظریات جس میں بھگتی پنتھ اور ادھرمی نظریات شامل ہیں کا احاطہ کئیے ہوۓ ہے، اس کو وسیع پیمانے پر استوار کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس کے نصاب میں اسلام کا مطالعہ، چندے اہم ترمیم کے ساتھ، شامل کرنا ہو گا۔ اس مطالعہ کا مقصد عالمگیر مشترک اقدار کی نشاندہی کرنا ہے جنہیں دونوں مذاہب تسلیم کرتے ہوں۔ نظریاتی تفریق کے مطالعہ کا مقصد دوسرے گروہ کو بحث مباحثہ میں نیچا دکھانا نہیں ہونا چاہئیے، بلکہ اس مبحث کو اپنی توجہ کا مرکز بنانا ہو گا کہ کس طرح دو مختلف انداز فکر پیار، درد مندی وغیرہ جیسی عالمگیر اقدار کی یکساں طور پر پذیرائی کر سکتے ہیں۔
 
اس مطالعہ کے نتیجہ میں بدھ مت کے ماننے والے لوگ یہ بات سمجھ پائیں گے اور محسوس کریں گے کہ اسلام کی تعلیمات بدھ مت کے لئیے باعث خطرہ نہیں ہیں۔ اس کے نتیجہ میں برادریوں میں ہم آہنگی بڑھے گی، خصوصاً جنوب اور جنوبی ایشیا کے ان علاقوں میں جہاں ماضی میں عناد پیدا ہوا ہے۔ اس طرح بھکشو لوگ ایک مثال قائم کر سکتے ہیں اور امن کو پھیلانے میں پیش رو کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

آئیے ہم ان چند مثالوں کا مطالعہ کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح اسلام اور بدھ مت کی تعلیمات ان عالمگیر اقدار کو بر قرار رکھتی ہیں۔ 

اسلام کے مطابق، ﷲ ﷻ نے انسان کو بہترین پیش موافقت اور رغبت جو خدا اور اس کی مرضی کے سامنے سر بسجود ہو پر پیدا کیا۔ خدا کی مرضی یہ ہے کہ انسان اخلاقی قوانین کا پابند ہو۔ اس نے انسان کو پیدا کیا کہ انسان کردار کی عظمت اور اعمال صالح کے توسط سے خدا کا عبادت گزار ہو۔ اعمال صالح سے مراد خدا کی تمام مخلوق سے پیار سے پیش آنا ہے۔ ایسا فعل عبادت کی ایک قسم ہےجو انسان کو خدا کی مرضی کے مطابق اس کے قریب لاتا ہے۔
 
لیکن خدا نے انسان کو عقل اور خود اختیاری بھی عطا کی ہے۔ خود اختیاری اور عقل کے استعمال سے انسان فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ خدا کا حکم مانے یا نہ مانے۔ ایسا رویہ ضرر رساں جذبات کے زیر اثر پیدا ہوتا ہے اور انسان کو محو بالذات بنا دیتا ہے۔ اس سے منفی رویہ پیدا ہوتا ہے جسے خدا نے منع فرمایا ہے۔
 
لوگوں سے پیار سے پیش آنا بھی خود اختیار فعل ہے، اور لوگ اپنی عقل استعمال کر کے یہ راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔ اگر وہ لوگوں سے پیار اور نرم دلی سے پیش آئیں تو اس طرح وہ اپنی پیش موافقت کا استقراء کریں گے جو انہیں خدا کے قریب لے جاۓ گی۔ اسلام میں جب لوگ بہترین صورت میں کائنات اور تمام انسانیت کے لئیے پیار استوار کرتے ہیں تو یہ پیار بذات خود کائنات اور انسانیت کے لئیے نہیں ہوتا بلکہ اس خدا کے لئیے ہے جس نے انہیں با وصف صورت گری بخشی۔
 
بدھ مت میں تمام مخلوق خالص بدھا فطرت کی مالک ہے جس کا کوئی آد نہیں: اس سے اس کے اندر بذات خود مہاتما بدھ بننے کی اہلیت پائی جاتی ہے۔ اسلام میں، انسانوں کی خالص فطرت انہیں خدا کے قریب لاتی ہے، اور بعض صوفی حلقوں کے مطابق انسان کو خدا میں مدغم کر سکتی ہے، مگر وہ خود کبھی خدا نہیں بن سکتا۔ بدھ مت میں کسی نے یہ بدھا فطرت ان کے اندر نہیں ڈالی۔ اس کا وجود محض ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔
 
اسلام کی مانند بدھ مت بھی اس بات کو مانتا ہے کہ انسانوں کے اندر ایسی صفات جیسے فطری طور پر احساس درد مندی اور تعقّل جو اچھے برے میں تمیز کر سکے پائی جاتی ہیں۔ مگر بدھ مت میں اخلاقی ضبط نفس کا تعیّن اس بات سے ہوتا ہے کہ کونسے اعمال باعث آزار ہوں گے اور کونسے باعث مسرت۔ اپنی عقل کو استعمال کر کے لوگ خود اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مفید کیا ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ اسلام میں عقل کا استعمال اس بات کے لئیے کیا جاتا ہے کہ خدا کی ہدائت کو مانا جاۓ یا نہیں۔ دونوں صورتوں میں انسانوں کو انتخاب کا اختیار ہے کہ وہ بھلے انداز سے عمل کریں یا برے انداز سے کچھ کریں اور اپنی عقل کی امتیازی صلاحیت کو اپنا لائحہ عمل متعیّن کرنے کے لئیے بروۓ کار لائیں۔ اگرچہ خدا اور مہاتما بدھ دونوں ہمہ دان ہیں مگر دونوں میں سے کوئی بھی انسان کے انتخاب عمل کا پیشگی فیصلہ نہیں کرتا۔

اسلام کی رو سے خدا نے اخلاقیات کے قوانین تشکیل دئیے، اور خدا ہی سزا اور جزا کے ذریعہ انصاف کرتا ہے۔ لیکن خدا رحیم اور کریم ہے اور ان لوگوں کو معاف فرماتا ہے جو اپنے کئیے پر نادم ہوں اور خدا کی مرضی کے آگے سر نگوں ہو جائیں۔ بدھ مت کے مطابق کرم اور رویہ کے علت و معلول کے قوانین کسی نے تشکیل نہیں دئیے۔ یہ محض بطور حقیقت موجود ہیں۔ ضرر رساں رویہ جو کہ لاعلمی سے جنم لیتا ہے قدرتی طور پر آزار کا سبب بنتا ہے؛ جبکہ خوشی تعمیری رویہ سے تشکیل پاتی ہے جو دانش وری اور درد مندی سے جنم لیتا ہے۔ جیسا کہ اسلام میں بھی ہے کہ اگر لوگ خلوص دل سے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں اور ان پر نادم ہوں، تو بدھ مت یہ بتاتا ہے کہ وہ ان کے منفی اعمال کے برے اثرات سے بچ سکتے ہیں۔ البتہ، گناہ سے پاکیزگی کے لئیے مہاتما بدھ سے التجا اور معافی طلب کرنا ضروری نہیں ہے۔

بدھ مت میں پیار سے مراد دوسروں کی خوشی کی خواہش اور اس کے اسباب پیدا کرنا ہے۔ اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ ہم سب برابر ہیں: سب لوگ مسرت کے خواہاں ہیں اور کوئی بھی آزار نہیں چاہتا۔ اسلام میں بھی سب اس لحاظ سے برابر ہیں کہ سب خدا کی برابر کی تخلیق ہیں۔ دونوں صورتوں میں، تاہم، تمام ہستیاں برابر ہیں۔
 
بدھ مت کی تعلیم یہ ہے کہ تمام ہستیاں مسرت کی اہلیت اور اس کا حق رکھتی ہیں، کیونکہ سب کی فطرت مہاتما بدھ کی فطرت ہے۔ لہٰذا پیار کو استوار کرنے کی تحریک انہیں خوشی دینے پر منحصر ہے۔ پیار اور خدمت خلق مہاتما بدھ کی عبادت نہیں ہے۔ دوسروں سے پیار بڑھا کر لوگ خود مہاتما بدھ بننے کے مثبت اسباب پیدا کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے، اس طرح وہ بدھیت سے قربت پاتے ہیں، مگر اسلام کی مانند، مہاتما بدھ کے قریب نہیں آتے۔
 
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نظریاتی تفریق کے باوجود، بدھ مت اور اسلام دونوں کی تعلیمات برابر ہی پیار، درد مندی اور عفو جیسی بنیادی عالمگیر اقدار کو استوار کرتی ہیں۔ البتہ دینی قرابت پیدا کرنے کے لئیے مذاہب کے مابین تعلیم کا تبادلہ ہی کافی نہیں۔ بدھ مت اور اسلام کے درمیان تصادم کی وجوہات بہت ساری ہیں اور پیچیدہ ہیں۔ اس کے علاوہ یہ وجوہات ان سب علاقوں میں جہاں جہاں تنازعہ اٹھا ہے ایک جیسی نہیں ہیں۔ آج کے دور میں دینی اعتقادات جھگڑے کا سبب نہیں ہیں۔ اس عناد کی زیادہ وجہ معاشی، سیاسی، لسانی، نسلی اور تاریخی عناصر ہیں۔ پھر بھی، فریقین کے لئیے لازم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دین کے بارے میں تعلیم حاصل کریں تا کہ باہمی عزت و احترام کا ماحول پیدا ہو۔ البتہ محض دینی تفریق کو جھگڑے کا سبب گرداننے کی بجاۓ اس تنازعہ کی اصل وجوہات جو کہ سماجی، تاریخی اور معاشی مسائل ہیں کی جانب توجہ پھیرنے کی خاطر وسیع تر تعلیم کی افزائش لازم ہے۔ سیاست اور معیشت کے متعلق کسی نئی پالیسی کی کامیابی کی ضمانت یہ ہو گی کہ اس کی بنیاد ان بنیادی عالمگیر اقدار پر ہو جنہیں بودھی اور مسلمان دونوں تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی بنیاد تو تعلیم ہی ہے، اور امید ہے کہ، نالندا ایک بار پھر اس میدان میں لیڈر کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ شکریہ۔

Top