تفرقہ انداز باتوں سے پرہیز پر جاری گفتگو
کل ہم پانچویں تخریبی فعل یعنی تفریق کار زبان استعمال کرنے پر بات چیت کر رہے تھے۔ ہم پہلے ہی جسم کے تین اور زبان کے پہلے تخریبی فعل پر بات کر چکے ہیں۔ ہم زبان کے دوسرے تخریبی فعل یعنی پھوٹ ڈالنے والی باتوں کا جائزہ لے رہے تھے۔
انتشار پسند باتوں کی بنیاد انسانوں کا ایک ایسا گروہ ہو تا ہے جو آپس میں ہم آہنگ ہیں یا ہم آہنگ نہیں ہیں۔ ان دو بنیادوں کی وجہ یہ ہے کہ آپ کسی مربوط گروہ کے ارکان میں تفرقہ پیدا کر سکتے ہیں، اور اس طرح، اگر کوئی گروہ پہلے سے مربوط نہیں تو وہ اور بھی منتشر ہو جاۓ گا۔ اس نیت کے پیچھے عناصر میں ایک ترغیب، ایک پریشان کن رویہ اور ایک پہچان شامل ہیں۔ پہچان سے مراد ان مختلف لوگوں کے رتبہ و درجہ کا درست تصور ہے جن سے آپ مخاطب ہیں۔ پریشان کن رویہ میں تعلق، غصہ یا تنگ نظری جہالت شامل ہو سکتے ہیں۔ ترغیب یہ ہو گی کہ جو لوگ غیر مربوط ہیں وہ آپس میں مل نہ پائیں، یا جو مربوط ہیں وہ منتشر ہو جائیں۔
اس فعل میں شامل کوئی بھی بات ہو سکتی ہے خواہ سچ یا جھوٹ۔ آپ کوئی عمدہ بات کہہ سکتے ہیں یا کوئی گھٹیا بات۔ اس کے کئی طریقے ہیں۔ اس فعل کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب آپ ان میں وسیع پیمانے پر پھوٹ ڈال چکے ہوں، تو ان کے درمیان بہت بڑی خلیج بن جاتی ہے۔
ترش گفتگو سے پرہیز
تخریبی گفتگو کا اگلا پہلو بدزبانی اور ترش کلامی ہے۔ اس میں بھی ایک بنیاد، نیت، عمل اور نتیجہ شامل ہیں۔ اس کی بنیاد ایک ایسا شخص ہے جس نے ہمیں یا ہمارے کسی دوست، عزیز کو نقصان پہنچایا ہے، اور جس سے یہ ڈر ہے کہ وہ مستقبل میں بھی انہیں دکھ دے گا۔ پس ہم اس سے بہت خفا ہیں۔ نیت کوئی ترش بات کہنے کی ترغیب پر مشتمل ہے۔ اس کے الفاظ سچ ہو سکتے ہیں یا جھوٹ ۔ یہ کسی بھی قسم کے الفاظ پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ مثلاً کسی اپاہج کو "لولا لنگڑا" کہنا سچ تو ہو گا مگر یہ سخت دل آزاری کی بات ہے۔ کسی شخص کو "لولا لنگڑا" کہنا جو اپاہج نہیں جھوٹی ترش کلامی کی ایک مثال ہے۔ اس میں دونوں ہی طرح کے الفاظ، اچھے اور برے، شامل ہو سکتے ہیں۔ آپ کسی کو ٹھگنا کہہ کر اس کا تمسخر اڑا سکتے ہیں۔ آپ کسی سانولے رنگ کے شخص کو طنزیہ انداز میں اچھے الفاظ سے پکار سکتے ہو، "آپ کا رنگ کتنا گورا ہے!" یا آپ کسی غریب کا مذاق یہ کہہ کر اڑا سکتے ہیں کہ وہ کتنا امیر ہے۔ اگر کوئی شخص مہاتما بدھ نہیں تو آپ طنزاً اسے مہاتما بدھ کہہ کر پکار سکتے ہو۔ یہ بظاہر اچھے الفاظ کے تواسط سے کسی سے بد کلامی ہے۔ اس فعل کی تکمیل تب ہوتی ہے جب وہ شخص آپ کی بات کا مطلب سمجھ جاۓ۔
بیکار گپ شپ سے پرہیز
تخریبی گفتگو کا اگلا پہلو بیکار گپ شپ یا بے معنی باتیں کرنا ہے۔ اس میں بھی ایک بنیاد، نیت، فعل اور نتیجہ شامل ہیں۔ بنیاد کسی بھی قسم کی بے معنی، فضول گفتگو پر مشتمل ہے۔ باقی سب کچھ سواۓ نتیجہ کے ویسا ہی ہے جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔ کسی کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں کہ آپ نے کیا کہا۔ محض کوئی فضول، بے معنی بات کرنے سے عمل کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ مثلاً اونچی آواز میں کوئی بےمعنی فرضی قصہ کہانی پڑھنا فضول باتوں کے زمرے میں شامل ہے جہاں اس کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔
حریصانہ خیالات سے پرہیز
اگلی قسم کے تخریبی اعمال کا تعلق من سے ہے۔ پہلی قسم حریصانہ خیالات کی ہے، ایسے خیالات جن میں ہم دوسروں کے مال پر قبضہ کرنے کا سوچتے ہیں۔ اس کا مدعا کوئی بھی شے ہو سکتی ہے جو کسی اور کی ملکیت ہو، جیسے ان کا روپیہ پیسہ، ان کی دولت، مادی اشیا، گھر، وغیرہ۔ کوئی بھی چیز۔ یہ خیال اس پر مشتمل ہے کہ آپ کسی کی چیزوں کو دیکھتے ہیں اور خواہش کرتے ہیں کہ کاش آپ کے پاس بھی یہ سب کچھ ہو۔ اس فعل کی تکمیل تب ہوتی ہے جب آپ اس شخص کے مال پر قبضہ کرنے کی خاطر کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔
کینہ پروری کے خیالات سے پرہیز
تخریبی اعمال کی نویں قسم کینہ پروری یا کسی کو آزار پہنچانے والے خیالات ہیں۔ ان کی بنیاد بھی وہی ہے جو بد اور ترش کلامی کی ہے۔ یعنی کسی نے آپ کو یا آپ کے کسی عزیز و اقارب کو دکھ دیا، اور آپ کو اندیشہ ہے کہ یہ شخص پھر بھی ایسا کرے گا، اور آپ اس سے خفا ہیں۔ ترغیب یہ ہو گی کہ آپ اس شخص کو ایک گھونسہ رسید کرنا چاہتے ہیں، یا اسے کسی طرح نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ یہ فعل من کی سطح پر اس وقت پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے جب آپ بغض کے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کا پکا ارادہ کرتے ہیں۔ "میں ابھی جا کر اس شخص کے منہ پر ایک گھونسہ ماروں گا۔" یا "جب تک میں اس شخص کو مار نہ لوں مجھے چین نہیں آۓ گا۔"
تحریف شدہ سوچ سے پرہیز
جہاں تک کسی شے کے بارے میں تحریف شدہ نظریہ قائم کرنے کا تعلق ہے، تو اس کی بنیاد ایسا ہی نظریہ ہوتا ہے۔ یہ کسی حقیقت کو جھٹلانا ہے۔ مثلاً اس حقیقت سے انکار کہ مستقبل میں بھی زندگیوں کا وجود ہے، یا اس بات پر مصر ہونا کہ علت اور معلول کے درمیان کوئی رشتہ نہیں۔ یا یہ کہنا کہ مثبت اور تعمیری اعمال مسرت کا باعث نہیں ہوتے۔ یہ سب تحریف شدہ سوچ کی مثالیں ہیں، حقیقت کو جھٹلانے کی۔
احتیاج (کرم) اور احتیاج کی گذر گاہیں (کرمائی راہیں)
اس پر مزید تحقیق کے کئی اور نکات ہیں۔ شریر اور زبان کے ساتوں کے ساتوں تخریبی فعل ایک طرح کی احتیاج ہیں، اور اس احتیاج کی گذرگاہ بھی۔ جبکہ من کے تین تخریبی فعل اس احتیاج کی گذرگاہیں ہیں، مگر وہ بذات خود احتیاج نہیں ہیں۔ کرم کی صحیح تعریف 'کچھ کرنے کی احتیاج' ہے۔ یہ احتیاج من کا ایک ذیلی رویہ ہے، اور در حقیقت کسی احتیاج کی گذرگاہ نہیں۔ یہ ایک تکنیکی تفریق ہے جس کا مزید تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔
آئیندہ جب کبھی یہاں کوئی ہنر مند گیشے آۓ تو اس سے یہ پوچھنے والی اچھی بات ہو گی۔ اور اس قسم کے سوالات جو آسمانی چیزوں کے متعلق ہوں پوچھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ اگر آپ کوئی مراقبہ کرتے ہیں یا کوئی منتر جپتے ہیں تو کچھ مدت گذرنے پر ان سوالات کے جواب آپ پر خود ہی عیاں ہو جائیں گے، بغیر علما سے پوچھنے کے۔ جہاں تک چاند اور ایسی چیزوں کا تعلق ہے تو ان کے جوابات تحریروں کے مطالعہ سے واضح ہو جاتے ہیں۔ میں یہاں چھوٹی موٹی باتیں بیان کر رہا ہوں۔ یہاں ان تمام تفاصیل میں پڑنے کا ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔
اعمال کا بھاری پن
اعمال میں کثافت اور لطافت کا فرق بھی ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص ہمیشہ تخریبی فعل کا عادی ہو، مثلاً قتل و غارت، تو اس کا معمولی برا فعل بھی بھاری پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر فضول گپ بازی دس تخریبی اعمال میں سب سے ہلکا فعل ہے، لیکن اگر ہم اس کے عادی ہوں تو اس تکرار کے باعث یہ فعل بہت بھاری ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر آپ کے پاس بہت سارے پتلے کاغذ کے صفحات ہوں تو اکٹھا کرنے سے وہ بھی وزنی ہو جاتے ہیں۔ مزید بر آں، اگر آپ کوئی کام مظبوط ارادہ سے کریں، تو وہ بھی بھاری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ کوئی منفی یا تخریبی کام کریں، اور آپ کو کوئی شرمندگی نہ ہو، اور نہ ہی آپ ان چار قوتوں کو اپنے آپ کو مصفّا کرنے کے لئیے استعمال میں لائیں، تو اس سے جو منفی امکان آپ پیدا کرتے ہیں وہ بہت بھاری ہوتا ہے۔
تعمیری روش اختیار کرنے سے جو مثبت امکانات استوار ہوتے ہیں وہ بھی بہت کثیف یا لطیف ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ غصہ میں نہ آئیں تو مثبت امکان مضبوط رہتا ہے۔ اگر آپ کے مثبت عمل کا ہدف آپ کے روحانی مرشد، آپ کے والدین، یا تین جواہر ہیں تو مثبت امکان بہت مضبوط ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ انہیں کسی منفی یا تخریبی فعل کا نشانہ بنائں تو منفی امکان بھی بہت مضبوط ہوتا ہے۔
جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ تہیّہ کرنا ہے کہ ہمارے تمام اعمال مضبوط ترین حد تک مثبت اور تعمیری ہوں گے، اور ہمیں تمام بڑے منفی اعمال سے گریز کرنا ہے۔ اگر آپ کے پاس برابر مقدار میں سونا اور سیسہ ہو تو آپ سونے میں نہ کہ سیسے میں اضافہ کرنا چاہیں گے۔ اسی طرح ان منفی اور مثبت امکانات کے متعلق، اگر آپ کے پاس دونوں ایک جیسی وزنی مقدار میں ہیں تو آپ مثبت امکانات کو رکھنا اور منفی کو ترک کرنا چاہیں گے۔
اسی طرح بدن کے تین اور زبان کے چار کاموں کے متعلق، ان میں پہلے والے اعمال بھاری ترین ہیں۔ بعد والے فطرتاً ہلکے ہیں۔ چونکہ ہر ایک کو اپنی جان عزیز ہوتی ہے اس لئے جان سے مارنا جسم کے برے کاموں میں سب سے برا ہے، جبکہ کسی کا مال چرا لینا اس سے کم شدید ہے، اور کسی سے جنسی بد فعلی ان تینوں میں سب سے کمتر ہے۔ یہ بات زبان کے تخریبی کاموں پر بھی منطبق ہے۔ سب سے برا کام جھوٹ بولنا اور پھر انتشار پھیلانا ہے۔ بد کلامی اور فضول گپ بازی بتدریج ہلکے ہیں۔ من کے تخریبی کاموں کا معاملہ بالکل الٹ ہے۔ پہلے والے ہلکے اور بعد والے بھاری ہیں۔ تینوں میں سے حرص و ہوس کی سوچ سب سے کم تر ہے، کینہ پروری اس سے بھاری ہے، اور تحریف شدہ نظریات سب سے زیادہ بھاری ہیں۔
یہ امر نہائت اہم ہے کہ ہم دس تخریبی کاموں سے بچیں، اور تعمیری کام کرنے کی مشق کریں۔ کچھ عرصہ گذرا منگولیا میں ایک نہائت ہنر مند اور عالم گیشے تھا۔ وہ ایک برگزیدہ عالم تھا جو کہ تنتری کالج کا صدر مقرر ہوا۔ میں نے خود اس سے درس لیا۔ ایک بار ایک بھلا مانس آیا اور اس نے اس عالم سے خالی پن کے متعلق استفسار کیا۔ اس نے کہا،" تم خالی پن کو بھول جاؤ اور اس قدر چوری چکاری سے پرہیز کرو۔" ایسا اس لئے ہوا کیونکہ اس عالم کو خبر تھی کہ یہ بھلا آدمی لٹیرا ہے۔ شرفا میں سے بعض لوگ کبھی کبھار خانقاہوں کے ارکان کو نذرانے پیش کرتے ہیں، مگر بیشتر اوقات وہ یہ دولت عوام کا استحصال کر کے اکٹھی کرتے ہیں، اور اس کا بیشتر حصہ اپنی جیب میں ڈالتے ہیں۔
تو ابھی ہم نے مختلف کاموں کی کثافت اور لطافت پر بات چیت کی ہے۔
اعمال کے نتائج
ان سب تخریبی اعمال کی پختگی پر ایک جیسا نتیجہ نکلتا ہے، اور وہ ہے کسی جہنمی مخلوق، بھوت یا جانور کی شکل میں پنر جنم۔ سبب سے مطابقت رکھنے والے نتائج دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو ہمارے تجربہ کے لحاظ سے سبب کے مطابق ہیں، دوسرے وہ جو ہمارے فطری رویہ کے لحاظ سے وجوہات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اس پر کل کسی کی جان لینے کے ضمن میں بات ہوئی تھی۔ وہ نتائج جن کے اسباب ہمارے تجربہ کے مطابق ہوں گے اس میں ہم خود ایک مختصر زندگی پائیں گے جو بیماری سے بھر پور ہو گی۔
بد اور ترش کلامی کے مظہر کے طور پر دوسرے لوگ ہر وقت چلّاتے ہیں، آپ کو برا بھلا کہتے ہیں، اور آپ کو ہر وقت گندی زبان سننا پڑتی ہے۔ فضول گپ بازی کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی آپ کی بات سننے کو تیار نہیں ہو گا۔ کوئی بھی آپ کی بات پر توجہ نہیں دے گا اور نہ ہی آپ کی بات کو اہم سمجھے گا۔ اگر لوگ ہمیشہ آپ کی بات دھیان سے سنتے ہیں، تو اس کی وجہ آپ کا فضول باتوں سے پرہیز ہے۔ اگر آپ کے خیالات میں شدید حرص کا عنصر پایا جاتا ہے تو اس کے نتیجہ میں آپ بہت زیادہ تعلق اور خواہشات کے غلام بن جائیں گے۔ کینہ پروری سے آپ نہائت غصیلے اور عداوت پسند بن جاتے ہیں۔ تحریف شدہ خیالات آپ کو متعصّب اور جاہل بنا دیتے ہیں۔
ان تخریبی اعمال کے فطری رویہ کے متعلق جو نتائج اپنے اسباب سے مطابقت رکھتے ہیں وہ یہ کہ آپ بچپن سے ہی فطری طور پر ان کاموں کی تکرار پر مائل ہوں گے۔ جیسا ہم نے کل دیکھا کہ دوسروں کی جان نہ لینے کا بھر پور نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ سرزمین جس میں ہم پیدا ہوۓ ہیں اس کا کھانا وافر اور عمدہ ہو گا۔ اسی طرح ادویات بھی بہت پر اثر ہوں گی۔ چوری اور دوسروں کے مال پر ناجائز قبضہ کا جامع نتیجہ آپ کی جنم دھرتی میں کمزور فصل کی صورت میں نمودار ہو گا۔ فصل ہلکی ہو گی، بارش کم ہو گی، اور بہت زیادہ دھول اڑے گی۔ جنسی بے راہروی کے نتیجہ میں آپ کا وطن گندہ اور غلیظ ہو گا جہاں چاروں طرف کوڑا کرکٹ ہو گا۔
دروغ گوئی کا اثر یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر آپ فصل بوئیں تو نتیجہ آپ کے خلاف توقع ہو گا۔ انتشار پسند زبان استعمال کرنے سے آپ کے ملک کی زمین ناہموار اور ندی نالے گہرے ہوں گے۔ کہیں آنا جانا نہائت دشوار ہو گا۔ بد زبانی اور تلخ کلامی کے نتیجہ میں زمین میں بہت سے کانٹے اور پتھر ہوں گے اور موسم میں شدت ہو گی۔ فضول گپ بازی عجیب و غریب فصل کا باعث ہو گی۔ فصل سال کے نامناسب وقت پر اگے گی، یا سال کے مقررہ وقت پر کچھ نہیں اگے گا۔
حرص و ہوس کے خیالات کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ ملک کی ہر شے یکلخت ٹوٹنے لگتی ہے، آپ کی تمام عمدہ چیزیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں۔ کینہ پروری کے اثرات ملک میں بیماری اور طاعون کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں۔ مہا گرو رنپوچے، پدم-سمبھاوا، نے پیشین گوئی کی کہ مستقبل میں کئی ایسی نئی بیماریاں آئیں گی جن کا کوئی نام نہیں، اور نہ ہی ان کا کوئی علاج ہو گا، اور یہ بغض اور نفرت کے شدید خیالات کے باعث ہو گا۔ ہم اس بات کو سچ مانتے ہیں۔ بہت سی نئی بیماریاں انسانوں کو لگ رہی ہیں۔ تحریف شدہ نظریات کے نتیجہ میں ملک کے وسائل خرچ اور ختم ہو جائیں گے۔ کسی ملک میں پانی، درخت، کانیں، دولت، تیل، وغیرہ کے عمدہ ذخائر ہو سکتے ہیں مگر یہ سب ختم ہو جاۓ گا۔
تعمیری اعمال کے نتائج اس کے با لکل بر عکس ہوں گے۔ قتل و غارت سے گریز کے نتیجہ میں ملک میں بہت موثّر ادویات ہوں گی اور خوراک بڑی صحت بخش ہو گی۔ اگر آپ تخریبی اعمال کے نتائج کو سامنے رکھیں تو آپ باقی ماندہ تعمیری اعمال کے نتائج کا اندازہ کر سکتے ہیں۔
امکانات کی قوت
مزید یہ کہ اعمال سے جو امکانات ہم پیدا کرتے ہیں ان کی قوت میں بہ لحاظ چار عناصر فرق ہوتا ہے۔ پہلی چیز مفعول ہے جس سے مراد وہ شخص ہے جو فعل کا نشانہ ہے؛ پھر بنیاد ہے جو کہ فاعل کی صورت حال کے متعلق ہے؛ فعل میں وہ مخصوص کام اگلی بات ہے؛ اور پھر اس میں شامل من کی حالت۔
ان میں سب سے اول، فعل سے متاثر شخص ہے، اعمال اس وقت بہت قوت پکڑ لیتے ہیں جب ان کا ہدف تین جواہر اور روحانی پیشوا ہوں۔ وہ تب بھی بہت زور ور ہو جاتے ہیں جب ان کا ہدف ایسے لوگ ہوں جو روحانی پیشواؤں یا لاما سے ملتے جلتے ہوں، اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں مثبت اور منفی کی تمیز سکھاتے ہیں۔ جو کوئی شخص ہمیں اچھی بات بتاۓ وہ روحانی پیشوا یا لاما کی مانند ہے۔ اسی طرح والدین بھی اعمال کے اثرات کا طاقتور عنصر ہیں۔ کیونکہ آپ انہیں کسی بھی قسم کے فعل، مثبت یا منفی، کا براہ راست نشانہ بنائں، نتیجہ بہت بھاری ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی خواہ آپ معمولی سی بھی مدد کریں تو بھِی اس سے بہت بھاری مثبت امکان پیدا ہوتا ہے۔ اگر آپ معمولی سا بھی منفی یا تخریبی فعل ان کے خلاف کریں تو اس سے بہت بھاری منفی امکان پیدا ہوتا ہے۔
جہاں تک بنیاد کا تعلق ہے، اگر کسی شخص نے عہد باندھ رکھا ہے تو اس کے اعمال بہت پر اثر ہو جاتے ہیں۔ عہد باندھنے کی بنیاد پر انسانوں کے درجہ کے حساب سے، یعنی ایک عام انسان، ایک نیا رکن، یا ایک منصب رسید راہب یا راہبہ، مثبت یا منفی اعمال طاقتور بن جاتے ہیں۔ خصوصاً اگر آپ کوئی تعمیری کام بودھی چت کے وقف شدہ دل سے کریں، ایک ایسا دل جو دوسروں کی خدمت پر مامور ہے اور جس کا مقصد روشن ضمیری حاصل کرنا ہے، تو ایسا فعل بے حد مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے۔ اگر آپ دن اس خیال سے شروع کریں،"یہ کیا ہی اچھی بات ہے کہ کل رات میری موت واقع نہیں ہوئی، اور اب جبکہ میں ہوش میں ہوں تو آج صبح میں اپنا دل دوسروں کے لئے اور روشن ضمیری حاصل کرنے کے لئے وقف کرتا ہوں۔ میں جس درجہ ممکن ہوگا مثبت اور تعمیری سوچ رکھوں گا۔" تو پھر آپ تمام دن جو بھی کریں اس میں آپ کے مضبوط ارادے کی قوت شامل ہو گی، خواہ آپ سارا دن اس سے باخبر نہ بھی رہیں۔ لہٰذا دن کو کسی ایسی مثبت نیت سے شروع کرنا اہم بات ہے۔ امکانات ان کے پیچھے نیتوں کے تناسب سے قوت پکڑتے ہیں۔
یہ پچھلی مثال چوتھے نکتہ کی مثال تھی۔ اب ذرا پیچھے چلیں، تو تیسرے نکتہ یعنی اصل فعل کا معاملہ یوں ہے: سخاوت کے لحاظ سے، اگر آپ کسی کو تعلیم دیں اور روحانی طور طریقہ بتائں، تو اس کا اثر محض مادی اشیا دینے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ چوتھا نکتہ جو من کی کیفیت سے قوت کے تعین کے متعلق ہے، اس کا ابھی ذکر ہوا۔ مثلاً اگر آپ صرف ایک پھول کا نذرانہ انگنت ہستیوں کے بھلے کی خاطر پیش کرتے ہیں تو اس سے پیدا شدہ مثبت امکان اسی نسبت سے وسیع تر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کسی بھی کام کو شروع کرتے وقت نہائت مضبوط مثبت نیت باندھنا ایک اہم بات ہے۔ خاص طور پر یہ بات بہت اہم ہے کہ کسی کام کی ابتدا کے وقت ہمارا دل بودھی چت جیسا ہو، جس میں یہ خواہش شامل ہو کہ جو بھی ہم کریں اس کا فائدہ تمام جانداروں کو پہنچے۔ اسی طرح دن کے آخر میں یہ بہت ضروری ہے کہ جو مثبت امکان ہم نے دن کے دوران استوار کیا ہے اسے روشن ضمیری حاصل کرنے اور سب کی مدد کے لئے نذر کر دیں۔
اس طرح جو نیت آپ نے صبح باندھی اور رات کو جو نذر پیش کی دونوں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اگر رات کو سونے سے پہلے آپ نہائت مثبت اور تعمیری (سوچ اور رویہ کی) نیت کریں، اور اگلے روز دوسروں کی خاطر زیادہ سے زیادہ کچھ کرنے کا ارادہ کریں تو آپ کی تمام رات بڑی اچھی گذرے گی کیونکہ اس میں یہ زبردست ارادہ شامل ہو گا۔ اگر آپ کے شب و روز اس مثبت اور تعمیری انداز سے بسر ہوں تو آپ روحانی تربیت مکمل کر کے بھرپور زندگی گذار سکیں گے۔
قیمتی انسانی زندگی کی آٹھ پختہ عمدہ صفات
جب آپ اپنے آپ کو ان دس تخریبی کاموں سے محفوظ رکھنے کا سوچتے ہیں تو آپ کو اس حقیقت کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ آپ کو جو یہ قیمتی انسانی زندگی ملی ہے، یہ اس امر کا نتیجہ ہے کہ آپ نے ماضی میں ان تعمیری کاموں کو تحفظ دیا ہے۔ سب سے آسان طریقہ سے روشن ضمیری حاصل کرنے کی خاطر یہ لازم ہے کہ ہماری کوئی انسانی بنیاد، یعنی انسانی جسم ہو جس میں مکمل آٹھ پختہ عمدہ صفات ہوں۔ یہ مندرجہ ذیل ہیں: عمر دراز پانا؛ خوش شکل، خوش وضع ہونا؛ اعلیٰ خاندان سے تعلق ہونا؛ دولت مند ہونا؛ بات کا پکا ہونا تا کہ آپ جو کہیں وہ قابل یقین ہو؛ طاقتور ہونا اور اثر رسوخ رکھنا؛ نہائت مضبوط شریر، مضبوط دم اور مضبوط من یا بھاری قوت ارادی کا حامل ہونا۔ اور آخری یہ ہے کہ مرد ہونا، کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان اکثر حالات ایسے ہوتے ہیں کہ مردوں کے لئے دھرم کی پیروی کے لئے وقت نکالنا آسان ہوتا ہے – روائتی طور پر تو ایسا ہی تھا۔
ان میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی کردار ہے۔ دراز عمرسے آپ اپنی تمام تعلیمات اور عبادات کو پورا کر سکیں گے۔ اگر آپ خوش شکل ہیں تو لوگ آپ کو جاذب نظر پائں گے اور آ کر آپ کی بات سنیں گے۔ اگر آپ کا تعلق شاہی خاندان سے ہے تو فطری طور پر لوگ آپ کی بات سنیں گے، آپ کے مشورے پر عمل کریں گے۔ اگر آپ دولت مند ہیں تو لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے، اور آپ کے ہاں بہت سارے مثبت کام کرنے کی صلاحیت اور وسائل ہوں گے۔ اگر آپ کی بات قابل بھروسہ ہے تو لوگ آپ کی بات سنیں گے اور اس پر یقین کریں گے۔ اگر آپ بہت بااختیار ہیں اور اثر رسوخ کے مالک ہیں تو لوگ آپ کی بات کو مانیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ اگر آپ مرد کی حیثیت میں پیدا ہوۓ ہیں تو آپ کو دھرم کی پیروی میں کم مشکلات کا سامنا ہو گا۔ اگر آپ بہت طاقتور ہیں تو آپ میں بڑے بھاری کام کرنے کی اہلیت ہو گی، جیسے میلاریپا نے نو منزلہ مینار تعمیر کیا۔
ان میں سے ہر صفت کی کوئی وجہ ہے۔ دراز عمری کی وجہ قتل و غارت سے اجتناب، دوسرے جانداروں کی جانیں بچانا، بیماروں کی تیمارداری اور ضرورت مندوں کو دوا مہیا کرنا ہے۔ خوش شکل پیدا ہونے کی وجہ تین جواہر کے لئے گھی کے دئیے جلانا، دوسروں کو کپڑے، زیور اور جواہرات دان دینا، اور غصہ یا حسد نہ کرنا ہے۔ کسی با عزت گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ روحانی اساتذہ اور والدین سے ہمیشہ عزت سے پیش آنا ہے۔ اور ان سے بھی جو بہت عالم فاضل ہیں اور عمدہ صفات کے حامل ہیں۔ ایک اور وجہ نمائش سے پرہیز اور عجز و انکسار ہے۔ دولت مند ہونے کی وجہ دوسروں کی حاجت کھانا، کپڑا لتّا، روپیہ پیسہ وغیرہ سے پوری کرنا ہے خواہ وہ خود نہ بھی مانگیں۔ بات کے معاملہ میں قابل بھروسہ ہونے کی وجہ گفتگو کے تخریبی اعمال سے گریز ہے: دروغ گوئی، ترش کلامی، انتشار پسند باتیں، یا فضول گپ بازی۔ با اثر اور با اختیار ہونے کی وجہ تین جواہر کے آگے دعا مانگنا ہے، خصوصاً عمدہ صفات اور اثر رسوخ کی دعا۔ بطور مرد پیدا ہونے کی وجہ جانوروں کو خصّی نہ کرنا، اور مردوں کو جو بے دخل دھرم کی پیروی کرنے کی طاقت اور صلاحیت ودیعت ہوئی ہے اس پر شادماں ہونا اور منجوشری اور مائیتریا جیسے بودھی ستوا کے نام کی اور ان کی تعریفوں کی مالا جپنا۔ بے پناہ جسمانی اور من کی قوت کی وجہ ایسے بڑے بڑے کام سر انجام دینا ہے جنہیں دوسرے یا تو کر نہ سکیں یا سوچیں کہ وہ نہیں کر سکتے۔
یہ بات اہم ہے کہ ہم انسانی شکل میں پیدا ہونے کی دعا مانگیں جس میں یہ تمام صفات مکمل طور پر موجود ہیں، اور وہ مختلف مثبت اور تعمیری کام کریں جو ان کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ بھی اہم ہے کہ ہم اس جسم اور اس زندگی کو تعمیری انداز میں استعمال میں لائیں، کیونکہ اگر ہم اسے ایک تخریبی اور منفی انسان بننے کے لئے استعمال کریں تو حالات اور بھی بگڑ جاتے ہیں۔ یہ لازم ہے کہ ہماری دعا مکمل اور پوری ہو جس سے ایسی زندگی حاصل ہو جسے ہم مثبت مقاصد کے لئے استعمال کر سکیں۔ اگر آپ من کی تمام عمدہ صفات استوار کرنے کے لئے مراقبہ کرتے ہیں، تو آپ اپنی تمام خوبیوں کا محاسبہ کریں اور ان کے اوپر خوشی و شادمانی کا اظہار کریں۔ زندگی کے اس جوہر سے ان تمام اچھے موقعوں کو موثّر بنائیں۔ اسے ضائع مت کریں؛ اس سے آنے والی زندگیوں کو فائدہ پہنچائیں۔ جب آپ کے اندر اس قسم کا احساس پیدا ہو، تو یہ ترغیب کی پہلی منزل ہے۔
آپ سب کے یہاں جمع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ محض ہر وقت کام میں مشغول رہنا ہی کافی نہیں۔ آپ وقت نکال کر یہاں روحانی درس لینے آۓ ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو پہلے سے ہی کچھ احساس ہوا ہے۔ یہاں آنے کی وجہ ہی ایک احساس ہے۔ ایسے مت سوچیں کہ احساس یا بصیرت حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہوا میں اڑنے لگیں گے، یا پتھر میں اپنے پاؤں کا نشان بنا سکیں گے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر مجھ جیسے لوگ جو ساٹھ سے بھی زیادہ سال کے عرصہ سے عبادت کر رہے ہیں ان میں یہ سب صفات ہوتیں۔ یہ بھی نہ سوچیں کہ ایسی شعبدہ بازی میں کوئی کمال ہے۔ بعض ایسے لوگ ہیں جو توانائی کی ہواؤں اور سانس کی مشقوں کی بدولت ہوا میں معلّق ہو سکتے ہیں یا ہوا میں تیر سکتے ہیں۔ یہ کوئی بڑا کمال نہیں۔ البتہ دس تخریبی اعمال سے گریز ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔
تنتر کی تیاری میں تخریبی اعمال سے بچنے کی اہمیت
جب آتیشا کو تبت آنے کی دعوت دی گئی، تو روحانی بادشاہ جانگ-چوب-وو نے اس سےعلت و معلول پر درس دینے کی درخواست کی۔ بادشاہ نے کہا،"مہربانی فرما کر ہمیں تنتر پر گہرا، پیچیدہ درس مت دیں۔" اتیشا اس سے بہت خوش ہوا۔ در اصل تنتری تعلیمات کو حاصل کرنے اور بیعت کی رسموں میں شامل ہونے سے عمدہ جبلتیں پروان چڑھتی ہیں۔ اگر آپ کو موقع ملے تو یہ نہائت تعمیری کام ہے۔ اس کو کرنے کا موقع ملنا بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ اس پر عمل کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مختلف انواع کے تخریبی اعمال سے گریز کی ابتدائی درجہ کی مشقیں اچھی طرح کی جائیں۔ پھر اس بنیاد پر ترغیب کے وسیع تر درجات پر آگے بڑھا جاۓ، اور آخر کار بودھی چت کا وقف شدہ دل پیدا کیا جاۓ – ایک ایسا دل جو مکمل طور پر دوسروں میں غرق ہو، اور روشن ضمیری حاصل کرنے کی خاطر تا کہ اوروں کی مدد کی جا سکے۔ اگر اس بنیاد پر آپ تنتری عبادت میں حصہ لیتے ہیں تو روشن ضمیری پانے کا عمل موثّر اور تیز تر ہو جاتا ہے۔
تنتر، جو کہ من کی حفاظت کے پوشیدہ طریقے ہیں، ایک ایسی عبادت ہے جو نتائج سے وابستہ ہے۔ سوتر کی تعلیمات جو کہ عبادت کے عمومی عنوانات ہیں، اسباب کے متعلق ہیں۔ آپ کسی ایسے طریقہ کو اس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جس کا تعلق نتائج سے ہو جب تک کہ آپ اس طریقہ سے واقف نہ ہوں جو وجوہات سے وابسطہ ہے؛ آپ اسباب کے بنا نتائج اخذ نہیں کر سکتے۔ اگر اسباب کے طریقہ سے شروع کریں اور پھر اس طریقہ کو اختیار کریں جو نتائج سے متعلق ہے تو یہ ہیرے کی مانند مضبوط تنتری عبادت روشن ضمیری حاصل کرنے کا نہائت موثّر اور تیز تر طریقہ بن جاتی ہے۔
اگر آپ کو پتہ چلے کہ ان تنتری طریقوں سے بڑی سرعت سے روشن ضمیری ملتی ہے اور آپ عطا اختیار ہونے کی بدولت اس پر فوراً عمل پیرا ہو جائیں تو اس طرح اس سے کچھ حاصل کرنا نہائت مشکل ہو گا۔ مثال کے طور پر کوئی ہوائی جہاز فضا میں بڑی تیز پرواز کرتا ہے، مگر آپ اس پر پرواز کے عین بیچ سوار نہیں ہو سکتے۔ اس تیز رفتار جہاز پر سوار ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ تمام ابتدائی مراحل یعنی ٹکٹ کی خریداری، کسٹم سے پڑتال، ہوائی اڈے کی چلتی ہوئی گذرگاہ پر مسافت، سیڑھیاں، چھوٹی بس، پھر سیڑھیاں چڑھ کے ہوائی جہاز کے اندر دخول، وغیرہ، سے گذریں۔ آپ اس تک اس بتدریج انداز میں پہنچتے ہیں۔ اگر آپ روشن ضمیری کو لیجانے والی کسی تیز رفتار گاڑی پر سوار ہونا چاہتے ہیں تو اس پر سوار ہونے کے لئے ان ابتدائی منزلوں سے گذرنا ضروری ہے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ دس تخریبی اعمال کے ارتکاب سے گریز لازم ہے۔ اس جگہ سے اس تیز رفتار گاڑی تک آپ کی رسائی پختہ اور ہموار ہو گی۔
اگر منجوشری، چنرے زیگ اور مائیتریا کی یہ اشکال زندہ ہو جائیں اور آ کر آپ سے مخاطب ہوں تو وہ اس قسم کی تعلیم ہی دیں گے۔ اگر آپ نے پہلے سے اپنی تربیت اچھی طرح کی ہے اور بہت مشق کر رکھی ہے تو یہ تمام گہری ہدایات آپ کو دئیے جانے کے لئے تیار رکھی ہیں۔ اگر آپ تخریبی رویہ سے بچنے کے طریقے سیکھنے کی بنیاد پر اپنی اصلاح کا آغاز نہ کریں، تو نہ صرف آپ یہ تعلیمات منجوشری اور مائیتریا سے پا نہیں سکیں گے بلکہ ہم اُنہیں دیکھ بھی نہیں پائیں گے اور نہ ہی اُن کا کوئی معقول تصور ہو گا۔ اگر آپ ان کی خوب مشق کریں تو ایک وقت آۓ گا جب آپ سچ مچ ان عظیم ہستیوں سے براہ راست، رو برو، ملیں گے۔
تین بھائیوں کی ایک جوڑی تھی جو آتیشا اور اس کے چیلے ڈروم-تونپا کے پیروکار تھے۔ ان میں سے ایک کا نام پھوچونگوا تھا۔ وہ ہمیشہ بڑا گہرا مراقبہ کرتا تھا۔ اس نے بڑی لگن کے ساتھ پورے نو سال تک عبادت کی جس میں اس نے عام روز مرہ خوراک ترک کر دی۔ اس نے پہاڑوں میں گذر بسر کی جہاں وہ جانوروں کا فضلہ اکٹھا کرتا۔ اس فضلہ میں غیر ہضم شدہ تسمپا (جو کا دانہ) ہوتا تھا۔ وہ اسے پکا کر ایک پکوان تیار کرتا۔ ایک بار وہ اس محنت طلب عبادت کو چھوڑ کر لاشا جانے کو تیار ہوا تا کہ وہاں کے خاص مندروں کے عظیم اور مشہور بتوں کو دیکھے۔ جب وہ شہر میں داخل ہو رہا تھا تو اس نے دیکھا کہ اکیس تارا بھی اس کے ہمراہ ہیں۔ اس نے ان سے کہا،" میں ایک راہب ہوں، اور یہ آپ خواتین کو زیب نہیں دیتا کہ آپ میرے ساتھ شہر کو چلیں۔" انہوں نے اس سے کہا،" آپ فکر نہ کریں۔ آپ کے سوا کوئی اور ہمیں نہیں دیکھ سکتا۔" جب وہ لاشا پہنچا اور اس نے ان عظیم بتوں کو دیکھا، تو وہ سچ مچ اس سے ہمکلام ہوۓ۔
جب وہ پہلی بار اپنی پہاڑی والی پناہ گاہ میں گیا تو وہ سبزہ زاروں میں اُگنے والی گھاس کو اکٹھا کر کے بطور دھونی کے اسے جلاتا۔ زندگی کے اوائل میں اس قسم کی پُر خلوص دھونی کا دان دینے کی بدولت وہ زندگی کے بعد کے دور میں نہائت قیمتی جڑی بوٹیوں کو جلا کر ان کی خوشبو کا چڑھاوا چڑھانے کے قابل ہو گیا۔ لوبان کی ایک ڈنڈی کی قیمت تقریباً چھ سو ڈالر ہو گی۔
اعمال کی تیاری اور عمل درازی
کرم اور رویہ کی کئی درجہ بندیاں ہیں۔ بعض کاموں کی تیاری کی جاتی ہے اور پھر انہیں سرانجام بھی دیا جاتا ہے۔ بعض کی تیاری نہیں کی جاتی مگر انہیں پورا کیا جاتا ہے۔ بعض کی تیاری کی جاتی ہے مگر انہیں کیا نہیں جاتا۔ اور بعض ایسے بھی ہیں جن کی نہ تیاری ہوتی ہے اور نہ ہی ان پر عمل۔ ان نکات کو آپ لکھ لیں۔ یہ سیکھنے کی خاطر بڑی دلچسپ اور اہم باتیں ہیں، تا کہ اگلی بار جب کوئی استاد یہاں موجود ہو تو آپ اس سے مزید تفصیل مانگ سکیں۔ اس وقت ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں۔
نیتیں اور اعمال
یہ ممکن ہے کہ ارادہ بھرپور ہو مگر کام نامکمل رہے، نیت کمزور ہو مگر کام پورا ہو، یا نیت بھی کمزور اور کام بھی نامکمل، یا بھرپور نیت اور مکمل کام۔ اگر ممکن ہو تو آپ کا ارادہ اور فعل دونوں مکمل یا عمدہ ہونے چاہئیں۔ بھرپور نیت اور نامکمل کام کی ایک مثال یہ ہے جیسے آپ کسی کو کچھ سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ نہ سیکھے۔ اگرچہ آپ کی نیت اس شخص کی مدد کرنا ہے مگر آپ کا فعل اسے مارنا یا برا بھلا کہنا ہو سکتا ہے۔ کمزور نیت اور مکمل فعل کی مثال یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کسی کی توجہ ہٹا کر اسے کچھ کرنے سے باز رکھیں – مثلاً اسے کسی پکنک، سیروتفریح یا اور کسی دلپسند شغل میں لگا دیں تا کہ ان کا وقت یوں ضائع ہو اور وہ اپنا کام نہ کر پائیں۔ آپ کی نیت بری تھی مگر آپ کا فعل بھرپور تھا۔ ایسی صورتوں کی مثالیں دینا آسان ہے جہاں نیت اور فعل دونوں ہی بھرپور ہوں۔
نقصان دہ اور سود مند نتائج
چاراعمال کی ایک اور تقسیم یوں ہے: بعض اعمال ایسے ہیں جو بظاہر فائدہ مند ہیں مگر بالآخر نقصان دہ؛ کچھ ایسے ہیں جو بظاہر نقصان دہ مگر با لآخر سود مند؛ بعض ایسے ہیں جو بظاہر اور بالآخر دونوں حالتوں میں سود مند؛ اور کچھ ایسے جو بظاہر اور بالآخر دونوں صورتوں میں نقصان دہ۔ جو کام بظاہر اور بالآخر دونوں صورتوں میں سود مند ہے وہ آپ کو کرنا چاہئے۔ اگر کوئی کام بظاہر نقصان دہ مگر بالآخر فائدہ مند ہے تو اسے بھی آپ کو کرنا چاہئے۔ اگر کوئی کام شروع میں تو فائدہ مند ہے مگر بالآخر نقصان دہ تو اسے نہ کرنا بہتر ہے۔ اگر کوئی کام فی الحال اور بالآخر دونوں صورتوں میں نقصان دہ ہے تو آپ اسے قطعاً نہ کریں۔ آپ سب کافی ذہین ہیں اور ان باتوں کو فوراً سمجھ سکتے ہیں۔
عمل کے چار اصول
اعمال کی ایک اور چار سطحی تقسیم ہے: اعمال پر یقین کامل؛ اعمال کی افزائش اور ان کے نتائج؛ اگر آپ سے کوئی فعل سرزد نہیں ہوا تو آپ اس کے نتائج سے بے نیاز ہیں؛ اور اگر آپ نے کوئی قدم اٹھایا ہے تو یہ رائگاں نہیں جاۓ گا، اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا۔
یقین کا پہلو یہ ہے کہ اگر آپ نے کوئی تعمیری کام کیا ہے تو نتیجہ یقیناً خوشگوار ہو گا۔ اور اگر آپ نے کوئی منفی یا تخریبی کام کیا ہے تو نتیجہ یقیناً دکھ، مسائل اور عدم مسرت ہو گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ چاول بوئں تو آپ کو مٹر نہیں ملتے۔ افزائش والے پہلو کی مثال یہ ہے کہ جب آپ مکئی کا ایک دانہ بوتے ہیں تو کیا ہوتا ہے: آپ کو ڈھیر ساری مکئی ملتی ہے۔ ایک چھوٹے سے مثبت فعل سے بہت ساری خوشی پھیل سکتی ہے۔ جبکہ ایک چھوٹے سے برے فعل سے بہت سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
یقین والے پہلو کی ایک مثال یہ ہے۔ لوگ ایک ستوپ تعمیر کر رہے تھے – ایک متبرک عمارت۔ ایک کارکن جو اس تعمیر میں حصہ لے رہا تھا اسے کام میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی اور وہ ہر وقت شکائت کرتا۔ جب ستوپ مکمل ہو گیا تو اس نے اسے دیکھ کر کہا،"بہر حال، یہ ایک عمدہ چیز ہے" اور وہ اس سے بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنی اجرت سے ایک خاص گھنٹی خریدی جو اس نے ستوپ کے اوپر لٹکانے کے لئے پیش کی۔ مہاتما بدھ کے دور میں وہ دوبارہ پیدا ہوا اور خوش لحن کے نام سے جانا گیا۔ اس کی آواز بہت خوبصورت تھی مگر جسم نہائت بدصورت، چھوٹا سا اور بے ڈھب۔ اس کی آواز اس قدر خوبصورت تھی کہ جب وہ گاتا تو گردونواح کے جانور بھی اسے سننے کے لئے رک جاتے۔ ایک بار مقامی بادشاہ مہاتما بدھ سے ملنے آیا۔ اس نے اس راہب کی دلکش آواز سنی اور اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مہاتما بدھ نے کہا، "تم اس سے نہ ہی ملو تو اچھا ہے۔" بادشاہ نے اصرار کیا تو مہاتما بدھ بادشاہ کو راہب کے پاس لے گیا۔ جب بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص کس قدر بدصورت اور بےڈھنگ ہے تو بادشاہ نے پوچھا کہ اس کی خوبصورت آواز اور بد صورت شریر کی کیا وجہ ہے، تو مہاتما بدھ نے اس کی گذشتہ زندگی کے حوالے سے وضاحت کی۔
افزائشی پہلو کی بھی چند ایک مثالیں ہیں۔ کسی شخص نے ایک راہب سے کہا، "تمہاری آواز بالکل کتے جیسی ہے۔" اس کے نتیجہ میں وہ خود پانچ سو بار کتے کی شکل میں پیدا ہوا۔ آپ کو اس بارے میں سخت احتیاط برتنی چاہئے کہ کسی کو گالی نہ دیں، یا ان سے بد سلوکی نہ کریں، کیونکہ زبان کی ایک ہی چُوک سے آپ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
مہاتما بدھ کے چیلوں میں ایک جو خاص طور پر اپنی حکمت کے لئے مشہور تھا اس کا نام شاری پترا تھا۔ اس سے کئی جنم قبل وہ بطور ڈاکیہ پیدا ہو چکا تھا۔ ایک بار اس نے ایک ایسے مندر میں رات بسر کی جس کی دیواروں پر مہاتما بدھوں کے بڑے بڑے نقش بنے ہوۓ تھے۔ جب اس نے اپنا جوتا مرمت کرنے کی خاطر دیا جلایا تو اسے یہ تمام تصاویر نظر آئیں – اس کے نتیجہ میں وہ یہ عظیم آگہی لیکر دوبارہ پیدا ہوا۔
کرم کے متعلق اگلی بات یہ ہے کہ اگر آپ نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ اس کے نتائج سے بھی دوچار نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر آپ نے کوئی کام کیا ہے تو جلد یا بدیر اس کے نتائج آپ کے سامنے آئیں گے۔ البتہ اگر آپ نے کوئی مثبت کام کیا ہے تو غصہ اس مثبت امکان کو زائل کر سکتا ہے جو آپ نے پیدا کیا ہے۔ اسی طرح اگر آپ نے کوئی برا کام کیا ہے تو اگر آپ خلوص دل سے اپنی غلطی کو تسلیم کریں اور چار متقابل قوتوں کو بروۓ کار لائیں تو آپ اس فعل کے منفی امکان سے نجات پا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو ہر صورت اپنے کئے کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ غصہ مکمل طور پر ہمارے پیدا شدہ مثبت امکان سے ملنے والی خوشی کی اہلیت کو مٹا سکتا ہے۔ یہ اس طرح ہوتا ہے جیسے آپ کوئی استعمال شدہ فلم ہوائی اڈہ کی ایکسرے مشین میں سے گذارتے ہیں، اور یہ مکمل طور پر فلم میں تصویروں کا صفایا کر دیتا ہے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ تسونمو سنگمو نامی ایک ملکہ اپنی خادماؤں کے ساتھ پکنک پر گئی۔ جہاں یہ لوگ پکنک منا رہے تھے اس کے قریب ہی ایک جھاڑی میں چھوٹے تیتروں کا گھونسلہ تھا۔ ملکہ اور اس کی خادماؤں نے محض تفریح کی خاطر اس جھاڑی کو جلا ڈالا جس سے تمام پرندے مر گئے۔ ان میں سے ایک خادمہ پانی لینے گئی ہوئی تھی لہٰذا وہ اس فعل میں شامل نہیں تھی۔ بعد میں مہاتما بدھ کے وقتوں میں وہ ملکہ مرد کی شکل میں دوبارہ پیدا ہوئی جس کا کام چوغے لینا تھا اور اس نے ارہت کا درجہ پایا جس کے ہاتھ میں کئی کرشمے تھے۔ وہ خادمہ بھی اسی دوران پیدا ہوئی اور وہ ایک راہب بنی مگر ارہت کا مقام نہ پا سکی۔ ان کے پچھلے اعمال کی وجہ سے جو امکان انہوں نے پیدا کئے تھے ایک روز اس گھر کو جس میں وہ مقیم تھے آگ لگ گئی۔ ارہت، جو کہ ملکہ ہوا کرتا تھا، کے گذشتہ اعمال کے کچھ منفی امکانات ابھی باقی تھے، اپنی معجزانہ قوت استعمال کر کے اُڑ کر بچ نکلنے سے قاصر رہا۔ وہ اس آگ میں جل کر مر گیا۔ یہ مثال اس امر کی ہے کہ اگر آپ نے کوئی امکان پیدا کیا ہے تو وہ ضائع نہیں جاۓ گا، اور آپ اس کے نتائج بھگتیں گے۔ وہ راہب جو کہ خادمہ رہ چکا تھا آگ سے ایک نالی کے راستے جس میں پانی بہ رہا تھا، بچ نکلا۔ یہ اس چیز کی مثال ہے کہ اگر آپ نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ اس کے نتائج سے بھی دوچار نہیں ہوں گے۔
سوال پیدا ہوتا ہے: یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ارہت کا منفی امکان ابھی بھی باقی ہو؟ اس بات کو اس امر کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم اپنی صفائی کی خاطر کس طرح مخالف قوتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اگر انہیں مکمل اور صحیح طور پر استعمال کیا جاۓ تو تمام منفی امکانات سے مکمل صفائی ممکن ہے۔ لیکن اگر یہ کام درست انداز میں نہ کیا جاۓ تو تھوڑے سے منفی امکان یا آلودگی کا پیچھے رہ جانا ممکن ہے۔
کرم کی تعلیمات کی سچائی پر یقین
یہ بڑا کام کا موضوع ہے، کرم، رویہ کے اصول اور اس کے نتائج۔ آپ اس کے متعلق مزید مطالعہ ایک سوتر جسے "عقلمندوں اور بیوقوفوں کا سوتر" کہتے ہیں میں کر سکتے ہیں۔ اس کتاب میں بیشتر قصے خاصے دلچسپ ہیں۔ آپ کو صحیفوں کی معتبری کی بنیاد پر علت و معلول جیسی باتوں میں یقین پیدا ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے آپ خالص منطق کے ذریعہ ثابت کر سکیں۔
اگر آپ یہ سوال کریں کہ ہم کیسے مہاتما بدھ کی صحیفوں کے متعلق صحت کا اعتبار کریں، تو اس کی بنیاد اس سوچ پر ہے کہ مہاتما بدھ نے خالی پن اور حقیقت کے متعلق کیا کہا۔ وہ تعلیمات درست ہیں۔ اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ ہر اس بات کو جو انہوں نے کہی منطقی انداز سے ثابت کر سکتے ہیں۔ اگر آپ منطق کی بنیاد پر، مہاتما بدھ نے جو حقیقت کے متعلق کہا، اس کی سچائی پر اعتماد کے ساتھ یقین کر سکتے ہیں، تو اسی طرح آپ اس کی سچائی پر بھی جو انہوں نے علت و معلول کے متعلق کہا، پورے اعتماد کے ساتھ یقین کر سکتے ہیں۔
اگر آپ مہاتما بدھ کی نصیحت پر عمل کریں: ایک مہربان اور حساس دل پیدا کریں، اپنے دل کو دوسروں کے لئے اور روشن ضمیری کے لئے وقف کر دیں، اور بودھی چت پیدا کریں، تو پھر آپ کے سب کام سیدھے ہو جائیں گے۔ اگر آپ اس پر غور کریں جو مہاتما بدھ نے خالی پن کے متعلق کہا، اور آپ منطق کے تمام اصولوں کا اطلاق کریں، تو آپ یہ دیکھیں گے کہ منطق کی رو سے یہ عین منطقی اور درست ہے۔ اس بنیاد پر آپ مہاتما بدھ کی بتائی ہوئی اور باتوں کا بھی یقین کر سکتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ یہ طریقہ اختیار نہ کریں تو مہاتما بدھ کی کہی باتوں پر اعتماد کے ساتھ یقین مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ "عقلمندوں اور بیوقوفوں کا سوتر" جیسی چیزیں پڑھیں تو آپ سوچیں گے کہ یہ محض من گھڑت قصے کہانیاں ہیں۔ کرم کے قوانین، اور رویہ اور اس کے اثرات کے قوانین پر یقین نہائت اہم ہے۔
پناہ گزینی – مہاتما بدھوں
جب آپ پناہ لیتے ہیں تو سب سے اہم بات رویہ اور اس کے اثرات کے قوانین کی مشق اور ان کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں یعنی جب آپ ایک محفوظ راہ پر زندگی کو ڈال دیتے ہیں۔ دراصل پناہ لینے کی خاطر آپ کے پاس کوئی ذرائع ہونے چاہئیں جو آپ کو وہ محفوظ راہ دکھا سکیں ۔ محفوظ راہ کے تین ذرائع ہیں۔ وہ کونسے ہیں؟
مہاتما بدھ، دھرم اور سنگھا۔
ایک مہاتما بدھ کیا ہے؟
مجھے نہیں معلوم۔
رنپوچے: ایک مہاتما بدھ ایک ایسی ہستی ہے جس کا من بالکل صاف ہو اور وہ ارتقا کی تمام منزلیں طے کر چکا ہو۔ تبتی زبان میں مہاتما بدھ کے لئے جو لفظ استعمال ہوتا ہے، 'صاف من' اس کا پہلا رکنِ کلمہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے اپنے من کو تمام پریشانیوں اور پریشان کن رویوں سے پاک کر لیا ہے۔ 'مکمل طور پر ترقی یافتہ' دوسرا رکنِ کلمہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس نے تمام عمدہ صفات حاصل کر لی ہیں اور ہر شے کی مکمل آگہی پا لی ہے تو یوں وہ حد درجہ ترقی یافتہ ہے۔
مہاتما بدھوں کا دنیا میں ظہور
شروع میں مہاتما بدھ مکمل طور پر اپنے دل تمام محدود لوگوں کے مفاد کی خاطر وقف کرتے تھے۔ وہ ایسا کرنے کی خاطر اپنے من کی صفائی اور مکمل ترقی یافتگی کا مصمم ارادہ کر تے۔ اس طرح انہوں نے بودھی چت کا وقف شدہ دل استوار کیا۔ نہ صرف انہوں نے اپنے دل اس انداز میں وقف کئے بلکہ انہوں نے تین زیلین ای اون (یعنی ایک غیر معیّنہ مدت) تک مثبت امکان پیدا کرنے کی کوشش کی جو انہیں اس مقام تک پہنچا سکے۔
ایک ای اون (ایک ہزار ملین) کے شروع میں انسانوں کی زندگی کی طوالت لا تعداد سال تھی۔ تبتی زبان میں اس کے لئے لفظ "لاتعداد" ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لا محدود ہے؛ اس کی کوئی حد ہے مگر گنتی میں نہیں آتا۔ ہر سو سال بعد زندگی ایک سال کم ہو جاتی ہے، حتیٰ کہ زندگی دس سال کی رہ جاتی ہے۔ پھر اس میں ہر سو سال میں ایک سال کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ زندگی کی طوالت اسّی ہزار سال تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر دوبارہ کم ہو کر دس سال ہو جاتی ہے۔ یہ اتار چڑھاؤ اٹھارہ بار واقع ہوتا ہے جس سے ایک درمیانہ ای اون بنتا ہے۔ یہ جب ان مرحلوں سے گذرتا ہے تو اسے بیس درمیانے ای اون کہتے ہیں جب عالم پر سکوت طاری ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر بیس درمیانے ای اون کا ایک دور گذرتا ہے جو کہ تباہی کا ای اون کہلاتا ہے جس میں کائنات تباہ ہو جاتی ہے یا ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے۔ ایسا جب ہوتا ہے تو سات سورج نکلتے ہیں جو سات دن تک دمکتے ہیں اور دنیا کی ہر شے کو خاک کر دیتے ہیں۔ پھر بیس درمیانہ ای اون کا ایک اور دور آتا ہے جس میں کائنات خالی ہے، جس کے بعد بیس درمیانہ ای اون کا ایک اور دور آتا ہے جس میں ایک کائنات تشکیل پانا شروع ہوتی ہے جو ہوا منڈل یعنی غیر مرئی مادوں کے حلقہ سے شروع ہوتا ہے۔ یہ سارا سلسلہ اسّی درمیانہ ای اون پر محیط ہے جو کہ ایک بہت بڑے ای اون کے برابر ہے۔ اگر آپ اسے ایک زیلین سے ضرب دیں تو ایک زیلین عظیم ای اون بنتے ہیں۔ مہاتما بدھ نے مکمل طور پر من کی صفائی اور ترقی یافتگی کی خاطر ایسے تین ادوار میں مثبت امکان پیدا کئے۔
جب کوئی مہاتما بدھ سچ مچ کائنات میں آتا ہے تو اندھیرے اور روشنی کے بہت بڑے ای اون گذرتے ہیں۔ موجودہ عظیم ای اون جس میں ہم رہ رہے ہیں یہ روشنی کا ای اون ہے جسے "خوش قسمت ای اون" کہتے ہیں۔ اس خوش قسمت ای اون میں ایک ہزار مہاتما بدھ بطور علمی اساتذہ کے آئیں گے۔ پہلے تین عالمی معلّم مہاتما بدھ اس وقت آۓ جب انسانی زندگی کی طوالت ساٹھ ہزار، چالیس ہزار اور بیس ہزار سال تھی۔ میں ان اعداد کے بارے میں پر وثوق نہیں ہوں، مجھے کسی تحریر میں دیکھنا پڑے گا۔ تو اب جب کہ زندگی کی طوالت ایک سو سال کو پہنچی تو چوتھا عالمی استاد دنیا میں ظہور پذیر ہوا جس کا نام شاکیہمُنی مہاتما بدھ ہے۔ یہ ایسا دور تھا جب زندگی کی طوالت کم ہو رہی تھی۔
جب زندگی کی طوالت دس سے بڑھ کر واپس اسّی ہزار ہو رہی ہو گی تو ایسے عالمی بادشاہ نمودار ہوں گے جو اختیار سے مالا مال ہوں گے، یعنی چکرورتی شہنشاہ۔ ان عالمی بادشاہوں کی چار قسمیں ہیں: ان کے پاس بتدریج سنہرا، چاندی کا، تانبے یا لوہے جیسا اختیار ہو گا۔ جب مہاتما بدھ آۓ تو بعض لوگوں کی عمریں سو سال تک تھیں۔ اب شاذونادر ہی کوئی سو سے اوپر جاتا ہے۔ اب عمریں آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہیں۔ آخر کار یہ دس سال تک پہنچ جاۓ گی۔ اور پھر آہستہ آہستہ ایک طویل عرصہ میں زندگی لمبی ہو جاۓ گی۔ جب یہ اسّی ہزار کو پہنچے گی تو مائیتریا مہاتما بدھ کا ظہور ہو گا۔
مہاتما بدھ کے شریر کی صفات
ہم شاکیہمُنی اور مائیتریا کو بطور مکمل طور پر صاف من اور ترقی یافتہ مہاتما بدھوں کے پہچان سکتے ہیں۔ مہاتما بدھوں کے مختلف نوع کے اجسام ہوتے ہیں۔ ایک جسم ایسا ہوتا ہے جسے گہری آگہی حاصل ہے اور اس کے اندر ہر شے سمائی ہوئی ہے (جنانا دھرم کایا)۔ مہاتما بدھ کے جسم کی کئی صورتیں ہیں (روپا کایا)۔ ان میں مکمل استعمال کے شریر (سمبھوگا کایا) اور ظہور پذیر شریر (نرمانا کایا) شامل ہیں۔ ایسے جسم جنہیں گہری آگہی ہو اور ان کے اندر ہر شے سموئی ہوئی ہو اس کا علم مہاتما بدھوں کو ہی ہوتا ہے کہ ان کے درمیان کس کا شریر ایسا ہے۔ صرف آریہ بودھی ستوا اور ان سے اوپر ہستیوں کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ واقعی پورے استعمال کے اجسام کو پہچان سکیں۔ اس سے کم کمال والا انہیں نہیں دیکھ سکتا۔
جہاں تک ظہور پذیر اجسام یا نرمانا کے کا تعلق ہے ، ایک عظیم ترین ظہور پذیر جسم ہوتا ہے، ایک ظہور پذیر جسم بطور فنکار کے، اور ایک بطور انسان کے۔ عظیم ترین جسم وہ ہے جسے عام لوگ دیکھ سکیں، اس سے مل سکیں۔ اگرچہ عام لوگ کسی عظیم ترین ظہور پذیر جسم کو دیکھ توسکتے ہیں مگر اسے سچ مچ دیکھنے کے لئے ان کا کرم بالکل خالص اور اعمال اور امکانات پاک صاف ہونے چاہئیں۔ وگرنہ ہم جیسے عام لوگ ایک ظہور پذیر جسم کو، جس کی بتیس بڑی علامات اور اسّی مثالی نمایاں اوصاف ہیں، دیکھ نہیں پائیں گے۔ کیونکہ ایک بالا ترین ظہور پذیر جسم پہلے ہی حتمی نجات پانے کے طریق کا مظاہرہ کر چکا ہے، پہلے ہی پرینروان کا مظاہرہ کر چکا ہے، اس لئے ہمارے دیکھنے لائق کچھ نہیں بچا۔
عظیم ترین ظہور پذیر اجسام کے سروں کے اوپر تاج کا ابھار (اُشنیش) ہوتا ہے۔ ان کی ہتھیلی پر دھرم چکر کا نقش نمایاں ہوتا ہے۔ ان کے کندھے شیر کی مانند ابھرے ہوۓ ہوتے ہیں۔ آج کل وردی میں ملبوس افسران کے کندھوں پر شانہ زیب پٹیاں ہوتی ہیں، ہیں نا؟ شائد وہ بالا ترین ظہور پذیر شریر ہیں، کون جانتا ہے؟ ان کے ناخن تانبے کے رنگ جیسے ہوتے ہیں، جو کہ انہوں نے ناخن رنگ لگا کر نہیں بناۓ۔ ان کے ہونٹ بغیر کسی لپ سٹک کے نہائت سرخ ہوتے ہیں۔ ان کی بھنووں کے بیچ سفید بالوں کی کنڈلی ہوتی ہے جسے اگر کھینچا جاۓ تو یہ اکھڑنے کی بجاۓ لمبی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اگر آپ اعلیٰ تحریروں کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان چھوٹی بڑی نشانیوں کے متعلق پتہ چلے گا۔ مزید بر آں، ان کا جسم روشنی کے ایک حلقے میں پوری طرح گھرا ہوتا ہے۔ یہ ایسی روشنی ہے جو تمام روشنیوں سے زیادہ تابناک ہے، خواہ یہ کتنے ہی فاصلے پر ہو۔ مثال کے طور پر، دیوتاؤں کے گرد بھی حلقہ ہوتا ہے اور وہ بہت چمکدار ہوتے ہیں، مگر کسی مہاتما بدھ کے مقابل وہ یوں ہی ہیں جیسے کسی بڑے فاسفورس لیمپ کے سامنے موم بتیاں۔
مہاتما بدھ کی گفتار کی صفات
جہاں تک کسی مہاتما بدھ کی روشن ضمیر گفتار کا تعلق ہے تو اس کی ساٹھ خاص صفات ہیں۔ مثال کے طور پر جب کوئی مہاتما بدھ بات کرتا ہے تو سامنے والے قریب لوگوں کو اس کی آواز بہت اونچی محسوس نہیں ہوتی، اور نہ ہی پیچھے والوں کو بہت ہلکی۔ سب کو یہ آواز ایک جیسی سنائی دیتی ہے۔ اسی طرح اگر مختلف ممالک سے آۓ لوگوں کا بہت بڑا مجمع ہو تو مہاتما بدھ صرف ایک زبان میں بات کرتا ہے اور ہر کوئی اس کی بات اپنی اپنی زبان میں سمجھ لیتا ہے۔ اسے مترجموں کی ضرورت نہیں پڑتی۔
مہاتما بدھ کے من کی صفات
جہاں تک کسی مہاتما بدھ کے روشن ضمیر من کا تعلق ہے، تو اس کی فہم اور آگہی کی اکیس قسمیں ہیں جن کا کسی بھی الجھن سے دور کا بھی واسطہ نہیں (آلائش سے پاک حکمت)۔ یہ بڑا تفصیلی موضوع ہے۔ ان میں سے ایک قسم کا تعلق ان سینتیس عناصر سے ہے جو مصفّا حالت کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اٹھارہ صفات اور ہیں جو نچلے درجہ کے ارہت کے ساتھ نہیں بانٹی جاتیں۔ اکیس قسمیں ایسی ہیں جن کے مختلف چھوٹے حصے ہیں۔
یہ سب صفات، جیسے کسی مہاتما بدھ کے نمایاں خدوخال، تین زیلین ای اون سے زیادہ عرصہ کے اندر پیدا کئے گئے زبردست مثبت امکان کا نتیجہ ہیں۔ اگر کسی عظیم مرتبہ مہاتما بدھ کا ظہور پذیر شریر ہمارے سامنے آ جاۓ تو ہم اسے دیکھ نہیں پائیں گے کیونکہ ہمارے پاس نہ تو خالص کرم ہیں، اور نہ ہی خالص امکانات۔ جہاں تک ان عظیم ترین ظہور پذیر اجسام کا بطور انسان کے تعلق ہے، تو انہیں ہم دیکھ بھی سکتے ہیں اور ان سے مل بھی سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے درمیان تقدس مآب دلائی لاما ہیں، جن کا نام آوالوکیت-ایشور ہے۔ وہ انسان کی شکل میں ایک مہاتما بدھ کا ظہور پذیر خاکستر ہیں۔ ایسا بھی ہے کہ جب تقدس مآب راج سنگھاسن پر براجمان تھے تو کچھ گیشے انہیں دیکھنے سے محروم رہے۔ یہ ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ ہم نے انہیں دیکھا۔
ظہور پذیر شریر بطور ایک فنکار کی ایک مثال یہ ہے۔ آسمانی موسیقاروں کا ایک بادشاہ تھا جو اپنے آپ کو کائنات کا بہترین موسیقار خیال کرتا تھا۔ وہ بہت مغرور اور بد دماغ تھا۔ وہ جو بربط بجاتا تھا اس کے ایک ہزار تار تھے۔ مہاتما بدھ ایک کلا کار، ایک موسیقار کی شکل میں نمودار ہوۓ اور بادشاہ کو موسیقی کے مقابلہ کی دعوت دی۔ وہ اپنے اپنے بربط سے ایک ایک کر کے تار نکالتے چلے جاتے، یہ دیکھنے کے لئے کہ کون دیر تک بجا سکتا ہے۔ آخر کار دونوں کا ایک ایک تار رہ گیا۔ اس پر مہاتما بدھ نے آخری تار بھی نکال دیا اور اس کے باوجود خوبصورت دھن بجاتے رہے۔ جب بادشاہ نے اپنا آخری تار نکالا تو وہ کوئی بھی دھن بجانے سے قاصر رہا، تو یوں اس کا غرور ٹوٹا۔ یہ ظہور پذیر شریر بطور فنکار کی ایک مثال ہے۔
مہاتما بدھ جوہر
جب ہم مہاتما بدھ میں پناہ لینے کا سوچتے ہیں، تو ہمیں ایک ایسی ہستی کا تصور کرنا چاہئے جو ان اجسام کی مانند پوری طرح ترقی یافتہ ہو۔ ہماری عبادت کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ مہاتما بدھ کی تمام تشبیہات کو، جیسا کہ یہاں یہ تصویریں اور نقش کاری ہے، سچ مچ مہاتما بدھ ہی تصور کرنا چاہئے۔ عبادت میں من کے پانچ اصل راستے ہیں۔ پہلے کا نام من کا مجتمع راستہ ہے۔ اس کے تین درجات ہیں: چھوٹا، درمیانہ اور بڑا۔ جب آپ من کی بڑی مجتمع راہ پا لیں تو آپ مہاتما بدھ کی ان مختلف تشبیہات سے تعلیمات سن سکیں گے اور سیکھ سکیں گے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جب ہم مہاتما بدھ کی ان مختلف تصویروں اور تشبیہوں سے ہمکنار ہوتے ہیں، اور اگر ہم یہ کام مناسب انداز میں کریں تو ایسا کرنا کسی مہاتما بدھ کو واقعتاً ملنے سے زیادہ فائدہ مند ہے۔ لہٰذا ہمیں اشد احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ اب مہاتما بدھ اور دوسری روشن ضمیر ہستیوں کی چھَپی ہوئی تصاویر سب جگہ مل جاتی ہیں، اخباروں وغیرہ میں۔ اور اگر ہم مہاتما بدھ کی ان تشبیہات کے متعلق عزت و احترام سے کام نہ لیں تو مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
دھرم جوہر
دھرم جوہر سے مراد کسی مہاتما بدھ کے روشن ضمیر من کی صفات ہیں۔ یہ دھرم کی اصل پناہ گاہ ہے۔ جب ہم عبادت میں مصروف ہوں تو ہمیں تمام صحیفوں کی تحریر کو دھرم کا اصل جوہر ماننا چاہئے۔ یہ بات اہم ہے کہ ان تمام الفاظ اور تحریروں کو، خواہ وہ کسی بھی رسم الخط میں ہوں، جن میں دھرم کے متعلق لکھا جا سکتا ہے، احترام سے دیکھا جاۓ۔ اخبار میں کوڑا کرکٹ نہ لپیٹیں۔ یہ بہت بری اور بے حرمتی کی بات ہے۔ چھَپی ہوئی تحریروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔
اسی طرح اگر آپ کے پاس دھرم کی کوئی غیر مجلّد تحریر ہے اور اگر تیز ہوا چلنے لگے، تو اوراق کو اڑنے سے بچانے کی خاطر ان پر تسبیح رکھ دینا جائز ہو گا۔ لیکن ویسے کتب کے اوپر کوئی شے نہ رکھیں۔ اسی طرح جب آپ صفحہ پلٹیں تو انگلی کو منہ میں ڈال کر گیلا نہ کریں۔ اس کے بجاۓ، اگر آپ کو صفحات پلٹنے کے لئے انگلی کو گیلا کرنا ہی ہے تو اپنے پاس ایک طرف صاف پانی کا چھوٹا سا پیالہ رکھ لیں اور اس میں انگلی کو ڈبوئیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کتابوں پر غلاف چڑھا کر رکھیں تا کہ وہ ننگی جگہوں کو نہ چھوئیں۔ اسی طرح کتابوں پر پاؤں نہ رکھیں اور نہ ہی ان کے اوپر سے کود کر گذریں۔ کتابوں کو شیلف میں بتوں پر یا بتوں کے اوپر رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر کتابوں پر یا ان کے اوپر بتوں کو نہ رکھیں۔
سنگھا جوہر
مضبوط ارادے والی جماعت (سنگھا) کا جوہر کوئی ایسی باریاب ہستی یا آریہ ہے جسے خالی پن یا حقیقت کی ٹھوس پہچان ہے۔ عموماً چار پوری طرح سرفراز راہبوں کے ملنے سے سنگھا بنتا ہے۔ ایک، دو یا تین سے نہیں۔ جب ہم عبادت کر رہے ہوں، اور اگر کسی نے بدھ متی سلسلہ کا چوغہ پہن رکھا ہو تو ہمیں جاننا چاہئے کہ وہ شخص اصلی سنگھا ہے۔
مہاتما بدھ کا جوہر وہ شخص ہے جو در حقیقت تعلیمات دیتا ہے اور زندگی کی محفوظ سمت کی جانب راہنمائی کرتا ہے۔ دھرم کا جوہر محفوظ سمت کا سوتا ہے، یہ اصل پناہ گاہ ہے؛ جب آپ یہ تمام روحانی اقدام اٹھائیں، اس سے واقعی زندگی میں محفوظ اور مضبوط سمت کا تعیّن ہوتا ہے۔ سنگھا کا جوہر وہ لوگ ہیں جو آپ کی مدد کرتے ہیں اور زندگی کو ایک مضبوط راہ پر چلانے میں آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر میں ایک واقعہ بیان کروں تو بات آسانی سے سمجھ میں آ جاۓ گی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دیوتاؤں کا ایک ستیرامتی نامی بچہ تھا۔ وہ جنت میں تینتیس خداؤں کا دیوتا تھا۔ وہاں ہر شے نہائت خوبصورت ہے۔ ہر چیز قیمتی ہیرے جواہر سے بنی ہوئی ہے۔ وہاں کوئی مٹی یا آلائش نہیں۔ یہ جگہ بے داغ ہے۔ اس دیوتا کی زندگی نہائت خوشگوار تھی اور اسے کبھی کسی دکھ یا پریشانی سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ جب وہ قریب المرگ ہوا تو جو پھولوں کے ہار اس نے پہن رکھے تھے وہ مرجھا کر مر گئے، اور اس کے جسم سے نہائت ناگوار بو آنے لگی۔ اس کے تمام دیوتا دوست اس سے دور رہنے لگے۔ اس کے صرف ان ہی دوستوں کا اس سے واسطہ رہا جو مستقل مزاج اور ثابت قدم تھے۔ وہ بس تھوڑی دور کھڑے اس کو دیکھتے۔ اس دیوتا میں یہ دیکھنے کی اہلیت تھی کہ اس کے تمام مثبت امکانات ختم ہو چکے تھے، اور اب وہ اپنے منفی امکانات کی بدولت پنر جنم کی بدترین شکلوں میں سے کسی ایک میں پیدا ہونے والا ہے۔ اس نے دیکھا کہ نہ صرف اس کا پنر جنم نہائت بری حالت میں ہو گا بلکہ اس کے بعد وہ پھر ایک سؤر کی شکل میں پیدا ہو گا۔ اس خیال سے اس کے من کو شدید کوفت ہوئی۔ ایسی تکلیف جو کسی دیوتا کو پہنچتی ہے اس سے بڑھ کر اور کوئی من کی تکلیف نہیں۔
وہ دیوتاؤں کے بادشاہ اندر کے پاس گیا اور اس سے مدد کی درخواست کی، کہ اسے کوئی طریقہ بتاۓ جس سے وہ اس تقدیر کے لکھے سے بچ سکے۔ اندر نے کہا، " مجھے افسوس ہے؛ میں اس سے بچنے کا کوئی طریقہ نہیں جانتا۔ مگر میں تمہیں مہاتما بدھ کے پاس لے چلتا ہوں۔ وہ بہترین طریقے جانتا ہے۔" وہ مہاتما بدھ کے پاس گیا اور مہاتما بدھ نے اسے دیوی یا ذاتی دیوی جس کا نام اُشنیشا وجایا تھا، کی ہدایات دیں۔ وہ تین لمبی عمر والی دیویوں میں سے ایک ہے۔ اس کا جسم گورے رنگ کا ہے اور اس کے تین چہرے اور آٹھ بازو ہیں۔ اس نے سب عبادتیں کیں۔ جب وہ مرا تو نہ صرف یہ کہ وہ پنر جنم کی ان بدترین شکلوں میں پیدا ہونے سے بچ گیا بلکہ وہ پہلے سے بھی اونچی جنت میں دوبارہ پیدا ہوا جس کا نام توشیتا، خوشی کی جنت ہے۔ اندر اسے دیکھنے سے قاصر رہا کیونکہ اندر صرف انہی جنتوں کو دیکھ سکتا ہے جو اس کے برابر یا نیچی سطح پر ہوں۔ جب اس نے مہاتما بدھ سے پوچھا کہ اس دیوتا کا پنر جنم کہاں ہوا تو مہاتما بدھ نے اسے بتایا کہ توشیتا جنت میں۔
اس واقعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ مہاتما بدھ ہی اصلی معلّم ہے، جس نے محفوظ راہ کی جانب راہنمائی کی۔ جس چیز نے محفوظ راہ مہیا کی وہ عبادت تھی جو اس دیوتا نے کی، اُشنیشا وجایا والی۔ یہ دھرم جوہر کی مثال ہے۔ جس نے اسے یہ راہ پانے اور اس پر چلنے میں مدد کی وہ دیوتاؤں کا بادشاہ اندر تھا۔ پس وہ سنگھا جوہر کی ایک مثال ہے۔
اختتامیہ
اگر آپ من کی ایک عمدہ عادت استوار کرنے کی خاطر کسی چیز پر مراقبہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ تقدس مآب دلائی لاما کی موجودگی کو محسوس کریں، جو کہ تمام مہاتما بدھوں کی نمائیندگی کر رہے ہیں، اور ان سے کئی بار الہام کی التجا کریں۔ 'اوم منی پیمے ہنگ' کہیں اور ان سے روشنی وغیرہ پھوٹنے کا تصور کریں جو آپ کو منفی امکان سے پاک کر رہی ہے۔
جہاں تک عبادت کے عملی پہلوؤں کا تعلق ہے جنہیں آپ کو اپنے روزمرہ رویہ کا حصہ بنانے کی کوشش کرنا ہے، تو ان میں بڑے بڑے یہ ہیں کہ جب آپ صبح اٹھیں تو ایک مضبوط مثبت عزم قائم کریں:"آج میں ایک مثبت اور تعمیری انسان کا کردار ادا کروں گا اور میں ایسے کام کروں گا جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچے۔" دن کے آخر میں آپ تمام مثبت کاموں کا جو آپ نے کئے، جائزہ لیں اور اس سے پیدا شدہ امکان کو وقف کریں، سب کے بھلے کی خاطر، اپنے من کی صاف کیفیت پانے پر، اور مکمل ترقی یافتگی پر تا کہ سب کا بھلا کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔ یہ پناہ حاصل کرنے کا سارا معاملہ نہائت اہم ہے۔ کل میں آپ کو اس کے بارے میں مزید کچھ بتاؤں گا۔
آج میں نے جو کچھ کہا اس پر آپ کا کوئی سوال ہے؟
'دھرم کایا' کیا چیز ہے؟
رنپوچے: 'دھرم کایا' کسی مہاتما بدھ کا سروشتہ من ہے جو ہر چیز کا احاطہ کئے ہوۓ ہے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا، گہری آگہی جو کسی الجھن سے تعلق رکھتی ہے اس کی اکیس خاص قسمیں ہیں۔ اس میں دس طاقتیں، خوف سے آزادی کی چار کیفیتیں، وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ہم ان سب کی تفصیل میں جائیں تو اس پر بہت وقت لگے گا۔ یہ موضوع بہت وسیع و عریض ہے۔ مگر بطور ان کی مثالوں کے، وہ دس طاقتیں جو ایک مہاتما بدھ رکھتا ہے ان کی مثال یہ ہے، مختلف اعمال کے موافق اور نا موافق نتائج سے واقفیت، تمام اعمال کے نتائج کا علم، ان روحانی طریقوں کی پہچان جو ہر شخص کو اس کی روحانی منزل تک پہنچا دیں، وغیرہ۔
جہاں تک ان چار چیزوں کا تعلق ہے جن کا ایک مہاتما بدھ کو کوئی ڈر نہیں: اسے یہ بات کہنے کا کوئی ڈر نہیں کہ اس نے تمام خامیوں سے چھٹکارا پا لیا ہے، اس نے وہ تمام صفات اپنے اندر پیدا کر لی ہیں جو کی جا سکتی تھیں، وغیرہ۔ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ مہاتما بدھ کے سامنے لوگوں کی کتنی کثیر تعداد موجود ہے، وہ بغیر کسی خوف کے، پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے ہر چیز کا علم ہے۔ کپیلا نامی ایک برہمن گردو نواح کے تمام گاؤں میں گیا اور ہر ایک سے چاول کا ایک دانہ لیا اور ہر دانے پر کوئی خاص بات نوٹ کی۔ وہ چاولوں کا یہ بڑا ٹوکرہ لیکر مہاتما بدھ کے پاس پہنچا اور کہنے لگا، "آپ ہر بات جانتے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم ہے یہ چاول کہاں سے آۓ؟" مہاتما بدھ نے کہا، "ہاں۔" مہاتما بدھ نے ہر دانہ کے متعلق، جب اسے پکڑا گیا، بتایا کہ وہ کہاں سے آیا تھا، حتیٰ کہ پوری ٹوکری خالی ہو گئی۔
مہاتما بدھ کے زمانے میں بڑے بڑے درخت ہوتے تھے۔ ایک برہمن نے مہاتما بدھ کا امتحان لینا چاہا۔ وہ ایک درخت کے پاس گیا اور اس کے تمام پتے گن ڈالے۔ اس کام پر اسے تقریباً دو ماہ لگے۔ پھر وہ مہاتما بدھ کے پاس گیا اور کہنے لگا،"تم نہائت جانکار ہو۔ تم سب کچھ جانتے ہو۔ یہ تو بتاؤ اس درخت کے کتنے پتے ہیں؟" مہاتما بدھ نے فوراً اسے صحیح تعداد بتا دی۔
آپ کے لئے میرے من کی بات جاننا نہائت مشکل ہے، اور اسی طرح میرے لئے بھی یہ جاننا مشکل ہے کہ آپ کے من میں کیا ہے۔ مگر کسی مہاتما بدھ کے من کی بات جاننا ناممکن ہے، اور یہ کہ یہ کیسا ہے۔ حتیٰ کہ بودھی ستوا بھی جو دس درجہ کا من رکھتے ہیں جو کہ دس درجوں میں سب سے اونچا درجہ ہے، یہ نہیں بتا سکتے کہ مہاتما بدھ کا من کیسا ہے۔ اگر آپ جننادھرماکے، یعنی ایک مہاتما بدھ کا گہری آگہی والا شریر جو ہر شے کا احاطہ کئے ہوۓ ہے، کی مختلف صفات اور پہلوؤں کا واقعی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں تو آپ مائیتریا کی ایک تحریر جس کا نام "آگاہیوں کی ایک زردوزی" ہے پڑھیں۔ اس کے آٹھویں باب میں اس موضوع پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ اگر آپ مہاتما بدھ کی تمام صفات سے واقف نہیں تو اس کی ذات میں یقین کامل مشکل ہے۔ تبت کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔
تبت میں گاندن کا گدی نشین ہونا بہت بڑا رتبہ ہے۔ جو کوئی اس عہدہ پر فائز ہوتا ہے اسے بڑا قیمتی لاما سمجھتے ہیں۔ وہ جہاں بھی جاتا ہے اس کے اوپر سنہری رنگ کا چھاتا ہوتا ہے۔ میں نے رنپوچے سے پوچھا کہ کیا اس کے اوپر ایک چھتری ہوتی ہے، وہ جہاں کہیں بھی جاۓ۔ رنپوچے نے جواباً کہا کہ مجھے اتنا بھی احمق نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ جب وہ بیت الخلا جاتا ہے تو یقیناً چھتری لیکر نہیں جاتا۔ ایک روز ایک بڑھیا گاندن خانقاہ میں آئی، اور گاندن کا گدی نشین جلوس کی شکل میں اس کے پاس سے گذرا۔ ایک راہب جو اس کے پاس کھڑا تھا کہنے لگا،"دیکھو، وہ گاندن کا گدی نشین ہے۔" یہ خیال کرتے ہوۓ کہ گدی نشین وہ چھاتا ہے، اس نے احتراماً اپنی دونوں ہتھیلیاں آپس میں ملائیں اور کہنے لگی، "میں گاندن کے گدی نشین کے ہاں پناہ لیتی ہوں۔" جب جلوس گذر گیا تو وہ راہب سے یوں مخاطب ہوئی، "گاندن کے گدی نشین تلے جو راہب چل رہا تھا وہ کتنا پیارا بوڑھا راہب تھا، تھا نا؟"
تو ہمیں اس امر سے بخوبی واقف ہونا چاہئے کہ ایک مہاتما بدھ در اصل کیا ہوتا ہے۔ آج ہم یہیں ختم کرتے ہیں۔
[اس گفتگو کے بقیہ ایام کی ریکارڈنگ دستیاب نہیں۔]