توضیح
بعض اوقات ہم کسی معمولی سی غلطی پر اپنے آپ کو کوستے ہیں، مثلاً ہم جو کھانا چاہتے تھے وہ طعام گھر میں ختم ہو چکا تھا، یا ہم کسی ریل گاڑی یا ہوائی جہاز میں نشست پانے سے قاصر رہے جو ہمیں خاص دن یا وقت پر درکار تھی، یا ہم اپنے مطلوبہ وقت پر تیراکی کے لئیے نہیں جا پاۓ کیونکہ ہمیں زکام ہو گیا۔ لیکن جب ہم وسعت نظر سے اپنی زندگی کا جائزہ لیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم بے حد خوش قسمت ہیں۔ ہم کسی ایسی بد ترین صورت حال سے محفوظ ہیں جو ہمیں کوئی مثبت یا قابل قدر کام کرنے سے باز رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہمارے پاس بے شمار عمدہ مواقع موجود ہیں، خصوصاً بے شمار روحانی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع، جیسے کہ بدھ مت جس سے ہم اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔
اگر ہم کسی آفت زدہ علاقے میں پھنس جائں، جیسا کہ ۲۰۱۵ کے زلزلہ کے بعد کا نیپال، یا کوئی قحط زدہ علاقہ، یا جنگ کی لپیٹ میں کوئی بستی، یا کوئی ایسی جگہ جہاں روحانی پاٹ قانوناً منع ہو اور میسر نہ ہو، یا جیل میں تشدد پسند مجرموں کے ساتھ بند کر دئیے جائں، یا کسی جنگ میں ملوث علاقہ میں فوج میں شامل ہو کر لڑنے پر مجبور ہوں، تو ہم کیسے بودھی تعلیمات اور اطوار سیکھ کر ان پر عمل پیرا ہو سکیں گے؟ یا اگر ہم جسمانی، ذہنی یا جذباتی طور پر شدید معذور ہوتے، تو شائد یہ ممکن ہوتا، مگر یہ نہائت دشوار ہوتا؟ یا ہم اس قدر دولتمند ہوتے کہ ہمیں کبھی کام نہ کرنا پڑتا اور ہماری پوری زندگی دعوتوں اور تفنن طبع کی سر گرمیوں میں بسر ہوتی، یعنی ہمیں روحانی معاملات سے کوئی رغبت نہ ہوتی؟ یا روحانی پاٹ کے متعلق ہمارا رویہ مکمل طور پر تنگ نظری اور معاندت پر مبنی ہوتا؟
اس کے علاوہ ہمیں اس وقت بہت سے عمدہ مواقع میسر ہیں۔ تعلیمات کے تراجم موجود ہیں، جو کتب میں اور انٹرنیٹ پر میسر ہیں، سر پرستوں نے ان کی اشاعت میں مدد کی ہے، اساتذہ بھی موجود ہیں، ایسے مراکز بھی ہیں جہاں ہم سیکھ سکتے ہیں اور لوگ ان کی سر پرستی کرتے ہیں، اور ہمیں سیکھنے کی عقل اور رغبت میسر ہے۔
یہ حقیقت کہ ہم ان بد ترین آلام سے محفوظ ہیں اور ہماری زندگی کو یہ سنہری مواقع میسر ہیں یہ ہماری صورت حال کو خصوصیت بخشتا ہے۔ ہمیں اپنی قیمتی زندگی کا جشن منانا چاہئیے اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئیے۔
مراقبہ
- سانس پر ارتکاز کے ذریعہ پر سکون ہو جائں۔
- اس بات کو تصور میں لائں کہ زلزلہ کے وقت آپ نیپال کی پہاڑیوں میں کوہ پیمائی کر رہے تھے، اور آپ وہاں خوراک اور پانی کے بغیر پھنس گئے۔
- پھر یہ تصور کریں کہ آپ کو ہوائی جہاز کے ذریعہ وہاں سے نکال کر گھر پہنچایا گیا۔
- ذرا سوچیں کہ اس ہولناک صورت حال سے بچ نکلنے پر آپ کس قدر خوش ہوں گے۔
- اس آزادی کا جشن منائں۔
- تصور کریں کہ آپ ملک شام میں ہیں اور اسلامک سٹیٹ نے آپ کے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ کے پاس بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
- پھر وہاں سے بچ نکلنے کا تصور کریں۔
- خوشی منائں۔
- کسی قید خانہ میں بہت سارے دہشت گرد بدمعاش جو آپ کو دن رات دھمکا رہے ہیں کے ہمراہ بند ہونے کو تصور میں لائں۔
- پھر قید خانہ سے رہائی کا تصور کریں۔
- خوشی منائں۔
- سوڈان میں قحط سالی اور فاقہ زدی کو تصور میں لائں۔
- پھر ایک خوراک کی ہوائی رسد کا تصور کریں جس سے آپ کے پاس کافی کھانا پانی آ جائے۔
- خوشی منائں۔
- نسیان کے مرض کا شکار ہونے کا تصور کریں جس سے کہ آپ کو کوئی شے یا شخص یاد نہیں اور یہ کہ آپ تین الفاظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کر سکتے جن میں ربط ہو۔
- پھر شفا یاب ہونے کا تصور کریں۔
- خوشی منائں۔
- پھر ان مصائب سے دھیرے دھیرے نجات کا احساس لئیے – نیپال میں زلزلہ میں پھنسنا، شام میں آئی سیس کے زیر اثر پھنس جانا، دہشت گرد قیدیوں کے ساتھ جیل میں پھنس جانا، سوڈان میں قحط سالی کا شکار ہونا، نسیان کا عارضہ ہونا۔
- اس لا جواب آزادی جو آپ کو ملی ہے کا تصور کریں۔
- پھر وہ سب عمدہ مواقع جو آپ کو میسر ہیں ان کے متعلق سوچئیے: تعلیمات کے ترجمے موجود ہیں، جو کتب کی شکل میں اور انٹرنیٹ پر مہیا ہیں، سرپرستوں نے ان کی اشاعت کو ممکن بنایا ہے، اساتذہ بھی موجود ہیں، ایسے مراکز بھی قائم ہیں جہاں ہم علم حاصل کر سکتے ہیں اور لوگ ان کی سر پرستی کرتے ہیں، ہمارے اندر عقل اور سیکھنے میں دلچسپی ہے۔
- سب سے آخر میں، اپنے آپ کو ہر قسم کی آزادی اور بہتری کے عناصر جو ہمیں میسر ہیں ان کی یاد دہانی کروائیے، اور یہ کہ ہماری صورت حال بیتے دنوں میں لوگوں کو میسر سہولتوں کی نسبت کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے
- خوشی منائں اور اس بے مثال زندگی جو ہمیں ملی ہے اس کو ضائع نہ کریں، بلکہ اس سے فائدہ اٹھانے کا مصمم ارادہ کریں۔
خلاصہ
ہم اپنی موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہیں کہ ہم کس قدر خوش نصیب ہیں، کم از کم اس لمحہ، کہ زندگی کے اندوہ ناک حالات سے محفوظ ہیں جو ہمیں اپنی روحانی اور جذباتی استواری سے باز رکھتے، تو ہم اس نعمت کے میسر ہونے کو نہائت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اگرچہ کسی کی زندگی بھی کامل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی صورت حال، لیکن پھر بھی، یہ کس حد تک خوفناک ہو سکتی تھی، تو ہم اپنے آپ کو نہائت خوش قسمت پاتے ہیں۔ اس احساس قدر و تشکر کے توسط سے ہم وہ اعتماد استوار کرتے ہیں جس سے کہ احسن مواقع سے فائدہ اٹھا کر ہم اپنی زندگی کو مزید بہتر بنا سکیں۔