ایک پریشان کن جذبہ من کی وہ حالت ہے کہ جسے جب ہم استوار کرتے ہیں تو اس سے ہمارے من کا چین اور ضبط نفس کھو جاتا ہے۔
چونکہ ہمارے من کا چین کھو جاتا ہے اس لئیے یہ پریشان کن ہے؛ یہ ہمارے من کے سکون کو منتشر کرتا ہے۔ چونکہ پریشانی کی حالت میں ہم من کا چین کھو بیٹھتے ہیں،تو ہم اپنی سوچ اور جذبات کے متعلق تیّقن نہیں رکھتے۔ ذہنی دھندلاہٹ کے باعث ہم اس امتیازی آگہی کو کھو بیٹھتے ہیں جو ضبط نفس کے لئیے لازم ہے۔ ہمیں اپنی مفید اور غیر مفید کے درمیان امتیاز کی پہچان کو قائم رکھنا ہے؛ مخصوص حالات میں کیا موزوں ہے اور کیا غیر موزوں۔
من کی تعمیری حالتوں کے ہمراہ پریشان کن جذبات بھی ہو سکتے ہیں
پریشان کن جذبات کی چند مثالیں جیسے لگاوٹ یا شدید آرزو، غصہ، حسد، غرور، تکبّر وغیرہ ہیں۔ ان میں سے بعض پریشان کن جذبات ہمیں ضرر رساں رویّے پر مائل کر سکتے ہیں، مگر یہ لازم نہیں کہ ہمیشہ ایسے ہی ہو۔ مثال کے طور پر، لگاوٹ اور شدید آرزو ہمیں ضرر رساں رویہ کی ترغیب دے سکتے ہیں - جیسے جا کر کسی کی کوئی چیز چرا لائیں۔ مگر دوسری جانب ہمارے اندر پیار پانے کی شدید آرزو بھی ہو سکتی ہے اور ہمارا اس سے گہرا لگاؤ ہے، چنانچہ ہم دوسروں کی مدد کرتے ہیں تا کہ وہ ہم سے پیار کریں۔ کسی کی مدد کرنا کوئی ضرر رساں جذبہ نہیں؛ بلکہ یہ تعمیری جذبہ ہے، مگر اس کے پس پشت ایک پریشان کن جذبہ ہے:"میں پیار چاہتا ہوں، لہٰذا میں تم سے بدلے میں پیار کی بھیک مانگتا ہوں۔"
یا غصے کو ہی لے لیجئیے۔ غصہ کی وجہ سے ہم تباہ کن رویہ اختیار کر سکتے ہیں، جا کر کسی کو نقصان پہنچائیں یا کسی کو مار ڈالیں کیونکہ ہم شدید غصے کی حالت میں ہیں۔ تو یہ ضرر رساں رویہ ہے۔ لیکن، فرض کیجئیے کہ ہم کسی نظام یا صورت حال کی نا انصافی کی وجہ سے غصہ میں ہیں - اور ہم اس قدر ناراض ہیں کہ ہم اسے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور جو کام ہم کریں ضروری نہیں کہ وہ کسی قسم کا تشدد ہی ہو۔ لیکن یہاں اہم بات یہ ہے کہ کسی تعمیری مثبت کام کے پس پشت ایک پریشان کن جذبہ کار فرما ہے۔ ہم من کی شانتی سے محروم ہیں اور، چونکہ ہمارے من میں سکون نہیں، تو جب ہم وہ مثبت کام کر رہے ہیں، ہمارے من اور جذبات شفاف نہیں ہیں اور ہمارے من کی حالت بھی کچھ خاص معتبر نہیں ہے۔
تو ان معاملات میں، شدید آرزو یا غصہ کی بدولت، ہم چاہتے ہیں کہ دوسرا شخص ہم سے پیار کرے یا ہم کسی نا انصافی کا خاتمہ کریں۔ یہ مستحکم من کی حالتیں نہیں ہیں اور نہ ہی مستحکم جذباتی حالتیں ہیں۔ چونکہ من اور جذبات کی یہ حالتیں شفاف نہیں اس لئیے ہماری سوچ اور اس پر عمل کا طریقہ بھی واضح نہیں ہے۔ نتیجتہً ہم ضبط نفس سے عاری ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم کسی کی کوئی کام کرنے میں مدد کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن بہتر یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں خود یہ کام کرنے دیا جاۓ۔ فرض کیجئیے کہ ہماری ایک جوان بیٹی ہے اور ہم اس کی کھانا پکانے یا گھر یا بچوں کی دیکھ بھال میں مدد کرنا چاہتے ہیں، بیشتر حالات میں یہ بیجا دخل اندازی کے مترادف ہو گا۔ ہماری بیٹی شائد کھانا پکانے کے طریقہ یا بچوں کی پرورش کے معاملہ میں ہمارے مشورہ کو پسند نہ کرے۔ مگر ہم پیار کے متلاشی ہیں اور ہم اپنی افادیت ثابت کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ہم اپنی راۓ اس پر مسلط کرتے ہیں۔ ہم کوئی بھلا کام کر رہے ہیں، مگر اس دوران ہم ضبط نفس کھو بیٹھے ہیں جس کے سبب ہم یوں سوچ سکتے تھے،"بہتر ہو گا اگر میں اپنا منہ بند رکھوں اور نہ کوئی مشورہ دوں اور نہ ہی کسی قسم کی مدد کی پیشکش کروں۔"
اگر ہم کسی ایسے حالات میں کسی کی مدد کریں جہاں کہ ایسا کرنا مناسب ہو، تو بھی ہم مطمٔن نہیں ہوتے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہم بدلے میں کسی چیز کی توقع کر رہے ہیں۔ ہم پیار چاہتے ہیں؛ ہم اپنی اہمیت جتانا چاہتے ہیں؛ ہم تعریف کے تمنائی ہیں۔ تو ایسی شدید خواہش کو من میں لئیے، جب ہماری بیٹی ہمارے حسبِ منشا تعمیل نہیں کرتی، ہم سخت ناراض ہو تے ہیں۔
پریشان کن جذبات کا یہ تانا بانا جس کی بدولت ہم من کا چین اور ضبط نفس گنوا بیٹھتے ہیں اس وقت اور بھی نمایاں نظر آتا ہے جب ہم نا انصافی کے خلاف جہد کر رہے ہوں۔ اس پر شدید ناراضگی کے باعث ہم سخت کشیدہ خاطر ہیں۔ اگر ہم اس غصہ کی بنیاد پر کچھ کریں تو عام طور پر ایسی صورت حال میں ہمارا من غلط فہمی کا شکار ہو گا۔ اکثر و بیشتر ہم مطلوبہ تبدیلی لانے کی خاطر بہترین لائحہ عمل اختیار نہیں کرتے۔
قصہ مختصر، خواہ ہم ضرر رساں ڈھنگ سے کچھ کریں یا کوئی تعمیری کام کریں، اگر ہمارے فعل کا محرک کوئی پریشان کن جذبہ ہے، تو ہمارے رویہ سے مسائل کا پیدا ہونا لازم ہے۔ اگرچہ ہم تیقن سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سے دوسروں کے لئیے مشکلات پیدا ہوں گی یا نہیں ہوں گی، مگر اس سے ہمارے لئیے مشکلات ضرور پیدا ہوں گی۔ یہ مشکلات ایسی نہیں جن کا ظہور یقیناً فوری طور پر ہو؛ یہ دیرپا مسائل ہیں اس لحاظ سے کہ پریشان کن جذبات کے زیر اثر عمل کرنے سے غلط انداز عادات پختہ ہوتی ہیں۔ اور یوں ہمارا اضطراری رویہ، جس کی بنیاد پریشان کن جذبات ہوتے ہیں، مستقل وقوع پذیر عمل کے انداز کو استوار کرتا ہے۔ ہمیں کبھی بھی من کا چین نہیں ملتا۔
اس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ ہم اس لئیے دوسروں کی مدد کریں اور ان کے لئیے بھلائی کے کام کریں کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں اچھا جانیں اور ہم سے پیار کریں۔ اگرچہ اس کے پس پشت ہمارا عدم تحفظ ہے۔ مگر ہم جس قدر مزید اس محرک کی بنا پر عمل کرتے جائں گے، یہ کبھی بھی کافی نہیں ہو گا، ہم کبھی ایسا محسوس نہیں کریں گے،" اچھا تو اب مجھے میرا پیار مل گیا۔ یہ کافی ہے، مجھے اور نہیں چاہئیے۔" ہم ایسے کبھی بھی محسوس نہیں کرتے۔ پس ہمارا رویہ اس قسم کے اضطراری احساس کو مزید تقویت دیتا ہے،"مجھے پیار چاہئیے، مجھے اہم سمجھا جانا چاہئیے، میری قدر کی جانی چاہئیے۔" تو آپ پیار پانے کی توقع میں اور دئیے چلے جاتے ہیں، مگر آخر کار آپ ہمیشہ ناکامی کا شکار ہوتے ہیں۔ آپ کی شکست خوردگی کا سبب یہ ہے کہ خواہ اگر کوئی آپ کا شکریہ ادا کرے بھی تو آپ سوچتے ہیں،"وہ یہ بات دل سے نہیں کہہ رہا تھا،" ایسی کوئی بات۔ اس وجہ سے ہمیں کبھی من کا سکون نہیں ملتا۔ اور یہ بد سے بدتر ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس مرض کی علامات بار بار رو بہ اعادہ ہوتی ہیں۔ اسے "سمسار" کہتے ہیں، یعنی کہ - ایک پریشان کن رو بہ اعادہ اضطراری کیفیت۔
جب کوئی پریشان کن جذبہ منفی اور ضرر رساں رویہ کی جانب ہماری راہنمائی کر رہا ہو تو ایسی علامات کی شناخت کوئی ایسا مشکل کام نہیں۔ مثال کے طور پر، ہم ہمیشہ خفا رہتے ہوں، اور چونکہ ہم خفا ہیں اس لئیے معمولی سے معمولی بات پر بھی غصے میں آ جاتے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ تعلقات میں ہم ہمیشہ درشت کلامی کرتے ہیں یا دکھ دینے والی باتیں کرتے ہیں۔ تو صاف ظاہر ہے ہمیں کوئی بھی اچھا نہیں جانتا اور لوگ ہماری رفاقت کے تمنائی نہیں ہوتے، اس سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں حالات کا اندازہ لگانا آسان ہے۔ مگر جب ہمارے مثبت رویہ کے پس پشت منفی جذبہ ہو تو اس کی پہچان اتنی آسان نہیں ۔ لیکن ہمیں دونوں صورتوں میں اس کی شناخت کرنا ہے۔
جب ہم کسی پریشان کن جذبے، رویَے یا من کی حالت کے زیر اثر ہوں تو اس کی شناخت کیسے ہو
تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم یہ کیسے جانیں کہ ہم کسی پریشان کن رویّے یا جذبے کے زیر اثر مشغول کار ہیں؟ اس کا محض ایک احساس ہونا ہی ضروری نہیں؛ یہ زندگی کے یا ہمارے اپنے بارے میں کوئی رویّہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے لئیے ہمارا قدرے حساس اور دروں بیں ہونا اور اپنے اندر کی حالت کو جاننا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لئیے پریشان کن جذبے یا پریشان کن رویّے کی تعریف مدد گار ہو گی: یہ وہ شے ہے جس کی بدولت ہم من کا چین اور ضبط نفس گنوا دیتے ہیں۔
تو جب ہم کوئی ایسی بات کہنے والے ہوں یا کچھ کرنے والے ہوں، اور ہم اندر سے قدرے مضطرب محسوس کریں، یعنی ہم مکمل طور پر شانت نہیں ہیں، تو یہ اس چیز کی نشانی ہے کہ کوئی پریشان کن جذبہ موجود ہے۔
ہو سکتا ہے کہ ہم اس سے بے خبر ہوں اور اکثر یہ ایسے ہی ہوتا ہے، مگر اس کے پیچھے کوئی پریشان کن جذبہ ہے۔
فرض کیجئیے کہ ہم کسی کو کوئی بات سمجھانا چاہ رہے ہیں۔ اگر ہم یہ محسوس کریں کہ اس شخص سے بات کرتے وقت ہمارے اندر قدرے بے چینی موجود ہے، تو یہ اس چیز کی طرف صاف اشارہ ہے کہ اس کے پیچھے شائد تعلّی کا عنصر ہے۔ ہم یوں محسوس کر سکتے ہیں،"میں کتنا ہوشیار ہوں، میں اسے سمجھتا ہوں۔ میں اسے سمجھنے میں تمہاری مدد کروں گا۔" ہم کسی شخص کو کوئی بات سمجھانے کی پرخلوص کوشش کر رہے ہیں، مگر اگر ہم اندر سے ذرا بے چینی محسوس کرتے ہیں، تو اس میں کچھ تکبّر کا عنصر موجود ہے۔ ایسا خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے کارناموں یا اپنی صفات کی بات کر رہے ہوں۔ بیشتر اوقات ہم اس کے ہمراہ کچھ بے اطمینانی محسوس کرتے ہیں۔
یا کسی پریشان کن رویہ کو ہی لے لیجئیے، فرض کیجئیے یہ احساس کہ"سب کو مجھ پر توجہ دینی چاہئیے،" جو کہ اکثر ہمیں ہوتا ہے۔ ہم نظر انداز کیا جانا پسند نہیں کرتے - کوئی بھی نظر انداز کیا جانا پسند نہیں کرتا - تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ،"لوگوں کو میری طرف توجہ دینی چاہئیے اور میری بات سننی چاہئیے،" وغیرہ۔ تو اس میں بھی کچھ اضطراب ہو سکتا ہے، خصوصاً اگر لوگ ہماری بات پر توجہ نہیں دے رہے۔ وہ ہماری بات پر کیوں توجہ دیں؟ جب آپ اس پر غور کریں تو اس کی کوئی معقول وجہ نہیں۔
سنسکرت کا لفظ "کلیش" - جو کہ تبتی زبان میں "نیون-منگ" ہے – ایک مشکل اصطلاح ہے جس کا میں یہاں ترجمہ بطور "پریشان کن جذبہ" یا "پریشان کن رویّہ" کر رہا ہوں۔ یہ اس لئیے مشکل ہے کیونکہ بعض جذبے اور رویّے ایسے ہیں جو کہ نہ ہی جذبہ اور نہ ہی رویّہ کے زمرے میں ٹھیک طرح جچتے ہیں، مثلاً بھولپن۔ ہم اپنے رویہ کے دوسروں کے اوپر یا ہمارے اپنے اوپر اثر کے بارے میں بہت بھولپن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہم کسی صورت حال کے متعلق اصل حقیقت کے بارے میں لا علم ہو سکتے ہیں۔ فرض کیجئیے کہ ہم کسی شخص کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ ان کی طبیعت ناساز ہے یا وہ پریشانی کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں ہم یقیناً نہیں جان سکتے کہ ہمارے انہیں کچھ کہنے کا نتیجہ کیا ہو گا؛ وہ ہماری نیک نیتی کے باوجود ہم سے سخت ناراض ہو سکتے ہیں۔
جب ہمارے من کی ایسی پریشان کن حالت ہو، تو ضروری نہیں کہ ہم اندر سے بے چینی محسوس کریں۔ مگر جیسا کہ ہم نے دیکھا، جب ہم من کا چین گنوا دیتے ہیں تو ہمارے من کثیف ہو جاتے ہیں۔ پس جب ہم بھولپن کا شکار ہوں تو ہمارے من صاف نہیں ہوتے؛ ہم اپنی چھوٹی سی دنیا میں کھوۓ ہوتے ہیں۔ ہم ضبط نفس کھو دیتے ہیں اس لحاظ سے کہ چونکہ ہم اپنی دنیا میں گم ہیں اس لئیے ہم یہ تمیز کرنے سے قاصر ہیں کہ کسی خاص حالات میں کیا مناسب اور سود مند ہے اور کیا نہیں ہے۔ ایسے امتیاز کی غیر موجودگی میں ہمارا رویہ مناسب اور حس پر مبنی نہیں ہوتا۔ بالفاظ دگر، ہم ضبط نفس سے عاری ہونے کے سبب درست عمل نہیں کر پاتے اور نہ ہی کسی نا مناسب حرکت سے اپنے آپ کو روک پاتے ہیں۔ تو یوں بھولپن من کی پریشان کن حالت کی تعریف پر پورا اترتا ہے، اگرچہ ویسے بھولپن کو کوئی جذبہ یا رویہ کہنا مشکل ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ لفظ "کلیش" کا کوئی اچھا سا ترجمہ کرنا بہت مشکل ہے۔
غیر پریشان کن جذبات
سنسکرت اور تبتی زبان میں "جذبات" کے لئیے کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ زبانیں من کے عناصر کا ذکر کرتی ہیں جو وہ مختلف اجزا ہیں جن پر ہمارے من کی حالت کا ہر لمحہ مشتمل ہے۔ یہ ان من کے عناصر کو پریشان کن اور غیر پریشان کن، تعمیری اور تخریبی میں بانٹتی ہیں۔ یہ دو جوڑے پوری طرح ایک دوسرے سے متجاوز نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ بعض ایسے من کے عناصر بھی ہیں جو ان میں سے کسی بھی زمرے میں نہیں آتے۔ لہٰذا، مغرب میں جسے ہم "جذبات" کہتے ہیں ان میں سے بعض پریشان کن ہیں اور بعض غیر پریشان کن۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ بدھ مت میں ہم تمام جذبات سے چھٹکارا پانا چاہ رہے ہیں، بالکل نہیں۔ ہم محض پریشان کن جذبات سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ اس کے دو مراحل ہیں: پہلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم ان کے زیر اثر نہ آئیں اور دوسرا یہ کہ ہم ان کو تلف کر دیں تا کہ وہ پھر کبھی پیدا ہی نہ ہوں۔
ایک غیر پریشان کن جذبہ کیا ہے؟ تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ "پیار" "درد مندی" یا "صبر" ایسے ہی جذبات ہیں۔ لیکن جب ہم ان الفاظ کا جائزہ لیں جو کہ ہماری یورپی زبانوں میں رائج ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب جذبات کا ایک پریشان کن اور ایک غیر پریشان کن پہلو ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں کچھ احتیاط برتنی چاہئیے۔ اگر محبت میں سرشار ہو کر ہم یوں سوچیں،"میں تم سے بے حد پیار کرتا ہوں، مجھے تمہاری ضرورت ہے، مجھے کبھی چھوڑ مت جانا!" تو اس قسم کا پیار در اصل من کی نہائت پریشان کن حالت ہے۔ یہ اس لئیے پریشان کن ہے کہ اگر مد مقابل شخص ہم سے جواباً پیار نہیں کرتا یا اسے ہماری ضرورت نہیں ہے، تو ہم بہت ناراض ہوتے ہیں۔ ہم شدید غصے کا اظہار کرتے ہیں اور جلد ہی ہمارا جذبہ یوں تبدیل ہو جاتا ہے،"مجھے تم سے اب کوئی محبت نہیں۔"
پس جب ہم کسی من کی حالت کا جائزہ لیں تو اگر ہم اسے جذباتیت پر مبنی پائں، اور ہم اسے "پیار" کا نام دیں، در حقیقت من کی ایسی حالت من کے کئی ایک عناصر کا مرکب ہوتی ہے۔ ہم محض ایک اکیلا جذبہ محسوس نہیں کرتے۔ ہماری جذباتی حالتیں ہمیشہ مخلوط ہوتی ہیں۔ وہ کئی عناصر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ وہ پیار جس میں ہم یوں محسوس کرتے ہیں "مجھے تم سے پیار ہے، میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا" یقیناً ایک قسم کی محتاجی ہے اور یہ نہائت پریشان کن ہے۔ لیکن دوسری جانب غیر پریشان کن قسم کا پیار بھی ہے جس کا مدعا محض دوسرے شخص کو خوش دیکھنا اور اس کے لئیے خوشی کے اسباب پیدا کرنا ہے، خواہ وہ کچھ ہی کریں۔ ہم ان سے بدلے میں کسی چیز کی توقع نہیں کرتے۔
مثال کے طور پر، ہمارا اپنے بچوں کے لئیے پیار غیر پریشان کن قسم کا ہو گا۔ ہم ان سے بدلے میں کچھ نہیں چاہتے۔ پر، بعض والدین کچھ نہ کچھ توقع رکھتے بھی ہیں۔ لیکن عام طور پر، بچہ کچھ بھی کرے ہم پھر بھی اس سے پیار کرتے ہیں۔ ہم بچے کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے ہمراہ بھی اکثر ایک پریشان کن حالت ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ ہم خود انہیں خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہم اپنے بچے کو خوش کرنے کی خاطر کچھ کریں، مثلاً پتلی کا تماشا دکھانے لے جائیں اور وہ اس سے محظوظ نہ ہوں، اور وہ کمپیوٹر گیم کھیلنے کو ترجیح دیں، تو ہم برا محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس لئیے برا محسوس کرتے ہیں کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ بچے کو ہم سے نہ کہ کمپیوٹر گیم سے خوشی ملے۔ مگر ہم اس کو پھر بھی اپنے بچے کے لئیے "پیار" کا نام دیتے ہیں۔ "میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، میں تمہیں خوش کرنے کی کوشش کروں گا، اور میں تمہیں خوش کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہوں۔"
تو اس لمبی چوڑی بحث کا لب لباب یہ ہے کہ ہمیں اپنے من کی حالت کا بغور جائزہ لینا چاہئیے اور ان الفاظ کے ہیر پھیر میں نہیں پڑنا چاہئیے جنہیں ہم مختلف جذبات کی پہچان کے لئیے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنے کے لئیے تحقیق کرنی چاہئیے کہ ہمارے من کی کونسی حالتیں پریشان کن ہیں اور ہمارے من کے چین، من کا اجلا پن اور ضبط نفس کھو دینے کا باعث ہوتی ہیں۔ یہ ہیں وہ عناصر جن پر ہمیں کام کرنا ہے۔
عدم آگہی بطور پریشان کن جذبات کی اصل وجہ کے
اگر ہم ان پریشان کن من کی حالتیں، جذبات یا اطوار سے نجات پانا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے اسباب کو دیکھنا ہو گا۔ اگر ہم ان کے پسِ پشت سبب کو مٹا دیں تو پھر ہم ان سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ معاملہ محض بذاتِ خود پریشان کن جذبات سے نجات پانے پر ہی مشتمل نہیں ہے جو کہ ہمارے مسائل کا سبب ہیں؛ ہمیں در حقیقت پریشان کن جذبات کی تہہ تک پہنچنا اور اس سے جان چھڑانا ہے۔
تو بہر حال، من کی ان پریشان کن حالتوں کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اس کا جواب ہمیں اس لفظ میں جسے ہم "جہالت" یا جسے میں "عدم آگہی" کہنا پسند کرتا ہوں میں ملتا ہے۔ ہم کسی شے سے بیگانہ ہیں، ہم لا علم ہیں۔ جہالت حماقت کے مترادف لگتی ہے۔ ہم بیوقوف نہیں ہیں۔ بات محض اتنی ہے کہ ہم نہیں جانتے، یا شائد ہم غلط فہمی کا شکار ہیں: ہم کسی بات کا غلط مطلب لے رہے ہیں۔
وہ کیا چیز ہے جس کے بارے میں ہم غلط فہمی یا لا علمی کا شکار ہیں؟ بنیادی طور پر یہ ہمارے رویہ کے اثرات کے بارے میں ہے۔ ہم یا تو بہت غصے میں ہیں یا شدید لگاؤ کا شکار ہیں یا پریشان ہیں، جس کی بدولت ہم گذشتہ عادات اور رحجانات کی بنا پر اضطراری رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کرم در اصل یہی چیز ہے، یعنی کسی پریشان کن جذبے یا رویّے کے زیر اثر کوئی قدم اٹھانا اور یوں ضبط نفس کو کھو بیٹھنا۔ اس اضطراری رویّے کے پسِ پشت عدم آگہی ہے: ہم اپنے فعل یا قول کے اثرات سے نابلد تھے۔ یا ہم الجھن کا شکار تھے: ہم نے سوچا کہ کوئی چیز چرانے سے ہمیں خوشی ملے گی، مگر ایسا نہیں ہوا۔ یا میں نے سوچا کہ تمہاری مدد کرنے سے میں اہم اور محبوب بن جاؤں گا؛ مگر ایسا نہیں ہوا۔ پس ہم اس کے اثرات سے نا واقف تھے۔ "مجھے معلوم نہ تھا کہ میرے یہ بات کہنے سے تمہارے جذبات مجروح ہوں گے۔" یا ہم اس کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ "میرا خیال تھا کہ اس سے فائدہ ہو گا مگر یہ نہ ہوا۔" "میں نے سوچا کہ اس سے مجھے خوشی ہو گی، مگر ایسا نہ ہوا۔" یا اس سے تمہیں خوشی ملے گی، مگر یہ نہ ہوا۔" یا حالات کے متعلق، "مجھے معلوم نہ تھا کہ تم مصروف تھے۔" یا "مجھے خبر نہ تھی کہ تمہاری شادی ہو چکی۔" یا ہو سکتا ہے کہ ہم غلط فہمی کا شکار ہیں، "میرا خیال تھا کہ تمہارے پاس کافی وقت ہے، مگر یہ درست نہ تھا۔" میں نے سوچا کہ تم کنواری ہو، تمہارا کسی سے بندھن نہیں ہے، اس لئیے میں نے تمہارے ساتھ ناطہ جوڑنے کی کوشش کی،" جو کہ نا مناسب ہے۔ تو ہم حالات سے بے خبر ہیں: یا تو ہم ان کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے یا ہم ان کے بارے میں غلط فہمی میں ہیں: ہم انہیں ٹھیک سے نہیں جانتے۔
پس یہ بات درست ہے کہ اضطراری رویہ کی جڑ عدم آگہی ہے۔ مگر یہ بات اس قدر واضح نہیں ہے کہ یہ پریشان کن جذبات کی وجہ بھی ہے اور یہ کہ پریشان کن خیالات کا اضطراری رویہ سے گہرا تعلق ہے۔ لہٰذا ہمیں ان نکات پر مزید غور کرنا چاہئیے۔