پریشانی تیاگ کرنے کا بودھی طریقہ

مجھے آج شام تیاگ پر بات کرنے کو کہا گیا ہے – ہمارے مسائل سے نجات پانے کا مصمم ارادہ – خاص طور پر ہم ایک بڑے شہر جیسے یہ ماسکو میں رہنے کے مسائل کے حوالے سے کس طرح سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں جب آپ اس موضوع کا تجزیہ کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ جدید دنیا کے بیشتر مسائل بڑے شہروں میں رہائش تک ہی محدود نہیں ہیں۔ 

حد سے متجاوز تحرک بطور منبعِ پریشانی 

بے شک بڑے شہروں میں ماحولیاتی آلودگی، بھاری آمد و رفت وغیرہ جیسے مسائل ملیں گے، جو کہ آپ کو کسی گاؤں میں نظر نہ آئں، لیکن پریشانی پیدا کرنے کے محض یہ ہی عناصر نہیں ہیں۔ اگر ہم ذرا غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ جو مسائل جن سے جدید دنیا کے لوگ دوچار ہیں، خواہ ان کی رہائش کہیں بھی ہو، میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں میسر اشیاء کی تعداد سرعت سے افزوں پذیر ہے، مزید تر تنوّع، مزید معلومات، مزید ٹی وی سٹیشن، زیادہ فلمیں دیکھنے کو اور بے شمار چیزیں برائے استعمال موجود ہیں۔ بیشتر لوگ موبل فون اٹھائے پھرتے ہیں، تو لگاتار ای میل، تواتر سے پیغامات، بات چیت، اور ایسی چیزیں، تو اس سے یہ دباؤ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں ان کا فوری جواب دینا ہے، کیونکہ دوسرے لوگ یہ توقع کرتے ہیں کہ ہم انہیں فوراً جواب دیں گے۔ ویسے ان چیزوں کا فائدہ بھی ہے خصوصاً ہمارا ان لوگوں سے رابطہ قائم رکھنے میں جب کہ ایسا کرنا ضروری ہو، لیکن بعض اوقات یہ حد سے بڑھ جاتا ہے؛ اس کا سلسلہ لگا تار ہے اور اگر آپ ذرا سوچیں تو اس سے ہم عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے پسِ پشت یہ سوچ ہے کہ "میں کسی چیز سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اہم بات ہو۔ میں بے سر و پا ہونا نہیں چاہتا۔"

لہٰذا ہم ہر وقت یہ دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں کہ کیا چل رہا ہے، لیکن بہر حال اس سے ہم کبھی بھی محفوظ محسوس نہیں کرتے، کیونکہ ہر وقت کوئی نہ کوئی نئی بات چل رہی ہوتی ہے، ایک نیا پیغام، ایک نئی بات چیت۔ فرض کیجئیے کہ ہم کچھ دیکھنا چاہیں، مثلاً یو ٹیوب پر، یا ٹی وی پر – مجھے نہیں معلوم کہ یہاں ماسکو میں کتنے چینل دستیاب ہیں مگر یورپ اور امریکہ میں سینکڑوں کے حساب سے ہیں، تو اس لئیے آپ کچھ دیکھ کر مطمٔن نہیں ہوتے کیونکہ آپ کے دل میں یہ خیال رہتا ہے کہ "شائد دوسری جگہ کچھ اور اس سے بہتر ہے،" لہٰذا مستقل یہ احتیاج رہتی ہے کہ میں دیکھوں کہ "شائد کوئی اور بہتر چیز ہے جس سے میں محروم ہوا جا رہا ہوں۔" 

ہماری فی الواقع دنیا میں توثیق اور قبولیت کی تلاش   

میرے خیال میں اس قسم کے عناصر ہماری پریشانی میں اضافہ کرتے ہیں خواہ ہم کسی بڑے شہر میں رہتے ہوں یا کسی گاؤں میں، خاص طور پر ہماری جدید دنیا میں۔ ہم کسی سماجی گروہ، یا کسی حلقۂ احباب میں شمولیت کے خواہاں ہیں؛ لہٰذا ہم جو بھی اپنے فیس بک صفحہ پر ڈالیں لوگ اسے "پسند" کریں، تا کہ ہمیں تسلیم و قبولیت کا احساس ہو، مگر ہم اس پر بھی مطمٔن نہیں ہیں۔ ہمیں خواہ کتنے ہی "پسند" کے پیغام ملیں ہم کبھی مطمٔن نہیں ہوتے، اور ہمیشہ مزید کی آرزو رکھتے ہیں، یا "کیا واقعی ان کا یہی مطلب تھا؟" وہ شائد محض ایک بٹن دبا رہے ہیں، یا شائد کوئی مشین یہ کام کر رہی ہے (آپ پیسے دے کر بہت سارے "پسند" کے پیغام خرید سکتے ہیں)۔ اور جب ہمارا فون بتائے کہ ہمارے لئیے کوئی پیغام آیا ہے تو ہم خوشی سے سرشار ہو جاتے ہیں؛ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اہم پیغام ہو۔ 

اور ہم جب اپنا فیس بک کا صفحہ کھولتے ہیں تو ایسا ہی احساس مسرت لئیے ہوتے ہیں یہ دیکھنے کی خاطر "کیا ہمیں اور کچھ "پسند" کے پیغام ملے؟" یا ہم ایسے ہو جاتے ہیں، جیسا کہ میں اپنے بارے میں اکثر کہتا ہوں، جیسے کوئی خبروں کا دیوانہ، اور میں ہر وقت خبریں دیکھتا رہتا ہوں کہ کوئی نئی بات تو نہیں ہوئی، کوئی دلچسپ واقعہ تو رو نما نہیں ہوا، کیونکہ میں کسی چیز سے محروم رہنا نہیں چاہتا۔ 

بے شک اگر ہم اس کی گہرائی میں جائں تو ہم اس کے زیر لب یہ احساس پائں گے، "میں اتنا اہم ہوں کہ مجھے ہر پیش آور واقعہ کی خبر ہونی چاہئیے۔ اور سب لوگوں کو مجھے خوش آئیند نظر سے دیکھنا چاہئیے۔" اگر ہم بدھ مت کے نظریہ سے اس کا غائرانہ تجزیہ کریں کہ ہم اپنے آپ کو اتنا اہم کیوں سمجھتے ہیں، اور یہ کہ مجھے ہر بات کا علم ہونا کیوں ضروری ہے، اور مجھے کیوں اس قدر مانا جائے۔ ہم کیوں اس قدر محوِ ذات ہیں، مگر میں آج شام اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔

ہماری صورت حال کی حقیقت سے انکار  

دوسری طرف ہم اپنے حالات کے بوجھ تلے اس درجہ دبے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے متحرک آلہ کو دیکھتے ہیں، یا جب میٹرو میں سفر کر رہے ہوں یا پیدل چل رہے ہوں تو موسیقی سنتے ہیں۔ ہم ہر وقت آلۂ سماعت لگائے رکھتے ہیں، اپنے آئی پاڈ کے ساتھ، جو کہ اگر غور کیا جائے تو ایک دلچسپ تنقیض ہے۔ ایک طرف تو ہم کسی سماجی گروہ میں شمولیت کے خواہاں ہیں، لیکن دوسری جانب ہم بعینہٰ سماج کے اندر موجود ہیں، تو ہم فون پر کوئی کھیل کھیل کر یا بے حد اونچی آواز میں موسیقی سن کر سب سے تخلیہ چاہتے ہیں۔ 

تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب تنہائی ہے، ہے نا؟ ہم سماج سے قبولیت چاہتے ہیں؛ ہمیں یہ احساس ہے کہ ہمیں کبھی بھی توجہ نہیں ملی، اس لئیے ہم تنہا ہیں، لیکن دوسری طرف، ہم اپنی فی الواقع دنیا میں چھپ کر سماج سے الگ تھلگ ہو جاتے ہیں، جو کہ بذات خود بہت تنہائی والا معاملہ ہے، ہے نا؟ 

ہم اضطراری طور پر یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہمیں تفنّن طبع کا سامان چاہئیے؛ خاموشی کا ایک لمحہ بھی ہمیں گوارا نہیں۔ یہ بھی تنقیض کی ایک شکل ہے، کہ ایک طرف تو ہم سکون اور خامشی چاہتے ہیں، لیکن دوسری طرف ہم خلا سے ڈرتے ہیں، معلومات کی کمی یا موسیقی کا فقدان۔ 

ہم میٹرو وغیرہ پر خارجی دنیا کے دباؤ سے بچنا چاہتے ہیں لہٰذا ہم فون، انٹرنیٹ کی فی الواقع دنیا میں پناہ لیتے ہیں، مگر وہاں بھی ہم اپنے دوستوں کی قبولیت کے متلاشی ہیں، تو ہم کبھی بھی محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ اس پر ہمیں ضرور غور کرنا ہے: کیا واقعی میرے متحرک آلہ کے پیچھے چھپنے کا عمل میری پریشانی کا علاج ہے؟ خواہ ہم کسی بڑے شہر میں رہائش پذیر ہوں یا کہیں اور، کیا یہ واقعی اس مسٔلے کا حل ہے؟ 

بری عادات کی شناخت اور ان سے نجات کا عزم استوار کرنا   

جب ہم ان عادات کے غلام بن چکے ہوں تو ان سے پیدا ہونے والی عدم مسرت کی شناخت اور ان کا سبب ڈھونڈنے کے لئیے ہم کیا کریں۔ ہم کیوں ان عادتوں کی غلامی کرتے ہیں؟ پھر ہم اس عدم مسرت سے نجات پانے کا عزم کرتے ہیں، ان طریقوں کے استعمال سے جو اس کے منبع سے نجات دلاتے ہیں، اس اعتماد کے ساتھ کہ یہ واقعی کار گر ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس عدم مسرت کو ختم کر کے بے حس روح بن جائں جو احساس سے عاری ہو، اور شہر میں ایک زندہ لاش کی مانند آوارہ پھریں۔ مسرت محض عدم مسرت کی غیر موجودگی ہی نہیں ہے؛ یہ ایک نا وابستہ، شانت احساس کے علاوہ اور کچھ بھی ہے۔ ہم مردہ احساس کا ہدف نہیں رکھتے، یہ بات بھی نہیں ہے۔ 

پس ہمیں یہ جان لینا چاہئیے کہ ہماری پریشانی، عدم مسرت اور مسائل کا اصل سبب خارجی عناصر نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو ہر ایک کا تجربہ یکساں ہوتا۔ 

اور مسٔلہ انٹرنیٹ اور ہمارے متحرک آلات بھی نہیں ہیں۔ بے شک مناسب استعمال سے یہ ہماری زندگی کو بہت آسان بناتے ہیں۔ اصل مسٔلہ ہمارا ان سے تعلق کا طور طریقہ ہے، اور وہ جذبات جنہیں یہ جنم دیتے ہیں، اور انہیں مزید تقویت بخشتے ہیں، اور یہ کہ ہم کیسے انٹرنیٹ کی عمدہ دنیا سے معاملہ کرتے ہیں، اور ہم زندگی میں پیش آنے والے مسائل سے کیسے نمٹتے ہیں۔ 

ہماری بہت ساری خود فنا پذیر عادات ہیں جن کے پس پشت کوئی من کی پریشان کن حالت ہے، خواہ یہ عدم تحفظ ہو، استرداد کا خوف، شمولیت سے محرومی کا خوف، جبر، اس قسم کی چیزیں۔ لیکن ان پر قابو پانے کے لئیے جو حکمت عملی ہم اختیار کرتے ہیں، جیسے سماجی چوپالوں میں پناہ گزینی؛ یہ محض ایک رد عمل ہے۔ اس سے یہ احساس اور بھی شدت پکڑتا ہے کہ "کیا لوگ مجھے پسند کریں گے؟" وغیرہ وغیرہ۔

اس کی بد تر شکل ہمیں نوجوانوں کے سلسلہ میں نظر آتی ہے، انٹرنیٹ پر غنڈہ گردی۔ آپ کو محض "پسند" کے پیغام ہی نہیں ملتے اور ہر کوئی دیکھتا ہے کہ آپ کو کتنے "پسند" کے پیغام ملے، لیکن اگر آپ کو دھمکی والے پیغام ملیں  - جیسے "مجھے پسند نہیں آیا" – اس قسم کی چیزیں، تو اسے بھی سب لوگ دیکھتے ہیں۔ یہ بہت بری بات ہے، ہے نا؟

لوگ سماجی چوپالوں پر تصویریں لگاتے ہیں، اپنی تصویریں جن میں وہ مزہ کرتے دکھائے گئے ہوں، ہے نا؟ وہ برے واقعات کی تصویریں نہیں لگاتے۔ تو آپ اپنے دوستوں کو تفریح کرتے دیکھتے ہیں، اور میں بیچارہ، یہاں اپنے کمرے میں تنہا اپنے فون کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ من کی کوئی پر مسرت حالت نہیں ہے، ہے نا؟

ان سماجی چوپالوں وغیرہ کے معاملہ میں ہماری کوئی حقیقت پسند سوچ ہونی چاہئیے۔ ہمیں سمجھنا چاہئیے کہ ہمارے فیس بک کے صفحہ پر بے شمار "پسند" جمع کر لینے سے ہمیں تحفظ نہیں مل سکتا، اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔ معاملہ بالکل اس کے بر عکس ہے۔ ہم بھولے ہیں، ہم سوچتے ہیں کہ اس سے بہت فرق پڑے گا، اور اس سے مزید "پسند" جمع کرنے کی آرزو ابھرتی ہے – یہ لالچ ہے، ہم کبھی مطمٔن نہیں ہوتے، اور ہم مزید "پسند" اکٹھا کرنے کے عدم تحفظ کے بھنور میں پھنسے رہتے ہیں۔ 

میں مانتا ہوں کہ میری ویب سائٹ کے معاملہ میں بھی یہی بات ہے؛ میں یہ جاننے کے لئیے کہ آج کتنے لوگوں نے اسے دیکھا مستقل اعداد و شمار کو دیکھتا رہتا ہوں۔ یہ بھی وہی بات ہے۔ یا ہر روز زرہ تبادلہ کے نرخ کو دیکھنا کہ آج مجھے کتنے کا نقصان ہوا۔ ہمیں کبھی بھی سکون نصیب نہیں ہوتا (ہنسنے کی آوازیں) ۔ یا ہم بھولپن سے یہ سوچتے ہیں کہ ہم کسی کمپیوٹر کے کھیل کی فی الواقع دنیا میں کھو جائں، تو ہمارے مسائل مِٹ جائں گے۔ یہ فعل بہت ساری واڈکا پینے سے مختلف نہیں ہے، ہے کہ نہیں، اور یہ سوچیں کہ مسٔلہ حل ہو جائے گا۔ 

اگر ہم اس مرض کا معائنہ کریں، تو ہم اسے خود فنا پذیر پائں گے، اور یہ کہ ہمارے پریشانی سے نمٹنے کے اطوار مزید مسائل پیدا کرتے ہیں۔ 

اپنی صورت حال سے موثر انداز سے نمٹنے کے لئیے امتیازی آگہی کا استعمال

مرض کی ان علامات سے نمٹنے کے لئیے ہمیں ان حالات کی امتیازی آگہی چاہئیے جن سے ہم گزر رہے ہیں۔  مثلاً، کوئی مشکل ملازمت: ہمیں اس سے نمٹنا ہے: یہی حقیقت ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق پوری دلجمعی سے کام کریں گے۔ اگر ہم اس حقیقت کو قبول کر لیں، تو اس سے ہم اپنے کام کو کوئی بہت بڑی مصیبت نہیں جانتے، اور نہ ہی اپنے بارے میں یہ تصور قائم کرتے ہیں کہ "میں اس قابل نہیں ہوں." 

مسٔلہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو بے عیب سمجھتے ہیں، لیکن صرف ایک بدھا ہی کامل ہوا کرتا ہے۔ اور اگر ہمارا افسر ہم سے کامل ہونے کی توقع کرے، اور ہمارے اوپر ایسا ہونے کے لئیے زور ڈالے، حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ اور چونکہ یہ نا ممکن ہے تو ہم کیوں اپنا سر دیوار پر پٹخ رہے ہیں اور احساس جرم میں مبتلا ہیں، اس لئیے کہ ہم کوئی نا ممکن کام کرنے کے اہل نہیں ہیں؟

پس ہم اپنی پوری سی کوشش کرتے ہیں، کام کو ترجیح دیتے ہیں، اور صورت حال کی حقیقت کو قبول کر لیتے ہیں۔ اور پھر ہم اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں؛ در پیش صورت حال کی حقیقت کی آگہی کے ہمراہ، بغیر اسے حد سے زیادہ اہمیت دینے کے – "یہ نا ممکن ہے" – یا اسے معقول اہمیت دئیے بغیر، "میں اس سے بچنے کے لئیے اپنے فون پر موج رانی یا کوئی کھیل کھیلنے لگ جاتا ہوں۔"

آپ کو اس سے نمٹنا ہے۔ آپ کو اپنے کام سے نمٹنا ہے۔ اگر ہم اسے غیر اہم جانیں تو پھر ہم یہ سوچتے ہیں کہ اسے کرنا ضروری نہیں۔ مثلاً یہ ایسے ہے، جب آپ کی ملازمت پر آپ کو کوئی کام کرنا ہو، لیکن آپ اسے کرنا پسند نہیں کرتے، تو آپ کیا کرتے ہیں؟ کیا آپ اس قدر ضبط نفس رکھتے ہیں کہ اسے فوراً کر ڈالیں یا آپ فوراً ہی موج رانی شروع کر دیتے ہیں، یا اپنے فون کو دیکھنے کی فوری احتیاج سے مغلوب ہو کر سوچتے ہیں "شائد کوئی نیا پیغام آیا ہو، شائد کسی نے کوئی نئی دلچسپ بات لکھی ہو۔ یہ اس کام کی اہمیت کو کم کرنے کی بات ہے جسے در حقیقت آپ کو کرنا ہے۔ اس سب کا تعلق ہمارے آزادی پانے کے عزم سے ہے۔ اس بات کی شناخت کرنا کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے مسائل کا باعث ہے۔

ہم اس سے کیسے نمٹیں؟

ویڈیو: گیشے تاشی تسرنگ — «خوف اور پریشانی پر قابو پانا»
ذیلی سرورق کو سننے/دیکھنے کے لئیے ویڈیو سکرین پر دائں کونے میں نیچے ذیلی سرورق آئیکان پر کلک کریں۔ ذیلی سرورق کی زبان بدلنے کے لئیے "سیٹنگز" پر کلک کریں، پھر "ذیلی سرورق" پر کلک کریں اور اپنی من پسند زبان کا انتخاب کریں۔

اس بات کی فہم استوار کرنا کہ ہمارے اعمال کیسے ہمارے ہارمون کے رد عمل پر اثر کرتے ہیں

ہم ضبط نفس کے ساتھ چھوٹی چیزوں سے شروعات کرتے ہیں، اور اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ ہم کیسے اپنی پریشانی پر قابو پا رہے ہیں، کسی سائنسی نکتہ نظر سے بھی، اگر ہم ہارمون کے پہلو سے دیکھیں تو بھی۔ اس سے ہمیں ایک بالکل نیا انداز فکر ملتا ہے، اور بدھ مت کی بات کی سائنسی توثیق بھی ملتی ہے۔ 

مہیج ریزش اور ڈوپامین ہارمون

آپ دباؤ تلے ہیں، تو ہارمون کی سطح پر ہماری کارٹیسول بڑھ جاتی ہے۔ کارٹیسول دباؤ کا ہارمون ہے، تو ہم آرام چاہتے ہیں۔ ہماری تدبیر کیا ہے، جو کہ ہم خیال کرتے ہیں کہ ہمارے جسم سے کارٹیسول کو نکال دے گی اور ہمیں خوشی دے گی۔ آپ سوچتے ہیں کہ میں ایک سگریٹ سلگا لوں گا، اس سے افاقہ ہو گا؛ ہم انٹرنٹ پر موج رانی کریں گے، یا سماجی چوپال پر کوئی دلچسپ شے تلاش کریں گے جس سے یہ پریشانی کم ہو۔ ہوتا یہ ہے کہ ہم جوش و خروش اور مسرت  کے ساتھ یہ توقع کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ہم بہتر محسوس کریں گے، تو ہماری ڈوپامین میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ڈوپامین کسی محنت کا صلہ ملنے کی توقع کا ہارمون ہے؛ یہ وہ احساس ہے جو کسی جانور میں اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ کسی دوسرے جانور کا تعاقب کرتا ہے؛ تو وہاں یہ توقع موجود ہوتی ہے۔ جب آپ کسی عزیز کو ملنے جاتے ہیں تو اس کی شناخت آسان ہے، اس طرح کی بات ہے۔ ڈوپامین میں اضافہ سے اس بات کا امکان بڑھ جاتا ہے کہ کوئی بات کس قدر عمدہ ہو گی۔ لیکن جب آپ اس شخص سے ملیں تو ہو سکتا ہے کہ معاملہ اتنا اچھا نہ ہو، مگر یہ جو توقع پائی جاتی ہے جس کی بنیاد ڈوپامین ہے اس سے خوشی میں اضافہ ہوتا ہے؛ یہ والا ہارمون۔ 

ہم نہائت حیاتیاتی ہستیاں ہیں۔ مگر سگریٹ پھونکنے سے، یا انٹرنٹ چیک کرنے سے تسلی نہیں ہوتی، اور پریشانی لوٹ آتی ہے۔ لہٰذا یہ کامیاب حکمت عملی نہیں ہے۔ 

پس ہمیں اس غلط فہمی کے نقصانات کہ سگریٹ پینے سے مسٔلہ حل ہو جائے گا کی شناخت کرنی ہے۔ یا کوئی دلچسپ خبر یا میرے فیس بک صفحہ پر کوئی جاذب نظر بات سے میری پریشانی دور ہو جائے گی۔ 

اور جب ہم اس انداز فکر کے نقصانات کو جان لیتے ہیں تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ ہی بہترین حکمت عملی ہے، تب ہم اس قسم کی عادت سے نجات کا عزم کرتے ہیں؛ یہ عادت کار گر نہیں ہے۔ 

منفی عادات سے گریز

تو ہم سگریٹ میں پناہ لینا چھوڑ دیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی کا اپنا ہی ایک مسٔلہ ہے، اس لحاظ سے کہ: کیا سگریٹ نوشی کا کوئی فائدہ بھی ہے؟ نہیں، کوئی نہیں۔ لیکن انٹرنیٹ، سماجی چوپالیں اور ہر دم اپنے پیغامات کی پڑتال، ہمیں ان میں کچھ اصول اور قاعدہ کو مد نظر رکھنا چاہئیے، اسے ہر وقت کھلا نہیں رکھنا چاہئیے۔ دوسرے لفظوں میں اسے پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ کریں۔ اسے کسی بھلے کام کے لئیے استعمال میں لائں، کسی ایسے مقصد کے لئیے نہیں جو یہ پورا نہ کر سکے۔

بے شک یہ بہت مشکل کام ہے، کیونکہ جب ہم اُچاٹ محسوس کریں، جب ہمیں کام پر یا گھر میں کسی ایسی چیز سے واسطہ پڑے جو ہم کرنا پسند نہیں کرتے، تو اپنے فون کو دیکھنے کی یہ اضطراری کیفیت طاری ہو جاتی ہے، ہے نا۔ لیکن جس طرح وزن کم کرنے کے لئیے ہم خوراک کے معاملہ میں فاقہ کشی کرتے ہیں، اسی طرح من کا موٹاپا کم کرنے کے لئیے ہمیں معلومات کی فاقہ کشی کرنا ہو گی۔ ہمیں معلومات، پیغامات، موسیقی وغیرہ کی بھرمار کو کم کرنا ہو گا جس طرح کہ ہم خوراک کا اصراف کم کر دیتے ہیں۔ 

شروع شروع میں ہمارے پرانی عادتوں کو ترک کرنے سے ہمارا دباؤ کا کارٹیسول درجہ بڑھ جائے گا۔ کیونکہ پرانی عادتیں بڑی پختہ ہوتی ہیں۔ تو جس طرح سگریٹ، شراب یا منشیات کا استعمال ترک کرنے پر بہت بری حالت ہوتی ہے -دباؤ کا کارٹیسول ہارمون – تو اسی طرح جب آپ انٹرنیٹ، سماجی پیغامات یا موسیقی کو ترک کر دیں یا اس میں کمی واقع ہو تو ترک نشہ کی علامات ابھرتی ہیں۔ یہ غیر سمّی بنانے کے مترادف ہے؛ لوگ موسیقی سے ازالۂ سمّیت کو بیان کرتے ہیں، خصوصاً جب وہ ہر دم صوتی آلہ اپنے آئی پاڈ سے کان میں لگائے رکھنے کے عادی ہوں، اور اس کے بعد بھی کافی عرصہ تک موسیقی آپ کے سر میں گونجتی رہے۔ اسے خاموش ہونے میں بہت وقت لگتا ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک عمدہ تصور ہے؛ موسیقی سے سر کا فربہ ہونا، اوہ ہو، آپ کو معلوم ہے کہ یہ وہاں موجود ہے۔

آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں کیونکہ آپ کا دماغ ماؤف ہے، ہر وقت یہ موسیقی چل رہی ہے۔ خاص طور پر جب ایک ہی طرح کے بول بار بار دوہرائے جا رہے ہوں، یہ آپ کو پاگل کر دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس پر ثابت قدم رہیں، تو اس ترک نشہ سے پیدا ہونے والی پریشانی کی شدت کم ہو جائے گی، اور ہمیں من کی پُر سکون حالت کا احساس ہو گا۔ اور تب ہم بری عادتوں کے بدل عمدہ عادتیں استوار کر سکیں گے۔ 

اس سلسلہ میں ہمارے پاس بہت عمدہ بودھی طریقے موجود ہیں جو کہ محض بدھ مت تک ہی محدود نہیں ہیں: جیسے کہ یہ احساس کہ ہم سب انسانیت کا حصہ ہیں، ہمارا آپس میں گہرا تعلق ہے، ہماری فلاح سب کی فلاح سے ہے، اور دوسرے لوگوں کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور قربت محسوس کرنے کی ضرورت کا یہ کہیں زیادہ مستحکم طریقہ ہے، جو کہ کسی سماجی چوپال کی رکنیت سے حاصل کرنا مشکل ہے۔ 

غدہ نخامیہ سے رِسنے والا ہارمون

اس کے لئیے ایک ہارمون ہے جسے غدہ نخامیہ سے رِسنے والا ہارمون کہتے ہیں۔ یہ وہ ہارمون ہے جو انسانوں کو آپس میں ملاتا ہے؛ یہ آپ میں، ماؤں میں، بچوں میں سب میں پایا جاتا ہے۔ یہ ہمارے اندر وہ ہارمون ہے جو دوسروں کے ساتھ ملنے اور کسی گروہ کا حصہ محسوس کرنے پر ہمیں اکساتا ہے۔ اس کی تسکین مثبت انداز سے ہو سکتی ہے، جیسے ہمارے اندر یہ احساس کہ ہم سب ایک انسانیت کا حصہ ہیں، ہم سب برابر ہیں، ہر کوئی مسرت کا متلاشی ہے، کوئی بھی عدم مسرت نہیں چاہتا – اس قسم کی باتیں، جو کسی سماجی چوپال کی رکنیت سے اسے حاصل کرنے کی نسبت کہیں زیادہ مستحکم ہے، جو کہ محض "پسند" کے پیغام جمع کرنے پر مشتمل ہے۔ 

میں نے ہارمون کے متعلق یہ معلومات ایک خاص مقصد کے تحت پیش کی ہے۔ تقدس مآب دلائی لاما اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں اکیسویں صدی کا بودھی بننا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بودھی تعلیمات اور سائنس کے درمیان رابطہ کا قیام، یہ دکھانے کی خاطر کہ بودھی تعلیمات میں ایسی بے شمار چیزیں موجود ہیں جو سائنس کے ساتھ مطابقت رکھتی ہیں، تو اس لئیے وہ "من اور زندگی" پر اکثر اجلاس منعقد کرتے ہیں تا کہ سائنس دانوں سے ملاقات کر سکیں، یہ جاننے کے لئیے کہ کون سی باتیں مشترک تصور کی جاتی ہیں، اور یہ کہ زندگی کا ایک مکمل روپ استوار کرنے کے لئیے دونوں کیسے ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔

اگر ہم اس بات کو سمجھ لیں کہ طبیعاتی اور حیاتیاتی سطح پر کس طرح یہ ہارمون ہمیں مسرت بخشتے ہیں، تو پھر ہم اس حکمت عملی کا تجزیہ کر سکتے ہیں جسے ہم ان کی تشفی کے لئیے استعمال میں لا رہے ہیں، اور اگر یہ کام نہ کرے تو کسی اور حکمت عملی سے استفادہ کیا جائے جو کہ ایک مثبت اور خود کو تباہ کرنے کے انداز سے بچنے میں معاون ہو۔ 

ڈوپامین، ہیجان انگیز ہارمون، اور تعمیری ہدف کا تعیّن

ہم ڈوپامین کی بات کر رہے تھے، یہ اجر کی توقع والا ہارمون۔ یہ آپ کے اندر زبردست ہیجان پیدا کر دیتا ہے، جیسے کوئی شیر کسی ہرن کو کھانے کی خاطر اس کا تعاقب کرتا ہے۔ تو ہمارے اندر بعض ایسی عادات ہیں جو اچھی نہیں ہیں، اس ڈوپامین والی مرض سے فائدہ اٹھانے کی خاطر ہم ایسی حرکتیں کرتے ہیں، مثلاً ہمارے فیس بک کے صفحہ پر مزید تر "پسند" حاصل کرنے کی توقع – پر یہ کام نہیں آتا۔ 

یا ہم اس کی تسکین کے لئیے قدرتی طریقے بھی کام میں لا سکتے ہیں۔ میرا ایک دوست ہے جو وزن اٹھانے کی ورزش کرتا ہے۔ تو اب وہ ۱۸۰ کلو وزن اٹھا سکتا ہے مگر وہ ۲۰۰ کلو اٹھانے کی توقع کرتا ہے۔ وہ بہت جوش میں ہے، اس انعام کی توقع سے وہ بہت خوش ہے۔ لیکن پھر بھی، فرض کیجئیے کہ وہ ۲۰۰ کلو وزن اٹھا سکتا ہے – تو بطور ایک بدھ متی کے، بڑے طنزیہ انداز میں، ہم یوں کہیں گے، کیا اس سے تمہیں کوئی بہتر پنر جنم ملنے والا ہے؟

لیکن اگر ہم ڈوپامین علامات کی موجودگی سے مثال کے طور پر، شمانتھا، مکمل ارتکاز، یا صبر کا حصول ، اپنے غصہ پر قابو پانا وغیرہ کی خاطر استفادہ کرنا چاہیں، تو یہ اس موقع پر نہائت پر جوش شکل اختیار کر لیتا ہے۔ شکست خوردگی کے احساس کی نسبت؛"میں اس قابل نہیں ہوں، میں اس سے نہیں نمٹ سکتا،" آپ اسے یوں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں "یہ ایک مشکل مرحلہ ہے، میں اس پر خوشی خوشی کام کروں گا۔"

ہمیں اسے اس کے بغیر کرنا ہے – آپ کے پاس مراقبہ کی ہدایات موجود ہیں – ناکامی یا کامیابی کی توقع کئیے بغیر۔ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ جب آپ فوری نتائج کی توقع کرتے ہیں، تو بے شک آپ مایوس ہوتے ہیں۔ پس آپ ایک ہدف پر کام کر رہے ہیں بغیر اس سے کوئی توقعات وابستہ کئیے۔ اور کسی با مقصد ہدف پر کام کرنا مسرت کا باعث ہوتا ہے۔ اس مسرت کی کوئی طبیعاتی بنیاد ہے، لہٰذا یہ عین سائنس کے اصول کے مطابق ہے: اکیسویں صدی کا بدھ مت۔ دوسرے لفظوں میں ہم بدھ مت کی افادیت کو سائندانوں کی زبان میں انہیں سمجھا سکتے ہیں۔ یہی تو اصل مقصد ہے۔

تین اعلیٰ مشقیں: ضبط نفس، ارتکاز اور امتیازی آگہی

ہمیں آزادی پانے کے عزم کو استوار کرنا ہے جسے بدھ مت میں ہم 'تیاگ' کہتے ہیں۔ پھر اپنی منفی عادتوں سے چھٹکارا پانے کے لئیے ہمیں اپنے آپ کو ضبط نفس، ارتکاز اور امتیازی آگہی کی تربیت دینی ہے، جنہیں تین مشقیں بھی کہتے ہیں: تا کہ ہم سود مند، نقصان دہ، کار گر اور بیکار کے درمیان تمیز کر سکیں، اس پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور اپنے رویہ میں مناسب تبدیلی لانے کا شعور بھی قائم ہو۔ 

ضبط نفس کی راہ میں رکاوٹ: پچھتاوا

ان تینوں کو اکٹھے مل کر کام کرنا ہے، لیکن ان کی معقول استواری کے لئیے، ہمیں ان عناصر کو تلف کرنا ہے جو اس کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پچھتاوا ضبط نفس پر برا اثر ڈالتا ہے۔ مثلاً، ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے انٹرنیٹ چیک نہیں کیا، یا پیغام یا ای میل کا فوری جواب نہیں دیا۔ اس قسم کا پچھتاوا ہمارے اسے مخصوص اوقات میں چیک کرنے کے ضبط نفس کو نقصان پہنچاتا ہے۔ 

اس کا کار آمد طریقہ یہ ہے کہ مطلع کرنے والا الارم بند کر دیا جائے – "آپ کی میل آئی ہے" – یا اپنے کمپیوٹر یا متحرک آلہ پر نشان کو، اور اسے دن میں صرف خاص اوقات پر چیک کریں، محض ضروری پیغامات کا فوری جواب دیں، تو ہمیں کم اہم سوالوں کا جواب بعد از آں جب ہم مصروف نہ ہوں دینے کے لئیے اپنے اندر ضبط نفس پیدا کرنے کی ضرورت ہے، یا انہیں دن کے کسی دوسرے حصے کے لئیے اٹھا رکھیں جب ہم پیغامات کا جواب دیتے ہیں۔

میں مانتا ہوں کہ میں بھی اس جرم کا مرتکب ہوتا ہوں، تو میں نے موصول ہونے والی ای میلوں کا جواب دینے کے لئیے ایک حکمت عملی اپنائی ہے۔ میں سماجی چوپالوں کا کام نہیں کرتا، تو مجھے ان پیغامات سے واسطہ نہیں پڑتا، لیکن مجھے ہر روز کم از کم تیس ای میل آتی ہیں۔ میں یہ کرتا ہوں کہ ان کے لگا تار جواب لکھتے رہنے کی بجائے، جس صورت میں میں اور کوئی کام نہ کر پاؤں گا، میں نشاندہی کرتا ہوں: جو نہائت اہم ہیں میں ان کا فوراً جواب دیتا ہوں، باقی کو میں نشان لگا دیتا ہوں۔ اور شام کو جب، مجھے معلوم ہے، میرا ذہن اتنا صاف نہیں ہوتا کہ میں کچھ لکھ سکوں یا کوئی اہم کام کر سکوں، تب میں ان کا جواب دیتا ہوں۔ پس آپ اس کے لئیے کوئی خاص وقت متعیّن کر دیتے ہیں۔ وگرنہ معاملہ بگڑ سکتا ہے۔

ارتکازمیں حائل رکاوٹیں: غنودگی، کند ذہنی، اور فرار 

غنودگی، کند ذہنی اور فرار ہمارے ارتکاز کی راہ کی رکاوٹیں ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی موجودگی ہمارے من کی آگہی پر برا اثر ڈالتی ہے کہ مستقل اپنے پیغامات کو چیک کرنے سے پرہیز ہماری زندگی کو آسان بنا سکتا ہے۔ اس پر توجہ قائم رکھنے کے لئیے یاد رکھیں کہ من کی آگہی کا یہی مطلب ہے۔

 یہ بات ذہن نشین کر لیں، کہ میری زندگی میں پریشانی کم ہو گی اگر میں اس حقیقت کو تسلیم کر لوں کہ ان میں سے بیشتر پیغاموں کا جواب میں شام کو دوں گا، فرض کرو۔ یا کوئی بھی وقت، جو ہم نے اس کام کے لئیے مقرر کیا ہے۔ اس میں رکاوٹ کس شے کی ہے، آپ کو نیند آ رہی ہے، آپ تھکے ہوئے ہیں، تو آپ بھول جاتے ہیں۔ اپنے فیس بک کے صفحہ کو کھولنا آسان ہے، یا آپ کند ذہنی کا شکار ہیں، اور بجائے اس کے کہ اٹھ کر جائں اور پانی  پئیں یا اور کوئی ایسی چیز، آپ انٹرنیٹ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یا فرار، میرا من آوارگی کا شکار ہے، اور یہ ہو رہا ہے؛ وہ ہو رہا ہے، اور بغیر سوچے سمجھے آپ پیغام کا جواب لکھ دیتے ہیں۔ آپ اس کو پڑھیں۔ "میں کسی چیز سے محروم نہیں رہنا چاہتا۔"

امتیازی آگہی کی راہ میں رکاوٹیں: شک اور تذبذب

آخری بات یہ ہے کہ ڈانواں ڈول رویہ امتیازی آگہی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔  ہم صرف مقررہ اوقات پر اپنے پیغامات چیک کرنے کے متعلق تذبذب کا اظہار کرتے ہیں – "کیا یہ فیصلہ درست تھا؟' – یعنی اپنے بارے میں عدم تیقن سے کام لیتے ہیں۔ شک۔

ایسے شکوک اس لئیے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ اپنے پیغامات چیک کرنے سے دستبرداری مشکل اور پریشان کن معاملہ ہے۔ ایسے شکوک و شبہات سے نمٹنے کے لئیے ہمیں اپنے آپ کو ہماری عادات بدلنے کے فوائد کی یاد دہانی کروانی ہے؛ اگر میں ایک وقت میں ایک کام پر توجہ دوں اور اپنے کاموں کو ایک ٹھوس ڈھانچے اور مناسب ترتیب میں کروں تو میری زندگی انتشار کا شکار نہیں ہو گی۔ وگرنہ تو انتشار ہی ہو گا جو کہ پریشان کن چیز ہے۔

طمانیت اور درد مندی

اپنی زندگی کو خوش تر بنانے کے لئیے ہم کچھ اور تراکیب بھی کام میں لا سکتے ہیں۔ مثلاً جب ہم ایک پُر ہجوم میٹرو میں سفر کر رہے ہوں تو اس سے کیسے نمٹیں۔ ہم جتنا زیادہ اپنے آپ پر توجہ دیں، اور اپنے تحفظ کو پیش نظر رکھیں، اور اپنے موبل فون کی آڑ لیں، ہم اتنی ہی گھٹن محسوس کریں گے۔ میٹرو پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے میں کافی وقت لگتا ہے مگر میں آپ کو وہاں خاموشی سے کوئی کتاب پڑھنے کا مشورہ نہیں دے رہا۔ میں اس صورت حال کی بات کر رہا ہوں جب آپ اپنے موبل یا موسیقی یا کھیل کا سہارا لیتے ہیں۔ ہم جتنا زیادہ اپنے آپ پر توجہ دیں اور اپنے تحفظ کی فکر کریں، اور موبل فون کی آڑ میں چھپیں، ہم اتنا ہی بند بند محسوس کریں گے، جس سے ہماری شکتی بھی دب جائے گی، اور ہم مزید دباؤ تلے آ جائں گے۔ ہم پر سکون نہیں ہیں، کیونکہ ہمیں خطرہ ہے، خاص طور پر یہاں ماسکو میں جہاں میٹرو حد درجہ پُر ہجوم ہیں۔ برلن میں اتنی بھیڑ نہیں ہوتی۔ 

اگر ہم اپنے موبل پر کھیل میں یا آئی پاڈ پر موسیقی میں کھو بھی جائں، تو ہم نے اپنے گرد ایک دیوار کھڑی کر دی ہے، ہم کسی قسم کی مداخلت نہیں چاہتے، پس ہم مدافعت پسند ہیں۔ یہ نہائت نا پسند تجربہ ہے، حالانکہ در حقیقت، ہم اپنے لئیے تفریح کا سامان مہیا کر رہے ہیں۔ ہم پُر سکون نہیں ہیں۔ 

دوسری جانب، اگر ہم اپنے آپ کو میٹرو میں سوار لوگوں کے ہجوم کا حصہ تصور کریں، اور ان سب کے لئیے جو ہم جیسی صورت حال سے دوچار ہیں درد مندی کا احساس پیدا کریں ، تو ہمارے من اور دل کشادہ ہوں گے۔ ہم خطرے سے بے شک آگاہ رہ سکتے ہیں، مگر یہ محض اپنی ذات پر توجہ دینے کے خوف سے مبرّا ہو گا۔ ہم سب کا تحفظ چاہتے ہیں۔ ہم اونچی آواز کی موسیقی میں سب کو ڈبونا نہیں چاہتے اور نہ اپنے کھیل کے ذریعہ دوسروں سے فرار چاہتے ہیں۔ اس سے محض ہم خود تنہا رہ جاتے ہیں۔ ہم ایسی لا تعلقی نہیں چاہتے۔

سب کے لئیے کشادہ دلی محسوس کرنا

جو چیز کہیں زیادہ سود مند ہے وہ سب کے لئیے کشادہ دلی استوار کرنا ہے، لیکن ایسا کرنا خاصا نازک معاملہ ہے۔ اگر آپ ایک ٹھوس میں کے حامل ہیں، تو اندر یہ احساس ہے، کہ اب میں نے اپنے آپ کو وا کر دیا لہٰذا اب میں عاجز ہوں، اور ضرر پذیر ہوں۔ یہ کام ایسے نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کسی کی فکر کرتے ہوئے کشادگی پیدا کرنا، ایک طرف ہماری گروہ کا حصہ محسوس کرنے کی جبلّت کی تسکین ہے۔ جب ہم گروہ سے الگ ہونے کی بجائے گروہ میں شامل ہوں تو آپ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ پس جانور کی سطح پر یہ کام کرتا ہے۔ لیکن ہمیں اس ٹھوس میں جو اندر ہے  اور جس کے گرد کی دیوار گر چکی ہے کا تجزیہ کرنے میں احتیاط برتنی چاہئیے ۔۔۔۔  "اب ہر کوئی میرے اوپر حملہ آور ہو گا۔"

یہ ایک نازک کام ہے مگر نہائت کار آمد بشرطیکہ آپ اسے کر پائں۔ اسے کرنے کی خاطر ہمیں ضبط نفس، ارتکاز اور امتیازی آگہی سب کو یکجا کرنا ہو گا۔

محنت طلب کام سے آرام کے لئیے موثر وقفہ لینا

زندگی میں پریشانی سے بچنے کے لئیے ہم کئی اور طریقے بھی آزما سکتے ہیں، جن میں سے بعض نہائت سادہ ہیں۔ مثلاً محنت طلب کام سے وقفہ لینے کے لئیے انٹرنیٹ پر موج رانی کی بجائے ہم اٹھ کھڑے ہوں، پانی کا ایک گلاس پئیں اور کھڑکی سے باہر جھانکیں – اس قسم کی کوئی چیز۔ دوسرے لفظوں میں، مزید تحرک کی بجائے کم تحرک۔ پریشانی تحرک کی فراوانی سے آ رہی ہے۔ آپ اس کا تدارک دباؤ میں اضافہ سے نہیں کر سکتے، تھوڑا ہی بہتر ہے۔

نجات پانے کے اس عزم کے ساتھ، ان تین مشقوں کا اطلاق: ضبط نفس، ارتکاز اور امتیازی آگہی، ہم اپنی روز مرہ زندگی کی پریشانی کو کم کرنے میں کامیاب ہوں گے، اور خود ضرر پذیر عادات کو بھی۔ ہم کام، گھرانہ، مالی صورت حال وغیرہ ان سب سے نمٹنے کے لئیے من کی بہتر حالت میں ہوں گے۔ خاص طور پر جدید زندگی کے مسائل جس میں ہمیں اتنی بے شمار چیزیں میسر ہیں جیسے انٹڑنیٹ، سماجی چوپالیں، موسیقی وغیرہ  سے نمٹنے میں موثر ہو گی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انٹرنیٹ کا استعمال بند کر دیں، اپنے متحرک آلات باہر پھینک دیں، اور آئیندہ کبھی موسیقی نہ سنیں؛ اس کا یہ مطلب نہیں۔ بلک مقصد یہ ہے کہ بہتر حکمت عملی، عمدہ عادات استوار کریں جن سے ان چیزوں سے مثبت طور سے استفادہ کرنا سیکھیں۔ شکریہ۔

سوالات

مسلہ یہ ہے کہ اس جدت پسند زندگی میں ہمیں چیزوں پر رد عمل کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ہم خبروں کا جائزہ لیتے ہیں تو اس لئیے ایسا نہیں کرتے کہ ہمیں مصروفیت کا کوئی بہانہ چاہئیے، بلکہ اس لئیے کہ ہم کیا کریں، ہم کس طرح مسائل سے نمٹیں۔ مثلاً نرخ، بعض اوقات وہ اس میں تغیّر کو آن لائن دکھاتے ہیں اور ہمیں اس پر رد عمل کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ یا کوئی آپ کو پیغام بھیجتا ہے کہ فلاں آدمی بیمار ہے اور اسےمدد کی ضرورت ہے۔ یا ہمارے ہمکار ہمیں کچھ پوچھنا چاہتے ہیں، تو اگر ہم پیغام چیک نہیں کریں گے تو ہمیں کیا معلوم۔ یا جیسے موسم کا حال ہے، اگر ہم موسم کا حال صبح کے وقت معلوم نہیں کریں اور گھر سے نکل پڑیں، ہو سکتا ہے کہ بہت سردی ہو ائے، ہمیں اس کی خبر نہیں تھی، اور ہم بیمار پڑ جائں۔ ان تمام صورتوں میں ہماری کار کردگی میں کمی آ جاتی ہے اور ہم اپنا وقت، اپنی صحت یا کسی اور چیز کا نقصان کر سکتے ہیں۔ 

اسی لئیے میں نے کہا کہ ہمیں کوئی صحت مند حکمت عملی اختیار کرنی چاہئیے، کوئی عاقلانہ حکمت عملی کہ ہم انٹڑنیٹ کا استعمال کیسےکریں۔ اگر ہمارا جسم فربہ ہے اور ہم فاقہ کشی اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بالکل ہی کھانا پینا چھوڑ دیں۔ ہم اپنی خوراک میں کمی کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم معلومات کے موٹاپے کا شکار ہیں، تو ہم معلومات جنہیں ہم دیکھتے ہیں ان کی تحدید کر دیتے ہیں اور محض ضروری ضروری چیزوں پر نظر رکھتے ہیں، جو فائدہ مند ہے، اور دوسری چیزیں،جیسا کہ میں نے کہا، جو میری ای میل کی حکمت عملی ہے کہ ان کو نشان لگا چھوڑیں تا کہ آپ کو پتہ ہو کہ ان سے بعد میں نمٹنا ہے؛ اور یوں ان سے نمٹیں۔ 

لیکن اس حکمت عملی کے پیش نظر بہر حال، ہمیں تمام معلومات وصول تو ہو جاتی ہیں اور پھر ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کا جواب دیں اور کس کا جواب نہ دیں، مگر پھر بھی ہم سارے پیغام اور ساری خبریں پڑھ تو لیتے ہی ہیں۔

بہر حال، آپ کو الگ الگ حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ صبح اٹھ کر پہلا کام موسم کا حال دیکھنا یا یہ کہ مجھے رات بھر میں کتنے "پسند" کے پیغام ملے میں بہت فرق ہے۔ آپ کو یہ چیک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کتنے "پسند" کے پیغام ملے۔ اور آپ کو جو پیغام ملتے ہیں ان میں سے بعض محض اشتہار بازی ہے، اور بعض ایسے لوگوں کی طرف سے ہیں جو آپ کے کام وغیرہ کے اعتبار سے اہم نہیں ہیں؛ بعض چیزوں سے آپ بعد میں بھی نمٹ سکتے ہیں۔ آپ اپنی ناموں کی فہرست سے واقف ہیں اور جانتے ہیں کہ کیا اہم ہے اور کیا کم اہم ہے۔ آپ کا کوئی دوست اپنے تیار شدہ ناشتے کی تصویر لوگوں کو بھیجتا ہے۔ بے شک مجھے اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ 

اسے معلوم ہے کہ آپ چیک نہیں کرتے؟

میں بعد میں اس پر ایک نظر ڈال لوں گا، مگر ابھی مجھے اپنا کام روک کر اس کو نہیں دیکھنا ہے۔

دوسرے مذاہب بھی ہمیں اس ہارمون کے "احساس آسودگی" کے طریقے بتاتے ہیں۔ تو ان میں اور بدھ مت میں کیا فرق ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے مذاہب ایسے معاملات میں اس طرح حصہ لیتے ہیں جیسے، "حضرت عیسیٰ مجھ سے پیار کرتے ہیں" اور "خدا مجھ سے پیار کرتا ہے" وغیرہ – جس کا مقصد قبولیت کا حصول اور مدعا تک رسائی ہے۔ ایسی باتیں یقیناً موجود ہیں، یہ سچ ہے۔ جن طریقوں کی میں بات کر رہا تھا وہ بدھ مت تک ہی محدود نہیں ہیں، وہ بغیر کسی مذہبی صحیفے کے بھی پائے جاتے ہیں' یہ محض ایسی عمومی حکمت عملی ہے جو کسی بھی انسان کے لئیے مفید ہے۔ جو میں کہہ رہا ہوں اس میں بودھی نکتہ نظر سے کوئی قابل تخصیص بات نہیں ہے۔ 

اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ اس میں خاص طور پر بدھ مت والی کون سی بات ہے، تو یہ اس کا لطیف سطح پر حقیقت کا نظریہ ہے۔ اور ان سائنسدانوں سے بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بھی خاص انوکھا نہیں ہے، کیونکہ حقیقت کا یہ روپ قدریہ کائنات کے نظریہ سے عین مطابقت پذیر ہے۔ اگر آپ کائنات کی ساخت کے پہلو سے نظریہ قدریہ کا منطقی جائزہ لیں تو آپ خالی پن اور دست نگر نمو پر بودھی تعلیمات تک جا پہنچتے ہیں۔ 

اگر ہم نے کسی شخص سے ملاقات کرنا طے کیا ہے، لیکن جب ہماری ان سے رو برو ملاقات ہوتی ہے تو وہ اپنے فون میں منہمک ہیں اور ہماری جانب توجہ ہی نہیں دیتے۔ تو ایسی صورت میں کیا اس شخص سے واضح طور پر یہ کہنا مناسب ہے کہ ان کا رویہ غیر مناسب ہے، کیونکہ ہم آمنے سامنے بیٹھے ہیں؟

ذاتی طور پر، میرے خیال میں، اس شخص سے یوں کہنا مناسب ہو گا "ہیلو، میں یہاں موجود ہوں!" ایک چیز ہے جسے موبل فون کے آداب کہتے ہیں جو کہ بہت اہم ہے، خاص طور پر اگر آپ کے نوجوان بچے ہیں، تو ایسی صورت میں یہ پابندی لگانا کہ کھانے کے وقت پیغام رسانی اور بات چیت بالکل ممنوع ہے۔ جی ہاں، آپ انہیں کہتے ہیں کہ اس کی قطعی اجازت نہیں، اور آپ انہیں فون کو الگ سے رکھ دینے کی ہدائت دیتے ہیں۔ میری ایک دوست کسی امریکی جامعہ میں پڑھاتی ہے، وہ لیکچر کے دوران تمام طلبا کے فون ایک ڈیسک پر رکھوا دیتی ہے۔ انہیں فون کو اپنی نشست پر رکھنے کی اجازت نہیں۔ میرے خیال میں یہ بالکل مناسب ہے۔ جو بات دلچسپ ہے وہ یہ کہ  – میں بھول گیا کہ ہر پینتالیس منٹ یا ایک گھنٹہ بعد، کیونکہ یہ تین گھنٹے کی کلاس ہوتی ہے – وہ لوگوں کو فون کا وقفہ دیتی ہے۔ یہ وجہ نہیں کہ انہیں بیت الخلا جانا ہوتا ہے، بلکہ وہ فون کو چیک نہ کر سکنے کے باعث اس قدر پریشان ہوتے ہیں، کہ وہ بھاگ کر اپنا فون پکڑتے ہیں اور وقفہ کے دوران اسے دیکھتے ہیں۔ اس کا معاشرتی پہلو بہت دلچسپ ہے۔ 

یہ فون سے لگاؤ کا مرض جو لوگوں کو لاحق ہے بہت شدید ہے، اور اکثر اس کے متعلق کوئی سماجی ضابطہ کار اختیار کرنا لوگوں کو سکھلایا جاتا ہے۔ اگر اسے نرمی سے کیا جائے تو میرے خیال میں ایسا کرنا مناسب ہے۔ بہر حال اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا کہ جس چیز کے بارے میں وہ معلومات حاصل کرنا چاہ رہے ہیں وہ کوئی آفت ہے یا وہ محض غیر ضروری قسم کی باتیں کرنا چاہ رہے ہیں۔ اور ہاں ہم ذرا حقیقت سے دیکھیں تو ہم کتنی بار آفت کی خبریں فون پر وصول کرتے ہیں؟ اور اگر ہم کسی سے ملتے ہیں، اور ہم اپنے بچے کے خیریت سے گھر پہنچ جانے یا ایسی کوئی اور بات کی خبر کے منتظر ہیں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں۔ نرمی سے بتائں: "مجھے ایک کال کا انتظار ہے۔ مجھے اپنے بچے کے خیریت سے گھر پہنچنے کی خبر کا انتظار ہے،" تو وہ سمجھ جائں گے، بات صاف ہو جائے گی۔ 

میٹرو اور زمین دوز ریل گاڑی میں سفر کرتے وقت میں ہمیشہ موسیقی سنتا ہوں، لیکن میں یہ کام مزید اکساہٹ کے لئیے نہیں بلکہ منفی اکساہٹ کو کم کرنے کے لئیے کرتا ہوں۔ یہ اس لئیے کہ میرے ارد گرد لوگ باتیں کر رہے ہوتے ہیں جو میں سننا نہیں چاہتا، ان باتوں میں بہت سا منفی عنصر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ میٹرو میں بہت ساری اشتہار بازی ہوتی ہے جو کچھ بتاتی ہے وہ آپ کو پہلے سے ہی ازبر ہے۔ تو ان سب منفی چیزوں سے بچنے کے لئیے میں موسیقی سنتا ہوں۔ کیا میں فرار کی راہ تلاش کر رہا ہوں؟ یا میں منفی اور شدید تحرک والے عناصر کو کم شدت اور کم بربادی میں تبدیل کر رہا ہوں۔

یہ ایک نہائت دلچسپ سوال ہے۔ سب سے پہلی بات جو میرے ذہن میں آتی ہے وہ ہندوستانی جواب ہے، جو کہ شائد بہترین جواب نہ ہو: جب آپ ہندوستان میں رات کو چلنے والی ویڈیو والی بس میں سوار ہوں، ایک ایسی بس جس میں ویڈیو چل رہی ہوتی ہے، تو یہ تمام رات چلتی رہتی ہے۔ یہ ایک ہی فلم بار بار نہائت بلند آواز میں دکھاتی ہے۔ اگر آپ ڈرائیور سے اس کی آواز کم کرنے کو کہیں تو وہ کہتا ہے "آپ اسے نہ سنیں۔" 

میٹرو میں آپ کو ہر شخص کی بات سننے کی مجبوری نہیں۔ یہ توجہ دینے کا معاملہ ہے۔ آپ کس چیز پر توجہ مرکوز کئیے ہوئے ہیں؟ اگر آپ کی توجہ سب لوگوں پر ہے اور آپ دیکھتے ہیں، فرض کیجئیے، ان کے چہرے کے تاثرات، جو کہ شائد بہت خوشگوار نہ ہوں، تو ان کے لئیے درد مندی کے ہمراہ عدم مسرت سے نجات اور خوشی کی تمنا، تب آپ کی توجہ ان کی باتوں پر نہیں ہو گی؛ آپ اشتہاروں کو بھی نہیں دیکھ رہے۔ آپ کی توجہ کا مرکز کوئی اور شے ہے۔

اگر ہم اس کی صلاحیت نہیں رکھتے تو پھر موسیقی کا سہارا لیں۔ لیکن موسیقی کو لوگوں کو نظر انداز کرنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہئیے۔ یہ درد مندی استوار کرنے کا بہترین موقع ہے۔ 

ذرا 'ٹونگلن' کے اصول کے بارے میں سوچیں۔، بدھ مت کا یہ لینے اور دینے کا ترقی یافتہ پاٹھ۔ ایسی صورت حال میں آپ اس کو پرے دھکیلنے کی بجائے اور لوگ جو بات کر رہے ہیں اس کے گرد دیوار کھڑی کرنے کی بجائے، آپ اسے قبول کر لیتے ہیں، تو آپ کشادہ ذہن ہیں اور آپ اس بات کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ لوگ کسی معمولی یا منفی بات پر گفتگو کر رہے ہیں، تب آپ ان کے لئیے پیار بھری تمنا کرتے ہیں کہ جو چیز انہیں پریشان کر رہی ہے وہ اس پر قابو پا لیں۔ وہ زیادہ بامعنی اور مثبت کاموں میں لگ جائں۔ پس یہ ٹونگلن پاٹھ کے لئیے بہترین موقع ہے۔ 

بیشتر اوقات، جب ہم نجات کی راہ پر پہلا قدم رکھتے ہیں، تو کسی مقام پر آ کر اس میں کمی واقع ہو جاتی ہے، اور شائد کاہلی کے  سبب یا کسی اور وجہ سے ہمیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، اور اگر ایسا ہو تو اس کی بحالی کے لئیے کیا کیا جائے۔

سب سے مفید مشورہ اس سلسلہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ جس شے سے ہم نجات پانا چاہ رہے ہیں اس کے نقصانات کی یاد دہانی کروائی جائے؛ جو بھی دکھ بھری صورت حال ہے، اور یہ کہ اس سے نجات پانے کے فائدے کیا ہیں۔ اور اپنے آپ کو اس سے نجات پانے کے طریقوں کی یاد دہانی کروائی جائے، اور اس اعتماد کی توثیق کہ نہ صرف یہ طریقے کار گر ہیں بلکہ میں انہیں آزمانے کا اہل بھی ہوں۔ یہ سب باتیں آزادی حاصل کرنے کے عزم کا اہم حصہ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں کہ " میں اس سے نجات پا سکتا ہوں اگر میں کافی محنت سے کام لوں۔" وگرنہ آپ دل شکنی کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ نہیں کرتے۔ آپ ہمت ہار دیتے ہیں۔

اگر ہم مراقبہ کریں، تو اس سے ہمیں استقامت ملتی ہے، اور یہ اس کا ماحصل ہے۔ لیکن اگر ہم مراقبہ کو استقامت پانے کے لئیے استعمال کریں، تو یہ ہم بغیر کسی خاص جد و جہد کے پا لیتے ہیں، اور اس سے ہمارے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ بے شک اگر کوئی شخص بیمار ہو تو اسے دوا لینی چاہئیے۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنے من کی حالت بہتر بنانے ، پریشانی کم کرنے اور من پر دیگر منفی اثرات دور کرنے کے لئیے کچھ لیتا ہے تو اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ 

میرے خیال میں ہمیں بودھی طریقوں کے بارے میں حقیقت پسند ہونا چاہئیے۔ بودھی طریقے ان لوگوں کے لئیے فائدہ مند ہیں جو ذہنی پختگی اور استقامت کے ایک خاص درجہ تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر آپ جذباتی طور پر ذہنی خلفشار کا شکار ہیں تو آپ ابھی بودھی طریقوں سے استفادہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ آپ کو کسی طرح سے مزاج میں ٹھہراؤ چاہئیے، اس کے لئیے دوا بہت مفید ہو سکتی ہے – خواہ یہ مسکن ادویات ہوں یا دافع کساد یا جو بھی۔ آپ کو اپنے آپ کو بہتر بنانے کے لئیے کچھ نہ کچھ چاہئیے۔ محض یہ کہنا، "بس مراقبہ کرو،" ایسے لوگ ابھی اس کے اہل نہیں ہیں۔ لیکن جب آپ کی طبیعت میں ٹھہراؤ آ جائے، تو آپ کو نشہ پر قابو پانا ہے۔ جب آپ کی طبیعت پر سکون ہو تو آپ کے من کی حالت ایسی ہوتی ہے جس میں آپ مراقبہ کو کام میں لا سکتے ہیں. اس سے قبل آپ بہت پریشانی کی حالت میں ہیں؛ لہٰذا ارتکاز کا فقدان ہے۔ 

برما میں تین لوگوں کو قید کی سزا ہوئی، ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے مہاتما بدھ کی ایک تصویر بطور طعام گھر کے اشتہار کے آویزاں کی جس میں اس نے کانوں میں صوتی آلے لگا رکھے تھے۔ بودھی نکتہ نظر سے آپ کا اس پر رد عمل کیا ہو گا۔  

دیودتا، جو کہ مہاتما بدھ کا چچا زاد بھائی تھا، ہر وقت اسے نقصان پہنچانے پر تُلا رہتا، لیکن مہاتما بدھ کو بلا شبہ کچھ نہ ہوتا، اور مہاتما بدھ اس پر کبھی ناراض نہ ہوا۔ لہٰذا مہاتما بدھ ایسی تصویر پر جس میں اسے صوتی آلہ لگائے دکھایا گیا ہو ناراض نہیں ہو سکتا۔ مگر بدھ مت کے پیروکاروں کے لئیے، اور کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کے معاملہ میں، جب لوگ ان کی مرکزی شخصیت کی بے حرمتی کرتے ہیں تو یہ نہائت بری بات ہے۔ اور کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا کوئی جواز نہیں؛ یہ نہائت ناشائستہ حرکت ہے۔ لیکن انہیں قید میں ڈال دینا یا کوئی بھاری جرمانہ، غالباً یہ بالکل مناسب نہیں ہے۔ تاہم انہیں بھی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئیے۔ آزادی رائے کا مطلب لوگوں کو ناراض کرنے کی آزادی نہیں ہے؛ خاص طور پر جب آپ کو یہ معلوم ہو کہ اس سے بعض لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ اب اس بات کا تعین کون کرتا ہے کہ کیا نفرت انگیز ہے اور کیا نہیں ہے، اس میں بد عنوانی کی گنجائش ہے۔ لیکن جہاں تک مذہب کا معاملہ ہے، جیسے حضرت عیسیٰ یا محمد یا مہاتما بدھ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی، تو یہ بلا شبہ غیر مناسب ہے۔ ذرا سوچئیے کہ حضرت عیسیٰ کانوں میں صوتی آلہ لگائے، صلیب پر لٹکے اپنے آئی پاڈ پر کسی نئے آئی پاڈ کا اشتہار سن رہے ہوں، تو اس پر عیسائیوں کا کیا رد عمل ہو گا؟ میں نہیں سمجھتا کہ عیسائیت کے پکے پیروکار اسے پسند کریں گے۔ 

ہم یا تو عالمگیر ہدف پانے کی یا ذاتی ہدف پانے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں دو انتہا پسند صورتیں ہو سکتی ہیں، لیکن اس معاملہ میں یہ لا منتہا ہے، آپ ایک ہدف کو پا لیتے ہیں مگر پھر ایک اور ہدف ہے۔ بودھی برادریوں میں میں نے ایک اور حد سے متجاوز صورت جو دیکھی ہے وہ یہ کہ وہ روحانی ہدف پانے کی کوشش میں دنیاوی ہدف کو بھول جاتے ہیں۔ کیا اس مسلے کا کوئی حل دریافت کرنے اور توازن بر قرار رکھنے کے کئی طریقے بھی ہیں؟ 

تقدس مآب دلائی لاما ہمیشہ ۵۰/۵۰ پر زور دیتے ہیں۔ ہمیں اپنی زندگی کی حقیقتوں کا جائزہ لینا ہے، ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؛ ہماری مالی صورت حال، کیا ہمارے کوئی اہل و عیال ہیں؟  پس حقیقت پسندی سے کام لیں۔ 

Top